• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : جو لوگ ( بارش یا اور کسی آفت میں ) مسجد میں آجائیں تو کیا امام ان کے ساتھ نماز پڑھ لے اور برسات میں جمعہ کے دن خطبہ پڑھے یا نہیں؟

یعنی گو ایسی آفتوں میں جماعت میں حاضر ہونا معاف ہے لیکن اگر کچھ لوگ تکلیف اٹھا کر مسجد آجائیں تو امام ان کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھ لے کیوں کہ گھروں میں نماز پڑھ لینا رخصت ہے افضل تو یہی ہے کہ مسجد میں حاضر ہو۔

حدیث نمبر : 668
حدثنا عبد الله بن عبد الوهاب، قال حدثنا حماد بن زيد، قال حدثنا عبد الحميد، صاحب الزيادي قال سمعت عبد الله بن الحارث، قال خطبنا ابن عباس في يوم ذي ردغ، فأمر المؤذن لما بلغ حى على الصلاة‏.‏ قال قل الصلاة في الرحال، فنظر بعضهم إلى بعض، فكأنهم أنكروا فقال كأنكم أنكرتم هذا إن هذا فعله من هو خير مني ـ يعني النبي صلى الله عليه وسلم ـ إنها عزمة، وإني كرهت أن أحرجكم‏.‏ وعن حماد عن عاصم عن عبد الله بن الحارث عن ابن عباس نحوه، غير أنه قال كرهت أن أؤثمكم، فتجيئون تدوسون الطين إلى ركبكم‏.‏
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب بصری نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالحمید صاحب الزیادی نے بیان کیا کہ کہا میں نے عبداللہ بن حارث بن نوفل سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک دن ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جب کہ بارش کی وجہ سے کیچڑ ہو رہی تھی خطبہ سنایا۔ پھر مؤذن کو حکم دیا اور جب وہ حی علی الصلوٰۃ پر پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ آج یوں پکار دو کہ نماز اپنی قیام گاہوں پر پڑھ لو۔ لوگ ایک دوسرے کو ( حیرت کی وجہ سے ) دیکھنے لگے۔ جیسے اس کو انھوں نے ناجائز سمجھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے شاید اس کو برا جانا ہے۔ ایسا تو مجھ سے بہتر ذات یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا تھا۔ بے شک جمعہ واجب ہے مگر میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ حی علی الصلوٰۃ کہہ کر تمہیں باہر نکالوں ( اور تکلیف میں مبتلا کروں ) اور حماد عاصم سے، وہ عبداللہ بن حارث سے، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے، اسی طرح روایت کرتے ہیں۔ البتہ انھوں نے اتنا اور کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ مجھے اچھا معلوم نہیں ہوا کہ تمہیں گنہگار کروں اور تم اس حالت میں آؤ کہ تم مٹی میں گھٹنوں تک آلودہ ہو گئے ہو

تشریح : شارحین بخاری لکھتے ہیں: مقصود المصنف من عقد ذلک الباب بیان ان الامر بالصلوٰۃ فی الرحال للاباحۃ لا للوجوب و لا للندب و الا لم یجز او لم یکن اولی ان یصلی الامام بمن حضر یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب یہ ہے کہ بارش اور کیچڑ کے وقت اپنے اپنے ٹھکانوں پر ادا کرنے کا حکم وجوب کے لیے نہیں ہے، صرف اباحت کے لیے ہے۔ اگر یہ امر وجوب کے لیے ہوتا توپھر حاضرین مسجد کے ساتھ امام کا نماز ادا کرنا بھی جائز نہ ہوتا یا اولی نہ ہوتا۔ بارش میں ایسا ہوتا ہی ہے کہ کچھ لوگ آجاتے ہیں، کچھ نہیں آسکتے۔ بہر حال شارع نے ہر طرح سے آسانی کو پیش نظر رکھا ہے۔

حدیث نمبر : 669
حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال حدثنا هشام، عن يحيى، عن أبي سلمة، قال سألت أبا سعيد الخدري فقال جاءت سحابة فمطرت حتى سال السقف، وكان من جريد النخل، فأقيمت الصلاة، فرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يسجد في الماء والطين، حتى رأيت أثر الطين في جبهته‏.‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے یحییٰ بن کثیر سے بیان کیا، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے ( شب قدر کو ) پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ بادل کا ایک ٹکڑا آیا اور برسا یہاں تک کہ ( مسجد کی چھت ) ٹپکنے لگی جو کھجور کی شاخوں سے بنائی گئی تھی۔ پھر نماز کے لیے تکبیر ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیچڑ اور پانی میں سجدہ کر رہے تھے۔ کیچڑ کا نشان آپ کی پیشانی پر بھی میں نے دیکھا۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے یہ ثابت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیچڑ اور بارش میں بھی نماز مسجد میں پڑھی۔ باب کا یہی مقصد ہے کہ ایسی آفتوں میں جو لوگ مسجد میں آجائیں ان کے ساتھ امام نماز پڑھ لے۔

حدیث نمبر : 670
حدثنا آدم، قال حدثنا شعبة، قال حدثنا أنس بن سيرين، قال سمعت أنسا، يقول قال رجل من الأنصار إني لا أستطيع الصلاة معك‏.‏ وكان رجلا ضخما، فصنع للنبي صلى الله عليه وسلم طعاما فدعاه إلى منزله، فبسط له حصيرا ونضح طرف الحصير، صلى عليه ركعتين‏.‏ فقال رجل من آل الجارود لأنس أكان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي الضحى قال ما رأيته صلاها إلا يومئذ‏.‏

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے انس بن سیرین نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا کہ انصار میں سے ایک مرد نے عذر پیش کیا کہ میں آپ کے ساتھ نماز میں شریک نہیں ہو سکتا اور وہ موٹا آدمی تھا۔ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانا تیار کیا اور آپ کو اپنے گھر دعوت دی اور آپ کے لیے ایک چٹائی بچھا دی اور اس کے ایک کنارہ کو ( صاف کر کے ) دھو دیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بوریے پر دو رکعتیں پڑھیں۔ آل جارود کے ایک شخص ( عبدالحمید ) نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے تو انھوں نے فرمایا کہ اس دن کے سوا اور کبھی میں نے آپ کو پڑھتے نہیں دیکھا۔

تشریح : یہاں یہ حدیث لانے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ معذور لوگ اگر چہ جماعت میں نہ شریک ہو سکیں اور وہ امام سے درخواست کریں کہ ان کے گھر میں ان کے لیے نماز کی جگہ تجویز کردی جائے۔ تو امام کو ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ باب میں بارش کے عذر کا ذکر تھا اور حدیث ہذا میں ایک انصاری مرد کے موٹاپے کا عذر مذکور ہے۔ جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ شرعاً جو عذر معقول ہو ا س کی بنا پر جماعت سے پیچھے رہ جانا جائز ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : جب کھانا حاضر ہو اور نماز کی تکبیر ہو جائے تو کیا کرنا چاہئے؟

وكان ابن عمر يبدأ بالعشاء‏.‏ وقال أبو الدرداء من فقه المرء إقباله على حاجته حتى يقبل على صلاته وقلبه فارغ‏.‏
اور ابن عمر رضی اللہ عنہما تو ایسی حالت میں پہلے کھانا کھاتے تھے اور ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ عقل مندی یہ ہے کہ پہلے آدمی اپنی حاجت پوری کر لے تا کہ جب وہ نماز میں کھڑا ہو تو اس کا دل فارغ ہو۔

حدیث نمبر : 671
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن هشام، قال حدثني أبي قال، سمعت عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال ‏"‏ إذا وضع العشاء وأقيمت الصلاة فابدءوا بالعشاء‏"‏‏. ‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے ہشام بن عروہ سے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر شام کا کھانا سامنے رکھا جائے اور ادھر نماز کے لیے تکبیر بھی ہونے لگے تو پہلے کھانا کھا لو۔

حدیث نمبر : 672
حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن أنس بن مالك، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا قدم العشاء فابدءوا به قبل أن تصلوا صلاة المغرب، ولا تعجلوا عن عشائكم‏"‏‏. ‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے عقیل سے، انہوں نے ابن شہاب سے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب شام کا کھانا حاضر کیا جائے تو مغرب کی نماز سے پہلے کھانا کھا لو اور کھانے میں بے مزہ بھی نہ ہونا چاہئے اور اپنا کھانا چھوڑ کر نماز میں جلدی مت کرو۔

تشریح : ان جملہ آثار اور احادیث کا مقصد اتنا ہی ہے کہ بھوک کے وقت اگر کھانا تیار ہو تو پہلے اس سے فارغ ہونا چاہئے، تاکہ نماز پورے سکون کے ساتھ ادا کی جائے اور دل کھانے میں نہ لگا رہے اور یہ اس کے لیے ہے جسے پہلے ہی سے بھوک ستا رہی ہو۔

حدیث نمبر : 673
حدثنا عبيد بن إسماعيل، عن أبي أسامة، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إذا وضع عشاء أحدكم وأقيمت الصلاة فابدءوا بالعشاء، ولا يعجل حتى يفرغ منه‏"‏‏. ‏ وكان ابن عمر يوضع له الطعام وتقام الصلاة فلا يأتيها حتى يفرغ، وإنه ليسمع قراءة الإمام‏.‏
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ابواسامہ حماد بن اسامہ سے، انہوں نے عبید اللہ سے، انہوں نے نافع سے، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کا شام کا کھانا تیار ہو چکا ہو اور تکبیر بھی کہی جا چکی ہو تو پہلے کھانا کھا لو اور نماز کے لیے جلدی نہ کرو، کھانے سے فراغت کر لو۔ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے لیے کھانا رکھ دیا جاتا، ادھر اقامت بھی ہو جاتی لیکن آپ کھانے سے فارغ ہونے تک نماز میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ آپ امام کی قرآت برابر سنتے رہتے تھے۔

حدیث نمبر : 674
وقال زهير ووهب بن عثمان عن موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إذا كان أحدكم على الطعام فلا يعجل حتى يقضي حاجته منه، وإن أقيمت الصلاة‏"‏‏. ‏ رواه إبراهيم بن المنذر عن وهب بن عثمان، ووهب مديني‏.‏
زہیر اور وہب بن عثمان نے موسیٰ بن عقبہ سے بیان کیا، انہوں نے نافع سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی کھانا کھا رہا ہو تو جلدی نہ کرے، بلکہ پوری طرح کھا لے گو ( اگرچہ ) نماز کھڑی کیوں نہ ہو گئی ہو۔ ابوعبداللہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے کہا اور مجھ سے ابراہیم بن منذر نے وہب بن عثمان سے یہ حدیث بیان کی اور وہب مدنی ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جب امام کو نماز کے لیے بلایا جائے اور اس کے ہاتھ میں کھانے کی چیز ہو تو وہ کیا کرے؟

حدیث نمبر : 675
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، قال حدثنا إبراهيم، عن صالح، عن ابن شهاب، قال أخبرني جعفر بن عمرو بن أمية، أن أباه، قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يأكل ذراعا يحتز منها، فدعي إلى الصلاة فقام فطرح السكين، فصلى ولم يتوضأ‏.‏
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے صالح بن کیسان سے بیان کیا، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے کہا کہ مجھ کو جعفر بن عمرو بن امیہ نے خبر دی کہ ان کے باپ عمرو بن امیہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ بکری کی ران کا گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے۔ اتنے میں آپ نماز کے لیے بلائے گئے آپ کھڑے ہوئے اور چھری ڈال دی، پھر آپ نے نماز پڑھائی اور وضو نہیں کیا۔

تشریح : اس باب اور ا س کے تحت اس حدیث کے لانے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ ثابت کرنا منظور ہے کہ پچھلی حدیث کا حکم استحباباً تھا وجوباً نہ تھا۔ ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھانا چھوڑ کر نماز کے لیے کیوں جاتے بعض کہتے ہیں کہ امام کا حکم علیحدہ ہے۔ اسے کھانا چھوڑ کر نماز کے لیے جانا چاہئے۔ حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس آدمی کے بارے میں جو اپنے گھر کے کام کاج میں مصروف تھا کہ تکبیر ہوئی اور نماز کے لیے نکل کھڑا ہوا

حدیث نمبر : 676
حدثنا آدم، قال حدثنا شعبة، قال حدثنا الحكم، عن إبراهيم، عن الأسود، قال سألت عائشة ما كان النبي صلى الله عليه وسلم يصنع في بيته قالت كان يكون في مهنة أهله ـ تعني خدمة أهله ـ فإذا حضرت الصلاة خرج إلى الصلاة‏.‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حکم بن عتبہ نے ابراہیم نخعی سے بیان کیا، انہوں نے اسود بن یزید سے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کیا کیا کرتے تھے آپ نے بتلایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے کام کاج یعنی اپنے گھر والیوں کی خدمت کیا کرتے تھے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو فوراً ( کام کاج چھوڑ کر ) نماز کے لیے چلے جاتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : کوئی شخص صرف یہ بتلانے کے لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز کیوں کر پڑھا کرتے تھے اور آپ کا طریقہ کیا تھا نماز پڑھائے تو کیسا ہے؟

حدیث نمبر : 677
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال حدثنا وهيب، قال حدثنا أيوب، عن أبي قلابة، قال جاءنا مالك بن الحويرث في مسجدنا هذا فقال إني لأصلي بكم، وما أريد الصلاة، أصلي كيف رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يصلي‏.‏ فقلت لأبي قلابة كيف كان يصلي قال مثل شيخنا هذا‏.‏ قال وكان شيخا يجلس إذا رفع رأسه من السجود قبل أن ينهض في الركعة الأولى‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایوب سختیانی نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مالک بن حویرث ( صحابی ) ایک دفعہ ہماری اس مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تم لوگوں کو نماز پڑھاؤں گا اور میری نیت نماز پڑھنے کی نہیں ہے، میرا مقصد صرف یہ ہے کہ تمہیں نماز کا وہ طریقہ سکھا دوں جس طریقہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرتے تھے۔ میں نے ابوقلابہ سے پوچھا کہ انہوں نے کس طرح نماز پڑھی تھی؟ انہوں نے بتلایا کہ ہمارے شیخ ( عمر بن سلمہ ) کی طرح۔ شیخ جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو ذرا بیٹھ جاتے پھر کھڑے ہوتے۔

تشریح : دوسری یا چوتھی رکعت کے لیے تھوڑی دیر بیٹھ کر اٹھنا یہ جلسہ استراحت کہلاتا ہے۔ اسی کا ذکر اس حدیث میں آیا ہے۔ قال الحافظ فی الفتح و فیہ مشروعیۃ جلسۃ الاستراحۃ و اخذ بہا الشافعی و طائفۃ من اہل الحدیث یعنی فتح الباری میں حافظ ابن حجر نے فرمایا کہ اس حدیث سے جلسہ استراحت کی مشروعیت ثابت ہوئی اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور اہل حدیث کی ایک جماعت کا اسی پر عمل ہے۔ مگر احناف نے جلسہ استراحت کا انکار کیا ہے، چنانچہ ایک جگہ لکھا ہوا ہے:
“ یہ جلسہ استراحت ہے اور حنفیہ کے یہاں بہتر ہے کہ ایسا نہ کیا جائے۔ ابتدا میں یہی طریقہ تھا، لیکن بعد میں اس پر عمل ترک ہو گیا تھا۔ ” ( تفہیم البخاری، ص: 81 )

آگے یہی حضرت اپنے اس خیال کی خود ہی تردید فرما رہے ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوا ہے کہ “ یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ اس میں اختلاف صرف افضلیت کی حد تک ہے۔ ”
جس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ اسے درجہ جواز میں مانتے ہیں۔ پھر یہ کہنا کہاں تک درست ہے کہ بعد میں اس پر عمل ترک ہو گیا تھا۔ ہم اس بحث کو طول دینا نہیں چاہتے۔ صرف مولانا عبدالحئی صاحب حنفی لکھنؤی کا تبصرہ نقل کردیتے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں:
اعلم ان اکثر اصحابنا الحنفیۃ و کثیرا من المشائخ الصوفیۃ قد ذکروا فی کیفیۃ صلوٰہ التسبیح الکیفیۃ التی حکاہا الترمذی و الحاکم عن عبداللہ بن المبارک الخالیۃ عن جلسۃ الاستراحۃ و الشافعیۃ و المحدثون اکثرہم اختاروا الکیفیۃ المشتملۃ علی جلسۃ الاستراحۃ و قد علم ہما اسلفنا ان الاصح ثبوتا ہو ہذہ الکیفیۃ فلیاخذ بہا من یصلیہا حنفیا کان او شافعیا ( تحفۃ الاحوذی، ص:237 بحوالہ کتاب الاثار المرفوعۃ ) یعنی جان لو کہ ہمارے اکثر علمائے احناف اور مشائخ صوفیہ نے صلوٰۃ التسبیح کا ذکر کیا ہے۔ جسے ترمذی اور حاکم نے حضرت عبداللہ بن مبارک سے نقل کیا ہے مگر اس میں جلسہ استراحت کا ذکر نہیں ہے۔ جب کہ شافعیہ اور اکثر محدثین نے جلسہ استراحت کو مختار قرار دیا ہے اور ہمارے بیان گذشتہ سے ظاہر ہے کہ ثبوت کے لحاظ سے صحیح یہی ہے کہ جلسہ استراحت کرنا بہتر ہے پس کوئی حنفی ہو یا شافعی اسے چاہئے کہ جب بھی وہ صلوٰۃ التسبیح پڑھے ضرور جلسہ استراحت کرے۔

محدث کبیر علامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ قد اعتذر الحنفیۃ وغیرہم من لم یقل بجلسۃ الاستراحۃ عن العمل بحدیث مالک بن الحویرث المذکور فی الباب باعذار کلہا باردۃ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی جو حضرات جلسہ استراحت کے قائل نہیں احناف وغیرہ انہوں نے حدیث مالک بن حویریث رضی اللہ عنہ جو یہاں ترمذی میں مذکور ہوئی ہے ( اور بخاری شریف میں بھی قارئین کے سامنے ہے ) پر عمل کرنے سے کئی ایک عذر پیش کئے ہیں جن میں کوئی جان نہیں ہے اور جن کو عذر بے جاہی کہنا چاہئے۔ ( مزید تفصیل کے لیے تحفۃ الاحوذی کا مطالعہ کرنا چاہئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : امامت کرانے کا سب سے زیادہ حق دار وہ ہے جو علم اور ( عملی طور پر بھی ) فضیلت والا ہو

تشریح : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض اس باب کے منعقد کرنے سے ان لوگوں کی تردید ہے جو امامت کرانے والوں کے لیے علم و فضل کی ضرورت نہیں سمجھتے اور ہرایک جاہل کندہ ناتراش کو بے تکلف نماز میں امام بنادیتے ہیں۔ بعضوں نے کہا کہ امام بخاری کا یہ مذہب ہے کہ عالم امامت کا زیادہ حق دا رہے بہ نسبت قاری کے کیوں کہ قاری صحابہ میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سب سے زیاد تھے۔ تب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امام نہیں بنایا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امامت کا حکم دیا اور حدیث میں جو آیا ہے کہ جو زیادہ تم میں اللہ کی کتاب کا قاری ہو وہ امامت کرے تو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی یہ توجیہ کی ہے کہ یہ حکم آپ ہی کے زمانہ مبارک میں تھا۔ اس وقت جو اقرا ہوتا وہ افقہ یعنی عالم بھی ہوتا تھا اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اقرا کو مقدم رکھا ہے افقہ پر اور اگر کوئی افقہ بھی ہو اور اقرا بھی تو سب پر مقدم ہوگا بالاتفاق ہمارے زمانہ میں بھی بلا عام ہوگئی ہے، لوگ جاہلوں کو پیش امام بنا دیتے ہیں جو اپنی نماز بھی خراب کرتے ہیں اور دوسروں کی بھی۔ ( خلاصہ شرح وحیدی )

حدیث نمبر : 678
حدثنا إسحاق بن نصر، قال حدثنا حسين، عن زائدة، عن عبد الملك بن عمير، قال حدثني أبو بردة، عن أبي موسى، قال مرض النبي صلى الله عليه وسلم فاشتد مرضه فقال ‏"‏ مروا أبا بكر فليصل بالناس‏"‏‏. ‏ قالت عائشة إنه رجل رقيق، إذا قام مقامك لم يستطع أن يصلي بالناس‏.‏ قال ‏"‏ مروا أبا بكر فليصل بالناس ‏"‏ فعادت فقال ‏"‏ مري أبا بكر فليصل بالناس، فإنكن صواحب يوسف‏"‏‏. ‏ فأتاه الرسول فصلى بالناس في حياة النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حسین بن علی بن ولید نے زائدہ بن قدامہ سے بیان کیا، انہوں نے عبدالملک بن عمیر سے، کہا کہ مجھ سے ابوبردہ عامر نے بیان کیا، انہوں نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے، آپ نے فرمایا کہ آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور جب بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ نے فرمایا کہ ابوبکر ( رضی اللہ عنہ ) سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بولیں کہ وہ نرم دل ہیں جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو ان کے لئے نماز پڑھانا مشکل ہو گا۔ آپ نے پھر فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پھر وہی بات کہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ نماز پڑھائیں، تم لوگ صواحب یوسف ( زلیخا ) کی طرح ( باتیں بناتی ) ہو۔ آخر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آدمی بلانے آیا اور آپ نے لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی نماز پڑھائی۔

حدیث نمبر : 679
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة أم المؤمنين ـ رضى الله عنها ـ أنها قالت إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في مرضه ‏"‏ مروا أبا بكر يصلي بالناس‏"‏‏. ‏ قالت عائشة قلت إن أبا بكر إذا قام في مقامك لم يسمع الناس من البكاء، فمر عمر فليصل للناس‏.‏ فقالت عائشة فقلت لحفصة قولي له إن أبا بكر إذا قام في مقامك لم يسمع الناس من البكاء، فمر عمر فليصل للناس‏.‏ ففعلت حفصة‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مه، إنكن لأنتن صواحب يوسف، مروا أبا بكر فليصل للناس‏"‏‏. ‏ فقالت حفصة لعائشة ما كنت لأصيب منك خيرا‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے ہشام بن عروہ سے خبر دی، انہوں نے اپنے باپ عروہ بن زبیر سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی للہ عنہا سے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ ابوبکر آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو روتے روتے وہ ( قرآن مجید ) سنا نہ سکیں گے، اس لیے آپ عمر سے کہئے کہ وہ نماز پڑھائیں۔ آپ فرماتی تھیں کہ میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ وہ بھی کہیں کہ اگر ابوبکر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو روتے روتے لوگوں کو ( قرآن ) نہ سنا سکیں گے۔ اس لیے عمر سے کہئے کہ وہ نماز پڑھائیں۔ حفصہ رضی اللہ عنہا ( ام المؤمنین اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ) نے بھی اسی طری کہا تو آپ نے فرمایا کہ خاموش رہو۔ تم صواحب یوسف کی طرح ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ پس حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا۔ بھلا مجھ کو کہیں تم سے بھلائی پہنچ سکتی ہے؟

تشریح : اس واقعہ سے متعلق احادیث میں “ صواحب یوسف ” کا لفظ آتا ہے۔ صواحب صاحبۃ کی جمع ہے، لیکن یہاں مراد صرف زلیخا سے ہے۔ اسی طرح حدیث میں “ انتم ” کی ضمیر جمع کے لیے استعمال ہوتی ہے، لیکن یہاں بھی صرف ایک ذات عائشہ رضی اللہ عنہا کی مراد ہے۔ یعنی زلیخا نے عورتوں کے اعتراض کے سلسلے کو بند کرنے کے لیے انہیں بظاہر دعوت دی اور اعزاز و اکرام کیا، لیکن مقصد صرف یوسف علیہ السلام کو دکھانا تھا کہ تم مجھے کیا ملامت کرتی ہو بات ہی کچھ ایسی ہے کہ میں مجبور ہوں۔ جس طرح اس موقع پر زلیخا نے اپنے دل کی بات چھپائے رکھی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی جن کی دلی تمنا یہی تھی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھائیں۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مزید توثیق کے لیے ایک دوسرے عنوان سے بار بار پچھواتی تھیں۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے ابتداءمیں غالباً بات نہیں سمجھی ہوگی۔ اور بعد میں جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زور دیا۔ تو وہ بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصد سمجھ گئیں اور فرمایا کہ میں بھلا تم سے کبھی بھلائی کیوں دیکھنے لگی۔ ( تفہیم البخاری، ص:82پ:3 )

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا مطلب یہ تھا کہ آخر تم سوکن ہو، تو کیسی ہی سہی تم نے ایسی صلاح دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ پر خفا کرادیا۔ اس حدیث سے اہل دانش سمجھ سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قطعی طور پر یہ منظور نہ تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا اور کوئی امامت کرے اور باوجودیکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جیسی پیاری بیوی نے تین بار معروضہ پیش کیا۔ مگر آپ نے ایک نہ سنی۔
پس اگر حدیث القرطاس میں بھی آپ کا منشاءیہی ہوتا کہ خواہ مخواہ کتاب لکھی جائے تو آپ ضرور لکھوا دیتے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جھگڑے کے بعد آپ کئی دن زندہ رہے مگر دوبارہ کتاب لکھوانے کا حکم نہیں فرمایا۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 680
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني أنس بن مالك الأنصاري ـ وكان تبع النبي صلى الله عليه وسلم وخدمه وصحبه أن أبا بكر كان يصلي لهم في وجع النبي صلى الله عليه وسلم الذي توفي فيه، حتى إذا كان يوم الاثنين وهم صفوف في الصلاة، فكشف النبي صلى الله عليه وسلم ستر الحجرة ينظر إلينا، وهو قائم كأن وجهه ورقة مصحف، ثم تبسم يضحك، فهممنا أن نفتتن من الفرح برؤية النبي صلى الله عليه وسلم، فنكص أبو بكر على عقبيه ليصل الصف، وظن أن النبي صلى الله عليه وسلم خارج إلى الصلاة، فأشار إلينا النبي صلى الله عليه وسلم أن أتموا صلاتكم، وأرخى الستر، فتوفي من يومه‏.‏
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھے انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ نے خبر دی .... آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والے، آپ کے خادم اور صحابی تھے.... کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز پڑھاتے تھے۔ پیر کے دن جب لوگ نماز میں صف باندھے کھڑے ہوئے تھے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم حجرہ کا پردہ ہٹائے کھڑے ہوئے، ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک ( حسن و جمال اور صفائی میں ) گویا مصحف کا ورق تھا۔ آپ مسکرا کر ہنسنے لگے۔ ہمیں اتنی خوشی ہوئی کہ خطرہ ہو گیا کہ کہیں ہم سب آپ کو دیکھنے ہی میں نہ مشغول ہو جائیں اور نماز توڑ دیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ الٹے پاؤں پیچھے ہٹ کر صف کے ساتھ آملنا چاہتے تھے۔ انہوں نے سمجھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لارہے ہیں، لیکن آپ نے ہمیں اشارہ کیا کہ نماز پوری کرلو۔ پھر آپ نے پردہ ڈال دیا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اسی دن ہو گئی۔ ( انا للہ و انا الیہ راجعون )

حدیث نمبر : 681
حدثنا أبو معمر، قال حدثنا عبد الوارث، قال حدثنا عبد العزيز، عن أنس، قال لم يخرج النبي صلى الله عليه وسلم ثلاثا، فأقيمت الصلاة، فذهب أبو بكر يتقدم فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم بالحجاب فرفعه، فلما وضح وجه النبي صلى الله عليه وسلم ما نظرنا منظرا كان أعجب إلينا من وجه النبي صلى الله عليه وسلم حين وضح لنا، فأومأ النبي صلى الله عليه وسلم بيده إلى أبي بكر أن يتقدم، وأرخى النبي صلى الله عليه وسلم الحجاب، فلم يقدر عليه حتى مات‏.‏
ہم سے ابومعمر عبداللہ بن عمرمنقری نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( ایام بیماری میں ) تین دن تک باہر تشریف نہیں لائے۔ ان ہی دنوں میں ایک دن نماز قائم کی گئی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھنے کو تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ( حجرہ مبارک کا ) پردہ اٹھایا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دکھائی دیا۔ تو آپ کے روئے پاک و مبارک سے زیادہ حسین منظر ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ( قربان اس حسن و جمال کے ) پھر آپ نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھنے کے لیے اشارہ کیا اور آپ نے پردہ گرادیا اور ا س کے بعد وفات تک کوئی آپ کودیکھنے پر قادر نہ ہو سکا۔

حدیث نمبر : 682
حدثنا يحيى بن سليمان، قال حدثنا ابن وهب، قال حدثني يونس، عن ابن شهاب، عن حمزة بن عبد الله، أنه أخبره عن أبيه، قال لما اشتد برسول الله صلى الله عليه وسلم وجعه قيل له في الصلاة فقال ‏"‏ مروا أبا بكر فليصل بالناس‏"‏‏. ‏ قالت عائشة إن أبا بكر رجل رقيق، إذا قرأ غلبه البكاء‏.‏ قال ‏"‏ مروه فيصلي ‏"‏ فعاودته‏.‏ قال ‏"‏ مروه فيصلي، إنكن صواحب يوسف‏"‏‏. ‏ تابعه الزبيدي وابن أخي الزهري وإسحاق بن يحيى الكلبي عن الزهري‏.‏ وقال عقيل ومعمر عن الزهري عن حمزة عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یونس بن یزید ایلی نے ابن شہاب سے بیان کیا، انہوں نے حمزہ بن عبداللہ سے، انہوں نے اپنے باپ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے خبر دی کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری شدت اختیار کر گئی اور آپ سے نماز کے لیے کہا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ ابوبکر کچے دل کے آدمی ہیں۔ جب وہ قرآن مجید پڑھتے ہیں تو بہت رونے لگتے ہیں۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ ان ہی سے کہو کہ نماز پڑھائیں۔ دوبارہ انہوں نے پھر وہی عذر دہرایا۔ آپ نے پھر فرمایا کہ ان سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ تم تو بالکل صواحب یوسف کی طرح ہو۔ اس حدیث کی متابعت محمد بن ولید زبیدی اور زہری کے بھتیجے اور اسحاق بن یحییٰ کلبی نے زہری سے کی ہے اور عقیل اور معمر نے زہری سے، انہوں نے حمزہ بن عبداللہ بن عمر سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔

تشریح : ان جملہ احادیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہی ہے کہ امامت اس شحص کو کرانی چاہئے جو علم میں ممتاز ہو۔ یہ ایک اہم ترین منصب ہے جو ہر کس و ناکس کے لیے مناسب نہیں۔ حضرت صدیقہ کا خیال تھا کہ والد محترم حضور کی جگہ کھڑے ہوں اور حضور کی وفات ہو جائے تو لوگ کیا کیا خیالات پیدا کریں گے۔ اس لیے بار بار وہ عذر پیش کرتی رہیں مگر اللہ پاک کو یہ منظور تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اولین طور پر اس گدی کے مالک حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی ہو سکتے ہیں، اس لیے آپ ہی کا تقرر عمل میں آیا۔

زبیدی کی روایت کو طبرانی نے اور زہری کے بھتیجے کی روایت کو ابن عدی نے اور اسحاق کی روایت کو ابوبکر بن شاذان نے وصل کیا۔ عقیل اور معمر نے اس حدیث کو مرسلاً روایت کیا کیوں کہ حمزہ بن عبداللہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پایا۔ عقیل کی روایت کو ابن سعد اور ابولیلیٰ نے وصل کیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : جو شخص کسی عذر کی وجہ سے صف چھوڑ کر امام کے بازو میں کھڑا ہو

حدیث نمبر : 683
حدثنا زكرياء بن يحيى، قال حدثنا ابن نمير، قال أخبرنا هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة، قالت أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم أبا بكر أن يصلي بالناس في مرضه، فكان يصلي بهم‏.‏ قال عروة فوجد رسول الله صلى الله عليه وسلم في نفسه خفة، فخرج فإذا أبو بكر يؤم الناس، فلما رآه أبو بكر استأخر، فأشار إليه أن كما أنت، فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم حذاء أبي بكر إلى جنبه، فكان أبو بكر يصلي بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس يصلون بصلاة أبي بكر‏.‏
ہم سے زکریا بن یحییٰ بلخی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ہشام بن عروہ نے اپنے والد عروہ سے خبر دی، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے۔ آپ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں حکم دیا کہ ابوبکر لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ اس لیے آپ لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ عروہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن آپ کو کچھ ہلکا پایا اور باہر تشریف لائے۔ اس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے۔ انھوں نے جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو پیچھے ہٹنا چاہا، لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارے سے انھیں اپنی جگہ قائم رہنے کا حکم فرمایا۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بازو میں بیٹھ گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی پیروی کرتے تھے۔

گو باب میں امام کے بازو میں کھڑا ہونا مذکور ہے اور حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بازو میں بیٹھنا بیان ہو رہا ہے۔ مگر شاید آپ پہلے بازو میں کھڑے ہو کر پھر بیٹھ گئے ہوں گے یا کھڑے ہونے کو بیٹھنے پر قیاس کر لیا گیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : ایک شخص نے امامت شروع کردی پھر پہلا امام آ گیا اب پہلا شخص ( مقتدیوں میں ملنے کے لیے ) پیچھے سرک گیا یا نہیں سرکا، بہرحال اس کی نماز جائز ہوگی اس بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے

حدیث نمبر : 684
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن أبي حازم بن دينار، عن سهل بن سعد الساعدي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذهب إلى بني عمرو بن عوف ليصلح بينهم فحانت الصلاة فجاء المؤذن إلى أبي بكر فقال أتصلي للناس فأقيم قال نعم‏.‏ فصلى أبو بكر، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس في الصلاة، فتخلص حتى وقف في الصف، فصفق الناس ـ وكان أبو بكر لا يلتفت في صلاته ـ فلما أكثر الناس التصفيق التفت فرأى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم أن امكث مكانك، فرفع أبو بكر ـ رضى الله عنه ـ يديه، فحمد الله على ما أمره به رسول الله صلى الله عليه وسلم من ذلك، ثم استأخر أبو بكر حتى استوى في الصف، وتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى، فلما انصرف قال ‏"‏ يا أبا بكر ما منعك أن تثبت إذ أمرتك‏"‏‏. ‏ فقال أبو بكر ما كان لابن أبي قحافة أن يصلي بين يدى رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ما لي رأيتكم أكثرتم التصفيق من رابه شىء في صلاته فليسبح، فإنه إذا سبح التفت إليه، وإنما التصفيق للنساء‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابوحازم سلمہ بن دینار سے خبر دی، انہوں نے سہل بن سعد ساعدی ( صحابی رضی اللہ عنہ ) سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی عمرو بن عوف میں ( قبا میں ) صلح کرانے کے لیے گئے، پس نماز کا وقت آ گیا۔ مؤذن ( حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے ) ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آ کر کہا کہ کیا آپ نماز پڑھائیں گے۔ میں تکبیر کہوں۔ ابوبکر رضی اللہ نے فرمایا کہ ہاں چنانچہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نماز شروع کر دی۔ اتنے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے تو لوگ نماز میں تھے۔ آپ صفوں سے گزر کر پہلی صف میں پہنچے۔ لوگوں نے ایک ہاتھ کو دوسرے پر مارا ( تا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر آگاہ ہو جائیں ) لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں کسی طرف توجہ نہیں دیتے تھے۔ جب لوگوں نے متواتر ہاتھ پر ہاتھ مارنا شروع کیا تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ متوجہ ہوئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ نے اشارہ سے انھیں اپنی جگہ رہنے کے لیے کہا۔ ( کہ نماز پڑھائے جاؤ ) لیکن انھوں نے اپنے ہاتھ اٹھا کر اللہ کا شکر کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امامت کا اعزاز بخشا، پھر بھی وہ پیچھے ہٹ گئے اور صف میں شامل ہو گئے۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ نے فرمایا کہ ابوبکر جب میں نے آپ کو حکم دے دیا تھا پھر آپ ثابت قدم کیوں نہ رہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے کہ ابوقحافہ کے بیٹے ( یعنی ابوبکر ) کی یہ حیثیت نہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نماز پڑھا سکیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ عجیب بات ہے۔ میں نے دیکھا کہ تم لوگ بکثرت تالیاں بجا رہے تھے۔ ( یاد رکھو ) اگر نماز میں کوئی بات پیش آ جائے تو سبحان اللہ کہنا چاہئے جب وہ یہ کہے گا تو اس کی طرف توجہ کی جائے گی اور یہ تالی بجانا عورتوں کے لیے ہے۔

تشریح : بنی عمرو بن عوف ساکنان قبا قبیلہ اوس کی ایک شاخ تھی۔ ان میں آپس میں تکرار ہو گئی۔ ان میں صلح کرانے کی غرض سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے اور چلتے وقت بلال رضی اللہ عنہ سے فرما گئے تھے کہ اگر عصر کا وقت آجائے اور میں نہ آسکوں تو ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہنا وہ نماز پڑھا دیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ کو وہاں کافی وقت لگ گیا۔ یہاں تک کہ جماعت کا وقت آگیا اور حضرت صدیق اکبر ( رضی اللہ عنہ ) مصلے پر کھڑے کر دئیے گئے۔ اتنے ہی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور معلوم ہونے پر حضڑت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پیچھے ہو گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے تواضع و انکساری کی بنا پر اپنے آپ کو ابوقحافہ کا بیٹا کہا۔ کیوں کہ ان کے باپ ابوقحافہ کو دوسرے لوگوں پر کوئی خاص فضیلت نہ تھی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر مقررہ امام کے علاوہ کوئی دوسرا شخص امام بن جائے اور نماز شروع کرتے ہی فوراً دوسرا امام مقررہ آجائے تو اس کو اختیار ہے کہ خواہ خود امام بن جائے اور دوسرا شخص جو امامت شروع کراچکا تھا وہ مقتدی بن جائے یا نئے امام کا مقتدی رہ کر نماز ادا کرے کسی حال میں نماز میں خلل نہ ہوگا اور نہ نماز میں کوئی خرابی آئے گی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مردوں کو اگر امام کو لقمہ دینا پڑے تو باآواز بلند سبحان اللہ کہنا چاہئے۔ اگر کوئی عورت لقمہ دے تو اسے تالی بجا دینا کافی ہوگا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : اس بارے میں کہ اگر جماعت کے سب لوگ قرات میں برابر ہوں تو امامت بڑی عمر والا کرے

حدیث نمبر : 685
حدثنا سليمان بن حرب، قال حدثنا حماد بن زيد، عن أيوب، عن أبي قلابة، عن مالك بن الحويرث، قال قدمنا على النبي صلى الله عليه وسلم ونحن شببة، فلبثنا عنده نحوا من عشرين ليلة، وكان النبي صلى الله عليه وسلم رحيما فقال ‏"‏ لو رجعتم إلى بلادكم فعلمتموهم، مروهم فليصلوا صلاة كذا في حين كذا، وصلاة كذا في حين كذا، وإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم، وليؤمكم أكبركم‏"‏‏. ‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں حماد بن زید نے خبر دی ایوب سختیانی سے، انہوں نے ابوقلابہ سے، انہوں نے مالک بن حویرث صحابی رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے ملک سے حاضر ہوئے۔ ہم سب ہم عمر نوجوان تھے۔ تقریباً بیس رات ہم آپ کی خدمت میں ٹھہرے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہی رحم دل تھے۔ آپ نے ( ہماری غربت کا حال دیکھ کر ) فرمایا کہ جب تم لوگ اپنے گھروں کو جاؤ تو اپنے قبیلہ والوں کو دین کی باتیں بتانا اور ان سے نماز پڑھنے کے لیے کہنا کہ فلاں نماز فلاں وقت اور فلاں نماز فلاں وقت پڑھیں۔ اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو کوئی ایک اذان دے اور جو عمر میں بڑا ہو وہ امامت کرائے۔

باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔ حدیث میں اکبرہم سے عمر میں بڑا مراد ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : اس بارے میں کہ جب امام کسی قوم کے یہاں گیا اور انہیں ( ان کی فرمائش پر ) نماز پڑھائی ( تو یہ جائز ہوگا )

حدیث نمبر : 686
حدثنا معاذ بن أسد، أخبرنا عبد الله، أخبرنا معمر، عن الزهري، قال أخبرني محمود بن الربيع، قال سمعت عتبان بن مالك الأنصاري، قال استأذن النبي صلى الله عليه وسلم فأذنت له فقال ‏"‏ أين تحب أن أصلي من بيتك‏"‏‏. ‏ فأشرت له إلى المكان الذي أحب، فقام وصففنا خلفه ثم سلم وسلمنا‏.‏
ہم سے معاذ بن اسد نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہمیں معمر نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھے محمود بن ربیع نے خبر دی، کہا کہ میں نے عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( میرے گھر تشریف لانے کی ) اجازت چاہی اور میں نے آپ کو اجازت دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ اپنے گھر میں جس جگہ پسند کرو میں نماز پڑھ دوں میں جہاں چاہتا تھا اس کی طرف میں نے اشارہ کیا۔ پھر آپ کھڑے ہو گئے اور ہم نے آپ کے پیچھے صف باندھ لی۔ پھر آپ نے جب سلام پھیرا تو ہم نے بھی سلام پھیرا۔

دوسری حدیث میں مروی ہے کہ کسی شخص کو اجاز ت نہیں کہ دوسری جگہ جاکر ان کے امام کی جگہ خود امام بن جائے۔ مگر وہ لوگ خود چاہیں اور ان کے امام بھی اجازت دیں تو پھر مہمان بھی امامت کرا سکتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ بڑا امام جسے خلیفہ وقت یا سلطان کہہ جائے چونکہ وہ خود آمر ہے، اس لیے وہاں امامت کراسکتا ہے۔
 
Top