• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس شخص کی دلیل جس نے فقط عصر اور فجر کے بعد نماز کو مکروہ رکھا ہے

رواه عمر وابن عمر وأبو سعيد وأبو هريرة‏.‏
اس کو حضرت عمر، ابن عمر، ابوسعید اور ابوہریرہ رضوان اللہ علیہم نے بیان کیا۔

حدیث نمبر : 589
حدثنا أبو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن أيوب، عن نافع، عن ابن عمر، قال أصلي كما رأيت أصحابي يصلون، لا أنهى أحدا يصلي بليل ولا نهار ما شاء، غير أن لا تحروا طلوع الشمس ولا غروبها‏.‏
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے ایوب سے کہا، انھوں نے نافع سے، انھوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے، آپ نے فرمایا کہ جس طرح میں نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھتے دیکھا۔ میں بھی اسی طرح نماز پڑھتا ہوں۔ کسی کو روکتا نہیں۔ دن اور رات کے جس حصہ میں جی چاہے نماز پڑھ سکتا ہے۔ البتہ سورج کے طلوع اور غروب کے وقت نماز نہ پڑھا کرو۔

عین زوال کے وقت بھی نماز پڑھنے کی ممانعت صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ مگرمعلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو کوئی ایسی روایت اس باب میں نہیں ملی جو ان کی شرائط کے مطابق صحیح ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : عصر کے بعد قضا نمازیں یا اس کے مانند مثلاً جنازہ کی نماز وغیرہ پڑھنا

وقال كريب عن أم سلمة صلى النبي صلى الله عليه وسلم بعد العصر ركعتين وقال ‏"‏ شغلني ناس من عبد القيس عن الركعتين بعد الظهر‏"‏‏. ‏ اور کریب نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے واسطہ سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد دو رکعات پڑھیں، پھر فرمایا کہ بنو عبدالقیس کے وفد سے گفتگو کی وجہ سے ظہر کی دو رکعتیں نہیں پڑھ سکا تھا

چنانچہ ان کو آپ نے بعد عصر ادا فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں ان کو ادا کرتے ہی رہے۔ اور یہ آپ کی خصوصیات میں سے ہے، امت کے لیے یہ منع ہے۔ مگر قسطلانی نے کہا کہ محدثین نے اس سے دلیل لی ہے کہ فوت شدہ نوافل کا عصر کے بعد پڑھنا بھی درست ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی رجحان معلوم ہوتاہے۔

حدیث نمبر : 590
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا عبد الواحد بن أيمن، قال حدثني أبي أنه، سمع عائشة، قالت والذي ذهب به ما تركهما حتى لقي الله، وما لقي الله تعالى حتى ثقل عن الصلاة، وكان يصلي كثيرا من صلاته قاعدا ـ تعني الركعتين بعد العصر ـ وكان النبي صلى الله عليه وسلم يصليهما، ولا يصليهما في المسجد مخافة أن يثقل على أمته، وكان يحب ما يخفف عنهم‏.‏
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہ کہا ہم سے عبدالواحد بن ایمن نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ ایمن نے حدیث بیان کی کہ انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم! جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے یہاں بلا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد کی دو رکعات کو کبھی ترک نہیں فرمایا، یہاں تک کہ آپ اللہ پاک سے جا ملے۔ اور آپ کو وفات سے پہلے نماز پڑھنے میں بڑی دشواری پیش آتی تھی۔ پھر اکثر آپ بیٹھ کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔ اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انھیں پوری پابندی کے ساتھ پڑھتے تھے لیکن اس خوف سے کہ کہیں ( صحابہ بھی پڑھنے لگیں اور اس طرح ) امت کو گراں باری ہو، انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کا ہلکا رکھنا پسند تھا۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں داخل تھی۔

حدیث نمبر : 591
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، قال حدثنا هشام، قال أخبرني أبي قالت، عائشة ابن أختي ما ترك النبي صلى الله عليه وسلم السجدتين بعد العصر عندي قط‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے باپ عروہ نے خبر دی، کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میرے بھانجے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد کی دو رکعات میرے یہاں کبھی ترک نہیں کیں۔

یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لا کر ان کو پڑھ لیا کرتے تھے، اوریہ عمل آپ کے ساتھ خاص تھا۔


حدیث نمبر : 592
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال حدثنا عبد الواحد، قال حدثنا الشيباني، قال حدثنا عبد الرحمن بن الأسود، عن أبيه، عن عائشة، قالت ركعتان لم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعهما سرا ولا علانية ركعتان قبل صلاة الصبح، وركعتان بعد العصر‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبانی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمن بن اسود نے بیان کیا، انھوں نے اپنے باپ سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے فرمایا کہ دو رکعتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ترک نہیں فرمایا۔ پوشیدہ ہو یا عام لوگوں کے سامنے، صبح کی نماز سے پہلے دو رکعات اور عصر کی نماز کے بعد دو رکعات۔

حدیث نمبر : 593

حدثنا محمد بن عرعرة، قال حدثنا شعبة، عن أبي إسحاق، قال رأيت الأسود ومسروقا شهدا على عائشة قالت ما كان النبي صلى الله عليه وسلم يأتيني في يوم بعد العصر إلا صلى ركعتين‏.‏
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے ابو اسحاق سے بیان کیا، کہا کہ ہم نے اسود بن یزید اور مسروق بن اجدع کو دیکھا کہ انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس کہنے پر گواہی دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی میرے گھر میں عصر کے بعد تشریف لائے تو دو رکعت ضرور پڑھتے۔

مگر امت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نفل نمازوں سے منع فرمایا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ابر کے دنوں میں نماز کے لیے جلدی کرنا ( یعنی سویرے پڑھنا )

حدیث نمبر : 594
حدثنا معاذ بن فضالة، قال حدثنا هشام، عن يحيى ـ هو ابن أبي كثير ـ عن أبي قلابة، أن أبا المليح، حدثه قال كنا مع بريدة في يوم ذي غيم فقال بكروا بالصلاة فإن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ من ترك صلاة العصر حبط عمله‏"‏‏. ‏
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، وہ قلابہ سے نقل کرتے ہیں کہ ابوالملیح عامر بن اسامہ ہذلی نے ان سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم ابر کے دن ایک مرتبہ بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ صحابی کے ساتھ تھے، انھوں نے فرمایا کہ نماز سویرے پڑھا کرو۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے عصر کی نماز چھوڑی اس کا عمل اکارت ہو گیا۔

یعنی اس کے اعمال خیر کا ثواب مٹ گیا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث نقل کرکے اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیاہے۔ جسے اسماعیلی نے نکالا ہے اورجس میں صاف یوں ہے کہ ابر کے دن نماز سویرے پڑھ لو۔ کیونکہ جس نے عصر کی نماز چھوڑی۔ اس کے سارے نیک اعمال برباد ہوگئے۔ حضرت امام کی عادت ہے کہ وہ باب ہی اس حدیث پر لاتے ہیں۔ جس سے آپ کا مقصد دوسرے طریق کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے۔ جس کو آپ نے بیان نہیں فرمایا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : وقت نکل جانے کے بعد نماز پڑھتے وقت اذان دینا

حدیث نمبر : 595
حدثنا عمران بن ميسرة، قال حدثنا محمد بن فضيل، قال حدثنا حصين، عن عبد الله بن أبي قتادة، عن أبيه، قال سرنا مع النبي صلى الله عليه وسلم ليلة فقال بعض القوم لو عرست بنا يا رسول الله‏.‏ قال ‏"‏ أخاف أن تناموا عن الصلاة‏"‏‏. ‏ قال بلال أنا أوقظكم‏.‏ فاضطجعوا وأسند بلال ظهره إلى راحلته، فغلبته عيناه فنام، فاستيقظ النبي صلى الله عليه وسلم وقد طلع حاجب الشمس فقال ‏"‏ يا بلال أين ما قلت‏"‏‏. ‏ قال ما ألقيت على نومة مثلها قط‏.‏ قال ‏"‏ إن الله قبض أرواحكم حين شاء، وردها عليكم حين شاء، يا بلال قم فأذن بالناس بالصلاة‏"‏‏. ‏ فتوضأ فلما ارتفعت الشمس وابياضت قام فصلى‏.‏
ہم سے عمران بن میسرہ نے روایت کیا، کہا ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حصین بن عبدالرحمن نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے، انھوں نے اپنے باپ سے، کہا ہم ( خیبر سے لوٹ کر ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات میں سفر کر رہے تھے۔ کسی نے کہا کہ حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ اب پڑاؤ ڈال دیتے تو بہتر ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں نماز کے وقت بھی تم سوتے نہ رہ جاؤ۔ اس پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ بولے کہ میں آپ سب لوگوں کو جگا دوں گا۔ چنانچہ سب لوگ لیٹ گئے۔ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی پیٹھ کجاوہ سے لگا لی۔ اور ان کی بھی آنکھ لگ گئی اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو سورج کے اوپر کا حصہ نکل چکا تھا۔ آپ نے فرمایا بلال! تو نے کیا کہا تھا۔ وہ بولے آج جیسی نیند مجھے کبھی نہیں آئی۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ارواح کو جب چاہتا ہے قبض کر لیتا ہے اور جس وقت چاہتا ہے واپس کر دیتا ہے۔ اے بلال! اٹھ اور اذان دے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جب سورج بلند ہو کر روشن ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور نماز پڑھائی۔

تشریح : اس حدیث شریف سے قضاء نماز کے لیے اذان دینا ثابت ہوا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا قدیم قول یہی ہے۔ اور یہی مذہب ہے امام احمد و ابوثور اور ابن منذر کا۔ اور اہل حدیث کے نزدیک جس نماز سے آدمی سو جائے یا بھول جائے پھر جاگے یا یاد آ ئے۔ اور اس کو پڑھ لے تو وہ ادا ہوگی نہ کہ قضائ۔ کیونکہ صحیح حدیث میں ہے کہ اس کا وقت وہی ہے جب آدمی جاگا یا اس کو یاد آئی۔ ( مولانا وحیدالزماں مرحوم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس کے بارے میں جس نے وقت نکل جانے کے بعد قضاء نماز لوگوں کے ساتھ جماعت سے پڑھی

حدیث نمبر : 596
حدثنا معاذ بن فضالة، قال حدثنا هشام، عن يحيى، عن أبي سلمة، عن جابر بن عبد الله، أن عمر بن الخطاب، جاء يوم الخندق بعد ما غربت الشمس، فجعل يسب كفار قريش قال يا رسول الله ما كدت أصلي العصر حتى كادت الشمس تغرب‏.‏ قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ والله ما صليتها‏"‏‏. ‏ فقمنا إلى بطحان، فتوضأ للصلاة، وتوضأنا لها فصلى العصر بعد ما غربت الشمس، ثم صلى بعدها المغرب‏.‏
ہم سے معاذ بن فضالہ نے حدیث نقل کی، انھوں نے کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، انھوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت کیا، انھوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے، انھوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے موقع پر ( ایک مرتبہ ) سورج غروب ہونے کے بعد آئے اور وہ کفار قریش کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ اور آپ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! سورج غروب ہو گیا، اور نماز عصر پڑھنا میرے لیے ممکن نہ ہو سکا۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز میں نے بھی نہیں پڑھی۔ پھر ہم وادی بطحان میں گئے اور آپ نے وہاں نماز کے لیے وضو کیا، ہم نے بھی وضو بنایا۔ اس وقت سورج ڈوب چکا تھا۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھائی اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔

تشریح : جنگ خندق یا جنگ احزاب 5ھ میں ہوئی۔ تفصیلی ذکر اپنی جگہ آئے گا۔ اس روایت میں گویہ صراحت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھی۔ مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ یہی تھی کہ لوگوں کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھتے۔ لہٰذا یہ نماز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت ہی سے پڑھی ہوگی۔ اوراسماعیلی کی روایت میں صاف یوں ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ نماز پڑھی۔

اس حدیث کی شرح میں علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ( قولہ ماکدت ) لفظہ کادمن افعال المقاربۃ فاذا قلت کادزید یقوم فہم منہ انہ قارب القیام ولم یقم کما تقرر فی النحو والحدیث یدل علی وجوب قضاءالصلوٰۃ المتروکۃ لعذر الاشتغال بالقتال وقد وقع الخلاف فی سبب ترک النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ لہذہ الصلوٰۃ فقیل ترکوہا نسیانا وقیل شغلوا فلم یتمکنوا وہو الاقرب کما قال الحافظ وفی سنن النسائی عن ابی سعید ان ذلک قبل ان ینزل اللہ فی صلوٰۃ الخوف فرجالاً اورکباناً وسیاتی الحدیث وقد استدل بہذا الحدیث علی وجوب الترتیب بین الفوائت المقضیۃ والموداۃ الخ۔ ( نیل الاوطار، ج2ص:31 )

یعنی لفظ کاد افعال مقاربہ سے ہے۔ جب تم کاد زید یقوم ( یعنی زید قریب ہوا کہ کھڑا ہو ) بولوگے تو اس سے سمجھا جائے گا کہ زید کھڑے ہونے کے قریب توہوا مگر کھڑا نہ ہوسکا جیساکہ نحو میں قاعدہ مقرر ہے۔ پس روایت میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کے بیان کا مقصد یہ کہ نماز عصر کے لیے انھوں نے آخر وقت تک کوشش کی مگر وہ ادا نہ کرسکے۔
حضرت مولانا وحیدالزماں مرحوم کے ترجمہ میں نفی کی جگہ اثبات ہے کہ آخر وقت میں انھوں نے عصر کی نماز پڑھ لی۔ مگر امام شوکانی کی وضاحت اورحدیث کا سیاق وسباق بتلارہاہے کہ نفی ہی کا ترجمہ درست ہے کہ وہ نماز عصر ادا نہ کرسکے تھے۔ اسی لیے وہ خود فرمارہے ہیں کہ فتوضا للصلوٰۃ وتوضانالہا کہ آپ نے بھی وضوکیا اورہم نے بھی اس کے لیے وضو کیا۔

یہ حدیث دلیل ہے کہ جو نمازیں جنگ وجہاد کی مشغولیت یا اورکسی شرعی وجہ سے چھوٹ جائیں ان کی قضاءواجب ہے اوراس میں اختلاف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ نماز کیوں ترک ہوئیں۔ بعض بھول چوک کی وجہ بیان کرتے ہیں۔ اوربعض کا بیان ہے کہ جنگ کی تیزی اور مصروفیت کی وجہ سے ایسا ہوا۔ اوریہی درست معلوم ہوتاہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاہے۔ اورنسائی میں حضرت سعیدرضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ یہ صلوٰۃ خوف کے نزول سے پہلے کا واقعہ ہے۔ جب کہ حکم تھا کہ حالت جنگ میں پیدل یا سوار جس طرح بھی ممکن ہو نمازادا کرلی جائے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ فوت ہونے والی نمازوں کو ترتیب کے ساتھ ادا کرنا واجب ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جو شخص کوئی نماز بھول جائے توجب یاد آئے اس وقت پڑھ لے

وقال إبراهيم من ترك صلاة واحدة عشرين سنة لم يعد إلا تلك الصلاة الواحدة‏.‏
اور فقط وہی نماز پڑھے اور ابراہیم نخعی نے کہا جو شخص بیس سال تک ایک نماز چھوڑ دے تو فقط وہی ایک نماز پڑھ لے۔

حدیث نمبر : 597
حدثنا أبو نعيم، وموسى بن إسماعيل، قالا حدثنا همام، عن قتادة، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ من نسي صلاة فليصل إذا ذكرها، لا كفارة لها إلا ذلك‏"‏‏. ‏ ‏{‏وأقم الصلاة لذكري‏}‏ قال موسى قال همام سمعته يقول بعد ‏{‏وأقم الصلاة لذكري‏}‏‏. قال موسى: قال همام: سمعته يقول بعد: {وأقم الصلاة لذكري}. وقال حبان: حدثنا همام: حدثنا قتادة: حدثنا أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه‏
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین اور موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ان دونوں نے کہا کہ ہم سے ہمام بن یحییٰ نے قتادہ سے بیان کیا، انھوں نے انس بن مالک رحمہ اللہ علیہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی نماز پڑھنا بھول جائے تو جب بھی یاد آ جائے اس کو پڑھ لے۔ اس قضاء کے سوا اور کوئی کفارہ اس کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ اور ( اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ) نماز میرے یاد آنے پر قائم کر۔ موسیٰ نے کہا کہ ہم سے ہمام نے حدیث بیان کی کہ میں نے قتادہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ یوں پڑھتے تھے نماز پڑھ میری یاد کے لیے۔ حبان بن ہلال نے کہا، ہم سے ہمام نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے، کہا ہم سے انس رضی اللہ عنہ نے، انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے، پھر ایسی ہی حدیث بیان کی۔

تشریح : اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ان لوگوں کی تردید ہے جو کہتے ہیں کہ قضاءشدہ نمازدوبارپڑھے، ایک بار جب یاد آئے اوردوسری بار دوسرے دن اس کے وقت پر پڑھے۔ اس موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت شریفہ واقم الصلوٰۃ لذکری اس لیے تلاوت فرمائی کہ قضا نماز جب بھی یاد آجائے اس کا وہی وقت ہے۔ اسی وقت اسے پڑھ لیا جائے۔ شارحین لکھتے ہیں: فی الایۃ وجوہ من المعانی اقربہا مناسبۃ بذلک الحدیث ان یقال اقم الصلوٰۃ وقت ذکرہا فان ذکرالصلوٰۃ ہو ذکراللہ تعالیٰ اویقدر المضاف فیقال اقم الصلوٰۃ وقت ذکر صلوٰتی یعنی نماز یاد آنے کے وقت پر قائم کرو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اگر کئی نمازیں قضاء ہو جائیں تو ان کو ترتیب کے ساتھ پڑھنا

حدیث نمبر : 598
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن هشام، قال حدثنا يحيى ـ هو ابن أبي كثير ـ عن أبي سلمة، عن جابر، قال جعل عمر يوم الخندق يسب كفارهم وقال ما كدت أصلي العصر حتى غربت‏.‏ قال فنزلنا بطحان، فصلى بعد ما غربت الشمس، ثم صلى المغرب‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے حدیث بیان کی، کہا کہ ہم سے یحییٰ نے جو ابی کثیر کے بیٹے ہیں حدیث بیان کی ابوسلمہ سے، انھوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے فرمایا کہ عمر رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے موقع پر ( ایک دن ) کفار کو برا بھلا کہنے لگے۔ فرمایا کہ سورج غروب ہو گیا، لیکن میں ( لڑائی کی وجہ سے ) نماز عصر نہ پڑھ سکا۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر ہم وادی بطحان کی طرف گئے۔ اور ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز ) غروب شمس کے بعد پڑھی اس کے بعد مغرب پڑھی۔

حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے کہ آپ نے پہلے عصر کی نماز ادا کی پھر مغرب کی۔ ثابت ہوا کہ فوت شدہ نمازوں میں ترتیب کا خیال ضروری ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : عشاء کی نماز کے بعد سمر یعنی دنیا کی باتیں کرنا مکروہ ہے

سامر کا لفظ جو قرآن میں ہے سمر ہی سے نکلا ہے۔ اس کی جمع سمار ہے اور لفظ سامر اس آیت میں جمع کے معنی میں ہے۔ سمر اصل میں چاند کی روشنی کو کہتے ہیں، اہل عرب چاندنی راتوں میں گپ شپ کیا کرتے تھے۔
سورۃ مومنون میں یہ آیت ہے: مستکبرین بہ سامرا تہجرون یعنی تم ہماری آیتوں پر اکڑ کے بے ہودہ بکواس کیا کرتے تھے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی یہ عادت ہے کہ حدیث میں کوئی لفظ قرآن شریف کا آجائے تو اس کی تفسیر بھی ساتھ ہی بیان کردیتے ہیں۔

حدیث نمبر : 599
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، قال حدثنا عوف، قال حدثنا أبو المنهال، قال انطلقت مع أبي إلى أبي برزة الأسلمي فقال له أبي حدثنا كيف، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي المكتوبة قال كان يصلي الهجير وهى التي تدعونها الأولى حين تدحض الشمس، ويصلي العصر، ثم يرجع أحدنا إلى أهله في أقصى المدينة والشمس حية، ونسيت ما قال في المغرب‏.‏ قال وكان يستحب أن يؤخر العشاء‏.‏ قال وكان يكره النوم قبلها والحديث بعدها، وكان ينفتل من صلاة الغداة حين يعرف أحدنا جليسه، ويقرأ من الستين إلى المائة‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، کہا ہم سے عوف اعرابی نے، کہا کہ ہم سے ابوالمنہال سیار بن سلامہ نے، انھوں نے کہا کہ میں اپنے باپ سلامہ کے ساتھ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان سے میرے والد صاحب نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نمازیں کس طرح ( یعنی کن کن اوقات میں ) پڑھتے تھے۔ ہم سے اس کے بارے میں بیان فرمائیے۔ انھوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجیر ( ظہر ) جسے تم صلوٰۃ اولیٰ کہتے ہو سورج ڈھلتے ہی پڑھتے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عصر پڑھنے کے بعد کوئی بھی شخص اپنے گھر واپس ہوتا اور وہ بھی مدینہ کے سب سے آخری کنارہ پر تو سورج ابھی صاف اور روشن ہوتا۔ مغرب کے بارے میں آپ نے جو کچھ بتایا مجھے یاد نہیں رہا۔ اور فرمایا کہ عشاء میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تاخیر پسند فرماتے تھے۔ اس سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد بات کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ صبح کو نماز سے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوتے تو ہم اپنے قریب بیٹھے ہوئے دوسرے شخص کو پہچان لیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر میں ساٹھ سے سو تک آیتیں پڑھتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ مسئلے مسائل کی باتیں اور نیک باتیں عشاء کے بعد بھی کرنا درست ہے

حدیث نمبر : 600
حدثنا عبد الله بن الصباح، قال حدثنا أبو علي الحنفي، حدثنا قرة بن خالد، قال انتظرنا الحسن وراث علينا حتى قربنا من وقت قيامه، فجاء فقال دعانا جيراننا هؤلاء‏.‏ ثم قال قال أنس نظرنا النبي صلى الله عليه وسلم ذات ليلة حتى كان شطر الليل يبلغه، فجاء فصلى لنا، ثم خطبنا فقال ‏"‏ ألا إن الناس قد صلوا ثم رقدوا، وإنكم لم تزالوا في صلاة ما انتظرتم الصلاة‏"‏‏. ‏ قال الحسن وإن القوم لا يزالون بخير ما انتظروا الخير‏.‏ قال قرة هو من حديث أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے عبداللہ بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعلی عبیداللہ حنفی نے، کہا ہم سے قرہ بن خالد سدوسی نے، انھوں نے کہا کہ ایک دن حضرت حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے بڑی دیر کی۔ اور ہم آپ کا انتظار کرتے رہے۔ جب ان کے اٹھنے کا وقت قریب ہو گیا تو آپ آئے اور ( بطور معذرت ) فرمایا کہ میرے ان پڑوسیوں نے مجھے بلا لیا تھا ( اس لیے دیر ہو گئی ) پھر بتلایا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ ہم ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتے رہے۔ تقریباً آدھی رات ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، پھر ہمیں نماز پڑھائی۔ اس کے بعد خطبہ دیا۔ پس آپ نے فرمایا کہ دوسروں نے نماز پڑھ لی اور سو گئے۔ لیکن تم لوگ جب تک نماز کے انتظار میں رہے ہو گویا نماز ہی کی حالت میں رہے ہو۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر لوگ کسی خیر کے انتظار میں بیٹھے رہیں تو وہ بھی خیر کی حالت ہی میں ہیں۔ قرہ بن خالد نے کہا کہ حسن کا یہ قول بھی حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کا ہے جو انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔

تشریح : ترمذی نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کی ایک حدیث روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ رات میں مسلمانوں کے معاملات کے بارے میں گفتگو فرمایا کرتے تھے۔ اورمیں بھی اس میں شریک رہتا تھا۔ یعنی اگرچہ عام حالات میں عشاءکے بعد سوجاناچاہئیے۔ لیکن اگر کوئی کار خیر پیش آجائے یاعلمی ودینی کوئی کام کرنا ہو تو عشاءکے بعد جاگنے میں بشرطیکہ صبح کی نماز چھوٹنے کا خطرہ نہ ہو کوئی مضائقہ نہیں۔ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ روزانہ رات میں تعلیم کے لیے مسجد میں بیٹھا کرتے تھے لیکن آج آنے میں دیر کی اوراس وقت آئے جب یہ تعلیمی مجلس حسب معمول ختم ہوجانی چاہئیے تھی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد لوگوں کو نصیحت کی اور فرمایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ دیرمیں نمازپڑھائی اور یہ فرمایا۔ یہ حدیث دوسری سندوں کے ساتھ پہلے بھی گزر چکی ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عشاء بعد دین اور بھلائی کی باتیں کرنا ممنوع نہیں ہے۔

حدیث نمبر : 601
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال حدثني سالم بن عبد الله بن عمر، وأبو بكر بن أبي حثمة أن عبد الله بن عمر، قال صلى النبي صلى الله عليه وسلم صلاة العشاء في آخر حياته، فلما سلم قام النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ أرأيتكم ليلتكم هذه فإن رأس مائة لا يبقى ممن هو اليوم على ظهر الأرض أحد‏"‏‏. ‏ فوهل الناس في مقالة رسول الله ـ عليه السلام ـ إلى ما يتحدثون من هذه الأحاديث عن مائة سنة، وإنما قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا يبقى ممن هو اليوم على ظهر الأرض ‏"‏ يريد بذلك أنها تخرم ذلك القرن‏.‏
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا انھوں نے کہا کہ ہمیں شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھ سے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور ابوبکر بن ابی حثمہ نے حدیث بیان کی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھی اپنی زندگی کے آخری زمانے میں۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اس رات کے متعلق تمہیں کچھ معلوم ہے؟ آج اس روئے زمین پر جتنے انسان زندہ ہیں۔ سو سال بعد ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔ لوگوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سمجھنے میں غلطی کی اور مختلف باتیں کرنے لگے۔ ( ابومسعود رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھا کہ سو برس بعد قیامت آئے گی ) حالانکہ آپ کا مقصد صرف یہ تھا کہ جو لوگ آج ( اس گفتگو کے وقت ) زمین پر بستے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی آج سے ایک صدی بعد باقی نہیں رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ سو برس میں یہ قرن گزر جائے گا۔

تشریح : سب سے آخر میں انتقال کرنے والے صحابی ابوالطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ اور ان کا انتقال 110ھ میں ہوا۔ یعنی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے ٹھیک سوسال بعد۔ کچھ لوگوں نے اس حدیث کو سن کر یہ سمجھ لیا تھا کہ سوسال بعد قیامت آجائے گی۔ حدیث نبوی کا منشاءیہ نہ تھا بلکہ صرف یہ تھا کہ سوبرس گزرنے پر ایک دوسری نسل وجود میں آگئی ہوگی۔ اورموجودہ نسل ختم ہوچکی ہوگی۔ حدیث اورباب میں مطابقت ظاہر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اپنی بیوی یا مہمان سے رات کو ( عشاء کے بعد ) گفتگو کرنا

حدیث نمبر : 602
حدثنا أبو النعمان، قال حدثنا معتمر بن سليمان، قال حدثنا أبي، حدثنا أبو عثمان، عن عبد الرحمن بن أبي بكر، أن أصحاب الصفة، كانوا أناسا فقراء، وأن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ من كان عنده طعام اثنين فليذهب بثالث، وإن أربع فخامس أو سادس‏"‏‏. ‏ وأن أبا بكر جاء بثلاثة فانطلق النبي صلى الله عليه وسلم بعشرة، قال فهو أنا وأبي وأمي، فلا أدري قال وامرأتي وخادم بيننا وبين بيت أبي بكر‏.‏ وإن أبا بكر تعشى عند النبي صلى الله عليه وسلم ثم لبث حيث صليت العشاء، ثم رجع فلبث حتى تعشى النبي صلى الله عليه وسلم فجاء بعد ما مضى من الليل ما شاء الله، قالت له امرأته وما حبسك عن أضيافك ـ أو قالت ضيفك ـ قال أوما عشيتيهم قالت أبوا حتى تجيء، قد عرضوا فأبوا‏.‏ قال فذهبت أنا فاختبأت فقال يا غنثر، فجدع وسب، وقال كلوا لا هنيئا‏.‏ فقال والله لا أطعمه أبدا، وايم الله ما كنا نأخذ من لقمة إلا ربا من أسفلها أكثر منها‏.‏ قال يعني حتى شبعوا وصارت أكثر مما كانت قبل ذلك، فنظر إليها أبو بكر فإذا هي كما هي أو أكثر منها‏.‏ فقال لامرأته يا أخت بني فراس ما هذا قالت لا وقرة عيني لهي الآن أكثر منها قبل ذلك بثلاث مرات‏.‏ فأكل منها أبو بكر وقال إنما كان ذلك من الشيطان ـ يعني يمينه ـ ثم أكل منها لقمة، ثم حملها إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأصبحت عنده، وكان بيننا وبين قوم عقد، فمضى الأجل، ففرقنا اثنا عشر رجلا، مع كل رجل منهم أناس، الله أعلم كم مع كل رجل فأكلوا منها أجمعون، أو كما قال‏.‏
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ سلیمان بن طرخان نے، کہا کہ ہم سے ابوعثمان نہدی نے عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث بیان کی کہ اصحاب صفہ نادار مسکین لوگ تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے گھر میں دو آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ تیسرے ( اصحاب صفہ میں سے کسی ) کو اپنے ساتھ لیتا جائے۔ اور جس کے ہاں چار آدمیوں کا کھانا ہے تو وہ پانچویں یا چھٹے آدمی کو سائبان والوں میں سے اپنے ساتھ لے جائے۔ پس ابوبکر رضی اللہ عنہ تین آدمی اپنے ساتھ لائے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس آدمیوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ گھر کے افراد میں اس وقت باپ، ماں اور میں تھا۔ ابوعثمان راوی کا بیان ہے کہ مجھے یاد نہیں کہ عبدالرحمن بن ابی بکر نے یہ کہا یا نہیں کہ میری بیوی اور ایک خادم جو میرے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں کے گھر کے لیے تھا یہ بھی تھے۔ خیر ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں ٹھہر گئے۔ ( اور غالباً ) کھانا بھی وہیں کھایا۔ صورت یہ ہوئی کہ ) نماز عشاء تک وہیں رہے۔ پھر ( مسجد سے ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک میں آئے اور وہیں ٹھہرے رہے تاآنکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کھانا کھا لیا۔ اور رات کا ایک حصہ گزر جانے کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے چاہا تو آپ گھر تشریف لائے تو ان کی بیوی ( ام رومان ) نے کہا کہ کیا بات پیش آئی کہ مہمانوں کی خبر بھی آپ نے نہ لی، یا یہ کہ مہمان کی خبر نہ لی۔ آپ نے پوچھا، کیا تم نے ابھی انھیں رات کا کھانا نہیں کھلایا۔ ام رومان نے کہا کہ میں کیا کروں آپ کے آنے تک انھوں نے کھانے سے انکار کیا۔ کھانے کے لیے ان سے کہا گیا تھا لیکن وہ نہ مانے۔ عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں ڈر کر چھپ گیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پکارا اے غنثر! ( یعنی او پاجی ) آپ نے برا بھلا کہا اور کوسنے دئیے۔ فرمایا کہ کھاؤ تمہیں مبارک نہ ہو! خدا کی قسم! میں اس کھانے کو کبھی نہیں کھاؤں گا۔ ( آخر مہمانوں کو کھانا کھلایا گیا ) ( عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا ) خدا گواہ ہے کہ ہم ادھر ایک لقمہ لیتے تھے اور نیچے سے پہلے سے بھی زیادہ کھانا ہو جاتا تھا۔ بیان کیا کہ سب لوگ شکم سیر ہو گئے۔ اور کھانا پہلے سے بھی زیادہ بچ گیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو کھانا پہلے ہی اتنا یا اس سے بھی زیادہ تھا۔ اپنی بیوی سے بولے۔ بنوفراس کی بہن! یہ کیا بات ہے؟ انھوں نے کہا کہ میری آنکھ کی ٹھنڈک کی قسم! یہ تو پہلے سے تین گنا ہے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی وہ کھانا کھایا اور کہا کہ میرا قسم کھانا ایک شیطانی وسوسہ تھا۔ پھر ایک لقمہ اس میں سے کھایا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بقیہ کھانا لے گئے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ صبح تک آپ کے پاس رکھا رہا۔ عبدالرحمن نے کہا کہ مسلمانوں کا ایک دوسرے قبیلے کے لوگوں سے معاہدہ تھا۔ اور معاہدہ کی مدت پوری ہو چکی تھی۔ ( اس قبیلہ کا وفد معاہدہ سے متعلق بات چیت کرنے مدینہ میں آیا ہوا تھا ) ہم نے ان میں سے بارہ آدمی جدا کئے اور ہر ایک کے ساتھ کتنے آدمی تھے اللہ کو ہی معلوم ہے ان سبھوں نے ان میں سے کھایا۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کچھ ایسا ہی کہا۔

تشریح : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مہمانوں کو گھر بھیج دیا تھا اور گھر والوں کو کہلوا بھیجا تھا کہ مہمانوں کو کھانا کھلادیں۔ لیکن مہمان یہ چاہتے تھے کہ آپ ہی کے ساتھ کھانا کھائیں۔ ادھر آپ مطمئن تھے۔ اس لیے یہ صورت پیش آئی۔ پھر آپ کے آنے پر انھوں نے کھانا کھایا۔ دوسری روایتوں میں یہ بھی ہے کہ سب نے پیٹ بھر کر کھانا کھالیا۔ اور اس کے بعد بھی کھانے میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کرامت تھی۔ کرامت ِاولیاء برحق ہے۔ مگراہل بدعت نے جو جھوٹی کرامتیں گھڑلی ہیں۔ وہ محض لایعنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت دے۔
 
Top