Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الکسوف
باب : چاند گرہن کی نماز پڑھنا
حدیث نمبر : 1062
حدثنا محمود، قال حدثنا سعيد بن عامر، عن شعبة، عن يونس، عن الحسن، عن أبي بكرة ـ رضى الله عنه ـ قال انكسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى ركعتين.
ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید بن عامر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے یونس نے، ان سے امام حسن بصری نے اور ان سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی تھی۔
تشریح : یہاں یہ اعتراض ہو اہے کہ یہ حدیث ترجمہ باب سے مطابقت نہیں رکھتی اس میں تو چاند کا ذکر تک نہیں ہے اور جواب یہ ہے کہ یہ روایت مختصر ہے اس روایت کی جو آگے آتی ہے اس میں صاف چاند کا ذکر ہے تو مقصود وہی دوسری روایت ہے اور اس کو اس لیے ذکر کردیا کہ معلوم ہو جائے کہ روایت مختصر بھی مروی ہوئی ہے بعضوں نے کہا صحیح بخاری کے ایک نسخہ میں اس حدیث میں یوں ہے انکسف القمر دوسرے ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے اس طریق کی طرف اشارہ کیا ہو جس کو ابن ابی شیبہ نے نکالا اس میں یوں ہے انکسفت الشمس و القمرامام بخاری رحمہ اللہ کی عادت ہے کہ ایک حدیث بیان کرکے اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کر تے ہیں اور باب کا مطلب اس سے نکالتے ہیں ( وحیدی )
سیرت ابن حبان میں ہے کہ 5ھ میں چاند گرہن بھی ہوا تھا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں بھی نماز با جماعت ادا کی تھی۔ معلوم ہو اکہ چاند گرہن اور سورج گرہن ہر دو کا ایک ہی حکم ہے مگر ہمارے محترم برادران احناف چاند گرہن کی نماز کے لیے نماز با جماعت کے قائل نہیں ہیں۔ اس کو تنہا پڑھنے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ اس باب میں ان کے پاس بجزرائے قیاس کوئی دلیل پختہ نہیں ہے مگر ان کو اس پر اصرار ہے لیکن سنت رسول کے شیدائیوں کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طور طریقہ ہی سب سے بہتر عمدہ چیز ہے۔ الحمد للہ علی ذالک۔
حدیث نمبر : 1063
حدثنا أبو معمر، قال حدثنا عبد الوارث، قال حدثنا يونس، عن الحسن، عن أبي بكرة، قال خسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فخرج يجر رداءه حتى انتهى إلى المسجد، وثاب الناس إليه فصلى بهم ركعتين، فانجلت الشمس فقال " إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله، وإنهما لا يخسفان لموت أحد، وإذا كان ذاك فصلوا وادعوا حتى يكشف ما بكم". وذاك أن ابنا للنبي صلى الله عليه وسلم مات، يقال له إبراهيم، فقال الناس في ذاك.
ہم سے ابو معمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالورث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یونس نے بیان کیا، ان سے امام حسن بصری نے، ان سے ابوبکرہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا توآپ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے ( بڑی تیزی سے ) مسجد میں پہنچے۔ صحابہ بھی جمع ہو گئے۔ پھر آپ نے انہیں دو رکعت نماز پڑھائی، گرہن بھی ختم ہو گیا۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں اور ان میں گرہن کسی کی موت پر نہیں لگتا اس لیے جب گرہن لگے تو اس وقت تک نماز اور دعا میں مشغول رہو جب تک یہ صاف نہ ہو جائے۔ یہ آپ نے اس لیے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صاحبزادے ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ( اسی دن ) ہوئی تھی اور بعض لوگ ان کے متعلق کہنے لگے تھے ( کہ گرہن ان کی موت پر لگا ہے۔ )
اس حدیث میں صاف چاند گرہن کا ذکر موجود ہے اور یہی مقصد باب ہے۔
باب : چاند گرہن کی نماز پڑھنا
حدیث نمبر : 1062
حدثنا محمود، قال حدثنا سعيد بن عامر، عن شعبة، عن يونس، عن الحسن، عن أبي بكرة ـ رضى الله عنه ـ قال انكسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى ركعتين.
ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید بن عامر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے یونس نے، ان سے امام حسن بصری نے اور ان سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی تھی۔
تشریح : یہاں یہ اعتراض ہو اہے کہ یہ حدیث ترجمہ باب سے مطابقت نہیں رکھتی اس میں تو چاند کا ذکر تک نہیں ہے اور جواب یہ ہے کہ یہ روایت مختصر ہے اس روایت کی جو آگے آتی ہے اس میں صاف چاند کا ذکر ہے تو مقصود وہی دوسری روایت ہے اور اس کو اس لیے ذکر کردیا کہ معلوم ہو جائے کہ روایت مختصر بھی مروی ہوئی ہے بعضوں نے کہا صحیح بخاری کے ایک نسخہ میں اس حدیث میں یوں ہے انکسف القمر دوسرے ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے اس طریق کی طرف اشارہ کیا ہو جس کو ابن ابی شیبہ نے نکالا اس میں یوں ہے انکسفت الشمس و القمرامام بخاری رحمہ اللہ کی عادت ہے کہ ایک حدیث بیان کرکے اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کر تے ہیں اور باب کا مطلب اس سے نکالتے ہیں ( وحیدی )
سیرت ابن حبان میں ہے کہ 5ھ میں چاند گرہن بھی ہوا تھا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں بھی نماز با جماعت ادا کی تھی۔ معلوم ہو اکہ چاند گرہن اور سورج گرہن ہر دو کا ایک ہی حکم ہے مگر ہمارے محترم برادران احناف چاند گرہن کی نماز کے لیے نماز با جماعت کے قائل نہیں ہیں۔ اس کو تنہا پڑھنے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ اس باب میں ان کے پاس بجزرائے قیاس کوئی دلیل پختہ نہیں ہے مگر ان کو اس پر اصرار ہے لیکن سنت رسول کے شیدائیوں کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طور طریقہ ہی سب سے بہتر عمدہ چیز ہے۔ الحمد للہ علی ذالک۔
حدیث نمبر : 1063
حدثنا أبو معمر، قال حدثنا عبد الوارث، قال حدثنا يونس، عن الحسن، عن أبي بكرة، قال خسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فخرج يجر رداءه حتى انتهى إلى المسجد، وثاب الناس إليه فصلى بهم ركعتين، فانجلت الشمس فقال " إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله، وإنهما لا يخسفان لموت أحد، وإذا كان ذاك فصلوا وادعوا حتى يكشف ما بكم". وذاك أن ابنا للنبي صلى الله عليه وسلم مات، يقال له إبراهيم، فقال الناس في ذاك.
ہم سے ابو معمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالورث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یونس نے بیان کیا، ان سے امام حسن بصری نے، ان سے ابوبکرہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا توآپ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے ( بڑی تیزی سے ) مسجد میں پہنچے۔ صحابہ بھی جمع ہو گئے۔ پھر آپ نے انہیں دو رکعت نماز پڑھائی، گرہن بھی ختم ہو گیا۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں اور ان میں گرہن کسی کی موت پر نہیں لگتا اس لیے جب گرہن لگے تو اس وقت تک نماز اور دعا میں مشغول رہو جب تک یہ صاف نہ ہو جائے۔ یہ آپ نے اس لیے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صاحبزادے ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ( اسی دن ) ہوئی تھی اور بعض لوگ ان کے متعلق کہنے لگے تھے ( کہ گرہن ان کی موت پر لگا ہے۔ )
اس حدیث میں صاف چاند گرہن کا ذکر موجود ہے اور یہی مقصد باب ہے۔