• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء

باب : جب لوگ اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کا خیال نہیں رکھتے تو اللہ تعالیٰ قحط بھیج کر ان سے بدلہ لیتا ہے

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس ترجمہ باب میں کوئی حدیث بیان نہیں کی شاید کوئی حدیث لکھنا چاہتے ہوں گے مگر موقع نہیں ملا بعض نسخوں میں یہ عبارت بالکل نہیں ہے۔ باب کا مضمون اس حدیث سے نکلتا ہے جو اوپر مذکور ہوئی کہ قریش کے کفار پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی وجہ سے عذاب آیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء
باب : جامع مسجد میں استسقاء یعنی پانی کی دعا کرنا

حدیث نمبر : 1013
حدثنا محمد، قال أخبرنا أبو ضمرة، أنس بن عياض قال حدثنا شريك بن عبد الله بن أبي نمر، أنه سمع أنس بن مالك، يذكر أن رجلا، دخل يوم الجمعة من باب كان وجاه المنبر، ورسول الله صلى الله عليه وسلم قائم يخطب فاستقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم قائما فقال يا رسول الله، هلكت المواشي وانقطعت السبل، فادع الله يغيثنا‏.‏ قال فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يديه فقال ‏"‏ اللهم اسقنا، اللهم اسقنا، اللهم اسقنا‏"‏‏. ‏ قال أنس ولا والله ما نرى في السماء من سحاب ولا قزعة ولا شيئا، وما بيننا وبين سلع من بيت ولا دار، قال فطلعت من ورائه سحابة مثل الترس، فلما توسطت السماء انتشرت ثم أمطرت‏.‏ قال والله ما رأينا الشمس ستا، ثم دخل رجل من ذلك الباب في الجمعة المقبلة، ورسول الله صلى الله عليه وسلم قائم يخطب، فاستقبله قائما فقال يا رسول الله، هلكت الأموال وانقطعت السبل، فادع الله يمسكها، قال فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يديه ثم قال ‏"‏ اللهم حوالينا ولا علينا، اللهم على الآكام والجبال والآجام والظراب والأودية ومنابت الشجر‏"‏‏. ‏ قال فانقطعت وخرجنا نمشي في الشمس‏.‏ قال شريك فسألت أنسا أهو الرجل الأول قال لا أدري‏.‏
ہم سے محمد بن مرحوم بیکندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوضمرہ انس بن عیاض نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شریک بن عبداللہ بن ابی نمرنے بیان کیا کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا آپ نے ایک شخص ( کعب بن مرہ یا ابوسفیان ) کا ذکر کیا جو منبر کے سامنے والے دروازے سے جمعہ کے دن مسجد نبوی میں آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے خطبہ دے رہے تھے، اس نے بھی کھڑے کھڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہایا رسول اللہ! ( بارش نہ ہونے سے ) جانور مرگئے اور راستے بند ہوگئے آپ اللہ تعالی سے بارش کی دعا فرمائیے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہتے ہی ہاتھ اٹھا دیئے آپ نے دعا کی کہ اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔ اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔ اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا بخدا کہیں دور دور تک آسمان پر بادل کا کوئی ٹکڑانظر نہیں آتا تھا اور نہ کوئی اور چیز ( ہوا وغیرہ جس سے معلوم ہو کہ بارش آئے گی ) اور ہمارے اور سلع پہاڑ کے درمیان کوئی مکان بھی نہ تھا ( کہ ہم بادل ہونے کے باوجود نہ دیکھ سکتے ہوں ) پہاڑ کے پیچھے سے ڈھال کے برابر بادل نمودار ہوا اور بیچ آسمان تک پہنچ کر چاروں طرف پھیل گیا اور بارش شروع ہوگئی، خدا کی قسم ہم نے سورج ایک ہفتہ تک نہیں دیکھا۔ پھر ایک شخص دوسرے جمعہ کو اسی دروازے سے آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے خطبہ دے رہے تھے، اس شخص نے پھر آپ کو کھڑے کھڑے ہی مخاطب کیا کہ یا رسول اللہ! ( بارش کی کثرت سے ) مال ومنال پر تباہی آگئی اور راستے بند ہو گئے۔ اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ بارش روک دے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ یا اللہ اب ہمارے اردگرد بارش برسا ہم سے اسے روک دے۔ ٹیلوں پہاڑوں پہاڑیوں وادیوں اور باغوں کو سیراب کر۔ انہوں نے کہا کہ اس دعا سے بارش ختم ہو گئی اور ہم نکلے تو دھوپ نکل چکی تھی۔ شریک نے کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ یہ وہی پہلا شخص تھا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں۔

سلع مدینہ کا پہاڑ۔
مطلب یہ کہ کسی بلند مکان یاگھر کی آڑ بھی نہ تھی کہ ابرہو اور ہم اسے نہ دیکھ سکیں بلکہ آسمان شیشے کی طرح صاف تھا، برسات کا کوئی نشان نہ تھا۔ اس حدیث سے حضرت امام رحمہ اللہ نے یہ ثابت فرمایا کہ جمعہ میں بھی استسقاءیعنی پانی کی دعا مانگنا درست ہے نیز اس حدیث سے کئی ایک معجزات نبوی کا ثبو ت ملتا ہے کہ آپ نے اللہ پاک سے بارش کے لیے دعا فرمائی تو وہ فوراً قبول ہوئی اور بارش شروع ہوگئی۔ پھر جب کثرت باراں سے نقصان شروع ہوا تو آپ نے بارش بند ہونے کی دعا فرمائی اور وہ بھی فوراًقبول ہوئی۔ اس سے آپ کے عند اللہ درجہ قبولیت وصداقت پر روشنی پڑتی ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء
باب : جمعہ کا خطبہ پڑھتے وقت جب منہ قبلہ کی طرف نہ ہو پانی کے لیے دعا کرنا

حدیث نمبر : 1014
حدثنا قتيبة بن سعيد، قال حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن شريك، عن أنس بن مالك، أن رجلا، دخل المسجد يوم جمعة من باب كان نحو دار القضاء، ورسول الله صلى الله عليه وسلم قائم يخطب، فاستقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم قائما ثم قال يا رسول الله هلكت الأموال وانقطعت السبل، فادع الله يغيثنا فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يديه ثم قال ‏"‏ اللهم أغثنا، اللهم أغثنا، اللهم أغثنا‏"‏‏. ‏ قال أنس ولا والله ما نرى في السماء من سحاب، ولا قزعة، وما بيننا وبين سلع من بيت ولا دار‏.‏ قال فطلعت من ورائه سحابة مثل الترس، فلما توسطت السماء انتشرت ثم أمطرت، فلا والله ما رأينا الشمس ستا، ثم دخل رجل من ذلك الباب في الجمعة ورسول الله صلى الله عليه وسلم قائم يخطب، فاستقبله قائما فقال يا رسول الله هلكت الأموال وانقطعت السبل، فادع الله يمسكها عنا‏.‏ قال فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يديه ثم قال ‏"‏ اللهم حوالينا ولا علينا، اللهم على الآكام والظراب وبطون الأودية ومنابت الشجر‏"‏‏. ‏ قال فأقلعت وخرجنا نمشي في الشمس‏.‏ قال شريك سألت أنس بن مالك أهو الرجل الأول فقال ما أدري‏.‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شریک نے بیان کیا، ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوا۔ اب جہاں دار القضاء ہے اسی طرف کے دروازے سے وہ آیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے خطبہ دے رہے تھے، اس نے بھی کھڑے کھڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! جانور مر گئے اور راستے بند ہو گئے۔ اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ ہم پر پانی برسائے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی اے اللہ! ہم پر پانی برسا۔ اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا خدا کی قسم آسمان پر بادل کا کہیں نشان بھی نہ تھا اور ہمارے اور سلع پہاڑ کے بیچ میں مکانات بھی نہیں تھے، اتنے میں پہاڑ کے پیچھے سے بادل نمودار ہوا ڈھال کی طرح اور آسمان کے بیچ میں پہنچ کر چاروں طرف پھیل گیا اور برسنے لگا۔ خدا کی قسم ہم نے ایک ہفتہ تک سورج نہیں دیکھا۔ پھر دوسرے جمعہ کو ایک شخص اسی دروازے سے داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے خطبہ دے رہے تھے، اس لیے اس نے کھڑے کھڑے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ( کثرت بارش سے ) جانور تباہ ہو گئے اور راستے بند ہو گئے۔ اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ بارش بند ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی اے اللہ! ہمارے اطراف میں بارش برسا ( جہاں ضرورت ہے ) ہم پر نہ برسا۔ اے اللہ! ٹیلوں پہاڑیوں وادیوں اور باغوں کو سیراب کر۔ چنانچہ بارش کا سلسلہ بند ہو گیا اور ہم باہر آئے تو دھوپ نکل چکی تھی۔ شریک نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیایہ پہلا ہی شخص تھا؟ انہوں نے جواب دیا مجھے معلوم نہیں۔

تشریح : سلع مدینہ کی مشہور پہاڑی ہے ادھر ہی سمندر تھا۔ راوی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بادل کا کہیں نام ونشان بھی نہیں تھا۔ سلع کی طرف بادل کا امکان ہو سکتا تھا۔ لیکن اس طرف بھی بادل نہیں تھا۔کیونکہ پہاڑی صاف نظر آرہی تھی درمیان میں مکانات وغیرہ بھی نہیں تھے اگر بادل ہوتے تو ضرور نظر آتے اور حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے بعد بادل ادھر ہی سے آئے۔ دار القضاءایک مکان تھا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بنوایا تھا۔ جب حضرت عمر کا انتقال ہونے لگا تو آپ نے وصیت فرمائی کہ یہ مکان بیچ کر میرا قرض ادا کردیا جائے جو بیت المال سے میں نے لیا ہے۔آپ کے صاحبزادے عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے اسے حضرت معاویہ کے ہاتھ بیچ کر آپ کا قرض ادا کر دیا، اس وجہ سے اس گھر کو دار القضاءکہنے لگے یعنی وہ مکان جس سے قرض ادا کیا گیا، یہ حال تھا مسلمانوں کے خلیفہ کا کہ دنیا سے رخصتی کے وقت ان کے پاس کوئی سرمایہ نہ تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء
باب : منبر پر پانی کے لیے دعا کرنا

حدیث نمبر : 1015
حدثنا مسدد، قال حدثنا أبو عوانة، عن قتادة، عن أنس، قال بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب يوم الجمعة إذ جاء رجل فقال يا رسول الله، قحط المطر فادع الله أن يسقينا‏.‏ فدعا فمطرنا، فما كدنا أن نصل إلى منازلنا فما زلنا نمطر إلى الجمعة المقبلة‏.‏ قال فقام ذلك الرجل أو غيره فقال يا رسول الله ادع الله أن يصرفه عنا‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اللهم حوالينا ولا علينا‏"‏‏. ‏ قال فلقد رأيت السحاب يتقطع يمينا وشمالا يمطرون ولا يمطر أهل المدينة‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! پانی کا قحط پڑ گیا ہے، اللہ سے دعا کیجئے کہ ہمیں سیراب کر دے۔ آپ نے دعا کی اور بارش اس طرح شروع ہوئی کہ گھروں تک پہنچنا مشکل ہو گیا، دوسرے جمعہ تک برابر بارش ہوتی رہی۔ انس نے کہا کہ پھر ( دوسرے جمعہ میں ) وہی شخص یا کوئی اور کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ بارش کا رخ کسی اور طرف موڑ دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ ہمارے ارد گرد بارش برسا ہم پر نہ برسا۔ انس نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ بادل ٹکڑے ٹکڑے ہو کر دائیں بائیں طرف چلے گئے پھروہاں بارش شروع ہو گئی اور مدینہ میں اس کاسلسلہ بند ہوا۔

اس حدیث میں بظاہر منبر کا ذکر نہیں ہے آپ کے خطبہ جمعہ کا ذکر ہے جو آپ منبر ہی پر دیا کرتے تھے کہ اس سے منبر ثابت ہو گیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء
باب : پانی کی دعا کرنے میں جمعہ کی نماز کو کافی سمجھنا ( یعنی علیحدہ استسقاء کی نماز نہ پڑھنا اور اس کی نیت کرنا یہ بھی استسقاء کی ایک شکل ہے )

حدیث نمبر : 1016
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن شريك بن عبد الله، عن أنس، قال جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال هلكت المواشي وتقطعت السبل‏.‏ فدعا، فمطرنا من الجمعة إلى الجمعة، ثم جاء فقال تهدمت البيوت وتقطعت السبل، وهلكت المواشي فادع الله يمسكها‏.‏ فقام صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ اللهم على الآكام والظراب والأودية ومنابت الشجر‏"‏‏. ‏ فانجابت عن المدينة انجياب الثوب‏.‏
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے شریک بن عبد اللہ بن ابی نمر نے، ان کو انس رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ ایک آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ جانور ہلاک ہوگئے اور راستے بند ہوگئے۔ آپ نے دعا کی اور ایک ہفتہ تک بارش ہوتی رہی پھر ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ ( بارش کی کثرت سے ) گھر گر گئے راستے بند ہوگئے۔ چنانچہ آپ نے پھر کھڑے ہو کر دعا کی کہ اے اللہ! بارش ٹیلوں، پہاڑوں، وادیوں اور باغوں میں برسا ( دعا کے نتیجہ میں ) بادل مدینہ سے اس طرح پھٹ گئے جیسے کپڑا پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء
باب : اگر بارش کی کثرت سے راستے بند ہو جائیں تو پانی تھمنے کی دعا کر سکتے ہیں

حدیث نمبر : 1017
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن شريك بن عبد الله بن أبي نمر، عن أنس بن مالك، قال جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله، هلكت المواشي وانقطعت السبل، فادع الله، فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم فمطروا من جمعة إلى جمعة، فجاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله، تهدمت البيوت وتقطعت السبل وهلكت المواشي‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اللهم على رءوس الجبال والآكام وبطون الأودية ومنابت الشجر‏"‏‏. ‏ فانجابت عن المدينة انجياب الثوب‏.‏
ہم سے اسماعیل بن ابی ایوب نے بیان کیا، انہوں نے کہاکہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، انہوں نے شریک بن عبد اللہ بن ابی نمر کے واسطے سے بیان کیا، ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مویشی ہلاک ہو گئے اور راستے بند ہوگئے۔ آپ اللہ تعالی سے دعا کیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی تو ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک بارش ہوتی رہی پھر دوسرے جمعہ کو ایک شخص حاضر خدمت ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ( کثرت باراں سے بہت سے ) مکانات گر گئے، راستے بند ہو گئے اور مویشی ہلاک ہوگئے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ! پہاڑوں ٹیلوں وادیوں اور باغات کی طرف بارش کا رخ کردے۔ ( جہاں بارش کی کمی ہے ) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے بادل کپڑے کی طرح پھٹ گیا۔

اور پانی پروردگار کی رحمت ہے، اس کے بالکل بند ہوجانے کی دعا نہیں فرمائی بلکہ یوں فرمایا کہ جہاں مفید ہے وہاں برسے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء

باب : جب لوگ امام سے دعائے استسقاء کی درخواست کریں تو رد نہ کرئے۔

حدیث نمبر : 1018
حدثنا الحسن بن بشر، قال حدثنا معافى بن عمران، عن الأوزاعي، عن إسحاق بن عبد الله، عن أنس بن مالك، أن رجلا، شكا إلى النبي صلى الله عليه وسلم هلاك المال وجهد العيال، فدعا الله يستسقي، ولم يذكر أنه حول رداءه ولا استقبل القبلة‏.‏
ہم سے حسن بن بشر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے معافی بن عمران نے بیان کیا کہ ان سے امام اوزاعی نے، ان سے اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ( قحط سے ) مال کی بربادی اور اہل وعیال کی بھوک کی شکایت کی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا ئے استسقاء کی۔ راوی نے اس موقع پر نہ چادر پلٹنے کا ذکر کیا اور نہ قبلہ کی طرف منہ کرنے کا۔

معلوم ہوا کہ چادر الٹانا اس استسقاءمیں سنت ہے جو میدان میں نکل کر کیا جائے اور نماز پڑھی جائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء
باب : جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن مسجد ہی میں پانی کی دعا کی تو چادر نہیں الٹائی

حدیث نمبر : 1019
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن شريك بن عبد الله بن أبي نمر، عن أنس بن مالك، أنه قال جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله هلكت المواشي، وتقطعت السبل، فادع الله‏.‏ فدعا الله، فمطرنا من الجمعة إلى الجمعة، فجاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله، تهدمت البيوت وتقطعت السبل وهلكت المواشي‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اللهم على ظهور الجبال والآكام وبطون الأودية ومنابت الشجر‏"‏‏. ‏ فانجابت عن المدينة انجياب الثوب‏.‏
ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے شریک بن عبد اللہ بن ابی نمر کے واسطے سے خبر دی اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عرض کیا یا رسول اللہ! ( قحط سے ) جانور ہلاک ہوگئے اور راستے بند، اللہ سے دعا کیجئے۔ چنا نچہ آپ نے دعا کی اور ایک جمعہ سے اگلے جمعہ تک ایک ہفتہ بارش ہوتی رہی۔ پھر ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ( بارش کی کثرت سے ) راستے بند ہوگئے اور مویشی ہلاک ہوگئے۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی کہ اے اللہ! بارش کارخ پہاڑوں ٹیلوں وادیوں اور باغات کی طرف موڑ دے، چنانچہ بادل مدینہ سے اس طرح چھٹ گیا جیسے کپڑا پھٹ جایا کرتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء
باب : اس بارے میں کہ اگر قحط میں مشرکین مسلمانوں سے دعا کی درخواست کریں؟

اگر قحط پڑے اور غیر مسلم مسلمانوں سے دعا کے طالب ہوں تو بلادریغ دعا کرنی چاہیے کیونکہ کسی بھی غیر مسلم سے انسانی سلوک کرنا اور ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرنا اسلام کی عین منشا ہے اور اسلام کی عزت بھی اسی میں ہے۔

حدیث نمبر : 1020
حدثنا محمد بن كثير، عن سفيان، حدثنا منصور، والأعمش، عن أبي الضحى، عن مسروق، قال أتيت ابن مسعود فقال إن قريشا أبطئوا عن الإسلام،، فدعا عليهم النبي صلى الله عليه وسلم فأخذتهم سنة حتى هلكوا فيها وأكلوا الميتة والعظام، فجاءه أبو سفيان فقال يا محمد، جئت تأمر بصلة الرحم، وإن قومك هلكوا، فادع الله‏.‏ فقرأ ‏{‏فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين‏}‏ ثم عادوا إلى كفرهم فذلك قوله تعالى ‏{‏يوم نبطش البطشة الكبرى‏}‏ يوم بدر‏.‏ قال وزاد أسباط عن منصور فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسقوا الغيث، فأطبقت عليهم سبعا، وشكا الناس كثرة المطر فقال ‏"‏ اللهم حوالينا ولا علينا‏"‏‏. ‏ فانحدرت السحابة عن رأسه، فسقوا الناس حولهم‏.‏
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے منصور اور اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوالضحی ٰ نے، ان سے مسروق نے، آپ نے کہا کہ میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ نے فرمایا کہ قریش کا اسلام سے اعراض بڑھتا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں بددعا کی۔ اس بددعا کے نتیجے میں ایسا قحط پڑا کہ کفار مرنے لگے اور مردار اور ہڈیاں کھانے لگے۔ آخر ابو سفیان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے محمد! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں لیکن آپ کی قوم مر رہی ہے۔ اللہ عزوجل سے دعا کیجئے۔ آپ نے اس آیت کی تلاوت کی ( ترجمہ ) اس دن کا انتظار کر جب آسمان پر صاف کھلا ہوا دھواں نمودار ہوگا الآیہ ( خیر آپ نے دعا کی بارش ہوئی قحط جاتا رہا ) لیکن وہ پھر کفر کر نے لگے اس پر اللہ پاک کا یہ فرمان نازل ہوا ( ترجمہ ) جس دن ہم انہیں سختی کے ساتھ پکڑ کریں گے اور یہ پکڑ بدر کی لڑائی میں ہوئی اور اسباط بن محمد نے منصور سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائے استسقاء کی ( مدینہ میں ) جس کے نتیجہ میں خوب بارش ہوئی کہ سات دن تک وہ برابر جاری رہی۔ آخر لوگوں نے بارش کی زیادتی کی شکایت کی تو حضور اکرم نے دعا کی کہ اے اللہ! ہمارے اطراف وجوانب میں بارش برسا، مدینہ میں بارش کا سلسلہ ختم کر۔ چنانچہ بادل آسمان سے چھٹ گیا اور مدینہ کے ارد گرد خوب بارش ہوئی۔

تشریح : شروع میں جو واقعہ بیان ہوا، اس کاتعلق مکہ سے ہے۔ کفار کی سرکشی اور نافرمانی سے عاجز آکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بد دعا کی اور اس کے نتیجہ میں سخت قحط پڑا تو ابو سفیان جو ابھی تک کافر تھے، حاضر خدمت ہوئے اور کہا کہ آپ صلہ رحمی کاحکم دیتے ہیں۔ لیکن خود اپنی قوم کے حق میں اتنی سخت بددعا کردی۔ اب کم از کم آپ کو دعا کرنی چاہیے کہ قوم کی یہ پریشانی دور ہو۔حدیث میں اس کی تصریح نہیں ہے کہ آپ نے ان کے حق میں دوبارہ دعا فرمائی لیکن حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے دعا کی تھی جبھی تو قحط کا سلسلہ ختم ہوا لیکن قوم کی سرکشی برابرجاری رہی اور پھر یہ آیت نازل ہوئی یَومَ نَبطِشُ البَطشَۃَ الکُبرٰی ( الدخان:16 ) یہ بطش کبریٰ بدر کی لڑائی میں وقوع پزیر ہوئی۔جب قریش کے بہترین افراد لڑائی میں کام آئے اور انہیں بری طرح پسپا ہونا پڑا۔دمیاطی نے لکھا ہے کہ سب سے پہلے بد دعا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کی تھی جب کفار نے حرم میں سجدہ کی حالت میں آپ پر اوجھڑی ڈال دی تھی اور پھر خوب اس “کارنامے” پر خوش ہوئے اور قہقہے لگائے تھے۔ قوم کی سرکشی اور فساد اس درجہ بڑھ گیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسے حلیم الطبع اور بردبار اور صابر نبی کی زبان سے بھی بد دعا نکل گئی۔ جب ایمان لانے کی کسی درجہ میں بھی امید نہیں ہوتی بلکہ قوم کا وجود دنیا میں صرف شر وفساد کا باعث بن کر رہ جاتا ہے تو اس شرکو ختم کرنے کی آخری تدبیر بد دعا ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے پھر بھی کبھی بھی ایسی بد دعا نہیں نکلی جو ساری قوم کی تباہی کا باعث ہوتی کیونکہ عرب کے اکثر افراد کا ایمان مقدر تھا۔ اس روایت میں اسباط کے واسطہ سے جو حصہ بیان ہوا ہے اس کا تعلق مکہ سے نہیں بلکہ مدینہ سے ہے۔
اسباط نے منصور کے واسطے سے جو حدیث نقل کی ہے اس کی تفصیل اس سے پہلے متعدد ابواب میں گزر چکی ہے۔مصنف رحمہ اللہ نے دو حدیثوں کو ملا کر ایک جگہ بیان کر دیا، یہ خلط کسی راوی کا نہیں بلکہ جیسا کہ دمیاطی نے کہا ہے خود مصنف رحمہ اللہ کا ہے ( تفہیم البخاری )
پیغمبروں کی شخصیت بہت ہی ارفع واعلی ہوتی ہے، وہ ہر مشکل کو ہر دکھ کو ہنس کر برداشت کر لیتے ہیں مگر جب قو م کی سر کشی حد سے گزر نے لگے اور وہ ان کی ہدایت سے مایوس ہو جائیں تو وہ اپنا آخری ہتھیار بد دعا بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ قرآن مجید میں ایسے مواقع پر بہت سے نبیوں کی دعائیں منقول ہیں۔ہمارے سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مایوس کن مواقع پر بد دعا کی ہے جن کے نتائج بھی فوراً ہی ظاہر ہوئے ان ہی میں سے ایک یہ واقعہ مذکورہ بھی ہے ( واللہ اعلم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء
باب : جب بارش حد سے زیادہ ہو تو اس بات کی دعا کہ ہمارے یہاں بارش بند ہو جائے اور اردگرد برسے

حدیث نمبر : 1021
حدثنا محمد بن أبي بكر، حدثنا معتمر، عن عبيد الله، عن ثابت، عن أنس، قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يخطب يوم جمعة، فقام الناس فصاحوا فقالوا يا رسول الله، قحط المطر واحمرت الشجر وهلكت البهائم، فادع الله يسقينا‏.‏ فقال ‏"‏ اللهم اسقنا‏"‏‏. ‏ مرتين، وايم الله ما نرى في السماء قزعة من سحاب، فنشأت سحابة وأمطرت، ونزل عن المنبر فصلى، فلما انصرف لم تزل تمطر إلى الجمعة التي تليها، فلما قام النبي صلى الله عليه وسلم يخطب صاحوا إليه تهدمت البيوت وانقطعت السبل، فادع الله يحبسها عنا‏.‏ فتبسم النبي صلى الله عليه وسلم ثم قال ‏"‏ اللهم حوالينا ولا علينا‏"‏‏. ‏ فكشطت المدينة، فجعلت تمطر حولها ولا تمطر بالمدينة قطرة، فنظرت إلى المدينة وإنها لفي مثل الإكليل‏.‏
مجھ سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معتمر بن سلیمان نے عبید اللہ عمری سے بیان کیا، ان سے ثابت نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ پڑھ رہے تھے کہ اتنے میں لوگوں نے کھڑے ہوکر غل مچایا، کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! بارش کے نام بوند بھی نہیں درخت سرخ ہوچکے ( یعنی تمام پتے خشک ہوگئے ) اور جانور تباہ ہو رہے ہیں، آپ اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ ہمیں سیراب کرے۔ آپ نے دعا کی اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔ دو مرتبہ آپ نے اس طرح کہا، قسم خدا کی اس وقت آسمان پر بادل کہیں دور دور نظر نہیں آتا تھا لیکن دعا کے بعد اچانک ایک بادل آیا اور بارش شروع ہو گئی۔ آپ منبر سے اتر ے اور نماز پڑھائی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو بارش ہو رہی تھی اور دوسرے جمعہ تک بارش برابر ہوتی رہی پھر جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے جمعہ میں خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے تو لوگوں نے بتایا کہ مکانات منہدم ہو گئے اور راستے بند ہو گئے، اللہ سے دعا کیجئے کہ بارش بند کر دے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور دعا کی اے اللہ! ہمارے اطراف میں اب بارش برسا، مدینہ میں اس کا سلسلہ بند کر۔ آپ کی دعا سے مدینہ سے بادل چھٹ گئے اور بارش ہمارے ارد گرد ہونے لگی۔ اس شان سے کہ اب مدینہ میں ایک بوند بھی نہ پڑتی تھی میں نے مدینہ کو دیکھا ابر تاج کی طرح گردا گرد تھا اور مدینہ اس کے بیچ میں۔
 
Top