• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ کبھی ظہر کی نماز عصر کے وقت تک تاخیر کر کے پڑھی جا سکتی ہے

حدیث نمبر : 543
حدثنا أبو النعمان، قال حدثنا حماد ـ هو ابن زيد ـ عن عمرو بن دينار، عن جابر بن زيد، عن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى بالمدينة سبعا وثمانيا الظهر والعصر، والمغرب والعشاء‏.‏ فقال أيوب لعله في ليلة مطيرة‏.‏ قال عسى‏.‏
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا عمرو بن دینار سے۔ انھوں نے جابر بن زید سے، انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں رہ کر سات رکعات ( ایک ساتھ ) اور آٹھ رکعات ( ایک ساتھ ) پڑھیں۔ ظہر اور عصر ( کی آٹھ رکعات ) اور مغرب اور عشاء ( کی سات رکعات ) ایوب سختیانی نے جابر بن زید سے پوچھا شاید برسات کا موسم رہا ہو۔ جابر بن زید نے جواب دیا کہ غالباً ایسا ہی ہو گا۔

تشریح : ترمذی نے سعیدبن جبیرعن ابن عباس سے اس حدیث پر یہ باب منعقد کیا ہے باب ماجاءفی الجمع بن الصلوٰتین یعنی دو نمازوں کے جمع کرنے کا بیان۔ اس روایت میں یہ وضاحت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کو اورمغرب اور عشاءکو جمع فرمایا، ایسے حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ کوئی خوف لاحق تھا نہ بارش تھی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کی وجہ پوچھی گئی توانھوں نے بتلایاکہ اراد ان لاتحرج امتہ تاکہ آپ کی امت مشقت میں نہ ڈالی جائے۔ حضرت مولاناعبدالرحمن مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں: قال الحافظ فی الفتح وقد ذہب جماعۃ من الائمۃ الی اخذ بظاہر ہذالحدیث فجوزوا الجمع فی الحضر مطلقالکن بشرط ان لایتخذ ذلک عادۃ وممن قال بہ ابن سیرین وربیعۃ واشہب وابن المنذر والقفال الکبیر وحکاہ الخطابی عن جماعۃ من اہل الحدیث انتہیٰ۔ وذہب الجمہور الی ان الجمع بغیرعذر لایجوز۔ ( تحفۃ الاحوذی، ج 1،ص: 166 )

یعنی حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں کہا ہے کہ ائمہ کی ایک جماعت نے اس حدیث کے ظاہرہی پر فتویٰ دیاہے۔ اور حضر میں بھی مطلقاً انھوں نے جائز کہاہے کہ دونمازوں کو جمع کرلیاجائے اس شرط کے ساتھ کہ اسے عادت نہ بنالیا جائے۔ ابن سیرین، ربیعہ، اشہب، ابن منذر، قفال کبیر کا یہی فتویٰ ہے۔ اورخطابی نے اہل حدیث کی ایک جماعت سے یہی مسلک نقل کیاہے۔ مگرجمہور کہتے ہیں کہ بغیرعذر جمع کرنا جائز نہیں ہے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ اتنے اماموں کا اختلاف ہونے پر یہ نہیں کہا جاسکتاکہ جمع کرنا بالاجماع ناجائز ہے۔امام احمدبن حنبل اوراسحاق بن راہویہ نے مریض اورمسافر کے لیے ظہر اورعصر،اورمغرب اورعشاءمیں جمع کرنا مطلقاً جائز قراردیاہے۔ دلائل کی رو سے یہی مذہب قوی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نماز عصر کے وقت کا بیان

حدیث نمبر : 544
حدثنا إبراهيم بن المنذر، قال حدثنا أنس بن عياض، عن هشام، عن أبيه، أن عائشة، قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي العصر والشمس لم تخرج من حجرتها‏.‏ وقال أبو أسامة عن هشام من قعر حجرتها‏.‏
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن عیاض لیثی نے ہشام بن عروہ کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے اپنے والد سے کہ حضرت مائی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز ایسے وقت پڑھتے تھے کہ ان کے حجرہ میں سے ابھی دھوپ باہر نہیں نکلتی تھی۔

حدیث نمبر : 545
حدثنا قتيبة، قال حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى العصر والشمس في حجرتها، لم يظهر الفىء من حجرتها‏.‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے ابن شہاب سے بیان کیا، انھوں نے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی تو دھوپ ان کے حجرہ ہی میں تھی۔ سایہ وہاں نہیں پھیلا تھا۔

حدیث نمبر : 546
حدثنا أبو نعيم، قال أخبرنا ابن عيينة، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي صلاة العصر والشمس طالعة في حجرتي لم يظهر الفىء بعد‏.‏ وقال مالك ويحيى بن سعيد وشعيب وابن أبي حفصة والشمس قبل أن تظهر‏.‏
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ابن شہاب زہری سے بیان کیا، انھوں نے عروہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عصر کی نماز پڑھتے تو سورج ابھی میرے حجرے میں جھانکتا رہتا تھا۔ ابھی سایہ نہ پھیلا ہوتا تھا۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری ) کہتے ہیں کہ امام مالک اور یحییٰ بن سعید، شعیب رحمہم اللہ اور ابن ابی حفصہ کے روایتوں میں ( زہری سے ) والشمس قبل ان تظہر کے الفاظ ہیں، ( جن کا مطلب یہ ہے کہ دھوپ ابھی اوپر نہ چڑھی ہوتی )

حدیث نمبر : 547
حدثنا محمد بن مقاتل، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا عوف، عن سيار بن سلامة، قال دخلت أنا وأبي، على أبي برزة الأسلمي، فقال له أبي كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي المكتوبة فقال كان يصلي الهجير التي تدعونها الأولى حين تدحض الشمس، ويصلي العصر، ثم يرجع أحدنا إلى رحله في أقصى المدينة والشمس حية ـ ونسيت ما قال في المغرب ـ وكان يستحب أن يؤخر العشاء التي تدعونها العتمة، وكان يكره النوم قبلها والحديث بعدها، وكان ينفتل من صلاة الغداة حين يعرف الرجل جليسه، ويقرأ بالستين إلى المائة‏.‏
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انھوں نے کہا ہمیں عوف نے خبر دی سیار بن سلامہ سے، انھوں نے بیان کیا کہ میں اور میرے باپ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان سے میرے والد نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرض نمازیں کن وقتوں میں پڑھتے تھے۔ انھوں نے فرمایا کہ دوپہر کی نماز جسے تم “ پہلی نماز ” کہتے ہو سورج ڈھلنے کے بعد پڑھتے تھے۔ اور جب عصر پڑھتے اس کے بعد کوئی شخص مدینہ کے انتہائی کنارہ پر اپنے گھر واپس جاتا تو سورج اب بھی تیز ہوتا تھا۔ سیار نے کہا کہ مغرب کے وقت کے متعلق آپ نے جو کچھ کہا تھا وہ مجھے یاد نہیں رہا۔ اور عشاء کی نماز جسے تم “ عتمہ ” کہتے ہو اس میں دیر کو پسند فرماتے تھے اور اس سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے اور صبح کی نماز سے اس وقت فارغ ہو جاتے جب آدمی اپنے قریب بیٹھے ہوئے دوسرے شخص کو پہچان سکتا اور صبح کی نماز میں آپ ساٹھ سے سو تک آیتیں پڑھا کرتے تھے۔

تشریح : روایت مذکورمیں ظہر کی نماز کونماز اولیٰ اس لیے کہا گیا ہے کہ جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اوقات نماز کی تعلیم دینے کے لیے حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے تھے توانھوں نے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ظہر کی نماز ہی پڑھائی تھی۔ اس لیے راویان احادیث اوقات نماز کے بیان میں ظہر کی نماز ہی سے شروع کرتے ہیں۔ اس روایت اوردوسری روایات سے صاف ظاہر ہے کہ عصر کی نماز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اوّل وقت ایک مثل سایہ ہوجانے پر ہی ادا فرمایاکرتے تھے۔ اس حقیقت کے اظہار کے لیے ان روایات میں مختلف الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ بعض روایتوں میں اسے والشمس مرتفعۃ حیۃ سے تعبیر کیا گیاہے کہ ابھی سورج کافی بلند اورخوب تیز ہوا کرتا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کو یوں بیان فرمایاکہ “عصر کے وقت دھوپ میرے حجرہ ہی میں رہتی تھی۔” کسی روایت میں یوں مذکور ہواہے کہ “نماز عصر کے بعد لوگ اطراف مدینہ میں چار چار میل تک کا سفر کرجاتے اور پھر بھی سورج رہتا تھا۔” ان جملہ روایات کا واضح مطلب یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں عصر کی نماز اوّل وقت ایک مثل سایہ ہونے پر ادا کرلی جاتی تھی۔ اس لیے بھی کہ عصر ہی کی نماز صلوٰۃ الوسطیٰ ہے جس کی حفاظت کرنے کا اللہ نے خاص حکم صادر فرمایاہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے کہ حافظوا علی الصلوٰت والصلوٰۃ الوسطیٰ وقوموا للہ قنتین ( البقرۃ: 238 ) یعنی نمازوں کی حفاظت کرو اوردرمیانی نماز کی خاص حفاظت کرو ( جوعصر کی نماز ہے ) اوراللہ کے لیے فرمانبرداربندے بن کر ( باوفا غلاموںکی طرح مؤدب ) کھڑے ہوجایاکرو۔

ان ہی احادیث وآیات کی بناپر عصر کا اول وقت ایک مثل سایہ ہونے پر مقرر ہواہے۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ودیگراکابرعلمائے اسلام اور ائمہ کرام کا یہی مسلک ہے۔ مگر محترم علمائے احناف عصر کی نماز کے لیے اول وقت کے قائل نہیں ہیں۔ اورمذکورہ احادیث کی تاویلات کرنے میں ان کو بڑی کاوش کرنی پڑی ہے۔

ولے تاویل شاں در حیرت انداخت
خدا و جبرئیل و مصطفی را

عجیب کاوش: یہ عجیب کاوش ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بیان پر جس میں ذکر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز ایسے اول وقت میں پڑھ لیا کرتے تھے کہ دھوپ میرے حجرہ سے باہر نہیں نکلتی تھی جس کا مطلب واضح ہے کہ سورج بہت کافی بلند ہوتا تھا۔ مگر بعض علمائے احناف نے عجیب بیان دیاہے جو یہ ہے کہ:
“ازواجِ مطہرات کے حجروں کی دیواریں بہت چھوٹی تھیں۔ اس لیے غروب سے پہلے کچھ نہ کچھ دھوپ حجرہ میں باقی رہتی تھی۔ اس لیے اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز عصر کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے حجرہ میں دھوپ رہتی تھی تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوسکتاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سویرے ہی پڑھ لیتے تھے۔” ( تفہیم البخاری،پ 3،ص: 18 )
حمایت مسلک کا خبط ایسا ہوتاہے کہ انسان قائل کے قول کی ایسی توجیہ کرجاتاہے، جو قائل کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتی۔ سوچنا یہاں یہ تھا کہ بیان کرنے والی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہیں، جن کا ہرلحاظ سے امت میں ایک خصوصی مقام ہے۔ ان کا اس بیان سے اصل منشاءکیاہے۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز عصر کا اوّل وقت ان لفظوں میں بیان فرمارہی ہیں یا آخر وقت کے لیے یہ بیان دے رہی ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بیان میں ادنیٰ غور وتامل سے ظاہر ہوجائے گا کہ ہمارے محترم صاحب تفہیم البخاری کی یہ کاوش بالکل غیرمفید ہے۔ اوراس بیان صدیقہ رضی اللہ عنہ سے صاف ظاہرہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بلاشک وشبہ عصر کی نماز اوّل وقت ہی میں پڑھ لیا کرتے تھے۔ جیساکہ حرمین شریفین کا معمول آج بھی دنیائے اسلام کے سامنے ہے۔ خودہمارے وطن کے ہزاروں حاجی حرمین شریفین ہرسال جاتے ہیں اوردیکھتے ہیں کہ وہاں عصرکی نماز کتنے اول وقت پر ادا کی جاتی ہے۔
صاحب تفہیم البخاری نے اس بیان سے ایک سطر قبل خود ہی اقرار فرمایا ہے۔ چنانچہ آپ کے الفاظ یہ ہیں:
“حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اوّل وقت ہی میں پڑھتے تھے۔” حوالہ مذکور
اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد کیا ضرورت تھی کہ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کے بیان کا سہارا لے کر حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا پر ایسی رکیک تاویل کی جائے کہ دیکھنے اورپڑھنے والوں کے لیے وجہ حیرت بن جائے۔ حجرات نبوی کی دیواریں چھوٹی ہوں یا بڑی اس سے بحث نہیں مگریہ تو ایک امر مسلمہ ہے کہ سورج جس قدر اونچا رہتاہے حجرات نبوی میں دھوپ باقی رہتی اورجوں جوں سورج غروب ہونے کو جاتا وہ دھوپ بھی حجروں سے باہر نکل جاتی تھی۔پھر دوسری روایات میں مزید وضاحت کے لیے یہ صریح الفاظ موجود ہیں کہ سورج بلند اورخوب روشن رہا کرتاتھا، ان الفاظ نے امام طحاوی کی پیش کردہ توجیہ کو ختم کرکے رکھ دیا۔ مگرواقعہ یہ ہے کہ تقلید شخصی کی بیماری سے سوچنے اور سمجھنے کی طاقت روبہ زوال ہوجاتی ہے اور یہاں بھی یہی ماجرا ہے۔

حدیث نمبر : 548
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، عن أنس بن مالك، قال كنا نصلي العصر ثم يخرج الإنسان إلى بني عمرو بن عوف فنجدهم يصلون العصر‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، وہ امام مالک رحمہ اللہ علیہ سے، انھوں نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے روایت کیا، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کو روایت کیا، انھوں نے فرمایا کہ ہم عصر کی نماز پڑھ چکتے اور اس کے بعد کوئی بنی عمرو بن عوف ( قبا ) کی مسجد میں جاتا تو ان کو وہاں عصر کی نماز پڑھتے ہوئے پاتا۔


حدیث نمبر : 549
حدثنا ابن مقاتل، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا أبو بكر بن عثمان بن سهل بن حنيف، قال سمعت أبا أمامة، يقول صلينا مع عمر بن عبد العزيز الظهر، ثم خرجنا حتى دخلنا على أنس بن مالك فوجدناه يصلي العصر فقلت يا عم، ما هذه الصلاة التي صليت قال العصر، وهذه صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم التي كنا نصلي معه‏.‏
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انھوں نے کہا ہمیں ابوبکر بن عثمان بن سہل بن حنیف نے خبر دی، انھوں نے کہا میں نے ابوامامہ ( سعد بن سہل ) سے سنا، وہ کہتے تھے کہ ہم نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ علیہ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی۔ پھر ہم نکل کر حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا آپ نماز پڑھ رہے ہیں۔ میں نے عرض کی کہ اے مکرم چچا! یہ کون سی نماز آپ نے پڑھی ہے۔ فرمایا کہ عصر کی اور اسی وقت ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی یہ نماز پڑھتے تھے۔


حدیث نمبر : 550
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال حدثني أنس بن مالك، قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي العصر والشمس مرتفعة حية، فيذهب الذاهب إلى العوالي فيأتيهم والشمس مرتفعة، وبعض العوالي من المدينة على أربعة أميال أو نحوه‏.‏
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا کہ کہا ہمیں شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے خبر دی، انھوں نے کہا کہ مجھ سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عصر کی نماز پڑھتے تو سورج بلند اور تیز روشن ہوتا تھا۔ پھر ایک شخص مدینہ کے بالائی علاقہ کی طرف جاتا وہاں پہنچنے کے بعد بھی سورج بلند رہتا تھا ( زہری نے کہا کہ ) مدینہ کے بالائی علاقہ کے بعض مقامات تقریباً چار میل پر یا کچھ ایسے ہی واقع ہیں۔


حدیث نمبر : 551
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن أنس بن مالك، قال كنا نصلي العصر ثم يذهب الذاهب منا إلى قباء، فيأتيهم والشمس مرتفعة‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے ابن شہاب زہری کے واسطہ سے خبر دی، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ آپ نے فرمایا ہم عصر کی نماز پڑھتے ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ) اس کے بعد کوئی شخص قبا جاتا اور جب وہاں پہنچ جاتا تو سورج ابھی بلند ہوتا تھا۔

تشریح : عوالی دیہات کو کہا گیاہے جو مدینہ کے اطراف میں بلندی پرواقع تھے۔ ان میں بعض چار میل بعض چھ میل، بعض آٹھ آٹھ میل کے فاصلے پر تھے۔ اس حدیث سے بھی صاف ظاہر ہے کہ عصر کی نماز کا وقت ایک مثل سائے سے شروع ہوجاتاہے۔ دومثل سایہ ہوجانے کے بعد یہ ممکن نہیں کہ آدمی چارچھ میل دور جاسکے اوردھوپ ابھی تک خوب تیز باقی رہے۔ اس لیے عصر کے لیے اول وقت ایک مثل سے شروع ہوجاتاہے۔ جو حضرات ایک مثل کا انکار کرتے ہیں وہ اگربنظر انصاف ان جملہ احادیث پر غور کریں گے تو ضرور اپنے خیال کو غلطی تسلیم کرنے پر مجبورہوجائیں گے۔ مگر نظرانصاف درکار ہے۔

اس حدیث کے ذیل میں علامہ شوکانی فرماتے ہیں: وہودلیل لمذہب مالک والشافعی واحمد والجمہور من العترۃ وغیرہم القائلین بان اول وقت العصر اذا صار ظل کل شیئی مثلہ وفیہ رد لمذہب ابی حنیفۃ فانہ قال ان اول وقت العصر لا یدخل حتی یصیر ظل الشئی مثلیہ۔ ( نیل ) یعنی اس حدیث میں دلیل ہے کہ عصر کا اوّل وقت ایک مثل سایہ ہونے پر ہوجاتاہے اورامام مالک رحمۃ اللہ علیہ، احمد رحمۃ اللہ علیہ، شافعی رحمۃ اللہ علیہ اورجمہور عترت کا یہی مذہب ہے اوراس حدیث میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب کی تردید ہے جو سایہ دو مثل سے قبل عصر کا وقت نہیں مانتے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بیان میں کہ نماز عصر چھوٹ جانے پر کتنا گناہ ہے؟

حدیث نمبر : 552
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ الذي تفوته صلاة العصر كأنما وتر أهله وماله‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک نے نافع کے ذریعہ سے خبر پہنچائی، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کی نماز عصر چھوٹ گئی گویا اس کا گھر اور مال سب لٹ گیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ سورہ محمد میں جو یترکم کا لفظ آیا ہے وہ وتر سے نکالا گیا ہے۔ وتر کہتے ہیں کسی شخص کا کوئی آدمی مار ڈالنا یا اس کا مال چھین لینا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بیان میں کہ نماز عصر چھوڑ دینے پر کتنا گناہ ہے؟

حدیث نمبر : 553
حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال حدثنا هشام، قال حدثنا يحيى بن أبي كثير، عن أبي قلابة، عن أبي المليح، قال كنا مع بريدة في غزوة في يوم ذي غيم فقال بكروا بصلاة العصر فإن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ من ترك صلاة العصر فقد حبط عمله‏"‏‏. ‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ہشام بن عبداللہ دستوائی نے بیان کیا، کہا ہمیں یحییٰ بن ابی کثیر نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے خبر دی۔ انھوں نے ابوالملیح سے، کہا ہم بریدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک سفر جنگ میں تھے۔ ابر و بارش کا دن تھا۔ آپ نے فرمایا کہ عصر کی نماز جلدی پڑھ لو۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے عصر کی نماز چھوڑ دی، اس کا نیک عمل ضائع ہو گیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نماز عصر کی فضیلت کے بیان میں

حدیث نمبر : 554
حدثنا الحميدي، قال حدثنا مروان بن معاوية، قال حدثنا إسماعيل، عن قيس، عن جرير، قال كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم فنظر إلى القمر ليلة ـ يعني البدر ـ فقال ‏"‏ إنكم سترون ربكم كما ترون هذا القمر لا تضامون في رؤيته، فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها فافعلوا‏"‏‏. ‏ ثم قرأ ‏{‏وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب‏}‏‏.‏ قال إسماعيل افعلوا لا تفوتنكم‏.‏
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے مروان بن معاویہ نے، کہا ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے قیس بن ابی حازم سے۔ انھوں نے جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے کہا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند پر ایک نظر ڈالی پھر فرمایا کہ تم اپنے رب کو ( آخرت میں ) اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو اب دیکھ رہے ہو۔ اس کے دیکھنے میں تم کو کوئی زحمت بھی نہیں ہو گی، پس اگر تم ایسا کر سکتے ہو کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے والی نماز ( فجر ) اور سورج غروب ہونے سے پہلے والی نماز ( عصر ) سے تمہیں کوئی چیز روک نہ سکے تو ایسا ضرور کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ “ پس اپنے مالک کی حمد و تسبیح کر سورج طلوع ہونے اور غروب ہونے سے پہلے۔ ” اسماعیل ( راوی حدیث ) نے کہا کہ ( عصر اور فجر کی نمازیں ) تم سے چھوٹنے نہ پائیں۔ ان کا ہمیشہ خاص طور پر دھیان رکھو۔


حدیث نمبر : 555
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال حدثنا مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ يتعاقبون فيكم ملائكة بالليل وملائكة بالنهار، ويجتمعون في صلاة الفجر وصلاة العصر، ثم يعرج الذين باتوا فيكم، فيسألهم وهو أعلم بهم كيف تركتم عبادي فيقولون تركناهم وهم يصلون، وأتيناهم وهم يصلون‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے ابوالزناد عبداللہ بن ذکوان سے، انھوں نے عبدالرحمن بن ہرمز اعرج سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات اور دن میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں۔ اور فجر اور عصر کی نمازوں میں ( ڈیوٹی پر آنے والوں اور رخصت پانے والوں کا ) اجتماع ہوتا ہے۔ پھر تمہارے پاس رہنے والے فرشتے جب اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے بہت زیادہ اپنے بندوں کے متعلق جانتا ہے، کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا۔ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے جب انھیں چھوڑا تو وہ ( فجر کی ) نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تب بھی وہ ( عصر کی ) نماز پڑھ رہے تھے۔

تشریح : فرشتوں کا یہ جواب ان ہی نیک بندوں کے لیے ہوگا جو نماز پابندی کے ساتھ ادا کرتے تھے اورجن لوگوں نے نماز کو پابندی کے ساتھ ادا ہی نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کے دربارمیں فرشتے ان کے بارے میں کیاکہہ سکیں گے۔ کہتے ہیں کہ ان فرشتوں سے مراد کراماًکاتبین ہی ہیں۔ جوآدمی کی محافظت کرتے ہیں، صبح وشام ان کی بدلی ہوتی رہتی ہے۔ قرطبی نے کہا یہ دوفرشتے ہیں اور پروردگار جوسب کچھ جاننے والا ہے۔ اس کا ان سے پوچھنا ان کے قائل کرنے کے لیے ہے جو انھوں نے آدم علیہ السلام کی پیدائش کے وقت کہا تھا کہ آدم زاد زمین میں خون اورفساد کریں گے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جو شخص عصر کی ایک رکعت سورج ڈو بنے سے پہلے پہلے پڑھ سکا تو اس کی نماز ادا ہوگئی

حدیث نمبر : 556
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا شيبان، عن يحيى، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إذا أدرك أحدكم سجدة من صلاة العصر قبل أن تغرب الشمس فليتم صلاته، وإذا أدرك سجدة من صلاة الصبح قبل أن تطلع الشمس فليتم صلاته‏"‏‏. ‏
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شیبان نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انھوں نے ابوسلمہ سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر عصر کی نماز کی ایک رکعت بھی کوئی شخص سورج غروب ہونے سے پہلے پا سکا تو پوری نماز پڑھے ( اس کی نماز ادا ہوئی نہ قضا ) اسی طرح اگر سورج طلوع ہونے سے پہلے فجر کی نماز کی ایک رکعت بھی پا سکے تو پوری نماز پڑھے۔

تشریح : اس حدیث کے ذیل حضرت العلام مولانا نواب وحیدالزماں خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے تشریحی الفاظ یہ ہیں:

اس پر تمام ائمہ اورعلماءکا اجماع ہے۔ مگر حنفیوں نے آدھی حدیث کولیاہے اورآدھی کو چھوڑدیاہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عصرکی نماز توصحیح ہوجائے گی لیکن فجر کی صحیح نہ ہوگی، ان کا قیاس حدیث کے برخلاف ہے اورخود ان ہی کے امام کی وصیت کے مطابق چھوڑدینے کے لائق ہے۔ ”
بیہقی میں مزید وضاحت یوں موجود ہے: من ادرک رکعۃ من الصبح فلیصل الیہا اخری جو فجر کی ایک رکعت پالے اورسورج نکل آئے تو وہ دوسری رکعت بھی اس کے ساتھ ملالے اس کی نماز فجر صحیح ہوگی۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ویوخذ من ہذا الرد علی الطحاوی حیث خص الادراک باحتلام الصبی وطہرالحائض واسلام الکافر ونحوہا وارادبذلک نصرۃ مذہبہ فی ان من ادرک من الصبح رکعۃ تفسد صلوٰتہ لانہ لایکملہا الافی وقت الکراہۃ انتہی۔ والحدیث یدل علی ان من ادرک رکعۃ من صلوٰۃالصبح قبل طلوع الشمس فقد ادرک صلوٰۃ الصبح ولاتبطل بطلوعہا کما ان من ادرک رکعۃ من صلوٰۃ العصر قبل غروب الشمس فقدادرک صلوٰۃ العصر ولاتبطل بغروبہا وبہ قال مالک والشافعی واحمد واسحاق و ہوالحق۔ ( مرعاۃ المفاتیح، ج1، ص:398 )
اس حدیث مذکور سے امام طحاوی کا رد ہوتاہے جنھوں نے حدیث مذکورہ کو اس لڑکے کے ساتھ خاص کیاہے جو ابھی ابھی بالغ ہوا یا کوئی عورت جو ابھی ابھی حیض سے پاک ہوئی یا کوئی کافر جو ابھی ابھی اسلام لایا اور ان کوفجر کی ایک رکعت سورج نکلنے سے پہلے مل گئی توگویا یہ حدیث ان کے ساتھ خاص ہے۔ اس تاویل سے امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اپنے مذہب کی نصرت کرنا ہے۔ جو یہ ہے کہ جس نے صبح کی ایک رکعت پائی اور پھر سورج طلوع ہوگیا، تواس کی نماز باطل ہوگئی اس لیے کہ وہ اس کی تکمیل مکروہ وقت میں کررہاہے۔ یہ حدیث دلیل ہے کہ عام طور پر ہر شخص مراد ہے جس نے فجر کی ایک رکعت سورج نکلنے سے پہلے پالی اس کی ساری نماز کا ثواب ملے گا اوروہ نماز طلوع شمس سے باطل نہ ہوگی جیسا کہ کسی نے عصر کی ایک رکعت سورج چھپنے سے قبل پالی تواس نے عصرکی نماز پالی اور وہ غروب شمس سے باطل نہ ہوگی۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، مالک رحمۃ اللہ علیہ، احمدواسحاق رحمۃ اللہ علیہما سب کا یہی مذہب ہے اوریہی حق ہے۔


حدیث نمبر : 557
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، قال حدثني إبراهيم، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله، عن أبيه، أنه أخبره أنه، سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ إنما بقاؤكم فيما سلف قبلكم من الأمم كما بين صلاة العصر إلى غروب الشمس، أوتي أهل التوراة التوراة فعملوا حتى إذا انتصف النهار عجزوا، فأعطوا قيراطا قيراطا، ثم أوتي أهل الإنجيل الإنجيل فعملوا إلى صلاة العصر، ثم عجزوا، فأعطوا قيراطا قيراطا، ثم أوتينا القرآن فعملنا إلى غروب الشمس، فأعطينا قيراطين قيراطين، فقال أهل الكتابين أى ربنا أعطيت هؤلاء قيراطين قيراطين، وأعطيتنا قيراطا قيراطا، ونحن كنا أكثر عملا، قال قال الله عز وجل هل ظلمتكم من أجركم من شىء قالوا لا، قال فهو فضلي أوتيه من أشاء‏"‏‏. ‏
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابراہیم بن سعد نے ابن شہاب سے، انہوں نے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے، انہون نے اپنے باپ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ تم سے پہلے کی امتوں کے مقابلہ میں تمہاری زندگی صرف اتنی ہے جتنا عصر سے سورج ڈوبنے تک کا وقت ہوتا ہے۔ توراۃ والوں کو توراۃ دی گئی۔ تو انھوں نے اس پر ( صبح سے ) عمل کیا۔ آدھے دن تک پھر وہ عاجز آ گئے، کام پورا نہ کر سکے، ان لوگوں کو ان کے عمل کا بدلہ ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر انجیل والوں کو انجیل دی گئی، انھوں نے ( آدھے دن سے ) عصر تک اس پر عمل کیا، اور وہ بھی عاجز آ گئے۔ ان کو بھی ایک ایک قیراط ان کے عمل کا بدلہ دیا گیا۔ پھر ( عصر کے وقت ) ہم کو قرآن ملا۔ ہم نے اس پر سورج کے غروب ہونے تک عمل کیا ( اور کام پورا کر دیا ) ہمیں دو دو قیراط ثواب ملا۔ اس پر ان دونوں کتاب والوں نے کہا۔ اے ہمارے پروردگار! انھیں تو آپ نے دو دو قیراط دئیے اور ہمیں صرف ایک ایک قیراط۔ حالانکہ عمل ہم نے ان سے زیادہ کیا۔ اللہ عزوجل نے فرمایا، تو کیا میں نے اجر دینے میں تم پر کچھ ظلم کیا۔ انھوں نے عرض کی کہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر یہ ( زیادہ اجر دینا ) میرا فضل ہے جسے میں چاہوں دے سکتا ہوں۔

تشریح : اس حدیث سے حنفیہ نے دلیل لی ہے کہ عصر کا وقت دومثل سائے سے شروع ہوتاہے ورنہ جو وقت ظہر سے عصر تک ہے وہ اس وقت سے زیادہ نہیں ٹھہرے گا جو عصر سے غروب آفتاب تک ہے، حالانکہ مخالف کہہ سکتاہے کہ حدیث میں عصرکی نماز سے غروب آفتاب تک کا وقت اس وقت سے کم رکھا گیاہے جو دوپہردن سے عصر کی نماز تک ہے۔ اور اگرایک مثل سایہ پر عصر کی نماز ادا کی جائے جب بھی نماز سے فارغ ہونے کے بعد سے غروب تک جو وقت ہوگا وہ دوپہر سے تابفراغت از نماز عصر کم ہوگا، کیونکہ نماز کے لیے اذان ہوگی، لوگ جمع ہوں گے، وضو کریں گے، سنتیں پڑھیں گے، اس کے علاوہ حدیث کا یہ مطلب ہوسکتاہے کہ مسلمانوں کا وقت یہود ونصاریٰ کے مجموعی وقت سے کم تھا۔ اور اس میں کوئی شک نہیں۔

اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس باب میں لائے اس کی مناسبت بیان کرنا مشکل ہے، حافظ نے کہا اس سے اور اس کے بعد والی حدیث سے یہ نکلتاہے کہ کبھی عمل کے ایک جزو پر پوری مزدوری ملتی ہے اسی طرح جو کوئی فجریاعصر کی ایک رکعت پالے، اس کو بھی اللہ ساری نماز کا وقت پر پڑھنے کا ثواب دے سکتاہے۔ ( اس حدیث میں مسلمانوں کا ذکر بھی ہواہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ) کام توکیا صرف عصر سے مغرب تک، لیکن سارے دن کی مزدوری ملی۔ و جہ یہ کہ انھوں نے شرط پوری کی، شام تک کام کیا، اورکام کو پورا کیا۔ اگلے دو گروہوں نے اپنا نقصان آپ کیا۔ کام کو ادھورا چھوڑکر بھاگ گئے۔ محنت مفت گئی۔
یہ مثالیں یہودونصاریٰ اورمسلمانوں کی ہیں۔ یہودیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کومانا اور توراۃ پر چلے لیکن اس کے بعدانجیل مقدس اورقرآن شریف سے منحرف ہوگئے اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام اورحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو انھوں نے نہ مانا۔ اورنصاریٰ نے انجیل اور حضرت عیسیٰ کو مانا لیکن قرآن شریف اورحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منحرف ہوگئے توان دونوں فرقوں کی محنت برباد ہوگئی۔ آخرت میں جو اجرملنے والا تھا، اس سے محروم رہے۔ آخر زمانہ میں مسلمان آئے اورانھوں نے تھوڑی سی مدت کام کیا۔ مگر کام کو پورا کردیا۔ اللہ تعالیٰ کی سب کتابوں اورسب نیبوں کو مانا، لہٰذا سارا ثواب ان ہی کے حصہ میں آگیا۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاءواللہ ذوالفضل العظیم ( از حضرت مولانا وحیدالزماں خاں صاحب محدث حیدرآبادی رحمۃ اللہ علیہ )

حدیث نمبر : 558
حدثنا أبو كريب، قال حدثنا أبو أسامة، عن بريد، عن أبي بردة، عن أبي موسى، عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مثل المسلمين واليهود والنصارى كمثل رجل استأجر قوما يعملون له عملا إلى الليل، فعملوا إلى نصف النهار، فقالوا لا حاجة لنا إلى أجرك، فاستأجر آخرين فقال أكملوا بقية يومكم، ولكم الذي شرطت، فعملوا حتى إذا كان حين صلاة العصر قالوا لك ما عملنا‏.‏ فاستأجر قوما فعملوا بقية يومهم حتى غابت الشمس، واستكملوا أجر الفريقين‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوکریب محمد بن علا نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے برید بن عبداللہ کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے ابوبردہ عامر بن عبداللہ سے، انھوں نے اپنے باپ ابوموسیٰ اشعری عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ سے۔ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانوں اور یہود و نصاریٰ کی مثال ایک ایسے شخص کی سی ہے کہ جس نے کچھ لوگوں سے مزدوری پر رات تک کام کرنے کے لیے کہا۔ انھوں نے آدھے دن کام کیا۔ پھر جواب دے دیا کہ ہمیں تمہاری اجرت کی ضرورت نہیں، ( یہ یہود تھے ) پھر اس شخص نے دوسرے مزدور بلائے اور ان سے کہا کہ دن کا جو حصہ باقی بچ گیا ہے ( یعنی آدھا دن ) اسی کو پورا کر دو۔ شرط کے مطابق مزدوری تمہیں ملے گی۔ انھوں نے بھی کام شروع کیا لیکن عصر تک وہ بھی جواب دے بیٹھے۔ ( یہ نصاریٰ تھے ) پس اس تیسرے گروہ نے ( جو اہل اسلام ہیں ) پہلے دو گروہوں کے کام کی پوری مزدوری لے لی۔

تشریح : اس حدیث کو پچھلی حدیث کی روشنی میں سمجھنا ضروری ہے۔ جس میں ذکرہوا کہ یہودونصاریٰ نے تھوڑا کام کیا اور بعد میں باغی ہوگئے۔ پھر بھی ان کو ایک ایک قیراط کے برابر ثواب دیاگیا۔ اورامت محمدیہ نے وفادارانہ طور پر اسلام کوقبول کیا اورتھوڑے وقت کام کیا، پھر بھی ان کو دوگنا اجرملا، یہ اللہ کا فضل ہے، امت محمدیہ اپنی آمد کے لحاظ سے آخروقت میں آئی، اسی کو عصر تامغرب تعبیر کیا گیاہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مغرب کی نماز کے وقت کا بیان

وقال عطاء يجمع المريض بين المغرب والعشاء‏.‏
اور عطاء بن ابی رباح نے کہا کہ مریض عشاء اور مغرب دونوں کو ایک ساتھ جمع کر لے گا۔

تشریح : ( اس اثر کو عبدالرزاق نے مصنف میں وصل کیاہے )

حدیث نمبر : 559
حدثنا محمد بن مهران، قال حدثنا الوليد، قال حدثنا الأوزاعي، قال حدثنا أبو النجاشي، صهيب مولى رافع بن خديج قال سمعت رافع بن خديج، يقول كنا نصلي المغرب مع النبي صلى الله عليه وسلم فينصرف أحدنا وإنه ليبصر مواقع نبله‏.‏
ہم سے محمد بن مہران نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید بن مسلمہ نے، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبدالرحمن بن عمرو اوزاعی نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابوالنجاشی نے بیان کیا، ان کا نام عطاء بن صہیب تھا اور یہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے غلام ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں نے رافع بن خدیج سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم مغرب کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھ کر جب واپس ہوتے اور تیراندازی کرتے ( تو اتنا اجالا باقی رہتا تھا کہ ) ایک شخص اپنے تیر گرنے کی جگہ کو دیکھتا تھا۔

تشریح :حدیث سے ظاہر ہوا کہ مغرب کی نماز سورج ڈوبنے پر فوراً ادا کرلی جایا کرتی تھی۔ بعض احادیث میں یہ بھی آیاہے کہ مغرب کی جماعت سے پہلے صحابہ دورکعت سنت بھی پڑھا کرتے تھے، پھر فوراً جماعت کھڑی کی جاتی اور نماز سے فراغت کے بعد صحابہ کرام بعض دفعہ تیراندازی کی مشق بھی کیا کرتے تھے۔ اوراس وقت اتنا اجالا رہتاتھا کہ وہ اپنے تیر گرنے کی جگہ کو دیکھ سکتے تھے۔ مسلمانوں میں مغرب کی نماز اول وقت پڑھنا توسنت متوارثہ ہے۔ مگرصحابہ کی دوسری سنت یعنی تیراندازی کو وہ اس طرح بھول گئے، گویا یہ کوئی کام ہی نہیں۔ حالانکہ تعلیمات اسلامی کی روسے سپاہیانہ فنون کی تعلیمات بھی مذہبی مقام رکھتی ہیں۔

حدیث نمبر : 560
حدثنا محمد بن بشار، قال حدثنا محمد بن جعفر، قال حدثنا شعبة، عن سعد، عن محمد بن عمرو بن الحسن بن علي، قال قدم الحجاج فسألنا جابر بن عبد الله فقال كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي الظهر بالهاجرة، والعصر والشمس نقية، والمغرب إذا وجبت، والعشاء أحيانا وأحيانا، إذا رآهم اجتمعوا عجل، وإذا رآهم أبطوا أخر، والصبح كانوا ـ أو كان النبي صلى الله عليه وسلم يصليها بغلس‏.‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے سعد بن ابراہیم سے، انھوں نے محمد بن عمرو بن حسن بن علی سے، انھوں نے کہا کہ حجاج کا زمانہ آیا ( اور وہ نماز دیر کر کے پڑھایا کرتا تھا اس لیے ) ہم نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز ٹھیک دوپہر میں پڑھایا کرتے تھے۔ ابھی سورج صاف اور روشن ہوتا تو نماز عصر پڑھاتے۔ نماز مغرب وقت آتے ہی پڑھاتے اور نماز عشاء کو کبھی جلدی پڑھاتے اور کبھی دیر سے۔ جب دیکھتے کہ لوگ جمع ہو گئے ہیں تو جلدی پڑھا دیتے اور اگر لوگ جلدی جمع نہ ہوتے تو نماز میں دیر کرتے۔ ( اور لوگوں کا انتظار کرتے ) اور صبح کی نماز صحابہ رضی اللہ عنہم یا ( یہ کہا کہ ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم اندھیرے میں پڑھتے تھے۔


حدیث نمبر : 561
حدثنا المكي بن إبراهيم، قال حدثنا يزيد بن أبي عبيد، عن سلمة، قال كنا نصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم المغرب إذا توارت بالحجاب‏.‏
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے، فرمایا کہ ہم نماز مغرب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت پڑھتے تھے جب سورج پردے میں چھپ جاتا۔

حدیث نمبر : 562
حدثنا آدم، قال حدثنا شعبة، قال حدثنا عمرو بن دينار، قال سمعت جابر بن زيد، عن ابن عباس، قال صلى النبي صلى الله عليه وسلم سبعا جميعا وثمانيا جميعا‏.‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، کہا میں نے جابر بن زید سے سنا، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بیان کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سات رکعات ( مغرب اور عشاء کی ) ایک ساتھ آٹھ رکعات ( ظہر اور عصر کی نمازیں ) ایک ساتھ پڑھیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں جس نے مغرب کو عشاء کہنا مکروہ جانا

حدیث نمبر : 563
حدثنا أبو معمر ـ هو عبد الله بن عمرو ـ قال حدثنا عبد الوارث، عن الحسين، قال حدثنا عبد الله بن بريدة، قال حدثني عبد الله المزني، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا تغلبنكم الأعراب على اسم صلاتكم المغرب‏"‏‏. ‏ قال الأعراب وتقول هي العشاء‏.‏
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، جو عبداللہ بن عمرو ہیں، کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے حسین بن ذکوان سے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن بریدہ نے، کہا مجھ سے عبداللہ مزنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایسا نہ ہو کہ “ مغرب ” کی نماز کے نام کے لیے اعراب ( یعنی دیہاتی لوگوں ) کا محاورہ تمہاری زبانوں پر چڑھ جائے۔ عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے کہا یا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدوی مغرب کو عشاء کہتے تھے۔

تشریح : بدوی لوگ نماز مغرب کو عشاء اور نماز عشاء کو عتمہ سے موسوم کرتے تھے۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ بدویوں کی اصطلاح غالب نہ ہونی چاہئیے۔ بلکہ ان کو مغرب اورعشاء ہی کے ناموں سے پکارا جائے۔ عتمہ وہ باقی دودھ جو اونٹنی کے تھن میں رہ جاتا اور تھوڑی رات گزرنے کے بعد اسے نکالتے۔ بعضوں نے کہا کہ عتمہ کے معنی رات کی تاریکی تک دیر کرنا چونکہ اس نماز عشاءکایہی وقت ہے۔ اس لیے اسے عتمہ کہا گیا۔ بعض مواقع پر نماز عشاء کو صلوٰۃ عتمہ سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے اسے درجہ جواز دیا گیا۔ مگربہتر یہی کہ لفظ عشاءہی سے یاد کیا جائے۔

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ یہ ممانعت آپ نے اس خیال سے کی کہ عشاءکے معنی لغت میں تاریکی کے ہیں اوریہ شفق ڈوبنے کے بعد ہوتی ہے۔ پس اگر مغرب کا نام عشاء پڑجائے تواحتمال ہے کہ آئندہ لوگ مغرب کا وقت شفق ڈوبنے کے بعدسمجھنے لگیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : عشاء اور عتمہ کا بیان اور جو یہ دونوں نام لینے میں کوئی ہرج نہیں خیال کرتے

قال أبو هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أثقل الصلاة على المنافقين العشاء والفجر‏"‏‏. ‏ وقال ‏"‏ لو يعلمون ما في العتمة والفجر‏"‏‏. ‏ قال أبو عبد الله والاختيار أن يقول العشاء لقوله تعالى ‏{‏ومن بعد صلاة العشاء‏}‏‏.‏ ويذكر عن أبي موسى قال كنا نتناوب النبي صلى الله عليه وسلم عند صلاة العشاء فأعتم بها‏.‏ وقال ابن عباس وعائشة أعتم النبي صلى الله عليه وسلم بالعشاء‏.‏ وقال بعضهم عن عائشة أعتم النبي صلى الله عليه وسلم بالعتمة‏.‏ وقال جابر كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي العشاء‏.‏ وقال أبو برزة كان النبي صلى الله عليه وسلم يؤخر العشاء‏.‏ وقال أنس أخر النبي صلى الله عليه وسلم العشاء الآخرة‏.‏ وقال ابن عمر وأبو أيوب وابن عباس ـ رضى الله عنهم ـ صلى النبي صلى الله عليه وسلم المغرب والعشاء‏. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کر کے فرمایا، کہ منافقین پر عشاء اور فجر تمام نمازوں سے زیادہ بھاری ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کاش! وہ سمجھ سکتے کہ عتمہ ( عشاء ) اور فجر کی نمازوں میں کتنا ثواب ہے۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ علیہ ) کہتے ہیں کہ عشاء کہنا ہی بہتر ہے۔ کیونکہ ارشاد باری ہے ومن بعد صلوٰۃ العشاء ( میں قرآن نے اس کا نام عشاء رکھ دیا ہے ) ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے عشاء کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں پڑھنے کے لیے باری مقرر کر لی تھی۔ ایک مرتبہ آپ نے اسے رات گئے پڑھا۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ اور عائشہ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عشاء دیر سے پڑھی۔ بعض نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے نقل کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے “ عتمہ ” کو دیر سے پڑھا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ عشاء ” پڑھتے تھے۔ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء میں دیر کرتے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشاء کو دیر میں پڑھتے تھے۔ ابن عمر، ابوایوب اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء پڑھی۔

تشریح :امام المحدثین رحمۃ اللہ علیہ نے ان جملہ احادیث اور آثار کو یہاں اس غرض سے نقل کیاہے کہ بہتر ہے عشاءکو لفظ عشاءسے ہی موسوم کیاجائے۔ اس پر بھی اگرکسی نے لفظ عتمہ اس کے لیے استعمال کرلیاتو یہ بھی درجہ جواز میں ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ کرام کا عام معمول تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات سے آگاہ رہنا اپنے لیے ضروری خیال کرتے تھے، جو حضرات مسجد نبوی سے دور دراز سکونت رکھتے تھے، انھوں نے آپس میں باری مقرر کررکھیتھی۔ جو بھی حاضر درباررسالت ہوتا، دیگر صحابہ رضی اللہ عنہ ان سے حالات معلوم کرلیا کرتے تھے۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بھی ان ہی میں سے تھے۔ یہ ہجرت حبشہ سے واپسی کے بعد مدینہ میں کافی فاصلہ پر سکونت پذیر ہوئے اور انھوں نے اپنے پڑوسیوں سے مل کر دربار رسالت میں حاضری کی باری مقرر کرلی تھی۔ آپ نے ایک رات نماز عشاء دیر سے پڑھے جانے کا ذکر کیا اور اس کے لیے لفظ اعتم استعمال کیا جس کا مطلب یہ کہ آپ نے دیر سے اس نمازکو ادا فرمایا۔ بعض کتابوں میں تاخیر کی وجہ یہ بتلائی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے بعض معلاملات کے بارے میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے مشورہ فرما رہے تھے، اسی لیے تاخیر ہو گئی۔


حدیث نمبر : 564
حدثنا عبدان، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا يونس، عن الزهري، قال سالم أخبرني عبد الله، قال صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة صلاة العشاء ـ وهى التي يدعو الناس العتمة ـ ثم انصرف فأقبل علينا فقال ‏"‏ أرأيتم ليلتكم هذه فإن رأس مائة سنة منها لا يبقى ممن هو على ظهر الأرض أحد‏"‏‏. ‏
ہم سے عبدان عبداللہ بن عثمان نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انھوں نے کہا ہمیں یونس بن یزید نے خبر دی زہری سے کہ سالم نے یہ کہا کہ مجھے ( میرے باپ ) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ ایک رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی۔ یہی جسے لوگ “ عتمہ ” کہتے ہیں۔ پھر ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم اس رات کو یاد رکھنا۔ آج جو لوگ زندہ ہیں ایک سو سال کے گزرنے تک روئے زمین پر ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔

یعنی سوبرس میں جتنے لوگ آج زندہ ہیں سب مرجائیں گے۔ اور نئی نسل ظہور میں آتی رہے گی۔ سب سے آخری صحابی ابوالطفیل عامر بن واثلہ ہیں۔ جن کا انتقال 110ھ میں ہوا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے حضرت خضرعلیہ السلام کی وفات پر بھی دلیل پکڑی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نماز عشاء کا وقت جب لوگ ( جلدی ) جمع ہوجائیں یا جمع ہونے میں دیر کریں

حدیث نمبر : 565
حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال حدثنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم، عن محمد بن عمرو ـ هو ابن الحسن بن علي ـ قال سألنا جابر بن عبد الله عن صلاة النبي، صلى الله عليه وسلم فقال كان يصلي الظهر بالهاجرة، والعصر والشمس حية، والمغرب إذا وجبت، والعشاء إذا كثر الناس عجل، وإذا قلوا أخر، والصبح بغلس‏.‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ حجاج نے سعد بن ابراہیم سے بیان کیا، وہ محمد بن عمرو سے جو حسن بن علی بن ابی طالب کے بیٹے ہیں، فرمایا کہ ہم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں دریافت کیا۔ تو آپ نے فرمایا کہ آپ نماز ظہر دوپہر میں پڑھتے تھے۔ اور جب نماز عصر پڑھتے تو سورج صاف روشن ہوتا۔ مغرب کی نماز واجب ہوتے ہی ادا فرماتے، اور “ عشاء ” میں اگر لوگ جلدی جمع ہو جاتے تو جلدی پڑھ لیتے اور اگر آنے والوں کی تعداد کم ہوتی تو دیر کرتے۔ اور صبح کی نماز منہ اندھیرے میں پڑھا کرتے تھے۔

تشریح :حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ترجمہ باب اوران میں آمدہ احادیث سے ان لوگوں کی تردید کی ہے جو کہتے ہیں کہ عشاءکی نمازاگرجلدی ادا کی جائے تواسے عشاءہی کہیں گے اور اگر دیر سے ادا کی جائے تواسے عتمہ کہیں گے، گویا ان لوگوں نے دونوں روایتوں میںتطبیق دی ہے۔ اور ان پر رد اس طرح ہوا کہ ان احادیث میں دونوں حالتوں میں اسے عشاء ہی کہا گیا۔
 
Top