Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
کتاب الاذان
باب : اس بیان میں کہ اذان کیونکر شروع ہوئی
وقوله عز وجل {وإذا ناديتم إلى الصلاة اتخذوها هزوا ولعبا ذلك بأنهم قوم لا يعقلون} وقوله {إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة}
اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی وضاحت کہ “ اور جب تم نماز کے لیے اذان دیتے ہو، تو وہ اس کو مذاق اور کھیل بنا لیتے ہیں۔ یہ اس وجہ سے کہ یہ لوگ ناسمجھ ہیں۔ ” اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب تمہیں جمعہ کے دن نماز جمعہ کے لیے پکارا جائے۔ ( تو اللہ کی یاد کرنے کے لیے فوراً چلے آؤ۔ )
حدیث نمبر : 603
حدثنا عمران بن ميسرة، حدثنا عبد الوارث، حدثنا خالد الحذاء، عن أبي قلابة، عن أنس، قال ذكروا النار والناقوس، فذكروا اليهود والنصارى، فأمر بلال أن يشفع الأذان وأن يوتر الإقامة.
ہم سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ ( نماز کے وقت کے اعلان کے لیے ) لوگوں نے آگ اور ناقوس کا ذکر کیا۔ پھر یہود و نصاریٰ کا ذکر آ گیا۔ پھر بلال رضی اللہ عنہ کو یہ حکم ہوا کہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ کہیں اور اقامت میں ایک ایک مرتبہ
تشریح : امیرالمحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الاذان قائم فرماکر باب بدءالاذان کو قرآن پاک کی دوآیات مقدسہ سے شروع فرمایا جس کا مقصد یہ ہے کہ اذان کی فضیلت قرآن شریف سے ثابت ہے اوراس طرف بھی اشارہ ہے کہ اذان کی ابتدا مدینہ میں ہوئی کیونکہ یہ دونوں سورتیں جن کی آیات نقل کی گئی ہیں یعنی سورۃ مائدہ اورسورۃ جمعہ یہ مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔
اذان کی تفصیلات کے متعلق حضرت مولانا عبیداللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وہوفی اللغۃ الاعلام وفی الشرع الاعلام بوقت الصلوٰۃ بالفاظ مخصوصۃ یعنی لغت میں اذان کے معنی اطلاع کرنا اور شرع میں مخصوص لفظوں کے ساتھ نمازوں کے اوقات کی اطلاع کرنا۔
ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں تعمیر مسجدنبوی کے بعد سوچا گیا کہ مسلمانوں کونماز کے لیے وقت مقررہ پر کس طرح اطلاع کی جائے۔ چنانچہ یہودونصاریٰ ومجوس کے مروجہ طریقے سامنے آئے۔ جو وہ اپنی عبادت گاہوں میں لوگوں کو بلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسلام میں ان سب چیزوں کو ناپسند کیاگیاکہ عبادت الٰہی کے بلانے کے لیے گھنٹے یا ناقوس کا استعمال کیا جائے۔ یا اس کی اطلاع کے لیے آگ روشن کردی جائے۔ یہ مسئلہ درپیش ہی تھا کہ ایک صحابی عبداللہ بن زید انصاری خزرجی رضی اللہ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص ان کو نماز کے وقتوں کی اطلاع کے لیے مروجہ اذان کے الفاظ سکھا رہاہے۔ وہ صبح اس خواب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنے آئے تودیکھا گیا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی دوڑے چلے آرہے ہیں۔ اورآپ بھی حلفیہ بیان دیتے ہیں کہ خواب میں ان کو بھی ہوبہو ان ہی کلمات کی تلقین کی گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان بیانات کو سن کر خوش ہوئے۔ اورفرمایاکہ یہ خواب بالکل سچے ہیں۔ اب یہی طریقہ رائج کردیاگیا۔ یہ خواب کا واقعہ مسجدنبوی کی تعمیر کے بعدپہلے سال ہی کا ہے۔ جیسا کہ حافظ نے تہذیب التہذیب میں بیان کیا ہے کہ آپ نے جناب عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے فرمایاکہ تم یہ الفاظ بلال رضی اللہ عنہ کو سکھادو، ان کی آواز بہت بلند ہے۔
اس حدیث اوراس کے علاوہ اوربھی متعدد احادیث میں تکبیر ( اقامت ) کے الفاظ ایک ایک مرتبہ ادا کرنے کا ذکر ہے۔ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: قال الخطابی مذہب جمہور العلماءوالذی جری بہ العمل فی الحرمین والحجاز والشام والیمن ومصر و المغرب الی اقصی بلادالاسلام ان الاقامۃ فرادی ( نیل ) یعنی امام خطابی نے کہا کہ جمہور علماءکا یہی فتویٰ ہے تکبیر اقامت اکہری کہی جائے۔ حرمین اورحجاز اورشام اوریمن اور مصر اور دور دراز تک تمام ممالک اسلامیہ غربیہ میں یہی معمول ہے کہ تکبیر اقامت اکہری کہی جاتی ہے۔
اگرچہ تکبیراقامت میں جملہ الفاظ کا دو دو دفعہ مثل اذان کے کہنا بھی جائز ہے۔ مگر ترجیح اسی کو ہے کہ تکبیر اقامت اکہری کہی جائے۔ مگر برادران احناف اس کا نہ صرف انکار کرتے ہیں بلکہ اکہری تکبیر سن کر بیشتر چونک جاتے ہیں اور دوبارہ تکبیر اپنے طریق پر کہلواتے ہیں۔ یہ رویہ کس قدر غلط ہے کہ ایک امر جائز جس پر دنیائے اسلام کا عمل ہے اس سے اس قدر نفرت کی جائے۔ بعض علمائے احناف نے اکہری تکبیر والی حدیث کو منسوخ قرار دیاہے۔ اورکئی طرح کی تاویلات رکیکہ سے کام لیاہے۔
حضرت الشیخ الکبیر والمحدث الجلیل علامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: والحق ان احادیث افراد الاقامۃ صحیحۃ ثابتۃ محکمۃ لیست بمنسوخۃ ولابمؤلۃ۔ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی حق بات یہی ہے کہ اکہری تکبیر کی احادیث صحیح اور ثابت ہیں۔ اس قدر مضبوط کہ نہ وہ منسوخ ہیں اورنہ تاویل کے قابل ہیں۔ اسی طرح تکبیر دودو دفعہ کہنے کی احادیث بھی محکم ہیں۔ پس میرے نزدیک تکبیر اکہری کہنا بھی جائز ہے اوردوہری کہنا بھی جائز ہے۔ تکبیراکہری کے وقت الفاظ قد قامت الصلوٰۃ قد قامت الصلوٰۃ دودو دفعہ کہنے ہوں گے جیسا کہ روایات میں مذکور ہے۔
حضرت علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وہو مع قلۃ الفاظہ مشتمل علی مسائل العقائد کما بین ذلک الحافظ فی الفتح نقلا عن القرطبی۔ یعنی اذان میں اگرچہ الفاظ تھوڑے ہیں مگر اس میں عقائد کے بہت سے مسائل آگئے ہیں جیسا کہ فتح الباری میں حافظ نے قرطبی سے نقل کیاہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
“ اذان کے کلمات باوجود قلت الفاظ دین کے بنیادی عقائد اورشعائر پر مشتمل ہیں۔ سب سے پہلا لفظ “ اللہ اکبر ” یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے اورسب سے بڑا ہے، یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی کبریائی اورعظمت پر دلالت کرتاہے۔ “ اشہد ان لا الہ الا اللہ ” بجائے خود ایک عقیدہ ہے اورکلمہ شہادت کا جزء۔ یہ لفظ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اکیلا اوریکتا ہے۔ اوروہی معبود ہے۔ کلمہ شہادت کا دوسرا جز “ اشہدان محمدارسول اللہ ” ہے۔ جس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت ونبوت کی گواہی دی جاتی ہے۔ “ حی علی الصلوٰۃ ” پکار ہے اس کی کہ جس نے اللہ کی وحدانیت اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دے دی وہ نماز کے لیے آئے کہ نماز قائم کی جارہی ہے۔ اس نماز کے پہنچانے والے اوراپنے قول وفعل سے اس کے طریقوں کو بتلانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت کے بعد فوراً ہی اس کی دعوت دی گئی۔ اور اگرنماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھ لی اور بتمام واکمال آپ نے اسے ادا کیاتو یہ اس بات کی ضامن ہے کہ آپ نے “ فلاح ” حاصل کرلی۔ “ حی علی الفلاح ” نماز کے لیے آئیے! آپ کو یہاں فلاح یعنی بقاءدائم اورحیات آخرت کی ضمانت دی جائے گی، آئیے، چلے آئیے۔ کہ اللہ کے سوا عبادت کے لائق اورکوئی نہیں۔ اس کی عظمت وکبریائی کے سایہ میں آپ کو دنیا اورآخرت کے شرور و آفات سے پناہ مل جائے گی۔ اوّل بھی اللہ ہے اورآخر بھی اللہ۔ خالق کل، مالک یکتا اورمعبود، پس اس کی دی ہوئی ضمانت سے بڑھ کر اورکون سی ضمانت ہوسکتی ہے۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر، لاالہ الا اللہ۔ ” ( تفہیم البخاری )
حدیث نمبر : 604
حدثنا محمود بن غيلان، قال حدثنا عبد الرزاق، قال أخبرنا ابن جريج، قال أخبرني نافع، أن ابن عمر، كان يقول كان المسلمون حين قدموا المدينة يجتمعون فيتحينون الصلاة، ليس ينادى لها، فتكلموا يوما في ذلك، فقال بعضهم اتخذوا ناقوسا مثل ناقوس النصارى. وقال بعضهم بل بوقا مثل قرن اليهود. فقال عمر أولا تبعثون رجلا ينادي بالصلاة. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم " يا بلال قم فناد بالصلاة".
ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرزاق بن ہمام نے، کہا کہ ہمیں عبدالملک ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ جب مسلمان ( ہجرت کر کے ) مدینہ پہنچے تو وقت مقرر کر کے نماز کے لیے آتے تھے۔ اس کے لیے اذان نہیں دی جاتی تھی۔ ایک دن اس بارے میں مشورہ ہوا۔ کسی نے کہا نصاریٰ کی طرح ایک گھنٹہ لے لیا جائے اور کسی نے کہا کہ یہودیوں کی طرح نرسنگا ( بگل بنا لو، اس کو پھونک دیا کرو ) لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کسی شخص کو کیوں نہ بھیج دیا جائے جو نماز کے لیے پکار دیا کرے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اسی رائے کو پسند فرمایا اور بلال سے ) فرمایا کہ بلال! اٹھ اور نماز کے لیے اذان دے۔