• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء
باب : استسقاء میں کھڑے ہو کر خطبہ میں دعا مانگنا

حدیث نمبر : 1022
وقال لنا أبو نعيم عن زهير، عن أبي إسحاق، خرج عبد الله بن يزيد الأنصاري وخرج معه البراء بن عازب وزيد بن أرقم رضى الله عنهم فاستسقى، فقام بهم على رجليه على غير منبر فاستغفر، ثم صلى ركعتين يجهر بالقراءة ولم يؤذن، ولم يقم‏.‏ قال أبو إسحاق ورأى عبد الله بن يزيد النبي صلى الله عليه وسلم‏.
ہم سے ابو نعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، ان سے زہیر نے، ان سے ابواسحاق نے کہ عبداللہ بن یزید انصاری رضی اللہ عنہ استسقاء کے لیے باہر نکلے۔ ان کے ساتھ براء بن عازب اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ انہوں نے پانی کے لیے دعا کی تو پاؤں پر کھڑے رہے، منبر نہ تھا۔ اسی طرح آپ نے دعا کی پھر دو رکعت نماز پڑھی جس میں قرات بلند آواز سے کی، نہ اذان کہی اور نہ اقامت ابو اسحاق نے کہا عبد اللہ بن یزید نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا۔

وہ صحابی تھے اور ان کا یہ واقعہ64ھ سے تعلق رکھتا ہے جب کہ وہ عبد اللہ بن زبیر کی طرف سے کوفہ کے حاکم تھے۔

حدیث نمبر : 1023
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال حدثني عباد بن تميم، أن عمه ـ وكان من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم أخبره أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج بالناس يستسقي لهم، فقام فدعا الله قائما، ثم توجه قبل القبلة، وحول رداءه فأسقوا‏.‏
ہم سے ابو الیمان حکیم بن نافع نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عباد بن تمیم نے بیان کیا کہ ان کے چچا عبداللہ بن زید نے جو صحابی تھے، انہیں خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ساتھ لے کر استسقاء کے لیے نکلے اور آپ کھڑے ہوئے اور کھڑے ہی کھڑے اللہ تعالی سے دعا کی، پھر قبلہ کی طرف منہ کرکے اپنی چادر پلٹی چنانچہ بارش خوب ہوئی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء

باب : استسقاء کی نماز میں بلند آواز سے قرات کرنا

حدیث نمبر : 1024
حدثنا أبو نعيم، حدثنا ابن أبي ذئب، عن الزهري، عن عباد بن تميم، عن عمه، قال خرج النبي صلى الله عليه وسلم يستسقي فتوجه إلى القبلة يدعو، وحول رداءه، ثم صلى ركعتين جهر فيهما بالقراءة‏.‏
ہم سے ابو نعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ا بن ابی ذئب نے زہری سے بیان کیا، ان سے عباد بن تمیم نے اور ان سے ان کے چچا ( عبد اللہ بن زید ) نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم استسقاء کے لیے باہرنکلے تو قبلہ رو ہو کر دعا کی۔ پھر اپنی چادر پلٹی اور دو رکعت نماز پڑھی۔ نماز میں آپ نے قرات بلند آواز سے کی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء
باب : استسقاء میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف پشت مبارک کس طرح موڑی تھی؟

حدیث نمبر : 1025
حدثنا آدم، قال حدثنا ابن أبي ذئب، عن الزهري، عن عباد بن تميم، عن عمه، قال رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يوم خرج يستسقي قال فحول إلى الناس ظهره، واستقبل القبلة يدعو، ثم حول رداءه، ثم صلى لنا ركعتين جهر فيهما بالقراءة‏.‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہاکہ ہم سے ا بن ابی ذئب نے زہری سے بیان کیا، ان سے عباد بن تمیم نے، ان سے ان کے چچا عبد اللہ بن زید نے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب آپ استسقاء کے لیے باہرنکلے، دیکھا تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ آپ نے اپنی پیٹھ صحابہ کی طرف کر دی اور قبلہ رخ ہو کر دعا کی۔ پھر چادر پلٹی اور دو رکعت نماز پڑھائی جس کی قرات قرآن میں آپ نے جہر کیا تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء
باب : استسقاء کی نماز دو رکعتیں پڑھنا

حدیث نمبر : 1026
حدثنا قتيبة بن سعيد، قال حدثنا سفيان، عن عبد الله بن أبي بكر، عن عباد بن تميم، عن عمه، أن النبي صلى الله عليه وسلم استسقى فصلى ركعتين، وقلب رداءه‏.
مجھ سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عبداللہ بن ابی بکر سے بیان کیا، ان سے عباد بن تمیم نے، ان سے ان کے چچا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا ئے استسقاء کی تو دو رکعت نماز پڑھی اور چادر پلٹی۔

تشریح : استسقاءکی دورکعت نماز سنت ہے۔ امام مالک، امام شافعی، امام احمد اور جمہور کا یہی قول ہے حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ استسقاءکے لیے نماز ہی نہیں تسلیم کرتے مگر صاحبین نے اس بارے میں حضرت امام کی مخالفت کی ہے اور صلوۃ استسقاءکے سنت ہونے کا اقرار کیا ہے۔

صاحب عرف الشذی نے اس بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مد ظلہ العالی جملہ اختلافات کی تشریح کے بعد فرماتے ہیں:
وقد عرفت بما ذکرنا من وجہ تخبط الحنفیۃ فی بیان مذھب امامھم وھو انہ قد نفی الصلوۃ فی الاستسقاءمعلقاًکماھو مصرح فی کلام ابی یوسف ومحمد فی بیان مذھب ابی حنیفۃ ولا شک ان قولہ ھذا مخالف ومنابذ للسنۃ الصحیحۃ الثابتۃ الصریحۃ فاضطربت الحنفیۃ لذالک وتخبطوا فی تشریح مذھبہ وتعلیلہ حتی اضطربعضھم الی الاعتراف بان الصلوۃ فی الاستسقاءبجماعۃ سنۃ وقال لم ینکر ابو حنیفۃسنیتھا واستحبابھا وانما انکر کونھا سنۃ مؤکدۃ وھذا کما تری من باب توجیہ الکلام بما لا یرضی بہ قائلہ لانہ لوکان الامر کذالک لم یکن بینہ وبین صاحبیہ خلاف مع انہ قد صرح جمیع الشراح وغیرھم ممن کتب فی اختلاف الائمۃ بالخلاف بینہ وبین الجمھور فی ھذہ المسئلۃ قال شیخنا فی شرح الترمذی قول الجمھور وھو الصواب والحق لانہ قدثبت صلوتہ صلی اللہ علیہ وسلم رکعتین فی الاستسقاءمن احادیث کثیرۃ صحیحۃ۔ ( مرعاۃ، ج: 2 ص: 390 )
خلاصہ یہ کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے مطلقا صلوۃ الاستسقاءکا انکار کیا ہے تم پر واضح ہو گیا ہوگا کہ اس بارے میں حنفیہ کو کس قدر پریشان ہونا پڑا ہے حالانکہ حضرت امام ابو یوسف رحمہ اللہ وحضرت امام محمد کے کلام سے صراحتا ثابت ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے اور کوئی شک نہیں کہ آپ کا قول سنت صحیحہ کے صراحتا خلاف ہے۔ اس لیے اس کی تاویل اور تشریح اور تعلیل بیان کرنے میں علمائے احناف کو بڑی مشکل پیش آئی ہے حتیٰ کہ بعض نے اعتراف کیا ہے کہ نماز استسقاءجماعت کے ساتھ سنت ہے اور حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے صرف سنت مؤکدہ ہونے کا انکار کیا ہے۔ یہ قائل کے قول کی ایسی توجیہ ہے جو خود قائل کو بھی پسند نہیں ہے۔ اگر حقیقت یہی ہوتی تو صاحبین رحمہ اللہ اپنے امام سے اختلاف نہ کرتے۔ اختلافات ائمہ بیان کرنے والوں نے اپنی کتابوں میں صاف لکھا ہے کہ صلوۃ استسقاءکے بارے میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول جمہور امت کے خلاف ہے۔ ہمارے شیخ حضرت مولانا عبد الرحمن مبارک پوری فرماتے ہیں کہ جمہور کا قول ہی درست ہے اور یہی حق ہے کہ نماز استسقاءکی دو رکعتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہیں جیسا کہ بہت سی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے پھر حضرت مولانا مرحوم نے اس سلسلہ کی بیشتر احادیث کو تفصیل سے ذکر فرمایا ہے، شائقین مزید تحفۃ الاحوذی کا مطالعہ فرمائیں۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک استسقاءکی دو رکعتیں عیدین کی نمازوں کی طرح تکبیر زوائد کے ساتھ ادا کی جائیں مگر جمہور کے نزدیک اس نماز میں تکبیرات زوائد نہیں ہیں بلکہ ان کو اسی طرح ادا کیا جا ئے جس طرح دیگر نمازیں ادا کی جاتی ہیں، قول جمہور کو ہی ترجیح حاصل ہے۔ نماز استسقاءکے خطبہ کے لیے منبر کا استعمال بھی مستحب ہے جیسا کہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا میں صراحت کے ساتھ موجود ہے جسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے اس میں صاف فقعد علی المنبر کے لفظ موجود ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء
باب : عیدگاہ میں بارش کی دعا کرنا

حدیث نمبر : 1027
حدثنا عبد الله بن محمد، قال حدثنا سفيان، عن عبد الله بن أبي بكر، سمع عباد بن تميم، عن عمه، قال خرج النبي صلى الله عليه وسلم إلى المصلى يستسقي، واستقبل القبلة فصلى ركعتين، وقلب رداءه‏.‏ قال سفيان فأخبرني المسعودي عن أبي بكر قال جعل اليمين على الشمال‏.‏
ہم سے عبد اللہ بن محمدمسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عبداللہ بن ابی بکر سے بیان کیا، انہوں نے عباد بن تمیم سے سنا اور عباد اپنے چچا عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعائے استسقاء کے لیے عیدگاہ کو نکلے اور قبلہ رخ ہو کر دو رکعت نماز پڑھی پھر چادر پلٹی۔ سفیان ثوری نے کہا مجھے عبدالرحمن بن عبد اللہ مسعودی نے ابوبکر کے حوالے سے خبر دی کہ آپ نے چادر کا داہنا کونا بائیں کندھے پر ڈالا۔

افضل تو یہ ہے کہ جنگل میدان میں استسقاءکی نماز پڑھے کیونکہ وہاں سب آسکتے ہیں اور عیدگاہ اور مسجد میں بھی درست ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء
باب : استسقاء میں قبلہ کی طرف منہ کرنا

حدیث نمبر : 1028
حدثنا محمد، قال أخبرنا عبد الوهاب، قال حدثنا يحيى بن سعيد، قال أخبرني أبو بكر بن محمد، أن عباد بن تميم، أخبره أن عبد الله بن زيد الأنصاري أخبره أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج إلى المصلى يصلي، وأنه لما دعا ـ أو أراد أن يدعو ـ استقبل القبلة وحول رداءه‏.‏ قال أبو عبد الله ابن زيد هذا مازني، والأول كوفي هو ابن يزيد‏.‏
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبد الوہاب ثقفی نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں یحییٰ بن سعید انصاری نے حدیث بیان کی، کہا کہ مجھے ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے خبر دی کہ عباد بن تمیم نے انہیں خبر دی اور انہیں عبد اللہ بن زیدانصاری نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( استسقاء کے لیے ) عیدگاہ کی طرف نکلے وہاں نماز پڑھنے کو جب آپ دعا کرنے لگے یا راوی نے یہ کہا دعا کا ارادہ کیا تو قبلہ رو ہو کر چادر مبارک پلٹی۔ ابو عبد اللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) کہتے ہیں کہ اس حدیث کے راوی عبداللہ بن زید مازنی ہیں اور اس سے پہلے باب الدعا فی الاستسقاءمیں جن کا ذکر گزرا اور وہ عبد اللہ بن یزید ہیں کوفہ کے رہنے والے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء
باب : استسقاء میں امام کے ساتھ لوگوں کا بھی ہا تھ اٹھانا

حدیث نمبر : 1029
قال أيوب بن سليمان حدثني أبو بكر بن أبي أويس، عن سليمان بن بلال، قال يحيى بن سعيد سمعت أنس بن مالك، قال أتى رجل أعرابي من أهل البدو إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الجمعة فقال يا رسول الله، هلكت الماشية هلك العيال هلك الناس‏.‏ فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يديه يدعو، ورفع الناس أيديهم معه يدعون، قال فما خرجنا من المسجد حتى مطرنا، فما زلنا نمطر حتى كانت الجمعة الأخرى، فأتى الرجل إلى نبي الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله، بشق المسافر، ومنع الطريق‏.
ایوب بن سلیمان نے کہا کہ مجھ سے ابو بکر بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے سلیمان بن بلال سے بیان کیاکہ یحییٰ بن سعید نے کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا انہوںنے کہا کہ ایک بدوی ( گاؤں کا رہنے والا ) جمعہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! بھوک سے مویشی تباہ ہو گئے، اہل وعیال اور تمام لوگ مر رہے ہیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے، اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ اپنے ہاتھ اٹھائے، دعا کرنے لگے، انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابھی ہم مسجد سے باہر نکلے بھی نہ تھے کہ بارش شروع ہو گئی اور ایک ہفتہ برابر بارش ہوتی رہی۔ دوسرے جمعہ میں پھر وہی شخص آیا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! ( بارش بہت ہونے سے ) مسافر گھبرا گئے اور راستے بند ہوگئے۔

حدیث نمبر : 1030
وقال الأويسي حدثني محمد بن جعفر، عن يحيى بن سعيد، وشريك، سمعا أنسا، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه رفع يديه حتى رأيت بياض إبطيه‏.
عبد العزیز اویسی نے کہا کہ مجھ سے محمد بن جعفر نے بیان کیا ان سے یحییٰ بن سعید اور شریک نے، انہوں نے کہا کہ ہم نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( نے استسقاء میں دعا کرنے کے لیے ) اس طرح ہاتھ اٹھائے کہ میں نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھ لی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء
باب : امام کا استسقاء میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا

حدیث نمبر : 1031
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى، وابن أبي عدي، عن سعيد، عن قتادة، عن أنس بن مالك، قال كان النبي صلى الله عليه وسلم لا يرفع يديه في شىء من دعائه إلا في الاستسقاء، وإنه يرفع حتى يرى بياض إبطيه‏.‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان اور محمد بن ابراہیم بن عدی بن عروبہ نے بیان کیا، ان سے سعید نے، ان سے قتادہ اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعائے استسقاء کے سوا اور کسی دعا کے لیے ہاتھ ( زیادہ ) نہیں اٹھا تے تھے اور استسقاء میں ہاتھ اتنا اٹھاتے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آجاتی۔

تشریح : ابوداؤد کی مرسل روایتوں میں یہی حدیث اسی طرح ہے کہ “استسقاءکے سوا پوری طرح آپ کسی دعا میں بھی ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے” اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بخاری کی اس روایت میں ہاتھ اٹھانے کے انکار سے مراد یہ ہے کہ بمبالغہ ہاتھ نہیں اٹھاتے اس روایت سے یہ کسی بھی طرح ثابت نہیں ہو سکا کہ آپ دعاؤں میں ہاتھ ہی نہیں اٹھاتے تھے۔ خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الدعوات میں اس کے لیے ایک باب قائم کیا ہے۔ مسلم کی روایت میں ہے کہ استسقاءکی دعا میں آپ نے ہتھیلی کی پشت آسمان کی طرف کی اور شافعیہ نے کہا کہ قحط وغیرہ بلیات کے رفع کرنے کے لیے اس طرح دعا کرنا سنت ہے ( قسطلانی ) علامہ نووی فرماتے ہیں: ھذا الحدیث یوھم ظاھرہ انہ لم یرفع صص الا فی الاستسقاءولیس الامر کذالک بل قد ثبت رفع یدیہ صص فی مواطن غیر الاستسقاءوھی اکثر من ان تحصر وقد جمعت منھا نحوا من ثلاثین حدیثا من الصحیحین او احدھما وذکرتھا فی اواخر باب صفۃ الصلوۃ من شرح المھذب ویتاول ھذا الحدیث علی انہ لم یرفع الرافع البلیغ بحیث تری بیاض ابطیہ الا فی الاستسقاءواما المراد لم ارہ رفع وقد رای غیرہ رفع فیقدم المثبتون فی مواضع کثیرۃ وجماعات علی واحد یحضر ذلک ولا بد من تاویلہ کما ذکرناہ واللہ اعلم۔ ( نووی، ج:1ص293 )

خلاصہ یہ کہ اس حدیث میں اٹھانے سے مبالغہ کے ساتھ ہاتھ اٹھانا مراد ہے استسقاءکے علاوہ دیگر مقامات پر بھی ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا ثابت ہے۔ میں نے اس بارے میں تیس احادیث جمع کی ہیں دیگر آنکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے صرف اپنی روایت کا ذکر کیا ہے جبکہ ان کے علاوہ بہت سے صحابہ سے یہ ثابت ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء
باب : مینہ برستے وقت کیا کہے

وقال ابن عباس ‏{‏كصيب‏}‏ المطر‏.‏ وقال غيره صاب وأصاب يصوب‏.‏
اور حضرت ا بن عباس رضی اللہ عنہ نے ( سورۃ بقرہ میں ) کصیب ( کے لفظ صیب ) سے مینہ کے معنی لیے ہیں اور دوسروں نے کہا کہ صیب صاب یصوب سے مشتق ہے اسی سے ہے اصاب

تشریح : باب کی حدیث میں صیب کا لفظ آیا ہے اور قرآن شریف میں یہ بھی لفظ آیا ہے۔ اس لیے حضرت امام رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے موافق اس کی تفسیر کر دی، اس کو طبری نے علی بن ابی طلحہ کے طریق سے وصل کیا، انہوں نے ابن عباس سے جن کے قول سے آپ نے صیب کے معنی بیان کر دیئے اور دوسروں کے اقوال سے صیب کا اشتقاق بیان کیا کہ یہ کلمہ اجوف واوی ہے اس کا مجرد صاب یصوب اور مزید اصاب ہے۔

حدیث نمبر : 1032
حدثنا محمد ـ هو ابن مقاتل أبو الحسن المروزي ـ قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا عبيد الله، عن نافع، عن القاسم بن محمد، عن عائشة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا رأى المطر قال ‏"‏ صيبا نافعا‏"‏‏. ‏ تابعه القاسم بن يحيى عن عبيد الله‏.‏ ورواه الأوزاعي وعقيل عن نافع‏.
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہمیں عبید اللہ عمری نے نافع سے خبر دی، انہیں قاسم بن محمد نے، انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بارش ہوتی دیکھتے تو یہ دعا کر تے اے اللہ! نفع بخشنے والی بارش برسا۔ اس روایت کی متابعت قاسم بن یحییٰ نے عبید اللہ عمری سے کی ہے اور اس کی روایت اوزاعی اور عقیل نے نافع سے کی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء
باب : اس شخص کے بارے میں جو بارش میں قصداً اتنی دیر ٹھہرا کہ بارش سے اس کی داڑھی (بھیگ گئی اور اس) سے پانی بہنے لگا

حدیث نمبر : 1033
حدثنا محمد بن مقاتل، قال أخبرنا عبد الله بن المبارك، قال أخبرنا الأوزاعي، قال حدثنا إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة الأنصاري، قال حدثني أنس بن مالك، قال أصابت الناس سنة على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فبينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب على المنبر يوم الجمعة قام أعرابي فقال يا رسول الله، هلك المال وجاع العيال، فادع الله لنا أن يسقينا‏.‏ قال فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يديه، وما في السماء قزعة، قال فثار سحاب أمثال الجبال، ثم لم ينزل عن منبره حتى رأيت المطر يتحادر على لحيته، قال فمطرنا يومنا ذلك، وفي الغد ومن بعد الغد والذي يليه إلى الجمعة الأخرى، فقام ذلك الأعرابي أو رجل غيره فقال يا رسول الله، تهدم البناء وغرق المال، فادع الله لنا‏.‏ فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يديه وقال ‏"‏ اللهم حوالينا ولا علينا‏"‏‏. ‏ قال فما جعل يشير بيده إلى ناحية من السماء إلا تفرجت حتى صارت المدينة في مثل الجوبة، حتى سال الوادي ـ وادي قناة ـ شهرا‏.‏ قال فلم يجئ أحد من ناحية إلا حدث بالجود‏.
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام اوزاعی نے خبر دی، کہا کہ ہم سے اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ انصاری نے بیان کیا، انہوں نے کہامجھ سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگوں پر ایک دفعہ قحط پڑا۔ انہی دنوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک دیہاتی نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ! جانور مر گئے اور بال بچے فاقے پر فاقے کر ہے ہیں، اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ پانی برسائے۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے۔ آسمان پر دور دور تک ابر کا پتہ تک نہیں تھا۔ لیکن ( آپ کی دعا سے ) پہاڑوں کے برابر بادل گرجتے ہوئے آگئے ابھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے بھی نہیں تھے کہ میں نے دیکھا کہ بارش کا پانی آپ کی داڑھی سے بہہ رہا ہے۔ انس نے کہا کہ اس روز بارش دن بھر ہوتی رہی۔ دوسرے دن تیسرے دن، بھی اور برابر اسی طرح ہوتی رہی۔ اس طرح دوسرا جمعہ آگیا۔ پھر یہی بدوی یا کوئی دوسرا شخص کھڑا ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ( کثرت باراں سے ) عمارتیں گر گئیں اور جانور ڈوب گئے، ہمارے لیے اللہ تعالی سے دعا کیجئے۔ چنا نچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ اے اللہ! ہمارے اطراف میں برسا اور ہم پر نہ برسا۔ حضرت انس نے کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھوں سے آسمان کی جس طرف بھی اشارہ کر دیتے ابر ادھر سے پھٹ جاتا، اب مدینہ حوض کی طرح بن چکا تھا اور اسی کے بعد وادی قناۃ کا نالہ ایک مہینہ تک بہتا رہا۔ حضرت انس نے بیان کیا کہ اس کے بعد مدینہ کے ارد گرد سے جو بھی آیا اس نے خوب سیرابی کی خبر لائی۔

تشریح : حضرت امام بخاری رحمہ اللہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باران رحمت کا پانی اپنی ریش مبارک پر بہایا۔ مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ آپ نے بارش میں اپنا کپڑا کھول دیا اور یہ پانی اپنے جسد اطہر پر لگایا اور فرمایا کہ انہ حدیث عھد بربہ یہ پانی ابھی ابھی تازہ بتازہ اپنے پروردگاہ کے ہاں سے آیا ہے۔ معلوم ہوا کہ بارش کا پانی اس خیال سے جسم پر لگانا سنت نبوی ہے۔ اس حدیث سے خطبۃ الجمعہ میں بارش کے لیے دعا کرنا بھی ثابت ہوا۔
 
Top