• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الوتر
باب : وتر پڑھنے کے اوقات کا بیان

قال أبو هريرة أوصاني النبي صلى الله عليه وسلم بالوتر قبل النوم‏.‏
اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وصیت فرمائی کہ سونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو۔

حدیث نمبر : 995
حدثنا أبو النعمان، قال حدثنا حماد بن زيد، قال حدثنا أنس بن سيرين، قال قلت لابن عمر أرأيت الركعتين قبل صلاة الغداة أطيل فيهما القراءة فقال كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي من الليل مثنى مثنى، ويوتر بركعة ويصلي الركعتين قبل صلاة الغداة وكأن الأذان بأذنيه‏.‏ قال حماد أى سرعة‏.‏
ہم سے ابو نعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے انس بن سیرین نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ نماز صبح سے پہلے کی دو رکعتوں کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا میں ان میں لمبی قرات کر سکتا ہوں؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو رات کی نماز ( تہجد ) دو دو رکعت کر کے پڑھتے تھے پھر ایک رکعت پڑھ کر ان کوطاق بنا لیتے اور صبح کی نماز سے پہلے کی دو رکعتیں ( سنت فجر تو ) اس طرح پڑھتے گویا اذان ( اقامت ) کی آواز آپ کے کان میں پڑ رہی ہے۔ حماد کی اس سے مراد یہ ہے کہ آپ جلدی پڑھ لیتے۔

تشریح : اس سلسلے کی احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ عشاءکے بعد ساری رات وتر کے لیے ہے۔ طلوع صبح صادق سے پہلے جس وقت بھی چاہے پڑھ سکتا ہے۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول آخر شب میں صلوۃ اللیل کے بعد اسے پڑھنے کا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آخر شب میں اٹھنے کا پوری طرح یقین نہیں ہوتا تھا، اس لیے وہ عشاءکے بعد ہی پڑھ لیتے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ کا معمول آخرشب میں پڑھنے کا تھا۔

اس حدیث کے ذیل میں علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں والحدیث یدل علی مشروعیۃ الایتار برکعۃ واحدۃ عند مخافۃ ھجوم الصبح وسیاتی ما یدل علی مشروعیۃ ذالک من غیر تقیید وقد ذھب الی ذالک الجمھور قال العراقی وممن کان یوتر برکعۃ من الصحابۃ الخلفاءالاربعۃالخ یعنی اس حدیث سے ایک رکعت وتر مشروع ثابت ہوا جب صبح کی پوپھٹنے کا ڈر ہو اور عنقریب دوسرے دلائل آرہے ہیں جن سے اس قید کے بغیر ہی ایک رکعت وتر کی مشروعیت ثابت ہے اور ایک رکعت وتر پڑھنا خلفاءاربعہ ( حضرت ابو بکرصدیق، عمر فاروق، عثمان غنی اور علی المرتضی رضی اللہ عنہم ) اور سعد بن ابی وقاص بیس صحابہ کرام سے ثابت ہے، یہاں علامہ شوکانی نے سب کے نام تحریر فرمائے ہیں اور تقریبا بیس ہی تابعین وتبع تابعین وائمہ دین کے نام بھی تحریر فرمائے ہیں جو ایک رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔

حنفیہ کے دلائل!
علامہ نے حنفیہ کے ان دلائل کا جواب دیا ہے جو ایک رکعت وتر کے قائل نہیں جن کی پہلی دلیل حدیث یہ ہے عن محمد بن کعب ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم نھی عن البتیراء یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتیراءنماز سے منع فرمایا لفظ ( بتیراء) دم کٹی نماز کو کہتے ہیں۔ عراقی نے کہا یہ حدیث مرسل اور ضعیف ہے۔ علامہ ابن حزم نے کہا کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز بتیراءکی نہی ثابت نہیں اور کہا کہ محمد بن کعب کی حدیث باوجودیکہ استدلال کے قابل نہیں مگر اس میں بھی بتیراءکا بیان نہیں ہے بلکہ ہم نے عبد الرزاق سے، انہوں نے سفیان بن عیینہ سے، انہوں نے اعمش سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ابن عباس سے رضی اللہ عنہما روایت کیا کہ بتیراءتین رکعت وتر بھی بتیراء ( یعنی دم کٹی ) نماز ہے فعاد البتیراءعلی المحتج بالخبر الکاذب فیھا۔

حنفیہ کی دوسری دلیل حضرت عبد اللہ بن مسعود کا یہ قول ہے انہ قال ما اجزات رکعۃ قط یعنی ایک رکعت نماز کبھی بھی کافی نہیں ہوتی۔ امام نووی شرح مہذب میں فرماتے ہیں کہ یہ اثر عبداللہ بن مسعود سے ثابت نہیں ہے اگر اس کو درست بھی مانا جائے تو اس کا تعلق حضرت ابن عباس کے اس قول کی تر دید کرناتھا۔ آپ نے فرمایا تھا کہ حالت خوف میں چار فرض نماز میں ایک ہی رکعت کافی ہے۔ اس پر حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ ایک رکعت کافی نہیں ہے! الغرض ابن عباس کے اس قول سے استدلال درست نہیں اور اس کا تعلق صلوۃ خوف کی ایک رکعت سے ہے۔ ابن ابی شیبہ میں ہے ایک مرتبہ ولید بن عقبہ امیر مکہ کے ہاں حضرت حذیفہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود کافی دیر تک گفتگو کرتے رہے۔ جب وہاں سے وہ نکلے تو انہوں نے نماز ( وتر ) ایک ایک رکعت ادا کی ( نیل الاوطار )

بڑی مشکل!
یہاں بخاری شریف میں جن جن روایات میں ایک رکعت وتر کاذکر آیا ہے ایک رکعت وتر کے ساتھ ان کا ترجمہ کرنے میں ان حنفی حضرات کو جو آج کل بخاری شریف کے ترجمے شائع فرما رہے ہیں، بڑی مشکل پیش آئی ہے اور انہوں نے پوری کوشش کی ہے کہ ترجمہ اس طرح کیا جائے کہ ایک رکعت وتر پڑھنے کا لفظ ہی نہ آنے پائے بایں طور کہ اس سے ایک رکعت وتر کا ثبوت ہو سکے اس کوشش کے لیے ان کی محنت قابل داد ہے اور اہل علم کے مطالعہ کے قابل، مگر ان بزرگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ تصنع وتکلف وعبارت آرائی سے حقیقت پر پردہ ڈالنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔

حدیث نمبر : 996
حدثنا عمر بن حفص، قال حدثنا أبي قال، حدثنا الأعمش، قال حدثني مسلم، عن مسروق، عن عائشة، قالت كل الليل أوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم وانتهى وتره إلى السحر‏.‏
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے مسلم بن کیسان نے بیان کیا، ان سے مسروق نے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصہ میں بھی وتر پڑھی ہے اور اخیر میں آپ کا وتر صبح کے قریب پہنچا۔

تشریح : دوسری روایتوں میں ہے کہ آپ نے وتر اول شب میں بھی پڑھی اور درمیان شب میں بھی اور آخر شب میں بھی۔ گویا عشاءکے بعد سے صبح صادق کے پہلے تک وتر پڑھنا آپ سے ثابت ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مختلف حالات میں آپ نے وتر مختلف اوقات میں پڑھے۔ غالباً تکلیف اور مرض وغیرہ میں اول شب میں پڑھتے تھے اور مسافرت کی حالت میں درمیان شب میں لیکن عام معمول آپ کا اسے آخر شب ہی میں پڑھنے کا تھا ( تفہیم البخاری )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی آسانی کے لیے عشاءکے بعد رات میں جب بھی ممکن ہو وتر ادا کرنا جائز قرار دیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الوتر
باب : وتر کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر والوں کو جگانا

حدیث نمبر : 997
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، قال حدثنا هشام، قال حدثني أبي، عن عائشة، قالت كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي، وأنا راقدة معترضة على فراشه، فإذا أراد أن يوتر أيقظني فأوترت‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہاکہ مجھ سے میرے باپ نے عائشہ رضی اللہ عنہما سے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( تہجد کی ) نماز پڑھتے رہتے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر عرض میں لیٹی رہتی۔ جب وتر پڑھنے لگتے تو مجھے بھی جگا دیتے اور میں بھی وتر پڑھ لیتی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الوتر
باب : نماز وتر رات کی تمام نمازوں کے بعد پڑھی جائے

حدیث نمبر : 998
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى بن سعيد، عن عبيد الله، حدثني نافع، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ اجعلوا آخر صلاتكم بالليل وترا‏"‏‏.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ عمری نے ان سے نافع نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وتر رات کی تمام نمازوں کے بعد پڑھا کرو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الوتر
باب : نماز وتر سواری پر پڑھنے کا بیان

حدیث نمبر : 999
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن أبي بكر بن عمر بن عبد الرحمن بن عبد الله بن عمر بن الخطاب، عن سعيد بن يسار، أنه قال كنت أسير مع عبد الله بن عمر بطريق مكة فقال سعيد فلما خشيت الصبح نزلت فأوترت، ثم لحقته فقال عبد الله بن عمر أين كنت فقلت خشيت الصبح، فنزلت فأوترت‏.‏ فقال عبد الله أليس لك في رسول الله صلى الله عليه وسلم أسوة حسنة فقلت بلى والله‏.‏ قال فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يوتر على البعير‏.‏
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، انہوں نے ابوبکر بن عمر بن عبد الرحمن بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب سے بیان کیا اور ان کو سعید بن یسار نے بتلایا کہ میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مکہ کے راستے میں تھا۔ سعید نے کہا کہ جب راستے میں مجھے طلوع فجر کا خطرہ ہوا تو سواری سے اتر کر میں نے وتر پڑھ لیا اور پھر عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے جا ملا۔ آپ نے پوچھا کہ کہاں رک گئے تھے؟ میں نے کہا کہ اب صبح کا وقت ہونے ہی والاتھا اس لیے میں سواری سے اتر کر وتر پڑھنے لگا۔ اس پر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا تمہارے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اچھا نمونہ نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا کیوں نہیں بے شک ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اونٹ ہی پر وتر پڑھ لیا کرتے تھے۔

معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہی بہر حال قابل اقتداءاور باعث صدبرکات ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الوتر
باب : نماز وتر سفر میں بھی پڑھنا

حدیث نمبر : 1000
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال حدثنا جويرية بن أسماء، عن نافع، عن ابن عمر، قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي في السفر على راحلته، حيث توجهت به، يومئ إيماء، صلاة الليل إلا الفرائض، ويوتر على راحلته‏.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جویریہ بن اسماء نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں اپنی سواری ہی پر رات کی نماز اشاروں سے پڑھ لیتے تھے خواہ سواری کا رخ کسی طرف ہو جاتا آپ اشاروں سے پڑھتے رہتے مگر فرائض اس طرح نہیں پڑھتے تھے اور وتر اپنی اونٹنی پر پڑھ لیتے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الوتر
باب : ( وتر اور ہر نماز میں ) قنوت رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد پڑھ سکتے ہیں

حدیث نمبر : 1001
حدثنا مسدد، قال حدثنا حماد بن زيد، عن أيوب، عن محمد، قال سئل أنس أقنت النبي صلى الله عليه وسلم في الصبح قال نعم‏.‏ فقيل له أوقنت قبل الركوع قال بعد الركوع يسيرا‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے ان سے محمد بن سیرین نے، انہوں نے کہا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز میں قنوت پڑھا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں پھر پوچھا گیا کہ کیا رکوع سے پہلے؟ توآپ نے فرمایا کہ رکوع کے بعد تھوڑے دنوں تک۔

صبح کی نماز میں قنوت پڑھنا شافعیہ کے ہاں ضروری ہے، اس لیے وہ اس کے ترک ہونے پر سجدہ سہو کرتے ہیں۔ حنفیہ کے ہاں صبح کی نماز میں قنوت پڑھنا مکروہ ہے، اہلحدیث کے ہاں گاہے بگاہے قنوت پڑھ لینا بھی جائز اور ترک بھی جائز۔ اسی لیے مسلک اہلحدیث افراط وتفریط سے ہٹ کر ایک صراط مستقیم کانام ہے۔ اللہ پاک ہم کو سچا اہلحدیث بنائے ( آمین )

حدیث نمبر : 1002
حدثنا مسدد، قال حدثنا عبد الواحد، قال حدثنا عاصم، قال سألت أنس بن مالك عن القنوت،‏.‏ فقال قد كان القنوت‏.‏ قلت قبل الركوع أو بعده قال قبله‏.‏ قال فإن فلانا أخبرني عنك أنك قلت بعد الركوع‏.‏ فقال كذب، إنما قنت رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد الركوع شهرا ـ أراه ـ كان بعث قوما يقال لهم القراء زهاء سبعين رجلا إلى قوم من المشركين دون أولئك، وكان بينهم وبين رسول الله صلى الله عليه وسلم عهد فقنت رسول الله صلى الله عليه وسلم شهرا يدعو عليهم‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے قنوت کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ دعائے قنوت ( حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ) پڑھی جاتی تھی۔ میں نے پوچھا کہ رکوع سے پہلے یا اس کے بعد؟ آپ نے فرمایا کہ رکوع سے پہلے۔ عاصم نے کہا کہ آپ ہی کے حوالے سے فلاں شخص نے خبر دی ہے کہ آپ نے رکوع کے بعد فرمایا تھا۔ اس کا جواب حضرت انس نے یہ دیا کہ انہوں نے غلط سمجھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کے بعد صرف ایک مہینہ دعائے قنوت پڑھی تھی۔ ہوا یہ تھا کہ آپ نے صحابہ میں سے ستر قاریوں کے قریب مشرکوں کی ایک قوم ( بن ی عامر ) کی طرف سے ان کو تعلیم دینے کے لیے بھیجے تھے، یہ لوگ ان کے سوا تھے جن پر آپ نے بد دعا کی تھی۔ ان میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان عہد تھا، لیکن انہوں نے عہد شکنی کی ( اور قاریوں کو مار ڈالا ) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مہینہ تک ( رکوع کے بعد ) قنوت پڑھتے رہے ان پر بد دعا کر تے رہے۔

حدیث نمبر : 1003
أخبرنا أحمد بن يونس، قال حدثنا زائدة، عن التيمي، عن أبي مجلز، عن أنس، قال قنت النبي صلى الله عليه وسلم شهرا يدعو على رعل وذكوان‏.‏
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زائدہ نے بیان کیا، ان سے تیمی نے، ان سے ابو مجلز نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک دعا قنوت پڑھی اور اس میں قبائل رعل و ذکوان پر بد دعا کی تھی۔

حدیث نمبر : 1004
حدثنا مسدد، قال حدثنا إسماعيل، قال حدثنا خالد، عن أبي قلابة، عن أنس، قال كان القنوت في المغرب والفجر‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں اسماعیل بن علیہ نے خبر دی، کہا کہ ہمیں خالد حذاء نے خبر دی، انہیں ابوقلابہ نے، انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے، آپ نے فرمایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں قنوت مغرب اور فجر میں پڑھی جاتی تھی۔

تشریح : مگر ان حدیثوں میں جو امام بخاری رحمہ اللہ اس باب میں لائے خاص وتر قنوت پڑھنے کا ذکر نہیں ہے مگر جب فرض نمازوں میں قنوت پڑھنا جائز ہوا تو وتر میں بطریق اولیٰ جائز ہوگا اور بعضوں نے کہا مغرب دن کا وتر ہے۔ جب اس میں قنوت پڑھنا ثابت ہوا تو رات کے وترمیں بھی ثابت ہوا۔حاصل یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب لا کر ان لوگوں کا رد کیا جو قنوت کوبد عت کہتے ہیں گزشتہ حدیث کے ذیل مولاناوحید الزماں صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یعنی ایک مہینے تک۔ اہلحدیث کا مذہب یہ ہے کہ قنوت رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد دونوں طرح درست ہے اورصبح کی نماز میں اور اسی طرح ہر نماز میں جب مسلمانوں پر کوئی آفت آئے، قنوت پڑھنا چاہئے۔ عبد الرزاق اورحاکم نے باسناد صحیح روایت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز میں قنوت پڑھتے رہے یہاں تک کہ دنیا سے تشریف لے گئے۔ شافعیہ کہتے ہیں کہ قنوت ہمیشہ رکوع کے بعد پڑھے اور حنفیہ کہتے ہیں ہمیشہ رکوع سے پہلے پڑھے اور اہلحدیث سب سنتوں کا مزا لوٹتے ہیں۔ گزشتہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کافروں اور ظالموں پر نماز میں بد دعا کر نے سے نماز میں کوئی خلل نہیں آتا۔ آپ نے ان قاریوں کو نجد والوں کی طرف بھیجا تھا، راہ میں بئر معونہ پر یہ لوگ اترے تو عامر بن طفیل نے رعل وذکوان اور عصبہ کے لوگوں کو لے کر ان پر حملہ کیا حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اوران سے عہد تھا۔ لیکن انہوں نے دغاکی۔

قنوت کی صحیح دعا یہ ہے جو حضرت حسن رضی اللہ عنہ وتر میں پڑھا کرتے تھے:
اللھم اھدنی فیمن ھدیت وعافنی فیمن عافیت وتولنی فیمن تولیت وبارک لی فیما اعطیت وقنی شرما قضیت فانک تقضی ولا یقضی علیک وانہ لا یذل من والیت ولا یعز من عادیت تبارک ربنا وتعالیت نستغفرک ونتوب الیک وصلی اللہ علی النبی محمد۔

یہ دعابھی منقول ہے:
اللھم اغفرلنا وللمومنین والمومنات والمسلمین والمسلمات اللھم الف بین قلوبھم واصلح ذات بینھم وانصرھم علی عدوک وعدوھم اللھم العن الکفرۃ الذین یصدون عن سبیلک ویقاتلون اولیائک اللھم خالف بین کلمتھم وزلزل اقدامھم وانزل بھم باسک الذی لا تردہ عن القوم المجرمین اللھم انج المستضعفین من المومنین اللھم اشدد وطاتک علی فلان واجعلھا علیھم سنین کسنی یوسف۔
فلاں کی جگہ اس شخص کا یا اس قوم کا نام لے جس پر بد دعا کرنا منظور ہو۔ ( مولانا وحیدالزماں
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب استسقاء


صحیح بخاری -> کتاب استسقاء
(پانی مانگنے کے ابواب)
بسم اللہ الرحمن الرحیم

استسقاءکی تشریح میں حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وھو لغۃ طلب سقی الماءمن الغیر للنفس او لغیر وشرعا طلبہ من اللہ عند حصول الجدب علی الوجہ المبین فی الاحادیث قال الجزری فی النھایۃھو استفعال من طلب السقیا ای انزال الغیث علی البلاد والعباد یقال سقی اللہ عبادہ الغیث واسقاھم والاسم السقیاءبالضم واستسقیت فلانا اذاطلب منہ ان یسقیک انتھی قال القسطلانی الاستسقاءثلاثۃ انواع احدھا وھو ( ادناھا ) ان یکون بالدعاءمطلقا ای من غیر صلوۃ فرادی او مجتمعین وثانیھا ( وھو افضل من الاول ) ان یکون بالدعاءخلف الصلوات ولو نافلۃ کما فی البیان وغیرہ عن الاصحاب خلافا لما وقع فی شرح مسلم من تقییدہ بالفرائض وفی خطبۃ الجمعۃ وثالثھا ( وھو اکملھا وافضلھا ) ان یکون بصلوۃ رکعتین والخطبتین قال النووی یتاھب قبلہ لصدقۃ وصیام وتوبۃ واقبال علی الخیر ومجانبۃ الشرو نحو ذالک من طاعۃ اللہ قال الشاہ ولی اللہ الدھلوی قد استسقی النبی صلی اللہ علیہ وسلم لامتہ مرات علی انحاءکثیرۃ لکن الوجہ الذی سنہ لامتہ ان خرج الناس الی المصلی مبتذلا متواضعا متضرعا فصلی بھم رکعتین جھر فیھما بالقراۃ ثم خطب واستقبل فیھا القبلۃ یدعوو یرفع یدیہ وحول رداءہ وذالک لان لاجتماع المسلمین فی مکان واحد راغبین فی شئی واحد باقصی ھمھم استغفارھم وفعلھم الخیرات اثر فی استجابۃ الدعاءوالصلوۃ اقرب احوال العبد من اللہ ورفع الیدین حکایۃ من التضرع التام والابتھال العظیم تنبہ النفس علی التخشع وتحویل ردائہ حکایۃ عن تقلب احوالھم کما یفعل المستغیث بحضرۃ الملوک انتھی۔ ( مرعاۃ ج:2ص:290 )
خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ استسقاءلغت میں کسی سے اپنے لیے یا کسی غیر کے لیے پانی طلب کرنا اور شریعت میں قحط سالی کے وقت اللہ سے بارش کی دعا کرنا جن جن طریقوں سے احادیث میں وارد ہے۔ امام جزری نے نہایہ میں کہا کہ شہروں اور بندوں کے لیے اللہ سے بارش کی دعا کرنا۔ محاورہ ہے اللہ اپنے بندوں کو بارش سے سیراب فرمائے۔ قسطلانی نے کہا کہ استسقاءشرعی کے تین طریقے ہیں۔ اول طریقہ جو ادنی ترین ہے یہ کہ مطلقا بارش کی دعا کی جائے ان لفظوں میں اللھم اسق عبادک وبھیمتک وانشر رحمتک واحی بلدک المیت یا اللہ!اپنے بندوں کو اور اپنے جانوروں کو بارش سے سیراب فرمادے اور اپنی باران رحمت کو پھیلا اور مردہ کھیتوں کو ہرابھرا سر سبز کر دے” یہ دعا نمازوں کے بعد ہو یا بغیر نمازوں کے تنہا دعاکی جائے یا اجتماعی حالت میں بہر حال پہلی صورت یہ ہے دوسری صورت جو اول سے افضل ہے یہ کہ نفل وفرض نمازوں کے بعد اور خطبہ جمعہ میں دعا کی جائے اور تیسری کامل ترین صورت یہ کہ امام جملہ مسلمانوں کو ہمراہ لے کر میدان میں جائے اور وہاں دو رکعت اور دو خطبوں سے فارغ ہو کر دعا کی جائے اور مناسب ہے کہ اس سے قبل کچھ صدقہ خیرات توبہ اورنیک کام کئے جائیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ مرحوم فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لیے کئی طریقوں سے بارش کی دعا فرمائی ہے لیکن جو طریقہ اپنی امت کے لیے مسنون قرار دیا وہ یہ کہ امام لوگوں کو ہمراہ لے کر نہایت ہی فقیری مسکینی حالت میں خشوع وخضوع کی حالت میں عید گاہ جائے وہاں دو رکعت جہری پڑھائے اور خطبہ کہے پھر قبلہ رخ ہو کر ہاتھوں کو بلند اٹھا کر دعا کرے اور چادر کوالٹے۔ اس طرح مسلمانوں کے جمع ہونے اور استغفار وغیرہ کرنے میں قبولیت دعا کے لیے ایک خاص اثر ہے اور نماز وہ چیز ہے جس سے بندہ کو اللہ سے حد درجہ قرب حاصل ہوتا ہے اور ہاتھوں کا اٹھانا تضرع تام خشوع وخضوع کے لیے نفس کی ہوشیاری کی دلیل ہے اور چادر کا الٹانا حالات کے تبدیل ہونے کی دلیل ہے جیسا کہ فریادی بادشاہوں کے سامنے کیا کرتے ہیں۔ مزید تفصیلات آگے آرہی ہیں۔

باب : پانی مانگنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پانی کے لیے ( جنگل میں ) نکلنا

حدیث نمبر : 1005
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا سفيان، عن عبد الله بن أبي بكر، عن عباد بن تميم، عن عمه، قال خرج النبي صلى الله عليه وسلم يستسقي وحول رداءه‏.‏
ہم سے ابو نعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے عبد اللہ بن ابی بکر سے بیان کیا، ان سے عباد بن تمیم نے اور ان سے ان کے چچا عبد اللہ بن زید نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پانی کی دعا کرنے کے لیے تشریف لے گئے اور اپنی چادر الٹائی۔

چادر الٹنے کی کیفیت آگے آئے گی اور اہلحدیث اور اکثر فقہاءکا یہ قول ہے کہ امام استسقاءکے لیے نکلے تو دو رکعت نماز پڑھے پھر دعا اور استغفار کرے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قریش کے کافروں پر بد دعا کرناکہ الٰہی ان کے سال ایسے کر دے جیسے یوسف علیہ السلام کے سال ( قحط ) کے گزرے ہیں

حدیث نمبر : 1006
حدثنا قتيبة، حدثنا مغيرة بن عبد الرحمن، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا رفع رأسه من الركعة الآخرة يقول ‏"‏ اللهم أنج عياش بن أبي ربيعة، اللهم أنج سلمة بن هشام، اللهم أنج الوليد بن الوليد، اللهم أنج المستضعفين من المؤمنين، اللهم اشدد وطأتك على مضر، اللهم اجعلها سنين كسني يوسف‏"‏‏. ‏ وأن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ غفار غفر الله لها، وأسلم سالمها الله‏"‏‏. ‏ قال ابن أبي الزناد عن أبيه هذا كله في الصبح‏.‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے مغیرہ بن عبد الرحمن نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سر مبارک آخری رکعت ( کے رکوع ) سے اٹھاتے تو یوں فرماتے کہ یا اللہ! عیاش بن ابی ربیعہ کو چھوڑوا دے۔ یا اللہ سلمہ بن ہشام کو چھوڑوا دے۔ یا اللہ ولید بن ولید کو چھوڑوا دے۔ یا اللہ بے بس ناتواں مسلمانوں کو چھوڑوا دے۔ یا اللہ مضر کے کافروں کو سخت پکڑ۔ یا اللہ ان کے سال یوسف علیہ السلام کے سے سال کر دے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غفار کی قوم کو اللہ نے بخش دیا اور اسلم کی قوم کو اللہ نے سلامت رکھا۔ ابن ابی الزناد نے اپنے باپ سے صبح کی نماز میں یہی دعا نقل کی۔

حدیث نمبر : 1007
حدثنا عثمان بن أبي شيبة قال: حدثنا جرير، عن منصور، عن أبي الضحى، عن مسروق قال: كنا عند عبد الله، فقال: إن النبي صلى الله عليه وسلم لما رأى من الناس إدبارا، قال: (اللهم سبع كسبع يوسف). فأخذتهم سنة حصت كل شيء، حتى أكلوا الجلود والميتة والجيف، وينظر أحدهم إلى السماء فيرى الدخان من الجوع. فأتاه أبو سفيان فقال: يا محمد، إنك تأمر بطاعة الله وبصلة الرحم، وإن قومك قد هلكوا، فادع الله لهم، قال الله تعالى: {فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين - إلى قوله - عائدون. يوم نبطش البطشة الكبرى}. فالبطشة يوم بدر، وقد مضت الدخان، والبطشة واللزام وآية الروم.
ہم سے امام حمیدی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے سلیمان اعمش نے، ان سے ابوالضحی نے، ان سے مسروق نے، ان سے عبد اللہ بن مسعودنے ( دوسری سند ) ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر بن عبد الحمید نے منصور بن مسعود بن معتمر سے بیان کیا، اور ان سے ابوالضحی نے، ان سے مسروق نے، انہوں نے بیان کیا کہ ہم عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کفار قریش کی سرکشی دیکھی توآپ نے بد دعا کی کہ اے اللہ! سات برس کا قحط ان پر بھیج جیسے یوسف علیہ السلام کے وقت میں بھیجا تھا چنانچہ ایسا قحط پڑا کہ ہر چیز تباہ ہوگئی اور لوگوں نے چمڑے اور مردار تک کھا لیے۔ بھوک کی شدت کا یہ عالم تھا کہ آسمان کی طرف نظر اٹھائی جاتی تو دھویں کی طرح معلوم ہوتا تھا آخر مجبور ہو کر ابوسفیان حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ لوگوں کو اللہ کی اطاعت اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ اب تو آپ ہی کی قوم برباد ہو رہی ہے، اس لیے آپ خدا سے ان کے حق میں دعا کیجئے۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ اس دن کا انتظار کر جب آسمان صاف دھواں نظر آئے گا آیت انکم عائدون تک ( نیز ) جب ہم سختی سے ان کی گرفت کریں گے ( کفار کی ) سخت گرفت بدر کی لڑائی میں ہوئی۔ دھویں کا بھی معاملہ گزر چکا ( جب سخت قحط پڑا تھا ) جس میں پکڑ اور قید کا ذکر ہے وہ سب ہو چکے اسی طرح سورۃ روم کی آیت میں جو ذکر ہے وہ بھی ہو چکا۔

تشریح : یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تشریف رکھتے تھے۔ قحط کی شدت کا یہ عالم تھا کہ قحط زدہ علاقے ویرانے بن گئے تھے۔ ابو سفیان نے اسلام کی اخلاقی تعلیمات اور صلہ رحمی کا واسطہ دے کر رحم کی درخواست کی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دعا فرمائی اور قحط ختم ہوا یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ استسقاءمیں اس لیے لائے کہ جیسے مسلمانوں کے لیے بارش کی دعا کرنا مسنون ہے اسی طرح کافروں پر قحط کی بد دعا کرنا جائز ہے۔ روایت میں جن مسلمان مظلوموں کا ذکر ہے یہ سب کافروں کی قید میں تھے۔ آپ کی دعا کی برکت سے اللہ نے ان کو چھوڑا دیا اور وہ مدینہ میں آپ کے پاس آگئے۔ سات سال تک حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں قحط پڑا تھا جس کا ذکر قرآن شریف میں ہے۔ غفار اور اسلم یہ دو قومیں مدینہ کے ارد گرد رہتی تھیں۔ غفار قدیم سے مسلمان تھے اور اسلم نے آپ سے صلح کر لی تھی۔ پوری آیت کا ترجمہ یہ ہے“اس دن کا منتظر رہ جس دن آسمان کھلا ہوا دھواں لے کر آئے گا جو لوگوں کو گھیر ے گا۔ یہی تکلیف کا عذاب ہے اس وقت لوگ کہیں گے مالک ہمارے!یہ عذاب ہم پرسے اٹھا دے ہم ایمان لاتے ہیں”آخرتک۔ یہاں سورۃ دخان میں بطش اور دخان کا ذکر ہے۔

اور سورۃ فرقان میں فسوف یکون لزاما ( الفرقان: 77 ) لزام یعنی کافروں کے لیے قید ہونے کا ذکر ہے۔ یہ تینوں باتیں آپ کے عہد میں ہی پوری ہوگئی تھیں۔ دخان سے مراد قحط تھا جو اہل مکہ پر نازل ہوا جس میں بھوک کی وجہ سے آسمان دھواں نظر آتا تھا اور ( بطشۃ الکبری ) ( بڑی پکڑ ) سے کافروں کا جنگ بدر میں مارا جانا مراد ہے اور لزام ان کا قید ہونا۔ سورۃ روم کی آیت میں یہ بیان تھا کہ رومی کافر ایرانیوں سے مغلوب ہوگئے لیکن چند سال میں رومی پھر غالب ہو جائیں گے۔ یہ بھی ہو چکا۔ آئندہ حدیث میں شعر ( ستسقی الغمام الخ ) ابو طالب کے ایک طویل قصیدے کا ہے جو قصیدہ ایک سودس ( 110 ) اشعار پر مشتمل ہے جسے ابو طالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کہا تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء
باب : قحط کے وقت لوگ امام سے پانی کی دعا کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں

حدیث نمبر : 1008
حدثنا عمرو بن علي، قال حدثنا أبو قتيبة، قال حدثنا عبد الرحمن بن عبد الله بن دينار، عن أبيه، قال سمعت ابن عمر، يتمثل بشعر أبي طالب وأبيض يستسقى الغمام بوجهه ثمال اليتامى عصمة للأرامل
ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد الرحمن بن عبد اللہ بن دینار نے، ان سے ان کے والد نے، کہا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو ابو طالب کا یہ شعر پڑھتے سنا تھا ( ترجمہ ) گورا ان کا رنگ ان کے منہ کے واسطہ سے بارش کی ( اللہ سے ) دعا کی جاتی ہے۔ یتیموں کی پناہ اور بیواؤں کے سہارے۔ ”

حدیث نمبر : 1009
وقال عمر بن حمزة: حدثنا سالم، عن أبيه: ربما ذكرت قول الشاعر، وأنا أنظر إلى وجه النبي صلى الله عليه وسلم يستسقي، فما ينزل حتى يجيش كل ميزاب: وأبيض يستسقى الغمام بوجهه * ثمال اليتامى عصمة للأرامل وهو قول أبي طالب.
اور عمر بن حمزہ نے بیان کیا کہ ہم سے سالم نے اپنے والد سے بیان کیا وہ کہا کرتے تھے کہ اکثر مجھے شاعر ( ابو طالب ) کا شعر یا د آجاتا ہے۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کو دیکھ رہا تھا کہ آپ دعاءاستسقاء ( منبر پر ) کر رہے تھے اور ابھی ( دعا سے فارغ ہو کر ) اترے بھی نہیں تھے کہ تمام نالے لبریز ہوگئے۔

وأبيض يستسقى الغمام بوجهه
ثمال اليتامى عصمة للأرامل


یہ ابوطالب کا شعر ہے جس کا ترجمہ ہے کہ ( گورا رنگ ان کا، وہ حامی یتیموں بیواؤں کے، لوگ پانی مانگتے ہیں ان کے منہ کے صدقہ سے۔”

حدیث نمبر : 1010
حدثنا الحسن بن محمد، قال حدثنا محمد بن عبد الله الأنصاري، قال حدثني أبي عبد الله بن المثنى، عن ثمامة بن عبد الله بن أنس، عن أنس، أن عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنه ـ كان إذا قحطوا استسقى بالعباس بن عبد المطلب فقال اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا‏.‏ قال فيسقون‏.‏
ہم سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عبد اللہ بن مثنی انصاری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ عبد اللہ بن مثنی نے بیان کیا، ان سے ثمامہ بن عبد اللہ بن انس رضی اللہ عنہ نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ جب کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لایا کر تے تھے۔ تو تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو تو ہم پر پانی برسا۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ چنانچہ بارش خوب ہی برسی۔

تشریح : خیر القرون میں دعا کا یہی طریقہ تھا اور سلف کا عمل بھی اسی پر رہا کہ مردوں کو وسیلہ بنا کر وہ دعا نہیں کرتے تھے کہ انہیں تو عام حالات میں دعا کا شعور بھی نہیں ہوتا بلکہ کسی زندہ مقرب بارگاہ ایزدی کو آگے بڑھا دیتے تھے۔ آگے بڑھ کر وہ دعا کرتے جاتے اور لوگ ان کی دعا پر آمین کہتے جاتے۔

حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ذریعے اس طرح توسل کیاگیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر موجود یا مردوں کو وسیلہ بنانے کی کوئی صورت حضرت عمر کے سامنے نہیں تھی۔ سلف کا یہی معمول تھا۔ اور حضرت عمر کا طرز عمل اس مسئلہ میں بہت زیادہ واضح ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت عباس کی دعا بھی نقل کی ہے آپ نے استسقاءکی دعا اس طرح کی تھی“اے اللہ! آفت اور مصیبت بغیر گناہ کے نازل نہیں ہوتی اور توبہ کے بغیر نہیں چھٹتی۔ آپ کے نبی کے یہاں میری قدر ومنزلت تھی اس لیے قوم مجھے آگے بڑھا کر تیری بارگاہ میں حاضر ہوئی ہے۔ یہ ہمارے ہاتھ ہیں جن سے ہم نے گناہ کئے تھے اور توبہ کے لیے ہماری پیشانیاں سجدہ ریز ہیں، باران رحمت سے سیراب کیجئے۔”دوسری روایتوں میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایسا معاملہ تھا جیسے بیٹے کاباپ کے ساتھ ہوتا ہے۔ پس لوگو!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداءکرو اور خداکی بارگاہ میں ان کے چچا کو وسیلہ بناؤ۔ چنانچہ دعاءاستسقاءکے بعد اس زور کی بارش ہوئی کہ تاحد نظرپانی ہی پانی تھا۔ ( ملخص
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء
باب : استسقاء میں چادر الٹنا

حدیث نمبر : 1011
حدثنا إسحاق، قال حدثنا وهب، قال أخبرنا شعبة، عن محمد بن أبي بكر، عن عباد بن تميم، عن عبد الله بن زيد، أن النبي صلى الله عليه وسلم استسقى فقلب رداءه‏.‏
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں شعبہ نے خبر دی، انہیں محمد بن ابی بکر نے، انہیں عباد بن تمیم نے، انہیں عبدا للہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا استسقاء کی تو اپنی چادر کو بھی الٹا۔

حدیث نمبر : 1012
حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا سفيان، قال عبد الله بن أبي بكر أنه سمع عباد بن تميم، يحدث أباه عن عمه عبد الله بن زيد، أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج إلى المصلى فاستسقى، فاستقبل القبلة، وقلب رداءه، وصلى ركعتين‏.‏ قال أبو عبد الله كان ابن عيينة يقول هو صاحب الأذان، ولكنه وهم، لأن هذا عبد الله بن زيد بن عاصم المازني، مازن الأنصار‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عبداللہ بن ابی بکر سے بیان کیا، انہوں نے عباد بن تمیم سے سنا، وہ اپنے باپ سے بیان کرتے تھے کہ ان سے ان کے چچا عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ گئے۔ آپ نے وہاں دعائے استسقاء قبلہ رو ہو کر کی اور آپ نے چادر بھی پلٹی اور دو رکعت نماز پڑھی۔ ابو عبد اللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ ) کہتے ہیں کہ ابن عیینہ کہتے تھے کہ ( حدیث کے راوی عبد اللہ بن زید ) وہی ہیں جنہوں نے اذان خواب میں دیکھی تھی لیکن یہ ان کی غلطی ہے کیونکہ یہ عبد اللہ ابن زید بن عاصم مازنی ہے جو انصار کے قبیلہ مازن سے تھے۔

تشریح : یہ مضمون احادیث کی اور کتابوں میں بھی موجود ہے کہ دعائے استسقاءمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چادرکا نیچے کا کونا پکڑ کر اس کو الٹا اور چادر کو دائیں جانب سے گھما کر بائیں طرف ڈال لیا۔ اس میں اشارہ تھا کہ اللہ اپنے فضل سے ایسے ہی قحط کی حالت کو بد ل دے گا۔ اب بھی دعائے استسقاءمیں اہلحدیث کے ہاں یہی مسنون طریقہ معمول ہے مگر احناف اس کے قائل نہیں ہیں۔ اسی حدیث میں استسقاءکی نماز دو رکعت کا بھی ذکر ہے استسقاءکی نماز بھی نماز عید کی طرح ہے۔
 
Top