باب : اگر کئی مسافر ہوں تو نماز کے لیے اذان دیں اور تکبیر بھی کہیں اور عرفات اور مزدلفہ میں بھی ایسا ہی کریں
الأذان للمسافر إذا كانوا جماعة، والإقامة، وكذلك بعرفة وجمع وقول المؤذن الصلاة في الرحال. في الليلة الباردة أو المطيرة
اور جب سردی یا بارش کی رات ہو تو مؤذن یوں پکار دے کہ اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔
حدیث نمبر : 629
حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال حدثنا شعبة، عن المهاجر أبي الحسن، عن زيد بن وهب، عن أبي ذر، قال كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر فأراد المؤذن أن يؤذن فقال له " أبرد". ثم أراد أن يؤذن فقال له " أبرد". ثم أراد أن يؤذن. فقال له " أبرد". حتى ساوى الظل التلول فقال النبي صلى الله عليه وسلم {إن شدة الحر من فيح جهنم}
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے مہاجر ابوالحسن سے بیان کیا، انھوں نے زید بن وہب سے، انھوں نے حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ مؤذن نے اذان دینی چاہی تو آپ نے فرمایا ٹھنڈا ہونے دے۔ پھر مؤذن نے اذان دینی چاہی تو آپ نے پھر یہی فرمایا کہ ٹھنڈا ہونے دے۔ یہاں تک کہ سایہ ٹیلوں کے برابر ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گرمی کی شدت دوزخ کی بھاپ سے پیدا ہوتی ہے
تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مسلمان مسافروں کی جب ایک جماعت موجود ہو تو وہ بھی اذان، تکبیر اور جماعت اسی طرح کریں جس طرح حالت اقامت میں کیا کرتے ہیں۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ گرمیوں میں ظہر کی نماز ذرا دیر سے پڑھنا مناسب ہے۔ تاکہ گرمی کی شدت کچھ کم ہوجائے جو دوزخ کے سانس لینے سے پیدا ہوتی ہے۔ جیسی دوزخ ہے ویسا ہی اس کا سانس بھی ہے۔ جس کی حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ مزید کدوکاوش کی ضرورت نہیں۔
حدیث نمبر : 630
حدثنا محمد بن يوسف، قال حدثنا سفيان، عن خالد الحذاء، عن أبي قلابة، عن مالك بن الحويرث، قال أتى رجلان النبي صلى الله عليه وسلم يريدان السفر فقال النبي صلى الله عليه وسلم " إذا أنتما خرجتما فأذنا ثم أقيما ثم ليؤمكما أكبركما".
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے خالد حذاء سے، انھوں نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے، انھوں نے مالک بن حویرث سے، انھوں نے کہا کہ دو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے یہ کسی سفر میں جانے والے تھے۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ دیکھو جب تم سفر میں نکلو تو ( نماز کے وقت راستے میں ) اذان دینا پھر اقامت کہنا، پھر جو شخص تم میں عمر میں بڑا ہو نماز پڑھائے۔
مطلب یہ کہ سفرمیں نماز باجماعت سے غافل نہ ہونا۔
حدیث نمبر : 631
حدثنا محمد بن المثنى، قال حدثنا عبد الوهاب، قال حدثنا أيوب، عن أبي قلابة، قال حدثنا مالك، أتينا إلى النبي صلى الله عليه وسلم ونحن شببة متقاربون، فأقمنا عنده عشرين يوما وليلة، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم رحيما رفيقا، فلما ظن أنا قد اشتهينا أهلنا أو قد اشتقنا سألنا عمن تركنا بعدنا فأخبرناه قال " ارجعوا إلى أهليكم فأقيموا فيهم وعلموهم ومروهم ـ وذكر أشياء أحفظها أو لا أحفظها ـ وصلوا كما رأيتموني أصلي، فإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم وليؤمكم أكبركم".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبدالوہاب نے خبر دی، کہا کہ ہمیں ابوایوب سختیانی نے ابوقلابہ سے خبر دی، انھوں نے کہا کہ ہم سے مالک بن حویرث نے بیان کیا، کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ ہم سب ہم عمر اور نوجوان ہی تھے۔ آپ کی خدمت مبارک میں ہمارا بیس دن و رات قیام رہا۔ آپ بڑے ہی رحم دل اور ملنسار تھے۔ جب آپ نے دیکھا کہ ہمیں اپنے وطن واپس جانے کا شوق ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم لوگ اپنے گھر کسے چھوڑ کر آئے ہو۔ ہم نے بتایا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اچھا اب تم اپنے گھر جاؤ اور ان گھر والوں کے ساتھ رہو اور انھیں بھی دین سکھاؤ اور دین کی باتوں پر عمل کرنے کا حکم کرو۔ مالک نے بہت سی چیزوں کا ذکر کیا جن کے متعلق ابوایوب نے کہا کہ ابوقلابہ نے یوں کہا وہ باتیں مجھ کو یاد ہیں یا یوں کہا مجھ کو یاد نہیں۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی طرح نماز پڑھنا جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور جب نماز کا وقت آ جائے تو کوئی ایک اذان دے اور جو تم میں سب سے بڑا ہو وہ نماز پڑھائے۔
بشرطیکہ وہ قرآن شریف وطریقہ نماز وامامت جانتا ہو۔
تشریح : اس حدیث سے حضرت امام بخاری قدس سرہ نے یہ ثابت فرمایاہے کہ حالت سفرمیں اگرچند مسلمان یکجاہوں توان کو نماز اذان اور جماعت کے ساتھ ادا کرنی چاہئیے۔ ان نوجوانوں کو آپ نے بہت سی نصائح کے ساتھ آخرمیں یہ تاکید فرمائی کہ جیسے تم نے مجھ کونماز پڑھتے دیکھاہے۔ عین اسی طرح میری سنت کے مطابق نماز پڑھنا۔ معلوم ہوا کہ نماز کا ہر ہررکن فرض واجب مستحب سب رسول علیہ السلام کے بتلائے ہوئے طریقہ پرادا ہونا ضروری ہے، ورنہ وہ نماز صحیح نہ ہوگی۔ اس معیار پر دیکھا جائے توآج کتنے نمازی ملیں گے جوبحالت قیام ورکوع وسجدہ وقومہ سنت رسول کوملحوظ رکھتے ہیں۔ سچ ہے
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے
حدیث نمبر : 632
حدثنا مسدد، قال أخبرنا يحيى، عن عبيد الله بن عمر، قال حدثني نافع، قال أذن ابن عمر في ليلة باردة بضجنان ثم قال صلوا في رحالكم، فأخبرنا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يأمر مؤذنا يؤذن، ثم يقول على إثره، ألا صلوا في الرحال. في الليلة الباردة أو المطيرة في السفر.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے عبیداللہ بن عمر عمری سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک سرد رات میں مقام ضجنان پر اذان دی پھر فرمایا کہ لوگو! اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو اور ہمیں آپ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مؤذن سے اذان کے لیے فرماتے اور یہ بھی فرماتے کہ مؤذن اذان کے بعد کہہ دے کہ لوگو! اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔ یہ حکم سفر کی حالت میں یا برسات کی راتوں میں تھا۔
کیونکہ ارشادباری ہے۔ ماجعل علیکم فی الدین من حرج ( الحج:78 ) دین میں تنگی نہیں ہے۔ ضجنان مکہ سے ایک منزل کے فاصلہ پر ایک پہاڑی کا نام ہے۔
حدیث نمبر : 633
حدثنا إسحاق، قال أخبرنا جعفر بن عون، قال حدثنا أبو العميس، عن عون بن أبي جحيفة، عن أبيه، قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم بالأبطح فجاءه بلال فآذنه بالصلاة، ثم خرج بلال بالعنزة حتى ركزها بين يدى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالأبطح وأقام الصلاة.
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں جعفر بن عون نے خبر دی، انھوں نے کہا کہ ہم سے ابوالعمیس نے بیان کیا، انھوں نے عون بن ابی حجیفہ سے ابوحجیفہ کے واسطہ سے بیان کیا، کہا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ابطح میں دیکھا کہ بلال حاضر ہوئے اور آپ کو نماز کی خبر دی پھر بلال رضی اللہ عنہ برچھی لے کر آگے بڑھے اور اسے آپ کے سامنے ( بطور سترہ ) مقام ابطح میں گاڑ دیا اور آپ نے ( اس کو سترہ بنا کر ) نماز پڑھائی۔
ابطح مکہ سے کچھ فاصلہ پر ایک مشہورمقام ہے۔ جہاں آپ نے حالت سفر میں جماعت سے نماز پڑھائی۔ پس حدیث اورباب میں مطابقت ظاہر ہے۔ یہ بھی ثابت ہواکہ اگر ضرورت ہو تومؤذن امام کوگھر سے بلاکر لاسکتے ہیںاور یہ بھی کہ جنگل میں سترہ کا انتظام ضروری ہے۔ اس کا اہتمام مؤذن کو کرنا ہے۔ عنزہ وہ لکڑی جس کے نیچے لوہے کا پھل لگا ہوا ہو، اسے زمین میں با آسانی گاڑا جا سکتا ہے۔