• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء
باب : جب ہوا چلتی

حدیث نمبر : 1034
حدثنا سعيد بن أبي مريم، قال أخبرنا محمد بن جعفر، قال أخبرني حميد، أنه سمع أنسا، يقول كانت الريح الشديدة إذا هبت عرف ذلك في وجه النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں محمد بن جعفر نے خبر دی، انہوں نے کہا مجھے حمید طویل نے خبر دی اور انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ جب تیز ہوا چلتی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر ڈر محسوس ہوتا تھا۔

تشریح : آندھی کے بعد چونکہ اکثر بارش ہوتی ہے، اس مناسبت سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو یہاں بیان کیا، قوم عاد پرآندھی کا عذاب آیا تھا۔ اس لیے آندھی آنے پر آپ عذاب الٰہی کا تصور فرما کر گھبرا جاتے۔ مسلم کی روایت میں ہے کہ جب آندھی چلتی تو آپ ان لفظوں میں دعافرماتے: اللھم انی اسئلک خیرھا ما فیھا واعوذبک من شرھا وشرما فیھا وخیرما ارسلت بہ وشرما ارسلت بہ یعنی“یا اللہ میں اس آندھی میں تجھ سے خیر کا سوال کرتا ہوں اور اس کے نتیجہ میں بھی خیر ہی چاہتا ہوں اور یا اللہ میں تجھ سے اس کی اور اس کے اندر کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور جو شر یہ لے کر آئی ہے اس سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں۔”ایک روایت میں ہے کہ جب آپ آندھی دیکھتے تو دو زانو ہو کر بیٹھ جاتے اور یہ دعا فرماتے: اللھم اجعلھا ریاحا ولا تجعلھا ریحا یعنی یا اللہ اس ہوا کو فائدہ کی ہوا بنا نہ کہ عذاب کی ہوا۔ لفظ ریاح رحمت کی ہوا اور ریح عذاب کی ہوا پر بولا گیا ہے جیسا کہ قرآن مجید کی متعدد آیات میں وارد ہوا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء

باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ پروا ہوا کے ذریعہ مجھے مدد پہنچائی گئی

حدیث نمبر : 1035
حدثنا مسلم، قال حدثنا شعبة، عن الحكم، عن مجاهد، عن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ نصرت بالصبا، وأهلكت عاد بالدبور‏"‏‏.
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے حکم سے بیان کیا، ان سے مجاہد نے، ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے پروا ہوا کے ذریعہ مدد پہنچائی گئی اور قوم عاد پچھوا کے ذریعہ ہلاک کر دی گئی تھی۔

جنگ خندق میں بارہ ہزار کافروں نے مدینہ کو ہر طرف سے گھیر لیا تھاآخر اللہ نے پروا ہوا بھیجی، اس زور کے ساتھ کہ ان کے ڈیرے اکھڑ گئے۔ آگ بجھ گئی آنکھوں میں خاک گھس گئی جس پر کافر پریشان ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ آپ کا یہ اشارہ اسی ہوا کی طرف ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء
باب : بھونچال اور قیامت کی نشانیوں کے بیان میں

حدیث نمبر : 1036
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، قال أخبرنا أبو الزناد، عن عبد الرحمن الأعرج، عن أبي هريرة، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا تقوم الساعة حتى يقبض العلم، وتكثر الزلازل، ويتقارب الزمان، وتظهر الفتن، ويكثر الهرج ـ وهو القتل القتل ـ حتى يكثر فيكم المال فيفيض‏"‏‏.
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، کہا کہ ہم سے ابوالزناد ( عبد اللہ بن ذکوان ) نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن ہرمز اعرج نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک علم دین نہ اٹھ جائے گا اور زلزلوں کی کثرت نہ ہو جائے گی اور زمانہ جلدی جلدی نہ گزر ے گا اور فتنے فساد پھوٹ پڑیں گے اور “ ہرج ” کی کثرت ہو جائے گی اور ہرج سے مراد قتل ہے۔ قتل اور ہارے درمیان دولت ومال کی اتنی کثرت ہوگی کہ وہ ابل پڑے گا۔

تشریح : سخت آندھی کا ذکر آیا توا س کے ساتھ بھونچال کا بھی ذکر کر دیا، دونوں آفتیں ہیں۔ بھونچال یا گرج یا آندھی یا زمین دھنسنے میں ہر شخص کو دعا اوراستغفار کرنا چاہیے اور زلزلے میں نماز بھی پڑھنا بہتر ہے۔ لیکن اکیلے اکیلے۔ جماعت اس میں مسنون نہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ زلزلے میں انہوں نے جماعت سے نماز پڑھی تو یہ صحیح نہیں ہے ( مولانا وحید الزماں مرحوم )

حدیث نمبر : 1037
حدثنا محمد بن المثنى، قال حدثنا حسين بن الحسن، قال حدثنا ابن عون، عن نافع، عن ابن عمر، قال اللهم بارك لنا في شامنا وفي يمننا‏.‏ قال قالوا وفي نجدنا قال قال اللهم بارك لنا في شامنا وفي يمننا‏.‏ قال قالوا وفي نجدنا قال قال هناك الزلازل والفتن، وبها يطلع قرن الشيطان‏.
مجھ سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حسین بن حسن نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد اللہ بن عون نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا، ان سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازل فرما۔ اس پر لوگوں نے کہا اور ہمارے نجد کے لیے بھی بر کت کی دعا کیجئے لیکن آپ نے پھر وہی کہا “ اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازک فرما ” پھر لوگوں نے کہا اور ہمارے نجد میں؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور شیطان کا سینگ وہی سے طلوع ہوگا۔

تشریح : نجد عرب حجاز سے مشرق کی طرف واقع ہے خاص وہ علاقہ مراد نہیں ہے جو کہ آج کل نجد کہلاتا ہے بلکہ نجد سے تمام ممالک شرقیہ مراد ہیں۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں وھو تھامۃ وکل کما ارتفع من بلاد تھامۃ الی ارض العراق یعنی نجد سے تہامہ کا علاقہ مراد ہے جو بلاد تہامہ سے ارض عراق تک سطح مرتفع میں پھیلا ہوا ہے۔ درحقیقت یہ اشار ہ نبوی ارض عراق کے لیے تھا جہاں بڑے بڑے فتنے پیدا ہوئے اگر بنظر انصاف دیکھا جائے تو اس علاقے سے مسلمانوں کا افتراق وانتشار شروع ہوا جو آج تک موجود ہے اور شاید ابھی عرصہ تک یہ انتشار باقی رہے گا، یہ سب ارض عراق کی پیداوار ہے۔ یہ روایت یہاں موقوفاًبیان ہوئی ہے اور در حقیقت مرفوع ہے۔ ازہر سماں نے اس کو مرفوعا ً روایت کیا ہے۔اسی کتاب یعنی بخاری شریف کتاب الفتن میں یہ حدیث آئے گی اور وہاں اس پر مفصل تبصرہ کیا جائے گا انشاءاللہ۔

صاحب فضل الباری ترجمہ بخاری حنفی تحریر فرماتے ہیں شام کا ملک مدینہ کے اتر کی طرف ہے اور یمن دکن کی طرف اورنجد کا ملک پورب کی طرف ہے۔ آپ نے شام کو اپنی طرف اس واسطے منسوب کیا کہ وہ مکہ تہامہ کی زمین ہے اور تہامہ یمن سے متعلق ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث اس وقت فرمائی تھی کہ ابھی تک نجد کے لوگ مسلمان نہیں ہوئے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فتنہ وفساد میں مشغول تھے جب وہ لوگ اسلام لائے اور آپکی طرف صدقہ بھیجا تو آپ نے صدقہ کو دیکھ کر فرمایا ھذا صدقہ قومی یہ میری قوم کا صدقہ ہے اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ قومی نسبت شامنا و یمننا کی نسبت سے قوی تر ہے۔
سینگ شیطان سے مراد اس کا گروہ ہے، یہ الفاظ آپ نے اسی واسطے فرمائے کہ وہ ہمیشہ آپ کے ساتھ فسادکیا کرتے تھے اور کہا کعب نے کہ عراق سے یعنی اس طرف سے دجال نکلے گا ( فضل الباری،ص:353پ:3 )
اس دور آخر بدرقہ نجد سے وہ تحریک اٹھی جس نے زمانہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد خلفاءراشدین کی یاد کو تازہ کردیا جس سے مجدد اسلام حضرت الشیخ محمدبن عبد الوہاب نجدی رحمہ اللہ کی تحریک مراد ہے جنہوں نے ازسر نو مسلمانوں کو اصل اسلام کی دعوت دی ا ور شرک وبدعات کے خلاف علم جہاد بلند کیا۔ نجدیوں سے قبل حجاز کی حالت جو کچھ تھی وہ تاریخ کے اوراق پر ثبت ہے۔ جس دن سے وہاں نجدی حکومت قائم ہوئی ہر طرح کا امن وامان قائم ہوا اورآج تو حکومت سعودیہ نجد یہ نے حرمین شریفین کی خدمات کے سلسلے میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں جو ساری دنیائے اسلام میں ہمیشہ یاد رہیں گے۔ ایدھم اللہ بنصرہ العزیز ( آمین
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء
باب : اللہ تعالی کے اس فرمان کی تشریح وتجعلون رزقکم انکم تکذبون

قال ابن عباس شكركم
یعنی تمہارا شکر یہی ہے کہ تم اللہ کو جھٹلاتے ہو ( یعنی تمہارے حصہ میں جھٹلانے کے سوا اور کچھ آیا ہی نہیں ) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہمارے رزق سے مراد شکر ہے۔

تشریح : اس کو عبد بن منصور اور ابن مردویہ نے نکالا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ کے فضل وکرم سے پانی برسے تو تم کو اس کا شکر ادا کرنا چاہیے لیکن تم تو شکر کے بدلے یہ کر تے ہو کہ اللہ کو تو جھٹلاتے ہو جس نے پانی برسایا اور ستاروں کو مانتے ہو، کہتے ہو ان کی گردش سے پانی پڑا۔ اس آیت کی مناسبت باب استسقاءسے ظاہر ہوگئی۔ اب زیدبن خالد کی حدیث جواس باب میں لائے وہ بھی بارش سے متعلق ہے۔ مسلم کی روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بارش ہوئی۔ پھر آپ نے یہی فرمایا جو حدیث میں ہے۔ پھر سورۃ واقعہ سے یہ آیت پڑھی فلا اقسم بمواقع النجوم سے لے کر وتجعلون رزقکم انکم تکذبون تک۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1038
حدثنا إسماعيل، حدثني مالك، عن صالح بن كيسان، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود، عن زيد بن خالد الجهني، أنه قال صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الصبح بالحديبية على إثر سماء كانت من الليلة، فلما انصرف النبي صلى الله عليه وسلم أقبل على الناس فقال ‏"‏ هل تدرون ماذا قال ربكم‏"‏‏. ‏ قالوا الله ورسوله أعلم‏.‏ قال ‏"‏ أصبح من عبادي مؤمن بي وكافر، فأما من قال مطرنا بفضل الله ورحمته‏.‏ فذلك مؤمن بي كافر بالكوكب، وأما من قال بنوء كذا وكذا‏.‏ فذلك كافر بي مؤمن بالكوكب‏"‏‏.
ہم سے اسماعیل بن ایوب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، انہوں نے صالح بن کیسان سے بیان کیا، ان سے عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود نے بیان کیا، ان سے زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں ہم کو صبح کی نماز پڑھائی۔ رات کو بارش ہو چکی تھی نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا معلوم ہے تمہارے رب نے کیا فیصلہ کیا ہے؟ لوگ بولے کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پروردگار فرماتا ہے آج میرے دوطرح کے بندوں نے صبح کی۔ ایک مومن ہے ایک کافر۔ جس نے کہا اللہ کے فضل و رحم سے پانی پڑا وہ تو مجھ پر ایمان لایا اور ستاروں کا منکر ہوا اور جس نے کہا فلاں تارے کے فلاں جگہ آنے سے پانی پڑا اس نے میرا کفر کیا، تاروں پر ایمان لایا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب استسقاء

باب : اللہ تعالی کے سوا اور کسی کو معلوم نہیں کہ بارش کب ہوگی

وقال أبو هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ خمس لا يعلمهن إلا الله‏"‏‏. ‏
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا پانچ چیزیں ایسی ہیں جنہیں اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔

حدیث نمبر : 1039
حدثنا محمد بن يوسف، قال حدثنا سفيان، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مفتاح الغيب خمس لا يعلمها إلا الله لا يعلم أحد ما يكون في غد، ولا يعلم أحد ما يكون في الأرحام، ولا تعلم نفس ماذا تكسب غدا، وما تدري نفس بأى أرض تموت، وما يدري أحد متى يجيء المطر‏"‏‏.
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، اور ان سے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غیب کی پانچ کنجیاں ہیں جنہیں اللہ تعالی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ کسی کو نہیں معلوم کہ کل کیا ہونے والا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے کل کیا کرناہوگا، اس کا کسی کو علم نہیں۔ نہ کوئی یہ جانتا ہے کہ اسے موت کس جگہ آئے گی اور نہ کسی کو یہ معلوم کہ بارش کب ہوگی۔

تشریح : جب اللہ تعالی نے صاف قرآن میں اور پیغمبر صاحب نے فرمادیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو یہ علم نہیں ہے کہ برسات کب پڑے گی تو جس شخص میں ذرا بھی ایمان ہوگا وہ ان دھوتی بند پنڈتوں کی بات کیوں مانے گا اور جو مانے اور ان پر اعتقاد رکھے معلوم ہوا وہ دائرہ ایمان سے خارج ہے اور کافر ہے۔ لطف یہ ہے کہ رات دن پنڈتوں کا جھوٹ اور بے تکا پن دیکھتے جاتے ہیں اور پھر ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے اگر کافر لوگ ایسا کریں تو چنداں تعجب نہیں۔ حیرت ہوتی ہے باوجود دعویٰ اسلام مسلمان بادشاہ اور امیر نجومیوں کی باتیں سنتے ہیں اور آئندہ واقعات پوچھتے ہیں۔ معلوم نہیں کہ ان نام کے مسلمانوں کی عقل کہا ں تشریف لے گئی ہے۔صدہا مسلمان بادشاہتیں انہیں نجومیوں پہ اعتقاد رکھنے سے تباہ اور برباد ہو چکی ہیں اور اب بھی مسلمان بادشاہ اس حرکت سے باز نہیں آتے جو کفر صریح ہے لاحول ولا قوۃ الا باللہ العظیم ( مولانا وحیدالزماں )

آیت کریمہ میں غیب کی پانچ کنجیوں کو بیان کیا گیا ہے جو خاص اللہ ہی کے علم میں ہیں اور علم غیب خاص اللہ ہی کو حاصل ہے۔ جو لوگ انبیاءاولیاءکے لیے غیب دانی کا عقیدہ رکھتے ہیں، وہ قرآن وحدیث کی روسے صریح کفر کا ارتکاب کرتے ہیں۔
پوری آیت شریفہ یہ ہے اِنَّ اللّٰہَ عِندَہُ عِلمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الغَیثَ وَیَعلَمُ مَا فِی الاَرحَامِ وَمَاتَدرِی نَفس مَّاذَا تَکسِبُ غَدًا وَمَا تَدرِی نَفس بِاَیٍِ اَرضٍ تَمُوتُ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیم خَبِیر ( لقمان:34 ) یعنی“بے شک قیامت کب قائم ہوگی یہ علم خاص اللہ پاک ہی کو ہے اور وہی بارش اتارتا ہے ( کسی کو صحیح علم نہیں کہ بالضرورفلاں وقت بارش ہو جائے گی ) اور صرف وہی جانتا ہے کہ مادہ کے پیٹ میں نر ہے یا مادہ، اور کوئی نفس نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گااور یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کون سی زمین پر انتقال کرے گا بے شک اللہ ہی جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے، یہ غیب کی پانچ کنجیاں ہیں جن کا علم سوائے اللہ پاک کے اور کسی کو حاصل نہیں ہے۔”

قیامت کی علامات تو احادیث اور قرآن میں بہت کچھ بتلائی گئی ہیں اور ان میں سے اکثر نشانیاں ظاہر بھی ہو رہی ہیں مگر خاص دن تاریخ وقت یہ علم خاص اللہ پاک ہی کو حاصل ہے، اسی طرح بارش کے لیے بہت سی علامات ہیں جن کے ظہور کے بعد اکثر بارش ہو جاتی ہے پھر بھی خاص وقت نہیں بتلایا جا سکتا۔ اس لیے کہ بعض دفعہ بہت سی علامتوں کے باوجود بارش ٹل جایا کرتی ہے اور ماں کے پیٹ میں نر ہے یا مادہ اس کا صحیح علم بھی کسی حکیم ڈاکٹر کو حاصل ہے نہ کسی کاہن نجومی پنڈت ملا کو یہ خاص اللہ پاک ہی جانتا ہے، اسی طرح ہم کل کیا کام کریں گے یہ بھی خاص اللہ ہی کو معلوم ہے جب کہ ہم روزانہ اپنے کاموں کا نقشہ بناتے ہیں مگر بیشتر اوقات وہ جملہ نقشے فیل ہوجاتے ہیں اور یہ بھی کسی کو معلوم نہیں کہ اس کی قبر کہاں بننے والی ہے۔ الغرض علم غیب جزوی اور کلی طورپر صرف اللہ پاک ہی کو حاصل ہے ہاں وہ جس قدر چاہتا ہے کبھی کبھار اپنے محبوب بندوں کو کچھ چیزیں بتلادیا کرتا ہے مگر اس کو غیب نہیں کہا جا سکتا یہ تو اللہ کا عطیہ ہے وہ جس قدر چاہے اور جب چاہے اور جسے چاہے اس کو بخش دے۔ اس کو غیب دانی کہنا بالکل جھوٹ ہے۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہاں باب کی مناسبت سے اس حدیث کو نقل فرما کر ثابت فرمایا کہ بارش ہونے کا صحیح علم صرف اللہ پاک ہی کو حاصل ہے اور کوئی نہیں بتلا سکتا کہ یقینی طور پر فلاں دن فلاں وقت بارش ہو جائے گی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب الکسوف


صحیح بخاری -> کتاب الکسوف
(سورج گرہن کے متعلق ابواب)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تشریح : کسوف لغت میں سیاہ ہو جانے کو کہتے ہیں۔ جس شخص کی حالت متغیر ہو جائے اور منہ پر سیاہی آجائے اس کے لیے عربی محاورہ یہ ہے فلان کسف وجھہ وحالہ یعنی فلاں کا چہرہ اور اس کی حالت سیاہ ہو گئی۔ اور سورج گرہن کے وقت بولتے ہیں کسف الشمس ( سورج سیاہ ہوگیا ) چاند اور سورج کے ظاہری اسباب کچھ بھی ہوں مگر حقیقت میں یہ غافلوں کے لیے قدرت کی طرف سے تنبیہ ہے کہ وہ خدا کے عذاب سے نڈر نہ ہوں اللہ پاک جس طرح چاند اور سورج جیسے اجرام فلکی کو متغیر کر دیتا ہے ایسے ہی گنہگاروں کے دلوں کو بھی کالا کر دیتا ہے اور اس پر بھی تنبیہ ہے کہ چاند اور سورج اپنی ذات میں خود مختار نہیں ہیں بلکہ یہ بھی مخلوق ہیں اور اپنے خالق کے تابع ہیں پھر بھلا یہ عبادت کے لائق کیسے ہو سکتے ہیں۔ گرہن کے وقت نماز کے مشروع ہونے پرجملہ علمائے اسلام کا اتفاق ہے جمہور اس کے سنت ہونے کے قائل ہیں اور فضلائے حنفیہ نے اسے سنت گردانا ہے

علامہ انورشاہ کشمیری رحمہ اللہ!
احناف کا مسلک اس نماز کے بارے میں یہ ہے کہ عام نمازوں کی طرح پڑھی جائے گی مگر یہ مسلک صحیح نہیں ہے۔ جس کی تفصیل علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمہ اللہ کے لفظوں میں یہ ہے جسے صاحب تفہیم البخاری نے نقل کیا ہے کہ سورج گرہن سے متعلق روایتیں متعدد اور مختلف ہیں۔ بعض روایتوں میں ہے کہ آپ نے اس نماز میں بھی عام نمازوں کی طرح ایک رکوع کیا۔

بہت سی روایتوں میں ہر رکعت میں دو رکوع کا ذکر ہے اور بعض میں تین اور پانچ تک بیان ہوئے ہیں۔ علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس باب کی تمام روایتوں کا جائزہ لینے کے بعد صحیح روایت وہی معلوم ہوتی ہے جو بخاری میں موجود ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر رکعت میں دو رکوع کئے تھے۔ آگے چل کر صاحب تفہیم البخاری نے علامہ مرحوم کی یہ تفصیل نقل کی ہے۔

انتہائی نامناسب بات!
جن روایتوں میں متعدد رکوع کا ذکر ہے اس کے متعلق بعض احناف نے یہ کہا کہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل رکوع کیا تھا اوراسی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ رکوع سے سر اٹھا اٹھا کر یہ دیکھتے تھے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے یا نہیں اور اسی طرح بعض صحابہ نے جو پیچھے تھے یہ سمجھ لیا کہ کئی رکوع کئے گئے ہیں۔ شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ یہ بات انتہائی نا مناسب اور متاخرین کی ایجاد ہے ( تفہیم البخاری، پ:4صفحہ:125 )
صحابہ کرام کی شان میں ایسا کہنا ان کی انتہائی تخفیف ہے۔ بھلا وہ مسلمان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو سراپا خشوع وخضوع سے نماز پڑھا کرتے تھے ان کے بارے میں حاشا وکلا ایسا گمان کیا جاسکتا ہے ہرگزنہیں۔
لفظ کسوف اور خسوف کے بارے میں علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: الکسوف ھو التغیر الی السواد ومنہ کسف وجھہ اذا تغیر والخسوف بالخاءالمعجمۃ النقصان قالہ الاصمعی والخسف ایضاالذل والجمھور علی انھما یکونان لذھاب ضوءالشمس والقمر بالکلیۃ وقیل بالکاف فی الابتداءوبالخاءفی الانتھاءوزعم بعض علماءالھیئۃ ان کسوف الشمس لا حقیقۃ لہ فانھا لاتتغیر فی نفسھا وانما القمر یحول بیننا وبینھا ونورھا باق واما کسوف القمر فحقیقۃ فان ضوئہ من ضوءالشمس وکسوفہ بحیلولۃ ظل الارض من بین الشمس وبینہ بنقطۃ التقاطع فلا یبقی فیہ ضوءالبتۃ فخسوفہ ذھاب ضوئہ حقیقۃ انتھی الخ۔

قال الحافظ عبد العظیم المنذری ومن قبلہ القاضی ابوبکر بن العربی حدیث الکسوف رواہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم سبعۃ عشر نفسا رواہ جماعۃ منھم بالکاف وجماعۃ بالخاءوجماعۃ باللفظین جمیعا انتھی ولاریب ان مدلول الکسوف لغۃ غیر مدلول الخسوف لان الکسوف بالکاف التغیر الی سواد والخسوف بالخاءالنقص والزوال یعنی کسوف کے معنی سیاہی کی طرف متغیر ہو جانا ہے جب کسی کا چہرہ متغیر ہو جائے تو لفظ کسف وجھہ بولا کر تے ہیں اور خسوف خائے معجمہ کے ساتھ نقصان کو کہتے ہیں اور لفظ خسف ذلت کے معنی میں بولا گیا ہے یہ بھی کہا گیا کہ گرہن کی ابتدائی حالت پر کسوف اور انتہائی حالت پر خسوف بولا گیا ہے بعض علماءہیئت کا ایسا خیال ہے کہ کسوف شمس کی کوئی حقیقت نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات میں متغیر نہیں ہوتا چاند اس کے اور ہمارے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور اس کا نور باقی رہتا ہے ( یہ علماءہیئت کا خیال ہے کہ کوئی شرعی بات نہیں ہے حقیقت حال سے اللہ ہی واقف ہے )

کسوف قمر کی حقیقت ہے اس کی روشنی سورج کی روشنی ہے جب زمین اس کے اور چاند کے درمیان حائل ہو جاتی ہے تو اس میں روشنی نہیں رہتی۔
حافظ عبد العظیم منذری اور قاضی ابوبکر نے کہا کہ حدیث کسوف کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سترہ صحابیوں نے روایت کیا ہے۔ ایک جماعت نے ان میں سے کاف کے ساتھ یعنی لفظ کسوف کے ساتھ اور ایک جماعت نے خاءلفظ خسوف کے ساتھ اور یک جماعت نے ہر دو لفظوں کے ساتھ۔ لغوی اعتبار سے ہر دو لفظوں کا مدلول الگ الگ ہے کسوف سیاہی کی طرف متغیر ہونا۔ اور خسوف نقص اور زوال کی طرف متغیر ہونا۔ بہر حال اس بارے میں شارع علیہ السلام کا جامع ارشاد کافی ہے کہ ہر دو اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں جن کے ذریعہ اللہ پاک اپنے بندوں کودکھاتا ہے کہ یہ چاند اور سورج بھی اس کے قبضے میں ہیں اور عبادت کے لائق صرف وہی اللہ تبارک وتعالی ہے جو لوگ چاند سورج کی پرستش کرتے ہیں وہ بھی انتہائی حماقت میں مبتلا ہیں کہ خالق کو چھوڑ کر مخلوق کو معبود بناتے ہیں، سچ ہے لَاتَسجُدُو اللِشَّمسّ وَلَا لِلقَمَرِ وَاسجُدُوا لِلّٰہِ الَّذِی خَلَقَھُنَّ اِن کُنتُم اِیَّاہُ تَعبُدُونَ ( فصلت:37 ) یعنی“چاند اور سورج کو سجدہ نہ کرو۔ بلکہ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان کو پیدا کیا ہے اگر تم خاص اس اللہ ہی کی عبادت کر تے ہو۔”معلوم ہوا کہ ہر قسم کے سجدے خاص اللہ ہی کے لیے کرنے ضروری ہیں۔

باب : سورج گرہن کی نماز کا بیان

حدیث نمبر : 1040
حدثنا عمرو بن عون، قال حدثنا خالد، عن يونس، عن الحسن، عن أبي بكرة، قال كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فانكسفت الشمس، فقام النبي صلى الله عليه وسلم يجر رداءه حتى دخل المسجد، فدخلنا فصلى بنا ركعتين، حتى انجلت الشمس فقال صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن الشمس والقمر لا ينكسفان لموت أحد، فإذا رأيتموهما فصلوا، وادعوا، حتى يكشف ما بكم‏"‏‏. ‏
ہم سے عمرو بن عون نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے خالد بن عبد اللہ نے یونس سے بیان کیا، ان سے امام حسن بصری نے بیان کیا، ان سے ابو بکرہ نفیع بن حارث رضی اللہ عنہ نے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ سورج کوگرہن لگنا شروع ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( اٹھ کر جلدی میں ) چادر گھسیٹتے ہوئے مسجد میں گئے۔ ساتھ ہی ہم بھی گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی تاآنکہ سورج صاف ہو گیا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ سورج اور چاند میں گرہن کسی کی موت وہلاکت سے نہیں لگتا لیکن جب تم گرہن دیکھو تو اس وقت نماز اور دعا کرتے رہو جب تک گرہن کھل نہ جائے۔

حدیث نمبر : 1041
حدثنا شهاب بن عباد، حدثنا إبراهيم بن حميد، عن إسماعيل، عن قيس، قال سمعت أبا مسعود، يقول قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن الشمس والقمر لا ينكسفان لموت أحد من الناس، ولكنهما آيتان من آيات الله، فإذا رأيتموهما فقوموا فصلوا‏"‏‏. ‏
ہم سے شہاب بن عباد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ابراہیم بن حمید نے خبر دی، انہیں اسماعیل بن ابی خالد نے، انہیں قیس بن ابی حازم نے اور انہوں نے کہا کہ میں نے ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورج اور چاند میں گرہن کسی شخص کی موت سے نہیں لگتا۔ یہ دونوں تو اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ اس لیے اسے دیکھتے ہی کھڑے ہو جاؤ اور نماز پڑھو۔

تشریح : اس حدیث سے معلوم ہو اکہ گرہن کی نماز کا وقت وہی ہے جب گرہن لگے خواہ وہ کسی وقت ہو اور حنفیوں نے اوقات مکروہہ کو مستثنی کیا ہے اور امام احمد سے بھی مشہورروایت یہی ہے اور مالکیہ کے نزدیک اس وقت سورج کے نکلنے سے آفتاب کے ڈھلنے تک ہے اور اہل حدیث نے اول مذہب کواختیار کیا ہے اور وہی راجح ہے ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1042
حدثنا أصبغ، قال أخبرني ابن وهب، قال أخبرني عمرو، عن عبد الرحمن بن القاسم، حدثه عن أبيه، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أنه كان يخبر عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ ‏"‏ إن الشمس والقمر لا يخسفان لموت أحد ولا لحياته، ولكنهما آيتان من آيات الله، فإذا رأيتموها فصلوا‏"‏‏. ‏
ہم سے اصبغ بن فرح نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عبد اللہ بن وہب نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے عبد الرحمن بن قاسم سے خبر دی، انہیں ان کے باپ قاسم بن محمد نے اور انہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر دی کہ آپ نے فرمایا سورج اور چاند میں گرہن کسی کی موت و زندگی سے نہیں لگتا بلکہ یہ اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، اس لیے جب تم یہ دیکھو تو نماز پڑھو۔

حدیث نمبر : 1043
حدثنا عبد الله بن محمد، قال حدثنا هاشم بن القاسم، قال حدثنا شيبان أبو معاوية، عن زياد بن علاقة، عن المغيرة بن شعبة، قال كسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم مات إبراهيم، فقال الناس كسفت الشمس لموت إبراهيم‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن الشمس والقمر لا ينكسفان لموت أحد ولا لحياته، فإذا رأيتم فصلوا وادعوا الله‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہاشم بن قاسم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شیبان ابو معاویہ نے بیان کیا، ان سے زیاد بن علاقہ نے بیان کیا، ان سے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن اس دن لگا جس دن ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ) حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا بعض لوگ کہنے لگے کہ گرہن حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کی وجہ سے لگا ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گرہن کسی کی موت وحیات سے نہیں لگتا۔ البتہ تم جب اسے دیکھو تو نماز پڑھا کرو اور دعا کیا کرو۔

تشریح : اتفاق سے جب حضرت ابراہیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے گزر گئے تو سورج گرہن لگا۔ بعض لوگوں نے سمجھا کہ ان کی موت سے یہ گرہن لگا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعتقاد کا رد فرمایا۔ جاہلیت کے لوگ ستاروں کی تاثیر زمین پر پڑنے کا اعتقاد رکھتے تھے ہماری شریعت نے اسے باطل قرار دیا۔حدیث مذکورہ سے معلوم ہوا کہ گرہن کی نماز کا وقت وہی ہے جب بھی گرہن لگے خواہ کسی وقت ہو، یہی مذہب راجح ہے۔ یہاں گرہن کو اللہ کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔ مسند امام احمد اور نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ میں اتنا زیادہ منقول ہے کہ اللہ عزوجل جب کسی چیز پر تجلی کرتا ہے تو وہ عاجزی سے اطاعت کرتی ہے۔ تجلی کا اصل مفہوم ومطلوب اللہ ہی کو معلوم ہے۔ یہ خیال کہ گرہن ہمیشہ چاند یا زمین کے حائل ہونے سے ہوتا ہے یہ علماءہیئت کا خیال ہے اور یہ علم یقینی نہیں ہے۔ حکیم دیو جانس کلبی کا یہ حال تھا کہ جب اس کے سامنے کوئی علم ہیئت کا مسئلہ بیان کرتا تو وہ کہتا کہ کیا آپ آسمان سے اترے ہیں۔ بہر حال بقول حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم علماءہیئت جو کہتے ہیں کہ زمین یا چاند حائل ہوجانے سے گرہن ہوتا ہے، یہ حدیث کے خلاف نہیں ہے پھر بھی آیۃ من آیات اللہ کا اطلاق اس پر صحیح ہے۔ روایت میں جس واقعہ کاذکر ہے وہ 10ھ میں بماہ ربیع الاول یا ماہ رمضان میں ہوا تھا۔ واللہ اعلم بالصواب۔

صاحب تسہیل القاری لکھتے ہیں کہ اگر ایسا ہوتا جیسے کفار کا اعتقاد تھا تو گرہن سورج اور چاند کا اپنے مقررہ وقت پر نہ ہوتا بلکہ جب دنیا میں کسی بڑے کی موت کا حادثہ پیش آتا یا کوئی بڑا آدمی پیدا ہوتا، گرہن لگا کرتا، حالانکہ اب کا ملین علم ہیئت نے سورج اور چاند کے گرہن کے اوقات ایسے دریافت کئے ہیں کہ ایک منٹ ان سے آگے پیچھے گرہن نہیں ہوتا اور سال بھر کی بیشتر جنتریوں میں لکھ دیتے ہیں کہ اس سال سورج گرہن فلاں تاریخ اور فلاں وقت ہوگا اور چاند گرہن فلاں تاریخ اور فلاں وقت میںاور یہ بھی لکھ دیتے ہیں کہ سورج یا چاند کی ٹکی گرہن سے کل چھپ جائے گی یا ان کا اتنا حصہ۔ اور یہ بھی لکھ دیتے ہیں کہ کس ملک میں کس قدر گرہن لگے گا۔
بہر حال یہ دونوں اللہ کی قدرت کی اہم نشانیاں ہیں اور قرآن پاک میں اللہ نے فرمایا ہے وَمَانُرسِلُ بِالآیَاتِ اِلاَّ تَخوِیفًا ( بنی اسرائیل: 59 ) کہ ہم اپنی قدرت کی کتنی ہی نشانیاں لوگوں کو ڈرانے کے لیے بھیجتے ہیں جو اہل ایمان ہیں وہ ان سے اللہ کے وجود برحق پر دلیل لے کر اپنا ایمان مضبوط کر تے ہیںاور جو الحادو دہریت کے شکار ہیں وہ ان کو مادی عینک سے دیکھ کر اپنے الحاد ودہریت میں ترقی کرتے ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ وفی کل شئی لہ ایۃ تدل علی انہ واحد یعنی کائنات کی ہر چیز میں اس امر کی نشانی موجود ہے کہ اللہ پاک اکیلا ہے علامہ شوکانی فرماتے ہیں کہ وفی ھذا الحدیث ابطال ما کان اھل الجاھلیۃ یعتقدونہ من تاثیر الکواکب قال الخطابی کانوا فی الجاھلیۃ یعتقدون ان الکسوف یوجب حدوث تغیر الارض من موت اوضرر فاعلم النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ اعتقاد باطل وان الشمس والقمر خلقان مسخران للہ تعالی لیس لھما سلطان فی غیرھما ولا قدرۃ علی الدفع عن انفسھما ( نیل الاوطار ) یعنی عہد جاہلیت والے ستاروں کی تاثیر کا جو اعتقاد رکھتے تھے اس حدیث میں اس کا ابطال ہے۔ خطابی نے کہا کہ جاہلیت کے لوگ اعتقاد رکھتے تھے کہ گرہن سے زمین پر موت یا اورکسی نقصان کا حادثہ ہوتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ یہ اعتقاد باطل ہے اور سورج اور چاند اللہ پاک کی دو مخلوق جو اللہ پاک ہی کے تابع ہیں ان کو اپنے غیر میں کوئی اختیار نہیں اور نہ وہ اپنے ہی نفسوں سے کسی کو دفع کر سکتے ہیں۔

آج کل بھی عوام الناس جاہلیت جیسا ہی عقیدہ رکھتے ہیں، اہل اسلام کو ایسے غلط خیال سے بالکل دو رہنا چاہیے اور جاننا چاہیے کہ ستاروں میں کوئی طاقت قدرت نہیں ہے۔ ہر قسم کی قدرت صرف اللہ پاک ہی کو حاصل ہے۔ واللہ اعلم۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الکسوف
باب : سورج گرہن میں صدقہ خیرات کرنا

حدیث نمبر : 1044
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة، أنها قالت خسفت الشمس في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناس، فقام فأطال القيام، ثم ركع فأطال الركوع، ثم قام فأطال القيام وهو دون القيام الأول، ثم ركع فأطال الركوع، وهو دون الركوع الأول، ثم سجد فأطال السجود، ثم فعل في الركعة الثانية مثل ما فعل في الأولى، ثم انصرف وقد انجلت الشمس، فخطب الناس، فحمد الله، وأثنى عليه ثم قال ‏"‏ إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله، لا ينخسفان لموت أحد ولا لحياته، فإذا رأيتم ذلك فادعوا الله وكبروا، وصلوا وتصدقوا‏"‏‏. ‏ ثم قال ‏"‏ يا أمة محمد، والله ما من أحد أغير من الله أن يزني عبده أو تزني أمته، يا أمة محمد، والله لو تعلمون ما أعلم لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیا ن کیا، ان سے ان کے باپ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، ان سے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ پہلے آپ کھڑے ہوئے تو بڑی دیر تک کھڑے رہے، قیام کے بعد رکوع کیا اور رکوع میں بہت دیر تک رہے۔ پھر رکوع سے اٹھنے کے بعد دیر تک دوبارہ کھڑے رہے لیکن آپ کے پہلے قیام سے کچھ کم، پھر رکوع کیا تو بڑی دیر تک رکوع میں رہے لیکن پہلے سے مختصر، پھر سجدہ میں گئے اور دیر تک سجدہ کی حالت میں رہے۔ دوسری رکعت میں بھی آپ نے اسی طرح کیا، جب آپ فارغ ہوئے تو گرہن کھل چکاتھا۔ اس کے بعدآپ نے خطبہ دیا اللہ تعالی کی حمد وثنا کے بعد فرمایا کہ سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں اور کسی کی موت وحیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا۔ جب تم گرہن لگا ہوا دیکھو تو اللہ سے دعا کرو تکبیر کہو اور نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔ پھر آپ نے فرمایا اے محمد کی امت کے لوگو! دیکھو اس بات پر اللہ تعالی سے زیادہ غیرت اور کسی کو نہیں آتی کہ اس کا کوئی بندہ یا بندی زنا کرے، اے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم! واللہ جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تمہیں بھی معلوم ہوجائے تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔

تشریح : یعنی ہر رکعت میں دو دو رکوع کئے اور دو دو قیام اگر چہ بعض روایتوں میں تین تین رکوع اور بعض میں چار چار اور بعض میں پانچ پانچ ہر رکعت میں وارد ہوئے ہیں۔ مگر دو دو رکوع کی روایتیں صحت میں بڑھ کر ہیں اور اہلحدیث اور شافعی کا اس پر عمل ہے اور حنفیہ کے نزدیک ہر رکعت میں ایک ہی رکوع کرے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا ایک رکوع کی روایتیں صحت میں دو دو رکوع کی روایتوں کے برابر نہیں ہیں اب جن روایتوں میں دو رکوع سے زیادہ منقول ہیں تو وہ راویوں کی غلطی ہے یا کسوف کا واقعہ کئی بار ہوا ہوگا۔ بعضے علماءنے یہی اختیار کیا ہے کہ جن جن طرحوں سے کسوف کی نماز منقول ہے ان سب طرحوں سے پڑھنا درست ہے۔

قسطلانی نے پچھلے متکلمین کی طرح غیرت کی تاویل کی ہے اور کہا ہے کہ غیرت غصے کے جوش کو کہتے ہیں اور اللہ تعالی اپنے تغیرات سے پاک ہے۔ اہلحدیث کا یہ طریق نہیں، اہل حدیث اللہ تعالی کی ان سب صفات کو جو قرآن وحدیث میں وارد ہیں اپنے ظاہری معنی پر محمول رکھتے ہیں اور ان میں تاویل اور تحریف نہیں کرتے جب غضب اللہ تعالی صفات کی میں سے ہے تو غیرت بھی اس کی صفات میں سے ہوگی غضب زائد اور کم ہو سکتا ہے اور تغیر اللہ کی ذات اور صفات حقیقیہ میں نہیں ہوتا لیکن صفات افعال میں تو تغیر ضرور ہے مثلاً گناہ کرنے سے اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے پھر توبہ کرنے سے راضی ہو جاتا ہے اللہ تعالی کلا م کرتا اور کبھی کلام نہیں کرتا کبھی اترتا ہے کبھی چڑھتا ہے غرض صفات افعالیہ کا حدوث اور تغیر اہلحدیث کے نزدیک جائز ہے۔ ( مولانا وحید الزماں مرحوم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الکسوف
باب : گرہن کے وقت یوں پکارنا کہ نماز کے لیے اکٹھے ہو جاؤ جماعت سے نماز پڑھو

حدیث نمبر : 1045
حدثنا إسحاق، قال أخبرنا يحيى بن صالح، قال حدثنا معاوية بن سلام بن أبي سلام الحبشي الدمشقي، قال حدثنا يحيى بن أبي كثير، قال أخبرني أبو سلمة بن عبد الرحمن بن عوف الزهري، عن عبد الله بن عمرو ـ رضى الله عنهما ـ قال لما كسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم نودي إن الصلاة جامعة‏.
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں یحی بن صالح نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم سے معاویہ بن سلام بن ابی سلام رحمہ اللہ تعالی حبشی دمشقی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف زہری نے خبر دی، ان سے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن لگا تو یہ اعلان کیا گیا کہ نماز ہونے والی ہے۔

مقصد باب یہ ہے کہ گرہن کی نماز کے لیے اذان نہیں دی جاتی مگر لوگوں میں اس طورپر اعلان کرانا کہ نماز گرہن جماعت سے ادا کی جانے والی ہے لہذا لوگو شرکت کے لیے تیار ہو جاؤ اس طرح پر اعلان کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ایسا اعلان کرانا حدیث ذیل سے ثابت ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گرہن کی نماز خاص اہتمام جماعت کے ساتھ پڑھنی چاہیے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الکسوف
باب : گرہن کی نماز میں امام کا خطبہ پڑھنا

وقالت عائشة وأسماء خطب النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما اور اسماء رضی اللہ عنہما نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن میں خطبہ سنایا۔

حدیث نمبر : 1046
حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثني الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، ح وحدثني أحمد بن صالح، قال حدثنا عنبسة، قال حدثنا يونس، عن ابن شهاب، حدثني عروة، عن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت خسفت الشمس في حياة النبي صلى الله عليه وسلم فخرج إلى المسجد فصف الناس وراءه، فكبر فاقترأ رسول الله صلى الله عليه وسلم قراءة طويلة، ثم كبر فركع ركوعا طويلا، ثم قال سمع الله لمن حمده‏.‏ فقام ولم يسجد، وقرأ قراءة طويلة، هي أدنى من القراءة الأولى، ثم كبر وركع ركوعا طويلا، وهو أدنى من الركوع الأول، ثم قال سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد‏.‏ ثم سجد، ثم قال في الركعة الآخرة مثل ذلك، فاستكمل أربع ركعات في أربع سجدات، وانجلت الشمس قبل أن ينصرف، ثم قام فأثنى على الله بما هو أهله ثم قال ‏"‏ هما آيتان من آيات الله، لا يخسفان لموت أحد ولا لحياته، فإذا رأيتموهما فافزعوا إلى الصلاة‏"‏‏. ‏ وكان يحدث كثير بن عباس أن عبد الله بن عباس ـ رضى الله عنهما ـ كان يحدث يوم خسفت الشمس بمثل حديث عروة عن عائشة‏.‏ فقلت لعروة إن أخاك يوم خسفت بالمدينة لم يزد على ركعتين مثل الصبح‏.‏ قال أجل لأنه أخطأ السنة‏.‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ا بن شہاب نے ( دوسری سند ) اور مجھ سے احمد بن صالح نے بیان کیا کہ ہم سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یونس بن یزید نے بیان کیا، ان سے ا بن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عروہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سورج گرہن لگا، اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لے گئے۔ انہوں نے بیان کیا کہ لوگوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف باندھی آپ نے تکبیر کہی اور بہت دیر قرآن مجید پڑھتے رہے پھر تکبیر کہی اور بہت لمبا رکوع کیا پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر کھڑے ہوگئے اور سجدہ نہیں کیا ( رکوع سے اٹھنے کے بعد ) پھر بہت دیر تک قرآن مجید پڑھتے رہے۔ لیکن پہلی قرات سے کم، پھر تکبیر کے ساتھ رکوع میں چلے گئے اور دیر تک رکوع میں رہے، یہ رکوع بھی پہلے رکوع سے کم تھا۔ اب سمع اللہ لمن حمدہ اور ر بنا ولک الحمد کہا پھر سجدہ میں گئے۔ آپ نے دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا ( ان دونوں رکعتوں میں ) پورے چار رکوع اور چار سجدے کئے۔ نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی سورج صاف ہو چکا تھا۔ نماز کے بعد آپ نے کھڑے ہوکر خطبہ فرمایا اور پہلے اللہ تعالی کی اس کی شان کے مطابق تعریف کی پھر فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ کی دو نشانیاں ہیں ان میں گرہن کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں لگتا لیکن جب تم گرہن دیکھا کرو تو فوراً نماز کی طرف لپکو۔ زہری نے کہا کہ کثیر بن عباس اپنے بھائی عبد اللہ بن عباس سے روایت کر تے تھے وہ سورج گرہن کا قصہ اس طرح بیان کرتے تھے جیسے عروہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا۔ زہری نے کہا میں نے عروہ سے کہا تمہارے بھائی عبداللہ بن زبیر نے جس دن مدینہ میں سورج گرہن ہوا صبح کی نماز کی طرح دو رکعت پڑھی اور کچھ زیادہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا ہاں مگر وہ سنت کے طریق سے چوک گئے۔

تشریح : ان کو حضرت عائشہ کی یہ حدیث نہ پہنچی ہوگی حالانکہ عبد اللہ بن زبیر صحابی رضی اللہ عنہ تھے اور عروہ تابعی ہیں مگر عروہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نقل کی اور حدیث کی پیروی سب پر مقدم ہے۔ اس روایت سے یہ بھی نکلا کہ بڑے بڑے جلیل القدر صحابی جیسے عبد اللہ بن زبیر اور عبداللہ بن عباس ہیں ان سے بھی غلطی ہو جاتی تھی تواور مجتہدوں سے جیسے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ یا امام شافعی ہیں غلطی کا ہونا کچھ بعید نہیں اوراگر منصف آدمی امام ابن قیم کی اعلام الموقعین انصاف سے دیکھے تواس کو ان مجتہدوں کی غلطیاں بخوبی معلوم ہو سکتی ہیں ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الکسوف
باب : سورج کا کسوف وخسوف دونوں کہہ سکتے ہیں

وقال الله تعالى ‏{‏وخسف القمر‏}
اور اللہ تعالی نے ( سورۃ قیامہ میں ) فرمایا : ''وخسف القمر''

تشریح : اس باب سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ لفظ کسوف اور خسوف چاند اور سورج دونوں کے گرہن میں مستعمل ہوتے ہیں اور جن لوگوں نے سورج گرہن کو کسوف کہنے سے منع کیا ہے ان کا قول صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح جن لوگوں نے چاند گرہن کو خسوف کہنے سے کیونکہ اللہ نے خود سورۃ قیامہ میں چاند گرہن کو خسوف فرمایا ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1047
حدثنا سعيد بن عفير، قال حدثنا الليث، حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال أخبرني عروة بن الزبير، أن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم أخبرته‏.‏ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى يوم خسفت الشمس، فقام فكبر، فقرأ قراءة طويلة، ثم ركع ركوعا طويلا، ثم رفع رأسه، فقال سمع الله لمن حمده‏.‏ وقام كما هو، ثم قرأ قراءة طويلة، وهى أدنى من القراءة الأولى، ثم ركع ركوعا طويلا، وهى أدنى من الركعة الأولى، ثم سجد سجودا طويلا، ثم فعل في الركعة الآخرة مثل ذلك، ثم سلم وقد تجلت الشمس، فخطب الناس، فقال في كسوف الشمس والقمر ‏"‏ إنهما آيتان من آيات الله، لا يخسفان لموت أحد ولا لحياته، فإذا رأيتموهما فافزعوا إلى الصلاة‏"‏‏. ‏
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ا بن شہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ جس دن سورج میں خسوف ( گرہن ) لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ آپ کھڑے ہوئے تکبیر کہی پھر دیر تک قرآن مجید پڑھتے رہے۔ لیکن اس کے بعد ایک طویل رکوع کیا۔ رکوع سے سراٹھایا تو کہا سمع اللہ لمن حمدہ پھر آپ پہلے ہی کی طرح کھڑے ہوگئے اور دیر تک قرآن مجید پڑھتے رہے لیکن اس مرتبہ کی قرات پہلے سے کچھ کم تھی۔ پھر آپ سجدہ میں گئے اور بہت دیر تک سجدہ میں رہے پھر دوسری رکعت میں بھی آپ نے اسی طرح کیا پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو سورج صاف ہو چکا تھا۔ نماز سے فارغ ہوکر آپ نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ سورج اور چاند کا “ کسوف” ( گرہن ) اللہ تعالی کی ایک نشانی ہے اور ان میں “خسوف” ( گرہن ) کسی کی موت و زندگی پر نہیں لگتا۔ لیکن جب تم سے دیکھو تو فوراً نماز کے لیے لپکو۔

ہر دو کے گرہن پر آپ نے کسوف اور خسوف ہر دو لفظ استعمال فرمائے۔ پس باب کا مطلب ثابت ہوا۔
 
Top