• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بیان میں کہ نابینا شخص اذان دے سکتا ہے اگر اسے کوئی وقت بتانے والا آدمی موجود ہو

حدیث نمبر : 617
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله، عن أبيه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إن بلالا يؤذن بليل، فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن أم مكتوم‏"‏‏. ‏ ثم قال وكان رجلا أعمى لا ينادي حتى يقال له أصبحت أصبحت‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک سے، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے، انھوں نے اپنے والد عبداللہ بن عمر سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال تو رات رہے اذان دیتے ہیں۔ اس لیے تم لوگ کھاتے پیتے رہو۔ یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں۔ راوی نے کہا کہ وہ نابینا تھے اور اس وقت تک اذان نہیں دیتے تھے جب تک ان سے کہا نہ جاتا کہ صبح ہو گئی۔ صبح ہو گئی۔

تشریح : عہدرسالت ہی سے یہ دستور تھا کہ سحری کی اذان حضرت بلال دیاکرتے تھے اورنماز فجر کی اذان حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم نابینا۔ عہدخلافت میں بھی یہی طریقہ رہا اور مدینہ منورہ میں آج تک یہی دستور چلا آ رہا ہے۔ جو لوگ اذان سحری کی مخالفت کرتے ہیں، ان کا خیال صحیح نہیں ہے۔ اس اذان سے نہ صرف سحری کے لیے بلکہ نماز تہجد کے لیے بھی جگانا مقصود ہے۔ حدیث اورباب میں مطابقت ظاہر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : صبح ہونے کے بعد اذان دینا

حدیث نمبر : 618
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر، قال أخبرتني حفصة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا اعتكف المؤذن للصبح وبدا الصبح صلى ركعتين خفيفتين قبل أن تقام الصلاة‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے نافع سے خبر دی، انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے، انھوں نے کہا مجھے ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب مؤذن صبح کی اذان صبح صادق کے طلوع ہونے کے بعد دے چکا ہوتا تو آپ اذان اور تکبیر کے بیچ نماز قائم ہونے سے پہلے دو ہلکی سی رکعتیں پڑھتے۔

یہ فجر کی سنت ہوتی تھی آپ سفر اورحضر ہرجگہ لازماً ان کو ادا فرماتے تھے۔


حدیث نمبر : 619
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا شيبان، عن يحيى، عن أبي سلمة، عن عائشة، كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي ركعتين خفيفتين بين النداء والإقامة من صلاة الصبح‏.‏
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے شیبان نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، انھوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف سے، انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان دو ہلکی سی رکعتیں پڑھتے تھے۔

حدیث نمبر : 620
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن عبد الله بن دينار، عن عبد الله بن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إن بلالا ينادي بليل، فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن أم مكتوم‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے عبداللہ بن دینار سے خبر دی، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ دیکھو بلال رضی اللہ عنہ رات رہے میں اذان دیتے ہیں، اس لیے تم لوگ ( سحری ) کھا پی سکتے ہو۔ جب تک ابن ام مکتوم اذان نہ دیں۔

ان احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ عہدنبوی میں فجر میں دواذانیں دی جاتی تھیں۔ ایک فجر ہونے سے پہلے اس بات کی اطلاع کے لیے کہ ابھی سحری کا اورنماز تہجد کا وقت باقی ہے۔ جولوگ کھانا پینا چاہیں کھاپی سکتے ہیں، تہجدوالے تہجد پڑھ سکتے ہیں۔ پھر فجر کے لیے اذان اس وقت دی جاتی جب صبح صادق ہوچکتی۔ پہلی اذان کے لیے حصرت بلال مقرر تھے اوردوسری کے لیے حضرت ابن ام مکتوم اورکبھی اس کے برعکس بھی ہوتا جیسا کہ آگے بیان ہورہاہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : صبح صادق سے پہلے اذان دینے کا بیان

حدیث نمبر : 621
حدثنا أحمد بن يونس، قال حدثنا زهير، قال حدثنا سليمان التيمي، عن أبي عثمان النهدي، عن عبد الله بن مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا يمنعن أحدكم ـ أو أحدا منكم ـ أذان بلال من سحوره، فإنه يؤذن ـ أو ينادي ـ بليل، ليرجع قائمكم ولينبه نائمكم، وليس أن يقول الفجر أو الصبح‏"‏‏. ‏ وقال بأصابعه ورفعها إلى فوق وطأطأ إلى أسفل حتى يقول هكذا‏.‏ وقال زهير بسبابتيه إحداهما فوق الأخرى ثم مدها عن يمينه وشماله‏.‏
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر بن معاویہ جعفی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سلیمان بن طرخان تیمی نے بیان کیا ابوعثمان عبدالرحمن نہدی سے، انھوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ نے فرمایا کہ بلال کی اذان تمہیں سحری کھانے سے نہ روک دے کیونکہ وہ رات رہے سے اذان دیتے ہیں یا ( یہ کہا کہ ) پکارتے ہیں۔ تا کہ جو لوگ عبادت کے لیے جاگے ہیں وہ آرام کرنے کے لیے لوٹ جائیں اور جو ابھی سوئے ہوئے ہیں وہ ہوشیار ہو جائیں۔ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ فجر یا صبح صادق ہو گئی اور آپ نے اپنی انگلیوں کے اشارے سے ( طلوع صبح کی کیفیت ) بتائی۔ انگلیوں کو اوپر کی طرف اٹھایا اور پھر آہستہ سے انھیں نیچے لائے اور پھر فرمایا کہ اس طرح ( فجر ہوتی ہے ) حضرت زہیر راوی نے بھی شہادت کی انگلی ایک دوسری پر رکھی، پھر انھیں دائیں بائیں جانب پھیلا دیا۔

یعنی بتلادیاکہ فجر کی روشنی اس طرح پھیل جاتی ہے۔

حدیث نمبر : 622
حدثنا إسحاق، قال أخبرنا أبو أسامة، قال عبيد الله حدثنا عن القاسم بن محمد، عن عائشة،‏.‏ وعن نافع، عن ابن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال‏.‏
مجھ سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں ابواسامہ حماد بن اسامہ نے خبر دی، کہا ہم سے عبداللہ بن عمر نے بیان کیا، انھوں نے قاسم بن محمد سے اور انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا اور نافع نے ابن عمر سے یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( بلال رات رہے میں اذان دیتے ہیں۔ عبداللہ ابن ام مکتوم کی اذان تک تم ( سحری ) کھا پی سکتے ہو۔ )

حدیث نمبر : 623
وحدثني يوسف بن عيسى المروزي، قال حدثنا الفضل، قال حدثنا عبيد الله بن عمر، عن القاسم بن محمد، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال ‏"‏ إن بلالا يؤذن بليل، فكلوا واشربوا حتى يؤذن ابن أم مكتوم‏"‏‏. ‏
امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے یوسف بن عیسیٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے فضل بن موسیٰ نے، کہا کہ ہم سے عبیداللہ بن عمر نے قاسم بن محمد سے بیان کیا، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال رات رہے میں اذان دیتے ہیں۔ عبداللہ ابن ام مکتوم کی اذان تک تم ( سحری ) کھا پی سکتے ہو

تشریح : حضرت عبداللہ بن ام مکتوم قیس بن زائدہ رضی اللہ عنہ قریشی مشہور نابینا صحابی ہیں۔ جن کے متعلق سورۃ عبس نازل ہوئی۔ ایک دفعہ کچھ اکابر قریش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تبادلہ خیال کررہے تھے کہ اچانک وہاں یہ بھی پہنچ گئے۔ ایسے موقع پر ان کا وہاں حاضر ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کونامناسب معلوم ہوا۔ جس کے بارے میں اللہ نے سورۃ مذکورہ میں اپنے مقدس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فہمائش فرمائی اور ارشاد ہوا کہ ہمارے ایسے پیارے غریب مخلص بندوں کا اعزازواکرام ہروقت ضروری ہے۔ چنانچہ بعدمیں ایسا ہوا کہ یہ جب بھی تشریف لاتے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کوبڑی شفقت ومحبت سے بٹھاتے اورفرمایا کہ یہ وہ ہیں کہ جن کے بارے میں اللہ پاک نے مجھ کو فہمائش فرمائی۔

حدیث مذکورہ میں جو کچھ ہے بعض روایات میں اس کے برعکس بھی وارد ہواہے۔ یعنی یہ کہ اذان اوّل حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم اوراذان ثانی حضرت بلال رضی اللہ عنہ دیا کرتے تھے۔ جیسا کہ نسائی، ابن خزیمہ، ابن حبان، مسنداحمد وغیرہ میں مذکور ہے۔
وقد جمع بینھما ابن خزیمۃ وغیرہ بانہ یجوز ان یکون علیہ السلام جعل الاذان بین بلال وابن ام مکتوم نوائب فامر فی بعض اللیالی بلالا ان یؤذن بلیل فاذا نزل صعد ابن ام مکتوم فاذن فی الوقت فاذا جاءت نوبۃ ابن ام مکتوم فاذن بلیل فاذا نزل صعد بلال فاذن فی الوقت فکانت مقالۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان بلالا یوذن بلیل فی وقت نوبۃ بلال وکانت مقالتہ ان ابن ام مکتوم یوذن بلیل فی وقت نوبۃ ابن ام مکتوم۔ ( مرعاۃ المفاتیح، ج1، ص:443 )

یعنی محدث ابن خزیمہ وغیرہ نے ان واقعات میں یوں تطبیق دی ہے کہ ممکن ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال وحضرت ابن ام مکتوم کو باری باری ہردو اذانوں کے لیے مقرر کررکھاہو۔ جس دن حضرت بلال کی باری تھی کہ وہ رات میں اذان دے رہے تھے اس دن آپ نے ان کے متعلق فرمایا کہ بلال کی اذان سن کر کھانا پینا سحری کرنا وغیرہ منع نہیں ہوا کیونکہ یہ اذان اسی آگاہی کے لیے دی گئی ہے اورجس دن حضرت ابن ام مکتوم کی رات میں اذان دینے کی باری تھی اس دن ان کے لیے فرمایاکہ ان کی اذان سن کر کھانے پینے سے نہ رک جانا کیونکہ یہ سحری یاتہجد کی اذان دے رہے ہیں اورحضرت بلال کو خاص سحری کی اذان کے لیے مقرر کردیاگیا۔
امام مالک وامام شافعی وامام احمد وامام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہم نے طلوع فجر سے کچھ قبل نماز فجر کے لیے اذان دینا جائز قرار دیاہے۔ یہ حضرات کہتے ہیں کہ نماز فجر خاص اہمیت رکھتی ہے۔ حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
قال ہولاءکان الاذانان لصلوٰۃ الفجر ولم یکن الاول مانعا من التسحر وکان الثانی من قبیل الاعلام بعدالاعلام وانما اختصت صلوٰۃ الفجر بہذا من بین الصلوٰات لما ورد من الترغیب فی الصلوٰۃ اوّل الوقت والصبح یاتی غالباً عقیب النوم فناسب ان ینصب من یوقظ الناس قبل دخول وقتہا لیتاہبوا ویدرکوا فضیلۃ اول الوقت الخ۔ ( مرعاۃ، ج1، ص:444 )

یعنی مذکورہ بالا حضرات کہتے ہیں کہ ہردواذان جن کا ذکر حدیث مذکورہ میں ہے۔ یہ نماز فجرہی کے واسطے ہوتی تھیں۔ پہلی اذان سحری اور تہجد سے مانع نہ تھی۔ دوسری اذان مکرر آگاہی کے لیے دلائی جاتی تھی اوربہ نسبت دوسری نمازوں کے یہ خاص فجر ہی کے بارے میں ہے اس لیے کہ اسے اوّل وقت ادا کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ پس مناسب ہوا کہ ایک ایسا مؤذن بھی مقرر کیاجائے جو لوگوں کوپہلے ہی ہوشیار وبیدار کردے تاکہ وہ تیار ہوجائیں اوراوّل وقت کی فضیلت حاصل کرسکیں۔
بعض علماءکہتے ہیں کہ اذان بلال رضی اللہ عنہ کا تعلق خاص ماہ رمضان ہی سے تھا۔ بعض شراح دیوبند نے بھی ایسا ہی لکھاہے۔ حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وفیہ نظرلان قولہ کلواواشربوا یتاتی فی غیررمضان ایضا وہذا لمن کان یرید صوم التطوع فان کیثرا من الصحابۃ فی زمنہ صلی اللہ علیہ وسلم کانوا یکثرون صیام النفل فکان قولہ فکلوا واشربوا بالنظر الی ہولاءویدل علی ذلک مارواہ عبدالرزاق عن ابن المسیب مرسلا بلفظ ان بلالا یوذن بلیل فمن اراد الصوم فلایمنعہ اذان بلال حتی یوذن ابن ام مکتوم ذکرہ علی المتقی فی کنزالعمال۔ ( ج4، ص:311 ) فجعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم الصوم فیہ باختیار الرجل ولایکون ذلک الا فی غیررمضان فدل علی ان قولہ صلی اللہ علیہ وسلم ان بلالا یوذن بلیل لیس مختصابرمضان۔ ( مرعاۃ، ج1، ص:444 )

یعنی یہ صحیح نہیں کہ اس اذان کا تعلق خاص رمضان سے تھا۔ زمانہ نبوی میں بہت سے صحابہ غیررمضان میں نفل روزے بھی بکثرت رکھا کرتے تھے جیسا کہ مسندعبدالرزاق میں ابن مسیب کی روایت سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ بلال رات میں اذان دیتے ہیں۔ پس جو کوئی روزہ رکھنا چاہے اس کو یہ اذان سن کر سحری سے رکنا نہ چاہئیے۔ یہ ارشادِ نبوی غیررمضان ہی سے متعلق ہے۔ پس ثابت ہوا کہ اذان بلال کو رمضان سے مخصوص کرنا صحیح نہیں ہے۔
رہا یہ مسئلہ کہ اگر کوئی شخص فجر کی اذان جان کر یابھول کر وقت سے پہلے پڑھ دے تووہ کفایت کرے گی یافجر ہونے پر دوبارہ اذان لوٹائی جائے گی۔ اس بارے میں حضرت امام ترمذی فرماتے ہیں: فقال بعض اہل العلم اذااذن الموذن باللیل اجزاہ ولایعید وہوقول مالک وابن المبارک والشافعی واحمد واسحاق وقال بعض اہل العلم اذا اذن باللیل اعاد وبہ یقول سفیان الثوری یعنی بعض اہل علم کا قول ہے کہ اگرمؤذن رات میں فجر کی اذان کہہ دے تو وہ کافی ہوگی اور دوبارہ لوٹانے کی ضرورت نہیں۔ یہ امام مالک اور عبداللہ بن مبارک وامام شافعی واحمد واسحاق وغیرہ کا فتویٰ ہے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وہ اذان لوٹائی جائے گی، امام سفیان ثوری کا یہی فتویٰ ہے۔

محدث کبیر حضرت مولانا عبدالرحمن مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں: قلت لم اقف علی حدیث صحیح صریح یدل علی الاکتفاءفالظاہر عندی قول من قال بعدم الاکتفاءواللہ تعالیٰ اعلم۔ ( تحفۃ الاحوذی، ج1، ص:180 )
یعنی میں کہتا ہوں کہ مجھے کوئی ایسی صریح حدیث نہیں ملی جس سے رات میں کہی ہوئی اذان فجر کی نماز کے لیے کافی ثابت ہو۔ پس میرے نزدیک ظاہر میں ان ہی کا قول صحیح ہے جو اسی اذان کے کافی نہ ہونے کا مسلک رکھتے ہیں۔ واللہ اعلم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بیان میں کہ اذان اور تکبیر کے درمیان کتنا فاصلہ ہونا چاہیے؟

حدیث نمبر : 624
حدثنا إسحاق الواسطي، قال حدثنا خالد، عن الجريري، عن ابن بريدة، عن عبد الله بن مغفل المزني، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ بين كل أذانين صلاة ـ ثلاثا ـ لمن شاء‏"‏‏. ‏
ہم سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ طحان نے سعد بن ایاس جریری سے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن بریدہ سے، انھوں نے عبداللہ بن مغفل مزنی سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا کہ ہر دو اذانوں ( اذان و اقامت ) کے درمیان ایک نماز ( کا فصل ) دوسری نماز سے ہونا چاہیے ( تیسری مرتبہ فرمایا کہ ) جو شخص ایسا کرنا چاہے۔

حدیث نمبر : 625
حدثنا محمد بن بشار، قال حدثنا غندر، قال حدثنا شعبة، قال سمعت عمرو بن عامر الأنصاري، عن أنس بن مالك، قال كان المؤذن إذا أذن قام ناس من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يبتدرون السواري حتى يخرج النبي صلى الله عليه وسلم وهم كذلك يصلون الركعتين قبل المغرب، ولم يكن بين الأذان والإقامة شىء‏.‏ قال عثمان بن جبلة وأبو داود عن شعبة لم يكن بينهما إلا قليل‏.‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن جعفر غندر نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عمرو بن عامر انصاری سے سنا، وہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے کہ آپ نے فرمایا کہ ( عہد رسالت میں ) جب مؤذن اذان دیتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ستونوں کی طرف لپکتے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرہ سے باہر تشریف لاتے تو لوگ اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے ملتے۔ یہ جماعت مغرب سے پہلے کی دو رکعتیں تھیں۔ اور ( مغرب میں ) اذان اور تکبیر میں کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا تھا۔ اور عثمان بن جبلہ اور ابوداود طیالسی نے شعبہ سے اس ( حدیث میں یوں نقل کیا ہے کہ ) اذان اور تکبیر میں بہت تھوڑا سا فاصلہ ہوتا تھا۔

تشریح : مغرب کی جماعت سے قبل دورکعت سنت پڑھنے کا صحابہ کرام میں عام معمول تھا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب یہ ہے کہ اذان اورتکبیر کے درمیان کم ازکم اتنا فاصلہ توہونا ہی چاہئیے کہ دورکعت نماز نفل پڑھی جاسکیں۔ حتیٰ کہ مغرب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔

بعض فضلائے دیوبند نے لکھاہے کہ بعدمیں ان رکعتوں کے پڑھنے سے روک دیاگیا تھا۔ مگریہ وضاحت نہیں کی کہ روکنے والے کون صاحب تھے۔ شایدآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ممانعت کے لیے کوئی حدیث ان کے علم میں ہو۔ مگرہماری نظر سے وہ حدیث نہیں گزری۔ یہ لکھنے کے باوجود ان ہی حضرات نے ان رکعتوں کو مباح بھی قرار دیا ہے۔ ( دیکھو تفہیم البخاری، پ3، ص:59 )
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اذان سن کر جو شخص ( گھر میں بیٹھا ) تکبیر کا انتظار کرے

حدیث نمبر : 626
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني عروة بن الزبير، أن عائشة، قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سكت المؤذن بالأولى من صلاة الفجر قام فركع ركعتين خفيفتين قبل صلاة الفجر بعد أن يستبين الفجر، ثم اضطجع على شقه الأيمن حتى يأتيه المؤذن للإقامة‏.‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، انھوں نے زہری سے، انھوں نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ جب مؤذن صبح کی دوسری اذان دے کر چپ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے اور فرض سے پہلے دو رکعت ( سنت فجر ) ہلکی پھلکی ادا کرتے صبح صادق روشن ہو جانے کے بعد پھر داہنی کروٹ پر لیٹ رہتے۔ یہاں تک کہ مؤذن تکبیر کہنے کی اطلاع دینے کے لیے آپ کے پاس آتا۔

تشریح : اس حدیث سے ثابت ہوا کہ گھر میں سنت پڑھ کر جماعت کھڑی ہونے کا انتظار کرتے ہوئے بیٹھے رہنا جائز ہے۔ آج کل گھڑی گھنٹوں کا زمانہ ہے۔ ہرنمازی مسلمان اپنے ہاں کی جماعتوں کے اوقات کو جانتاہے پس اگر کوئی شخص عین جماعت کھڑی ہونے کے وقت پر گھر سے نکل کر شامل جماعت ہوتو یہ بھی درست ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ہراذان اور تکبیر کے بیچ میں جو کوئی چاہے ( نفل ) نماز پڑھ سکتا ہے

حدیث نمبر : 627
حدثنا عبد الله بن يزيد، قال حدثنا كهمس بن الحسن، عن عبد الله بن بريدة، عن عبد الله بن مغفل، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ بين كل أذانين صلاة بين كل أذانين صلاة ـ ثم قال في الثالثة ـ لمن شاء‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یزید مقری نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے کہمس بن حسن نے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن بریدہ سے، انھوں نے عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر دو اذانوں ( اذان و تکبیر ) کے بیچ میں نماز ہے۔ ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔ پھر تیسری مرتبہ آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی پڑھنا چاہے۔

مقصدباب یہ کہ اذان اورتکبیر میں کچھ نہ کچھ فاصلہ ہونا چاہئیے۔ کم ازکم اتنا ضروری کہ کوئی شخص دورکعت سنت پڑھ سکے۔ مگر مغرب میں وقت کم ہونے کی وجہ سے فوراً جماعت شروع ہوجاتی ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص مغرب میں بھی نماز فرض سے پہلے دورکعت سنت پڑھنا چاہے تواس کے لیے اجازت ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جو یہ کہے کہ سفر میں ایک ہی شخص اذان دے

حدیث نمبر : 628
حدثنا معلى بن أسد، قال حدثنا وهيب، عن أيوب، عن أبي قلابة، عن مالك بن الحويرث، أتيت النبي صلى الله عليه وسلم في نفر من قومي فأقمنا عنده عشرين ليلة، وكان رحيما رفيقا، فلما رأى شوقنا إلى أهالينا قال ‏"‏ ارجعوا فكونوا فيهم وعلموهم وصلوا، فإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم وليؤمكم أكبركم‏"‏‏. ‏
ہم سے معلی بن سعد اسد بصری نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے ابوایوب سے بیان کیا، انھوں نے ابوقلابہ سے، انھوں نے مالک بن حویرث صحابی رضی اللہ عنہ سے، کہا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی قوم ( بنی لیث ) کے چند آدمیوں کے ساتھ حاضر ہوا اور میں نے آپ کی خدمت شریف میں بیس راتوں تک قیام کیا۔ آپ بڑے رحم دل اور ملنسار تھے۔ جب آپ نے ہمارے اپنے گھر پہنچنے کا شوق محسوس کر لیا تو فرمایا کہ اب تم جا سکتے ہو۔ وہاں جا کر اپنی قوم کو دین سکھاؤ اور ( سفر میں ) نماز پڑھتے رہنا۔ جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے ایک شخص اذان دے اور جو تم میں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرائے۔

آداب سفرمیں سے ہے کہ امیر سفرکے ساتھ ساتھ امام ومؤذن کا بھی تقرر کر لیا جائے۔ تاکہ سفرمیں نماز باجماعت کا اہتمام کیا جاسکے۔ حدیث نبوی کا یہی منشا ہے اور یہی مقصد باب ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اگر کئی مسافر ہوں تو نماز کے لیے اذان دیں اور تکبیر بھی کہیں اور عرفات اور مزدلفہ میں بھی ایسا ہی کریں

الأذان للمسافر إذا كانوا جماعة، والإقامة، وكذلك بعرفة وجمع وقول المؤذن الصلاة في الرحال‏.‏ في الليلة الباردة أو المطيرة
اور جب سردی یا بارش کی رات ہو تو مؤذن یوں پکار دے کہ اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔

حدیث نمبر : 629
حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال حدثنا شعبة، عن المهاجر أبي الحسن، عن زيد بن وهب، عن أبي ذر، قال كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر فأراد المؤذن أن يؤذن فقال له ‏"‏ أبرد‏"‏‏. ‏ ثم أراد أن يؤذن فقال له ‏"‏ أبرد‏"‏‏. ‏ ثم أراد أن يؤذن‏.‏ فقال له ‏"‏ أبرد‏"‏‏. ‏ حتى ساوى الظل التلول فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏{‏إن شدة الحر من فيح جهنم‏}‏

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے مہاجر ابوالحسن سے بیان کیا، انھوں نے زید بن وہب سے، انھوں نے حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ مؤذن نے اذان دینی چاہی تو آپ نے فرمایا ٹھنڈا ہونے دے۔ پھر مؤذن نے اذان دینی چاہی تو آپ نے پھر یہی فرمایا کہ ٹھنڈا ہونے دے۔ یہاں تک کہ سایہ ٹیلوں کے برابر ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گرمی کی شدت دوزخ کی بھاپ سے پیدا ہوتی ہے

تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مسلمان مسافروں کی جب ایک جماعت موجود ہو تو وہ بھی اذان، تکبیر اور جماعت اسی طرح کریں جس طرح حالت اقامت میں کیا کرتے ہیں۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ گرمیوں میں ظہر کی نماز ذرا دیر سے پڑھنا مناسب ہے۔ تاکہ گرمی کی شدت کچھ کم ہوجائے جو دوزخ کے سانس لینے سے پیدا ہوتی ہے۔ جیسی دوزخ ہے ویسا ہی اس کا سانس بھی ہے۔ جس کی حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ مزید کدوکاوش کی ضرورت نہیں۔

حدیث نمبر : 630
حدثنا محمد بن يوسف، قال حدثنا سفيان، عن خالد الحذاء، عن أبي قلابة، عن مالك بن الحويرث، قال أتى رجلان النبي صلى الله عليه وسلم يريدان السفر فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إذا أنتما خرجتما فأذنا ثم أقيما ثم ليؤمكما أكبركما‏"‏‏.
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے خالد حذاء سے، انھوں نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے، انھوں نے مالک بن حویرث سے، انھوں نے کہا کہ دو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے یہ کسی سفر میں جانے والے تھے۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ دیکھو جب تم سفر میں نکلو تو ( نماز کے وقت راستے میں ) اذان دینا پھر اقامت کہنا، پھر جو شخص تم میں عمر میں بڑا ہو نماز پڑھائے۔

مطلب یہ کہ سفرمیں نماز باجماعت سے غافل نہ ہونا۔

حدیث نمبر : 631
حدثنا محمد بن المثنى، قال حدثنا عبد الوهاب، قال حدثنا أيوب، عن أبي قلابة، قال حدثنا مالك، أتينا إلى النبي صلى الله عليه وسلم ونحن شببة متقاربون، فأقمنا عنده عشرين يوما وليلة، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم رحيما رفيقا، فلما ظن أنا قد اشتهينا أهلنا أو قد اشتقنا سألنا عمن تركنا بعدنا فأخبرناه قال ‏"‏ ارجعوا إلى أهليكم فأقيموا فيهم وعلموهم ومروهم ـ وذكر أشياء أحفظها أو لا أحفظها ـ وصلوا كما رأيتموني أصلي، فإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم وليؤمكم أكبركم‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبدالوہاب نے خبر دی، کہا کہ ہمیں ابوایوب سختیانی نے ابوقلابہ سے خبر دی، انھوں نے کہا کہ ہم سے مالک بن حویرث نے بیان کیا، کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ ہم سب ہم عمر اور نوجوان ہی تھے۔ آپ کی خدمت مبارک میں ہمارا بیس دن و رات قیام رہا۔ آپ بڑے ہی رحم دل اور ملنسار تھے۔ جب آپ نے دیکھا کہ ہمیں اپنے وطن واپس جانے کا شوق ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم لوگ اپنے گھر کسے چھوڑ کر آئے ہو۔ ہم نے بتایا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اچھا اب تم اپنے گھر جاؤ اور ان گھر والوں کے ساتھ رہو اور انھیں بھی دین سکھاؤ اور دین کی باتوں پر عمل کرنے کا حکم کرو۔ مالک نے بہت سی چیزوں کا ذکر کیا جن کے متعلق ابوایوب نے کہا کہ ابوقلابہ نے یوں کہا وہ باتیں مجھ کو یاد ہیں یا یوں کہا مجھ کو یاد نہیں۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی طرح نماز پڑھنا جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور جب نماز کا وقت آ جائے تو کوئی ایک اذان دے اور جو تم میں سب سے بڑا ہو وہ نماز پڑھائے۔

بشرطیکہ وہ قرآن شریف وطریقہ نماز وامامت جانتا ہو۔
تشریح : اس حدیث سے حضرت امام بخاری قدس سرہ نے یہ ثابت فرمایاہے کہ حالت سفرمیں اگرچند مسلمان یکجاہوں توان کو نماز اذان اور جماعت کے ساتھ ادا کرنی چاہئیے۔ ان نوجوانوں کو آپ نے بہت سی نصائح کے ساتھ آخرمیں یہ تاکید فرمائی کہ جیسے تم نے مجھ کونماز پڑھتے دیکھاہے۔ عین اسی طرح میری سنت کے مطابق نماز پڑھنا۔ معلوم ہوا کہ نماز کا ہر ہررکن فرض واجب مستحب سب رسول علیہ السلام کے بتلائے ہوئے طریقہ پرادا ہونا ضروری ہے، ورنہ وہ نماز صحیح نہ ہوگی۔ اس معیار پر دیکھا جائے توآج کتنے نمازی ملیں گے جوبحالت قیام ورکوع وسجدہ وقومہ سنت رسول کوملحوظ رکھتے ہیں۔ سچ ہے

مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

حدیث نمبر : 632
حدثنا مسدد، قال أخبرنا يحيى، عن عبيد الله بن عمر، قال حدثني نافع، قال أذن ابن عمر في ليلة باردة بضجنان ثم قال صلوا في رحالكم، فأخبرنا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يأمر مؤذنا يؤذن، ثم يقول على إثره، ألا صلوا في الرحال‏.‏ في الليلة الباردة أو المطيرة في السفر‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے عبیداللہ بن عمر عمری سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک سرد رات میں مقام ضجنان پر اذان دی پھر فرمایا کہ لوگو! اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو اور ہمیں آپ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مؤذن سے اذان کے لیے فرماتے اور یہ بھی فرماتے کہ مؤذن اذان کے بعد کہہ دے کہ لوگو! اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔ یہ حکم سفر کی حالت میں یا برسات کی راتوں میں تھا۔

کیونکہ ارشادباری ہے۔ ماجعل علیکم فی الدین من حرج ( الحج:78 ) دین میں تنگی نہیں ہے۔ ضجنان مکہ سے ایک منزل کے فاصلہ پر ایک پہاڑی کا نام ہے۔

حدیث نمبر : 633
حدثنا إسحاق، قال أخبرنا جعفر بن عون، قال حدثنا أبو العميس، عن عون بن أبي جحيفة، عن أبيه، قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم بالأبطح فجاءه بلال فآذنه بالصلاة، ثم خرج بلال بالعنزة حتى ركزها بين يدى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالأبطح وأقام الصلاة‏.‏
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں جعفر بن عون نے خبر دی، انھوں نے کہا کہ ہم سے ابوالعمیس نے بیان کیا، انھوں نے عون بن ابی حجیفہ سے ابوحجیفہ کے واسطہ سے بیان کیا، کہا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ابطح میں دیکھا کہ بلال حاضر ہوئے اور آپ کو نماز کی خبر دی پھر بلال رضی اللہ عنہ برچھی لے کر آگے بڑھے اور اسے آپ کے سامنے ( بطور سترہ ) مقام ابطح میں گاڑ دیا اور آپ نے ( اس کو سترہ بنا کر ) نماز پڑھائی۔

ابطح مکہ سے کچھ فاصلہ پر ایک مشہورمقام ہے۔ جہاں آپ نے حالت سفر میں جماعت سے نماز پڑھائی۔ پس حدیث اورباب میں مطابقت ظاہر ہے۔ یہ بھی ثابت ہواکہ اگر ضرورت ہو تومؤذن امام کوگھر سے بلاکر لاسکتے ہیںاور یہ بھی کہ جنگل میں سترہ کا انتظام ضروری ہے۔ اس کا اہتمام مؤذن کو کرنا ہے۔ عنزہ وہ لکڑی جس کے نیچے لوہے کا پھل لگا ہوا ہو، اسے زمین میں با آسانی گاڑا جا سکتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : کیا مؤذن اذان میں اپنا منہ ادھر ادھر ( دائیں بائیں ) پھرائے اور کیا اذان کہتے وقت ادھر ادھر دیکھ سکتا ہے؟

وهل يلتفت في الأذان ويذكر عن بلال أنه جعل إصبعيه في أذنيه‏.‏ وكان ابن عمر لا يجعل إصبعيه في أذنيه‏.‏ وقال إبراهيم لا بأس أن يؤذن على غير وضوء‏.‏ وقال عطاء الوضوء حق وسنة‏.‏ وقالت عائشة كان النبي صلى الله عليه وسلم يذكر الله على كل أحيانه‏.‏
اور بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے اذان میں اپنی دونوں انگلیاں اپنے کانوں میں داخل کیں۔ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اذان میں کانوں میں انگلیاں نہیں ڈالتے تھے۔ اور ابراہیم نخعی نے کہا کہ بے وضو اذان دینے میں کوئی برائی نہیں اور عطاء نے کہا کہ اذان میں وضو ضروری اور سنت ہے۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب وقتوں میں اللہ کو یاد فرمایا کرتے تھے۔

حدیث نمبر : 634
حدثنا محمد بن يوسف، قال حدثنا سفيان، عن عون بن أبي جحيفة، عن أبيه، أنه رأى بلالا يؤذن فجعلت أتتبع فاه ها هنا وها هنا بالأذان‏.‏
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے عون بن ابی حجیفہ سے بیان کیا، انھوں نے اپنے باپ سے کہ انھوں نے بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دیتے ہوئے دیکھا۔ وہ کہتے ہیں میں بھی ان کے منہ کے ساتھ ادھر ادھر منہ پھیرنے لگا۔

تشریح : اس باب کے ذیل میں حضرت الامام نے کئی ایک مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ مثلاً مؤذن کو حی علی الصلوٰۃ حی علی الفلاح کے وقت دائیں بائیں منہ پھیرنا درست ہے نیز کانوں میں انگلیاں داخل کرنا بھی جائز ہے تاکہ آواز میں بلندی پیدا ہو۔ کوئی کانوں میں انگلیاں نہ ڈالیں توبھی کوئی ہرج نہیں۔ وضوکرکے اذان کہنا بہتر ہے مگراس کے لیے وضو شرط نہیں ہے جن لوگوں نے وضو ضروری قرار دیا ہے، انھوں نے فضیلت کا پہلواختیار کیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : یوں کہنا کیسا ہے کہ نماز نے ہمیں چھوڑ دیا؟

وكره ابن سيرين أن يقول فاتتنا الصلاة ولكن ليقل لم ندرك‏.‏ وقول النبي صلى الله عليه وسلم أصح‏.‏
امام ابن سیرین رحمہ اللہ علیہ نے اس کو مکروہ جانا ہے کہ کوئی کہے کہ نماز نے ہمیں چھوڑ دیا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہم نماز نہ پا سکے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہی زیادہ صحیح ہے۔

تشریح : ابن سیرین کے اثر کو ابن ابی شیبہ نے وصل کیا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابن سیرین کا رد کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ یوں کہنا درست ہے کہ ہماری نماز جاتی رہی، جب یہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے توپھراسے مکروہ قراردینا درست نہیں ہے۔

حدیث نمبر : 635
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا شيبان، عن يحيى، عن عبد الله بن أبي قتادة، عن أبيه، قال بينما نحن نصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم إذ سمع جلبة رجال فلما صلى قال ‏"‏ ما شأنكم‏"‏‏. ‏ قالوا استعجلنا إلى الصلاة‏.‏ قال ‏"‏ فلا تفعلوا، إذا أتيتم الصلاة فعليكم بالسكينة، فما أدركتم فصلوا وما فاتكم فأتموا‏"‏‏. ‏
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شیبان بن عبدالرحمن نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے، انھوں نے اپنے والد قتادہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں تھے۔ آپ نے کچھ لوگوں کے چلنے پھرنے اور بولنے کی آواز سنی۔ نماز کے بعد آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا قصہ ہے لوگوں نے کہا کہ ہم نماز کے لیے جلدی کر رہے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو۔ بلکہ جب تم نماز کے لیے آؤ تو وقار اور سکون کو ملحوظ رکھو، نماز کا جو حصہ پاؤ اسے پڑھو اور اور جو رہ جائے اسے ( بعد ) میں پورا کر لو۔

تشریح : حدیث کے لفظ ومافاتکم سے حضرت امام نے باب کو ثابت فرمایاہے اورگفتگو کا سلیقہ سکھلایاہے کہ یوں کہنا چاہئیے کہ نماز کا جو حصہ تم پاسکو اسے پڑھ لو اور جو رہ جائے بعدمیں پورا کرلو۔
 
Top