Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : جو لوگ ( بارش یا اور کسی آفت میں ) مسجد میں آجائیں تو کیا امام ان کے ساتھ نماز پڑھ لے اور برسات میں جمعہ کے دن خطبہ پڑھے یا نہیں؟
یعنی گو ایسی آفتوں میں جماعت میں حاضر ہونا معاف ہے لیکن اگر کچھ لوگ تکلیف اٹھا کر مسجد آجائیں تو امام ان کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھ لے کیوں کہ گھروں میں نماز پڑھ لینا رخصت ہے افضل تو یہی ہے کہ مسجد میں حاضر ہو۔
حدیث نمبر : 668
حدثنا عبد الله بن عبد الوهاب، قال حدثنا حماد بن زيد، قال حدثنا عبد الحميد، صاحب الزيادي قال سمعت عبد الله بن الحارث، قال خطبنا ابن عباس في يوم ذي ردغ، فأمر المؤذن لما بلغ حى على الصلاة. قال قل الصلاة في الرحال، فنظر بعضهم إلى بعض، فكأنهم أنكروا فقال كأنكم أنكرتم هذا إن هذا فعله من هو خير مني ـ يعني النبي صلى الله عليه وسلم ـ إنها عزمة، وإني كرهت أن أحرجكم. وعن حماد عن عاصم عن عبد الله بن الحارث عن ابن عباس نحوه، غير أنه قال كرهت أن أؤثمكم، فتجيئون تدوسون الطين إلى ركبكم.
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب بصری نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالحمید صاحب الزیادی نے بیان کیا کہ کہا میں نے عبداللہ بن حارث بن نوفل سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک دن ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جب کہ بارش کی وجہ سے کیچڑ ہو رہی تھی خطبہ سنایا۔ پھر مؤذن کو حکم دیا اور جب وہ حی علی الصلوٰۃ پر پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ آج یوں پکار دو کہ نماز اپنی قیام گاہوں پر پڑھ لو۔ لوگ ایک دوسرے کو ( حیرت کی وجہ سے ) دیکھنے لگے۔ جیسے اس کو انھوں نے ناجائز سمجھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے شاید اس کو برا جانا ہے۔ ایسا تو مجھ سے بہتر ذات یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا تھا۔ بے شک جمعہ واجب ہے مگر میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ حی علی الصلوٰۃ کہہ کر تمہیں باہر نکالوں ( اور تکلیف میں مبتلا کروں ) اور حماد عاصم سے، وہ عبداللہ بن حارث سے، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے، اسی طرح روایت کرتے ہیں۔ البتہ انھوں نے اتنا اور کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ مجھے اچھا معلوم نہیں ہوا کہ تمہیں گنہگار کروں اور تم اس حالت میں آؤ کہ تم مٹی میں گھٹنوں تک آلودہ ہو گئے ہو
تشریح : شارحین بخاری لکھتے ہیں: مقصود المصنف من عقد ذلک الباب بیان ان الامر بالصلوٰۃ فی الرحال للاباحۃ لا للوجوب و لا للندب و الا لم یجز او لم یکن اولی ان یصلی الامام بمن حضر یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب یہ ہے کہ بارش اور کیچڑ کے وقت اپنے اپنے ٹھکانوں پر ادا کرنے کا حکم وجوب کے لیے نہیں ہے، صرف اباحت کے لیے ہے۔ اگر یہ امر وجوب کے لیے ہوتا توپھر حاضرین مسجد کے ساتھ امام کا نماز ادا کرنا بھی جائز نہ ہوتا یا اولی نہ ہوتا۔ بارش میں ایسا ہوتا ہی ہے کہ کچھ لوگ آجاتے ہیں، کچھ نہیں آسکتے۔ بہر حال شارع نے ہر طرح سے آسانی کو پیش نظر رکھا ہے۔
حدیث نمبر : 669
حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال حدثنا هشام، عن يحيى، عن أبي سلمة، قال سألت أبا سعيد الخدري فقال جاءت سحابة فمطرت حتى سال السقف، وكان من جريد النخل، فأقيمت الصلاة، فرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يسجد في الماء والطين، حتى رأيت أثر الطين في جبهته.
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے یحییٰ بن کثیر سے بیان کیا، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے ( شب قدر کو ) پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ بادل کا ایک ٹکڑا آیا اور برسا یہاں تک کہ ( مسجد کی چھت ) ٹپکنے لگی جو کھجور کی شاخوں سے بنائی گئی تھی۔ پھر نماز کے لیے تکبیر ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیچڑ اور پانی میں سجدہ کر رہے تھے۔ کیچڑ کا نشان آپ کی پیشانی پر بھی میں نے دیکھا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے یہ ثابت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیچڑ اور بارش میں بھی نماز مسجد میں پڑھی۔ باب کا یہی مقصد ہے کہ ایسی آفتوں میں جو لوگ مسجد میں آجائیں ان کے ساتھ امام نماز پڑھ لے۔
حدیث نمبر : 670
حدثنا آدم، قال حدثنا شعبة، قال حدثنا أنس بن سيرين، قال سمعت أنسا، يقول قال رجل من الأنصار إني لا أستطيع الصلاة معك. وكان رجلا ضخما، فصنع للنبي صلى الله عليه وسلم طعاما فدعاه إلى منزله، فبسط له حصيرا ونضح طرف الحصير، صلى عليه ركعتين. فقال رجل من آل الجارود لأنس أكان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي الضحى قال ما رأيته صلاها إلا يومئذ.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے انس بن سیرین نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا کہ انصار میں سے ایک مرد نے عذر پیش کیا کہ میں آپ کے ساتھ نماز میں شریک نہیں ہو سکتا اور وہ موٹا آدمی تھا۔ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانا تیار کیا اور آپ کو اپنے گھر دعوت دی اور آپ کے لیے ایک چٹائی بچھا دی اور اس کے ایک کنارہ کو ( صاف کر کے ) دھو دیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بوریے پر دو رکعتیں پڑھیں۔ آل جارود کے ایک شخص ( عبدالحمید ) نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے تو انھوں نے فرمایا کہ اس دن کے سوا اور کبھی میں نے آپ کو پڑھتے نہیں دیکھا۔
تشریح : یہاں یہ حدیث لانے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ معذور لوگ اگر چہ جماعت میں نہ شریک ہو سکیں اور وہ امام سے درخواست کریں کہ ان کے گھر میں ان کے لیے نماز کی جگہ تجویز کردی جائے۔ تو امام کو ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ باب میں بارش کے عذر کا ذکر تھا اور حدیث ہذا میں ایک انصاری مرد کے موٹاپے کا عذر مذکور ہے۔ جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ شرعاً جو عذر معقول ہو ا س کی بنا پر جماعت سے پیچھے رہ جانا جائز ہے۔
باب : جو لوگ ( بارش یا اور کسی آفت میں ) مسجد میں آجائیں تو کیا امام ان کے ساتھ نماز پڑھ لے اور برسات میں جمعہ کے دن خطبہ پڑھے یا نہیں؟
یعنی گو ایسی آفتوں میں جماعت میں حاضر ہونا معاف ہے لیکن اگر کچھ لوگ تکلیف اٹھا کر مسجد آجائیں تو امام ان کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھ لے کیوں کہ گھروں میں نماز پڑھ لینا رخصت ہے افضل تو یہی ہے کہ مسجد میں حاضر ہو۔
حدیث نمبر : 668
حدثنا عبد الله بن عبد الوهاب، قال حدثنا حماد بن زيد، قال حدثنا عبد الحميد، صاحب الزيادي قال سمعت عبد الله بن الحارث، قال خطبنا ابن عباس في يوم ذي ردغ، فأمر المؤذن لما بلغ حى على الصلاة. قال قل الصلاة في الرحال، فنظر بعضهم إلى بعض، فكأنهم أنكروا فقال كأنكم أنكرتم هذا إن هذا فعله من هو خير مني ـ يعني النبي صلى الله عليه وسلم ـ إنها عزمة، وإني كرهت أن أحرجكم. وعن حماد عن عاصم عن عبد الله بن الحارث عن ابن عباس نحوه، غير أنه قال كرهت أن أؤثمكم، فتجيئون تدوسون الطين إلى ركبكم.
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب بصری نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالحمید صاحب الزیادی نے بیان کیا کہ کہا میں نے عبداللہ بن حارث بن نوفل سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک دن ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جب کہ بارش کی وجہ سے کیچڑ ہو رہی تھی خطبہ سنایا۔ پھر مؤذن کو حکم دیا اور جب وہ حی علی الصلوٰۃ پر پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ آج یوں پکار دو کہ نماز اپنی قیام گاہوں پر پڑھ لو۔ لوگ ایک دوسرے کو ( حیرت کی وجہ سے ) دیکھنے لگے۔ جیسے اس کو انھوں نے ناجائز سمجھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے شاید اس کو برا جانا ہے۔ ایسا تو مجھ سے بہتر ذات یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا تھا۔ بے شک جمعہ واجب ہے مگر میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ حی علی الصلوٰۃ کہہ کر تمہیں باہر نکالوں ( اور تکلیف میں مبتلا کروں ) اور حماد عاصم سے، وہ عبداللہ بن حارث سے، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے، اسی طرح روایت کرتے ہیں۔ البتہ انھوں نے اتنا اور کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ مجھے اچھا معلوم نہیں ہوا کہ تمہیں گنہگار کروں اور تم اس حالت میں آؤ کہ تم مٹی میں گھٹنوں تک آلودہ ہو گئے ہو
تشریح : شارحین بخاری لکھتے ہیں: مقصود المصنف من عقد ذلک الباب بیان ان الامر بالصلوٰۃ فی الرحال للاباحۃ لا للوجوب و لا للندب و الا لم یجز او لم یکن اولی ان یصلی الامام بمن حضر یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب یہ ہے کہ بارش اور کیچڑ کے وقت اپنے اپنے ٹھکانوں پر ادا کرنے کا حکم وجوب کے لیے نہیں ہے، صرف اباحت کے لیے ہے۔ اگر یہ امر وجوب کے لیے ہوتا توپھر حاضرین مسجد کے ساتھ امام کا نماز ادا کرنا بھی جائز نہ ہوتا یا اولی نہ ہوتا۔ بارش میں ایسا ہوتا ہی ہے کہ کچھ لوگ آجاتے ہیں، کچھ نہیں آسکتے۔ بہر حال شارع نے ہر طرح سے آسانی کو پیش نظر رکھا ہے۔
حدیث نمبر : 669
حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال حدثنا هشام، عن يحيى، عن أبي سلمة، قال سألت أبا سعيد الخدري فقال جاءت سحابة فمطرت حتى سال السقف، وكان من جريد النخل، فأقيمت الصلاة، فرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يسجد في الماء والطين، حتى رأيت أثر الطين في جبهته.
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے یحییٰ بن کثیر سے بیان کیا، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے ( شب قدر کو ) پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ بادل کا ایک ٹکڑا آیا اور برسا یہاں تک کہ ( مسجد کی چھت ) ٹپکنے لگی جو کھجور کی شاخوں سے بنائی گئی تھی۔ پھر نماز کے لیے تکبیر ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیچڑ اور پانی میں سجدہ کر رہے تھے۔ کیچڑ کا نشان آپ کی پیشانی پر بھی میں نے دیکھا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے یہ ثابت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیچڑ اور بارش میں بھی نماز مسجد میں پڑھی۔ باب کا یہی مقصد ہے کہ ایسی آفتوں میں جو لوگ مسجد میں آجائیں ان کے ساتھ امام نماز پڑھ لے۔
حدیث نمبر : 670
حدثنا آدم، قال حدثنا شعبة، قال حدثنا أنس بن سيرين، قال سمعت أنسا، يقول قال رجل من الأنصار إني لا أستطيع الصلاة معك. وكان رجلا ضخما، فصنع للنبي صلى الله عليه وسلم طعاما فدعاه إلى منزله، فبسط له حصيرا ونضح طرف الحصير، صلى عليه ركعتين. فقال رجل من آل الجارود لأنس أكان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي الضحى قال ما رأيته صلاها إلا يومئذ.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے انس بن سیرین نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا کہ انصار میں سے ایک مرد نے عذر پیش کیا کہ میں آپ کے ساتھ نماز میں شریک نہیں ہو سکتا اور وہ موٹا آدمی تھا۔ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانا تیار کیا اور آپ کو اپنے گھر دعوت دی اور آپ کے لیے ایک چٹائی بچھا دی اور اس کے ایک کنارہ کو ( صاف کر کے ) دھو دیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بوریے پر دو رکعتیں پڑھیں۔ آل جارود کے ایک شخص ( عبدالحمید ) نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے تو انھوں نے فرمایا کہ اس دن کے سوا اور کبھی میں نے آپ کو پڑھتے نہیں دیکھا۔
تشریح : یہاں یہ حدیث لانے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ معذور لوگ اگر چہ جماعت میں نہ شریک ہو سکیں اور وہ امام سے درخواست کریں کہ ان کے گھر میں ان کے لیے نماز کی جگہ تجویز کردی جائے۔ تو امام کو ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ باب میں بارش کے عذر کا ذکر تھا اور حدیث ہذا میں ایک انصاری مرد کے موٹاپے کا عذر مذکور ہے۔ جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ شرعاً جو عذر معقول ہو ا س کی بنا پر جماعت سے پیچھے رہ جانا جائز ہے۔