کتاب تقصیر الصلوۃ
صحیح بخاری -> کتاب تقصیر الصلوۃ
باب : نماز میں قصر کرنے کا بیان اور اقامت کی حالت میں کتنی مدت تک قصر کر سکتا ہے
تشریح : قصر کے معنی کم کرنا یہاں حالت سفرمیں چار رکعت والی فرض نماز کو کم کر کے دورکعت پڑھنا مراد ہے ہجرت کے چوتھے سال قصر کی اجازت نازل ہوئی مغرب اور فجر کی فرض نمازوں میں قصر نہیں ہے اور ایسے سفر میں قصر جائز نہیں جو سفر گناہ کی نیت سے کیا جائے کوئی مسلمان ہو کر چوری کرنے یا زنا کرنے کے لیے سفر کرے تواس کے لیے قصرکی اجازت نہیں ہے۔ امام شافعی اورامام احمد اور امام مالک اور علماءکا یہی فتویٰ ہے۔ دیکھو تسہیل القاری ص: 678۔
قرآن مجید میں قصر نماز کا ذکر ان لفظوں میں ہے
فَلَیسَ عَلَیکُم جُنَاح اَن تَقصُرُوا مِنَ الصَّلٰوۃِ اِن خِفتُم اَن یَفتِنَکُم الَّذِینَ کَفَرُوا الآیہ یعنی اگر حالت سفر میں تم کو کافروں کی طرف سے خوف ہو تواس وقت نماز قصر کرنے میں تم پر گناہ نہیں اس کے متعلق یہ روایت وضاحت کے لیے کافی ہے۔
عن یعلی بن امیۃ قال قلت لعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوۃ ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا فقد امن الناس عن ذلک فقال عجبت مما عجبت منہ فسالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال صدقۃ تصدق اللہ علیکم فاقبلوا صدقتہ ( رواہ مسلم ) یعنی یعلی ابن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس آیت مذکورہ کے بارے میں کہا اب تو لوگ امن میں ہیں پھر قصر کا کیا معنی اس پر آپ نے بتلایا کہ مجھے بھی تم جیسا تردد ہوا تھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ نے فرمایا کہ اب سفر میں نماز قصر کرنا یہ اللہ کی طرف سے تمہارے لیے صدقہ ہے پس مناسب ہے کہ اس کا صدقہ قبول کرو اس حدیث سے واضح ہو گیا کہ اب قصر کرنے کے لیے سفر میں دشمن سے خوف کی قید نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بسا اوقات حالت سفر میں جب کہ آپ کو امن حاصل تھا نماز فرض قصر کر کے پڑھائی پس ارشاد باری ہے ل
کم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ یعنی تمہارے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بہترین نمونہ ہے نیز اللہ نے فرمایا
یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر یعنی اللہ پاک تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ کرتا ہے دشواری نہیں چاہتا۔
امام نووی شرح مسلم میں فرماتے ہیں کہ سفر میں نماز قصر کے واجب یا سنت ہونے میں علماءکا اختلاف ہے۔ امام شافعی اور امام مالک بن انس اور اکثر علماءنے قصر کرنے اور پوری پڑھنے ہر دو کو جائز قرار دیا ہے ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ قصر افضل ہے ان حضرات کی دلیل بہت سی احادیث مشہور ہیں جو صحیح مسلم وغیرہ میں ہیں جن میں مذکورہے کہ صحابہ کرام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کرتے ان میں بعض لوگ قصر کرتے بعض نماز پوری ادا کرتے بعض ان میں روزہ رکھتے بعض روزہ چھوڑ دیتے اورا ن میں آپس میں کوئی ایک دوسرے پر اعتراض نہ کرتا۔ حضرت عثمان اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے بھی سفر میں پوری نماز ادا کرنا منقول ہے۔
بعض علماءقصر کو واجب جانتے ہیں ان میں حضرت عمر حضرت علی اور جابر اور ابن عباس داخل ہیں اورحضرت امام مالک اور حضرت امام ابو حنیفہ کا بھی یہی قول ہے۔ المحدث الکبیر حضرت مولانا عبد الرحمن مبارک پوری فرماتے ہیں:
قلت من شان متبعی السنن النبویۃ ومقتضی الاثار المصطفویہ ان یلازمو القصر فی السفر کما لازمہ صلی اللہ علیہ وسلم ولو کان القصر غیر واجب فاتباع السنۃ فی القصر فی السفر ھو المتعین ولا حاجۃ لھم ان یتموا فی السفر ویتاولوا کما تاولت عائشۃ وتاول عثمان رضی اللہ عنہما ھذا ما عندی واللہ اعلم ( تحفۃ الاحوذی، ص:383 )
یعنی سنن نبوی کے فدائیوں کے لیے ضروری ہے کہ سفر میں قصر ہی کو لازم پکڑیں۔ اگر چہ یہ غیر واجب ہے پھر بھی اتباع سنت کا تقاضا یہی ہے کہ سفر میں قصر کیا جائے اور اتمام نہ کیا جائے اور کوئی تاویل اس بارے میں مناسب نہیں ہے۔ جیسے حضرت عائشہ صدیقہ وحضرت عثمان رضی اللہ عنہما نے تاویلات کی ہیں۔ میرا یہی خیال ہے۔
یہ بھی ایک طویل بحث ہے کہ کتنے میل کا سفر ہو جہاں سے قصر جائز ہے ا س سلسلہ میں بعض روایات میں تین میل کا بھی ذکر آیا ہے۔
قال النووی الی ان اقل مسافۃ القصر ثلاثۃ امیال وکانھم احتجو افی ذلک بما رواہ مسلم وابو داؤد من حدیث انس قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا خرج مسیرۃ ثلاثۃ امیال او فراسخ قصر الصلوۃ قال الحافظ وھو اصح حدیث ورد فی بیان ذلک واصرحہ وقد حملہ من خالفہ ان المراد بہ المسافۃ التی یبتدا منھا القصر لا غایۃالسفر یعنی انہ اراد بہ اذا سافر سفرا طویلا قصر ااذا بلغ ثلاثۃ امیال کما قال فی لفظہ الاخر ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی بالمدینۃ اربعاً وبذی الحلیفۃ رکعتین ( مرعاۃ،ج2 ص:256 )
یعنی امام نووی نے کہا کہ قصر کی کم ترین مدت تین میل ہے انہوں نے حدیث انس رضی اللہ عنہ سے دلیل لی ہے۔ جس میں ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین میل یا تین فرسخ نکلتے تو نماز قصر کرتے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قصر کے متعلق صحیح ترین حدیث یہ ہے جن لوگوں نے تین میل کو نہیں مانا انہوں نے اس حدیث کو غایت سفر نہیں بلکہ ابتداءسفر پر محمول کیا ہے۔ یعنی یہ مراد ہے کہ جب مسافر کا سفر طویل کے لیے ارادہ ہواور وہ تین میل پہنچ جائے اور نماز کا وقت آجائے تو وہ قصر کر لے جیسا کہ حدیث میں دوسری جگہ یہ بھی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر حج کے لیے نکلے تو آپ نے مدینہ میں چار رکعتیں پڑھیں اور ذی الحلیفہ میں پہنچ کر دو رکعت ادا کیں اس بارے میں طویل مباحثہ کے بعد آخری فیصلہ حضرت شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ صاحب رحمہ اللہ کے لفظوں میں یہ ہے
والراجح عندی ما ذھب الیہ الائمۃ الثلاثۃ انہ لایقصر الصلوۃ فی اقل من ثمانیۃ واربعین میلا بالھاشمی وذلک اربعۃ بردای ستۃ عشر فرسخا وھی مسیرۃ یوم ولیلۃ بالسیر الحثیث وذھب اکثر علماءاھل الحدیث فی عصرنا مسافۃ ثلاثۃ فراسخ مستدلین لذالک الحدیث انس المقدم فی کلام الحافظ ( مرعاۃج:2ص:256 )
میرے نزدیک ترجیح اسی کو حاصل ہے جدھر ائمہ ثلاثہ گئے ہیں۔ وہ یہ کہ اڑتالیس میل ہاشمی سے کم میں قصر نہیں اور یہ چار برد ہوتے ہیں یعنی سولہ فرسخ اور رات اوردن کے تیز سفر کی یہی حد ہوتی ہے اور ہمارے زمانے میں اکثر علماءاہل حدیث اسی طرف گئے ہیں کہ قصر کی مسافت تین فرسخ ہیں۔ ( جس کے اڑتالیس میل ہوتے ہیں ) ان کی دلیل حضرت انس کی وہی حدیث ہے جس کا پہلے بیان ہوا اور ابن قدامہ کا رجحان ظاہر یہ کے قو ل کی طرف ہے جو کہتے ہیں کہ ہر سفر خواہ وہ قصیر یا طویل ہو۔ اس میں قصر جائز ہے، مگر اجماع کے یہ خلاف ہے ( واللہ اعلم بالصواب )
حدیث نمبر : 1080
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال حدثنا أبو عوانة، عن عاصم، وحصين، عن عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال أقام النبي صلى الله عليه وسلم تسعة عشر يقصر، فنحن إذا سافرنا تسعة عشر قصرنا، وإن زدنا أتممنا.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعوانہ وضاح یشکری نے بیان کیا، ان سے عاصم احول اور حصین سلمی نے، ان سے عکرمہ نے، اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( مکہ میں فتح مکہ کے موقع پر ) انیس دن ٹھہرے اور برابر قصر کرتے رہے۔ اس لیے انیس دن کے سفر میں ہم بھی قصر کرتے رہتے ہیں اور اس سے اگر زیادہ ہو جائے تو پوری نماز پڑھتے ہیں۔
تشریح : اس ترجمہ میں دو باتیں بیان ہوئی ہیں ایک یہ کہ سفر میں چار رکعت نماز کوقصر کرے یعنی دورکعتیں پڑھے دوسرے مسافر اگر کہیں ٹھہرنے کی نیت کر لے تو جتنے دن تک ٹھہرنے کی نیت کرے وہ قصر کر سکتا ہے۔
امام شافعی اور امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ جب کہیں چار دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو پوری نماز پڑھے۔ حنفیہ کے نزدیک پندرہ سے کم میں قصر کرے۔ زیادہ کی نیت ہو تو پوری نمازپڑھے امام احمد اور داؤد کا مذہب یہ کہ چار دن سے زیادہ دن ٹھہرنے کا ارادہ ہوتو پوری نماز پڑھے۔ اسحاق بن راہویہ انیس دن سے کم قصر بتلاتے ہیں اور زیادہ کی صورت میں نماز پوری پڑھنے کا فتوی دیتے ہیں۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی مذہب یہی معلوم ہوتا ہے حضرت مولانا عبید اللہ صاحب مبارک پوری رحمہ اللہ نے امام احمد کے مسلک کو ترجیح دی ہے۔ ( مرعاۃ، ج2ص:256 )
حدیث نمبر : 1081
أبو معمر، قال حدثنا عبد الوارث، قال حدثنا يحيى بن أبي إسحاق، قال سمعت أنسا، يقول خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم من المدينة إلى مكة، فكان يصلي ركعتين ركعتين حتى رجعنا إلى المدينة. قلت أقمتم بمكة شيئا قال أقمنا بها عشرا.
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد الوارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی اسحاق نے بیان کیا انہوں نے انس رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہم مکہ کے ارادہ سے مدینہ سے نکلے تو برابر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو دو رکعت پڑھتے رہے۔ یہاں تک کہ ہم مدینہ واپس آئے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کا مکہ میں کچھ دن قیام بھی رہا تھا؟ تو اس کا جواب انس رضی اللہ عنہ نے یہ دیا کہ دس دن تک ہم وہاں ٹھہرے تھے۔