• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الکسوف
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو سورج گرہن کے ذریعہ ڈراتا ہے

قاله أبو موسى عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
یہ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
حدیث نمبر : 1048
حدثنا قتيبة بن سعيد، قال حدثنا حماد بن زيد، عن يونس، عن الحسن، عن أبي بكرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله، لا ينكسفان لموت أحد، ولكن الله تعالى يخوف بها عباده‏"‏‏. ‏ وقال أبو عبد الله لم يذكر عبد الوارث وشعبة وخالد بن عبد الله وحماد بن سلمة عن يونس ‏"‏ يخوف بها عباده‏"‏‏. ‏ وتابعه موسى عن مبارك عن الحسن قال أخبرني أبو بكرة عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ ‏"‏ إن الله تعالى يخوف بهما عباده‏"‏‏. ‏ وتابعه أشعث عن الحسن‏.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے یونس بن عبید نے، ان سے امام حسن بصری نے، ان سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورج اور چاند دونوں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں اور کسی کی موت وحیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا بلکہ اللہ تعالی اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ عبد الوارث، شعبہ، خالد بن عبداللہ اور حماد بن سلمہ ان سب حافظوں نے یونس سے یہ جملہ کہ “ اللہ تعالی ان کو گرہن کر کے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے ” بیان نہیں کیا اور یونس کے ساتھ اس حدیث کو موسیٰ نے مبارک بن فضالہ سے، انہوں نے امام حسن بصری سے روایت کیا۔ اس میں یوں ہے کہ ابوبکرہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر مجھ کو خبر دی کہ اللہ تعالی ان کو گرہن کر کے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اور یونس کے ساتھ اس حدیث کو اشعث بن عبد اللہ نے بھی امام حسن بصری سے روایت کیا۔

تشریح : اس کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے آگے چل کر وصل کیا گو کسوف یا خسوف زمین یا چاند کے حائل ہونے سے ہو جس میں اب کچھ شک نہیں رہا۔ یہاں تک کہ منجمین اور اہل ہیئت خسوف اور کسوف کا ٹھیک وقت اور یہ کہ وہ کس ملک میں کتنا ہوگا پہلے ہی بتا دیتے ہیں اور تجربہ سے وہ بالکل ٹھیک نکلتا ہے، اس میں سرموفرق نہیں ہوتا مگر اس سے حدیث کے مطلب میں کوئی خلل نہیں آیا کیونکہ خدا وند کریم اپنی قدرت اور طاقت دکھلاتا ہے کہ چاند اور سورج کیسے بڑے اور روشن اجرام کو وہ دم بھر میں تاریک کر دیتا ہے۔ اس کی عظمت اورطاقت اور ہیئت سے بندوں کو ہر دم تھرانا چاہیے اور جس نے چاند اور سورج گرہن کے عادی اور حسابی ہونے کا انکار کیا ہے وہ عقلاءکے نزدیک ہنسی کے قابل ہے۔ ( مولانا وحید الزماں مرحوم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الکسوف
باب : سورج گرہن میں عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگنا

حدیث نمبر : 1049
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن يحيى بن سعيد، عن عمرة بنت عبد الرحمن، عن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن يهودية جاءت تسألها فقالت لها أعاذك الله من عذاب القبر‏.‏ فسألت عائشة ـ رضى الله عنها ـ رسول الله صلى الله عليه وسلم أيعذب الناس في قبورهم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم عائذا بالله من ذلك‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک رحمہ اللہ نے، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے عمرہ بن ت عبد الرحمن نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس مانگنے کے لیے آئی اور اس نے دعادی کہ اللہ آپ کو قبر کے عذاب سے بچائے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا لوگوں کو قبر میں عذاب ہوگا؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ تعالی کی اس سے پناہ مانگتا ہوں۔

حدیث نمبر : 1050
ثم ركب رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات غداة مركبا، فخسفت الشمس، فرجع ضحى، فمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بين ظهرانى الحجر، ثم قام يصلي، وقام الناس وراءه، فقام قياما طويلا، ثم ركع ركوعا طويلا، ثم رفع فقام قياما طويلا، وهو دون القيام الأول ثم ركع ركوعا طويلا، وهو دون الركوع الأول، ثم رفع فسجد، ثم قام فقام قياما طويلا، وهو دون القيام الأول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الأول، ثم قام قياما طويلا وهو دون القيام الأول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الأول، ثم رفع فسجد وانصرف، فقال ما شاء الله أن يقول، ثم أمرهم أن يتعوذوا من عذاب القبر‏.
پھر ایک مرتبہ صبح کو ( کہیں جانے کے لیے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اس کے بعد سورج گرہن لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن چڑھے واپس ہوئے اور اپنی بیویوں کے حجروں سے گزرتے ہوئے ( مسجد میں ) نماز کے لیے کھڑے ہوگئے صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی آپ کی اقتدا میں نیت باندھ لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی لمبا قیام کیا پھر رکوع بھی بہت طویل کیا، اس کے بعد کھڑے ہوئے اور اب کی دفعہ قیام پھر لمبا کیا لیکن پہلے سے کچھ کم، پھر رکوع کیا ور اس دفعہ بھی دیر تک رکوع میں رہے لیکن پہلے رکوع سے کچھ کم، پھر رکوع سے سر اٹھایا اور سجدہ میں گئے۔ اب آپ پھر دوبارہ کھڑے ہوئے اور بہت دیر تک قیام کیا لیکن پہلے قیام سے کچھ کم، پھر ایک لمبا رکوع کیا لیکن پہلے رکوع سے کچھ کم، پھر رکوع سے سر اٹھایا اور قیام میں اب کی دفعہ بھی بہت دیر تک رہے لیکن پہلے سے کم دیر تک ( چوتھی مرتبہ ) پھر رکوع کیا اور بہت دیر تک رکوع میں رہے لیکن پہلے سے مختصر۔ رکوع سے سراٹھایا تو سجدہ میں چلے گئے آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح نماز پوری کر لی۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے جو چاہا آپ نے فرمایا اسی خطبہ میں آپ نے لوگوں کو ہدایت فرمائی کہ عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگیں۔

تشریح : بعض روایتوں میں ہے کہ جب یہود یہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عذاب قبر کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا چلو! قبر کا عذاب یہودیوں کو ہوگا مسلمانوں کا اس سے کیا تعلق لیکن اس یہودیہ کے ذکر پر انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور آپ نے اس کا حق ہونا بتا یا۔ اسی روایت میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو عذاب قبر سے پناہ مانگنے کی ہدایت فرمائی اور یہ نماز کسوف کے خطبہ کا واقعہ 9 ھ میں ہوا۔

حدیث کے آخر ی جملہ سے ترجمہ باب نکلتا ہے اس یہودن کو شاید اپنی کتابوں سے قبر عذاب معلوم ہو گیا ہوگا۔ ابن حبان میں سے کہ آیت کریمہ میں لفظ مَعِیشَۃً ضَنکاً ( طہ:124 ) اس سے عذاب قبر مرا دہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم کو عذاب قبر کی تحقیق اس وقت ہوئی جب آیت کریمہ حَتّٰی زُرتُمُ المَقَابِرَ ( التکاثر:2 ) نازل ہوئی اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور قتادہ اور ربیع نے آیت سَنُعَذِّبُھُم مَرَّتَینِ ( التوبہ:101 ) کی تفسیر میں کہا کہ ایک عذاب دنیا کا اور دوسرا عذاب قبر کا مراد ہے۔ اب اس حدیث میں جو دوسری رکعت میں دون القیام الاول ہے اس کے مطلب میں اختلاف ہے کہ دوسری رکعت کا قیام اول مراد ہے یا اگلے کل قیام مراد ہیں بعضوں نے کہا چار قیام اور چار رکوع ہیں اور ہر ایک قیام اور رکوع اپنے ما سبق سے کم ہوتا تو ثانی اول سے کم اور ثالث ثانی سے کم اور رابع ثالث سے کم واللہ اعلم۔

یہ جو کسوف کے وقت عذاب قبر سے ڈرایا ا س کی مناسبت یہ ہے کہ جیسے کسوف کے وقت دنیا میں اندھیرا ہو جاتا ہے ایسے ہی گنہگار کی قبر میں جس پر عذاب ہوگا، اندھیرا چھاجائے گا۔ اللہ تعالی پناہ میں رکھے۔ قبر کا عذاب حق ہے، حدیث اور قرآن سے ثابت ہے جو لوگ عذاب قبر سے انکار کر تے ہیں وہ قرآن وحدیث کا انکار کر تے ہیں لہذا ان کو اپنے ایمان کے بارے میں فکرکرنا چاہیے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الکسوف
باب : سورج گرہن کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا

وصلى ابن عباس لهم في صفة زمزم‏.‏ وجمع علي بن عبد الله بن عباس‏.‏ وصلى ابن عمر‏.‏
اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے زمزم کے چبوترہ میں لوگوں کو یہ نماز پڑھائی تھی اور علی بن عبد اللہ بن عباس نے اس کے لیے لوگوں کو جمع کیا اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نماز پڑھائی۔

تشریح : یہ علی بن عبد اللہ تابعی ہیں۔ عبداللہ بن عباس کے بیٹے ہیں اور خلفائے عباسیہ ان ہی کی اولاد ہیں ان کو سجاد کہتے تھے کیونکہ یہ ہر روز ہزارسجدے کیا کرتے تھے جس رات حضرت علی مرتضی شہید ہوئے اسی رات کو یہ پیدا ہوئے، اس لیے ان کا نام بطور یادگار علی ہی رکھا گیا۔ اس روایت کو ابن شیبہ نے موصولاً ذکرکیا ہے ( قسطلانی )

حدیث نمبر : 1052
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن زيد بن أسلم، عن عطاء بن يسار، عن عبد الله بن عباس، قال انخسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقام قياما طويلا نحوا من قراءة سورة البقرة، ثم ركع ركوعا طويلا، ثم رفع فقام قياما طويلا، وهو دون القيام الأول، ثم ركع ركوعا طويلا، وهو دون الركوع الأول، ثم سجد، ثم قام قياما طويلا وهو دون القيام الأول، ثم ركع ركوعا طويلا، وهو دون الركوع الأول، ثم رفع فقام قياما طويلا، وهو دون القيام الأول، ثم ركع ركوعا طويلا، وهو دون الركوع الأول، ثم سجد، ثم انصرف وقد تجلت الشمس، فقال صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله، لا يخسفان لموت أحد ولا لحياته، فإذا رأيتم ذلك فاذكروا الله‏"‏‏. ‏ قالوا يا رسول الله، رأيناك تناولت شيئا في مقامك، ثم رأيناك كعكعت‏.‏ قال صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إني رأيت الجنة، فتناولت عنقودا، ولو أصبته لأكلتم منه ما بقيت الدنيا، وأريت النار، فلم أر منظرا كاليوم قط أفظع، ورأيت أكثر أهلها النساء‏"‏‏. ‏ قالوا بم يا رسول الله قال ‏"‏ بكفرهن‏"‏‏. ‏ قيل يكفرن بالله قال ‏"‏ يكفرن العشير، ويكفرن الإحسان، لو أحسنت إلى إحداهن الدهر كله، ثم رأت منك شيئا قالت ما رأيت منك خيرا قط‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے بیان کیا، ان سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج کو گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا لمبا قیام کیا کہ اتنی دیر میں سورہ بقرہ پڑھی جا سکتی تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع لمبا کیا اور اس کے بعد کھڑے ہوئے تو اب کی مرتبہ بھی قیام بہت لمبا تھا لیکن پہلے سے کچھ کم پھر ایک دوسرا لمبا رکوع کیاجو پہلے رکوع سے کچھ کم تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گئے، سجدہ سے اٹھ کر پھر لمبا قیام کیا لیکن پہلے قیام کے مقابلے میں کم لمبا تھا پھر ایک لمبا رکوع کیا۔ یہ رکوع بھی پہلے رکوع کے مقابلہ میں کم تھا رکوع سے سر اٹھا نے کے بعد پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت دیر تک کھڑے رہے اور یہ قیام بھی پہلے سے مختصر تھا۔ پھر ( چوتھا ) رکوع کیا یہ بھی بہت لمبا تھا لیکن پہلے سے کچھ کم۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا اور نماز سے فارغ ہوئے تو سورج صاف ہو چکا تھا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا کہ سورج اور چاند دونوں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں اور کسی کی موت وزندگی کی وجہ سے ان میں گرہن نہیں لگتا اس لیے جب تم کو معلوم ہو کہ گرہن لگ گیا ہے تو اللہ تعالی کا ذکر کرو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے دیکھا کہ ( نماز میں ) اپنی جگہ سے آپ کچھ آگے بڑھے اور پھر اس کے بعد پیچھے ہٹ گئے۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے جنت دیکھی اور اس کا یک خوشہ توڑنا چاہا تھا اگر میں اسے توڑ سکتا تو تم اسے رہتی دنیا تک کھاتے اور مجھے جہنم بھی دکھائی گئی میں نے اس سے زیادہ بھیانک اور خوفناک منظر کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے دیکھا اس میں عورتیں زیادہ ہیں۔ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اپنے کفر ( انکار ) کی وجہ سے، پوچھا گیا۔ کیا اللہ تعالی کا کفر ( انکار ) کر تی ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ شوہر کا اور احسان کا کفر کر تی ہیں۔ زندگی بھر تم کسی عورت کے ساتھ حسن سلوک کرو لیکن کبھی اگر کوئی خلاف مزاج بات آگئی تو فوراًیہی کہے گی کہ میں نے تم سے کبھی بھلائی نہیں دیکھی۔

تشریح : یہ حدیث اس سے قبل بھی گزر چکی ہے، دوزخ اور جنت کی تصویریں آپ کو دکھلادیں، اس حدیث میں عورتوں کا بھی ذکر ہے جس میں ان کے کفر سے ناشکری مراد ہے۔ بعضوں نے کہا کہ آپ نے اصل جنت اور دوزخ کو دیکھا کہ پردہ درمیان سے اٹھ گیا یا یہ مراد ہے کہ دوزخ اور جنت کا ایک ایک ٹکڑا بطور نمونہ آپ کو دکھلایا گیا۔ بہر حال یہ عالم بزرخ کی چیز ہے جس طرح حدیث میں آگیا ہمارا ایمان ہے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ جنت کے خوشے کے لیے آپ نے جو فرمایا وہ اس لیے کہ جنت اور نعمائے جنت کے لیے فنا نہیں ہے اس لیے وہ خوشہ اگر آجاتا تو وہ یہاں دنیا کے قائم رہنے تک رہتا مگر یہ عالم دنیا اس کا محل نہیں اس لیے اس کاآپ کو معائنہ کرایا گیا۔ اس روایت میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر رکعت میں دو رکوع کرنے کا ذکر ہے جس کے پیش نظر برادران احناف نے بھی بہر حال اپنے مسلک کے خلاف اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے جو قابل تحسین ہے چنا نچہ صاحب تفہیم البخاری کے الفاظ ملاحظہ ہوں آپ فرماتے ہیں اس باب کی تمام احادیث میں قابل غور بات یہ ہے کہ راویوں نے اس پر خاص طور سے زور دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر رکعت میں دو رکوع کئے تھے چنا نچہ قیام پھر رکوع پھر قیام پھر رکوع کی کیفیت پوری تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں لیکن سجدہ کا ذکر جب آیا تو صرف اسی پر اکتفا کیا کہ آپ نے سجدہ کیا تھا اس کی کوئی تفصیل نہیں کہ سجدے کتنے تھے کیونکہ راویوں کے پیش نظر اس نماز کے امتیازات کو بیان کرنا ہے اس سے بھی یہی سمجھ میں آتا ہے کہ رکوع ہر رکعت میں آپ نے دو کئے تھے اور جن میں ایک رکوع کا ذکر ہے ان میں اختصار سے کام لیا گیاہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الکسوف
باب : سورج گرہن میں عورتوں کا مردوں کے ساتھ نماز پڑھنا

حدیث نمبر : 1053
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن هشام بن عروة، عن امرأته، فاطمة بنت المنذر عن أسماء بنت أبي بكر ـ رضى الله عنهما ـ أنها قالت أتيت عائشة ـ رضى الله عنها ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم حين خسفت الشمس، فإذا الناس قيام يصلون، وإذا هي قائمة تصلي فقلت ما للناس فأشارت بيدها إلى السماء، وقالت سبحان الله‏.‏ فقلت آية فأشارت أى نعم‏.‏ قالت فقمت حتى تجلاني الغشى، فجعلت أصب فوق رأسي الماء، فلما انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم حمد الله وأثنى عليه ثم قال ‏"‏ ما من شىء كنت لم أره إلا قد رأيته في مقامي هذا حتى الجنة والنار، ولقد أوحي إلى أنكم تفتنون في القبور مثل ـ أو قريبا من ـ فتنة الدجال ـ لا أدري أيتهما قالت أسماء ـ يؤتى أحدكم فيقال له ما علمك بهذا الرجل فأما المؤمن ـ أو الموقن لا أدري أى ذلك قالت أسماء ـ فيقول محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم جاءنا بالبينات والهدى، فأجبنا وآمنا واتبعنا‏.‏ فيقال له نم صالحا، فقد علمنا إن كنت لموقنا‏.‏ وأما المنافق ـ أو المرتاب لا أدري أيتهما قالت أسماء ـ فيقول لا أدري، سمعت الناس يقولون شيئا فقلته‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کی بیوی فاطمہ بنت منذر نے، انہیں اسماء بن ت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے کہا کہ جب سورج کو گرہن لگا تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر آئی۔ اچانک لوگ کھڑے ہو ئے نماز پڑھ رہے تھے اور عائشہ رضی اللہ عنہا بھی نماز میں شریک تھی میں نے پوچھا کہ لوگوں کو بات کیا پیش آئی؟ اس پر آپ نے آسمان کی طرف اشارہ کر کے سبحان اللہ کہا۔ پھر میں نے پوچھا کیا کوئی نشانی ہے؟ اس کاآپ نے اشارہ سے ہاں میں جواب دیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں بھی کھڑی ہو گئی۔ لیکن مجھے چکر آگیا اس لیے میں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ وہ چیزیں جو کہ میں نے پہلے نہیں دیکھی تھیں اب انہیں میں نے اپنی اسی جگہ سے دیکھ لیا۔ جنت اور دوزخ تک میں نے دیکھی اور مجھے وحی کے ذریعہ بتا یاگیا ہے کہ تم قبر میں دجال کے فتنہ کی طرح یا ( یہ کہا کہ ) دجال کے فتنہ کے قریب ایک فتنہ میں مبتلا ہو گے۔ مجھے یاد نہیں کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کیا کہا تھا آپ نے فرمایا کہ تمہیں لایا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ اس شخص ( مجھ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے میں تم کیا جانتے ہو۔ مومن یا یہ کہا کہ یقین کرنے والا ( مجھے یاد نہیں کہ ان دوباتوں میں سے حضرت اسماء رضی اللہ عنہ نے کون سی بات کہی تھی ) تو کہے گا یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں آپ نے ہمارے سامنے صحیح راستہ اور اس کے دلائل پیش کئے اور ہم آپ پر ایمان لائے تھے اور آپ کی بات قبو ل کی اور آپ کا اتباع کیا تھا۔ اس پر اس سے کہا جائے گا کہ تو مرد صالح ہے پس آرام سے سو جاؤ ہمیں تو پہلے ہی معلوم تھا کہ تو ایمان و یقین والا ہے۔ منافق یا شک کرنے والا ( مجھے معلوم نہیں کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہ نے کیا کہا تھا ) وہ یہ کہے گا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں میں نے لوگوں سے ایک بات سنی تھی وہی میں نے بھی کہی ( آگے مجھ کو کچھ حقیقت معلوم نہیں )

تشریح : اس حدیث سے بہت سے امور پر روشنی پڑتی ہے جن میں سے صلوۃ کسوف میں عورت کی شرکت کا مسئلہ بھی ہے اور اس میںعذاب قبر اور امتحان قبر کی تفصیلات بھی شامل ہیں یہ بھی کہ ایمان والے قبر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق اورآپ کی اتباع کا اظہار کریں گے اور بے ایمان لوگ وہاں چکر میں پڑ کر صحیح جواب نہ دے سکیں گے اور دوزخ کے مستحق ہوں گے۔ اللہ ہر مسلمان کو قبر میں ثابت قدمی عطافرمائے ( آمین
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الکسوف
باب : جس نے سورج گرہن میں غلام آزاد کرناپسند کیا ( اس نے اچھا کیا )

حدیث نمبر : 1054
حدثنا ربيع بن يحيى، قال حدثنا زائدة، عن هشام، عن فاطمة، عن أسماء، قالت لقد أمر النبي صلى الله عليه وسلم بالعتاقة في كسوف الشمس‏.‏
ہم سے ربیع بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زائدہ نے ہشام سے بیان کیا، ان سے فاطمہ نے، ان سے اسماء رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن میں غلام آزاد کرنے کا حکم فرمایا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الکسوف
باب : کسوف کی نماز مسجد میں پڑھنی چاہیے

حدیث نمبر : 1055
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن يحيى بن سعيد، عن عمرة بنت عبد الرحمن، عن عائشة ـ رضى الله عنها أن يهودية، جاءت تسألها فقالت أعاذك الله من عذاب القبر‏.‏ فسألت عائشة رسول الله صلى الله عليه وسلم أيعذب الناس في قبورهم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم عائذا بالله من ذلك‏.‏
ہم سے اسماعیل بن عبد اللہ بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ نے یحی بن سعید انصاری سے بیان کیا، ان سے عمرہ بنت عبدالرحمن نے، ان سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس کچھ مانگنے آئی۔ اس نے کہا کہ آپ کو اللہ تعالی قبر کے عذاب سے بچائے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا قبر میں بھی عذاب ہوگا؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ( یہ سن کر ) فرمایا کہ میں خدا کی اس سے پناہ مانگتا ہوں۔

حدیث نمبر : 1056
ثم ركب رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات غداة مركبا، فكسفت الشمس فرجع ضحى، فمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بين ظهرانى الحجر، ثم قام فصلى، وقام الناس وراءه، فقام قياما طويلا، ثم ركع ركوعا طويلا، ثم رفع فقام قياما طويلا، وهو دون القيام الأول، ثم ركع ركوعا طويلا، وهو دون الركوع الأول، ثم رفع فسجد سجودا طويلا ثم قام فقام قياما طويلا، وهو دون القيام الأول، ثم ركع ركوعا طويلا، وهو دون الركوع الأول، ثم قام قياما طويلا، وهو دون القيام الأول، ثم ركع ركوعا طويلا، وهو دون الركوع الأول، ثم سجد وهو دون السجود الأول، ثم انصرف فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما شاء الله أن يقول، ثم أمرهم أن يتعوذوا من عذاب القبر
پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن صبح کے وقت سوار ہوئے ( کہیں جانے کے لیے ) ادھر سورج گرہن لگ گیا اس لیے آپ واپس آگئے، ابھی چاشت کا وقت تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے حجروں سے گزرے اور ( مسجد میں ) کھڑے ہو کر نماز شروع کر دی صحابہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں صف باندھ کر کھڑے ہوگئے آپ نے قیام بہت لمبا کیا رکوع بھی بہت لمبا کیا پھر رکوع سے سر اٹھا نے کے بعد دوبارہ لمبا قیام کیا لیکن پہلے سے کم اس کے بعد رکوع بہت لمبا کیا لیکن پہلے رکوع سے کچھ کم۔ پھر رکوع سے سر اٹھا کر سجدہ میں گئے اور لمبا سجدہ کیا۔ پھر لمبا قیام کیا اور یہ قیام بھی پہلے سے کم تھا۔ پھر لمبا رکوع کیا اگرچہ یہ رکوع بھی پہلے کے مقابلے میں کم تھاپھر آپ رکوع سے کھڑے ہوگئے اور لمبا قیام کیا لیکن یہ قیام پھر پہلے سے کم تھااب ( چوتھا ) رکوع کیا اگر چہ یہ رکوع بھی پہلے رکوع کے مقابلے میں کم تھا۔ پھر سجدہ کیا بہت لمبا لیکن پہلے سجدہ کے مقابلے میں کم۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد جو کچھ اللہ تعالی نے چاہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ پھر لوگوں کو سمجھایا کہ قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگیں۔

تشریح : اس حدیث اور دیگر احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قبر کا عذاب وثواب بر حق ہے۔ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عذاب قبر سے پناہ مانگنے کا حکم فرمایا۔ اس بارے میں شارحین بخاری لکھتے ہیں:لعظم ھو لہ وایضا فان ظلمۃ الکسوف اذا غمت الشمس تناسب ظلمۃ القبر والشئی یذکر فیخاف من ھذا کما یخاف من ھذا ومما یستنبط منہ انہ یدل علی ان عذاب القبر حق واھل السنۃ مجمعون علی الایمان بہ والتصدیق بہ ولا ینکرہ الامبتدع۔ ( حاشیہ بخاری ) یعنی اس کی ہولناک کیفیت کی وجہ سے آپ نے ایسا فرمایا اوراس لیے بھی کہ سورج گرہن کی کیفیت جب اس کی روشنی غائب ہو جائے قبر کے اندھیرے سے مناسبت رکھتی ہے۔ اسی طرح ایک چیز کا ذکر دوسری چیز کے ذکر کی مناسبت سے کیا جاتا ہے اوراس سے ڈرایا جاتا ہے اور اس سے ثابت ہوا کہ قبر کا عذاب حق ہے اور جملہ اہل سنت کا یہ متفقہ عقیدہ ہے جو عذاب قبر کا انکار کرے وہ بدعتی ہے۔ ( انتہیٰ
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الکسوف
باب : سورج گرہن کسی کے مرنے یا پیدا ہونے سے نہیں لگتا

رواه أبو بكرة والمغيرة وأبو موسى وابن عباس وابن عمر ـ رضى الله عنهم‏.‏
اس کو ابوبکرہ، مغیرہ، ابو موسی اشعری، ا بن عباس اور ا بن عمر رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے۔

حدیث نمبر : 1057
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن إسماعيل، قال حدثني قيس، عن أبي مسعود، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ الشمس والقمر لا ينكسفان لموت أحد ولا لحياته، ولكنهما آيتان من آيات الله، فإذا رأيتموهما فصلوا‏"‏‏. ‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ قطان نے اسماعیل بن ابی خالد سے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے قیس نے بیان کیا، ان سے ابو مسعود عقبہ بن عامر انصاری صحابی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورج اور چاند میں گرہن کسی کی موت کی وجہ سے نہیں لگتا البتہ یہ دونوں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں، اس لیے جب تم گرہن دیکھو تو نماز پڑھو۔

حدیث نمبر : 1058
حدثنا عبد الله بن محمد، قال حدثنا هشام، أخبرنا معمر، عن الزهري، وهشام بن عروة، عن عروة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت كسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فقام النبي صلى الله عليه وسلم فصلى بالناس، فأطال القراءة، ثم ركع فأطال الركوع، ثم رفع رأسه فأطال القراءة، وهى دون قراءته الأولى، ثم ركع فأطال الركوع دون ركوعه الأول، ثم رفع رأسه فسجد سجدتين، ثم قام فصنع في الركعة الثانية مثل ذلك، ثم قام فقال ‏"‏ إن الشمس والقمر لا يخسفان لموت أحد ولا لحياته، ولكنهما آيتان من آيات الله يريهما عباده، فإذا رأيتم ذلك فافزعوا إلى الصلاة‏"‏‏. ‏
ہم سے عبد اللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری اور ہشام بن عروہ نے، انہیں عروہ بن زبیر نے، انہیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں سورج کو گرہن لگا توآپ کھڑے ہوئے اور لوگوں کے ساتھ نماز میں مشغول ہو گئے۔ آپ نے لمبی قرات کی۔ پھر رکوع کیا اور یہ بھی بہت لمبا تھا۔ پھر سر اٹھا یا اور اس مرتبہ بھی دیر تک قرات کی مگر پہلی قرات سے کم۔ اس کے بعد آپ نے ( دوسری مرتبہ ) رکوع کیا بہت لمبا لیکن پہلے کے مقابلہ میں مختصر پھر رکوع سے سراٹھا کرآپ سجدہ میں چلے گئے اور دو سجدے کئے پھر کھڑے ہوئے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا جیسے پہلی رکعت میں کر چکے تھے۔ اس کے بعد فرمایا کہ سورج اور چاند میں گرہن کسی کی موت و حیات سے نہیں لگتا۔ البتہ یہ دونوں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں جنہیں اللہ تعالی اپنے بندوں کو دکھاتا ہے، اس لیے جب تم انہیں دیکھو توفوراً نماز کے لیے دوڑو۔

حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الکسوف
باب : سورج گرہن میں اللہ کو یاد کرنا

رواه ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ‏.‏
اس کو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کیا۔

حدیث نمبر : 1059
حدثنا محمد بن العلاء، قال حدثنا أبو أسامة، عن بريد بن عبد الله، عن أبي بردة، عن أبي موسى، قال خسفت الشمس، فقام النبي صلى الله عليه وسلم فزعا، يخشى أن تكون الساعة، فأتى المسجد، فصلى بأطول قيام وركوع وسجود رأيته قط يفعله وقال ‏"‏ هذه الآيات التي يرسل الله لا تكون لموت أحد ولا لحياته، ولكن يخوف الله به عباده، فإذا رأيتم شيئا من ذلك فافزعوا إلى ذكره ودعائه واستغفاره‏"‏‏.
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن عبداللہ نے، ان سے ابوبردہ نے، ان سے ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ ایک دفعہ سورج گرہن ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت گھبرا کر اٹھے اس ڈر سے کہ کہیں قیامت نہ قائم ہو جائے۔ آپ نے مسجد میں آکر بہت ہی لمبا قیام لمبا رکوع اور لمبے سجدوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ میں نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کرتے نہیں دیکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد فرمایا کہ یہ نشانیاں ہیں جنہیں اللہ تعالی بھیجتا ہے یہ کسی کی موت وحیات کی وجہ سے نہیں آتیں بلکہ اللہ تعالی ان کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اس لیے جب تم اس طرح کی کوئی چیز دیکھو تو فوراً اللہ تعالی کے ذکر اور اس سے استغفار کی طرف لپکو۔

تشریح : قیامت کی کچھ علامات ہیں جو پہلے ظاہر ہوں گی اور پھر اس کے بعد قیامت برپا ہوگی۔ اس حدیث میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات میں ہی قیامت ہو جانے سے ڈرے حالانکہ اس وقت قیامت کی کوئی علامت نہیں پائی جا سکتی تھی۔ اس لیے اس حدیث کے ٹکڑے کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ آپ اس طرح کھڑے ہوئے جیسے ابھی قیامت آجائے گی گویا اس سے آپ کی خشیت وخوف کی حالت کو بتانا مقصود ہے اللہ تعالی کی نشانیوں کو دیکھ کر ایک خاشع وخاضع کی یہ کیفیت ہو جاتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اگر کبھی گھٹا دیکھتے یا آندھی چل پڑتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وقت بھی یہی کیفیت ہو جاتی تھی۔ یہ صحیح ہے کہ قیامت کی ابھی علامتیں ظہور پذیر نہیں ہوئی تھیں۔ لیکن جو اللہ تعالی کی شان جلالی وقہاری میں گم ہو تا ہے وہ ایسے مواقع پر غوروفکر سے کام نہیں لے سکتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جنت کی بشارت دی گئی تھی لیکن آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر حشر میں میرا معاملہ برابرسرابر پر ختم ہو جائے تو میں اسی پر راضی ہوں۔ اس کی وجہ بھی یہی تھی۔ الغرض بہ نظر غور وتدبر وانصاف اگر دیکھا جائے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا چاند اور سورج گرہن کی حقیقت آپ نے ایسے جامع لفظوں میں بیان فرمادی کہ سائنس کی موجودہ معلومات اور آئندہ کی ساری معلومات اسی ایک جملہ کے اندر مدغم ہو کر رہ گئی ہیں۔ بلا شک وشبہ جملہ اختراعات جدید اور ایجادات موجودہ معلومات سائنسی سب اللہ پاک کی قدرت کی نشانیاں ہیں سب کا اولین موجد وہی ہے جس نے انسان کو ان ایجادات کے لیے ایک بیش قیمت دماغ عطا فرمادیا فتبارک اللہ احسن الخالقین والحمد للہ رب العالمین۔

قال الکرمانی ھذا تمثیل من الراوی کانہ فزع کالخاشی ان یکون القیامۃ والافکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم عالما بان الساعۃ لا تقوم وھو بین اظھرھم وقد وعد اللہ اعلاءدینہ علی الا دیان کلھا ولم یبلغ الکتاب اجلہ یعنی کرمانی نے کہا کہ یہ تمثیل راوی کی طرف سے ہے گویاآپ ایسے گھبرائے جیسے کوئی قیامت کے آنے سے ڈر رہا ہو۔ ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو جانتے تھے کہ آپ کی موجودگی میں قیامت قائم نہیں ہوگی، اللہ نے آپ سے وعدہ کیا ہے کہ قیامت سے پہلے آپ کادین جملہ ادیان پر غالب آکر رہے گا اور آپ کو یہ بھی معلوم تھا کہ ابھی قیامت کے بارے میں اللہ کا نوشتہ اپنے وقت کو نہیں پہنچا ہے واللہ اعلم بالصواب وما علینا الا البلاغ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الکسوف
باب : سورج گرہن میں دعا کرنا

قاله أبو موسى وعائشة ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
اس کو ابو موسی اور عائشہ رضی اللہ عنہما نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے۔

حدیث نمبر : 1060
حدثنا أبو الوليد، قال حدثنا زائدة، قال حدثنا زياد بن علاقة، قال سمعت المغيرة بن شعبة، يقول انكسفت الشمس يوم مات إبراهيم، فقال الناس انكسفت لموت إبراهيم‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله، لا ينكسفان لموت أحد ولا لحياته، فإذا رأيتموهما فادعوا الله وصلوا حتى ينجلي‏"‏‏.
ہم سے ابو الولید طیالسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے زائدہ بن قدامہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے زیاد بن علاقہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ انہوں نے کہا کہ جس دن ابراہیم رضی اللہ عنہ کی موت ہوئی سورج گرہن بھی اسی دن لگا۔ اس پر بعض لوگوں نے کہا کہ گرہن ابراہیم رضی اللہ عنہ ( آنحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ) کی وفات کی وجہ سے لگا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے دو نشان ہیں۔ ان میں گرہن کسی کی موت وحیات کی وجہ سے نہیں لگتا۔ جب اسے دیکھو تو اللہ پاک سے دعا کرو اور نماز پڑھو تا آنکہ سورج صاف ہو جائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الکسوف

باب : گرہن کے خطبہ میں امام کا امابعد کہنا

حدیث نمبر : 1061
وقال أبو أسامة حدثنا هشام، قال أخبرتني فاطمة بنت المنذر، عن أسماء، قالت فانصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد تجلت الشمس فخطب، فحمد الله بما هو أهله ثم قال ‏"‏ أما بعد‏"‏‏.
اور ابو اسامہ نے بیا ن کیا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے فاطمہ بنت منذر نے خبر دی، ان سے حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ جب سورج صاف ہو گیا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے اور آپ نے خطبہ دیا۔ پہلے اللہ تعالی کی شان کے مطابق اس کی تعریف کی اس کے بعد فرمایا “ اما بعد
 
Top