• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العیدین
باب : عیدگاہ میں نشان لگانا

یعنی کوئی اونچی چیز جیسے لکڑی وغیرہ اس سے یہ غرض تھی کہ عیدگاہ کا مقام معلوم رہے۔

حدیث نمبر : 977
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن سفيان، قال حدثني عبد الرحمن بن عابس، قال سمعت ابن عباس، قيل له أشهدت العيد مع النبي صلى الله عليه وسلم قال نعم، ولولا مكاني من الصغر ما شهدته، حتى أتى العلم الذي عند دار كثير بن الصلت فصلى ثم خطب ثم أتى النساء، ومعه بلال، فوعظهن وذكرهن، وأمرهن بالصدقة، فرأيتهن يهوين بأيديهن يقذفنه في ثوب بلال، ثم انطلق هو وبلال إلى بيته‏.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے سفیان ثوری سے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن عابس نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، ان سے دریافت کیا گیا تھا کہ کیا آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عیدگاہ گئے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں اور اگر باوجود کم عمری کے میری قدر ومنزلت آپ کے یہاں نہ ہوتی تو میں جا نہیں سکتا تھا۔ آپ اس نشان پر آئے جو کثیر بن صلت کے گھر کے قریب ہے۔ آپ نے وہاں نماز پڑھائی پھر خطبہ سنایا۔ اس کے بعد عورتوں کی طرف آئے۔ آپ کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ آپ نے انہیں وعظ اور نصیحت کی اور صدقہ کے لیے کہا۔ چنانچہ میں نے دیکھا کہ عورتیں اپنے ہاتھوں سے بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالے جا رہی تھیں۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور بلال رضی اللہ عنہ گھر واپس ہوئے۔

کثیربن صلت کا مکان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بنایا گیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے لوگوں کو عید گاہ کا مقام بتانے کے لیے اس کا پتہ دیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العیدین
باب : امام کا عید کے دن عورتوں کو نصیحت کرنا

حدیث نمبر : 978
حدثني إسحاق بن إبراهيم بن نصر، قال حدثنا عبد الرزاق، قال حدثنا ابن جريج، قال أخبرني عطاء، عن جابر بن عبد الله، قال سمعته يقول قام النبي صلى الله عليه وسلم يوم الفطر، فصلى فبدأ بالصلاة ثم خطب، فلما فرغ نزل فأتى النساء، فذكرهن وهو يتوكأ على يد بلال وبلال باسط ثوبه، يلقي فيه النساء الصدقة‏.‏ قلت لعطاء زكاة يوم الفطر قال لا ولكن صدقة يتصدقن حينئذ، تلقي فتخها ويلقين‏.‏ قلت أترى حقا على الإمام ذلك ويذكرهن قال إنه لحق عليهم، وما لهم لا يفعلونه
ہم سے اسحاق بن ابراہیم بن نصر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد الرزاق نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ا بن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عطاء نے خبر دی کہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو میں نے یہ کہتے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر کی نماز پڑھی۔ پہلے آپ نے نماز پڑھی اس کے بعد خطبہ دیا۔ جب آپ خطبہ سے فارغ ہوگئے تو اترے اور عورتوں کی طرف آئے۔ پھر انہیں نصیحت فرمائی۔ آپ اس وقت بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کا سہارا لیے ہوئے تھے۔ بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا پھیلا رکھا تھا جس میں عورتیں صدقہ ڈال رہی تھیں۔ میں نے عطاء سے پوچھا کیا یہ صدقہ فطر دے رہی تھیں۔ انہوں نے فرمایا کہ نہیں بلکہ صدقہ کے طور پر دے رہی تھیں۔ اس وقت عورتیں اپنے چھلے ( وغیرہ ) برابر ڈال رہی تھیں۔ پھر میں نے عطاء سے پوچھا کہ کیا آپ اب بھی امام پر اس کا حق سمجھتے ہیں کہ عورتوں کو نصیحت کرے؟ انہوں نے فرمایا ہاں ان پر یہ حق ہے اور کیا وجہ ہے کہ وہ ایسا نہیں کرتے۔

حدیث نمبر : 979
قال ابن جريج وأخبرني الحسن بن مسلم، عن طاوس، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال شهدت الفطر مع النبي صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر وعثمان ـ رضى الله عنهم ـ يصلونها قبل الخطبة، ثم يخطب بعد، خرج النبي صلى الله عليه وسلم كأني أنظر إليه حين يجلس بيده، ثم أقبل يشقهم حتى جاء النساء معه بلال فقال ‏{‏يا أيها النبي إذا جاءك المؤمنات يبايعنك‏}‏ الآية ثم قال حين فرغ منها ‏"‏ آنتن على ذلك‏"‏‏. ‏ قالت امرأة واحدة منهن لم يجبه غيرها نعم‏.‏ لا يدري حسن من هي‏.‏ قال ‏"‏ فتصدقن ‏"‏ فبسط بلال ثوبه ثم قال هلم لكن فداء أبي وأمي، فيلقين الفتخ والخواتيم في ثوب بلال‏.‏ قال عبد الرزاق الفتخ الخواتيم العظام كانت في الجاهلية‏.‏
ابن جریج نے کہا کہ حسن بن مسلم نے مجھے خبر دی، انہیں طاؤس نے، انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ عیدالفطر کی نماز پڑھنےگیا ہوں۔ یہ سب حضرات خطبہ سے پہلے نماز پڑھتے اور بعد میں خطبہ دیتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے، میری نظروں کے سامنے وہ منظر ہے، جب آپ لوگوں کو ہاتھ کے اشارے سے بٹھا رہے تھے۔ پھر آپ صفوں سے گزرتے ہوئے عورتوں کی طرف آئے۔ آپ کے ساتھ بلال تھے۔ آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی “ اے نبی! جب تمہارے پاس مومن عورتیں بیعت کے لیے آئیں ” الآیہ۔ پھر جب خطبہ سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ کیا تم ان باتوں پر قائم ہو؟ ایک عورت نے جواب دیا کہ ہاں۔ ان کے علاوہ کوئی عورت نہ بولی، حسن کو معلوم نہیں کہ بولنے والی خاتون کون تھیں۔ آپ نے خیرات کے لیے حکم فرمایا اور بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا پھیلا دیا اور کہا کہ لاؤ تم پر میرے ماں باپ فداہوں۔ چنانچہ عورتیں چھلے اور انگوٹھیاں بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالنے لگیں۔ عبدالرزاق نے کہا ''فتخ '' بڑے ( چھلے ) کو کہتے ہیں جس کا جاہلیت کے زمانہ میں استعمال تھا۔

تشریح : اگرچہ عہد نبوی میں عید گاہ کے لیے کوئی عمارت نہیں تھی اور جہاں عیدین کی نماز پڑھی جاتی تھی وہاں کوئی منبر بھی نہیں تھا لیکن اس لفظ فلما فرغ نزل سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بلند جگہ تھی جس پر آپ خطبہ دیتے تھے۔

جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کے سامنے خطبہ دے چکے تو لوگوں نے سمجھا کہ اب خطبہ ختم ہو گیا ہے اور انہیں واپس جانا چاہیے، چنا نچہ لوگ واپسی کے لیے اٹھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہاتھ کے اشارے سے روکا کہ ابھی بیٹھے رہیں۔ کیونکہ آپ عورتوں کو خطبہ دینے جا رہے تھے۔
دوسری روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جواب دینے والی خاتون اسماءبنت یزید تھیں جو اپنی فصاحت وبلاغت کی وجہ سے “خطیبۃ النسائ” کے نام سے مشہور تھیں۔ انہیں کی ایک روایت میں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی طرف آئے تو میں بھی ان میں موجود تھی۔ آپ نے فرمایا کہ عورتو!تم جہنم کا ایندھن زیادہ بنوگی۔ میں نے آپ کو پکار کر کہا کیونکہ میں آپ کے ساتھ بہت تھی کہ یارسول اللہ! ایسا کیوں ہو گا؟ آپ نے فرمایا اس لیے کہ تم لعن طعن بہت زیادہ کر تی ہو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العیدین
باب : اگر کسی عورت کے پاس عید کے دن دوپٹہ ( یا چادر ) نہ ہو

حدیث نمبر : 980
حدثنا أبو معمر، قال حدثنا عبد الوارث، قال حدثنا أيوب، عن حفصة بنت سيرين، قالت كنا نمنع جوارينا أن يخرجن يوم العيد، فجاءت امرأة فنزلت قصر بني خلف فأتيتها فحدثت أن زوج أختها غزا مع النبي صلى الله عليه وسلم ثنتى عشرة غزوة فكانت أختها معه في ست غزوات‏.‏ فقالت فكنا نقوم على المرضى ونداوي الكلمى، فقالت يا رسول الله، على إحدانا بأس إذا لم يكن لها جلباب أن لا تخرج فقال ‏"‏ لتلبسها صاحبتها من جلبابها فليشهدن الخير ودعوة المؤمنين‏"‏‏. ‏ قالت حفصة فلما قدمت أم عطية أتيتها، فسألتها أسمعت في كذا وكذا قالت نعم، بأبي ـ وقلما ذكرت النبي صلى الله عليه وسلم إلا قالت بأبي ـ قال ‏"‏ ليخرج العواتق ذوات الخدور ـ أو قال العواتق وذوات الخدور شك أيوب ـ والحيض، ويعتزل الحيض المصلى، وليشهدن الخير ودعوة المؤمنين‏"‏‏. ‏ قالت فقلت لها آلحيض قالت نعم، أليس الحائض تشهد عرفات وتشهد كذا وتشهد كذا
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد الوارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ایوب سختیانی نے حفصہ بن سیرین کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم اپنی لڑکیوں کو عیدگاہ جانے سے منع کر تے تھے۔ پھر ایک خاتون باہر سے آئی اور قصر بنو خلف میں انہوں نے قیام کیا میں ان سے ملنے کے لیے حاضر ہوئی تو انہوں نے بیان کیا کہ ان کی بہن کے شوہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ لڑائیوں میں شریک رہے اور خود ان کی بہن اپنے شوہر کے ساتھ چھ لڑائیوں میں شریک ہوئی تھیں، ان کا بیان تھا کہ ہم مریضوں کی خدمت کیا کرتے تھے اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتے تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا ہم میں سے اگر کسی کے پاس چادر نہ ہو اور اس وجہ سے وہ عید کے دن ( عیدگاہ ) نہ جاسکے تو کوئی حرج ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اس کی سہیلی اپنی چادر کا ایک حصہ اسے اڑھا دے اور پھر وہ خیر اور مسلمانوں کی دعامیں شریک ہوں۔ حفصہ نے بیان کیا کہ پھر جب ام عطیہ یہاں تشریف لائیں تو میں ان کی خدمت میں بھی حاضر ہوئی اور دریافت کیا کہ آپ نے فلاں فلاں بات سنی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ہاں میرے باپ آپ پر فداہوں۔ ام عطیہ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتیں تو یہ ضرور کہتیں کہ میرے باپ آپ پر فدا ہوں، ہاں توانہوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جوان پردہ والی یا جوان اور پردہ والی باہر نکلیں۔ شبہ ایوب کو تھا۔ البتہ حائضہ عورتیں عیدگاہ سے علیحدہ ہو کر بیٹھیں انہیں خیر اور مسلمانوں کی دعا میں ضرور شریک ہونا چاہیے۔ حفصہ نے کہا کہ میں نے ام عطیہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ حائضہ عورتیں بھی؟ انہوں نے فرمایا کیا حائضہ عورتیں عرفات نہیں جاتیں اور کیا وہ فلاں فلاں جگہوں میں شریک نہیں ہوتیں۔ ( پھر اجتماع عید ہی کی شرکت میں کون سی قباحت ہے )

تشریح : حفصہ کے سوال کی وجہ یہ تھی کہ حائضہ پر نماز ہی فرض نہیں اور نہ وہ نماز پڑھ سکتی ہے تو عید گاہ میں اس کی شرکت سے کیا فائدہ ہوگا۔ اس پر حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب حیض والی عرفات اور دیگر مقامات مقدسہ میں جاسکتی ہیں اور جاتی ہیں تو عید گاہ میں کیوں نہ جائیں، اس جواب پر آج کل کے ان حضرات کو غور کرنا چاہیے جو عورتوں کو عید گاہ میں جانا ناجائز قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے سو حیلے بہانے تراشتے ہیں حالانکہ مسلمانوں کی عورتیں میلوں میں اور فسق وفجور میں دھڑلے سے شریک ہوتی ہیں۔

خلاصہ یہ کہ حیض والی عورتوں کوبھی عید گاہ جانا چاہیے۔وہ نماز سے الگ رہیں مگر دعاؤں میں شریک ہوں۔اس سے مسلمانوں کی اجتماعی دعاؤں کی اہمیت بھی ثابت ہوتی ہے۔بلا شک دعا مومن کا ہتھیار ہے اور جب مسلمان مرد وعورت مل کر دعا کریں تو نہ معلوم کس کی دعا قبول ہو کر جملہ اہل اسلام کے لیے باعث برکت ہو سکتی ہے۔ بحالات موجودہ جبکہ مسلمان ہر طرف سے مصائب کا شکار ہیں بالضرور دعاؤں کا سہارا ضروری ہے۔ امام عید کا فرض ہے کہ خشوع وخضوع کے ساتھ اسلام کی سر بلندی کے لیے دعا کرے، خاص طور پر قرآنی دعائیں زیادہ مؤثر ہیں پھر احادیث میں بھی بڑی پاکیزہ دعائیں وارد ہوئی ہیں۔ ان کے بعد سامعین کی مادری زبانوں میں بھی دعا کی جا سکتی ہے۔ ( وباللہ التوفیق
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العیدین
باب : حائضہ عورتیں عیدگاہ سے علیحدہ رہیں

حدیث نمبر : 981
حدثنا محمد بن المثنى، قال حدثنا ابن أبي عدي، عن ابن عون، عن محمد، قال قالت أم عطية أمرنا أن نخرج فنخرج الحيض والعواتق وذوات الخدور‏.‏ قال ابن عون أو العواتق ذوات الخدور، فأما الحيض فيشهدن جماعة المسلمين ودعوتهم، ويعتزلن مصلاهم‏.‏
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن ابراہیم ا بن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے عبد اللہ بن عون نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہمیں حکم تھا کہ حائضہ عورتوں، دوشیزاؤں اور پردہ والیوں کو عید گاہ لے جائیں ابن عون نے کہا کہ یا ( حدیث میں ) پردہ والی دوشیزائیں ہے البتہ حائضہ عورتیں مسلمانوں کی جماعت اور دعاؤں میں شریک ہوں اور ( نماز سے ) الگ رہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العیدین

باب : عید الاضحی کے دن عیدگاہ میں نحر اور ذبح کرنا

حدیث نمبر : 982
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال حدثنا الليث، قال حدثني كثير بن فرقد، عن نافع، عن ابن عمر، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان ينحر أو يذبح بالمصلى‏.‏
ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے کثیر بن فرقد نے نافع سے بیان کیا، ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ ہی میں نحر اور ذبح کیا کرتے۔

تشریح : نحراونٹ کا ہوتا ہے باقی جانوروں کو لٹا کر ذبح کرتے ہیں۔ اونٹ کو کھڑے کھڑے اس کے سینہ میں خنجر ماردیتے ہیں اس کا نام نحر ہے۔قربانی شعائر اسلام میں ہے۔ حسب موقع ومحل بلا شبہ عید گاہ میں بھی نحر اور قربانی مسنون ہے مگر بحالات موجودہ اپنے گھروں یا مقررہ مقامات پر یہ سنت ادا کرنی چاہیے، حالات کی مناسبت کے لیے اسلام میں گنجائش رکھی گئی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العیدین
باب : عید کے خطبہ میں امام کا اور لوگوں کا باتیں کرنا

وإذا سئل الإمام عن شىء وهو يخطب‏.‏
اور امام کا جواب دینا جب خطبے میں اس سے کچھ پوچھاجائے۔

حدیث نمبر : 983
حدثنا مسدد، قال حدثنا أبو الأحوص، قال حدثنا منصور بن المعتمر، عن الشعبي، عن البراء بن عازب، قال خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم النحر بعد الصلاة فقال ‏"‏ من صلى صلاتنا ونسك نسكنا فقد أصاب النسك، ومن نسك قبل الصلاة فتلك شاة لحم‏"‏‏. ‏ فقام أبو بردة بن نيار فقال يا رسول الله والله لقد نسكت قبل أن أخرج إلى الصلاة، وعرفت أن اليوم يوم أكل وشرب فتعجلت وأكلت وأطعمت أهلي وجيراني‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ تلك شاة لحم‏"‏‏. ‏ قال فإن عندي عناق جذعة، هي خير من شاتى لحم، فهل تجزي عني قال ‏"‏ نعم، ولن تجزي عن أحد بعدك‏"‏‏. ‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوالاحوص سلام بن سلیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے منصور بن معتمر نے بیان کیا کہ ان سے عامر شعبی نے، ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بقر عید کے دن نماز کے بعد خطبہ سنایا اور فرمایا کہ جس نے ہماری طرح کی نماز پڑھی اور ہماری طرح کی قربانی کی، اس کی قربانی درست ہوئی۔ لیکن جس نے نماز سے پہلے قربانی کی تو وہ ذبیحہ صرف گوشت کھانے کے لیے ہوگا۔ اس پر ابوبردہ بن نیار نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قسم اللہ کی میں نے تو نماز کے لیے آنے سے پہلے قربانی کر لی میں نے یہ سمجھا کہ آج کا دن کھانے پینے کا دن ہے۔ اسی لیے میں نے جلدی کی اور خود بھی کھایا اور گھر والوں کو اور پڑوسیوں کو بھی کھلایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہر حال یہ گوشت ( کھانے کا ) ہوا ( قربانی نہیں ) انہوں نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک بکری کا سال بھر کا بچہ ہے وہ دو بکریوں کے گوشت سے زیادہ بہتر ہے۔ کیا میری ( طرف سے اس کی ) قربانی درست ہوگی؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں مگر تمہارے بعد کسی کی طرف سے ایسے بچے کی قربانی کافی نہ ہوگی۔

اس سے یہ ثابت فرمایا کہ امام اور لوگ عید کے خطبہ میں مسائل کی بات کر سکتے ہیں اور آگے کے فقروں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خطبہ کی حالت میں اگر امام سے کوئی شخص مسئلہ پوچھے تو جواب دے۔

حدیث نمبر : 984
حدثنا حامد بن عمر، عن حماد بن زيد، عن أيوب، عن محمد، أن أنس بن مالك، قال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى يوم النحر، ثم خطب فأمر من ذبح قبل الصلاة أن يعيد ذبحه فقام رجل من الأنصار فقال يا رسول الله، جيران لي ـ إما قال بهم خصاصة، وإما قال بهم فقر ـ وإني ذبحت قبل الصلاة وعندي عناق لي أحب إلى من شاتى لحم‏.‏ فرخص له فيها‏.‏
ہم سے حامد بن عمر نے بیان کیا، ان سے حماد بن زید نے، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے محمدنے، ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقر عید کے دن نماز پڑھ کر خطبہ دیا آپ نے فرمایا کہ جس شخص نے نماز سے پہلے جانور ذبح کر لیا اسے دوبارہ قربانی کرنی ہوگی۔ اس پر انصار میں سے ایک صاحب اٹھے کہ یا رسول اللہ! میرے کچھ غریب بھوکے پڑوسی ہیں یا یوں کہا وہ محتاج ہیں۔ اس لیے میں نے نماز سے پہلے ذبح کر دیا البتہ میرے پاس ایک سال کی ایک پٹھیا ہے جو دو بکریوں کے گوشت سے بھی زیادہ مجھے پسند ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔

حدیث نمبر : 985
حدثنا مسلم، قال حدثنا شعبة، عن الأسود، عن جندب، قال صلى النبي صلى الله عليه وسلم يوم النحر ثم خطب، ثم ذبح فقال ‏"‏ من ذبح قبل أن يصلي فليذبح أخرى مكانها، ومن لم يذبح فليذبح باسم الله‏"‏‏. ‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اسود بن قیس نے، ان سے جندب نے، انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بقر عید کے دن نماز پڑھنے کے بعد خطبہ دیا پھر قربانی کی۔ آپ نے فرمایا کہ جس نے نماز سے پہلے ذبح کر لیا ہوتو اسے دوسرا جانور بدلہ میں قربانی کرنا چاہیے اور جس نے نماز سے پہلے ذبح نہ کیا ہو وہ اللہ کے نام پر ذبح کرے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العیدین
باب : جو شخص عیدگاہ کو ایک راستے سے جائے وہ گھر کو دوسرے راستے سے آئے

حدیث نمبر : 986
حدثنا محمد، قال أخبرنا أبو تميلة، يحيى بن واضح عن فليح بن سليمان، عن سعيد بن الحارث، عن جابر، قال كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا كان يوم عيد خالف الطريق‏.‏ تابعه يونس بن محمد عن فليح‏.‏ وحديث جابر أصح‏.‏
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ابو تمیلہ یحییٰ بن واضح نے خبر دی، انہیں فلیح بن سلیمان نے، انہیں سعید بن حارث نے، انہیں جابر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن ایک راستہ سے جاتے پھر دوسرا راستہ بدل کر آتے۔ اس روایت کی متابعت یونس بن محمد نے فلیح سے کی، ان سے سعید نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا لیکن جابر کی روایت زیادہ صحیح ہے۔

یعنی جو شخص سعید کا شیخ جابر رضی اللہ عنہ کو قرار دیتا ہے اس کی روایت اس سے زیادہ صحیح ہے جو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو سعید کا شیخ کہتا ہے۔یونس کی اس روایت کو اسماعیل نے وصل کیا ہے۔
راستہ بدل کر آنا جانا بھی شرعی مصالح سے خالی نہیں ہے جس کا مقصد علماءنے یہ سمجھا کہ ہر دو راستوں پر عبادت الٰہی کے لیے نمازی کے قدم پڑیں گے اور دونوں راستوں کی زمینیں عند اللہ اس کے لیے گواہ ہوں گی ( واللہ اعلم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العیدین

باب : اگر کسی کو جماعت سے عید کی نماز نہ ملے تو پھر دو رکعت پڑھ لے

وكذلك النساء، ومن كان في البيوت والقرى لقول النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ هذا عيدنا أهل الإسلام‏"‏‏. ‏ وأمر أنس بن مالك مولاهم ابن أبي عتبة بالزاوية، فجمع أهله وبنيه، وصلى كصلاة أهل المصر وتكبيرهم‏.‏ وقال عكرمة أهل السواد يجتمعون في العيد يصلون ركعتين كما يصنع الإمام‏.‏ وقال عطاء إذا فاته العيد صلى ركعتين‏.‏
اور عورتیں بھی ایسا ہی کریں اور وہ لوگ بھی جو گھروں اور دیہاتوں وغیرہ میں ہوں اور جماعت میں نہ آسکیں ( وہ بھی ایسا ہی کریں ) کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اسلام والو! یہ ہماری عید ہے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے غلام ا بن ابی عتبہ زاویہ نامی گاؤں میں رہتے تھے۔ انہیں آپ نے حکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں اور بچوں کو جمع کر کے شہر والوں کی طرح نماز عید پڑھیں اور تکبیر کہیں۔ عکرمہ نے شہر کے قرب وجوار میں آباد لوگوں کے لیے فرمایا کہ جس طرح امام کرتا ہے یہ لوگ بھی عید کے دن جمع ہو کر دو رکعت نماز پڑھیں۔ عطاءنے کہا کہ اگر کسی کی عید کی نماز ( جماعت ) چھوٹ جائے تو دو رکعت ( تنہا ) پڑھ لے۔

امام بخاری نے یہاں یہ ثابت فرمایا ہے کہ عید کی نماز سب کو پڑھنا چاہیے خواہ گاؤں میں ہوں یا شہر میں اور اس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔زاویہ بصرہ سے چھ میل پر ایک گاؤں تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اپنا مکان وہاں پر ہی بنوایاتھا۔

حدیث نمبر : 987
حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة، أن أبا بكر ـ رضى الله عنه ـ دخل عليها وعندها جاريتان في أيام منى تدففان وتضربان، والنبي صلى الله عليه وسلم متغش بثوبه، فانتهرهما أبو بكر فكشف النبي صلى الله عليه وسلم عن وجهه فقال ‏"‏ دعهما يا أبا بكر فإنها أيام عيد‏"‏‏. ‏ وتلك الأيام أيام منى‏.‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ان سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے یہاں ( منا کے دنوں میں ) تشریف لائے اس وقت گھر میں دو لڑکیاں دف بجا رہی تھیں اور بعاث کی لڑائی کی نظمیں گا رہی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چہرہ مبارک پر کپڑا ڈالے ہوئے تشریف فرما تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو ڈانٹا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرہ مبارک سے کپڑا ہٹا کر فرمایا کہ ابوبکر جانے بھی دو یہ عید کے دن ہیں ( اور وہ بھی منا میں )

حدیث نمبر : 988
وقالت عائشة رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يسترني، وأنا أنظر إلى الحبشة وهم يلعبون في المسجد، فزجرهم عمر فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ دعهم، أمنا بني أرفدة‏"‏‏. ‏ يعني من الأمن‏.‏
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا میں نے ( ایک دفعہ ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے مجھے چھپا رکھا تھا اور میں حبشہ کے لوگوں کو دیکھ رہی تھی جو مسجد میں تیروں سے کھیل رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جانے دو اور ان سے فرمایا اے بنوارفدہ! تم بے فکر ہو کر کھیل دکھاؤ۔

شاید امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے باب کا مطلب یوں نکالا کہ جب ہر ایک شخص کے لیے یہ دن خوشی کے ہوئے تو ہر ایک کو عید کی نماز بھی پڑھنی ہوگی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی اور بعد کے ایام تشریق گیارہ، بارہ تیرہ سب کو عید کے ایام فرمایا اور ارشاد ہوا کہ ایک تو عید کے دن خودخوشی کے دن ہیں اور پھر منیٰ میں ہونے کی اور خوشی ہے کہ اللہ نے حج نصیب فرمایا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العیدین
باب : عیدگاہ میں عید کی نماز سے پہلے یا اس کے بعد نفل نماز پڑھنا کیسا ہے

وقال أبو المعلى سمعت سعيدا عن ابن عباس كره الصلاة قبل العيد‏.‏
اور ابو معلی یحی بن میمون نے کہا کہ میں نے سعید سے سنا، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے تھے کہ آپ عید سے پہلے نفل نماز پڑھنا مکروہ جانتے تھے۔

اور حافظ نے کہا یہ اثر مجھ کو موصولا نہیں ملا اور ابو معلی سے اس کتاب میں اس کے سوا اور کوئی روایت نہیں ہے۔

حدیث نمبر : 989
حدثنا أبو الوليد، قال حدثنا شعبة، قال حدثني عدي بن ثابت، قال سمعت سعيد بن جبير، عن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج يوم الفطر، فصلى ركعتين لم يصل قبلها ولا بعدها ومعه بلال‏.
ہم سے ابو ولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عدی بن ثابت نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کر تے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن نکلے اور ( عید گاہ ) میں دورکعت نماز عید پڑھی۔ آپ نے نہ اس سے پہلے نفل نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے۔

تشریح : علامہ شوکانی فرماتے ہیں قولہ لم یصل قبلھا ولا بعدھا فیہ وفی بقیۃ احادیث الباب دلیل علی کراھۃ الصلوۃ قبل صلاۃ العید وبعدھا الیہ ذھب احمد بن حنبل قال ابن قدامۃ وھو مذھب ابن عباس وابن عمر الخ ( نیل الاوطار ) یعنی اس حدیث اور اس بارے میں دیگر احادیث سے ثابت ہوا کہ عید کی نماز کے پہلے اور بعدنفل نماز پڑھنی مکروہ ہے۔ امام احمد بن حنبل کا بھی یہی مسلک ہے اور بقول ابن قدامہ حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت علی وحضرت عبد اللہ بن مسعود اور بہت سے اکابر صحابہ وتابعین کا بھی یہی مسلک ہے۔ امام زہری فرماتے ہیں لم اسمع احدا من علماءنا یذکر ان احدا من سلف ھذہ الامۃ کا ن یصلی قبل تلک الصلوۃ ولا بعدھا ( نیل الاوطار ) یعنی اپنے زمانہ کے علماءمیں میں نے کسی عالم سے نہیں سنا کہ سلف امت میں سے کوئی بھی عید سے پہلے یا بعد میں کوئی نفل نماز پڑھتا ہو۔ ہاں عید کی نماز پڑھ کر اور واپس گھر آکر گھر میں دو رکعت نفل پڑھنا ثابت ہے جیسا کہ ابن ماجہ میں حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے، وہ فرماتے ہیں عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ کان لا یصلی قبل العید شیئا فاذا رجع الی منزلہ صلی رکعتین رواہ ابن ماجہ واحمد بمعناہ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عید سے پہلے کوئی نماز نفل نہیں پڑھی جب آپ اپنے گھر واپس ہوئے تو آپ نے دو رکعتیں ادا فرمائیں۔ اس کو ابن ماجہ اور احمد نے بھی اس کے قریب قریب روایت کیا ہے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں وحدیث ابی سعید اخرجہ ایضا الحاکم وصححہ وحسنہ الحافظ فی الفتح وفی اسنادہ عبد اللہ بن محمد بن عقیل وفیہ مقال وفی الباب عن عبداللہ بن عمروبن العاص عند ابن ماجہ بنحو حدیث ابن عباس الخ ( نیل الاوطار ) یعنی ابو سعید والی حدیث کو حاکم نے بھی روایت کیا ہے اور اس کو صحیح بتلایا ہے اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس کی تحسین کی ہے اور اس کی سند میں عبداللہ بن محمد بن عقیل ایک راوی ہے جن کے متعلق کچھ کہا گیا ہے اور اس مسئلہ میں عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی بھی ایک روایت حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت کی مانند ہے۔

خلاصہ یہ کہ عیدگاہ میں صرف نماز عید اورخطبہ نیز دعا کرنا مسنون ہے عیدگاہ مزید نفل نماز پڑھنے کی جگہ نہیں ہے۔ یہ تو وہ مقام ہے جس کی حاضری ہی اللہ کو اس قدر محبوب ہے کہ وہ اپنے بندوں اور بندیوں کو میدان عید گاہ میں دیکھ کر اس قدر خوش ہوتا ہے کہ جملہ حالات جاننے کے باوجود اپنے فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ یہ میرے بندے اور بندیاں آج یہاں کیوں جمع ہوئے ہیں؟ فرشتے کہتے ہیں کہ یہ تیرے مزدور ہیں جنہوں نے رمضان میں تیرا فرض ادا کیا ہے، تیرے رضا کے لیے روزے رکھے ہیں اور اب میدان میں تجھ سے مزدوری مانگنے آئے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ اے فرشتو!گواہ رہو میں نے ان کو بخش دیا اور ان کے روزوں کو قبول کیا اور ان کی دعاؤں کو بھی شرف قبولیت تا قیامت عطا کیا۔ پھر اللہ کی طرف سے ندا ہوتی ہے کہ میرے بندو! جاؤ اس حال میں کہ تم بخش دیئے گئے ہو۔
خلاصہ یہ کہ عیدگاہ میں بجزدوگانہ عید کے کوئی نماز نفل نہ پڑھی جائے یہی اسوہ حسنہ ہے اور اسی میں اجروثواب ہے۔

واللہ اعلم وعلمہ اتم

 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب الوتر


صحیح بخاری -> کتاب الوتر
(نماز وتر کے مسائل کا بیان)
بسم اللہ الرحمن الرحیم

اور وتر کے معنی طاق یعنی بے جوڑ کے ہیں۔ یہ ایک مستقل نماز ہے جو عشاءکے بعد سے فجر تک رات کے کسی حصہ میں پڑھی جاسکتی ہے۔ اس نماز کی کم سے کم ایک رکعت پھر تین، پانچ، سات، نو، گیارہ، تیرہ رکعت تک پڑھی جا سکتی ہیں۔ اہلحدیث اور امام احمد اور شافعی اور سب علماءکے نزدیک وتر سنت ہے اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس کو واجب کہتے ہیں حالانکہ حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے کلام سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وتر سنت ہے لیکن اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ نے ان دونوں صحابیوں کا بھی خلاف کیا ہے۔

باب : وتر کا بیان

حدیث نمبر : 990
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن نافع، وعبد الله بن دينار، عن ابن عمر، أن رجلا، سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صلاة الليل فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة، توتر له ما قد صلى‏"‏‏. ‏
ہم سے عبد اللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے نافع اور عبد اللہ ابن دینار سے خبر دی اور انہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات میں نماز کے متعلق معلوم کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات کی نمازدو دو رکعت ہے پھر جب کوئی صبح ہو جانے سے ڈرے تو ایک رکعت پڑھ لے، وہ اس کی ساری نماز کو طاق بنا دے گی۔

حدیث نمبر : 991
وعن نافع، أن عبد الله بن عمر، كان يسلم بين الركعة والركعتين في الوتر، حتى يأمر ببعض حاجته‏.
اور اسی سند کے ساتھ نافع سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وتر کی جب تین رکعتیں پڑھتے تو دو رکعت پڑھ کر سلام پھیرتے یہاں تک کہ ضرورت سے بات بھی کرتے۔

تشریح : اس حدیث سے دو باتیں نکلیں ایک یہ کہ رات کی نماز دو رکعت کر کے پڑھنا چاہیے یعنی ہر دوگانہ کے بعد سلا م پھیرے، دوسرے وتر کی ایک رکعت بھی پڑھ سکتا ہے اور حنفیہ نے اس میں خلاف کیا ہے اور ان کی دلیل ضعیف ہے۔ صحیح حدیثوں سے وتر کی ایک رکعت پڑھنا ثابت ہے اور تفصیل امام محمد بن نصر مرحوم کی کتاب الوتر والنوافل میں ہے ( مولانا وحید الزماں )

حدیث نمبر : 992
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن مخرمة بن سليمان، عن كريب، أن ابن عباس، أخبره أنه، بات عند ميمونة، وهى خالته، فاضطجعت في عرض وسادة، واضطجع رسول الله صلى الله عليه وسلم وأهله في طولها، فنام حتى انتصف الليل أو قريبا منه، فاستيقظ يمسح النوم عن وجهه، ثم قرأ عشر آيات من آل عمران، ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى شن معلقة، فتوضأ فأحسن الوضوء، ثم قام يصلي فصنعت مثله فقمت إلى جنبه، فوضع يده اليمنى على رأسي، وأخذ بأذني يفتلها، ثم صلى ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم أوتر، ثم اضطجع حتى جاءه المؤذن فقام فصلى ركعتين ثم، خرج فصلى الصبح‏.‏

ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے مخرمہ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے کریب نے اور انہیں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ آپ ایک رات اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے یہاں سوئے ( آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ) میں بستر کے عرض میں لیٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی بیوی لمبائی میں لیٹیں، آپ سو گئے جب آدھی رات گزر گئی یا اس کے لگ بھگ تو آپ بیدار ہوئے نیند کے اثر کو چہرہ مبارک پر ہاتھ پھیر کر آپ نے دور کیا۔ اس کے بعد آل عمران کی دس آیتیں پڑھیں۔ پھر ایک پرانی مشک پانی کی بھری ہوئی لٹک رہی تھی۔ آپ اس کے پاس گئے اور اچھی طرح وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ آپ پیار سے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر رکھ کر اور میرا کان پکڑ کر اسے ملنے لگے۔ پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی پھر دو رکعت پھر دو رکعت پھر دو رکعت پھر دو رکعت پھر دو رکعت سب بارہ رکعتیں پھر ایک رکعت وتر پڑھ کر آپ لیٹ گئے، یہاں تک کہ مؤذن صبح صادق کی اطلاع دینے آیا تو آپ نے پھر کھڑے ہو کر دو رکعت سنت نماز پڑھی۔ پھر باہر تشریف لائے اور صبح کی نماز پڑھائی۔

تشریح : بعض محدثین نے لکھا ہے کہ چونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بچے تھے۔ اس لیے لا علمی کی وجہ سے بائیں طرف کھڑے ہو گئے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا کان بائیں طرف سے دائیں طرف کرنے کے لیے پکڑا تھا۔ اس تفصیل کے ساتھ بھی روایتوں میں ذکر ہے۔ لیکن ایک دوسری روایت میں ہے کہ میرا کان پکڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے ملنے لگے تھے تاکہ رات کی تاریکی میں آپ کے دست مبارک سے میں مانوس ہو جاؤں اور گھبراہٹ نہ ہو، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں روایتیں الگ ہیں۔ آپ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا کان بائیں سے دائیں طرف کرنے کے لیے بھی پکڑا تھا اور پھر تاریکی میں انہیں مانوس کرنے کے لیے آپ کا کان ملنے بھی لگے تھے۔آپ کو آپ کے والد حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سونے کے لیے بھیجا تھاتاکہ آپ کی رات کے وقت کی عبادت کی تفصیل ایک عینی شاہد کے ذریعہ معلوم کریں چونکہ آپ بچے تھے اور پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے یہاں سونے کی باری تھی۔ آپ بے تکلفی کے ساتھ چلے گئے اور وہیں رات بھر رہے۔ بچپنے کے باوجود انتہائی ذکی فہیم تھے۔ اس لیے ساری تفصیلات یادرکھیں ( تفہیم البخاری )

یہ نماز تہجد تھی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دوکعت کرکے بارہ رکعت کی تکمیل فرمائی پھر ایک رکعت وتر پڑھا۔ اس طرح آپ نے تہجد کی تیرہ رکعتیں ادا کیں مطابق بیان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ آپ کی رات کی نماز گیارہ اور تیرہ سے کبھی زیادہ نہیں ہوئی۔ رمضان شریف میں اس کو تراویح کی شکل میں ادا کیا گیا، اس کی بھی ہمیشہ آٹھ رکعت سنت تین وتر یعنی کل گیارہ رکعات کا ثبوت ہے جیسا کہ پارہ میں مفصل گزر چکا ہے۔

حدیث نمبر : 993
حدثنا يحيى بن سليمان، قال حدثني ابن وهب، قال أخبرني عمرو، أن عبد الرحمن بن القاسم، حدثه عن أبيه، عن عبد الله بن عمر، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا أردت أن تنصرف فاركع ركعة توتر لك ما صليت‏"‏‏. ‏ قال القاسم ورأينا أناسا منذ أدركنا يوترون بثلاث، وإن كلا لواسع أرجو أن لا يكون بشىء منه بأس‏.‏
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عمرو بن حارث نے خبر دی، ان سے عبد الرحمن بن قاسم نے اپنے باپ قاسم سے بیان کیا اور ان سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، رات کی نمازیں دو دو رکعتیں ہیں اور جب تو ختم کرنا چاہے تو ایک رکعت وتر پڑھ لے جو ساری نماز کوطاق بنا دے گی۔ قاسم بن محمد نے بیان کیا کہ ہم نے بہت سوں کو تین رکعت وتر پڑھتے بھی پایا ہے اور تین یا ایک سب جائز اور مجھ کو امید ہے کہ کسی میں قباحت نہ ہوگی۔

تشریح : یہ قاسم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے تھے۔ بڑے عالم اور فقیہ تھے۔ ان کے کلام سے اس شخص کی غلطی معلوم ہوگئی جو ایک رکعت وتر کو نا درست جا نتا ہے اور مجھ کو حیرت ہے کہ صحیح حدیثیں دیکھ کر پھر کوئی مسلمان یہ کیسے کہے گا کہ ایک رکعت وتر نا درست ہے۔

اس روایت سے گو عبد اللہ بن عمر کا تین رکعتیں وتر پڑھنا ثابت ہوتا ہے مگر حنفیہ کے لیے کچھ بھی مفید نہیں کیونکہ اس میں یہ نہیں ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہمیشہ وتر کی تین ہی رکعتیں پڑھتے۔ علاوہ بھی اس کے دو سلام سے تین رکعتیں وتر کی ثابت ہیں اور حنفیہ ایک سلام سے کہتے ہیں ( مولانا وحیدی ) یہی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہیں جن سے صحیح مسلم شریف ص 257 میں صراحتاً ایک رکعت وتر ثابت ہے۔ عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الوتررکعۃ من آخر اللیل رواہ مسلم۔ حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وتر پچھلی رات میں ایک رکعت ہے۔ دوسری حدیث میں مزید وضاحت موجود ہے۔عن ایوب رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الوتر حق علی کل مسلم ومن احب ان یوتر بخمس فلیفعل ومن احب ان یوتر بثلاث فلیفعل ومن احب ان یوتر بواحدۃ فلیفعل ( رواہ ابو داؤد والنسائی او ابن ماجہ ) یعنی حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وتر کی نماز حق ہے جو ہر مسلم کے لیے ضروری ہے اور جو چاہے پانچ رکعات وتر پڑھ لے اور جوچاہے تین رکعات اور جو چاہے ایک رکعت وتر ادا کر لے۔ اور بھی اس قسم کی کئی روایات مختلفہ کتب احادیث میں موجود ہیں۔ اسی لیے حضرت مولانا عبید اللہ شیخ الحدیث بذیل حدیث حضرت عائشہ صدیقہ لفظ ویوتر بواحدۃ ( آپ ایک رکعت وتر پڑھتے ) فرماتے ہیں فیہ ان اقل الوتر رکعۃ وان الرکعۃ الفردۃ صلوۃ صحیحۃ وھو مذھب الائمۃ الثلاثۃ وھو الحق وقال ابو حنیفۃ لا یصح الایتار بواحدۃ فلا تکون الرکعۃ الواحدۃ صلوۃ قط قال النووی والاحادیث الصحیحۃ ترد علیہ ( مرعاۃ ج:2ص:158 ) یعنی اس حدیث میں دلیل ہے کہ وتر کی کم از کم ایک رکعت ہے اور یہ کہ ایک رکعت پڑھنا بھی نماز صحیح ہے، ائمہ ثلاثہ کا یہی مذہب ہے اور یہی حق ہے ( ائمہ ثلاثہ سے حضرت امام شافعی، امام مالک، امام احمدبن حنبل رحمہم اللہ مراد ہیں ) حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک رکعت وتر صحیح نہیں کیونکہ ایک رکعت نماز ہی نہیں ہوتی۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ احادیث صحیحہ سے حضرت امام کے اس قول کی تردید ہوتی ہے۔

وتر کے واجب فرض سنت ہونے کے متعلق بھی اختلاف ہے، اس بارے میں حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں والحق ان الوتر سنۃ ھو اوکد السنن بینہ علی وابن عمر وعبادۃ ابن الصامت رضی اللہ عنہم اور حق یہ ہے کہ نماز وتر سنت ہے اور وہ سب سنتوں سے زیادہ مؤکد ہے۔ حضرت علی،حضرت عبد اللہ عمر، حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہم نے ایسا ہی بیان فرمایا ہے ( حجۃ البالغۃ، ج:2ص :24 )

وتر تین رکعت پڑھنے کی صورت میں پہلی رکعت میں سورۃ سبح اسم ربک الاعلی اور دوسری میں قل یایھا الکفرون اور تیسری میں قل ھو اللہ احد پڑھنا مسنون ہے۔ وتر کے بعد بآواز بلند تین مرتبہ سبحان الملک القدوس کا لفظ ادا کرنا مسنون ہے۔ ایک رکعت وتر کے بارے میں مزید تفصیلات حضرت نواب صدیق حسن صاحب رحمہ اللہ کی مشہور کتاب ھدایۃ السائل الی ادلۃ المسائل مطبوعہ بھوپال، ص:255 پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔

حدیث نمبر : 994
حدثنا أبو اليمان قال: أخبرنا شعيب، عن الزهري، عن عروة: أن عائشة أخبرته: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي إحدى عشرة ركعة، كانت تلك صلاته، تعني بالليل، فيسجد السجدة من ذلك قدر ما يقرأ أحدكم خمسين آية، قبل أن يرفع رأسه، ويركع ركعتين قبل صلاة الفجر، ثم يضطجع على شقه الأيمن، حتى يأتيه المؤذن للصلاة.‏
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عمرو بن حارث نے خبر دی، ان سے عبد الرحمن بن قاسم نے اپنے باپ قاسم سے بیان کیا اور ان سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، رات کی نمازیں دو دو رکعتیں ہیں اور جب تو ختم کرنا چاہے تو ایک رکعت وتر پڑھ لے جو ساری نماز کوطاق بنا دے گی۔ قاسم بن محمد نے بیان کیا کہ ہم نے بہت سوں کو تین رکعت وتر پڑھتے بھی پایا ہے اور تین یا ایک سب جائز اور مجھ کو امید ہے کہ کسی میں قباحت نہ ہوگی۔

تشریح : پس گیارہ رکعتیں انتہا ہیں۔ وتر کی دوسری حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا غیر رمضان میں کبھی گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ اب ابن عباس کی حدیث میں جو تیرہ رکعتیں مذکورہ ہیں تو اس کی رو سے بعضوں نے انتہا وتر کی تیرہ رکعت قرار دی ہیں۔ بعضوں نے کہا ان میں دو رکعتیں عشاء کی سنت تھیں تو وتر کی وہی گیارہ رکعتیں ہوئیں۔ غرض وتر کی ایک رکعت سے لے کر تین پانچ نو گیارہ رکعتوں تک منقول ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ان گیارہ رکعتوں میں آٹھ تہجد کی تھیں اور تین وتر کی اور صحیح یہ ہے کہ تراویح تہجد وتر صلوۃ اللیل سب ایک ہی ہیں (وحید الزماں رحمہ اللہ
 
Top