• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نماز عشاء ( کے لیے انتظار کرنے ) کی فضیلت

حدیث نمبر : 566
حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عروة، أن عائشة، أخبرته قالت، أعتم رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة بالعشاء، وذلك قبل أن يفشو الإسلام، فلم يخرج حتى قال عمر نام النساء والصبيان‏.‏ فخرج فقال لأهل المسجد ‏"‏ ما ينتظرها أحد من أهل الأرض غيركم‏"‏‏. ‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے عقیل کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے عروہ سے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں خبر دی کہ ایک رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز دیر سے پڑھی۔ یہ اسلام کے پھیلنے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک باہر تشریف نہیں لائے جب تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ نہ فرمایا کہ عورتیں اور بچے سو گئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہارے علاوہ دنیا میں کوئی بھی انسان اس نماز کا انتظار نہیں کرتا۔

یعنی اس وقت تک مدینہ کے سوا اور کہیں مسلمان نہ تھے، یا یہ کہ ایسی شان والی نماز کے انتظار کا ثواب اللہ نے صرف امت محمدیہ ہی کی قسمت میں رکھا ہے۔

حدیث نمبر : 567
حدثنا محمد بن العلاء، قال أخبرنا أبو أسامة، عن بريد، عن أبي بردة، عن أبي موسى، قال كنت أنا وأصحابي الذين، قدموا معي في السفينة نزولا في بقيع بطحان، والنبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة، فكان يتناوب النبي صلى الله عليه وسلم عند صلاة العشاء كل ليلة نفر منهم، فوافقنا النبي ـ عليه السلام ـ أنا وأصحابي وله بعض الشغل في بعض أمره فأعتم بالصلاة حتى ابهار الليل، ثم خرج النبي صلى الله عليه وسلم فصلى بهم، فلما قضى صلاته قال لمن حضره ‏"‏ على رسلكم، أبشروا إن من نعمة الله عليكم أنه ليس أحد من الناس يصلي هذه الساعة غيركم‏"‏‏. ‏ أو قال ‏"‏ ما صلى هذه الساعة أحد غيركم‏"‏‏. ‏ لا يدري أى الكلمتين قال‏.‏ قال أبو موسى فرجعنا ففرحنا بما سمعنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا کہا ہم سے ابواسامہ نے برید کے واسطہ سے، انھوں نے ابربردہ سے انھوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے، آپ نے فرمایا کہ میں نے اپنے ان ساتھیوں کے ساتھ جو کشتی میں میرے ساتھ ( حبشہ سے ) آئے تھے “ بقیع بطحان ” میں قیام کیا۔ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف رکھتے تھے۔ ہم میں سے کوئی نہ کوئی عشاء کی نماز میں روزانہ باری مقرر کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا۔ اتفاق سے میں اور میرے ایک ساتھی ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی کام میں مشغول تھے۔ ( کسی ملی معاملہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گفتگو فرما رہے تھے ) جس کی وجہ سے نماز میں دیر ہو گئی اور تقریباً آدھی رات گزر گئی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور نماز پڑھائی۔ نماز پوری کر چکے تو حاضرین سے فرمایا کہ اپنی اپنی جگہ پر وقار کے ساتھ بیٹھے رہو اور ایک خوش خبری سنو۔ تمہارے سوا دنیا میں کوئی بھی ایسا آدمی نہیں جو اس وقت نماز پڑھتا ہو، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ تمہارے سوا اس وقت کسی ( امت ) نے بھی نماز نہیں پڑھی تھی۔ یہ یقین نہیں کہ آپ نے ان دو جملوں میں سے کون سا جملہ کہا تھا۔ پھر راوی نے کہا کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ پس ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سن کر بہت ہی خوش ہو کر لوٹے۔

تشریح : حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ہجرت حبشہ سے واپسی کے بعد بقیع بطحان میں قیام فرمایا۔ بقیع ہر اس جگہ کو کہا جاتا تھا، جہاں مختلف قسم کے درخت وغیرہ ہوتے۔ بطحان نام کی وادی مدینہ کے قریب ہی تھی۔

امام سیوطی فرماتے ہیں کہ امم سابقہ میں عشاءکی نماز نہ تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ بشارت فرمائی جسے سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نہایت خوشی حاصل ہوئی۔ یہ مطلب بھی ہوسکتاہے کہ مدینہ شریف کی دیگرمساجد میں لوگ نماز عشاءسے فارغ ہوچکے لیکن مسجدنبوی کے نمازی انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے اس لیے ان کو یہ فضیلت حاصل ہوئی۔ بہرحال عشاءکی نماز کے لیے تاخیر مطلوب ہے۔ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگرمیری امت پر شاق نہ گزرتا تومیں عشاء کی نماز تہائی رات گزرنے پر ہی پڑھا کرتا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بیان میں کہ نماز عشاء پڑھنے سے پہلے سونا ناپسند ہے

حدیث نمبر : 568
حدثنا محمد بن سلام، قال أخبرنا عبد الوهاب الثقفي، قال حدثنا خالد الحذاء، عن أبي المنهال، عن أبي برزة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يكره النوم قبل العشاء والحديث بعدها‏.‏
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا ابوالمنہال سے، انھوں نے ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے تھے

جب خطرہ ہو کہ عشاء کے پہلے سونے سے نماز باجماعت چلی جائے گی تو سونا جائز نہیں۔ ہردو احادیث میں جو آگے آ رہی ہے، یہی تطبیق بہتر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اگرنیند کا غلبہ ہو جائے تو عشاء سے پہلے بھی سونا درست ہے

حدیث نمبر : 569
حدثنا أيوب بن سليمان، قال حدثني أبو بكر، عن سليمان، قال صالح بن كيسان أخبرني ابن شهاب، عن عروة، أن عائشة، قالت أعتم رسول الله صلى الله عليه وسلم بالعشاء حتى ناداه عمر الصلاة، نام النساء والصبيان‏.‏ فخرج فقال ‏"‏ ما ينتظرها أحد من أهل الأرض غيركم‏"‏‏. ‏ قال ولا يصلى يومئذ إلا بالمدينة، وكانوا يصلون فيما بين أن يغيب الشفق إلى ثلث الليل الأول‏.‏
ہم سے ایوب بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبکر نے سلیمان سے، ان سے صالح بن کیسان نے بیان کیا کہ مجھے ابن شہاب نے عروہ سے خبر دی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ عشاء کی نماز میں دیر فرمائی۔ یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ نے پکارا، نماز! عورتیں اور بچے سب سو گئے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روئے زمین پر تمہارے علاوہ اور کوئی اس نماز کا انتظار نہیں کرتا۔ راوی نے کہا، اس وقت یہ نماز ( باجماعت ) مدینہ کے سوا اور کہیں نہیں پڑھی جاتی تھی۔ صحابہ اس نماز کو شام کی سرخی کے غائب ہونے کے بعد رات کے پہلے تہائی حصہ تک ( کسی وقت بھی ) پڑھتے تھے۔

تشریح : حضرت امیرالدنیا فی الحدیث یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ عشاء سے پہلے سونا یا اس کے بعد بات چیت کرنا اس لیے ناپسندہے کہ پہلے سونے میں عشاءکی نماز کے فوت ہونے کا خطرہ ہے اور دیر تک بات چیت کرنے میں صبح کی نماز فوت ہونے کا خطرہ ہے۔ ہاں اگرکوئی شخص ان خطرات سے بچ سکے تو اس کے لیے عشاءسے پہلے سونا بھی جائز اوربعد میں بات چیت بھی جائز جیسا کہ روایات واردہ سے ظاہر ہے۔ اور حدیث میں یہ جو فرمایا کہ تمہارے سوا اس نماز کا کوئی انتظارنہیں کرتا، اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی امتوں میں کسی بھی امت پر اس نماز کو فرض نہیں کیاگیا، یہ نماز اہل اسلام ہی کے لیے مقرر کی گئی یا یہ مطلب ہے کہ مدینہ کی دوسری مساجد میں سب لوگ اوّل وقت ہی پڑھ کر سوگئے ہیں۔ صرف تم ہی لوگ ہو جو کہ ابھی تک اس کا انتظار کررہے ہو۔

حدیث نمبر : 570
حدثنا محمود، قال أخبرنا عبد الرزاق، قال أخبرني ابن جريج، قال أخبرني نافع، قال حدثنا عبد الله بن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم شغل عنها ليلة، فأخرها حتى رقدنا في المسجد، ثم استيقظنا ثم رقدنا ثم استيقظنا، ثم خرج علينا النبي صلى الله عليه وسلم ثم قال ‏"‏ ليس أحد من أهل الأرض ينتظر الصلاة غيركم‏"‏‏. ‏ وكان ابن عمر لا يبالي أقدمها أم أخرها إذا كان لا يخشى أن يغلبه النوم عن وقتها، وكان يرقد قبلها‏. قال ابن جريج: قلت لعطاء‏
ہم سے محمود نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں ابن جریج نے خبر دی، انھوں نے کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی، انھوں نے کہا مجھے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات کسی کام میں مشغول ہو گئے اور بہت دیر کی۔ ہم ( نماز کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ) مسجد ہی میں سو گئے، پھر ہم بیدار ہوئے، پھر ہم سو گئے، پھر ہم بیدار ہوئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ دنیا کا کوئی شخص بھی تمہارے سوا اس نماز کا انتظار نہیں کرتا۔ اگر نیند کا غلبہ نہ ہوتا تو ابن عمر رضی اللہ عنہما عشاء کو پہلے پڑھنے یا بعد میں پڑھنے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ کبھی نماز عشاء سے پہلے آپ سو بھی لیتے تھے۔ ابن جریج نے کہا میں نے عطاء سے معلوم کیا۔

حدیث نمبر : 571
وقال سمعت ابن عباس، يقول أعتم رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة بالعشاء حتى رقد الناس واستيقظوا، ورقدوا واستيقظوا، فقام عمر بن الخطاب فقال الصلاة‏.‏ قال عطاء قال ابن عباس فخرج نبي الله صلى الله عليه وسلم كأني أنظر إليه الآن، يقطر رأسه ماء، واضعا يده على رأسه فقال ‏"‏ لولا أن أشق على أمتي لأمرتهم أن يصلوها هكذا‏"‏‏. ‏ فاستثبت عطاء كيف وضع النبي صلى الله عليه وسلم على رأسه يده كما أنبأه ابن عباس، فبدد لي عطاء بين أصابعه شيئا من تبديد، ثم وضع أطراف أصابعه على قرن الرأس ثم ضمها، يمرها كذلك على الرأس حتى مست إبهامه طرف الأذن مما يلي الوجه على الصدغ، وناحية اللحية، لا يقصر ولا يبطش إلا كذلك وقال ‏"‏ لولا أن أشق على أمتي لأمرتهم أن يصلوا هكذا‏"‏‏. ‏
تو انھوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات عشاء کی نماز میں دیر کی جس کے نتیجہ میں لوگ ( مسجد ہی میں ) سو گئے۔ پھر بیدار ہوئے پھر سو گئے ‘ پھر بیدار ہوئے۔ آخر میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اٹھے اور پکارا “ نماز ” عطاء نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے تشریف لائے۔ وہ منظر میری نگاہوں کے سامنے ہے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے اور آپ ہاتھ سر پر رکھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر میری امت کے لیے مشکل نہ ہو جاتی، تو میں انھیں حکم دیتا کہ عشاء کی نماز کو اسی وقت پڑھیں۔ میں نے عطاء سے مزید تحقیق چاہی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سر پر رکھنے کی کیفیت کیا تھی؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انھیں اس سلسلے میں کس طرح خبر دی تھی۔ اس پر حضرت عطاء نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں تھوڑی سی کھول دیں اور انھیں سر کے ایک کنارے پر رکھا پھر انھیں ملا کر یوں سر پر پھیرنے لگے کہ ان کا انگوٹھا کان کے اس کنارے سے جو چہرے سے قریب ہے اور داڑھی سے جا لگا۔ نہ سستی کی اور نہ جلدی، بلکہ اس طرح کیا اور کہا کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میری امت پر مشکل نہ گزرتی تو میں حکم دیتا کہ اس نماز کو اسی وقت پڑھا کریں۔

صحابہ کرام تاخیر کی وجہ سے نماز سے پہلے سو گئے۔ پس معلوم ہوا کہ ایسے وقت میں نماز عشاء سے پہلے بھی سونا جائز ہے۔ بشرطیکہ نماز عشاءباجماعت پڑھی جاسکے۔ جیساکہ یہاں صحابہ کرام کا عمل منقول ہے یہی باب کا مقصد ہے۔
لایقصر کا مطلب یہ کہ جیسے میں ہاتھ پھیر رہا ہوں اسی طرح پھیرا نہ اس سے جلدی پھیرا نہ اس سے دیر میں۔ بعض نسخوں میں لفظ لایعصر ہے تو ترجمہ یوں ہوگا۔ نہ بالوں کو نچوڑتے نہ ہاتھ میں پکڑتے بلکہ اسی طرح کرتے۔ یعنی انگلیوں سے بالوں کو دبا کر پانی نکال رہے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک رہتا ہے

وقال أبو برزة كان النبي صلى الله عليه وسلم يستحب تأخيرها‏.‏
اور ابوبرزہ رضی اللہ عنہ صحابی نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس میں دیر کرنا پسند فرمایا کرتے تھے۔

یہ اس حدیث کا ٹکڑاہے جو اوپر باب وقت العصر میں موصولاً گزر چکی ہے۔

حدیث نمبر : 572
حدثنا عبد الرحيم المحاربي، قال حدثنا زائدة، عن حميد الطويل، عن أنس، قال أخر النبي صلى الله عليه وسلم صلاة العشاء إلى نصف الليل، ثم صلى ثم قال ‏"‏ قد صلى الناس وناموا، أما إنكم في صلاة ما انتظرتموها‏"‏‏. ‏ وزاد ابن أبي مريم أخبرنا يحيى بن أيوب حدثني حميد سمع أنسا كأني أنظر إلى وبيص خاتمه ليلتئذ‏.‏
ہم سے عبدالرحیم محاربی نے بیان کیا، کہا ہم سے زائدہ نے حمید طویل سے، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ایک دن ) عشاء کی نماز آدھی رات گئے پڑھی۔ اور فرمایا کہ دوسرے لوگ نماز پڑھ کر سو گئے ہوں گے۔ ( یعنی دوسری مساجد میں پڑھنے والے مسلمان ) اور تم لوگ جب تک نماز کا انتظار کرتے رہے ( گویا سارے وقت ) نماز ہی پڑھتے رہے۔ ابن مریم نے اس میں یہ زیادہ کیا کہ ہمیں یحییٰ بن ایوب نے خبر دی۔ کہا مجھ سے حمید طویل نے بیان کیا، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ سنا، گویا اس رات آپ کی انگوٹھی کی چمک کا نقشہ اس وقت بھی میری نظروں کے سامنے چمک رہا ہے۔

ابن مریم کی اس تعلیق کے بیان کرنے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ حمید کا سماع حضرت انس رضی اللہ عنہ سے صراحتاً ثابت ہوجائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نماز فجر کی فضیلت کے بیان میں

حدیث نمبر : 573
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن إسماعيل، حدثنا قيس، قال لي جرير بن عبد الله كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم إذ نظر إلى القمر ليلة البدر فقال ‏"‏ أما إنكم سترون ربكم كما ترون هذا، لا تضامون ـ أو لا تضاهون ـ في رؤيته، فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس، وقبل غروبها فافعلوا‏"‏‏. ‏ ثم قال ‏"‏ فسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها‏"‏‏.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے اسماعیل سے، کہا ہم سے قیس نے بیان کیا، کہا مجھ سے جریر بن عبداللہ نے بیان کیا، کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کی طرف نظر اٹھائی جو چودھویں رات کا تھا۔ پھر فرمایا کہ تم لوگ بے ٹوک اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو ( اسے دیکھنے میں تم کو کسی قسم کی بھی مزاحمت نہ ہو گی ) یا یہ فرمایا کہ تمہیں اس کے دیدار میں مطلق شبہ نہ ہو گا اس لیے اگر تم سے سورج کے طلوع اور غروب سے پہلے ( فجر اور عصر ) کی نمازوں کے پڑھنے میں کوتاہی نہ ہو سکے تو ایسا ضرور کرو۔ ( کیونکہ ان ہی کے طفیل دیدار الٰہی نصیب ہو گا یا ان ہی وقتوں میں یہ رویت ملے گی ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی “ پس اپنے رب کے حمد کی تسبیح پڑھ سورج کے نکلنے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے۔ ” امام ابوعبداللہ بخاری رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ ابن شہاب نے اسماعیل کے واسطہ سے جو قیس سے بواسطہ جریر ( راوی ہیں ) یہ زیادتی نقل کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ تم اپنے رب کو صاف دیکھو گے۔ ”

جامع صغیر میں امام سیوطی فرماتے ہیں کہ عصر اورفجر کی تخصیص اس لیے کی گئی کہ دیدارِ الٰہی ان ہی وقتوں کے اندازے پر حاصل ہوگا۔

حدیث نمبر : 574
حدثنا هدبة بن خالد، قال حدثنا همام، حدثني أبو جمرة، عن أبي بكر بن أبي موسى، عن أبيه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ من صلى البردين دخل الجنة‏"‏‏. ‏ وقال ابن رجاء حدثنا همام عن أبي جمرة أن أبا بكر بن عبد الله بن قيس أخبره بهذا‏.‏ حدثنا إسحق، عن حبان: حدثنا همام: حدثنا أبو جمرة، عن أبي بكر بن عبد الله، عن أبيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله.
ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے، انھوں نے کہا کہ ہم سے ابوجمرہ نے بیان کیا، ابوبکر بن ابی موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے اپنے باپ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ٹھنڈے وقت کی دو نمازیں ( وقت پر ) پڑھیں ( فجر اور عصر ) تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ ابن رجاء نے کہا کہ ہم سے ہمام نے ابوجمرہ سے بیان کیا کہ ابوبکر بن عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ نے انھیں اس حدیث کی خبر دی۔ ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم سے حبان نے، انھوں نے کہا کہ ہم سے ہمام نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوجمرہ نے بیان کیا ابوبکر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، پہلی حدیث کی طرح۔

مقصد یہ ہے کہ ان ہردو نمازوں کا وقت پر پابندی کے ساتھ ادا کیا۔ چونکہ ان اوقات میں اکثر غفلت ہوسکتی ہے اس لیے اس خصوصیت سے ان کا ذکر کیا، عصر کا وقت کاروبار میں انتہائی مشغولیت اورفجر کا وقت میٹھی نیند سونے کا وقت ہے، مگر اللہ والے ان کی خاص طور پر پابندی کرتے ہیں۔ عبداللہ بن قیس ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا نام ہے۔ اس تعلیق سے حضرت امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ ابوبکربن ابی موسیٰ جو اگلی روایت میں مذکور ہیں وہ حضرت ابوموسیٰ اشعری کے بیٹے ہیں۔ اس تعلیق کو ذہلی نے موصولاً روایت کیاہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نماز فجر کا وقت

حدیث نمبر : 575
حدثنا عمرو بن عاصم، قال حدثنا همام، عن قتادة، عن أنس، أن زيد بن ثابت، حدثه أنهم، تسحروا مع النبي صلى الله عليه وسلم ثم قاموا إلى الصلاة‏.‏ قلت كم بينهما قال قدر خمسين أو ستين ـ يعني آية ـ ح‏.‏
ہم سے عمرو بن عاصم نے یہ حدیث بیان کی، کہا ہم سے ہمام نے یہ حدیث بیان کی قتادہ سے، انھوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ یزید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ ان لوگوں نے ( ایک مرتبہ ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی، پھر نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں نے دریافت کیا کہ ان دونوں کے درمیان کس قدر فاصلہ رہا ہو گا۔ فرمایا کہ جتنا پچاس یا ساٹھ آیت پڑھنے میں صرف ہوتا ہے اتنا فاصلہ تھا۔

پچاس یا ساٹھ آیتیں دس منٹ میں پڑھی جاسکتی ہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سحری دیر سے کھانا مسنون ہے۔ جو لوگ سویرے ہی سحری کھالیتے ہیں وہ سنت کے خلاف کرتے ہیں۔

حدیث نمبر : 576
حدثنا حسن بن صباح، سمع روحا، حدثنا سعيد، عن قتادة، عن أنس بن مالك، أن نبي الله صلى الله عليه وسلم وزيد بن ثابت تسحرا، فلما فرغا من سحورهما قام نبي الله صلى الله عليه وسلم إلى الصلاة فصلى‏.‏ قلنا لأنس كم كان بين فراغهما من سحورهما ودخولهما في الصلاة قال قدر ما يقرأ الرجل خمسين آية‏.‏
ہم سے حسن بن صباح نے یہ حدیث بیان کی، انھوں نے روح بن عبادہ سے سنا، انھوں نے کہا ہم سے سعید نے بیان کیا، انھوں نے قتادہ سے روایت کیا، انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے سحری کھائی، پھر جب وہ سحری کھا کر فارغ ہوئے تو نماز کے لیے اٹھے اور نماز پڑھی۔ ہم نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کی سحری سے فراغت اور نماز کی ابتداء میں کتنا فاصلہ تھا؟ انھوں نے فرمایا کہ اتنا کہ ایک شخص پچاس آیتیں پڑھ سکے۔

حدیث نمبر : 577
حدثنا إسماعيل بن أبي أويس، عن أخيه، عن سليمان، عن أبي حازم، أنه سمع سهل بن سعد، يقول كنت أتسحر في أهلي ثم يكون سرعة بي أن أدرك صلاة الفجر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا اپنے بھائی عبدالحمید بن ابی اویس سے، انھوں نے سلیمان بن بلال سے، انھوں نے ابی حازم سلمہ بن دینار سے کہ انھوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ صحابی سے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ میں اپنے گھر سحری کھاتا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز فجر پانے کے لیے مجھے جلدی کرنی پڑتی تھی۔

حدیث نمبر : 578
حدثنا يحيى بن بكير، قال أخبرنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، قال أخبرني عروة بن الزبير، أن عائشة، أخبرته قالت، كن نساء المؤمنات يشهدن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الفجر متلفعات بمروطهن، ثم ينقلبن إلى بيوتهن حين يقضين الصلاة، لا يعرفهن أحد من الغلس‏.‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں لیث نے خبر دی، انھوں نے عقیل بن خالد سے، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں خبر دی کہ مسلمان عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز فجر پڑھنے چادروں میں لپٹ کر آتی تھیں۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر جب اپنے گھروں کو واپس ہوتیں تو انھیں اندھیرے کی وجہ سے کوئی شخص پہچان نہیں سکتا تھا۔

تشریح : امام الدنیا فی الحدیث قدس سرہ نے جس قدر احادیث یہاں بیان کی ہیں، ان سے یہی ظاہر ہوتاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجرکی نماز صبح صادق کے طلوع ہونے کے فوراً بعد شروع کر دیا کرتے تھے اور ابھی کافی اندھیرا رہ جاتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ختم ہوجایا کرتی تھی۔ لفظ “ غلس ” کا یہی مطلب ہے کہ فجر کی نماز آپ اندھیرے ہی میں اوّل وقت ادا فرمایا کرتے تھے۔ ہاں ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوقات صلوٰۃ کی تعلیم کے لیے فجر کی نماز دیر سے بھی ادا کی ہے تاکہ اس نماز کا بھی اوّل وقت “ غلس ” اور آخر وقت “ اسفار ” معلوم ہوجائے۔ اس کے بعد ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز اندھیرے ہی میں ادا فرمائی ہے۔

جیسا کہ حدیث ذیل سے ظاہر ہے۔ عن ابی مسعود الانصاری ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی صلوٰۃ الصبح مرۃ بغلس ثم صلی مرۃ اخری فاسفربہا ثم کانت صلوٰتہ بعدذالک التغلیس حتی مات ولم یعدالی ان یسفر رواہ ابوداؤد ورجالہ فی سنن ابی داؤد رجال الصحیح۔ یعنی ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ نماز فجر غلس ( اندھیرے ) میں پڑھائی اورپھر ایک مرتبہ اسفار ( یعنی اجالے ) میں اس کے بعد ہمیشہ آپ یہ نماز اندھیرے ہی میں پڑھاتے رہے یہاں تک کہ اللہ سے جاملے۔ پھر کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو اسفار یعنی اجالے میں نہیں پڑھایا۔

حدیث “ عائشہ ” کے ذیل میں علامہ شوکانی فرماتے ہیں: والحدیث یدل علی استحباب المبادرۃ بصلوٰۃ الفجر فی اول الوقت وقد اختلف العلماءفی ذلک فذہب العترۃ ومالک والشافعی و احمد واسحاق وابوثور والاوزاعی وداؤد بن علی وابوجعفر الطبری وہوالمروی عن عمروبن عثمان وابن الزبیر وانس وابی موسیٰ وابی ہریرۃ الی ان التغلیس افضل وان الاسفار غیرمندوب وحکی ہذاالقول الحازمی عن بقیۃ الخلفاءالاربعۃ وابن مسعود وابی مسعود الانصاری واہل الحجاز واحتجوا بالاحادیث المذکورۃ فی ہذاالباب وغیرہا ولتصریح ابی مسعود فی الحدیث بانہا کانت صلوٰۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم التغلیس حتیٰ مات ولم یعدالی الاسفار۔ ( نیل، ج2، ص:19 )

خلاصہ یہ کہ اس حدیث اور دیگر احادیث سے یہ روزروشن کی طرح ثابت ہے کہ فجر کی نماز “ غلس ” یعنی اندھیرے ہی میں افضل ہے۔ اورخلفائے اربعہ اوراکثر ائمہ دین امام مالک، شافعی، احمد، اسحاق، واہل بیت نبوی اوردیگر مذکورہ علمائے اعلام کا یہی فتویٰ ہے۔ اور ابومسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ صراحتاً موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر وقت تک غلس ہی میں یہ نماز پڑھائی، چنانچہ مدینہ منورہ اور حرم محترم اورسارے حجاز میں الحمد للہ اہل اسلام کا یہی عمل آج تک موجود ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بیشتر صحابہ کا اس پر عمل رہا جیسا کہ ابن ماجہ میں ہے: عن مغیث بن سمی قال صلیت مع عبداللہ بن الزبیر الصبح بغلس فلما سلم اقبلت علی ابن عمر فقلت ماہذہ الصلوٰۃ قال ہذہ صلوٰتنا کانت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکر وعمر فلما طعن عمر اسفربہا عثمان و اسنادہ صحیح۔ ( تحفۃ الاحوذی، ج1، ص:144 ) یعنی مغیث بن سمی نامی ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ فجر کی نماز غلس میں یعنی اندھیر ے میں پڑھی، سلام پھیرنے کے بعد مقتدیوں میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے۔ ان سے میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتلایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہماری نماز اسی وقت ہوا کرتی تھی اورحضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے زمانوں میں بھی یہ نماز غلس ہی میں ادا کی جاتی رہی۔ مگرجب حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر نماز فجر میں حملہ کیاگیاتو احتیاطاً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے اجالے میں پڑھا۔

اس سے بھی ظاہر ہوا کہ نماز فجر کا بہترین وقت غلس یعنی اندھیرے ہی میں پڑھنا ہے۔ حنفیہ کے ہاں اس کے لیے اسفاریعنی اجالے میں پڑھنا بہتر ماناگیاہے۔ مگردلائل واضحہ کی بناپر یہ خیال درست نہیں۔
حنفیہ کی دلیل رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول مذکور ہے کہ اسفروا بالفجر فانہ اعظم للاجر یعنی صبح کی نماز اجالے میں پڑھو اس کا ثواب زیادہ ہے۔ اس روایت کا یہ مطلب درست نہیں کہ سورج نکلنے کے قریب ہونے پر یہ نماز ادا کرو جیسا کہ آج کل حنفیہ کا عمل ہے۔ اس کا صحیح مطلب وہ ہے جو امام ترمذی نے ائمہ کرام سے نقل کیا ہے۔ چنانچہ امام صاحب فرماتے ہیں: وقال الشافعی واحمد واسحاق معنی الاسفار ان یضح الفجر فلایشک فیہ ولم یروا ان معنی الاسفار تاخیرالصلوٰۃ یعنی امام شافعی رحمۃاللہ علیہ واحمد و اسحاق فرماتے ہیں کہ یہاں اسفار کا مطلب یہ ہے کہ فجر خوب واضح ہوجائے کہ کسی کو شک وشبہ کی گنجائش نہ رہے۔ اور یہ معنی نہیں کہ نماز کو تاخیر کرکے پڑھا جائے ( جیسا کہ حنیفہ کا عام معمول ہے ) بہت سے ائمہ د ین نے اس کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ نماز فجر کواندھیرے میں غلس میں شروع کیا جائے اور قرات اس قدر طویل پڑھی جائے کہ سلام پھیرنے کے وقت خوب اجالا ہوجائے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد رشید امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ ( تفہیم البخاری، پارہ3، ص:33 ) حضرت علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اعلام الموقعین میں بھی یہی تفصیل بیان کی ہے۔

یادرکھنے کی باتیں:
یہ کہ یہ اختلاف مذکورہ محض اوّلیت وافضلیت میں ہے۔ ورنہ اسے ہرشخص جانتا ہے کہ نماز فجر کا اول وقت غلس اورآخروقت طلوع شمس ہے اوردرمیان میں سارے وقت میں یہ نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ اس تفصیل کے بعد تعجب ہے ان عوام وخواص برادران پر جو کبھی غلس میں نماز فجر نہیں پڑھتے۔ بلکہ کسی جگہ اگر غلس میں جماعت نظر آئے تو وہاں سے چلے جاتے ہیں، حتیٰ کہ حرمین شریفین میں بھی کتنے بھائی نماز فجر اوّل وقت جماعت کے ساتھ نہیں پڑھتے، اس خیال کی بناپر کہ یہ ان کا مسلک نہیں ہے۔ یہ عمل اورایسا ذہن بے حد غلط ہے۔ اللہ نیک سمجھ عطا کرے۔ خوداکابر علمائے احناف کے ہاں بعض دفعہ غلس کا عمل رہاہے۔

دیوبند میں نماز فجر غلس میں:
صاحب تفہیم البخاری دیوبندی فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جن احادیث کا ذکر کیاہے، اس میں قابل غوربات یہ ہے کہ تین پہلی احادیث رمضان کے مہینے میں نماز فجر پڑھنے سے متعلق ہیں۔ کیونکہ ان تینو ںمیں ہے کہ ہم سحری کھانے کے بعد نماز پڑھتے تھے۔ اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ رمضان کی ضرورت کی وجہ سے سحری کے بعدفوراً پڑھ لی جاتی رہی ہو کہ سحری کے لیے جو لوگ اٹھے ہیں کہیں درمیان شب کی اس بیداری کے نتیجہ میں وہ غافل ہوکر سونہ جائیں۔ اورنماز ہی فوت ہوجائے۔ چنانچہ دارالعلوم دیوبند میں اکابر کے عہدسے اس پر عمل رہاہے کہ رمضان میں سحر کے فوراً بعد فجر کی نماز شروع ہوجاتی ہے۔ ( تفہیم بخاری، پ3، ص:34 )
محترم نے یہاں جس احتمال کا ذکر فرمایاہے اس کی تردید کے لیے حدیث ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کافی ہے جس میں صاف موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز فجر کے بارے میں ہمیشہ غلس میں پڑھنے کا عمل رہا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے۔ اس میں رمضان وغیر رمضان کا کوئی امتیاز نہ تھا۔
بعض اہل علم نے حدیث اسفار کی یہ تاویل بھی کی ہے کہ گرمیوں میں راتیں چھوٹی ہوتی ہیں اس لیے اسفار کرلیا جائے تاکہ اکثر لوگ شریک جماعت ہوسکیں اورسردیوں میں راتیں طویل ہوتی ہیں اس لیے ان میں یہ نماز غلس ہی میں ادا کی جائے۔
بہرحال دلائل قویہ سے ثابت ہے کہ نماز فجر غلس میں افضل ہے اور اسفار میں جائز ہے۔ اس پر لڑنا، جھگڑنا اوراسے وجہ افتراق بنانا کسی طرح بھی درست نہیں۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں عالموں کو لکھا تھا کہ فجر کی نماز اس وقت پڑھا کرو جب تارے گہنے ہوئے آسمان پر صاف نظر آتے ہوں۔ یعنی اوّل وقت میں پڑھا کرو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : فجر کی ایک رکعت کا پانے والا

حدیث نمبر : 579
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن زيد بن أسلم، عن عطاء بن يسار، وعن بسر بن سعيد، وعن الأعرج، يحدثونه عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ من أدرك من الصبح ركعة قبل أن تطلع الشمس فقد أدرك الصبح، ومن أدرك ركعة من العصر قبل أن تغرب الشمس فقد أدرك العصر‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک سے، انھوں نے زید بن اسلم سے، انھوں نے عطاء بن یسار اور بسر بن سعید اور عبدالرحمن بن ہرمز اعرج سے، ان تینوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے فجر کی ایک رکعت ( جماعت کے ساتھ ) سورج نکلنے سے پہلے پا لی اس نے فجر کی نماز ( باجماعت کا ثواب ) پا لیا۔ اور جس نے عصر کی ایک رکعت ( جماعت کے ساتھ ) سورج ڈوبنے سے پہلے پا لی، اس نے عصر کی نماز ( باجماعت کا ثواب ) پا لیا۔

اب اسے چاہئیے کہ باقی نماز بلا تردد پوری کرلے۔ اس کو نماز وقت ہی میں ادا کرنے کا ثواب حاصل ہوگا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جو کوئی کسی نماز کی ایک رکعت پالے، اس نے وہ نماز پالی

حدیث نمبر : 580
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ من أدرك ركعة من الصلاة فقد أدرك الصلاة‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے ابن شہاب سے، انھوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ایک رکعت نماز ( باجماعت ) پا لی اس نے نماز ( باجماعت کا ثواب ) پا لیا۔

تشریح : اگلا باب فجر اور عصر کی نمازوں سے خاص تھا اور یہ باب ہر نماز کو شامل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس نماز کی ایک رکعت بھی وقت گزرنے سے پہلے مل گئی گویا اسے ساری نماز مل گئی اب اس کی یہ نماز ادا ہی مانی جائے گی قضا نہ مانی جائے گی۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس پر سارے مسلمانوں کا اجماع ہے پس وہ نمازی اپنی نماز پوری کرلے، اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگرکسی نماز کا وقت ایک رکعت پڑھنے تک کا باقی ہو اور اس وقت کوئی کافر مسلمان ہوجائے یا کوئی لڑکا بالغ ہوجائے یا کوئی دیوانہ ہوش میں آجائے یا حائضہ پاک ہوجائے تو اس نماز کا پڑھنا اس کے اوپر فرض ہوگا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بیان میں کہ صبح کی نماز کے بعد سورج بلند ہونے تک نماز پڑھنے کے متعلق کیا حکم ہے؟

حدیث نمبر : 581
حدثنا حفص بن عمر، قال حدثنا هشام، عن قتادة، عن أبي العالية، عن ابن عباس، قال شهد عندي رجال مرضيون وأرضاهم عندي عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن الصلاة بعد الصبح حتى تشرق الشمس، وبعد العصر حتى تغرب‏.‏
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، انھوں نے قتادہ بن دعامہ سے، انھوں نے ابوالعالیہ رفیع سے، انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، فرمایا کہ میرے سامنے چند معتبر حضرات نے گواہی دی، جن میں سب سے زیادہ معتبر میرے نزدیک حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز کے بعد سورج بلند ہونے تک اور عصر کی نماز کے بعد سورج ڈوبنے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔ ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے شعبہ سے، انھوں نے قتادہ سے کہ میں نے ابوالعالیہ سے سنا، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے تھے کہ انھوں نے فرمایا کہ مجھ سے چند لوگوں نے یہ حدیث بیان کی۔ ( جو اوپر ذکر ہوئی )

حدیث نمبر : 582
حدثنا مسدد قال: حدثنا يحيى بن سعيد، عن هشام قال: أخبرني أبي قال: أخبرني عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (لا تحروا بصلاتكم طلوع الشمس ولا غروبها).
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے ہشام بن عروہ سے، انھوں نے کہا کہ مجھے میرے والد عروہ نے خبر دی، انھوں نے کہا کہ مجھے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز پڑھنے کے لیے سورج کے طلوع اور غروب ہونے کے انتظار میں نہ بیٹھے رہو۔

حدیث نمبر : 583
وقال حدثني ابن عمر، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إذا طلع حاجب الشمس فأخروا الصلاة حتى ترتفع، وإذا غاب حاجب الشمس فأخروا الصلاة حتى تغيب‏"‏‏. ‏ تابعه عبدة‏.‏
حضرت عروہ نے کہا مجھ سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب سورج کا اوپر کا کنارہ طلوع ہونے لگے تو نماز نہ پڑھو یہاں تک کہ وہ بلند ہو جائے۔ اور جب سورج ڈوبنے لگے اس وقت بھی نماز نہ پڑھو، یہاں تک کہ غروب ہو جائے۔ اس حدیث کو یحییٰ بن سعید قطان کے ساتھ عبدہ بن سلیمان نے بھی روایت کیا ہے۔

حدیث نمبر : 584
حدثنا عبيد بن إسماعيل، عن أبي أسامة، عن عبيد الله، عن خبيب بن عبد الرحمن، عن حفص بن عاصم، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيعتين وعن لبستين وعن صلاتين نهى عن الصلاة بعد الفجر حتى تطلع الشمس، وبعد العصر حتى تغرب الشمس، وعن اشتمال الصماء وعن الاحتباء في ثوب واحد يفضي بفرجه إلى السماء، وعن المنابذة والملامسة‏.‏
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، انھوں نے ابی اسامہ کے واسطے سے بیان کیا۔ انھوں نے عبیداللہ بن عمر سے، انھوں نے خبیب بن عبدالرحمن سے، انھوں نے حفص بن عاصم سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح کی خرید و فروخت اور دو طرح کے لباس اور دو وقتوں کی نمازوں سے منع فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کے بعد سورج نکلنے تک اور نماز عصر کے بعد غروب ہونے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا ( اور کپڑوں میں ) اشتمال صماء یعنی ایک کپڑا اپنے اوپر اس طرح لپیٹ لینا کہ شرم گاہ کھل جائے۔ اور ( احتباء ) یعنی ایک کپڑے میں گوٹ مار کر بیٹھنے سے منع فرمایا۔ ( اور خرید و فروخت میں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منابذہ اور ملامسہ سے منع فرمایا۔

تشریح : دن اور رات میں کچھ وقت ایسے ہیں جن میں نماز ادا کرنا مکروہ ہے۔ سورج نکلتے وقت اور ٹھیک دوپہر میں اور عصر کی نماز کے بعد غروب شمس تک اور فجر کی نماز کے بعد سورج نکلنے تک۔ ہاں اگر کوئی فرض نماز قضاء ہوگئی ہو اس کا پڑھ لینا جائز ہے۔ اور فجر کی سنتیں بھی اگر نماز سے پہلے نہ پڑھی جاسکی ہوں توان کو بھی بعد جماعت فرض پڑھا جاسکتاہے۔ جو لوگ جماعت ہوتے ہوئے فجر کی سنت پڑھتے رہتے ہیں وہ حدیث کے خلاف کرتے ہیں۔

دولباسوں سے مراد ایک اشتمال صماء ہے یعنی ایک کپڑے کا سارے بدن پر اس طرح لپیٹ لینا کہ ہاتھ وغیرہ کچھ باہر نہ نکل سکیں اور احتباءایک کپڑے میں گوٹ مارکر اس طرح بیٹھنا کہ پاؤں پیٹ سے الگ ہوں اورشرمگاہ آسمان کی طرف کھلی رہے۔
دو خرید وفروخت میں اوّل بیع منابذہ یہ ہے کہ مشتری یا بائع جب اپنا کپڑا اس پر پھینک دے تو وہ بیع لازم ہو جائے اور بیع ملامسہ یہ کہ مشتری کا یا مشتری بائع کا کپڑا چھولے تو بیع پوری ہو جائے۔ اسلام نے ان سب کو بند کر دیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ سورج چھپنے سے پہلے قصد کر کے نماز نہ پڑھے

حدیث نمبر : 585
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا يتحرى أحدكم فيصلي عند طلوع الشمس ولا عند غروبها‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہ کہا ہمیں امام مالک نے نافع سے خبر دی، انھوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی تم میں سے انتظار میں نہ بیٹھا رہے کہ سورج طلوع ہوتے ہی نماز کے لیے کھڑا ہو جائے۔ اسی طرح سورج کے ڈوبنے کے انتظار میں بھی نہ رہنا چاہیے۔

حدیث نمبر : 586
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، قال حدثنا إبراهيم بن سعد، عن صالح، عن ابن شهاب، قال أخبرني عطاء بن يزيد الجندعي، أنه سمع أبا سعيد الخدري، يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ لا صلاة بعد الصبح حتى ترتفع الشمس، ولا صلاة بعد العصر حتى تغيب الشمس‏"‏‏. ‏
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے صالح سے یہ حدیث بیان کی، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے کہا مجھ سے عطاء بن یزید جندعی لیثی نے بیان کیا کہ انھوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ فجر کی نماز کے بعد کوئی نماز سورج کے بلند ہونے تک نہ پڑھی جائے۔ اسی طرح عصر کی نماز کے بعد سورج ڈوبنے تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے۔

حدیث نمبر : 587
حدثنا محمد بن أبان، قال حدثنا غندر، قال حدثنا شعبة، عن أبي التياح، قال سمعت حمران بن أبان، يحدث عن معاوية، قال إنكم لتصلون صلاة، لقد صحبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فما رأيناه يصليها، ولقد نهى عنهما، يعني الركعتين بعد العصر‏.
ہم سے محمد بن ابان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے حدیث بیان کی ابوالتیاح یزید بن حمید سے، کہا کہ میں نے حمران بن ابان سے سنا، وہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ انھوں نے فرمایا کہ تم لوگ تو ایک ایسی نماز پڑھتے ہو کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے لیکن ہم نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ بلکہ آپ نے تو اس سے منع فرمایا تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی مراد عصر کے بعد دو رکعتوں سے تھی۔ ( جسے آپ کے زمانہ میں بعض لوگ پڑھتے تھے )

اسماعیلی کی روایت میں ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ہم کو خطبہ سنایا، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ شاید حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے عصر کے بعد دوسنتوں کو منع کیا۔ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ان کا پڑھنا ثابت ہوتاہے مگر آپ ان کو مسجد میں نہیں پڑھا کرتے تھے۔ اکثر علماءنے اسے خصوصیات نبوی میں شمار کیا ہے، جیسا وصال کا روزہ آپ رکھتے تھے اور امت کے لیے منع فرمایا۔ اسی طرح امت کے لیے عصر کے بعد نفل نمازوں کی اجازت نہیں ہے۔

حدیث نمبر : 588
حدثنا محمد بن سلام، قال حدثنا عبدة، عن عبيد الله، عن خبيب، عن حفص بن عاصم، عن أبي هريرة، قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صلاتين بعد الفجر حتى تطلع الشمس، وبعد العصر حتى تغرب الشمس‏.‏
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبدہ نے بیان کیا، انھوں نے عبیداللہ سے خبر دی، انھوں نے خبیب سے، انھوں نے حفص بن عاصم سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔ نماز فجر کے بعد سورج نکلنے تک اور نماز عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک۔
 
Top