• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الکسوف

باب : چاند گرہن کی نماز پڑھنا

حدیث نمبر : 1062
حدثنا محمود، قال حدثنا سعيد بن عامر، عن شعبة، عن يونس، عن الحسن، عن أبي بكرة ـ رضى الله عنه ـ قال انكسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى ركعتين‏.‏
ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید بن عامر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے یونس نے، ان سے امام حسن بصری نے اور ان سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی تھی۔

تشریح : یہاں یہ اعتراض ہو اہے کہ یہ حدیث ترجمہ باب سے مطابقت نہیں رکھتی اس میں تو چاند کا ذکر تک نہیں ہے اور جواب یہ ہے کہ یہ روایت مختصر ہے اس روایت کی جو آگے آتی ہے اس میں صاف چاند کا ذکر ہے تو مقصود وہی دوسری روایت ہے اور اس کو اس لیے ذکر کردیا کہ معلوم ہو جائے کہ روایت مختصر بھی مروی ہوئی ہے بعضوں نے کہا صحیح بخاری کے ایک نسخہ میں اس حدیث میں یوں ہے انکسف القمر دوسرے ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے اس طریق کی طرف اشارہ کیا ہو جس کو ابن ابی شیبہ نے نکالا اس میں یوں ہے انکسفت الشمس و القمرامام بخاری رحمہ اللہ کی عادت ہے کہ ایک حدیث بیان کرکے اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کر تے ہیں اور باب کا مطلب اس سے نکالتے ہیں ( وحیدی )

سیرت ابن حبان میں ہے کہ 5ھ میں چاند گرہن بھی ہوا تھا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں بھی نماز با جماعت ادا کی تھی۔ معلوم ہو اکہ چاند گرہن اور سورج گرہن ہر دو کا ایک ہی حکم ہے مگر ہمارے محترم برادران احناف چاند گرہن کی نماز کے لیے نماز با جماعت کے قائل نہیں ہیں۔ اس کو تنہا پڑھنے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ اس باب میں ان کے پاس بجزرائے قیاس کوئی دلیل پختہ نہیں ہے مگر ان کو اس پر اصرار ہے لیکن سنت رسول کے شیدائیوں کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طور طریقہ ہی سب سے بہتر عمدہ چیز ہے۔ الحمد للہ علی ذالک۔

حدیث نمبر : 1063
حدثنا أبو معمر، قال حدثنا عبد الوارث، قال حدثنا يونس، عن الحسن، عن أبي بكرة، قال خسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فخرج يجر رداءه حتى انتهى إلى المسجد، وثاب الناس إليه فصلى بهم ركعتين، فانجلت الشمس فقال ‏"‏ إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله، وإنهما لا يخسفان لموت أحد، وإذا كان ذاك فصلوا وادعوا حتى يكشف ما بكم‏"‏‏. ‏ وذاك أن ابنا للنبي صلى الله عليه وسلم مات، يقال له إبراهيم، فقال الناس في ذاك‏.
ہم سے ابو معمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالورث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یونس نے بیان کیا، ان سے امام حسن بصری نے، ان سے ابوبکرہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا توآپ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے ( بڑی تیزی سے ) مسجد میں پہنچے۔ صحابہ بھی جمع ہو گئے۔ پھر آپ نے انہیں دو رکعت نماز پڑھائی، گرہن بھی ختم ہو گیا۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں اور ان میں گرہن کسی کی موت پر نہیں لگتا اس لیے جب گرہن لگے تو اس وقت تک نماز اور دعا میں مشغول رہو جب تک یہ صاف نہ ہو جائے۔ یہ آپ نے اس لیے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صاحبزادے ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ( اسی دن ) ہوئی تھی اور بعض لوگ ان کے متعلق کہنے لگے تھے ( کہ گرہن ان کی موت پر لگا ہے۔ )

اس حدیث میں صاف چاند گرہن کا ذکر موجود ہے اور یہی مقصد باب ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الکسوف
باب : جب امام گرہن کی نماز میں پہلی رکعت لمبی کردے اور کوئی عورت اپنے سر پر پانی ڈالے

اس باب میں حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے کوئی حدیث بیان نہیں کی بعض نسخوں میں یہ ترجمہ باب نہیں ہے تو شاید ایسا ہوا کہ یہ باب قائم کر کے امام بخاری رحمہ اللہ اس میں کوئی حدیث لکھنے والے تھے مگر ان کو موقع نہ ملایا ان کو خیال نہ رہا اور اوپر جو حدیث حضرت اسماءرضی اللہ عنہا کی کئی بار گزری اس سے باب کا مطلب نکل آتا ہے ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الکسوف

باب : گرہن کی نماز میں پہلی رکعت کا لمبا کرنا

حدیث نمبر : 1064
حدثنا محمود، قال حدثنا أبو أحمد، قال حدثنا سفيان، عن يحيى، عن عمرة، عن عائشة ـ رضى الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى بهم في كسوف الشمس أربع ركعات في سجدتين، الأول الأول أطول‏.‏
ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو احمد محمد بن زبیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے یحیی بن سعید انصاری نے، ان سے عمرہ نے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن کی دو رکعتوں میں چار رکوع کئے اور پہلی رکعت دوسری رکعت سے لمبی تھی۔

سورج اور چاند گرہن میں نماز با جماعت مسنون ہے مگر حنفیہ چاند گرہن میں نماز با جماعت کے قائل نہیں۔ خدا جانے ان کویہ فرق کرنے کی ضرورت کیسے محسوس ہوئی کہ سورج گرہن میں تو نماز با جماعت جائز ہو اور چاند گرہن میں ناجائز۔ اس فرق کے لیے کوئی واضح دلیل ہونی چاہیے تھی بہر حال خیال اپنااپنا نظر اپنی اپنی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الکسوف
باب : گرہن کی نماز میں بلند آواز سے قرات کرنا

حدیث نمبر : 1065
حدثنا محمد بن مهران، قال حدثنا الوليد، قال أخبرنا ابن نمر، سمع ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ جهر النبي صلى الله عليه وسلم في صلاة الخسوف بقراءته، فإذا فرغ من قراءته كبر فركع، وإذا رفع من الركعة قال سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد‏.‏ ثم يعاود القراءة في صلاة الكسوف، أربع ركعات في ركعتين وأربع سجدات‏.
ہم سے محمد بن مہران نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ولید بن سلم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدا لرحمن بن نمر نے بیان کیا، انہوں نے ا بن شہاب سنا، انہوں نے عروہ سے اور عروہ نے ( اپنی خالہ ) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گرہن کی نماز میں قرات بلند آواز سے کی، قرات سے فارغ ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کہہ کر رکوع میں چلے گئے جب رکوع سے سر اٹھا یا تو سمع اللہ لمن حمدہ ر بنا ولک الحمد کہا پھر دوبارہ قرات شروع کی۔ غرض گرہن کی دو رکعتوں میں آپ نے چار رکوع اور چار سجدے کئے۔

حدیث نمبر : 1066
وقال الأوزاعي وغيره سمعت الزهري، عن عروة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن الشمس، خسفت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فبعث مناديا بالصلاة جامعة، فتقدم فصلى أربع ركعات في ركعتين وأربع سجدات‏.‏ وأخبرني عبد الرحمن بن نمر سمع ابن شهاب مثله‏.‏ قال الزهري فقلت ما صنع أخوك ذلك، عبد الله بن الزبير ما صلى إلا ركعتين مثل الصبح إذ صلى بالمدينة‏.‏ قال أجل، إنه أخطأ السنة‏.‏ تابعه سفيان بن حسين وسليمان بن كثير عن الزهري في الجهر‏.‏
اور امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے زہری سے سنا، انہوں نے عروہ سے اور عروہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں سورج گرہن لگا تو آپ نے ایک آدمی سے اعلان کرا دیا کہ نماز ہونے والی ہے پھر آپ نے دو رکعتیں چار رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ پڑھیں۔ ولید بن مسلم نے بیان کیا کہ مجھے عبد الرحمن بن نمر نے خبر دی اور انہوں نے ا بن شہاب سے سنا، اسی حدیث کی طرح زہری ( ا بن شہاب ) نے بیان کیا کہ اس پر میں نے ( عروہ سے ) پوچھا کہ پھر تمہارے بھائی عبد اللہ بن زبیر نے جب مدینہ میں کسوف کی نماز پڑھائی تو کیوں ایسا کیا کہ جس طرح صبح کی نماز پڑھی جاتی ہے۔ اسی طرح یہ نماز کسوف بھی انہوں نے پڑھائی۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں انہوں نے سنت کے خلاف کیا۔ عبد الرحمن بن نمر کے ساتھ اس حدیث کو سلیمان بن کثیر اور سفیان بن حسین نے بھی زہری سے روایت کیا، اس میں بھی پکار کر قرات کرنے کا بیان ہے۔

تشریح : یعنی سنت یہ تھی کہ گرہن کی نماز میں ہر رکعت میں دو رکوع کرتے دو قیام مگر عبد اللہ بن زبیر نے جو صبح کی نماز کی طرح اس میں ہر رکعت میں ایک رکوع کیا اور ایک ہی قیام تو یہ ان کی غلطی ہے وہ چوک گئے طریقہ سنت کے خلاف کیا۔ عبد الرحمن بن نمر کے بارے میں لوگوں نے کلام کیا ہے گو زہری وغیرہ نے اس کوثقہ کہاہے مگر یحییٰ بن معین نے اس کو ضعیف کہا ہے توا مام بخاری نے اس روایت کا ضعف رفع کرنے کے لیے یہ بیان فرما کر کہ عبد الرحمن کی متابعت سلیمان بن کثیر اور سفیان بن حسین نے بھی کی ہے مگر متابعت سے حدیث قوی ہو جاتی ہے۔ حافظ نے کہا کہ ان کے سواعقیل اوراسحاق بن راشد نے بھی عبد الرحمن بن نمرکی متابعت کی ہے۔ سلیمان بن کثیر کی روایت کو امام احمد رحمہ اللہ نے اور سفیان بن حسین کی روایت کو ترمذی اور طحاوی نے، عقیل کی روایت کو بھی طحاوی رحمہ اللہ نے اور اسحاق بن راشد کی روایت کو دار قطنی نے وصل کیا ہے ( مولانا وحید الزماں مرحوم )

وقد ورد الجھر فیھا عن علی مرفوعا اخرجہ ابن خزیمۃوغیرہ وبہ قال صاحباابی حنیفۃ واحمد واسحاق وابن خزیمۃ وابن المنذر وغیرھما من الشافعیۃ وابن العربی۔ ( فتح الباری )
یعنی کسوف میں جہری قرات کے بارے میں حضرت علی سے بھی مرفوعا اور موقوفا ابن خزیمہ نے روایت کی ہے اور حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے دونوں شاگرد امام محمد اور امام ابویوسف بھی اسی کے قائل ہیں اور احمد اور اسحاق اور ابن خزیمہ اورابن منذر اورابن عربی وغیرہ بھی جہر کے قائل ہیں۔ واللہ اعلم۔

حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ :جھر النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوۃ الخسوف بقرائتہ کے ذیل میں حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں ھذا نص فی ان قرائتہ صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوۃ الکسوف الشمس کانت جھرا لاسراو ھو یدل علی ان السنۃ فی صلوۃ الکسوف ھی الجھر بالقراءۃ لا الاسرار ویدل لذلک ایضا حدیث اسماءعند البخاری قال الزیلعی فی نصب الرایۃ ص:232ج: 2 ) الحافظ فی الدرایۃ، ص:137 وابن الھمام فی فتح القدیر والعینی فی النھایۃ وللبخاری من حدیث اسماءبنت ابی بکر قالت جھر النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوۃ الکسوف انتھی ویدل لہ ایضا لہ ما روی ابن خزیمۃ والطحاوی عن علی مرفوعا وموقوفا من الجھر بالقراءۃ فی صلوۃ الکسوف قال الطحاوی بعد روایۃ الحدیث عن علی موقوفا ولو لم یجھر النبی صلی اللہ علیہ وسلم حین صلی علی معہ لما جھر علی ایضا لانہ علم انہ السنۃ فلم یترک الجھر واللہ اعلم ( مرعاۃ ج:2ص:375 ) یعنی یہ حدیث اس امر پر نص ہے کہ کسوف شمس کی نماز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قرات جہری تھی سری نہ تھی اور یہ دلیل ہے کہ صلوۃ کسوف میں جہری قرات سنت ہے نہ کہ سری اور اس پر حضرت اسماءکی حدیث بھی دلیل ہے۔ زیلعی نے اپنی کتاب نصب الرایہ، ج:2ص: 232 پر اور حافظ نے درایہ، ص:137 پر اور ابن ہمام نے فتح القدیر میں اور عینی نے نہایہ میں لکھا ہے کہ امام بخاری کے لیے حدیث اسماءبنت ابی بکر بھی دلیل ہے جس میں ان کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسوف کی نماز میں جہری قرات کی تھی اور ابن خزیمہ اور طحاوی میں بھی حضرت علی کی سند سے مرفوعا اور موقوفا ہر دو طرح سے نماز کسوف کی نماز میں قرات کی دلیل موجود ہے۔ حضرت علی کی اس روایت کوذکر فرما کر امام طحاوی نے فرمایا کہ جس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کسوف کی نماز ادا کی تھی اس وقت اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جہری قرات نہ فرماتے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اپنی نماز میں جہری قرات نہ کرتے۔ وہ بلا شک جانتے تھے کہ جہری سنت ہے، اس لیے انہوں نے اسے ترک نہیں کیا اورسنت نبوی کے مطابق جہری قرات کے ساتھ اسے ادا فرمایا۔

اس بارے میں کچھ علماءمتقدمین نے اختلافات بھی کئے ہیں مگر دلائل قویہ کی رو سے ترجیح جہری قرات ہی کو حاصل ہے وقال فی السیل الجرار روایۃ الجھر اصح واکثر راوی الجھر مثبت وھو مقدم علی النافی وتاول بعض الحنفیۃ حدیث عائشۃ بانہ صلی اللہ علیہ وسلم جھر بایۃ او آیتین قال فی البدائع نحمل ذلک علی انہ جھر ببعضھا اتفاقا کما روی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یسمع الآیۃ والآیتین فی صلوۃ الظھر احیانا انتھی وھذا تاویل باطل لان عائشۃ کانت تصلی فی حجر تھا قریبا من القبلۃ وکذا اختھا اسماءومن کان کذلک لا یخفی علیہ قراۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فلو کانت قراءتہ سرا وکان یجھر بایۃ او آیتین احیانا کما فعل کذلک فی صلوۃ الظھر لما عبرت عن ذلک بانہ کان جھر بالقراۃ فی صلوۃ الکسوف کما لم یقل احد ممن روی قرائتہ فی صلوۃ الظھر انہ جھر فیھا بالقراۃ حوالہ مذکورہ یعنی سیل جرار میں کہا کہ جہر کی روایت صحیح اوراکثر ہیں اور جہر کی روایت کرنے والا راوی مثبت ہے جو نفی کرنے والے پر اصولا مقدم ہے بعض حنفیہ نے یہ تاویل کی ہے کہ آپ نے بعض آیات کو جہر سے پڑھ دیا تھا جیسا کہ آپ بعض دفعہ ظہر کی نماز میں بھی بعض آیات جہر سے پڑھ دیا کرتے تھے پس حدیث عائشہ میں جہری سے یہی مراد ہے اور یہ تاویل بالکل باطل ہے کیونکہ حضرت عائشہ اوران کی بہن اسماءقبلہ کے قریب اپنے حجروں میں نماز پڑھتی تھیں اور جو ایسا ہو اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قرات مخفی رہ سکتی ہے پس اگر آپ کی قرات کسوف کی نماز میں سری ہوتی اور آپ کبھی کبھار کوئی آیت ظہر کی طرح پڑھ دیا کرتے تو عائشہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہ سے جہری قرات سے نہ تعبیر کرتیں جیسا کہ آپ کے نماز ظہر میں بعض آیات کو جہری پڑھ دینے سے کسی نے بھی اس کو جہری قرات پر محمول نہیں کیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب سجود القرآن


صحیح بخاری -> کتاب سجود القرآن
(سجود قرآن کے مسائل)
بسم اللہ الرحمن الرحیم

باب : سجدہ تلاوت اور اس کے سنت ہونے کا بیان
تشریح : سجدہ تلاوت اکثر ائمہ کے نزدیک سنت ہے اور حضرت امام ابو حنیفہ کے ہاں واجب ہے۔ اہلحدیث کے نزدیک قرآن شریف میں پندرہ جگہ سجدہ تلاوت ہے۔ سورۃ حج میں دو سجدے ہیں امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک سورۃ جن میں سجدہ نہیں ہے اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک سورۃ حج میں ایک ہی سجدہ ہے حالانکہ صاف روایت موجود ہے کہ سورۃ حج میں دو سجدے ہیں جو یہ دو سجدہ نہ کرے وہ اس سورۃ کو نہ پڑھے۔ بہر حال اپنا اپنا خیال اوراپنی اپنی ذمہ داری ہے۔ سجدہ تلاوت میں یہ دعا ماثور ہے :سجد وجھی للذی خلقہ وشق سمعہ وبصرہ بحولہ وقوتہ۔

حدیث نمبر : 1067
حدثنا محمد بن بشار، قال حدثنا غندر، قال حدثنا شعبة، عن أبي إسحاق، قال سمعت الأسود، عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ قال قرأ النبي صلى الله عليه وسلم النجم بمكة فسجد فيها، وسجد من معه، غير شيخ أخذ كفا من حصى أو تراب فرفعه إلى جبهته وقال يكفيني هذا‏.‏ فرأيته بعد ذلك قتل كافرا‏.‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا اور ان سے ابو اسحاق نے انہوں نے کہا کہ میں نے اسود سے سنا انہوں نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہ مکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النجم کی تلاوت کی اور سجدہ تلاوت کیا آپ کے پاس جتنے آدمی تھے ( مسلمان اور کافر ) ان سب نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا البتہ ایک بوڑھا شخص ( امیہ بن خلف ) اپنے ہاتھ میں کنکری یا مٹی اٹھا کر اپنی پیشانی تک لے گیا اور کہا میرے لیے یہی کافی ہے میں نے دیکھا کہ بعد میں وہ بوڑھا کافر ہی رہ کر مارا گیا۔

تشریح : شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ نجم کی تلاوت کی تو مشرکین اس درجہ مقہور ومغلوب ہو گئے کہ آپ نے آیت سجدہ پر سجدہ کیا تو مسلمانوں کے ساتھ وہ بھی سجدہ میں چلے گئے۔ اس باب میں یہ تاویل سب سے زیادہ مناسب اور واضح ہے حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ بھی اسی طرح کا واقعہ پیش آیا تھا۔ قرآن مجید میں ہے کہ جب فرعون کے بلائے ہوئے جادوگروں کے مقابلہ میں آپ کاعصا سانپ ہوگیا اور ان کے شعبدوں کی حقیقت کھل گئی تو سارے جادوگر سجدہ میں پڑ گئے۔ یہ بھی حضرت موسی علیہ السلام کے معجزہ سے مدہوش ومغلوب ہو گئے تھے۔ اس وقت انہیں اپنے اوپر قابونہ رہا تھا۔ اور سب بیک زبان بول اٹھے تھے کہ امنا برب موسی وھارون یہی کیفیت مشرکین مکہ کی ہوگئی تھی۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آیت سجدہ پر پہنچے تو آپ نے سجدہ کیا اور ہم نے سجدہ کیا۔ دارقطنی کی روایت میں ہے کہ جن وانس تک نے سجدہ کیا۔ جس بوڑھے نے سجدہ نہیں کیا تھا وہ امیہ بن خلف تھا۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اما المصنف فی روایۃ اسرائیل ان النجم اول سورۃ انزلت فیھا سجدۃ وھذا ھوا لسر فی بداءۃ المصنف فی ھذہ الابواب بھذا الحدیث یعنی مصنف نے روایت اسرائیل میں بتایا کہ سورۃ نجم پہلی سورت ہے جس میں سجدہ نازل ہوا یہاں بھی ان ابواب کو اسی حدیث سے شروع کرنے میں یہی بھید ہے یوں تو سجدہ سورۃہ اقرا میں اس سے پہلے بھی نازل ہو چکا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کا کھل کر اعلان فرمایا وہ یہی سورۃہ نجم ہے اور اس میں یہ سجدہ ہے ان المراد اول سورۃ فیھا سجدۃ تلاوتھا جھرا علی المشرکین ( فتح الباری
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب سجود القرآن

باب : سورۃ الم تنزیل میں سجدہ کرنا

حدیث نمبر : 1068
حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن سعد بن إبراهيم، عن عبد الرحمن، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يقرأ في الجمعة في صلاة الفجر ‏{‏الم * تنزيل‏}‏ السجدة و‏{‏هل أتى على الإنسان‏}‏
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، انہوں نے سعد بن ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف سے بیان کیا، ان سے عبد الرحمن بن ہرمز اعرج نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن فجر کی نماز میں الم تنزیل السجدہ اور ھل اتی علی الانسان ( سورۃ دھر ) پڑھا کرتے تھے۔

تشریح : یہ حدیث ترجمہ باب کے مطابق نہیں ہے مگر حضرت امام رحمہ اللہ نے اپنی وسعت نظری کی بنا پر اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کر دیا جسے طبرانی نے معجم صغیر میں نکالا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز میں سورہ الم تنزیل کی تلاوت فرمائی اور سجدہ تلاوت کیا یہ روایت حضرت امام کے شرائط پر نہ تھی۔ اس لیے یہاں صرف یہ روایت لائے جس میں خالی پہلی رکعت میں الم تنزیل پڑھنے کا ذکر ہے اس میں بھی یہ اشارہ ہے کہ اگر چہ احادیث میں سجدہ تلاوت کاذکر نہیں مگر اس میں سجدہ تلاوت ہے لہٰذا اعلاناً آپ نے سجدہ کیا ہوگا۔

علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں لم ارفی شئی من الطریق التصریح بانہ صلی اللہ علیہ وسلم سجد لما قرا سورۃ تنزیل السجدۃ فی ھذا المحل الا فی کتاب الشریعۃ لابن ابی داؤد من طریق اخری عن سعید بن جبیر عن ابن عباس قال غدوت علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم الجمعۃ فی صلوۃ الفجر فقرا سورۃ فیھا سجدۃ فسجد الحدیث وفی اسنادہ من ینظر فی حالہ وللطبرانی فی الصغیر من حدیث علی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم سجد فی صلوۃ الصبح فی تنزیل السجدۃ لکن فی اسنادہ ضعف یعنی میں صراحتا کسی روایت میں یہ نہیں پایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس مقام پر ( یعنی نماز فجر میں ) سورۃ الم تنزیل سجدہ کو پڑھا آپ نے یہا ں سجدہ کیا ہوہاں کتاب الشریعۃ ابن ابی داؤد میں ابن عباس سے مروی ہے کہ میں نے ایک جمعہ کے دن فجر کی نماز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ادا کی اور آپ نے سجدہ والی سورۃ پڑھی اور سجدہ کیا۔ طبرانی میں حدیث علی رضی اللہ عنہ میں یہ وضاحت موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز میں یہ سورۃ پڑھی اور سجدہ کیا۔ ان سورتوں کے فجر کی نماز میں جمعہ کے دن بلاناغہ پڑھنے میں بھید یہ ہے کہ ان میں پیدائش آدم پھر قیامت کے واقع ہونے کا ذکر ہے۔ آدم کی پیدائش جمعہ کے ہی دن ہوئی اور قیامت بھی جمعہ کے ہی دن قائم ہوگی جمعہ کے دن نماز فجر میں ان ہر دو سورتوں کو ہمیشگی کے ساتھ پڑھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور یہ بھی ثابت شدہ امر ہے کہ سورہ الم تنزیل میں سجدہ تلاوت ہے پس یہ ممکن نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سورہ شریفہ کو پڑھیں اور سجدہ تلاوت نہ کریں۔ پھر طبرانی وغیرہ میں صراحت کے ساتھ اس امر کا ذکر بھی موجود ہے اس تفصیل کے بعد علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے جو نفی فرمائی ہے وہ اسی حقیقت بیان کردہ کی روشنی میں مطالعہ کرنی چاہیے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب سجود القرآن
باب : سورۃ ص میں سجدہ کرنا

حدیث نمبر : 1069
حدثنا سليمان بن حرب، وأبو النعمان، قالا حدثنا حماد، عن أيوب، عن عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال ‏{‏ص‏}‏ ليس من عزائم السجود، وقد رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يسجد فيها‏.‏
ہم سے سلیمان بن حرب اور ابوالنعمان بن فضل نے بیان کیا، ان دونوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیا ن کیا، ان سے ایوب نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ سورۃ ص کا سجدہ کچھ تاکیدی سجدوں میں سے نہیں ہے اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔

تشریح : نسائی میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ ص میں سجدہ کیا اور فرمایا کہ یہ سجدہ داؤد علیہ السلام نے توبہ کے لیے کیا تھا ہم شکر کے طور پر یہ سجدہ کرتے ہیں اس حدیث میں “لیس من عزائم السجود” کابھی یہی مطلب ہے کہ سجدہ تو داؤد علیہ السلام کا تھا اور انہیں کی سنت پر ہم بھی شکر کے لیے یہ سجدہ کر تے ہیں۔ اللہ تعالی نے حضرت داؤد علیہ السلام کی توبہ قبول کر لی تھی۔

والمراد بالعزائم ما وردت العزیمۃ علی فعلہ کصیغۃ الامر الخ ( فتح الباری ) یعنی عزائم سے مراد وہ جن کے لیے صیغہ امر کے ساتھ تاکید وارد ہوئی ہو۔ سورۃ ص کا سجدہ ایسا نہیں ہے ہاں بطور شکر سنت ضرور ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب سجود القرآن
باب : سورۃ نجم میں سجدہ کا بیان

قاله ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
اس کو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے۔

حدیث نمبر : 1070
حدثنا حفص بن عمر، قال حدثنا شعبة، عن أبي إسحاق، عن الأسود، عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم قرأ سورة النجم فسجد بها، فما بقي أحد من القوم إلا سجد، فأخذ رجل من القوم كفا من حصى أو تراب، فرفعه إلى وجهه وقال يكفيني هذا، فلقد رأيته بعد قتل كافرا‏.
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے، ابو اسحاق سے بیان کیا، ان سے اسود نے، ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ نجم کی تلاوت کی اور اس میں سجدہ کیا اس وقت قوم کا کوئی فرد ( مسلمان اور کافر ) بھی ایسا نہ تھا جس نے سجدہ نہ کیا ہو۔ البتہ ایک شخص نے ہاتھ میں کنکری یا مٹی لے کر اپنے چہرہ تک اٹھائی اور کہا کہ میرے لیے یہی کافی ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بعد میں میں نے دیکھا کہ وہ کفرکی حالت ہی میں قتل ہوا۔ ( یہ امیہ بن خلف تھا )

تشریح : اس حدیث سے سورۃ نجم میں سجدہ تلاوت بھی ثابت ہوا۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فلعل جمیع من وفق للسجود یومئذ ختم لہ بالحسنیٰ فاسلم لبرکۃ السجود یعنی جن جن لوگوں نے اس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کر لیا ( خواہ ان میں سے کافروں کی نیت کچھ بھی ہو بہرحال ) ان کو سجدہ کی برکت سے اسلام لانے کی توفیق ہوئی اور ان کا خاتمہ اسلام پر ہوا۔ بعد کے واقعات سے ثابت ہے کہ کفار مکہ بڑی تعداد میں مسلمان ہوگئے تھے جن میں یقینا اس موقعہ پر یہ سجدہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔ مگر امیہ بن خلف نے آج بھی سجدہ نہیں کیا بلکہ رسماً مٹی کو ہاتھ میں لے کر سر سے لگا لیا اس تکبر کی وجہ سے اس کو اسلام نصیب نہیں ہوا۔ آخر کفر کی ہی حالت میں وہ مارا گیا۔

خلاصہ یہ کہ سورۃ نجم میں بھی سجدہ ہے اور یہ عزائم السجود میں شمار کر لیا گیا ہے یعنی جن سجدوں کا ادا کرنا ضروری ہے وعن علی ما ورد الامر فیہ بالسجود عزیمۃ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جن آیات میں سجدہ کرنے کاحکم صادر ہوا ہے وہ سجدے ضروری ہیں ( فتح ) مگر ضروری کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ وہ فرض واجب ہوں جب کہ سجدہ تلاوت سنت کے درجہ میں ہے یہ امر علیحدہ ہے کہ ہر سنت نبوی پر عمل کرنا ایک مسلمان کے لیے سعادت دارین کا واحد وسیلہ ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب سجود القرآن
باب : مسلمانوں کا مشرکوں کے ساتھ سجدہ کرنا حالانکہ مشرک ناپاک ہے۔ اس کو وضو کہاں سے آیا

والمشرك نجس ليس له وضوء‏.‏ وكان ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يسجد على وضوء
اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بے وضو سجدہ کیا کرتے تھے۔

تشریح : اس کو ابن ابی شیبہ نے نکالا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سواری سے اتر کر استنجاکرتے پھر سوار ہوتے اور تلاوت کا سجدہ بے وضو کرتے۔ قسطلانی نے کہا کہ شعبی کے سوا اور کوئی ابن عمر کے ساتھ اس مسئلہ میں موافق نہیں ہوا بہر حال حضرت امام بخاری کا مسلک ثابت ہوا کہ بغیر وضو یہ سجدہ کیا جا سکتا ہے۔ استدل بذالک علی جواز السجود بلا وضوءعند وجود المشقۃ با لماءبالوضوء ( فتح الباری ) یعنی جب وضو کرنا مشکل ہو تو یہ سجدہ بغیر وضو جائز ہے۔

حدیث نمبر : 1071
حدثنا مسدد، قال حدثنا عبد الوارث، قال حدثنا أيوب، عن عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم سجد بالنجم وسجد معه المسلمون والمشركون والجن والإنس‏.‏ ورواه ابن طهمان عن أيوب‏.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد الوارث نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ النجم میں سجدہ کیا تو مسلمانوں، مشرکوں اور جن و انس سب نے آپ کے ساتھ سجدہ کیا۔ اس حدیث کی روایت ابراہیم بن طہمان نے بھی ایوب سختیانی سے کی ہے۔

تشریح : ظاہر ہے کہ مسلمان بھی اس وقت سب باوضو نہ ہوں گے اور مشرکوں کے وضو کا تو کوئی سوال ہی نہیں پس بے وضو سجدہ کرنے کا جواز نکلا اور امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب سجود القرآن
باب : سجدہ کی آیت پڑھ کرسجدہ نہ کرنا

حدیث نمبر : 1072
حدثنا سليمان بن داود أبو الربيع، قال حدثنا إسماعيل بن جعفر، قال أخبرنا يزيد بن خصيفة، عن ابن قسيط، عن عطاء بن يسار، أنه أخبره، أنه، سأل زيد بن ثابت ـ رضى الله عنه ـ فزعم أنه قرأ على النبي صلى الله عليه وسلم ‏{‏والنجم‏}‏ فلم يسجد فيها‏.‏
ہم سے سلیمان بن داؤد ابوالربیع نے بیا ن کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں یزید بن خصیفہ نے خبر دی، انہیں ( یزید بن عبداللہ ) ابن قسیط نے، اور انہیں عطاء بن یسار نے کہ انہوں نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے سوال کیا۔ آپ نے یقین کے ساتھ اس امر کا اظہار کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سورہ النجم کی تلاوت آپ نے کی تھی اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سجدہ نہیں کیا۔

آپ کے اس وقت سجدہ نہ کرنے کی کئی وجوہ ہیں۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اوترک حینئذ لبیان الجواز وھذا رجح الاحتمالات وبہ جزم الشافعی ( فتح ) یعنی آپ نے سجدہ اس لیے نہیں کیا کہ اس کا ترک بھی جائز ہے اسی تاویل کو ترجیح حاصل ہے امام شافعی کا یہی خیال ہے۔

حدیث نمبر : 1073
حدثنا آدم بن أبي إياس، قال حدثنا ابن أبي ذئب، قال حدثنا يزيد بن عبد الله بن قسيط، عن عطاء بن يسار، عن زيد بن ثابت، قال قرأت على النبي صلى الله عليه وسلم ‏{‏والنجم‏}‏ فلم يسجد فيها‏.‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ا بن ابی ذئب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن عبداللہ بن قسیط نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے، ان سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سورہ نجم کی تلاوت کی اور آپ نے اس میں سجدہ نہیں کیا۔

تشریح : اس باب سے امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ سجدہ تلاوت کچھ واجب نہیں ہے بعضوں نے کہا کہ اس کا رد مقصود ہے جو کہتا ہے کہ مفصل سورتوں میں سجدہ نہیں ہے کیونکہ سجدہ کرنا فوراً واجب نہیں تو سجدہ ترک کرنے سے یہ نہیں نکلتا کہ سورۃ والنجم میں سجدہ نہیں ہے۔ جو لوگ سجدہ تلاوت کو واجب کہتے ہیں وہ بھی فوراً سجدہ کرنا ضروری نہیں جانتے۔ ممکن ہے آپ نے بعد کو سجدہ کر لیاہو۔ بزاد اور دارقطنی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نکالا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ والنجم میں سجدہ کیااور ہم نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا۔
 
Top