Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الوتر
باب : وتر پڑھنے کے اوقات کا بیان
قال أبو هريرة أوصاني النبي صلى الله عليه وسلم بالوتر قبل النوم.
اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وصیت فرمائی کہ سونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو۔
حدیث نمبر : 995
حدثنا أبو النعمان، قال حدثنا حماد بن زيد، قال حدثنا أنس بن سيرين، قال قلت لابن عمر أرأيت الركعتين قبل صلاة الغداة أطيل فيهما القراءة فقال كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي من الليل مثنى مثنى، ويوتر بركعة ويصلي الركعتين قبل صلاة الغداة وكأن الأذان بأذنيه. قال حماد أى سرعة.
ہم سے ابو نعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے انس بن سیرین نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ نماز صبح سے پہلے کی دو رکعتوں کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا میں ان میں لمبی قرات کر سکتا ہوں؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو رات کی نماز ( تہجد ) دو دو رکعت کر کے پڑھتے تھے پھر ایک رکعت پڑھ کر ان کوطاق بنا لیتے اور صبح کی نماز سے پہلے کی دو رکعتیں ( سنت فجر تو ) اس طرح پڑھتے گویا اذان ( اقامت ) کی آواز آپ کے کان میں پڑ رہی ہے۔ حماد کی اس سے مراد یہ ہے کہ آپ جلدی پڑھ لیتے۔
تشریح : اس سلسلے کی احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ عشاءکے بعد ساری رات وتر کے لیے ہے۔ طلوع صبح صادق سے پہلے جس وقت بھی چاہے پڑھ سکتا ہے۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول آخر شب میں صلوۃ اللیل کے بعد اسے پڑھنے کا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آخر شب میں اٹھنے کا پوری طرح یقین نہیں ہوتا تھا، اس لیے وہ عشاءکے بعد ہی پڑھ لیتے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ کا معمول آخرشب میں پڑھنے کا تھا۔
اس حدیث کے ذیل میں علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں والحدیث یدل علی مشروعیۃ الایتار برکعۃ واحدۃ عند مخافۃ ھجوم الصبح وسیاتی ما یدل علی مشروعیۃ ذالک من غیر تقیید وقد ذھب الی ذالک الجمھور قال العراقی وممن کان یوتر برکعۃ من الصحابۃ الخلفاءالاربعۃالخ یعنی اس حدیث سے ایک رکعت وتر مشروع ثابت ہوا جب صبح کی پوپھٹنے کا ڈر ہو اور عنقریب دوسرے دلائل آرہے ہیں جن سے اس قید کے بغیر ہی ایک رکعت وتر کی مشروعیت ثابت ہے اور ایک رکعت وتر پڑھنا خلفاءاربعہ ( حضرت ابو بکرصدیق، عمر فاروق، عثمان غنی اور علی المرتضی رضی اللہ عنہم ) اور سعد بن ابی وقاص بیس صحابہ کرام سے ثابت ہے، یہاں علامہ شوکانی نے سب کے نام تحریر فرمائے ہیں اور تقریبا بیس ہی تابعین وتبع تابعین وائمہ دین کے نام بھی تحریر فرمائے ہیں جو ایک رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔
حنفیہ کے دلائل!
علامہ نے حنفیہ کے ان دلائل کا جواب دیا ہے جو ایک رکعت وتر کے قائل نہیں جن کی پہلی دلیل حدیث یہ ہے عن محمد بن کعب ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم نھی عن البتیراء یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتیراءنماز سے منع فرمایا لفظ ( بتیراء) دم کٹی نماز کو کہتے ہیں۔ عراقی نے کہا یہ حدیث مرسل اور ضعیف ہے۔ علامہ ابن حزم نے کہا کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز بتیراءکی نہی ثابت نہیں اور کہا کہ محمد بن کعب کی حدیث باوجودیکہ استدلال کے قابل نہیں مگر اس میں بھی بتیراءکا بیان نہیں ہے بلکہ ہم نے عبد الرزاق سے، انہوں نے سفیان بن عیینہ سے، انہوں نے اعمش سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ابن عباس سے رضی اللہ عنہما روایت کیا کہ بتیراءتین رکعت وتر بھی بتیراء ( یعنی دم کٹی ) نماز ہے فعاد البتیراءعلی المحتج بالخبر الکاذب فیھا۔
حنفیہ کی دوسری دلیل حضرت عبد اللہ بن مسعود کا یہ قول ہے انہ قال ما اجزات رکعۃ قط یعنی ایک رکعت نماز کبھی بھی کافی نہیں ہوتی۔ امام نووی شرح مہذب میں فرماتے ہیں کہ یہ اثر عبداللہ بن مسعود سے ثابت نہیں ہے اگر اس کو درست بھی مانا جائے تو اس کا تعلق حضرت ابن عباس کے اس قول کی تر دید کرناتھا۔ آپ نے فرمایا تھا کہ حالت خوف میں چار فرض نماز میں ایک ہی رکعت کافی ہے۔ اس پر حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ ایک رکعت کافی نہیں ہے! الغرض ابن عباس کے اس قول سے استدلال درست نہیں اور اس کا تعلق صلوۃ خوف کی ایک رکعت سے ہے۔ ابن ابی شیبہ میں ہے ایک مرتبہ ولید بن عقبہ امیر مکہ کے ہاں حضرت حذیفہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود کافی دیر تک گفتگو کرتے رہے۔ جب وہاں سے وہ نکلے تو انہوں نے نماز ( وتر ) ایک ایک رکعت ادا کی ( نیل الاوطار )
بڑی مشکل!
یہاں بخاری شریف میں جن جن روایات میں ایک رکعت وتر کاذکر آیا ہے ایک رکعت وتر کے ساتھ ان کا ترجمہ کرنے میں ان حنفی حضرات کو جو آج کل بخاری شریف کے ترجمے شائع فرما رہے ہیں، بڑی مشکل پیش آئی ہے اور انہوں نے پوری کوشش کی ہے کہ ترجمہ اس طرح کیا جائے کہ ایک رکعت وتر پڑھنے کا لفظ ہی نہ آنے پائے بایں طور کہ اس سے ایک رکعت وتر کا ثبوت ہو سکے اس کوشش کے لیے ان کی محنت قابل داد ہے اور اہل علم کے مطالعہ کے قابل، مگر ان بزرگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ تصنع وتکلف وعبارت آرائی سے حقیقت پر پردہ ڈالنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔
حدیث نمبر : 996
حدثنا عمر بن حفص، قال حدثنا أبي قال، حدثنا الأعمش، قال حدثني مسلم، عن مسروق، عن عائشة، قالت كل الليل أوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم وانتهى وتره إلى السحر.
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے مسلم بن کیسان نے بیان کیا، ان سے مسروق نے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصہ میں بھی وتر پڑھی ہے اور اخیر میں آپ کا وتر صبح کے قریب پہنچا۔
تشریح : دوسری روایتوں میں ہے کہ آپ نے وتر اول شب میں بھی پڑھی اور درمیان شب میں بھی اور آخر شب میں بھی۔ گویا عشاءکے بعد سے صبح صادق کے پہلے تک وتر پڑھنا آپ سے ثابت ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مختلف حالات میں آپ نے وتر مختلف اوقات میں پڑھے۔ غالباً تکلیف اور مرض وغیرہ میں اول شب میں پڑھتے تھے اور مسافرت کی حالت میں درمیان شب میں لیکن عام معمول آپ کا اسے آخر شب ہی میں پڑھنے کا تھا ( تفہیم البخاری )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی آسانی کے لیے عشاءکے بعد رات میں جب بھی ممکن ہو وتر ادا کرنا جائز قرار دیا۔
باب : وتر پڑھنے کے اوقات کا بیان
قال أبو هريرة أوصاني النبي صلى الله عليه وسلم بالوتر قبل النوم.
اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وصیت فرمائی کہ سونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو۔
حدیث نمبر : 995
حدثنا أبو النعمان، قال حدثنا حماد بن زيد، قال حدثنا أنس بن سيرين، قال قلت لابن عمر أرأيت الركعتين قبل صلاة الغداة أطيل فيهما القراءة فقال كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي من الليل مثنى مثنى، ويوتر بركعة ويصلي الركعتين قبل صلاة الغداة وكأن الأذان بأذنيه. قال حماد أى سرعة.
ہم سے ابو نعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے انس بن سیرین نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ نماز صبح سے پہلے کی دو رکعتوں کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا میں ان میں لمبی قرات کر سکتا ہوں؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو رات کی نماز ( تہجد ) دو دو رکعت کر کے پڑھتے تھے پھر ایک رکعت پڑھ کر ان کوطاق بنا لیتے اور صبح کی نماز سے پہلے کی دو رکعتیں ( سنت فجر تو ) اس طرح پڑھتے گویا اذان ( اقامت ) کی آواز آپ کے کان میں پڑ رہی ہے۔ حماد کی اس سے مراد یہ ہے کہ آپ جلدی پڑھ لیتے۔
تشریح : اس سلسلے کی احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ عشاءکے بعد ساری رات وتر کے لیے ہے۔ طلوع صبح صادق سے پہلے جس وقت بھی چاہے پڑھ سکتا ہے۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول آخر شب میں صلوۃ اللیل کے بعد اسے پڑھنے کا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آخر شب میں اٹھنے کا پوری طرح یقین نہیں ہوتا تھا، اس لیے وہ عشاءکے بعد ہی پڑھ لیتے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ کا معمول آخرشب میں پڑھنے کا تھا۔
اس حدیث کے ذیل میں علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں والحدیث یدل علی مشروعیۃ الایتار برکعۃ واحدۃ عند مخافۃ ھجوم الصبح وسیاتی ما یدل علی مشروعیۃ ذالک من غیر تقیید وقد ذھب الی ذالک الجمھور قال العراقی وممن کان یوتر برکعۃ من الصحابۃ الخلفاءالاربعۃالخ یعنی اس حدیث سے ایک رکعت وتر مشروع ثابت ہوا جب صبح کی پوپھٹنے کا ڈر ہو اور عنقریب دوسرے دلائل آرہے ہیں جن سے اس قید کے بغیر ہی ایک رکعت وتر کی مشروعیت ثابت ہے اور ایک رکعت وتر پڑھنا خلفاءاربعہ ( حضرت ابو بکرصدیق، عمر فاروق، عثمان غنی اور علی المرتضی رضی اللہ عنہم ) اور سعد بن ابی وقاص بیس صحابہ کرام سے ثابت ہے، یہاں علامہ شوکانی نے سب کے نام تحریر فرمائے ہیں اور تقریبا بیس ہی تابعین وتبع تابعین وائمہ دین کے نام بھی تحریر فرمائے ہیں جو ایک رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔
حنفیہ کے دلائل!
علامہ نے حنفیہ کے ان دلائل کا جواب دیا ہے جو ایک رکعت وتر کے قائل نہیں جن کی پہلی دلیل حدیث یہ ہے عن محمد بن کعب ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم نھی عن البتیراء یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتیراءنماز سے منع فرمایا لفظ ( بتیراء) دم کٹی نماز کو کہتے ہیں۔ عراقی نے کہا یہ حدیث مرسل اور ضعیف ہے۔ علامہ ابن حزم نے کہا کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز بتیراءکی نہی ثابت نہیں اور کہا کہ محمد بن کعب کی حدیث باوجودیکہ استدلال کے قابل نہیں مگر اس میں بھی بتیراءکا بیان نہیں ہے بلکہ ہم نے عبد الرزاق سے، انہوں نے سفیان بن عیینہ سے، انہوں نے اعمش سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ابن عباس سے رضی اللہ عنہما روایت کیا کہ بتیراءتین رکعت وتر بھی بتیراء ( یعنی دم کٹی ) نماز ہے فعاد البتیراءعلی المحتج بالخبر الکاذب فیھا۔
حنفیہ کی دوسری دلیل حضرت عبد اللہ بن مسعود کا یہ قول ہے انہ قال ما اجزات رکعۃ قط یعنی ایک رکعت نماز کبھی بھی کافی نہیں ہوتی۔ امام نووی شرح مہذب میں فرماتے ہیں کہ یہ اثر عبداللہ بن مسعود سے ثابت نہیں ہے اگر اس کو درست بھی مانا جائے تو اس کا تعلق حضرت ابن عباس کے اس قول کی تر دید کرناتھا۔ آپ نے فرمایا تھا کہ حالت خوف میں چار فرض نماز میں ایک ہی رکعت کافی ہے۔ اس پر حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ ایک رکعت کافی نہیں ہے! الغرض ابن عباس کے اس قول سے استدلال درست نہیں اور اس کا تعلق صلوۃ خوف کی ایک رکعت سے ہے۔ ابن ابی شیبہ میں ہے ایک مرتبہ ولید بن عقبہ امیر مکہ کے ہاں حضرت حذیفہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود کافی دیر تک گفتگو کرتے رہے۔ جب وہاں سے وہ نکلے تو انہوں نے نماز ( وتر ) ایک ایک رکعت ادا کی ( نیل الاوطار )
بڑی مشکل!
یہاں بخاری شریف میں جن جن روایات میں ایک رکعت وتر کاذکر آیا ہے ایک رکعت وتر کے ساتھ ان کا ترجمہ کرنے میں ان حنفی حضرات کو جو آج کل بخاری شریف کے ترجمے شائع فرما رہے ہیں، بڑی مشکل پیش آئی ہے اور انہوں نے پوری کوشش کی ہے کہ ترجمہ اس طرح کیا جائے کہ ایک رکعت وتر پڑھنے کا لفظ ہی نہ آنے پائے بایں طور کہ اس سے ایک رکعت وتر کا ثبوت ہو سکے اس کوشش کے لیے ان کی محنت قابل داد ہے اور اہل علم کے مطالعہ کے قابل، مگر ان بزرگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ تصنع وتکلف وعبارت آرائی سے حقیقت پر پردہ ڈالنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔
حدیث نمبر : 996
حدثنا عمر بن حفص، قال حدثنا أبي قال، حدثنا الأعمش، قال حدثني مسلم، عن مسروق، عن عائشة، قالت كل الليل أوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم وانتهى وتره إلى السحر.
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے مسلم بن کیسان نے بیان کیا، ان سے مسروق نے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصہ میں بھی وتر پڑھی ہے اور اخیر میں آپ کا وتر صبح کے قریب پہنچا۔
تشریح : دوسری روایتوں میں ہے کہ آپ نے وتر اول شب میں بھی پڑھی اور درمیان شب میں بھی اور آخر شب میں بھی۔ گویا عشاءکے بعد سے صبح صادق کے پہلے تک وتر پڑھنا آپ سے ثابت ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مختلف حالات میں آپ نے وتر مختلف اوقات میں پڑھے۔ غالباً تکلیف اور مرض وغیرہ میں اول شب میں پڑھتے تھے اور مسافرت کی حالت میں درمیان شب میں لیکن عام معمول آپ کا اسے آخر شب ہی میں پڑھنے کا تھا ( تفہیم البخاری )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی آسانی کے لیے عشاءکے بعد رات میں جب بھی ممکن ہو وتر ادا کرنا جائز قرار دیا۔