کتاب الکسوف
صحیح بخاری -> کتاب الکسوف
(سورج گرہن کے متعلق ابواب)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تشریح : کسوف لغت میں سیاہ ہو جانے کو کہتے ہیں۔ جس شخص کی حالت متغیر ہو جائے اور منہ پر سیاہی آجائے اس کے لیے عربی محاورہ یہ ہے فلان کسف وجھہ وحالہ یعنی فلاں کا چہرہ اور اس کی حالت سیاہ ہو گئی۔ اور سورج گرہن کے وقت بولتے ہیں کسف الشمس ( سورج سیاہ ہوگیا ) چاند اور سورج کے ظاہری اسباب کچھ بھی ہوں مگر حقیقت میں یہ غافلوں کے لیے قدرت کی طرف سے تنبیہ ہے کہ وہ خدا کے عذاب سے نڈر نہ ہوں اللہ پاک جس طرح چاند اور سورج جیسے اجرام فلکی کو متغیر کر دیتا ہے ایسے ہی گنہگاروں کے دلوں کو بھی کالا کر دیتا ہے اور اس پر بھی تنبیہ ہے کہ چاند اور سورج اپنی ذات میں خود مختار نہیں ہیں بلکہ یہ بھی مخلوق ہیں اور اپنے خالق کے تابع ہیں پھر بھلا یہ عبادت کے لائق کیسے ہو سکتے ہیں۔ گرہن کے وقت نماز کے مشروع ہونے پرجملہ علمائے اسلام کا اتفاق ہے جمہور اس کے سنت ہونے کے قائل ہیں اور فضلائے حنفیہ نے اسے سنت گردانا ہے
علامہ انورشاہ کشمیری رحمہ اللہ!
احناف کا مسلک اس نماز کے بارے میں یہ ہے کہ عام نمازوں کی طرح پڑھی جائے گی مگر یہ مسلک صحیح نہیں ہے۔ جس کی تفصیل علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمہ اللہ کے لفظوں میں یہ ہے جسے صاحب تفہیم البخاری نے نقل کیا ہے کہ سورج گرہن سے متعلق روایتیں متعدد اور مختلف ہیں۔ بعض روایتوں میں ہے کہ آپ نے اس نماز میں بھی عام نمازوں کی طرح ایک رکوع کیا۔
بہت سی روایتوں میں ہر رکعت میں دو رکوع کا ذکر ہے اور بعض میں تین اور پانچ تک بیان ہوئے ہیں۔ علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس باب کی تمام روایتوں کا جائزہ لینے کے بعد صحیح روایت وہی معلوم ہوتی ہے جو بخاری میں موجود ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر رکعت میں دو رکوع کئے تھے۔ آگے چل کر صاحب تفہیم البخاری نے علامہ مرحوم کی یہ تفصیل نقل کی ہے۔
انتہائی نامناسب بات!
جن روایتوں میں متعدد رکوع کا ذکر ہے اس کے متعلق بعض احناف نے یہ کہا کہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل رکوع کیا تھا اوراسی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ رکوع سے سر اٹھا اٹھا کر یہ دیکھتے تھے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے یا نہیں اور اسی طرح بعض صحابہ نے جو پیچھے تھے یہ سمجھ لیا کہ کئی رکوع کئے گئے ہیں۔ شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ یہ بات انتہائی نا مناسب اور متاخرین کی ایجاد ہے ( تفہیم البخاری، پ:4صفحہ:125 )
صحابہ کرام کی شان میں ایسا کہنا ان کی انتہائی تخفیف ہے۔ بھلا وہ مسلمان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو سراپا خشوع وخضوع سے نماز پڑھا کرتے تھے ان کے بارے میں حاشا وکلا ایسا گمان کیا جاسکتا ہے ہرگزنہیں۔
لفظ کسوف اور خسوف کے بارے میں علامہ قسطلانی فرماتے ہیں:
الکسوف ھو التغیر الی السواد ومنہ کسف وجھہ اذا تغیر والخسوف بالخاءالمعجمۃ النقصان قالہ الاصمعی والخسف ایضاالذل والجمھور علی انھما یکونان لذھاب ضوءالشمس والقمر بالکلیۃ وقیل بالکاف فی الابتداءوبالخاءفی الانتھاءوزعم بعض علماءالھیئۃ ان کسوف الشمس لا حقیقۃ لہ فانھا لاتتغیر فی نفسھا وانما القمر یحول بیننا وبینھا ونورھا باق واما کسوف القمر فحقیقۃ فان ضوئہ من ضوءالشمس وکسوفہ بحیلولۃ ظل الارض من بین الشمس وبینہ بنقطۃ التقاطع فلا یبقی فیہ ضوءالبتۃ فخسوفہ ذھاب ضوئہ حقیقۃ انتھی الخ۔
قال الحافظ عبد العظیم المنذری ومن قبلہ القاضی ابوبکر بن العربی حدیث الکسوف رواہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم سبعۃ عشر نفسا رواہ جماعۃ منھم بالکاف وجماعۃ بالخاءوجماعۃ باللفظین جمیعا انتھی ولاریب ان مدلول الکسوف لغۃ غیر مدلول الخسوف لان الکسوف بالکاف التغیر الی سواد والخسوف بالخاءالنقص والزوال یعنی کسوف کے معنی سیاہی کی طرف متغیر ہو جانا ہے جب کسی کا چہرہ متغیر ہو جائے تو لفظ کسف وجھہ بولا کر تے ہیں اور خسوف خائے معجمہ کے ساتھ نقصان کو کہتے ہیں اور لفظ خسف ذلت کے معنی میں بولا گیا ہے یہ بھی کہا گیا کہ گرہن کی ابتدائی حالت پر کسوف اور انتہائی حالت پر خسوف بولا گیا ہے بعض علماءہیئت کا ایسا خیال ہے کہ کسوف شمس کی کوئی حقیقت نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات میں متغیر نہیں ہوتا چاند اس کے اور ہمارے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور اس کا نور باقی رہتا ہے ( یہ علماءہیئت کا خیال ہے کہ کوئی شرعی بات نہیں ہے حقیقت حال سے اللہ ہی واقف ہے )
کسوف قمر کی حقیقت ہے اس کی روشنی سورج کی روشنی ہے جب زمین اس کے اور چاند کے درمیان حائل ہو جاتی ہے تو اس میں روشنی نہیں رہتی۔
حافظ عبد العظیم منذری اور قاضی ابوبکر نے کہا کہ حدیث کسوف کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سترہ صحابیوں نے روایت کیا ہے۔ ایک جماعت نے ان میں سے کاف کے ساتھ یعنی لفظ کسوف کے ساتھ اور ایک جماعت نے خاءلفظ خسوف کے ساتھ اور یک جماعت نے ہر دو لفظوں کے ساتھ۔ لغوی اعتبار سے ہر دو لفظوں کا مدلول الگ الگ ہے کسوف سیاہی کی طرف متغیر ہونا۔ اور خسوف نقص اور زوال کی طرف متغیر ہونا۔ بہر حال اس بارے میں شارع علیہ السلام کا جامع ارشاد کافی ہے کہ ہر دو اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں جن کے ذریعہ اللہ پاک اپنے بندوں کودکھاتا ہے کہ یہ چاند اور سورج بھی اس کے قبضے میں ہیں اور عبادت کے لائق صرف وہی اللہ تبارک وتعالی ہے جو لوگ چاند سورج کی پرستش کرتے ہیں وہ بھی انتہائی حماقت میں مبتلا ہیں کہ خالق کو چھوڑ کر مخلوق کو معبود بناتے ہیں، سچ ہے
لَاتَسجُدُو اللِشَّمسّ وَلَا لِلقَمَرِ وَاسجُدُوا لِلّٰہِ الَّذِی خَلَقَھُنَّ اِن کُنتُم اِیَّاہُ تَعبُدُونَ ( فصلت:37 ) یعنی
“چاند اور سورج کو سجدہ نہ کرو۔ بلکہ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان کو پیدا کیا ہے اگر تم خاص اس اللہ ہی کی عبادت کر تے ہو۔”معلوم ہوا کہ ہر قسم کے سجدے خاص اللہ ہی کے لیے کرنے ضروری ہیں۔
باب : سورج گرہن کی نماز کا بیان
حدیث نمبر : 1040
حدثنا عمرو بن عون، قال حدثنا خالد، عن يونس، عن الحسن، عن أبي بكرة، قال كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فانكسفت الشمس، فقام النبي صلى الله عليه وسلم يجر رداءه حتى دخل المسجد، فدخلنا فصلى بنا ركعتين، حتى انجلت الشمس فقال صلى الله عليه وسلم " إن الشمس والقمر لا ينكسفان لموت أحد، فإذا رأيتموهما فصلوا، وادعوا، حتى يكشف ما بكم".
ہم سے عمرو بن عون نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے خالد بن عبد اللہ نے یونس سے بیان کیا، ان سے امام حسن بصری نے بیان کیا، ان سے ابو بکرہ نفیع بن حارث رضی اللہ عنہ نے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ سورج کوگرہن لگنا شروع ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( اٹھ کر جلدی میں ) چادر گھسیٹتے ہوئے مسجد میں گئے۔ ساتھ ہی ہم بھی گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی تاآنکہ سورج صاف ہو گیا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ سورج اور چاند میں گرہن کسی کی موت وہلاکت سے نہیں لگتا لیکن جب تم گرہن دیکھو تو اس وقت نماز اور دعا کرتے رہو جب تک گرہن کھل نہ جائے۔
حدیث نمبر : 1041
حدثنا شهاب بن عباد، حدثنا إبراهيم بن حميد، عن إسماعيل، عن قيس، قال سمعت أبا مسعود، يقول قال النبي صلى الله عليه وسلم " إن الشمس والقمر لا ينكسفان لموت أحد من الناس، ولكنهما آيتان من آيات الله، فإذا رأيتموهما فقوموا فصلوا".
ہم سے شہاب بن عباد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ابراہیم بن حمید نے خبر دی، انہیں اسماعیل بن ابی خالد نے، انہیں قیس بن ابی حازم نے اور انہوں نے کہا کہ میں نے ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورج اور چاند میں گرہن کسی شخص کی موت سے نہیں لگتا۔ یہ دونوں تو اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ اس لیے اسے دیکھتے ہی کھڑے ہو جاؤ اور نماز پڑھو۔
تشریح : اس حدیث سے معلوم ہو اکہ گرہن کی نماز کا وقت وہی ہے جب گرہن لگے خواہ وہ کسی وقت ہو اور حنفیوں نے اوقات مکروہہ کو مستثنی کیا ہے اور امام احمد سے بھی مشہورروایت یہی ہے اور مالکیہ کے نزدیک اس وقت سورج کے نکلنے سے آفتاب کے ڈھلنے تک ہے اور اہل حدیث نے اول مذہب کواختیار کیا ہے اور وہی راجح ہے ( وحیدی )
حدیث نمبر : 1042
حدثنا أصبغ، قال أخبرني ابن وهب، قال أخبرني عمرو، عن عبد الرحمن بن القاسم، حدثه عن أبيه، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أنه كان يخبر عن النبي صلى الله عليه وسلم. " إن الشمس والقمر لا يخسفان لموت أحد ولا لحياته، ولكنهما آيتان من آيات الله، فإذا رأيتموها فصلوا".
ہم سے اصبغ بن فرح نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عبد اللہ بن وہب نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے عبد الرحمن بن قاسم سے خبر دی، انہیں ان کے باپ قاسم بن محمد نے اور انہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر دی کہ آپ نے فرمایا سورج اور چاند میں گرہن کسی کی موت و زندگی سے نہیں لگتا بلکہ یہ اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، اس لیے جب تم یہ دیکھو تو نماز پڑھو۔
حدیث نمبر : 1043
حدثنا عبد الله بن محمد، قال حدثنا هاشم بن القاسم، قال حدثنا شيبان أبو معاوية، عن زياد بن علاقة، عن المغيرة بن شعبة، قال كسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم مات إبراهيم، فقال الناس كسفت الشمس لموت إبراهيم. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم " إن الشمس والقمر لا ينكسفان لموت أحد ولا لحياته، فإذا رأيتم فصلوا وادعوا الله".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہاشم بن قاسم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شیبان ابو معاویہ نے بیان کیا، ان سے زیاد بن علاقہ نے بیان کیا، ان سے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن اس دن لگا جس دن ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ) حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا بعض لوگ کہنے لگے کہ گرہن حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کی وجہ سے لگا ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گرہن کسی کی موت وحیات سے نہیں لگتا۔ البتہ تم جب اسے دیکھو تو نماز پڑھا کرو اور دعا کیا کرو۔
تشریح : اتفاق سے جب حضرت ابراہیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے گزر گئے تو سورج گرہن لگا۔ بعض لوگوں نے سمجھا کہ ان کی موت سے یہ گرہن لگا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعتقاد کا رد فرمایا۔ جاہلیت کے لوگ ستاروں کی تاثیر زمین پر پڑنے کا اعتقاد رکھتے تھے ہماری شریعت نے اسے باطل قرار دیا۔حدیث مذکورہ سے معلوم ہوا کہ گرہن کی نماز کا وقت وہی ہے جب بھی گرہن لگے خواہ کسی وقت ہو، یہی مذہب راجح ہے۔ یہاں گرہن کو اللہ کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔ مسند امام احمد اور نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ میں اتنا زیادہ منقول ہے کہ اللہ عزوجل جب کسی چیز پر تجلی کرتا ہے تو وہ عاجزی سے اطاعت کرتی ہے۔ تجلی کا اصل مفہوم ومطلوب اللہ ہی کو معلوم ہے۔ یہ خیال کہ گرہن ہمیشہ چاند یا زمین کے حائل ہونے سے ہوتا ہے یہ علماءہیئت کا خیال ہے اور یہ علم یقینی نہیں ہے۔ حکیم دیو جانس کلبی کا یہ حال تھا کہ جب اس کے سامنے کوئی علم ہیئت کا مسئلہ بیان کرتا تو وہ کہتا کہ کیا آپ آسمان سے اترے ہیں۔ بہر حال بقول حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم علماءہیئت جو کہتے ہیں کہ زمین یا چاند حائل ہوجانے سے گرہن ہوتا ہے، یہ حدیث کے خلاف نہیں ہے پھر بھی آیۃ من آیات اللہ کا اطلاق اس پر صحیح ہے۔ روایت میں جس واقعہ کاذکر ہے وہ 10ھ میں بماہ ربیع الاول یا ماہ رمضان میں ہوا تھا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
صاحب تسہیل القاری لکھتے ہیں کہ اگر ایسا ہوتا جیسے کفار کا اعتقاد تھا تو گرہن سورج اور چاند کا اپنے مقررہ وقت پر نہ ہوتا بلکہ جب دنیا میں کسی بڑے کی موت کا حادثہ پیش آتا یا کوئی بڑا آدمی پیدا ہوتا، گرہن لگا کرتا، حالانکہ اب کا ملین علم ہیئت نے سورج اور چاند کے گرہن کے اوقات ایسے دریافت کئے ہیں کہ ایک منٹ ان سے آگے پیچھے گرہن نہیں ہوتا اور سال بھر کی بیشتر جنتریوں میں لکھ دیتے ہیں کہ اس سال سورج گرہن فلاں تاریخ اور فلاں وقت ہوگا اور چاند گرہن فلاں تاریخ اور فلاں وقت میںاور یہ بھی لکھ دیتے ہیں کہ سورج یا چاند کی ٹکی گرہن سے کل چھپ جائے گی یا ان کا اتنا حصہ۔ اور یہ بھی لکھ دیتے ہیں کہ کس ملک میں کس قدر گرہن لگے گا۔
بہر حال یہ دونوں اللہ کی قدرت کی اہم نشانیاں ہیں اور قرآن پاک میں اللہ نے فرمایا ہے
وَمَانُرسِلُ بِالآیَاتِ اِلاَّ تَخوِیفًا ( بنی اسرائیل: 59 ) کہ ہم اپنی قدرت کی کتنی ہی نشانیاں لوگوں کو ڈرانے کے لیے بھیجتے ہیں جو اہل ایمان ہیں وہ ان سے اللہ کے وجود برحق پر دلیل لے کر اپنا ایمان مضبوط کر تے ہیںاور جو الحادو دہریت کے شکار ہیں وہ ان کو مادی عینک سے دیکھ کر اپنے الحاد ودہریت میں ترقی کرتے ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ وفی کل شئی لہ ایۃ تدل علی انہ واحد یعنی کائنات کی ہر چیز میں اس امر کی نشانی موجود ہے کہ اللہ پاک اکیلا ہے علامہ شوکانی فرماتے ہیں کہ
وفی ھذا الحدیث ابطال ما کان اھل الجاھلیۃ یعتقدونہ من تاثیر الکواکب قال الخطابی کانوا فی الجاھلیۃ یعتقدون ان الکسوف یوجب حدوث تغیر الارض من موت اوضرر فاعلم النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ اعتقاد باطل وان الشمس والقمر خلقان مسخران للہ تعالی لیس لھما سلطان فی غیرھما ولا قدرۃ علی الدفع عن انفسھما ( نیل الاوطار ) یعنی عہد جاہلیت والے ستاروں کی تاثیر کا جو اعتقاد رکھتے تھے اس حدیث میں اس کا ابطال ہے۔ خطابی نے کہا کہ جاہلیت کے لوگ اعتقاد رکھتے تھے کہ گرہن سے زمین پر موت یا اورکسی نقصان کا حادثہ ہوتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ یہ اعتقاد باطل ہے اور سورج اور چاند اللہ پاک کی دو مخلوق جو اللہ پاک ہی کے تابع ہیں ان کو اپنے غیر میں کوئی اختیار نہیں اور نہ وہ اپنے ہی نفسوں سے کسی کو دفع کر سکتے ہیں۔
آج کل بھی عوام الناس جاہلیت جیسا ہی عقیدہ رکھتے ہیں، اہل اسلام کو ایسے غلط خیال سے بالکل دو رہنا چاہیے اور جاننا چاہیے کہ ستاروں میں کوئی طاقت قدرت نہیں ہے۔ ہر قسم کی قدرت صرف اللہ پاک ہی کو حاصل ہے۔ واللہ اعلم۔