• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب الاذان


باب : اس بیان میں کہ اذان کیونکر شروع ہوئی

وقوله عز وجل ‏{‏وإذا ناديتم إلى الصلاة اتخذوها هزوا ولعبا ذلك بأنهم قوم لا يعقلون‏}‏ وقوله ‏{‏إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة‏}‏
اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی وضاحت کہ “ اور جب تم نماز کے لیے اذان دیتے ہو، تو وہ اس کو مذاق اور کھیل بنا لیتے ہیں۔ یہ اس وجہ سے کہ یہ لوگ ناسمجھ ہیں۔ ” اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب تمہیں جمعہ کے دن نماز جمعہ کے لیے پکارا جائے۔ ( تو اللہ کی یاد کرنے کے لیے فوراً چلے آؤ۔ )

حدیث نمبر : 603
حدثنا عمران بن ميسرة، حدثنا عبد الوارث، حدثنا خالد الحذاء، عن أبي قلابة، عن أنس، قال ذكروا النار والناقوس، فذكروا اليهود والنصارى، فأمر بلال أن يشفع الأذان وأن يوتر الإقامة‏.
ہم سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ ( نماز کے وقت کے اعلان کے لیے ) لوگوں نے آگ اور ناقوس کا ذکر کیا۔ پھر یہود و نصاریٰ کا ذکر آ گیا۔ پھر بلال رضی اللہ عنہ کو یہ حکم ہوا کہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ کہیں اور اقامت میں ایک ایک مرتبہ

تشریح : امیرالمحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الاذان قائم فرماکر باب بدءالاذان کو قرآن پاک کی دوآیات مقدسہ سے شروع فرمایا جس کا مقصد یہ ہے کہ اذان کی فضیلت قرآن شریف سے ثابت ہے اوراس طرف بھی اشارہ ہے کہ اذان کی ابتدا مدینہ میں ہوئی کیونکہ یہ دونوں سورتیں جن کی آیات نقل کی گئی ہیں یعنی سورۃ مائدہ اورسورۃ جمعہ یہ مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔

اذان کی تفصیلات کے متعلق حضرت مولانا عبیداللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وہوفی اللغۃ الاعلام وفی الشرع الاعلام بوقت الصلوٰۃ بالفاظ مخصوصۃ یعنی لغت میں اذان کے معنی اطلاع کرنا اور شرع میں مخصوص لفظوں کے ساتھ نمازوں کے اوقات کی اطلاع کرنا۔

ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں تعمیر مسجدنبوی کے بعد سوچا گیا کہ مسلمانوں کونماز کے لیے وقت مقررہ پر کس طرح اطلاع کی جائے۔ چنانچہ یہودونصاریٰ ومجوس کے مروجہ طریقے سامنے آئے۔ جو وہ اپنی عبادت گاہوں میں لوگوں کو بلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسلام میں ان سب چیزوں کو ناپسند کیاگیاکہ عبادت الٰہی کے بلانے کے لیے گھنٹے یا ناقوس کا استعمال کیا جائے۔ یا اس کی اطلاع کے لیے آگ روشن کردی جائے۔ یہ مسئلہ درپیش ہی تھا کہ ایک صحابی عبداللہ بن زید انصاری خزرجی رضی اللہ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص ان کو نماز کے وقتوں کی اطلاع کے لیے مروجہ اذان کے الفاظ سکھا رہاہے۔ وہ صبح اس خواب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنے آئے تودیکھا گیا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی دوڑے چلے آرہے ہیں۔ اورآپ بھی حلفیہ بیان دیتے ہیں کہ خواب میں ان کو بھی ہوبہو ان ہی کلمات کی تلقین کی گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان بیانات کو سن کر خوش ہوئے۔ اورفرمایاکہ یہ خواب بالکل سچے ہیں۔ اب یہی طریقہ رائج کردیاگیا۔ یہ خواب کا واقعہ مسجدنبوی کی تعمیر کے بعدپہلے سال ہی کا ہے۔ جیسا کہ حافظ نے تہذیب التہذیب میں بیان کیا ہے کہ آپ نے جناب عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے فرمایاکہ تم یہ الفاظ بلال رضی اللہ عنہ کو سکھادو، ان کی آواز بہت بلند ہے۔
اس حدیث اوراس کے علاوہ اوربھی متعدد احادیث میں تکبیر ( اقامت ) کے الفاظ ایک ایک مرتبہ ادا کرنے کا ذکر ہے۔ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: قال الخطابی مذہب جمہور العلماءوالذی جری بہ العمل فی الحرمین والحجاز والشام والیمن ومصر و المغرب الی اقصی بلادالاسلام ان الاقامۃ فرادی ( نیل ) یعنی امام خطابی نے کہا کہ جمہور علماءکا یہی فتویٰ ہے تکبیر اقامت اکہری کہی جائے۔ حرمین اورحجاز اورشام اوریمن اور مصر اور دور دراز تک تمام ممالک اسلامیہ غربیہ میں یہی معمول ہے کہ تکبیر اقامت اکہری کہی جاتی ہے۔

اگرچہ تکبیراقامت میں جملہ الفاظ کا دو دو دفعہ مثل اذان کے کہنا بھی جائز ہے۔ مگر ترجیح اسی کو ہے کہ تکبیر اقامت اکہری کہی جائے۔ مگر برادران احناف اس کا نہ صرف انکار کرتے ہیں بلکہ اکہری تکبیر سن کر بیشتر چونک جاتے ہیں اور دوبارہ تکبیر اپنے طریق پر کہلواتے ہیں۔ یہ رویہ کس قدر غلط ہے کہ ایک امر جائز جس پر دنیائے اسلام کا عمل ہے اس سے اس قدر نفرت کی جائے۔ بعض علمائے احناف نے اکہری تکبیر والی حدیث کو منسوخ قرار دیاہے۔ اورکئی طرح کی تاویلات رکیکہ سے کام لیاہے۔
حضرت الشیخ الکبیر والمحدث الجلیل علامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: والحق ان احادیث افراد الاقامۃ صحیحۃ ثابتۃ محکمۃ لیست بمنسوخۃ ولابمؤلۃ۔ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی حق بات یہی ہے کہ اکہری تکبیر کی احادیث صحیح اور ثابت ہیں۔ اس قدر مضبوط کہ نہ وہ منسوخ ہیں اورنہ تاویل کے قابل ہیں۔ اسی طرح تکبیر دودو دفعہ کہنے کی احادیث بھی محکم ہیں۔ پس میرے نزدیک تکبیر اکہری کہنا بھی جائز ہے اوردوہری کہنا بھی جائز ہے۔ تکبیراکہری کے وقت الفاظ قد قامت الصلوٰۃ قد قامت الصلوٰۃ دودو دفعہ کہنے ہوں گے جیسا کہ روایات میں مذکور ہے۔

حضرت علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وہو مع قلۃ الفاظہ مشتمل علی مسائل العقائد کما بین ذلک الحافظ فی الفتح نقلا عن القرطبی۔ یعنی اذان میں اگرچہ الفاظ تھوڑے ہیں مگر اس میں عقائد کے بہت سے مسائل آگئے ہیں جیسا کہ فتح الباری میں حافظ نے قرطبی سے نقل کیاہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
“ اذان کے کلمات باوجود قلت الفاظ دین کے بنیادی عقائد اورشعائر پر مشتمل ہیں۔ سب سے پہلا لفظ “ اللہ اکبر ” یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے اورسب سے بڑا ہے، یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی کبریائی اورعظمت پر دلالت کرتاہے۔ “ اشہد ان لا الہ الا اللہ ” بجائے خود ایک عقیدہ ہے اورکلمہ شہادت کا جزء۔ یہ لفظ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اکیلا اوریکتا ہے۔ اوروہی معبود ہے۔ کلمہ شہادت کا دوسرا جز “ اشہدان محمدارسول اللہ ” ہے۔ جس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت ونبوت کی گواہی دی جاتی ہے۔ “ حی علی الصلوٰۃ ” پکار ہے اس کی کہ جس نے اللہ کی وحدانیت اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دے دی وہ نماز کے لیے آئے کہ نماز قائم کی جارہی ہے۔ اس نماز کے پہنچانے والے اوراپنے قول وفعل سے اس کے طریقوں کو بتلانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت کے بعد فوراً ہی اس کی دعوت دی گئی۔ اور اگرنماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھ لی اور بتمام واکمال آپ نے اسے ادا کیاتو یہ اس بات کی ضامن ہے کہ آپ نے “ فلاح ” حاصل کرلی۔ “ حی علی الفلاح ” نماز کے لیے آئیے! آپ کو یہاں فلاح یعنی بقاءدائم اورحیات آخرت کی ضمانت دی جائے گی، آئیے، چلے آئیے۔ کہ اللہ کے سوا عبادت کے لائق اورکوئی نہیں۔ اس کی عظمت وکبریائی کے سایہ میں آپ کو دنیا اورآخرت کے شرور و آفات سے پناہ مل جائے گی۔ اوّل بھی اللہ ہے اورآخر بھی اللہ۔ خالق کل، مالک یکتا اورمعبود، پس اس کی دی ہوئی ضمانت سے بڑھ کر اورکون سی ضمانت ہوسکتی ہے۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر، لاالہ الا اللہ۔ ” ( تفہیم البخاری )

حدیث نمبر : 604
حدثنا محمود بن غيلان، قال حدثنا عبد الرزاق، قال أخبرنا ابن جريج، قال أخبرني نافع، أن ابن عمر، كان يقول كان المسلمون حين قدموا المدينة يجتمعون فيتحينون الصلاة، ليس ينادى لها، فتكلموا يوما في ذلك، فقال بعضهم اتخذوا ناقوسا مثل ناقوس النصارى‏.‏ وقال بعضهم بل بوقا مثل قرن اليهود‏.‏ فقال عمر أولا تبعثون رجلا ينادي بالصلاة‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يا بلال قم فناد بالصلاة‏"‏‏. ‏
ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرزاق بن ہمام نے، کہا کہ ہمیں عبدالملک ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ جب مسلمان ( ہجرت کر کے ) مدینہ پہنچے تو وقت مقرر کر کے نماز کے لیے آتے تھے۔ اس کے لیے اذان نہیں دی جاتی تھی۔ ایک دن اس بارے میں مشورہ ہوا۔ کسی نے کہا نصاریٰ کی طرح ایک گھنٹہ لے لیا جائے اور کسی نے کہا کہ یہودیوں کی طرح نرسنگا ( بگل بنا لو، اس کو پھونک دیا کرو ) لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کسی شخص کو کیوں نہ بھیج دیا جائے جو نماز کے لیے پکار دیا کرے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اسی رائے کو پسند فرمایا اور بلال سے ) فرمایا کہ بلال! اٹھ اور نماز کے لیے اذان دے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ دہرائے جائیں

حدیث نمبر : 605
حدثنا سليمان بن حرب، قال حدثنا حماد بن زيد، عن سماك بن عطية، عن أيوب، عن أبي قلابة، عن أنس، قال أمر بلال أن يشفع، الأذان وأن يوتر الإقامة إلا الإقامة‏.‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا سماک بن عطیہ سے، انھوں نے ایوب سختیانی سے، انھوں نے ابوقلابہ سے، انھوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا کہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ کہیں اور سوا “ قد قامت الصلوٰۃ ” کے تکبیر کے کلمات ایک ایک دفعہ کہیں۔

حدیث نمبر : 606
حدثنا محمد، قال أخبرنا عبد الوهاب، قال أخبرنا خالد الحذاء، عن أبي قلابة، عن أنس بن مالك، قال لما كثر الناس قال ـ ذكروا ـ أن يعلموا وقت الصلاة بشىء يعرفونه، فذكروا أن يوروا نارا أو يضربوا ناقوسا، فأمر بلال أن يشفع الأذان وأن يوتر الإقامة‏.‏
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن مہران حذاء نے ابوقلابہ عبدالرحمن بن زید حرمی سے بیان کیا، انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ جب مسلمان زیادہ ہو گئے تو مشورہ ہوا کہ کسی ایسی چیز کے ذریعہ نماز کے وقت کا اعلان ہو جسے سب لوگ سمجھ لیں۔ کچھ لوگوں نے ذکر کیا کہ آگ روشن کی جائے۔ یا نرسنگا کے ذریعہ اعلان کریں۔ لیکن آخر میں بلال کو حکم دیا گیا کہ اذان کے کلمات دو دو دفعہ کہیں اور تکبیر کے ایک ایک دفعہ۔

تشریح : اذان کے بارے میں بعض روایات میں پندرہ کلمات وارد ہوئے ہیں جیسا کہ عوام میں اذان کا مروجہ طریقہ ہے۔ بعض روایات میں انیس کلمات آئے ہیں اوریہ اس بناپر کہ اذان ترجیع کے ساتھ دی جائے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ شہادت کے ہردو کلموں کو پہلے دو مرتبہ آہستہ آہستہ کہا جائے پھر ان ہی کو دو دو مرتبہ بلند آواز سے کہا جائے۔

حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ان لفظوں میں باب منعقد کیاہے۔ باب ماجاءفی الترجیع فی الاذان۔ یعنی ترجیع کے ساتھ اذان کہنے کے بیان میں۔ پھر آپ یہاں حدیث ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کو لائے ہیں۔ جس سے اذان میں ترجیع ثابت ہے۔
چنانچہ خود امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: قال ابوعیسیٰ حدیث ابی محذورۃ فی الاذان حدیث صحیح وقد روی عنہ من غیروجہ وعلیہ العمل بمکۃ وہوقول الشافعی۔ یعنی اذان کے بارے میں ابومحذورہ کی حدیث صحیح ہے۔ جو مختلف طرق سے مروی ہے۔ مکہ شریف میں اسی پر عمل ہے اورامام شافعی کا بھی یہی قول ہے۔ امام نووی حدیث ابومحذورہ کے ذیل میں فرماتے ہیں: فی ہذاالحدیث حجۃ بینۃ ودلالۃ واضحۃ لمذہب مالک والشافعی وجمہور العلماءان الترجیع فی الاذان ثابت مشروع وہوالعود الی الشہادتین مرتین برفع الصوت بعد قولہما مرتین بخفض الصوت۔ ( نووی، شرح مسلم ) یعنی حدیث ابی محذورہ روشن واضح دلیل ہے کہ اذان میں ترجیع مشروع ہے اوروہ یہ ہے کہ پہلے کلمات شہادتین کو آہستہ آواز سے دودو مرتبہ ادا کرکے بعد میں بلند آواز سے پھر دو دومرتبہ دہرایا جائے۔ امام مالک اورامام شافعی اورجمہور علماءکا یہی مذہب ہے۔ حضرت ابومحذورہ کی روایت ترمذی کے علاوہ مسلم اور ابوداؤد میں بھی تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ فقہائے احناف رحمہم اللہ اجمعین ترجیع کے قائل نہیں ہیں اورانھوں نے روایات ابومحذورہ کی مختلف توجیہات کی ہیں۔

ترجیع کے ساتھ اذان کہنے کا بیان:
المحدث الکبیر حضرت مولانا عبدالرحمن مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: واجاب عن ہذہ الروایات من لم یقل بالترجیع باجوبۃ کلہا مخدوشۃ واہیۃ۔ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی جوحضرات ترجیع کے قائل نہیں ہیں انھوں نے روایات ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کے مختلف جوابات دیئے ہیں۔ جوسب مخدوش اورواہیات ہیں۔ کوئی ان میں قابل توجہ نہیں۔ ان کی بڑی دلیل عبداللہ بن زید کی حدیث ہے۔ جس میں ترجیع کا ذکر نہیں ہے۔

علامہ مبارک پوری مرحوم اس بارے میں فرماتے ہیں کہ حدیث عبداللہ بن زید میں فجر کی اذان میں کلمات “ الصلوٰۃ خیرمن النوم کا بھی ذکر نہیں ہے۔ اوریہ زیادتی بھی حدیث ابومحذورہ ہی سے ثابت ہے۔ جسے محترم فقہائے احناف نے قبول فرمالیاہے۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ ترجیع کے بارے میں بھی حدیث ابومحذورہ کی زیادتی کو قبول نہ کیا جائے۔

قلت فلذلک یقال ان الترجیع وان لم یکن فی حدیث عبداللہ بن زید فقد علمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذلک ابامحذورۃ بعد ذلک فلما علمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابامحذورۃ کان زیادۃ علی ما فی حدیث عبداللہ بن زید فوجب استعمالہ۔ ( تحفۃ الاحوذی )
یعنی اگرچہ ترجیع کی زیادتی حدیث عبداللہ بن زید میں مذکور نہیں ہے مگرجس طرح فجر میں آپ نے ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کو الصلوٰۃ خیرمن النوم کے الفاظ کی زیادتی تعلیم فرمائی ایسے ہی آپ نے ترجیع کی بھی زیادتی تعلیم فرمائی۔ پس اس کا استعمال ضروری ہوا، لہٰذا ایک ہی حدیث کے نصف حصہ کو لینا اورنصف کا انکار کردینا قرین انصاف نہیں ہے۔

حضرت علامہ انورشاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ:صاحب تفہیم البخاری ( دیوبندی ) ترجیع کی اذان کے بارے میں حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ان لفظوں میں بیان فرماتے ہیں:
“ حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ جنھیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد مسجدالحرام کا مؤذن مقرر کیاتھا وہ اسی طرح ( ترجیع کے ساتھ ) اذان دیتے تھے جس طرح امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ہے۔ اوران کا یہ بھی بیان تھاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اسی طرح سکھایاتھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں برابر آپ اسی طرح ( ترجیع سے ) اذان دیتے رہے اورپھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طویل دورمیں بھی آپ کا یہی عمل رہا کسی نے انھیں اس سے نہیں روکا۔ اس کے بعد بھی مکہ میں اسی طرح اذان دی جاتی رہی۔ لہٰذا اذان کا یہ طریقہ مکروہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ صاحب بحرالرائق نے یہی فیصلہ کیاہے اوراس آخری دورمیں حنفیت اورحدیث کے امام حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس فیصلہ کو درست کہاہے۔ ” ( تفہیم البخاری، کتاب الاذان، پ3، ص:50 )
یہ مختصر تفصیل اس لیے دی گئی کہ ہمارے معزز/حنفی بھائیوں کی اکثریت اوّل تو ترجیع کی اذان سے واقف ہی نہیں اور اگر اتفاقاً کہیں کسی اہل حدیث مسجد میں اسے سن پاتے ہیں تو حیرت سے سنتے ہیں۔ بلکہ بعض لوگ انکار کرتے ہوئے ناک بھوں بھی چڑھانے لگ جاتے ہیں۔ ان پر واضح ہونا چاہئیے کہ وہ اپنی ناواقفیت کی بناپر ایسا کررہے ہیں۔

رہی یہ بحث کہ ترجیع کے ساتھ اذان دینا افضل ہے یابغیرترجیع کے جیسا کہ عام طور پر مروج ہے اس لفظی بحث میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر دوطریقے جائز درست ہیں۔ باہمی اتفاق اوررواداری کے لیے اتناہی سمجھ لینا کافی وافی ہے۔
حضرت مولانا عبیداللہ شیخ الحدیث مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: قلت ہذا ہوالحق ان الوجہین جائزان ثابتان مشروعان سنتان من سنن النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔ ( مرعاۃ المفاتیح، ج1، ص:422 ) یعنی حق یہ ہے کہ ہر دو طریقے جائز اورثابت اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ہیں۔

پس اس بارے میں باہمی طور پر لڑنے جھگڑنے کی کوئی بات ہی نہیں۔ اللہ پاک مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کرے کہ وہ ان فروعی مسائل پر لڑنا چھوڑکر باہمی اتفاق پیدا کریں۔ آمین۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ سوائے قدقامت الصلوٰۃ کے اقامت کے کلمات ایک ایک دفعہ کہے جائیں

حدیث نمبر : 607
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، حدثنا خالد، عن أبي قلابة، عن أنس، قال أمر بلال أن يشفع، الأذان، وأن يوتر الإقامة‏.‏ قال إسماعيل فذكرت لأيوب فقال إلا الإقامة‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ بن مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد حذاء نے ابوقلابہ سے بیان کیا، انھوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا کہ اذان کے کلمات دو دو دفعہ کہیں اور تکبیر میں یہی کلمات ایک ایک دفعہ۔ اسماعیل نے بتایا کہ میں نے ایوب سختیانی سے اس حدیث کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا مگر لفظ قد قامت الصلوٰۃ دو ہی دفعہ کہا جائے گا۔

تشریح : امام المحدثین رحمۃ اللہ علیہ نے اکہری اقامت کے مسنون ہونے کے بارے میں یہ باب منعقد فرمایاہے اورحدیث بلال رضی اللہ عنہ سے اسے مدلل کیاہے۔ یہاں صیغہ مجہول امربلال وارد ہواہے۔ مگر بعض طرق صحیحہ میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم امربلالا ان یشفع الاذان ویوتر الاقامۃ۔ ( کذا رواہ النسائی ) یعنی حضرت بلال کو اکہری تکبیر کا حکم فرمانے والے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے۔

محدث مبارک پوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ تحفۃ الاحوذی میں فرماتے ہیں: وبہذا ظہر بطلان قول العینی فی شرح الکنزلاحجۃ لہم فیہ لانہ لم یذکر الامر فیحتمل ان یکون ہوالنبی صلی اللہ علیہ وسلم اوغیرہ۔ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی سنن نسائی میں آمدہ تفصیل سے علامہ عینی کے اس قول کا بطلان ظاہر ہوگیا جوانھوں نے شرح کنزمیں لکھاہے کہ اس حدیث میں احتمال ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم کرنے والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہوں یا آپ کے علاوہ کوئی اورہو۔ لہٰذا اس سے اکہری تکبیر کا ثبوت صحیح نہیں ہے۔ یہ علامہ عینی صاحب مرحوم کی تاویل کس قدر باطل ہے، مزید وضاحت کی ضرورت نہیں۔ اکہری تکبیر کے بارے میں احمد، ابوداؤد، نسائی میں اس قدر روایات ہیں کہ سب کو جمع کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔

مولانا مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں: قال الحازمی فی کتاب الاعتبار رای اکثراہل العلم ان الاقامۃ فرادی والی ہذاالمذہب ذہب سعیدبن المسیب وعروۃ بن الزبیر والزہری ومالک بن انس واہل الحجاز والشافعی واصحابہ والیہ ذہب عمروبن عبدالعزیز ومکحول والاوزاعی واہل الشام والیہ ذہب الحسن البصری ومحمدبن سیرین واحمدبن حنبل ومن تبعہم من العراقیین والیہ ذہب یحییٰ بن یحییٰ واسحاق بن ابراہیم الحنظلی ومن تبعہما من الخراسانیین وذہبوا فی ذلک الی حدیث انس انتہیٰ کلام الجازمی۔ ( تحفۃ الاحوذی )

یعنی امام حازمی نے کتاب الاعتبار میں اکثر اہل علم کا یہی فتویٰ نقل کیاہے کہ تکبیر اکہری کہنا مسنون ہے۔ ان علماءمیں حجازی، شامی، عراقی اور خراسانی یہ تمام علماءاس کے قائل ہیں۔ جن کے اسماءگرامی علامہ حازمی صاحب نے پیش فرمائے ہیں۔
آخر میں علامہ مبارک پوری مرحوم نے کس قدر منصفانہ فیصلہ دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: والحق ان احادیث افراد الاقامۃ صحیحۃ ثابتۃ محکمۃ لیست بمنسوخۃ ولابمؤلۃ نعم قد ثبت احادیث ثنیۃ الاقامۃ ایضا وہی ایضاً محکمۃ لیست منسوخۃ ولابمؤلۃ وعندی الافراد والثنیۃ کلاہما جائزان واللہ تعالیٰ اعلم۔ ( تحفۃ الاحوذی، ج1، ص:172 ) یعنی حق بات یہی ہے کہ اکہری تکبیر والی احادیث صحیح، ثابت محکم ہیں۔ نہ وہ منسوخ ہیں نہ قابل تاویل ہیں، اسی طرح دوہری تکبیر کی احادیث بھی محکم ہیں اوروہ بھی منسوخ نہیں ہیں۔ نہ قابل تاویل ہیں۔ پس میرے نزدیک ہر دوطرح سے تکبیر کہنا جائز ہے۔

کس قدر افسوس کی بات ہے: ہمارے عوام نہیں بلکہ خواص حنفی حضرات اگرکبھی اتفاقاً کہیں اکہری تکبیر سن پاتے ہیں تو فوراً ہی مشتعل ہوجاتے ہیں اوربعض متعصّب اس اکہری تکبیر کوباطل قرار دے کر دوبارہ دوہری تکبیرکہلواتے ہیں۔ اہل علم حضرات سے ایسی حرکت انتہائی مذموم ہے جو اپنی علمی ذمہ داریوں کو ذرا بھی محسوس نہیں کرتے۔ بنظر انصاف دیکھا جائے تو یہی حضرات افتراق امت کے مجرم ہیں۔ جنھوں نے جزئی وفروعی اختلافات کو ہوا دے کر اسلام میں فرقہ بندی کی بنیاد رکھی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسی کا نام تقلید جامد ہے۔ جب تک امت ان اختلافات کو فراموش کرکے اسلامی تعلیمات کے ہر پہلو کے لیے اپنے دلوںمیں گنجائش نہ پیدا کرے گی امت میں اتفاق مشکل ہے۔ اگرکچھ مخلصین ذمہ دار علماءاس کے لیے تہیہ کرلیں تو کچھ مشکل بھی نہیں ہے۔ جب کہ آج پوری دنیائے اسلام موت و حیات کی کشمکش میں مبتلاہے ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے عوام وخواص کو بتلایا جائے کہ اتفاق باہمی کتنی عمدہ چیز ہے۔ الحمد للہ کہ آج تک کسی اہل حدیث مسجد سے متعلق ایسا کوئی کیس نہیں مل سکے گا کہ وہاں کسی حنفی بھائی نے دوہری تکبیرکہی ہو اوراس پر اہل حدیث کی طرف سے کبھی بلوہ ہوگیا ہو۔ برخلاف اس کے کتنی ہی مثالیں موجود ہیں۔ اللہ پاک مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کرے کہ وہ کلمہ اورقرآن اورکعبہ وتوحید ورسالت پر متفق ہوکر اسلام کوسربلند کرنے کی کوشش کریں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اذان دینے کی فضیلت کے بیان میں

حدیث نمبر : 608
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا نودي للصلاة أدبر الشيطان وله ضراط حتى لا يسمع التأذين، فإذا قضى النداء أقبل، حتى إذا ثوب بالصلاة أدبر، حتى إذا قضى التثويب أقبل حتى يخطر بين المرء ونفسه، يقول اذكر كذا، اذكر كذا‏.‏ لما لم يكن يذكر، حتى يظل الرجل لا يدري كم صلى‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک نے ابولزناد سے خبر دی، انھوں نے اعرج سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب نماز کے کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پادتا ہوا بڑی تیزی کے ساتھ پیٹھ موڑ کر بھاگتا ہے۔ تا کہ اذان کی آواز نہ سن سکے اور جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو پھر واپس آ جاتا ہے۔ لیکن جوں ہی تکبیر شروع ہوئی وہ پھر پیٹھ موڑ کر بھاگتا ہے۔ جب تکبیر بھی ختم ہو جاتی ہے تو شیطان دوبارہ آ جاتا ہے اور نمازی کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے۔ کہتا ہے کہ فلاں بات یاد کر فلاں بات یاد کر۔ ان باتوں کی شیطان یاددہانی کراتا ہے جن کا اسے خیال بھی نہ تھا اور اس طرح اس شخص کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔

تشریح : شیطان اذان کی آواز سن کر اس لیے بھاگتاہے کہ اسے آدم کو سجدہ نہ کرنے کا قصہ یاد آجاتاہے لہٰذا وہ اذان نہیں سننا چاہتا۔ بعض نے کہا اس لیے کہ اذان کی گواہی آخرت میں نہ دینی پڑے۔ چونکہ جہاں اذان کی آواز جاتی ہے وہ سب گواہ بنتے ہیں۔ اس ڈر سے وہ بھاگ جاتاہے کہ جان بچی لاکھوں پائے۔ کتنے ہی انسان نماشیطان بھی ہیں جو اذان کی آواز سن کر سوجاتے ہیں یااپنے دنیاوی کاروبار سے مشغول ہوجاتے ہیں اور نماز کے لیے مسجد میں حاضر نہیں ہوتے۔ یہ لوگ بھی شیطان مردود سے کم نہیں ہیں۔ اللہ ان کو ہدایت سے نوازے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بیان میں کہ اذان بلند آواز سے ہونی چاہیے

وقال عمر بن عبد العزيز أذن أذانا سمحا وإلا فاعتزلنا‏.
حضرت عمر بن عبدالعزیز خلیفہ نے ( اپنے مؤذن سے ) کہا کہ سیدھی سادھی اذان دیا کر، ورنہ ہم سے علیحدہ ہو جا۔

حدیث نمبر : 609
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي صعصعة الأنصاري، ثم المازني عن أبيه، أنه أخبره أن أبا سعيد الخدري قال له ‏"‏ إني أراك تحب الغنم والبادية، فإذا كنت في غنمك أو باديتك فأذنت بالصلاة فارفع صوتك بالنداء، فإنه لا يسمع مدى صوت المؤذن جن ولا إنس ولا شىء إلا شهد له يوم القيامة‏"‏‏. ‏ قال أبو سعيد سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے عبدالرحمن بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی صعصعہ انصاری سے خبر دی، پھر عبدالرحمن مازنی اپنے والد عبداللہ سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد نے انھیں خبر دی کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ صحابی نے ان سے بیان کیا کہ میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں بکریوں اور جنگل میں رہنا پسند ہے۔ اس لیے جب تم جنگل میں اپنی بکریوں کو لیے ہوئے موجود ہو اور نماز کے لیے اذان دو تو تم بلند آواز سے اذان دیا کرو۔ کیونکہ جن و انس بلکہ تمام ہی چیزیں جو مؤذن کی آواز سنتی ہیں قیامت کے دن اس پر گواہی دیں گی۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔

تشریح : حضرت خلیفۃ المسلمین عمربن عبدالعزیز کے اثر کو ابن ابی شیبہ نے نکالاہے۔ اس مؤذن نے تال اور سرکے ساتھ گانے کی طرح اذان دی تھی، جس پر اس کویہ سرزنش کی گئی۔ پس اذان میں ایسی بلندآواز اچھی نہیں جس میں تال اورسرپیدا ہو۔ بلکہ سادی طرح بلندآواز سے مستحب ہے۔ حدیث سے جنگلوں، بیابانوں میں اذان کی آواز بلند کرنے کی فضیلت ثابت ہوئی تو وہ گڈریے اورمسلمان چرواہے بڑے ہی خوش نصیب ہیں جو اس پر عمل کریں سچ ہے

دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں

 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اذان کی وجہ سے خون ریزی رکنا

حدیث نمبر : 610
حدثنا قتيبة بن سعيد، قال حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن حميد، عن أنس بن مالك، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا غزا بنا قوما لم يكن يغزو بنا حتى يصبح وينظر، فإن سمع أذانا كف عنهم، وإن لم يسمع أذانا أغار عليهم، قال فخرجنا إلى خيبر فانتهينا إليهم ليلا، فلما أصبح ولم يسمع أذانا ركب وركبت خلف أبي طلحة، وإن قدمي لتمس قدم النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ قال فخرجوا إلينا بمكاتلهم ومساحيهم فلما رأوا النبي صلى الله عليه وسلم قالوا محمد والله، محمد والخميس‏.‏ قال فلما رآهم رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ الله أكبر، الله أكبر، خربت خيبر، إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر انصاری نے حمید سے بیان کیا، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ساتھ لے کر کہیں جہاد کے لیے تشریف لے جاتے، تو فوراً ہی حملہ نہیں کرتے تھے۔ صبح ہوتی اور پھر آپ انتظار کرتے اگر اذان کی آواز سن لیتے تو حملہ کا ارادہ ترک کر دیتے اور اگر اذان کی آواز نہ سنائی دیتی تو حملہ کرتے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم خیبر کی طرف گئے اور رات کے وقت وہاں پہنچے۔ صبح کے وقت جب اذان کی آواز نہیں سنائی دی تو آپ اپنی سواری پر بیٹھ گئے اور میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے بیٹھ گیا۔ چلنے میں میرے قدم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک سے چھو چھو جاتے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ خبیر کے لوگ اپنے ٹوکروں اور کدالوں کو لیے ہوئے ( اپنے کام کاج کو ) باہر نکلے۔ تو انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، اور چلا اٹھے کہ “ محمد واللہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوری فوج سمیت آ گئے۔ ” انس نے کہا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ اکبر اللہ اکبر خیبر پر خرابی آ گئی۔ بے شک جب ہم کسی قوم کے میدان میں اتر جائیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری ہو گی۔

تشریح : حضرت امام خطابی فرماتے ہیں کہ اذان اسلام کی ایک بڑی نشانی ہے۔ اس لیے اس کا ترک کرنا جائز نہیں۔ جس بستی سے اذان کی آواز بلند ہواس بستی والوں کے لیے اسلام جان اورمال کی حفاظت کی ذمہ داری لیتا ہے۔ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ کے دوسرے شوہرہیں۔ گویا حضرت انس کے سوتیلے باپ ہیں۔ خمیس پورے لشکر کو کہتے ہیں جس میں پانچوں ٹکڑیاں ہوں یعنی میمنہ، میسرہ، قلب، مقدمہ، ساقہ۔ حدیث اورباب میں مطابقت ظاہر ہے۔ انا اذا نزلنا سورہ صافات کی آیت کا اقتباس ہے جو یوں ہے فاذا نزل بساحتہم فساءصباح المنذرین ( الصافات:177
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ اذان کا جواب کس طرح دینا چاہیے

حدیث نمبر : 611
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن عطاء بن يزيد الليثي، عن أبي سعيد الخدري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما يقول المؤذن‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابن شہاب زہری سے خبر دی، انھوں نے عطاء بن یزید لیثی سے، انھوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ جب تم اذان سنو تو جس طرح مؤذن کہتا ہے اسی طرح تم بھی کہو۔

یعنی مؤذن ہی کے لفظوں میں جواب دو، مگر حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کے جواب میں لاحول ولاقوۃ الاباللہ کہنا چاہئیے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔

حدیث نمبر : 612
حدثنا معاذ بن فضالة، قال حدثنا هشام، عن يحيى، عن محمد بن إبراهيم بن الحارث، قال حدثني عيسى بن طلحة، أنه سمع معاوية، يوما فقال مثله إلى قوله ‏"‏ وأشهد أن محمدا رسول الله‏"‏‏. حدثنا إسحق بن راهويه قال: حدثنا وهب بن جرير قال: حدثنا هشام، عن يحيى: نحوه.
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، انھوں نے محمد بن ابراہیم بن حارث سے کہا کہ مجھ سے عیسیٰ بن طلحہ نے بیان کیا کہ انھوں نے معاویہ بن ابی سفیان سے ایک دن سنا آپ ( جواب میں ) مؤذن کے ہی الفاظ کو دہرا رہے تھے۔ اشہد ان محمدا رسول اللہ تک۔ ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے اسی طرح حدیث بیان کی۔


حدیث نمبر : 613
قال يحيى وحدثني بعض، إخواننا أنه قال لما قال حى على الصلاة‏.‏ قال لا حول ولا قوة إلا بالله‏.‏ وقال هكذا سمعنا نبيكم صلى الله عليه وسلم يقول‏.
یحییٰ نے کہا کہ مجھ سے میرے بعض بھائیوں نے حدیث بیان کی کہ جب مؤذن نے حی علی الصلوٰۃ کہا تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے لا حول ولا قوۃ الا باللہ کہا اور کہنے لگے کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی کہتے سنا ہے۔

تشریح : پہلی حدیث میں وضاحت نہ تھی کہ سننے والا حی علی الصلوٰۃ وحی علی الفلاح کے جواب میں کیا کہے۔ اس لیے حضرت امام بخاری دوسری معاویہ والی حدیث لائے۔ جس میں بتلادیاگیا کہ ان کلمات کا جواب لاحول ولاقوۃ الا باللہ سے دینا چاہئیے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اذان کی دعا کے بارے میں

حدیث نمبر : 614
حدثنا علي بن عياش، قال حدثنا شعيب بن أبي حمزة، عن محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ من قال حين يسمع النداء اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته، حلت له شفاعتي يوم القيامة‏"‏‏. ‏
ہم سے علی بن عیاش ہمدانی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے شعیب بن ابی حمزہ نے بیان کیا، انھوں نے محمد بن المنکدر سے بیان کیا، انھوں نے فرمایا کہ جو شخص اذان سن کر یہ کہے اللہم رب ہذہ الدعوة التامة والصلوٰة القائمة آت محمدا الوسیلة والفضیلة وابعثہ مقاما محموداً الذی وعدتہ اسے قیامت کے دن میری شفاعت ملے گی۔

دعا کا ترجمہ یہ ہے:اے میرے اللہ جو اس ساری پکار کا رب ہے اورقائم رہنے و الی نماز کا بھی رب ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کے دن وسیلہ نصیب فرمانا اور بڑے مرتبہ اورمقام محمود پر ان کا قیام فرمائیو، جس کا تونے ان سے وعدہ کیاہواہے۔
بعض لوگوں نے اس دعا میں کچھ الفاظ اپنی طرف سے بڑھا لیے ہیں یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔ حدیث میں جتنے الفاظ وارد ہوئے ہیں ان پر زیادتی کرنا موجب گناہ ہے۔ اذان پوری پکار ہے اس کا مطلب یہ کہ اس کے ذریعہ نماز اور کامیابی حاصل کرنے کے لیے پکارا جاتاہے۔ کامیابی سے مراد دین اوردنیا کی کامیابی ہے اوریہ چیز یقینا نماز کے اندر موجود ہے کہ اس کو باجماعت ادا کرنے سے باہمی محبت اوراتفاق پیدا ہوتاہے اورکسی قوم کی ترقی کے لیے یہی بنیاداوّل ہے۔ دعوۃ تامۃ سے دعوت توحید کلمہ طیبہ مراد ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اذان کے لیے قرعہ ڈالنے کا بیان

ويذكر أن أقواما اختلفوا في الأذان فأقرع بينهم سعد‏.‏
اور کہتے ہیں کہ اذان دینے پر کچھ لوگوں میں اختلاف ہوا تو حضرت سعد بن وقاص نے ( فیصلہ کے لیے ) ان میں قرعہ ڈلوایا۔

حدیث نمبر : 615
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن سمى، مولى أبي بكر عن أبي صالح، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لو يعلم الناس ما في النداء والصف الأول، ثم لم يجدوا إلا أن يستهموا عليه لاستهموا، ولو يعلمون ما في التهجير لاستبقوا إليه، ولو يعلمون ما في العتمة والصبح لأتوهما ولو حبوا‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے سمی سے جو ابوبکر عبدالرحمن بن حارث کے غلام تھے خبر دی، انھوں نے ابوصالح ذکوان سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اذان کہنے اور نماز پہلی صف میں پڑھنے سے کتنا ثواب ملتا ہے۔ پھر ان کے لیے قرعہ ڈالنے کے سوائے اور کوئی چارہ نہ باقی رہتا، تو البتہ اس پر قرعہ اندازی ہی کرتے اور اگر لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ نماز کے لیے جلدی آنے میں کتنا ثواب ملتا ہے تو اس کے لیے دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے۔ اور اگر لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ عشاء اور صبح کی نماز کا ثواب کتنا ملتا ہے، تو ضرور چوتڑوں کے بل گھسیٹتے ہوئے ان کے لیے آتے۔

قرعہ اندازی باہمی مشورہ سے کی جاسکتی ہے جسے تسلیم کرنے کا سب لوگ وعدہ کرتے ہیں۔ اس لیے وعدہ کو پورا کرنے کے لیے قرعہ اندازی سے جو فیصلہ ہواسے تسلیم کرنا اخلاقاً بھی بے حد ضروری ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اذان کے دوران بات کرنے کے بیان میں

وتكلم سليمان بن صرد في أذانه‏.‏ وقال الحسن لا بأس أن يضحك وهو يؤذن أو يقيم‏.‏
اور سلیمان بن صرد صحابی نے اذان کے دوران بات کی اور حضرت حسن بصری نے کہا کہ اگر ایک شخص اذان یا تکبیر کہتے ہوئے ہنس دے تو کوئی حرج نہیں۔

حدیث نمبر : 616
حدثنا مسدد، قال حدثنا حماد، عن أيوب، وعبد الحميد، صاحب الزيادي وعاصم الأحول عن عبد الله بن الحارث قال خطبنا ابن عباس في يوم ردغ، فلما بلغ المؤذن حى على الصلاة‏.‏ فأمره أن ينادي الصلاة في الرحال‏.‏ فنظر القوم بعضهم إلى بعض فقال فعل هذا من هو خير منه وإنها عزمة‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے ایوب سختیانی اور عبدالحمید بن دینار صاحب الزیادی اور عاصم احول سے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن حارث بصری سے، انھوں نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک دن ہم کو جمعہ کا خطبہ دیا۔ بارش کی وجہ سے اس دن اچھی خاصی کیچڑ ہو رہی تھی۔ مؤذن جب حی علی الصلوٰۃ پر پہنچا تو آپ نے اس سے الصلوٰۃ فی الرحال کہنے کے لیے فرمایا کہ لوگ نماز اپنی قیام گاہوں پر پڑھ لیں۔ اس پر لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اسی طرح مجھ سے جو افضل تھے، انھوں نے بھی کیا تھا اور اس میں شک نہیں کہ جمعہ واجب ہے۔

تشریح : موسلادھاربارش ہورہی تھی کہ جمعہ کا وقت ہوگیا اورمؤذن نے اذان شروع کی جب وہ حی علی الصلوٰۃ پر پہنچا تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اسے فوراً لقمہ دیاکہ یوں کہو الصلوٰۃ فی الرحال یعنی لوگو اپنے اپنے ٹھکانوں پر نماز ادا کرلو۔ چونکہ لوگوں کے لیے یہ نئی بات تھی اس لیے ان کو تعجب ہوا۔ جس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان کو سمجھایا کہ میں نے ایسے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول دیکھاہے۔ معلوم ہوا کہ ایسے خاص موقع پر دوران اذان کلام کرنا درست ہے۔ اوراتفاقاً اگرکسی کو اذان کے وقت ہنسی آگئی تو اس سے بھی اذان میں خلل نہ ہوگا۔ یہ اتفاقی امور ہیں جن سے اسلام میں آسانی دکھانا مقصود ہے۔
 
Top