باب : نماز عصر کے وقت کا بیان
حدیث نمبر : 544
حدثنا إبراهيم بن المنذر، قال حدثنا أنس بن عياض، عن هشام، عن أبيه، أن عائشة، قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي العصر والشمس لم تخرج من حجرتها. وقال أبو أسامة عن هشام من قعر حجرتها.
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن عیاض لیثی نے ہشام بن عروہ کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے اپنے والد سے کہ حضرت مائی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز ایسے وقت پڑھتے تھے کہ ان کے حجرہ میں سے ابھی دھوپ باہر نہیں نکلتی تھی۔
حدیث نمبر : 545
حدثنا قتيبة، قال حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى العصر والشمس في حجرتها، لم يظهر الفىء من حجرتها.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے ابن شہاب سے بیان کیا، انھوں نے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی تو دھوپ ان کے حجرہ ہی میں تھی۔ سایہ وہاں نہیں پھیلا تھا۔
حدیث نمبر : 546
حدثنا أبو نعيم، قال أخبرنا ابن عيينة، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي صلاة العصر والشمس طالعة في حجرتي لم يظهر الفىء بعد. وقال مالك ويحيى بن سعيد وشعيب وابن أبي حفصة والشمس قبل أن تظهر.
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ابن شہاب زہری سے بیان کیا، انھوں نے عروہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عصر کی نماز پڑھتے تو سورج ابھی میرے حجرے میں جھانکتا رہتا تھا۔ ابھی سایہ نہ پھیلا ہوتا تھا۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری ) کہتے ہیں کہ امام مالک اور یحییٰ بن سعید، شعیب رحمہم اللہ اور ابن ابی حفصہ کے روایتوں میں ( زہری سے ) والشمس قبل ان تظہر کے الفاظ ہیں، ( جن کا مطلب یہ ہے کہ دھوپ ابھی اوپر نہ چڑھی ہوتی )
حدیث نمبر : 547
حدثنا محمد بن مقاتل، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا عوف، عن سيار بن سلامة، قال دخلت أنا وأبي، على أبي برزة الأسلمي، فقال له أبي كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي المكتوبة فقال كان يصلي الهجير التي تدعونها الأولى حين تدحض الشمس، ويصلي العصر، ثم يرجع أحدنا إلى رحله في أقصى المدينة والشمس حية ـ ونسيت ما قال في المغرب ـ وكان يستحب أن يؤخر العشاء التي تدعونها العتمة، وكان يكره النوم قبلها والحديث بعدها، وكان ينفتل من صلاة الغداة حين يعرف الرجل جليسه، ويقرأ بالستين إلى المائة.
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انھوں نے کہا ہمیں عوف نے خبر دی سیار بن سلامہ سے، انھوں نے بیان کیا کہ میں اور میرے باپ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان سے میرے والد نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرض نمازیں کن وقتوں میں پڑھتے تھے۔ انھوں نے فرمایا کہ دوپہر کی نماز جسے تم “ پہلی نماز ” کہتے ہو سورج ڈھلنے کے بعد پڑھتے تھے۔ اور جب عصر پڑھتے اس کے بعد کوئی شخص مدینہ کے انتہائی کنارہ پر اپنے گھر واپس جاتا تو سورج اب بھی تیز ہوتا تھا۔ سیار نے کہا کہ مغرب کے وقت کے متعلق آپ نے جو کچھ کہا تھا وہ مجھے یاد نہیں رہا۔ اور عشاء کی نماز جسے تم “ عتمہ ” کہتے ہو اس میں دیر کو پسند فرماتے تھے اور اس سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے اور صبح کی نماز سے اس وقت فارغ ہو جاتے جب آدمی اپنے قریب بیٹھے ہوئے دوسرے شخص کو پہچان سکتا اور صبح کی نماز میں آپ ساٹھ سے سو تک آیتیں پڑھا کرتے تھے۔
تشریح : روایت مذکورمیں ظہر کی نماز کونماز اولیٰ اس لیے کہا گیا ہے کہ جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اوقات نماز کی تعلیم دینے کے لیے حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے تھے توانھوں نے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ظہر کی نماز ہی پڑھائی تھی۔ اس لیے راویان احادیث اوقات نماز کے بیان میں ظہر کی نماز ہی سے شروع کرتے ہیں۔ اس روایت اوردوسری روایات سے صاف ظاہر ہے کہ عصر کی نماز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اوّل وقت ایک مثل سایہ ہوجانے پر ہی ادا فرمایاکرتے تھے۔ اس حقیقت کے اظہار کے لیے ان روایات میں مختلف الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ بعض روایتوں میں اسے والشمس مرتفعۃ حیۃ سے تعبیر کیا گیاہے کہ ابھی سورج کافی بلند اورخوب تیز ہوا کرتا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کو یوں بیان فرمایاکہ “عصر کے وقت دھوپ میرے حجرہ ہی میں رہتی تھی۔” کسی روایت میں یوں مذکور ہواہے کہ “نماز عصر کے بعد لوگ اطراف مدینہ میں چار چار میل تک کا سفر کرجاتے اور پھر بھی سورج رہتا تھا۔” ان جملہ روایات کا واضح مطلب یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں عصر کی نماز اوّل وقت ایک مثل سایہ ہونے پر ادا کرلی جاتی تھی۔ اس لیے بھی کہ عصر ہی کی نماز صلوٰۃ الوسطیٰ ہے جس کی حفاظت کرنے کا اللہ نے خاص حکم صادر فرمایاہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے کہ
حافظوا علی الصلوٰت والصلوٰۃ الوسطیٰ وقوموا للہ قنتین ( البقرۃ: 238 ) یعنی نمازوں کی حفاظت کرو اوردرمیانی نماز کی خاص حفاظت کرو ( جوعصر کی نماز ہے ) اوراللہ کے لیے فرمانبرداربندے بن کر ( باوفا غلاموںکی طرح مؤدب ) کھڑے ہوجایاکرو۔
ان ہی احادیث وآیات کی بناپر عصر کا اول وقت ایک مثل سایہ ہونے پر مقرر ہواہے۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ودیگراکابرعلمائے اسلام اور ائمہ کرام کا یہی مسلک ہے۔ مگر محترم علمائے احناف عصر کی نماز کے لیے اول وقت کے قائل نہیں ہیں۔ اورمذکورہ احادیث کی تاویلات کرنے میں ان کو بڑی کاوش کرنی پڑی ہے۔
ولے تاویل شاں در حیرت انداخت
خدا و جبرئیل و مصطفی را
عجیب کاوش: یہ عجیب کاوش ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بیان پر جس میں ذکر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز ایسے اول وقت میں پڑھ لیا کرتے تھے کہ دھوپ میرے حجرہ سے باہر نہیں نکلتی تھی جس کا مطلب واضح ہے کہ سورج بہت کافی بلند ہوتا تھا۔ مگر بعض علمائے احناف نے عجیب بیان دیاہے جو یہ ہے کہ:
“ازواجِ مطہرات کے حجروں کی دیواریں بہت چھوٹی تھیں۔ اس لیے غروب سے پہلے کچھ نہ کچھ دھوپ حجرہ میں باقی رہتی تھی۔ اس لیے اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز عصر کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے حجرہ میں دھوپ رہتی تھی تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوسکتاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سویرے ہی پڑھ لیتے تھے۔” ( تفہیم البخاری،پ 3،ص: 18 )
حمایت مسلک کا خبط ایسا ہوتاہے کہ انسان قائل کے قول کی ایسی توجیہ کرجاتاہے، جو قائل کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتی۔ سوچنا یہاں یہ تھا کہ بیان کرنے والی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہیں، جن کا ہرلحاظ سے امت میں ایک خصوصی مقام ہے۔ ان کا اس بیان سے اصل منشاءکیاہے۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز عصر کا اوّل وقت ان لفظوں میں بیان فرمارہی ہیں یا آخر وقت کے لیے یہ بیان دے رہی ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بیان میں ادنیٰ غور وتامل سے ظاہر ہوجائے گا کہ ہمارے محترم صاحب تفہیم البخاری کی یہ کاوش بالکل غیرمفید ہے۔ اوراس بیان صدیقہ رضی اللہ عنہ سے صاف ظاہرہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بلاشک وشبہ عصر کی نماز اوّل وقت ہی میں پڑھ لیا کرتے تھے۔ جیساکہ حرمین شریفین کا معمول آج بھی دنیائے اسلام کے سامنے ہے۔ خودہمارے وطن کے ہزاروں حاجی حرمین شریفین ہرسال جاتے ہیں اوردیکھتے ہیں کہ وہاں عصرکی نماز کتنے اول وقت پر ادا کی جاتی ہے۔
صاحب تفہیم البخاری نے اس بیان سے ایک سطر قبل خود ہی اقرار فرمایا ہے۔ چنانچہ آپ کے الفاظ یہ ہیں:
“حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اوّل وقت ہی میں پڑھتے تھے۔” حوالہ مذکور
اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد کیا ضرورت تھی کہ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کے بیان کا سہارا لے کر حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا پر ایسی رکیک تاویل کی جائے کہ دیکھنے اورپڑھنے والوں کے لیے وجہ حیرت بن جائے۔ حجرات نبوی کی دیواریں چھوٹی ہوں یا بڑی اس سے بحث نہیں مگریہ تو ایک امر مسلمہ ہے کہ سورج جس قدر اونچا رہتاہے حجرات نبوی میں دھوپ باقی رہتی اورجوں جوں سورج غروب ہونے کو جاتا وہ دھوپ بھی حجروں سے باہر نکل جاتی تھی۔پھر دوسری روایات میں مزید وضاحت کے لیے یہ صریح الفاظ موجود ہیں کہ سورج بلند اورخوب روشن رہا کرتاتھا، ان الفاظ نے امام طحاوی کی پیش کردہ توجیہ کو ختم کرکے رکھ دیا۔ مگرواقعہ یہ ہے کہ تقلید شخصی کی بیماری سے سوچنے اور سمجھنے کی طاقت روبہ زوال ہوجاتی ہے اور یہاں بھی یہی ماجرا ہے۔
حدیث نمبر : 548
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، عن أنس بن مالك، قال كنا نصلي العصر ثم يخرج الإنسان إلى بني عمرو بن عوف فنجدهم يصلون العصر.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، وہ امام مالک رحمہ اللہ علیہ سے، انھوں نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے روایت کیا، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کو روایت کیا، انھوں نے فرمایا کہ ہم عصر کی نماز پڑھ چکتے اور اس کے بعد کوئی بنی عمرو بن عوف ( قبا ) کی مسجد میں جاتا تو ان کو وہاں عصر کی نماز پڑھتے ہوئے پاتا۔
حدیث نمبر : 549
حدثنا ابن مقاتل، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا أبو بكر بن عثمان بن سهل بن حنيف، قال سمعت أبا أمامة، يقول صلينا مع عمر بن عبد العزيز الظهر، ثم خرجنا حتى دخلنا على أنس بن مالك فوجدناه يصلي العصر فقلت يا عم، ما هذه الصلاة التي صليت قال العصر، وهذه صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم التي كنا نصلي معه.
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انھوں نے کہا ہمیں ابوبکر بن عثمان بن سہل بن حنیف نے خبر دی، انھوں نے کہا میں نے ابوامامہ ( سعد بن سہل ) سے سنا، وہ کہتے تھے کہ ہم نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ علیہ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی۔ پھر ہم نکل کر حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا آپ نماز پڑھ رہے ہیں۔ میں نے عرض کی کہ اے مکرم چچا! یہ کون سی نماز آپ نے پڑھی ہے۔ فرمایا کہ عصر کی اور اسی وقت ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی یہ نماز پڑھتے تھے۔
حدیث نمبر : 550
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال حدثني أنس بن مالك، قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي العصر والشمس مرتفعة حية، فيذهب الذاهب إلى العوالي فيأتيهم والشمس مرتفعة، وبعض العوالي من المدينة على أربعة أميال أو نحوه.
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا کہ کہا ہمیں شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے خبر دی، انھوں نے کہا کہ مجھ سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عصر کی نماز پڑھتے تو سورج بلند اور تیز روشن ہوتا تھا۔ پھر ایک شخص مدینہ کے بالائی علاقہ کی طرف جاتا وہاں پہنچنے کے بعد بھی سورج بلند رہتا تھا ( زہری نے کہا کہ ) مدینہ کے بالائی علاقہ کے بعض مقامات تقریباً چار میل پر یا کچھ ایسے ہی واقع ہیں۔
حدیث نمبر : 551
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن أنس بن مالك، قال كنا نصلي العصر ثم يذهب الذاهب منا إلى قباء، فيأتيهم والشمس مرتفعة.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے ابن شہاب زہری کے واسطہ سے خبر دی، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ آپ نے فرمایا ہم عصر کی نماز پڑھتے ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ) اس کے بعد کوئی شخص قبا جاتا اور جب وہاں پہنچ جاتا تو سورج ابھی بلند ہوتا تھا۔
تشریح : عوالی دیہات کو کہا گیاہے جو مدینہ کے اطراف میں بلندی پرواقع تھے۔ ان میں بعض چار میل بعض چھ میل، بعض آٹھ آٹھ میل کے فاصلے پر تھے۔ اس حدیث سے بھی صاف ظاہر ہے کہ عصر کی نماز کا وقت ایک مثل سائے سے شروع ہوجاتاہے۔ دومثل سایہ ہوجانے کے بعد یہ ممکن نہیں کہ آدمی چارچھ میل دور جاسکے اوردھوپ ابھی تک خوب تیز باقی رہے۔ اس لیے عصر کے لیے اول وقت ایک مثل سے شروع ہوجاتاہے۔ جو حضرات ایک مثل کا انکار کرتے ہیں وہ اگربنظر انصاف ان جملہ احادیث پر غور کریں گے تو ضرور اپنے خیال کو غلطی تسلیم کرنے پر مجبورہوجائیں گے۔ مگر نظرانصاف درکار ہے۔
اس حدیث کے ذیل میں علامہ شوکانی فرماتے ہیں:
وہودلیل لمذہب مالک والشافعی واحمد والجمہور من العترۃ وغیرہم القائلین بان اول وقت العصر اذا صار ظل کل شیئی مثلہ وفیہ رد لمذہب ابی حنیفۃ فانہ قال ان اول وقت العصر لا یدخل حتی یصیر ظل الشئی مثلیہ۔ ( نیل ) یعنی اس حدیث میں دلیل ہے کہ عصر کا اوّل وقت ایک مثل سایہ ہونے پر ہوجاتاہے اورامام مالک رحمۃ اللہ علیہ، احمد رحمۃ اللہ علیہ، شافعی رحمۃ اللہ علیہ اورجمہور عترت کا یہی مذہب ہے اوراس حدیث میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب کی تردید ہے جو سایہ دو مثل سے قبل عصر کا وقت نہیں مانتے۔