• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ “ اللہ پاک کی طرف رجوع کرنے والے ( ہوجاو ) اور اس سے ڈرو اور نماز قائم کرو اور مشرکین میں سے نہ ہوجاو۔ ” ( سورہ روم )

حدیث نمبر : 523
حدثنا قتيبة بن سعيد، قال حدثنا عباد ـ هو ابن عباد ـ عن أبي جمرة، عن ابن عباس، قال قدم وفد عبد القيس على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا إنا من هذا الحى من ربيعة، ولسنا نصل إليك إلا في الشهر الحرام، فمرنا بشىء نأخذه عنك، وندعو إليه من وراءنا‏.‏ فقال ‏"‏ آمركم بأربع، وأنهاكم عن أربع الإيمان بالله ـ ثم فسرها لهم شهادة أن لا إله إلا الله، وأني رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وأن تؤدوا إلى خمس ما غنمتم، وأنهى عن الدباء والحنتم والمقير والنقير‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عباد بن عباد بصری نے، اور یہ عباد کے لڑکے ہیں، ابوجمرہ ( نصر بن عمران ) کے ذریعہ سے، انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، انھوں نے کہا کہ عبدالقیس کا وفد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ ہم اس ربیعہ قبیلہ سے ہیں اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں صرف حرمت والے مہینوں ہی میں حاضر ہو سکتے ہیں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسی بات کا ہمیں حکم دیجیئے، جسے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھ لیں اور اپنے پیچھے رہنے والے دوسرے لوگوں کو بھی اس کی دعوت دے سکیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں، پہلے خدا پر ایمان لانے کا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفصیل بیان فرمائی کہ اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اور دوسرے نماز قائم کرنے کا، تیسرے زکوٰۃ دینے کا، اور چوتھے جو مال تمہیں غنیمت میں ملے، اس میں سے پانچواں حصہ ادا کرنے کا اور تمہیں میں تونبڑی حنتم، قسار اور نقیر کے استعمال سے روکتا ہوں۔

تشریح : وفدعبدالقیس پہلے 6 ھ میں پھر فتح مکہ کے سال حاضر خدمت نبوی ہواتھا۔ حرمت والے مہینے رجب، ذی القعدہ، ذی الحجہ اورمحرم ہیں۔ ان میں اہل عرب لڑائی موقوف کردیتے اورہر طرف امن و امان ہوجایا کرتا تھا۔اس لیے یہ وفد ان ہی مہینوں میں حاضر ہوسکتاتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ارکان اسلام کی تعلیم فرمائی اورشراب سے روکنے کے لیے ان برتنوں سے بھی روک دیا جن میں اہل عرب شراب تیارکرتے تھے۔ حنتم ( سبز رنگ کی مرتبان جیسی گھڑیا جس پر روغن لگاہوا ہوتاتھا ) اورقسار ( ایک قسم کا تیل جو بصرہ سے لایا جاتا تھا، لگے ہوئے برتن ) اورنقیر ( کھجور کی جڑکھود کر برتن کی طرح بنایا جاتاتھا )

باب میں آیت کریمہ لانے سے مقصود یہ ہے کہ نماز ایمان میں داخل ہے اورتوحید کے بعد یہ دین کا اہم رکن ہے اس آیت سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے جوبے نمازی کوکافر کہتے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نماز درست طریقے سے پڑھنے پر بیعت کرنا

حدیث نمبر : 524
حدثنا محمد بن المثنى، قال حدثنا يحيى، قال حدثنا إسماعيل، قال حدثنا قيس، عن جرير بن عبد الله، قال بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على إقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والنصح لكل مسلم‏.‏
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے قیس بن ابی حازم نے جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے بیان کیا کہ جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر نماز قائم کرنے، زکوٰۃ دینے، اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔

جریراپنی قوم کے سردار تھے، ان کو عام خیرخواہی کی نصیحت کی، اور عبدالقیس کے لوگ سپاہ پیشہ اس لیے ان کو پانچواں حصہ بیت المال میں داخل کرنے کی ہدایت فرمائی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بیان میں کہ گناہوں کے لیے نماز کفارہ ہے ( یعنی اس سے صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں )

حدیث نمبر : 525
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن الأعمش، قال حدثني شقيق، قال سمعت حذيفة، قال كنا جلوسا عند عمر ـ رضى الله عنه ـ فقال أيكم يحفظ قول رسول الله صلى الله عليه وسلم في الفتنة قلت أنا، كما قاله‏.‏ قال إنك عليه ـ أو عليها ـ لجريء‏.‏ قلت ‏"‏ فتنة الرجل في أهله وماله وولده وجاره تكفرها الصلاة والصوم والصدقة والأمر والنهى‏"‏‏. ‏ قال ليس هذا أريد، ولكن الفتنة التي تموج كما يموج البحر‏.‏ قال ليس عليك منها بأس يا أمير المؤمنين، إن بينك وبينها بابا مغلقا‏.‏ قال أيكسر أم يفتح قال يكسر‏.‏ قال إذا لا يغلق أبدا‏.‏ قلنا أكان عمر يعلم الباب قال نعم، كما أن دون الغد الليلة، إني حدثته بحديث ليس بالأغاليط‏.‏ فهبنا أن نسأل حذيفة، فأمرنا مسروقا فسأله فقال الباب عمر‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے اعمش کی روایت سے بیان کیا، اعمش ( سلیمان بن مہران ) نے کہا کہ مجھ سے شقیق بن مسلمہ نے بیان کیا، شقیق نے کہا کہ میں نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے سنا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے پوچھا کہ فتنہ سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث تم میں سے کسی کو یاد ہے؟ میں بولا، میں نے اسے ( اسی طرح یاد رکھا ہے ) جیسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث کو بیان فرمایا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بولے، کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتن کو معلوم کرنے میں بہت بے باک تھے۔ میں نے کہا کہ انسان کے گھر والے، مال اولاد اور پڑوسی سب فتنہ ( کی چیز ) ہیں۔ اور نماز، روزہ، صدقہ، اچھی بات کے لیے لوگوں کو حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا ان فتنوں کا کفارہ ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سے اس کے متعلق نہیں پوچھتا، مجھے تم اس فتنہ کے بارے میں بتلاؤ جو سمندر کی موج کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا بڑھے گا۔ اس پر میں نے کہا کہ یا امیرالمومنین! آپ اس سے خوف نہ کھائیے۔ آپ کے اور فتنہ کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ پوچھا کیا وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا یا ( صرف ) کھولا جائے گا۔ میں نے کہا کہ توڑ دیا جائے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بول اٹھے، کہ پھر تو وہ کبھی بند نہیں ہو سکے گا۔ شقیق نے کہا کہ ہم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس دروازہ کے متعلق کچھ علم رکھتے تھے تو انھوں نے کہا کہ ہاں! بالکل اسی طرح جیسے دن کے بعد رات کے آنے کا۔ میں نے تم سے ایک ایسی حدیث بیان کی ہے جو قطعاً غلط نہیں ہے۔ ہمیں اس کے متعلق حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھنے میں ڈر ہوتا تھا ( کہ دروازہ سے کیا مراد ہے ) اس لیے ہم نے مسروق سے کہا ( کہ وہ پوچھیں ) انھوں نے دریافت کیا تو آپ نے بتایا کہ وہ دروازہ خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی تھے۔

تشریح : یہاں جس فتنہ کا ذکر ہے وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت ہی سے شروع ہوگیاتھا۔ جس کا نتیجہ شیعہ سنی کی شکل میں آج تک موجودہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا کہ بنددروازہ توڑدیا جائے گا۔ ایک مرتبہ فتنے شروع ہونے پر پھر بڑھتے ہی جائیں گے۔ چنانچہ امت کا افتراق محتاج تفصیل نہیں اور فقہی اختلافات نے توبالکل ہی بیڑا غرق کردیاہے۔ یہ سب کچھ تقلید جامد کے نتائج ہیں۔

حدیث نمبر : 526
حدثنا قتيبة، قال حدثنا يزيد بن زريع، عن سليمان التيمي، عن أبي عثمان النهدي، عن ابن مسعود، أن رجلا، أصاب من امرأة قبلة، فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فأخبره، فأنزل الله ‏{‏أقم الصلاة طرفى النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات‏}‏‏.‏ فقال الرجل يا رسول الله ألي هذا قال ‏"‏ لجميع أمتي كلهم‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، سلیمان تیمی کے واسطہ سے، انہوں نے ابوعثمان نہدی سے، انہوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہ ایک شخص نے کسی غیر عورت کا بوسہ لے لیا۔ اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور آپ کو اس حرکت کی خبر دے دی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، کہ نماز دن کے دونوں حصوں میں قائم کرو اور کچھ رات گئے بھی، اور بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ اس شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا یہ صرف میرے لیے ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ میری تمام امت کے لیے یہی حکم ہے۔

باب اورحدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔ قسطلانی نے کہا کہ اس آیت میں برائیوں سے صغیرہ گناہ مراد ہیں جیسے ایک حدیث میں ہے کہ ایک نماز دوسری نماز تک کفارہ ہے گناہوں کا جب تک آدمی کبیرہ گناہوں سے بچارہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نماز وقت پر پڑھنے کی فضیلت کے بارے میں

حدیث نمبر : 527
حدثنا أبو الوليد، هشام بن عبد الملك قال حدثنا شعبة، قال الوليد بن العيزار أخبرني قال سمعت أبا عمرو الشيباني، يقول حدثنا صاحب، هذه الدار وأشار إلى دار عبد الله قال سألت النبي صلى الله عليه وسلم أى العمل أحب إلى الله قال ‏"‏ الصلاة على وقتها‏"‏‏. ‏ قال ثم أى قال ‏"‏ ثم بر الوالدين‏"‏‏. ‏ قال ثم أى قال ‏"‏ الجهاد في سبيل الله‏"‏‏. ‏ قال حدثني بهن ولو استزدته لزادني‏.‏
ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، انھوں نے کہا کہ مجھے ولید بن عیزار کوفی نے خبر دی، کہا کہ میں نے ابوعمر و شیبانی سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے اس گھر کے مالک سے سنا، ( آپ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف اشارہ کر رہے تھے ) انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے وقت پر نماز پڑھنا، پھر پوچھا، اس کے بعد، فرمایا والدین کے ساتھ نیک معاملہ رکھنا۔ پوچھا اس کے بعد، آپ نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ تفصیل بتائی اور اگر میں اور سوالات کرتا تو آپ اور زیادہ بھی بتلاتے۔ ( لیکن میں نے بطور ادب خاموشی اختیار کی۔ )

تشریح : دوسری حدیثوں میں جواور کاموں کو افضل بتایا ہے وہ اس کے خلاف نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر شخص کی حالت اوروقت کا تقاضا دیکھ کر اس کے لیے جو کام افضل نظر آتاوہ بیان فرماتے، جہاد کے وقت جہاد کو افضل بتلاتے اور قحط و گرانی میں لوگوں کو کھانا کھلانا وغیرہ وغیرہ مگر نماز کا عمل ایسا ہے کہ یہ ہرحال میں اللہ کو بہت ہی محبوب ہے جب کہ اسے آداب مقررہ کے ساتھ ادا کیاجائے اور نماز کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک بہترین عمل ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بیان میں کہ پانچوں وقت کی نمازیں گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہیں جب کوئی ان کو جماعت سے یا اکیلا ہی اپنے وقت پر پڑھے

حدیث نمبر : 528
حدثنا إبراهيم بن حمزة، قال حدثني ابن أبي حازم، والدراوردي، عن يزيد، عن محمد بن إبراهيم، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ أرأيتم لو أن نهرا بباب أحدكم، يغتسل فيه كل يوم خمسا، ما تقول ذلك يبقي من درنه‏"‏‏. ‏ قالوا لا يبقي من درنه شيئا‏.‏ قال ‏"‏ فذلك مثل الصلوات الخمس، يمحو الله بها الخطايا‏"‏‏. ‏
ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم اور عبدالعزیز بن محمد در اوردی نے یزید بن عبداللہ کی روایت سے، انھوں نے محمد بن ابراہیم تیمی سے، انھوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اگر کسی شخص کے دروازے پر نہر جاری ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ پانچ دفعہ نہائے تو تمہارا کیا گمان ہے۔ کیا اس کے بدن پر کچھ بھی میل باقی رہ سکتا ہے؟ صحابہ نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! ہرگز نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی حال پانچوں وقت کی نمازوں کا ہے کہ اللہ پاک ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ بے وقت نماز پڑھنا، نماز کو ضائع کرنا ہے

حدیث نمبر : 529
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال حدثنا مهدي، عن غيلان، عن أنس، قال ما أعرف شيئا مما كان على عهد النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ قيل الصلاة‏.‏ قال أليس ضيعتم ما ضيعتم فيها‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے مہدی بن میمون نے غیلان بن جریر کے واسطہ سے، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے، آپ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کی کوئی بات اس زمانہ میں نہیں پاتا۔ لوگوں نے کہا، نماز تو ہے۔ فرمایا اس کے اندر بھی تم نے کر رکھا ہے جو کر رکھا ہے۔

حدیث نمبر : 530
حدثنا عمرو بن زرارة، قال أخبرنا عبد الواحد بن واصل أبو عبيدة الحداد، عن عثمان بن أبي رواد، أخي عبد العزيز قال سمعت الزهري، يقول دخلت على أنس بن مالك بدمشق وهو يبكي فقلت ما يبكيك فقال لا أعرف شيئا مما أدركت إلا هذه الصلاة، وهذه الصلاة قد ضيعت‏.‏ وقال بكر حدثنا محمد بن بكر البرساني أخبرنا عثمان بن أبي رواد نحوه‏.‏
ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں عبدالواحد بن واصل ابوعبیدہ حداد نے خبر دی، انھوں نے عبدالعزیز کے بھائی عثمان بن ابی رواد کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ میں نے زہری سے سنا کہ میں دمشق میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گیا۔ آپ اس وقت رو رہے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کی کوئی چیز اس نماز کے علاوہ اب میں نہیں پاتا اور اب اس کو بھی ضائع کر دیا گیا ہے۔ اور بکر بن خلف نے کہا کہ ہم سے محمد بن بکر برسانی نے بیان کیا کہ ہم سے عثمان بن ابی رواد نے یہی حدیث بیان کی۔

تشریح : اس روایت سے ظاہر ہے کہ صحابہ کرام کو نمازوں کا کس قدر اہتمام مدنظر تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے تاخیر سے نماز پڑھنے کو نماز کا ضائع کرنا قرار دیا۔ امام زہری نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث دمشق میں سنی تھی۔ جب کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ حجاج کی امارت کے زمانہ میں دمشق کے خلیفہ ولید بن عبدالملک سے حجاج کی شکایت کرنے آئے تھے کہ وہ نماز بہت دیر کرکے پڑھاتے ہیں۔ ایسے ہی وقت میں ہدایت کی گئی ہے کہ تم اپنی نمازوقت پر ادا کرلو اوربعد میں جماعت سے بھی پڑھ لو تاکہ فتنہ کا وقوع نہ ہو۔ یہ نفل نماز ہوجائے گی۔

مولاناوحیدالزماں صاحب حیدرآبادی نے کیا خوب فرمایاکہ اللہ اکبر جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں یہ حال تھا تووائے برحال ہمارے زمانے کے اب تو توحیدسے لے کر شروع عبادات تک لوگوں نے نئی باتیں اورنئے اعتقاد تراش لیے ہیں جن کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں شان گمان بھی نہ تھا۔ اور اگرکوئی اللہ کا بندہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کے طریق کے موافق چلتا ہے اس پر طرح طرح کی تہمتیں رکھی جاتی ہیں، کوئی ان کو وہابی کہتاہے کوئی لامذہب کہتاہے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ نماز پڑھنے والا نماز میں اپنے رب سے پوشیدہ طور پر بات چیت کرتاہے

حدیث نمبر : 531
حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال حدثنا هشام، عن قتادة، عن أنس، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن أحدكم إذا صلى يناجي ربه فلا يتفلن عن يمينه، ولكن تحت قدمه اليسرى‏"‏‏. ‏ ‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عبداللہ دستوائی نے قتادہ ابن دعامہ کے واسطے سے، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز میں ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا رہتا ہے اس لیے اپنی داہنی جانب نہ تھوکنا چاہیے لیکن بائیں پاؤں کے نیچے تھوک سکتا ہے۔

یہ حکم خام مساجد کے لیے تھا جہاں تھوک جذب ہوجایا کرتا تھا اب ضروری ہے کہ بوقت ضرورت رومال میں تھوک لیاجائے۔

حدیث نمبر : 532
حدثنا حفص بن عمر، قال حدثنا يزيد بن إبراهيم، قال حدثنا قتادة، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ اعتدلوا في السجود، ولا يبسط ذراعيه كالكلب، وإذا بزق فلا يبزقن بين يديه ولا عن يمينه، فإنه يناجي ربه‏"‏‏. وقال سعيد عن قتادة لا يتفل قدامه أو بين يديه، ولكن عن يساره أو تحت قدميه‏.‏ وقال شعبة لا يبزق بين يديه ولا عن يمينه، ولكن عن يساره أو تحت قدمه‏.‏ وقال حميد عن أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا يبزق في القبلة ولا عن يمينه، ولكن عن يساره أو تحت قدمه‏"‏‏.‏
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ابراہیم نے، انھوں نے کہا کہ ہم سے قتادہ نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سجدہ کرنے میں اعتدال رکھو ( سیدھی طرح پر کرو ) اور کوئی شخص تم میں سے اپنے بازوؤں کو کتے کی طرح نہ پھیلائے۔ جب کسی کو تھوکنا ہی ہو تو سامنے یا داہنی طرف نہ تھوکے، کیونکہ وہ نماز میں اپنے رب سے پوشیدہ باتیں کرتا رہتا ہے اور سعید نے قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کر کے بیان کیا ہے کہ آگے یا سامنے نہ تھوکے البتہ بائیں طرف پاؤں کے نیچے تھوک سکتا ہے اور شعبہ نے کہا کہ اپنے سامنے اور دائیں جانب نہ تھوکے، بلکہ بائیں طرف یا پاؤں کے نیچے تھوک سکتا ہے۔ اور حمید نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ قبلہ کی طرف نہ تھوکے اور نہ دائیں طرف البتہ بائیں طرف یا پاؤں کے نیچے تھوک سکتا ہے۔

تشریح : سجدہ میں اعتدال یہ ہے کہ ہاتھوں کوزمین پر رکھے، کہنیوں کو دونوں پہلو سے اور پیٹ کو زانوں سے جدا رکھے۔ حمید کی روایت کو خودامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ابواب المساجد میں نکالاہے۔ حافظ نے کہا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان تعلیقات کو اس واسطے سے ذکر کیا کہ قتادہ کے اصحاب کا اختلاف اس حدیث کی روایت میں معلوم ہوا اورشعبہ کی روایت سب سے زیادہ پوری ہے مگر اس میں سرگوشی کا ذکر نہیں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ سخت گرمی میں ظہر کو ذرا ٹھنڈے وقت پڑھنا

حدیث نمبر : 533-534
حدثنا أيوب بن سليمان، قال حدثنا أبو بكر، عن سليمان، قال صالح بن كيسان حدثنا الأعرج عبد الرحمن، وغيره، عن أبي هريرة‏ ، ونافع مولى عبد الله بن عمر، عن عبد الله بن عمر: أنهما حدثناه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: (إذا اشتد الحر فأبردوا عن الصلاة، فإن شدة الحر من فيح جهنم). ‏
ہم سے ایوب بن سلیمان مدنی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبکر عبدالحمید بن ابی اویس نے سلیمان بن بلال کے واسطہ سے کہ صالح بن کیسان نے کہا کہ ہم سے اعرج عبدالرحمن وغیرہ نے حدیث بیان کی۔ وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے تھے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے مولیٰ نافع عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کی روایت کرتے تھے کہ ان دونوں صحابہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب گرمی تیز ہو جائے تو نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھو، کیونکہ گرمی کی تیزی جہنم کی آگ کی بھاپ سے ہوتی ہے۔

حدیث نمبر : 535
حدثنا ابن بشار، قال حدثنا غندر، قال حدثنا شعبة، عن المهاجر أبي الحسن، سمع زيد بن وهب، عن أبي ذر، قال أذن مؤذن النبي صلى الله عليه وسلم الظهر فقال ‏"‏ أبرد أبرد ـ أو قال ـ انتظر انتظر‏"‏‏. ‏ وقال ‏"‏ شدة الحر من فيح جهنم، فإذا اشتد الحر فأبردوا عن الصلاة‏"‏‏. ‏ حتى رأينا فىء التلول‏.‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شعبہ بن حجاج نے مہاجر ابوالحسن کی روایت سے بیان کیا، انھوں نے زید بن وہب ہمدانی سے سنا۔ انھوں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن ( بلال ) نے ظہر کی اذان دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھنڈا کر، ٹھنڈا کر، یا یہ فرمایا کہ انتظار کر، انتظار کر، اور فرمایا کہ گرمی کی تیزی جہنم کی آگ کی بھاپ سے ہے۔ اس لیے جب گرمی سخت ہو جائے تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو، پھر ظہر کی اذان اس وقت کہی گئی جب ہم نے ٹیلوں کے سائے دیکھ لیے۔

تشریح : ٹھنڈا کرنے کا یہ مطلب ہے کہ زوال کے بعد پڑھے نہ یہ کہ ایک مثل سایہ ہوجانے کے بعد، کیونکہ ایک مثل سایہ ہوجانے پرتوعصر کا اوّل وقت ہوجاتاہے۔ جمہورعلماءکا یہی قول ہے۔ زوال ہونے پر فوراً پڑھ لینا یہ تعجیل ہے، اورذرا دیر کرکے تاکہ موسم گرما میں کچھ خنکی آجائے پڑھنا یہ ابراد ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وقداختار قوم من اہل العلم تاخیرصلوٰۃ الظہر فی شدۃ الحر وہوقول ابن المبارک واحمدواسحاق یعنی اہل علم کی ایک جماعت کا مذہب مختار یہی ہے کہ گرمی کی شدت میں ظہر کی نماز ذرا دیر سے پڑھی جائے۔ عبداللہ بن مبارک واحمد واسحاق کا یہی فتوی ہے۔ مگر اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ ظہر کو عصر کے اول وقت ایک مثل تک کے لیے مؤخر کردیا جائے، جب کہ بدلائل قویہ ثابت ہے کہ عصر کا وقت ایک مثل سایہ ہونے کے بعد شروع ہوجاتاہے۔ خود حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی مقام پر متعددروایات سے عصر کا اوّل وقت بیان فرمایاہے۔ جو ایک سایہ ہونے پر شروع ہوجاتاہے۔جو کہ مختار مذہب ہے اور دوسرے مقام پر اس کی تفصیل ہے۔

حدیث نمبر : 536
حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا سفيان، قال حفظناه من الزهري عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا اشتد الحر فأبردوا بالصلاة، فإن شدة الحر من فيح جهنم‏"‏‏. ‏
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا اس حدیث کو ہم نے زہری سے سن کر یاد کیا، وہ سعید بن مسیب کے واسطہ سے بیان کرتے ہیں، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ جب گرمی تیز ہو جائے تو نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو، کیونکہ گرمی کی تیزی دوزخ کی آگ کی بھاپ کی وجہ سے ہوتی ہے۔

حدیث نمبر : 537
‏"‏ واشتكت النار إلى ربها فقالت يا رب أكل بعضي بعضا‏.‏ فأذن لها بنفسين نفس في الشتاء، ونفس في الصيف، فهو أشد ما تجدون من الحر، وأشد ما تجدون من الزمهرير‏"‏‏. ‏
دوزخ نے اپنے رب سے شکایت کی کہ اے میرے رب! ( آگ کی شدت کی وجہ سے ) میرے بعض حصہ نے بعض حصہ کو کھا لیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دی، ایک سانس جاڑے میں اور ایک سانس گرمی میں۔ اب انتہائی سخت گرمی اور سخت سردی جو تم لوگ محسوس کرتے ہو وہ اسی سے پیدا ہوتی ہے۔

تشریح : دوزخ نے حقیقت میں شکوہ کیا، وہ بات کرسکتی ہے جب کہ آیت شریفہ ویوم نقول لجہنم ( ق: 30 ) میں وارد ہے کہ ہم قیامت کے دن دوزخ سے پوچھیں گے کہ کیا تیرا پیٹ بھر گیا، وہ جواب دے گی کہ ابھی تک توبہت گنجائش باقی ہے۔ وقال عیاض انہ الاظہر واللہ قادر علی خلق الحیاۃ بجزءمنہا حتی تکلم اویخلق لہا کلا مایسمعہ من شاءمن خلقہ وقال القرطبی لا احالۃ فی حمل اللفظ علی حقیقتہ واذا اخبر الصادق بامرجائز لم یحتج الی تاویلہ فحملہ علی حقیقتہ اولیٰ۔ ( مرعاۃ المفاتیح،ج 1، ص: 392 ) یعنی عیاض نے کہا کہ یہی امر ظاہر ہے اللہ پاک قادر ہے کہ دوزخ کو کلام کرنے کی طاقت بخشے اوراپنی مخلوق میں سے جسے چاہے اس کی بات سنادے۔ قرطبی کہتے ہیں کہ اس امر کو حقیقت پر محمول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ اور جب صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک امرجائز کی خبردی ہے تو اس کی تاویل کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ اس کو حقیقت ہی پر محمول کیا جانا مناسب ہے۔

علامہ شوکانی فرماتے ہیں: اختلف العلماءفی معناہ فقال بعضہم ہو علی ظاہرہ وقیل بل ہو علی وجہ التشبیہ والاستعارۃ وتقدیرہ ان شدۃ الحر تشبہ نارجہنم فاحذروہ واجتنبوا ضررہ قال والاول اظہر و قال النووی ہو الصواب لانہ ظاہر الحدیث ولامانع من حملہ علی حقیقتہ فوجب الحکم بانہ علی ظاہرہ انتہیٰ۔ ( نیل ) یعنی اس کے معنے میں بعض اہل علم اس کو اپنے ظاہر پر رکھتے ہیں، بعض کہتے ہیں کہ اس حرارت کو دوزخ کی آگ سے تشبیہ دی گئی ہے اورکہا گیاہے کہ اس کے ضررسے بچو اور اوّل مطلب ہی ظاہر ہے۔ امام نووی کہتے ہیں کہ یہی صواب ہے، اس لیے کہ حدیث ظاہرہے اور اسے حقیقت پر محمول کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے۔

حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب مرحوم فرماتے ہیں کہ دوزخ گرمی میں سانس نکالتی ہے، یعنی دوزخ کی بھاپ اوپر کو نکلتی ہے اور زمین کے رہنے والوں کو لگتی ہے، اس کو سخت گرمی معلوم ہوتی ہے اورجاڑے میں اندر کو سانس لیتی ہے تواوپر گرمی نہیں محسوس ہوتی، بلکہ زمین کی ذاتی سردی غالب آکر رہنے والوں کو سردی محسوس ہوتی ہے۔ اس میں کوئی بات عقل سلیم کے خلاف نہیں۔ اور حدیث میں شبہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ زمین کے اندر دوزخ موجود ہے۔ جیالوجی والے کہتے ہیں کہ تھوڑے فاصلہ پر زمین کے اندر ایسی گرمی ہے کہ وہاں کے تمام عنصرپانی کی طرح پگھلے رہتے ہیں۔ اگرلوہا وہاں پہنچ جائے تواسی دم گل کر پانی ہوجائے۔
سفیان ثوری کی روایت جوحدیث ہذا کے آخر میں درج ہے اسے خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب بدءالخلق میں اوریحییٰ کی روایت کو امام احمد رحمہ اللہ نے وصل کیاہے۔ لیکن ابوعوانہ کی روایت نہیں ملی۔

حدیث نمبر : 538
حدثنا عمر بن حفص، قال حدثنا أبي قال، حدثنا الأعمش، حدثنا أبو صالح، عن أبي سعيد، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أبردوا بالظهر، فإن شدة الحر من فيح جهنم‏"‏‏. ‏ تابعه سفيان ويحيى وأبو عوانة عن الأعمش‏.‏
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا کہا مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوصالح ذکوان نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( کہ گرمی کے موسم میں ) ظہر کو ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے پیدا ہوتی ہے۔ اس حدیث کی متابعت سفیان ثوری، یحییٰ اور ابوعوانہ نے اعمش کے واسطہ سے کی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ سفرمیں ظہر کو ٹھنڈے وقت میں پڑھنا

حدیث نمبر : 539
حدثنا آدم بن أبي إياس، قال حدثنا شعبة، قال حدثنا مهاجر أبو الحسن، مولى لبني تيم الله قال سمعت زيد بن وهب، عن أبي ذر الغفاري، قال كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، فأراد المؤذن أن يؤذن للظهر فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أبرد‏"‏‏. ‏ ثم أراد أن يؤذن فقال له ‏"‏ أبرد‏"‏‏. ‏ حتى رأينا فىء التلول، فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن شدة الحر من فيح جهنم، فإذا اشتد الحر فأبردوا بالصلاة‏"‏‏. ‏ وقال ابن عباس تتفيأ تتميل‏.‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے بنی تیم اللہ کے غلام مہاجر ابوالحسن نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زید بن وہب جہنی سے سنا، وہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے تھے کہ انھوں نے کہا کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ مؤذن نے چاہا کہ ظہر کی اذان دے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وقت کو ٹھنڈا ہونے دو، مؤذن نے ( تھوڑی دیر بعد ) پھر چاہا کہ اذان دے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھنڈا ہونے دے۔ جب ہم نے ٹیلے کا سایہ ڈھلا ہوا دیکھ لیا۔ ( تب اذان کہی گئی ) پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گرمی کی تیزی جہنم کی بھاپ کی تیزی سے ہے۔ اس لیے جب گرمی سخت ہو جایا کرے تو ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا یتفیئو ( کا لفظ جو سورہ نحل میں ہے ) کے معنے یتمیل ( جھکنا، مائل ہونا ) ہیں۔

تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عادت ہے کہ حدیث میں کوئی لفظ ایسا آجائے جوقرآن میں بھی ہو توساتھ ہی قرآن کے لفظ کی بھی تفسیر کردیتے ہیں۔ یہاں حدیث میں یتفیا کا لفظ ہے جو قرآن مجید میں یتفیؤا مذکور ہواہے، مادہ ہردو کا ایک ہی ہے، اس لیے اس کی تفسیر بھی نقل کردی ہے۔ پوری آیت سورۃ نحل میں ہے جس میں ذکر ہے کہ ہرچیز کا سایہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنے کے لیے بھی دائیں اورکبھی بائیں جھکتا رہتاہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بیان میں کہ ظہر کا وقت سورج ڈھلنے پر ہے

وقال جابر كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي بالهاجرة
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کی گرمی میں ( ظہر کی ) نماز پڑھتے تھے۔

حدیث نمبر : 540
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني أنس بن مالك، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج حين زاغت الشمس فصلى الظهر، فقام على المنبر، فذكر الساعة، فذكر أن فيها أمورا عظاما ثم قال ‏"‏ من أحب أن يسأل عن شىء فليسأل، فلا تسألوني عن شىء إلا أخبرتكم ما دمت في مقامي هذا‏"‏‏. ‏ فأكثر الناس في البكاء، وأكثر أن يقول ‏"‏ سلوني‏"‏‏. ‏ فقام عبد الله بن حذافة السهمي فقال من أبي قال ‏"‏ أبوك حذافة‏"‏‏. ‏ ثم أكثر أن يقول ‏"‏ سلوني‏"‏‏. ‏ فبرك عمر على ركبتيه فقال رضينا بالله ربا، وبالإسلام دينا، وبمحمد نبيا‏.‏ فسكت ثم قال ‏"‏ عرضت على الجنة والنار آنفا في عرض هذا الحائط فلم أر كالخير والشر‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا ہم سے شعیب نے زہری کی روایت سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ جب سورج ڈھلا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم حجرہ سے باہر تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھی۔ پھر منبر پر تشریف لائے۔ اور قیامت کا ذکر فرمایا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت میں بڑے عظیم امور پیش آئیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کسی کو کچھ پوچھنا ہو تو پوچھ لے۔ کیونکہ جب تک میں اس جگہ پر ہوں تم مجھ سے جو بھی پوچھو گے۔ میں اس کا جواب ضرور دوں گا۔ لوگ بہت زیادہ رونے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر فرماتے جاتے تھے کہ جو کچھ پوچھنا ہو پوچھو۔ عبداللہ بن حذافہ سہمی کھڑے ہوئے اور دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے باپ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے باپ حذافہ تھے۔ آپ اب بھی برابر فرما رہے تھے کہ پوچھو کیا پوچھتے ہو۔ اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ ادب سے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور انھوں نے فرمایا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے مالک ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نبی ہونے سے راضی اور خوش ہیں۔ ( پس اس گستاخی سے ہم باز آتے ہیں کہ آپ سے جا اور بے جا سوالات کریں ) اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ابھی ابھی میرے سامنے جنت اور جہنم اس دیوار کے کونے میں پیش کی گئی تھی۔ پس میں نے نہ ایسی کوئی عمدہ چیز دیکھی ( جیسی جنت تھی ) اور نہ کوئی ایسی بری چیز دیکھی ( جیسی دوزخ تھی )

تشریح : یہ حدیث مختصرکتاب العلم میں بھی گزر چکی ہے۔ لفظ خرج حین زاغت الشمس سے ترجمہ باب نکلتاہے کہ ظہر کی نماز کا وقت سورج ڈھلتے ہی شروع ہوجاتاہے۔ اس حدیث میں کچھ سوال وجواب کا بھی ذکر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر لگی تھی کہ منافق لوگ امتحان کے طور پر آپ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آیا اورفرمایا کہ جو تم چاہو مجھ سے پوچھو۔ عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو لوگ کسی اورکا بیٹا کہتے تھے۔ لہٰذا انھوں نے تحقیق چاہی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے خوش ہوئے۔ لوگ آپ کی خفگی دیکھ کر خوف سے رونے لگے کہ اب خدا کا عذاب آئے گا یا جنت ودوزخ کا ذکر سن کر رونے لگے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے آپ کا غصہ معلوم کرکے وہ الفاظ کہے جن سے آپ کا غصہ جاتا رہا۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم )

حدیث نمبر : 541
حدثنا حفص بن عمر، قال حدثنا شعبة، عن أبي المنهال، عن أبي برزة، كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي الصبح وأحدنا يعرف جليسه، ويقرأ فيها ما بين الستين إلى المائة، ويصلي الظهر إذا زالت الشمس، والعصر وأحدنا يذهب إلى أقصى المدينة ثم يرجع والشمس حية، ونسيت ما قال في المغرب، ولا يبالي بتأخير العشاء إلى ثلث الليل‏.‏ ثم قال إلى شطر الليل‏.‏ وقال معاذ قال شعبة ثم لقيته مرة فقال أو ثلث الليل‏.‏
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ابوالمنہال کی روایت سے، انھوں نے ابوبرزہ ( فضلہ بن عبید رضی اللہ عنہ ) سے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز اس وقت پڑھتے تھے جب ہم اپنے پاس بیٹھے ہوئے شخص کو پہچان لیتے تھے۔ صبح کی نماز میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ساٹھ سے سو تک آیتیں پڑھتے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا۔ اور عصر کی نماز اس وقت کہ ہم مدینہ منورہ کی آخری حد تک ( نماز پڑھنے کے بعد ) جاتے لیکن سورج اب بھی تیز رہتا تھا۔ نماز مغرب کا حصرت انس رضی اللہ عنہ نے جو وقت بتایا تھا وہ مجھے یاد نہیں رہا۔ اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کو تہائی رات تک دیر کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، پھر ابوالمنہال نے کہا کہ آدھی رات تک ( موخر کرنے میں ) کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ اور معاذ نے کہا کہ شعبہ نے فرمایا کہ پھر میں دوبارہ ابوالمنہال سے ملا تو انھوں نے فرمایا “ یا تہائی رات تک۔ ”

حدیث نمبر : 542
حدثنا محمد ـ يعني ابن مقاتل ـ قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا خالد بن عبد الرحمن، حدثني غالب القطان، عن بكر بن عبد الله المزني، عن أنس بن مالك، قال كنا إذا صلينا خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم بالظهائر فسجدنا على ثيابنا اتقاء الحر‏.‏
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انھوں نے کہا ہم سے خالد بن عبدالرحمن نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے غالب قطان نے بکر بن عبداللہ مزنی کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے آپ نے فرمایا کہ جب ہم ( گرمیوں میں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ظہر کی نماز دوپہر دن میں پڑھتے تھے تو گرمی سے بچنے کے لیے کپڑوں پر سجدہ کیا کرتے۔

معلوم ہوا کہ شدت گرمی میں جب ایسی جگہ نماز پڑھنے کا اتفاق ہو کہ نہ کوئی سایہ ہو نہ فرش ہو تو کپڑے پر سجدہ کرلینا جائز ہے۔
 
Top