کتاب الوتر
صحیح بخاری -> کتاب الوتر
(نماز وتر کے مسائل کا بیان)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اور وتر کے معنی طاق یعنی بے جوڑ کے ہیں۔ یہ ایک مستقل نماز ہے جو عشاءکے بعد سے فجر تک رات کے کسی حصہ میں پڑھی جاسکتی ہے۔ اس نماز کی کم سے کم ایک رکعت پھر تین، پانچ، سات، نو، گیارہ، تیرہ رکعت تک پڑھی جا سکتی ہیں۔ اہلحدیث اور امام احمد اور شافعی اور سب علماءکے نزدیک وتر سنت ہے اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس کو واجب کہتے ہیں حالانکہ حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے کلام سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وتر سنت ہے لیکن اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ نے ان دونوں صحابیوں کا بھی خلاف کیا ہے۔
باب : وتر کا بیان
حدیث نمبر : 990
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن نافع، وعبد الله بن دينار، عن ابن عمر، أن رجلا، سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صلاة الليل فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم " صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة، توتر له ما قد صلى".
ہم سے عبد اللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے نافع اور عبد اللہ ابن دینار سے خبر دی اور انہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات میں نماز کے متعلق معلوم کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات کی نمازدو دو رکعت ہے پھر جب کوئی صبح ہو جانے سے ڈرے تو ایک رکعت پڑھ لے، وہ اس کی ساری نماز کو طاق بنا دے گی۔
حدیث نمبر : 991
وعن نافع، أن عبد الله بن عمر، كان يسلم بين الركعة والركعتين في الوتر، حتى يأمر ببعض حاجته.
اور اسی سند کے ساتھ نافع سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وتر کی جب تین رکعتیں پڑھتے تو دو رکعت پڑھ کر سلام پھیرتے یہاں تک کہ ضرورت سے بات بھی کرتے۔
تشریح : اس حدیث سے دو باتیں نکلیں ایک یہ کہ رات کی نماز دو رکعت کر کے پڑھنا چاہیے یعنی ہر دوگانہ کے بعد سلا م پھیرے، دوسرے وتر کی ایک رکعت بھی پڑھ سکتا ہے اور حنفیہ نے اس میں خلاف کیا ہے اور ان کی دلیل ضعیف ہے۔ صحیح حدیثوں سے وتر کی ایک رکعت پڑھنا ثابت ہے اور تفصیل امام محمد بن نصر مرحوم کی کتاب الوتر والنوافل میں ہے ( مولانا وحید الزماں )
حدیث نمبر : 992
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن مخرمة بن سليمان، عن كريب، أن ابن عباس، أخبره أنه، بات عند ميمونة، وهى خالته، فاضطجعت في عرض وسادة، واضطجع رسول الله صلى الله عليه وسلم وأهله في طولها، فنام حتى انتصف الليل أو قريبا منه، فاستيقظ يمسح النوم عن وجهه، ثم قرأ عشر آيات من آل عمران، ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى شن معلقة، فتوضأ فأحسن الوضوء، ثم قام يصلي فصنعت مثله فقمت إلى جنبه، فوضع يده اليمنى على رأسي، وأخذ بأذني يفتلها، ثم صلى ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم أوتر، ثم اضطجع حتى جاءه المؤذن فقام فصلى ركعتين ثم، خرج فصلى الصبح.
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے مخرمہ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے کریب نے اور انہیں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ آپ ایک رات اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے یہاں سوئے ( آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ) میں بستر کے عرض میں لیٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی بیوی لمبائی میں لیٹیں، آپ سو گئے جب آدھی رات گزر گئی یا اس کے لگ بھگ تو آپ بیدار ہوئے نیند کے اثر کو چہرہ مبارک پر ہاتھ پھیر کر آپ نے دور کیا۔ اس کے بعد آل عمران کی دس آیتیں پڑھیں۔ پھر ایک پرانی مشک پانی کی بھری ہوئی لٹک رہی تھی۔ آپ اس کے پاس گئے اور اچھی طرح وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ آپ پیار سے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر رکھ کر اور میرا کان پکڑ کر اسے ملنے لگے۔ پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی پھر دو رکعت پھر دو رکعت پھر دو رکعت پھر دو رکعت پھر دو رکعت سب بارہ رکعتیں پھر ایک رکعت وتر پڑھ کر آپ لیٹ گئے، یہاں تک کہ مؤذن صبح صادق کی اطلاع دینے آیا تو آپ نے پھر کھڑے ہو کر دو رکعت سنت نماز پڑھی۔ پھر باہر تشریف لائے اور صبح کی نماز پڑھائی۔
تشریح : بعض محدثین نے لکھا ہے کہ چونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بچے تھے۔ اس لیے لا علمی کی وجہ سے بائیں طرف کھڑے ہو گئے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا کان بائیں طرف سے دائیں طرف کرنے کے لیے پکڑا تھا۔ اس تفصیل کے ساتھ بھی روایتوں میں ذکر ہے۔ لیکن ایک دوسری روایت میں ہے کہ میرا کان پکڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے ملنے لگے تھے تاکہ رات کی تاریکی میں آپ کے دست مبارک سے میں مانوس ہو جاؤں اور گھبراہٹ نہ ہو، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں روایتیں الگ ہیں۔ آپ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا کان بائیں سے دائیں طرف کرنے کے لیے بھی پکڑا تھا اور پھر تاریکی میں انہیں مانوس کرنے کے لیے آپ کا کان ملنے بھی لگے تھے۔آپ کو آپ کے والد حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سونے کے لیے بھیجا تھاتاکہ آپ کی رات کے وقت کی عبادت کی تفصیل ایک عینی شاہد کے ذریعہ معلوم کریں چونکہ آپ بچے تھے اور پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے یہاں سونے کی باری تھی۔ آپ بے تکلفی کے ساتھ چلے گئے اور وہیں رات بھر رہے۔ بچپنے کے باوجود انتہائی ذکی فہیم تھے۔ اس لیے ساری تفصیلات یادرکھیں ( تفہیم البخاری )
یہ نماز تہجد تھی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دوکعت کرکے بارہ رکعت کی تکمیل فرمائی پھر ایک رکعت وتر پڑھا۔ اس طرح آپ نے تہجد کی تیرہ رکعتیں ادا کیں مطابق بیان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ آپ کی رات کی نماز گیارہ اور تیرہ سے کبھی زیادہ نہیں ہوئی۔ رمضان شریف میں اس کو تراویح کی شکل میں ادا کیا گیا، اس کی بھی ہمیشہ آٹھ رکعت سنت تین وتر یعنی کل گیارہ رکعات کا ثبوت ہے جیسا کہ پارہ میں مفصل گزر چکا ہے۔
حدیث نمبر : 993
حدثنا يحيى بن سليمان، قال حدثني ابن وهب، قال أخبرني عمرو، أن عبد الرحمن بن القاسم، حدثه عن أبيه، عن عبد الله بن عمر، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم " صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا أردت أن تنصرف فاركع ركعة توتر لك ما صليت". قال القاسم ورأينا أناسا منذ أدركنا يوترون بثلاث، وإن كلا لواسع أرجو أن لا يكون بشىء منه بأس.
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عمرو بن حارث نے خبر دی، ان سے عبد الرحمن بن قاسم نے اپنے باپ قاسم سے بیان کیا اور ان سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، رات کی نمازیں دو دو رکعتیں ہیں اور جب تو ختم کرنا چاہے تو ایک رکعت وتر پڑھ لے جو ساری نماز کوطاق بنا دے گی۔ قاسم بن محمد نے بیان کیا کہ ہم نے بہت سوں کو تین رکعت وتر پڑھتے بھی پایا ہے اور تین یا ایک سب جائز اور مجھ کو امید ہے کہ کسی میں قباحت نہ ہوگی۔
تشریح : یہ قاسم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے تھے۔ بڑے عالم اور فقیہ تھے۔ ان کے کلام سے اس شخص کی غلطی معلوم ہوگئی جو ایک رکعت وتر کو نا درست جا نتا ہے اور مجھ کو حیرت ہے کہ صحیح حدیثیں دیکھ کر پھر کوئی مسلمان یہ کیسے کہے گا کہ ایک رکعت وتر نا درست ہے۔
اس روایت سے گو عبد اللہ بن عمر کا تین رکعتیں وتر پڑھنا ثابت ہوتا ہے مگر حنفیہ کے لیے کچھ بھی مفید نہیں کیونکہ اس میں یہ نہیں ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہمیشہ وتر کی تین ہی رکعتیں پڑھتے۔ علاوہ بھی اس کے دو سلام سے تین رکعتیں وتر کی ثابت ہیں اور حنفیہ ایک سلام سے کہتے ہیں ( مولانا وحیدی ) یہی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہیں جن سے صحیح مسلم شریف ص 257 میں صراحتاً ایک رکعت وتر ثابت ہے۔
عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الوتررکعۃ من آخر اللیل رواہ مسلم۔ حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وتر پچھلی رات میں ایک رکعت ہے۔ دوسری حدیث میں مزید وضاحت موجود ہے۔
عن ایوب رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الوتر حق علی کل مسلم ومن احب ان یوتر بخمس فلیفعل ومن احب ان یوتر بثلاث فلیفعل ومن احب ان یوتر بواحدۃ فلیفعل ( رواہ ابو داؤد والنسائی او ابن ماجہ ) یعنی حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وتر کی نماز حق ہے جو ہر مسلم کے لیے ضروری ہے اور جو چاہے پانچ رکعات وتر پڑھ لے اور جوچاہے تین رکعات اور جو چاہے ایک رکعت وتر ادا کر لے۔ اور بھی اس قسم کی کئی روایات مختلفہ کتب احادیث میں موجود ہیں۔ اسی لیے حضرت مولانا عبید اللہ شیخ الحدیث بذیل حدیث حضرت عائشہ صدیقہ لفظ
ویوتر بواحدۃ ( آپ ایک رکعت وتر پڑھتے ) فرماتے ہیں
فیہ ان اقل الوتر رکعۃ وان الرکعۃ الفردۃ صلوۃ صحیحۃ وھو مذھب الائمۃ الثلاثۃ وھو الحق وقال ابو حنیفۃ لا یصح الایتار بواحدۃ فلا تکون الرکعۃ الواحدۃ صلوۃ قط قال النووی والاحادیث الصحیحۃ ترد علیہ ( مرعاۃ ج:2ص:158 ) یعنی اس حدیث میں دلیل ہے کہ وتر کی کم از کم ایک رکعت ہے اور یہ کہ ایک رکعت پڑھنا بھی نماز صحیح ہے، ائمہ ثلاثہ کا یہی مذہب ہے اور یہی حق ہے ( ائمہ ثلاثہ سے حضرت امام شافعی، امام مالک، امام احمدبن حنبل رحمہم اللہ مراد ہیں ) حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک رکعت وتر صحیح نہیں کیونکہ ایک رکعت نماز ہی نہیں ہوتی۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ احادیث صحیحہ سے حضرت امام کے اس قول کی تردید ہوتی ہے۔
وتر کے واجب فرض سنت ہونے کے متعلق بھی اختلاف ہے، اس بارے میں حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
والحق ان الوتر سنۃ ھو اوکد السنن بینہ علی وابن عمر وعبادۃ ابن الصامت رضی اللہ عنہم اور حق یہ ہے کہ نماز وتر سنت ہے اور وہ سب سنتوں سے زیادہ مؤکد ہے۔ حضرت علی،حضرت عبد اللہ عمر، حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہم نے ایسا ہی بیان فرمایا ہے ( حجۃ البالغۃ، ج:2ص :24 )
وتر تین رکعت پڑھنے کی صورت میں پہلی رکعت میں سورۃ
سبح اسم ربک الاعلی اور دوسری میں
قل یایھا الکفرون اور تیسری میں
قل ھو اللہ احد پڑھنا مسنون ہے۔ وتر کے بعد بآواز بلند تین مرتبہ
سبحان الملک القدوس کا لفظ ادا کرنا مسنون ہے۔ ایک رکعت وتر کے بارے میں مزید تفصیلات حضرت نواب صدیق حسن صاحب رحمہ اللہ کی مشہور کتاب ھدایۃ السائل الی ادلۃ المسائل مطبوعہ بھوپال، ص:255 پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
حدیث نمبر : 994
حدثنا أبو اليمان قال: أخبرنا شعيب، عن الزهري، عن عروة: أن عائشة أخبرته: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي إحدى عشرة ركعة، كانت تلك صلاته، تعني بالليل، فيسجد السجدة من ذلك قدر ما يقرأ أحدكم خمسين آية، قبل أن يرفع رأسه، ويركع ركعتين قبل صلاة الفجر، ثم يضطجع على شقه الأيمن، حتى يأتيه المؤذن للصلاة.
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عمرو بن حارث نے خبر دی، ان سے عبد الرحمن بن قاسم نے اپنے باپ قاسم سے بیان کیا اور ان سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، رات کی نمازیں دو دو رکعتیں ہیں اور جب تو ختم کرنا چاہے تو ایک رکعت وتر پڑھ لے جو ساری نماز کوطاق بنا دے گی۔ قاسم بن محمد نے بیان کیا کہ ہم نے بہت سوں کو تین رکعت وتر پڑھتے بھی پایا ہے اور تین یا ایک سب جائز اور مجھ کو امید ہے کہ کسی میں قباحت نہ ہوگی۔
تشریح : پس گیارہ رکعتیں انتہا ہیں۔ وتر کی دوسری حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا غیر رمضان میں کبھی گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ اب ابن عباس کی حدیث میں جو تیرہ رکعتیں مذکورہ ہیں تو اس کی رو سے بعضوں نے انتہا وتر کی تیرہ رکعت قرار دی ہیں۔ بعضوں نے کہا ان میں دو رکعتیں عشاء کی سنت تھیں تو وتر کی وہی گیارہ رکعتیں ہوئیں۔ غرض وتر کی ایک رکعت سے لے کر تین پانچ نو گیارہ رکعتوں تک منقول ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ان گیارہ رکعتوں میں آٹھ تہجد کی تھیں اور تین وتر کی اور صحیح یہ ہے کہ تراویح تہجد وتر صلوۃ اللیل سب ایک ہی ہیں (وحید الزماں رحمہ اللہ