• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بیان میں کہ نماز کا جوحصہ ( جماعت کے ساتھ ) پاسکو اسے پڑھ لو اور جو نہ پاسکو اسے بعد میں پورا کرلو

وقال ‏"‏ ما أدركتم فصلوا، وما فاتكم فأتموا‏"‏‏. ‏ قاله أبو قتادة عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.
یہ مسئلہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔

حدیث نمبر : 636
حدثنا آدم، قال حدثنا ابن أبي ذئب، قال حدثنا الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ وعن الزهري، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا سمعتم الإقامة فامشوا إلى الصلاة، وعليكم بالسكينة والوقار ولا تسرعوا، فما أدركتم فصلوا وما فاتكم فأتموا‏"‏‏.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عبدالرحمن بن ابی ذئب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام زہری نے سعید بن مسیب سے بیان کیا، انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ( دوسری سند ) اور زہری نے ابوسلمہ سے، انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے فرمایا تم لوگ تکبیر کی آواز سن لو تو نماز کے لیے ( معمولی چال سے ) چل پڑو۔ سکون اور وقار کو ( بہرحال ) پکڑے رکھو اور دوڑ کے مت آؤ۔ پھر نماز کا جو حصہ ملے اسے پڑھ لو، اور جو نہ مل سکے اسے بعد میں پورا کر لو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نماز کی تکبیر کے وقت جب لوگ امام کو دیکھیں توکس وقت کھڑے ہوں

حدیث نمبر : 637
حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال حدثنا هشام، قال كتب إلى يحيى عن عبد الله بن أبي قتادة، عن أبيه، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إذا أقيمت الصلاة فلا تقوموا حتى تروني‏"‏‏. ‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، کہا مجھے یحییٰ نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے یہ حدیث لکھ کر بھیجی کہ وہ اپنے باپ سے بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز کے لیے تکبیر کہی جائے تو اس وقت تک نہ کھڑے ہو جب تک مجھے نکلتے ہوئے نہ دیکھ لو۔

تشریح : اس مسئلے میں کئی قول ہیں۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تکبیر ختم ہونے کے بعد مقتدیوں کو اٹھنا چاہئیے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں تکبیر شروع ہوتے ہی۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جب مؤذن حی علی الصلوٰۃ کہے اور جب مؤذن قدقامت الصلوٰۃ کہے توامام نماز شروع کردے۔ امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حی علی الصلوٰۃ پر اٹھے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب کی حدیث لا کر یہ اشارہ کیا جب امام مسجد میں نہ ہو تو مقتدیوں کو چاہئیے کہ بیٹھے رہیں اور جب امام کو دیکھ لیں تب نماز کے لیے کھڑے ہوں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نماز کے لیے جلدی نہ اٹھے بلکہ اطمینان اور سکون و سہولت کے ساتھ اٹھے

حدیث نمبر : 638
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا شيبان، عن يحيى، عن عبد الله بن أبي قتادة، عن أبيه، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إذا أقيمت الصلاة فلا تقوموا حتى تروني وعليكم بالسكينة‏"‏‏. ‏ تابعه علي بن المبارك‏.‏
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے، انھوں نے اپنے باپ ابوقتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز کی تکبیر ہو تو جب تک مجھے دیکھ نہ لو کھڑے نہ ہو اور آہستگی کو لازم رکھو۔ شیبان کے ساتھ اس حدیث کو یحییٰ سے علی بن مبارک نے بھی روایت کیا ہے۔

جسے خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الجمعہ میں نکالا ہے۔ معلوم ہوا کہ شرکت جماعت کے لیے بھاگ دوڑ مناسب نہیں بلکہ سکون اوروقار کے ساتھ چل کر شریک جماعت ہونا چاہئیے۔ پھر جو نماز چھوٹ جائے وہ بعدمیں پڑھ لے۔ جماعت کا ثواب بہرحال حاصل ہوگا۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : کیا مسجد سے کسی ضرورت کی وجہ سے اذان یا اقامت کے بعد بھی کوئی شخص نکل سکتاہے؟

حدیث نمبر : 639
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، قال حدثنا إبراهيم بن سعد، عن صالح بن كيسان، عن ابن شهاب، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج وقد أقيمت الصلاة وعدلت الصفوف، حتى إذا قام في مصلاه انتظرنا أن يكبر انصرف قال ‏"‏ على مكانكم‏"‏‏. ‏ فمكثنا على هيئتنا حتى خرج إلينا ينطف رأسه ماء وقد اغتسل‏.‏
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، وہ صالح بن کیسان سے، وہ ابن شہاب سے، وہ ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( ایک دن حجرے سے ) باہر تشریف لائے، اقامت کہی جا چکی تھی اور صفیں برابر کی جا چکی تھیں۔ آپ جب مصلے پر کھڑے ہوئے تو ہم انتظار کر رہے تھے کہ اب آپ تکبیر کہتے ہیں۔ لیکن آپ واپس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اپنی اپنی جگہ پر ٹھہرے رہو۔ ہم اسی حالت میں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ آپ دوبارہ تشریف لائے، تو سر مبارک سے پانی ٹپک رہا تھا۔ آپ نے غسل کیا تھا۔

تشریح : آپ حالت جنابت میں تھے مگر یادنہ رہنے کی وجہ سے تشریف لے آئے۔ بعدمیں معلوم ہوگیا توواپس تشریف لے گئے۔ اس حدیث سے حضرت امام بخاری قدس سرہ نے یہ مسئلہ ثابت کیا کہ کوئی ایسی ہی سخت ضرورت پیش آجائے، تو اذان وتکبیر کے بعد بھی آدمی مسجد سے باہر نکل سکتاہے۔ جس حدیث میں ممانعت آئی ہے وہاں محض بلاوجہ نفسانی خواہش کے باہر نکلنا مراد ہے۔ ممانعت والی حدیث صحیح مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اورمسنداحمد میں بھی ہے۔

ان احادیث کو نقل کرنے کے بعد حضرت علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:والحدیثان یدلان علی تحریم الخروج من المسجد بعد سماع الاذان لغیرالوضوءوقضاءالحاجۃ وماتدعوا الضرورۃ الیہ حتی یصلی فیہ تلک الصلوٰۃ لان ذلک المسجد قد تعین لتلک الصلوٰۃ۔ ( نیل الاوطار ) یعنی مسجد سے اذان سننے کے بعد نکلنا حرام ہے۔ مگروضو یاقضائے حاجت یا اورکوئی ضروری کام ہو تواجازت ہے ورنہ جس مسجد میں رہتے ہوئے اذان سن لی اب اسی مسجد میں نماز کی ادائیگی لازم ہے کیونکہ اس نماز کے لیے وہی مسجد متعین ہوچکی ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ احکام شریعت وطریقہ عبادت میں نسیان ہوسکتاہے تاکہ وہ وحی آسمانی کے مطابق اس نسیان کا ازالہ کرسکیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اگرامام مقتدیوں سے کہے کہ تم لوگ اسی حالت میں ٹھہرے رہو تو جب تک وہ لوٹ کر آئے اس کا انتظار کریں ( اور اپنی حالت پر ٹھہرے رہیں )

حدیث نمبر : 640
حدثنا إسحاق، قال حدثنا محمد بن يوسف، قال حدثنا الأوزاعي، عن الزهري، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة، قال أقيمت الصلاة فسوى الناس صفوفهم، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فتقدم وهو جنب ثم قال ‏"‏ على مكانكم‏"‏‏. ‏ فرجع فاغتسل ثم خرج ورأسه يقطر ماء فصلى بهم‏.‏
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں محمد بن یوسف فریابی نے خبر دی کہ کہا ہم سے اوزاعی نے ابن شہاب زہری سے بیان کیا، انھوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے، انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ انھوں نے فرمایا کہ نماز کے لیے اقامت کہی جا چکی تھی اور لوگوں نے صفیں سیدھی کر لی تھیں۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آگے بڑھے۔ لیکن حالت جنابت میں تھے ( مگر پہلے خیال نہ رہا ) اس لیے آپ نے فرمایا کہ تم لوگ اپنی اپنی جگہ ٹھہرے رہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو آپ غسل کئے ہوئے تھے اور سر مبارک سے پانی ٹپک رہا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔

تشریح : حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب قدس سرہ فرماتے ہیں کہ بعض نسخوں میں یہاں اتنی عبارت زائد ہے:قیل لابی عبداللہ ای البخاری ان بدا لاحدنا مثل ہذا یفعل کما یفعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال فای شئی یصنع فقیل ینتظرونہ قیاما اوقعودا قال ان کان قبل التکبیر للاحرام فلاباس ان یقعدوا وان کان بعدالتکبیر انتظروہ حال کونہم قیاما۔ یعنی لوگوں نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے کہا اگر ہم میں کسی کو ایسا اتفاق ہو تووہ کیا کرے؟ انھوں نے کہا کہ جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ویسا کرے۔ لوگوں نے کہا تو مقتدی امام کا انتظار کھڑے رہ کر کرتے رہیں یا بیٹھ جائیں۔ انھوں نے کہا اگرتکبیرتحریمہ ہوچکی ہے تو کھڑے کھڑے انتظارکریں۔ ورنہ بیٹھ جانے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : آدمی یوں کہے کہ ہم نے نماز نہیں پڑھی تو اس طرح کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہے

حدیث نمبر : 641
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا شيبان، عن يحيى، قال سمعت أبا سلمة، يقول أخبرنا جابر بن عبد الله، أن النبي صلى الله عليه وسلم جاءه عمر بن الخطاب يوم الخندق فقال يا رسول الله، والله ما كدت أن أصلي حتى كادت الشمس تغرب، وذلك بعد ما أفطر الصائم‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ والله ما صليتها ‏"‏ فنزل النبي صلى الله عليه وسلم إلى بطحان وأنا معه فتوضأ ثم صلى ـ يعني العصر ـ بعد ما غربت الشمس، ثم صلى بعدها المغرب‏.‏
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے شیبان نے یحییٰ کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ میں نے ابوسلمہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ ہمیں جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے دن حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ! قسم خدا کی سورج غروب ہونے کو ہی تھا کہ میں اب عصر کی نماز پڑھ سکا ہوں۔ آپ جب حاضر خدمت ہوئے تو روزہ افطار کرنے کا وقت آ چکا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم اللہ کی میں نے بھی تو نماز عصر نہیں پڑھی ہے۔ پھر آپ بطحان کی طرف گئے۔ میں آپ کے ساتھ ہی تھا۔ آپ نے وضو کیا، پھر عصر کی نماز پڑھی۔ سورج ڈوب چکا تھا۔ پھر اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔

یہ باب لاکر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا ردکیاہے۔ جنھوں نے یہ کہنا مکروہ قرار دیا کہ یوں کہاجائے کہ ہم نے نماز نہیں پڑھی۔ حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابراہیم نے یہ کہنا اس شخص کے لیے مکروہ جانا جو نماز کا انتظار کررہاہو۔ کیونکہ وہ گویا نماز ہی میں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اگر امام کو تکبیر ہو چکنے کے بعد کوئی ضرورت پیش آئے تو کیا کرے؟

حدیث نمبر : 642
حدثنا أبو معمر عبد الله بن عمرو، قال حدثنا عبد الوارث، قال حدثنا عبد العزيز بن صهيب، عن أنس، قال أقيمت الصلاة والنبي صلى الله عليه وسلم يناجي رجلا في جانب المسجد، فما قام إلى الصلاة حتى نام القوم‏.‏
ہم سے ابومعمر عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ نماز کے لیے تکبیر ہو چکی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی شخص سے مسجد کے ایک گوشے میں چپکے چپکے کان میں باتیں کر رہے تھے۔ پھر آپ نماز کے لیے جب تشریف لائے تو لوگ سو رہے تھے۔

سونے سے مراد اونگھنا ہے جیسا کہ ابن حبان اوراسحاق بن راہویہ نے روایت کیاہے کہ بعض لوگ اونگھنے لگے، چونکہ عشاءکی نماز کے وقت میں کافی گنجائش ہے اورباتیں بے حد ضروری تھیں، اس لیے آپ نے نماز کو مؤخر کردیا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ان شرعی سہولتوں کوبیان کرناہے جو روا رکھی گئی ہیں۔ آج جب کہ مصروفیات زندگی حد سے زیادہ بڑھ چکی ہیں اورہر ہر منٹ مصروفیات کا ہے حدیث نبوی “ الامام ضامن ” کے تحت امام کو بہرحال مقتدیوں کا خیال رکھنا ضروری ہوگا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : تکبیر ہو چکنے کے بعد کسی سے باتیں کرنا

حدیث نمبر : 643
حدثنا عياش بن الوليد، قال حدثنا عبد الأعلى، قال حدثنا حميد، قال سألت ثابتا البناني عن الرجل، يتكلم بعد ما تقام الصلاة فحدثني عن أنس بن مالك، قال أقيمت الصلاة فعرض للنبي صلى الله عليه وسلم رجل فحبسه بعد ما أقيمت الصلاة‏.
ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حمید طویل نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ثابت بنانی سے ایک شخص کے متعلق مسئلہ دریافت کیا جو نماز کے لیے تکبیر ہونے کے بعد گفتگو کرتا رہے۔ اس پر انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ انھوں نے فرمایا کہ تکبیر ہو چکی تھی۔ اتنے میں ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے راستہ میں ملا اور آپ کو نماز کے لیے تکبیر کہی جانے کے بعد بھی روکے رکھا۔

تشریح : یہ آپ کے کمال اخلاق حسنہ کی دلیل ہے کہ تکبیر ہوچکنے کے بعد بھی آپ نے اس شخص سے گفتگو جاری رکھی۔ آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب تک ملنے والا خود جدا نہ ہوتا آپ ضرور موجود رہتے۔ یہاں بھی یہی ماجرا ہوا۔ بہرحال کسی خاص موقع پر اگرامام ایسا کرے تو شرعاً اس پر مؤاخذہ نہیں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : جماعت سے نماز پڑھنا فرض ہے

وقال الحسن إن منعته أمه عن العشاء في الجماعة شفقة لم يطعها‏.‏
اور امام حسن بصری نے کہا کہ اگر کسی شخص کی ماں اس کو محبت کی بنا پر عشاء کی نماز باجماعت کے لیے مسجد میں جانے سے روک دے تو اس شخص کے لیے ضروری ہے کہ اپنی ماں کی بات نہ مانے۔

حدیث نمبر : 644
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ والذي نفسي بيده لقد هممت أن آمر بحطب فيحطب، ثم آمر بالصلاة فيؤذن لها، ثم آمر رجلا فيؤم الناس، ثم أخالف إلى رجال فأحرق عليهم بيوتهم، والذي نفسي بيده لو يعلم أحدهم أنه يجد عرقا سمينا أو مرماتين حسنتين لشهد العشاء‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابوالزناد سے خبر دی، انھوں نے اعرج سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ لکڑیوں کے جمع کرنے کا حکم دوں۔ پھر نماز کے لیے کہوں، اس کے لیے اذان دی جائے پھر کسی شخص سے کہوں کہ وہ امامت کرے اور میں ان لوگوں کی طرف جاؤں ( جو نماز باجماعت میں حاضر نہیں ہوتے ) پھر انھیں ان کے گھروں سمیت جلا دوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر یہ جماعت میں نہ شریک ہونے والے لوگ اتنی بات جان لیں کہ انھیں مسجد میں ایک اچھے قسم کی گوشت والی ہڈی مل جائے گی یا دو عمدہ کھر ہی مل جائیں گے تو یہ عشاء کی جماعت کے لیے مسجد میں ضرور حاضر ہو جائیں

تشریح : اس حدیث سے نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا جس قدر ضروری معلوم ہوتاہے وہ الفاظ حدیث سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تارکین جماعت کے لیے ان کے گھروں کو آگ لگانے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ اسی لیے جن علماءنے نماز کو جماعت کے ساتھ فرض قراردیاہے یہ حدیث ان کی اہم دلیل ہے۔

علامہ شوکانی فرماتے ہیں: والحدیث استدل بہ القائلون بوجوب صلوٰۃ الجماعۃ لانہا لوکانت سنۃ لم یہدد تارکہا بالتحریق۔ یعنی اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل پکڑی ہے جو نماز باجماعت کو واجب قراردیتے ہیں۔ اگریہ محض سنت ہوتی تواس کے چھوڑنے والے کو آگ میں جلانے کی دھمکی نہ دی جاتی۔

بعض علماءاس کے وجوب کے قائل نہیں ہیں اوروہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تنبیہ جن لوگوں کوفرمائی تھی، وہ منافق لوگ تھے۔ حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: والذی یظہرلی ان الحدیث ورد فی المنافقین لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم فی صدرالحدیث “ اثقل الصلوٰۃ علی المنافقین ” ولقولہ صلی اللہ علیہ وسلم “ لویعلمون الخ ” لان ہذا الوصف یلیق بہم لا بالمومنین لکن المراد نفاق المعصیۃ لانفاق الکفر الخ۔ یعنی میری سمجھ میں یہ آتاہے کہ یہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ خاص منافقین کے بارے میں ہے۔ شروع کے الفاظ صاف ہیں کہ سب سے زیادہ بھاری نماز منافقین پر عشاءاور فجر کی نمازیں ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی یہی ظاہر کرتاہے لو یعلمون الخ یعنی اگروہ ان نمازوں کا ثواب باجماعت پڑھنے کا جان لیتے توآخرتک۔ پس یہ بری عادت اہل ایمان کی شان سے بہت ہی بعیدہے۔ یہ خاص اہل نفاق ہی کا شیوہ ہوسکتاہے۔ یہاں نفاق سے مراد نفاق معصیت ہے نفاق کفرمراد نہیں ہے۔ بہرحال جمہور علماءنے نماز باجماعت کو سنت قراردیاہے۔ ان کی دلیل وہ احادیث ہیں جن میں نمازباجماعت کی اکیلے کی نماز پر ستائیس درجہ زیادہ فضیلت بتلائی گئی ہے۔ معلوم ہوا کہ جماعت سے باہر بھی نماز ہوسکتی ہے مگر ثواب میں وہ اس قدر کم ہے کہ اس کے مقابلہ پر جماعت کی نماز ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔

علامہ شوکانی فرماتے ہیں: فاعدل الاقوال اقربہا الی الصواب ان الجماعۃ من السنن الموکدۃ التی لایخل بملازمتہا ماامکن الا محروم مشؤم۔ ( نیل، جزئ3، ص:137 ) یعنی درست تر قول یہی معلوم ہوتاہے کہ جماعت سے نماز ادا کرنا سنن مؤکدہ ہے۔ ایسی سنت کہ امکانی طاقت میں اس سے وہی شخص تساہل برت سکتاہے جو انتہائی بدبخت بلکہ منحوس ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان اس طرف معلوم ہوتاہے کہ نماز باجماعت واجب ہے جیسا کہ منعقدہ باب سے ظاہر ہے اسی لیے مولانا مرزاحیرت مرحوم فرماتے ہیں کہ ان المحققین ذھبوا الی وجوبہا والحق احق بالاتباع۔

حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مختلف طرق سے روایت کی گئی ہے۔ جس میں الفاظ کی کمی بیشی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی نقل کردہ روایت میں منافقین کا ذکر صریح لفظوں میں نہیں ہے دوسری روایات میں منافقین کا ذکر صراحتاً آیاہے جیسا کہ مذکورہوا۔
بعض علماءکہتے ہیں کہ اگرنماز باجماعت ہی فرض ہوتی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بغیر جلائے نہ چھوڑتے۔ آپ کا اس سے رک جانا اس امر کی دلیل ہے کہ یہ فرض نہیں بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔ نیل الاوطار میں تفصیل سے ان مباحت کو لکھا گیاہے۔ من شاءفلیرجع الیہ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : نماز باجماعت کی فضیلت کا بیان

وكان الأسود إذا فاتته الجماعة ذهب إلى مسجد آخر‏.‏ وجاء أنس إلى مسجد قد صلي فيه، فأذن وأقام وصلى جماعة‏.‏
اسود رضی اللہ عنہ سے جب جماعت فوت ہو جاتی تو آپ کسی دوسری مسجد میں تشریف لے جاتے ( جہاں نماز باجماعت ملنے کا امکان ہوتا ) اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ ایک ایسی مسجد میں حاضر ہوئے جہاں نماز ہو چکی تھی۔ آپ نے پھر اذان دی، اقامت کہی اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھی۔

حدیث نمبر : 645
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ صلاة الجماعة تفضل صلاة الفذ بسبع وعشرين درجة‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی، انھوں نے نافع سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جماعت کے ساتھ نماز اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔

حدیث نمبر : 646
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا الليث، حدثني ابن الهاد، عن عبد الله بن خباب، عن أبي سعيد الخدري، أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ صلاة الجماعة تفضل صلاة الفذ بخمس وعشرين درجة‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے یزید بن ہاد نے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن خباب سے، انھوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جماعت سے نماز تنہا نماز پڑھنے سے پچیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔


حدیث نمبر : 647
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال حدثنا عبد الواحد، قال حدثنا الأعمش، قال سمعت أبا صالح، يقول سمعت أبا هريرة، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ صلاة الرجل في الجماعة تضعف على صلاته في بيته وفي سوقه خمسا وعشرين ضعفا، وذلك أنه إذا توضأ فأحسن الوضوء، ثم خرج إلى المسجد لا يخرجه إلا الصلاة، لم يخط خطوة إلا رفعت له بها درجة، وحط عنه بها خطيئة، فإذا صلى لم تزل الملائكة تصلي عليه ما دام في مصلاه اللهم صل عليه، اللهم ارحمه‏.‏ ولا يزال أحدكم في صلاة ما انتظر الصلاة‏"‏‏. ‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ میں نے ابوصالح سے سنا، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی کی جماعت کے ساتھ نماز گھر میں یا بازار میں پڑھنے سے پچیس درجہ زیادہ بہتر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جب ایک شخص وضو کرتا ہے اور اس کے تمام آداب کو ملحوظ رکھ کر اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر مسجد کا راستہ پکڑتا ہے اور سوا نماز کے اور کوئی دوسرا ارادہ اس کا نہیں ہوتا، تو ہر قدم پر اس کا ایک درجہ بڑھتا ہے اور ایک گناہ معاف کیا جاتا ہے اور جب نماز سے فارغ ہو جاتا ہے تو فرشتے اس وقت تک اس کے لیے برابر دعائیں کرتے رہتے ہیں جب تک وہ اپنے مصلے پر بیٹھا رہے۔ کہتے ہیں اے اللہ! اس پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔ اے اللہ! اس پر رحم کر اور جب تک تم نماز کا انتظار کرتے رہو گویا تم نماز ہی میں مشغول ہو۔

تشریح : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں پچیس درجہ اورابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ستائیس درجہ ثواب باجماعت نماز میں بتایاگیا ہے۔ بعض محدثین نے یہ بھی لکھاہے کہ ابن عمررضی اللہ عنہما کی روایت زیادہ قوی ہے۔ اس لیے عدد سے متعلق اس روایت کو ترجیح ہوگی۔ لیکن اس سلسلے میں زیادہ صحیح مسلک یہ ہے کہ دونوں کو صحیح تسلیم کیا جائے۔ باجماعت نماز بذات خود واجب یاسنت مؤکدہ ہے۔ ایک فضیلت کی وجہ تو یہی ہے۔ پھر باجماعت نماز پڑھنے والوں کے اخلاص وتقویٰ میں بھی تفاوت ہوگا اور ثواب بھی اسی کے مطابق کم وبیش ملے گا۔ اس کے علاوہ کلام عرب میں یہ اعداد کثرت کے اظہار کے موقع پر بولے جاتے ہیں۔ گویا مقصود صرف ثواب کی زیادتی کوبتانا تھا۔ ( تفہیم البخاری )

ابن دقیق العید کہتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ مسجد میں جماعت سے نمازادا کرنا گھروں اوربازاروں میں نماز پڑھنے سے پچیس گنا زیادہ ثواب رکھتاہے گوبازار یاگھر میں جماعت سے نماز پڑھے، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں گھر میں اوربازار میں نماز پڑھنے سے وہاں اکیلے پڑھنا مراد ہے۔ واللہ اعلم۔
 
Top