• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب سجود القرآن
باب : سورۃ اذا السماء انشقت میں سجدہ کرنا

حدیث نمبر : 1074
حدثنا مسلم، ومعاذ بن فضالة، قالا أخبرنا هشام، عن يحيى، عن أبي سلمة، قال رأيت أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ قرأ ‏{‏إذا السماء انشقت‏}‏ فسجد بها فقلت يا أبا هريرة، ألم أرك تسجد قال لو لم أر النبي صلى الله عليه وسلم يسجد لم أسجد‏.‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم اور معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام بن ابی عبد اللہ دستوائی نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابو سلمہ نے کہا کہ میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو سورہ اذاالسماءانشقت پڑھتے دیکھا۔ آپ نے اس میں سجدہ کیا میں نے کہا کہ یا ابوہریرہ! کیا میں نے آپ کو سجدہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔ آپ نے کہا کہ اگر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرتے نہ دیکھتا تو میں بھی نہ کرتا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب سجود القرآن
باب : سننے والا اسی وقت سجدہ کرے جب پڑھنے والا کرے

وقال ابن مسعود لتميم بن حذلم ـ وهو غلام ـ فقرأ عليه سجدة، فقال اسجد فإنك إمامنا فيها‏.‏
اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے تمیم بن حذلم سے کہا کہ وہ لڑکا تھا اس نے سجدے کی آیت پڑھی سجدہ کر۔ کیونکہ تو اس سجدے میں ہمارا امام ہے۔

تشریح : مطلب یہ ہے کہ سننے والے کو جب سجدہ کرنا چاہیے کہ پڑھنے والا بھی کرے اگر سجدہ پڑھنے والا نہ کرے تو سننے والے پر بھی لازم نہیں ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کا شاید یہی مذہب ہے اور جمہور علماءکا یہ قول ہے کہ سننے والے پر ہر طرح سجدہ ہے اگر چہ پڑھنے والا بے وضو یا نابالغ یا کافر یا عورت یا تارک الصلوۃ ہو یا نماز پڑھ رہا ہو ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1075
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن عبيد الله، قال حدثني نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يقرأ علينا السورة فيها السجدة، فيسجد ونسجد، حتى ما يجد أحدنا موضع جبهته‏.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحیی بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبید اللہ عمری نے بیان کیا کہا کہ ہم سے نافع نے بیان کیا ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری موجودگی میں آیت سجدہ پڑھتے اور سجدہ کرتے تو ہم بھی آپ کے ساتھ ( ہجوم کی وجہ سے ) اس طرح سجدہ کرتے کہ پیشانی رکھنے کی جگہ بھی نہ ملتی جس پر سجدہ کرتے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب سجود القرآن
باب : امام جب سجدہ کی آیت پڑھے اور لوگ ہجوم کریں تو بہر حال سجدہ کرنا چاہیے

حدیث نمبر : 1076
حدثنا بشر بن آدم، قال حدثنا علي بن مسهر، قال أخبرنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يقرأ السجدة ونحن عنده فيسجد ونسجد معه فنزدحم حتى ما يجد أحدنا لجبهته موضعا يسجد عليه‏.‏
ہم سے بشر بن آدم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبید اللہ عمری نے خبر دی، انہیں نافع نے اور نافع کو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آیت سجدہ کی تلاوت اگر ہماری موجودگی میں کرتے تو آپ کے ساتھ ہم بھی سجدہ کرتے تھے۔ اس وقت اتنا اژدھام ہو جاتا کہ سجدہ کے لیے پیشانی رکھنے کی جگہ نہ ملتی جس پر سجدہ کرنے والا سجدہ کر سکے۔

اسی حدیث سے بعضوں نے یہ نکالاکہ جب پڑھنے والا سجدہ کرے تو سننے والا بھی کرے گویا اس سجدے میں سننے والا مقتدی ہے اور پڑھنے والا امام ہے۔ بیہقی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا جب لوگوں کا بہت ہجوم ہوتو تم میں کوئی اپنے بھائی کی پشت پر بھی سجدہ کر سکتا ہے۔ قسطلانی نے کہا جب ہجوم کی حالت میں فرض نماز میں پیٹھ پر سجدہ کرنا جائز ہوا تو تلاوت قرآن پاک کا سجدہ ایسی حالت میں بطریق اولی جائز ہوگا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب سجود القرآن
باب : اس شخص کی دلیل جس کے نزدیک اللہ تعالی نے سجدہ تلاوت کو واجب نہیں کیا

وقيل لعمران بن حصين الرجل يسمع السجدة ولم يجلس لها قال أرأيت لو قعد لها كأنه لا يوجبه عليه‏.‏ وقال سلمان ما لهذا غدونا‏.‏ وقال عثمان ـ رضى الله عنه ـ إنما السجدة على من استمعها‏.‏ وقال الزهري لا يسجد إلا أن يكون طاهرا، فإذا سجدت وأنت في حضر فاستقبل القبلة، فإن كنت راكبا فلا عليك حيث كان وجهك‏.‏ وكان السائب بن يزيد لا يسجد لسجود القاص‏.‏
اور عمران بن حصین صحابی سے ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا گیا جو آیت سجدہ سنتا ہے مگر وہ سننے کی نیت سے نہیں بیٹھا تھا تو کیا اس پر سجدہ واجب ہے۔ آپ نے اس کے جواب میں فرمایا اگر وہ اس نیت سے بیٹھا بھی ہو تو کیا ( گویا انہوں نے سجدہ تلاوت کو واجب نہیں سمجھا ) سلمان فارسی نے فرمایا کہ ہم سجدہ تلاوت کے لیے نہیں آئے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ سجدہ ان کے لیے ضروری ہے جنہوں نے آیت سجدہ قصد سے سنی ہو۔ زہری نے فرمایا کہ سجدہ کے لیے طہارت ضروری ہے اگر کوئی سفر کی حالت میں نہ ہو بلکہ گھر پر ہو تو سجدہ قبلہ رو ہو کر کیا جائے گا اور سواری پر قبلہ رو ہونا ضروری نہیں جدھر بھی رخ ہو ( اسی طرف سجدہ کر لینا چاہیے ) سائب بن یزید واعظوں وقصہ خوانوں کے سجدہ کرنے پر سجدہ نہ کرتے۔


تشریح : ہو ایہ کہ حضرت سلمان فارسی کچھ لوگوں پر سے گزر ے جو بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے سجدہ کی آیت پڑھی اور سجدہ کیا سلمان نے نہیں کیا تو لوگوں نے اس کا سبب پوچھا تب انہوں نے یہ کہا ( رواہ عبد الرزاق )

حدیث نمبر : 1077
حدثنا إبراهيم بن موسى، قال أخبرنا هشام بن يوسف، أن ابن جريج، أخبرهم قال أخبرني أبو بكر بن أبي مليكة، عن عثمان بن عبد الرحمن التيمي، عن ربيعة بن عبد الله بن الهدير التيمي ـ قال أبو بكر وكان ربيعة من خيار الناس عما حضر ربيعة من عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنه ـ قرأ يوم الجمعة على المنبر بسورة النحل حتى إذا جاء السجدة نزل فسجد وسجد الناس، حتى إذا كانت الجمعة القابلة قرأ بها حتى إذا جاء السجدة قال يا أيها الناس إنا نمر بالسجود فمن سجد فقد أصاب، ومن لم يسجد فلا إثم عليه‏.‏ ولم يسجد عمر ـ رضى الله عنه‏.‏ وزاد نافع عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما إن الله لم يفرض السجود إلا أن نشاء‏.‏
ہم سے ابراہیم بن موسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ہشام بن یوسف نے خبر دی اور انہیں ا بن جریج نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے ابوبکر بن ابی ملیکہ نے خبر دی، انہیں عثمان بن عبد الرحمن تیمی نے اور انہیں ربیعہ بن عبد اللہ بن ہدیر تیمی نے کہا۔۔۔ ابوبکر بن ابی ملیکہ نے بیا ن کیا کہ ربیعہ بہت اچھے لوگوں میں سے تھے ربیعہ نے وہ حال بیان کیا جو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی مجلس میں انہوں نے دیکھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن منبر پر سورہ نحل پڑھی جب سجدہ کی آیت ( وللّٰہ یسجد ما فی السمٰوٰت ) آخر تک پہنچے تو منبر پر سے اترے اور سجدہ کیا تو لوگوں نے بھی ان کے ساتھ سجدہ کیا۔ دوسرے جمعہ کو پھر یہی سورت پڑھی جب سجدہ کی آیت پر پہنچے تو کہنے لگے لوگو! ہم سجدہ کی آیت پڑھتے چلے جاتے ہیں پھر جو کوئی سجدہ کرے اس نے اچھا کیا اور جو کوئی نہ کرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سجدہ نہیں کیا اور نافع نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کیا کہ اللہ تعالی نے سجدہ تلاوت فرض نہیں کیا ہماری خوشی پر رکھا۔

علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں واقوی الادلۃ علی نفی الوجوب حدیث عمر المذکور فی ھذا الباب یعنی اس بات کی قوی دلیل کہ سجدہ تلاوت واجب نہیں یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جو یہاں اس باب میں مذکور ہوئی اکثر ائمہ وفقہاءاسی کے قائل ہیں کہ سجدہ تلاوت ضروری نہیں بلکہ صرف سنت ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی مسلک ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب سجود القرآن
باب : جس نے نماز میں آیت سجدہ تلاوت کی اور نماز ہی میں سجدہ کیا

امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض اس باب سے مالکیہ پر رد کرنا ہے جو سجدہ کی آیت نماز میں پڑھنا مکروہ جانتے ہیں۔

حدیث نمبر : 1078
حدثنا مسدد، قال حدثنا معتمر، قال سمعت أبي قال، حدثني بكر، عن أبي رافع، قال صليت مع أبي هريرة العتمة فقرأ ‏{‏إذا السماء انشقت‏}‏ فسجد فقلت ما هذه قال سجدت بها خلف أبي القاسم صلى الله عليه وسلم فلا أزال أسجد فيها حتى ألقاه‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیا ن کیا، کہا کہ ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا کہا کہ ہم سے بکر بن عبد اللہ مزنی نے بیان کیا، ان سے ابورافع نے کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز عشاء پڑھی۔ آپ نے اذا السماءانشقت کی تلاوت کی اور سجدہ کیا۔ میں نے عرض کیا کہ آپ نے یہ کیا کیا؟ انہوں نے اس کا جواب دیا کہ میں نے اس میں ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں سجدہ کیا تھا اور ہمیشہ سجدہ کرتا ہوں گا تا آنکہ آپ سے جاملوں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب سجود القرآن
باب : جو شخص ہجوم کی وجہ سے سجدہ تلاوت کی جگہ نہ پائے

حدیث نمبر : 1079
حدثنا صدقة، قال أخبرنا يحيى، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يقرأ السورة التي فيها السجدة فيسجد ونسجد حتى ما يجد أحدنا مكانا لموضع جبهته‏.‏
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیا ن کیا، ان سے یحیی بن سعیدقطان نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ نے، ان سے نافع نے، اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسی سورۃ کی تلاوت کرتے جس میں سجدہ ہوتا پھر آپ سجدہ کرتے اور ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے یہاں تک کہ ہم میں کسی کو اپنی پیشانی رکھنے کی جگہ نہ ملتی۔ ( معلوم ہوا کہ ایسی حالت میں سجدہ نہ کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے ) واللہ اعلم۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب تقصیر الصلوۃ


صحیح بخاری -> کتاب تقصیر الصلوۃ

باب : نماز میں قصر کرنے کا بیان اور اقامت کی حالت میں کتنی مدت تک قصر کر سکتا ہے
تشریح : قصر کے معنی کم کرنا یہاں حالت سفرمیں چار رکعت والی فرض نماز کو کم کر کے دورکعت پڑھنا مراد ہے ہجرت کے چوتھے سال قصر کی اجازت نازل ہوئی مغرب اور فجر کی فرض نمازوں میں قصر نہیں ہے اور ایسے سفر میں قصر جائز نہیں جو سفر گناہ کی نیت سے کیا جائے کوئی مسلمان ہو کر چوری کرنے یا زنا کرنے کے لیے سفر کرے تواس کے لیے قصرکی اجازت نہیں ہے۔ امام شافعی اورامام احمد اور امام مالک اور علماءکا یہی فتویٰ ہے۔ دیکھو تسہیل القاری ص: 678۔

قرآن مجید میں قصر نماز کا ذکر ان لفظوں میں ہے فَلَیسَ عَلَیکُم جُنَاح اَن تَقصُرُوا مِنَ الصَّلٰوۃِ اِن خِفتُم اَن یَفتِنَکُم الَّذِینَ کَفَرُوا الآیہ یعنی اگر حالت سفر میں تم کو کافروں کی طرف سے خوف ہو تواس وقت نماز قصر کرنے میں تم پر گناہ نہیں اس کے متعلق یہ روایت وضاحت کے لیے کافی ہے۔ عن یعلی بن امیۃ قال قلت لعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوۃ ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا فقد امن الناس عن ذلک فقال عجبت مما عجبت منہ فسالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال صدقۃ تصدق اللہ علیکم فاقبلوا صدقتہ ( رواہ مسلم ) یعنی یعلی ابن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس آیت مذکورہ کے بارے میں کہا اب تو لوگ امن میں ہیں پھر قصر کا کیا معنی اس پر آپ نے بتلایا کہ مجھے بھی تم جیسا تردد ہوا تھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ نے فرمایا کہ اب سفر میں نماز قصر کرنا یہ اللہ کی طرف سے تمہارے لیے صدقہ ہے پس مناسب ہے کہ اس کا صدقہ قبول کرو اس حدیث سے واضح ہو گیا کہ اب قصر کرنے کے لیے سفر میں دشمن سے خوف کی قید نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بسا اوقات حالت سفر میں جب کہ آپ کو امن حاصل تھا نماز فرض قصر کر کے پڑھائی پس ارشاد باری ہے لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ یعنی تمہارے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بہترین نمونہ ہے نیز اللہ نے فرمایا یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر یعنی اللہ پاک تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ کرتا ہے دشواری نہیں چاہتا۔

امام نووی شرح مسلم میں فرماتے ہیں کہ سفر میں نماز قصر کے واجب یا سنت ہونے میں علماءکا اختلاف ہے۔ امام شافعی اور امام مالک بن انس اور اکثر علماءنے قصر کرنے اور پوری پڑھنے ہر دو کو جائز قرار دیا ہے ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ قصر افضل ہے ان حضرات کی دلیل بہت سی احادیث مشہور ہیں جو صحیح مسلم وغیرہ میں ہیں جن میں مذکورہے کہ صحابہ کرام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کرتے ان میں بعض لوگ قصر کرتے بعض نماز پوری ادا کرتے بعض ان میں روزہ رکھتے بعض روزہ چھوڑ دیتے اورا ن میں آپس میں کوئی ایک دوسرے پر اعتراض نہ کرتا۔ حضرت عثمان اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے بھی سفر میں پوری نماز ادا کرنا منقول ہے۔
بعض علماءقصر کو واجب جانتے ہیں ان میں حضرت عمر حضرت علی اور جابر اور ابن عباس داخل ہیں اورحضرت امام مالک اور حضرت امام ابو حنیفہ کا بھی یہی قول ہے۔ المحدث الکبیر حضرت مولانا عبد الرحمن مبارک پوری فرماتے ہیں: قلت من شان متبعی السنن النبویۃ ومقتضی الاثار المصطفویہ ان یلازمو القصر فی السفر کما لازمہ صلی اللہ علیہ وسلم ولو کان القصر غیر واجب فاتباع السنۃ فی القصر فی السفر ھو المتعین ولا حاجۃ لھم ان یتموا فی السفر ویتاولوا کما تاولت عائشۃ وتاول عثمان رضی اللہ عنہما ھذا ما عندی واللہ اعلم ( تحفۃ الاحوذی، ص:383 )
یعنی سنن نبوی کے فدائیوں کے لیے ضروری ہے کہ سفر میں قصر ہی کو لازم پکڑیں۔ اگر چہ یہ غیر واجب ہے پھر بھی اتباع سنت کا تقاضا یہی ہے کہ سفر میں قصر کیا جائے اور اتمام نہ کیا جائے اور کوئی تاویل اس بارے میں مناسب نہیں ہے۔ جیسے حضرت عائشہ صدیقہ وحضرت عثمان رضی اللہ عنہما نے تاویلات کی ہیں۔ میرا یہی خیال ہے۔

یہ بھی ایک طویل بحث ہے کہ کتنے میل کا سفر ہو جہاں سے قصر جائز ہے ا س سلسلہ میں بعض روایات میں تین میل کا بھی ذکر آیا ہے۔قال النووی الی ان اقل مسافۃ القصر ثلاثۃ امیال وکانھم احتجو افی ذلک بما رواہ مسلم وابو داؤد من حدیث انس قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا خرج مسیرۃ ثلاثۃ امیال او فراسخ قصر الصلوۃ قال الحافظ وھو اصح حدیث ورد فی بیان ذلک واصرحہ وقد حملہ من خالفہ ان المراد بہ المسافۃ التی یبتدا منھا القصر لا غایۃالسفر یعنی انہ اراد بہ اذا سافر سفرا طویلا قصر ااذا بلغ ثلاثۃ امیال کما قال فی لفظہ الاخر ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی بالمدینۃ اربعاً وبذی الحلیفۃ رکعتین ( مرعاۃ،ج2 ص:256 )

یعنی امام نووی نے کہا کہ قصر کی کم ترین مدت تین میل ہے انہوں نے حدیث انس رضی اللہ عنہ سے دلیل لی ہے۔ جس میں ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین میل یا تین فرسخ نکلتے تو نماز قصر کرتے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قصر کے متعلق صحیح ترین حدیث یہ ہے جن لوگوں نے تین میل کو نہیں مانا انہوں نے اس حدیث کو غایت سفر نہیں بلکہ ابتداءسفر پر محمول کیا ہے۔ یعنی یہ مراد ہے کہ جب مسافر کا سفر طویل کے لیے ارادہ ہواور وہ تین میل پہنچ جائے اور نماز کا وقت آجائے تو وہ قصر کر لے جیسا کہ حدیث میں دوسری جگہ یہ بھی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر حج کے لیے نکلے تو آپ نے مدینہ میں چار رکعتیں پڑھیں اور ذی الحلیفہ میں پہنچ کر دو رکعت ادا کیں اس بارے میں طویل مباحثہ کے بعد آخری فیصلہ حضرت شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ صاحب رحمہ اللہ کے لفظوں میں یہ ہے والراجح عندی ما ذھب الیہ الائمۃ الثلاثۃ انہ لایقصر الصلوۃ فی اقل من ثمانیۃ واربعین میلا بالھاشمی وذلک اربعۃ بردای ستۃ عشر فرسخا وھی مسیرۃ یوم ولیلۃ بالسیر الحثیث وذھب اکثر علماءاھل الحدیث فی عصرنا مسافۃ ثلاثۃ فراسخ مستدلین لذالک الحدیث انس المقدم فی کلام الحافظ ( مرعاۃج:2ص:256 )
میرے نزدیک ترجیح اسی کو حاصل ہے جدھر ائمہ ثلاثہ گئے ہیں۔ وہ یہ کہ اڑتالیس میل ہاشمی سے کم میں قصر نہیں اور یہ چار برد ہوتے ہیں یعنی سولہ فرسخ اور رات اوردن کے تیز سفر کی یہی حد ہوتی ہے اور ہمارے زمانے میں اکثر علماءاہل حدیث اسی طرف گئے ہیں کہ قصر کی مسافت تین فرسخ ہیں۔ ( جس کے اڑتالیس میل ہوتے ہیں ) ان کی دلیل حضرت انس کی وہی حدیث ہے جس کا پہلے بیان ہوا اور ابن قدامہ کا رجحان ظاہر یہ کے قو ل کی طرف ہے جو کہتے ہیں کہ ہر سفر خواہ وہ قصیر یا طویل ہو۔ اس میں قصر جائز ہے، مگر اجماع کے یہ خلاف ہے ( واللہ اعلم بالصواب )

حدیث نمبر : 1080
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال حدثنا أبو عوانة، عن عاصم، وحصين، عن عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال أقام النبي صلى الله عليه وسلم تسعة عشر يقصر، فنحن إذا سافرنا تسعة عشر قصرنا، وإن زدنا أتممنا‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعوانہ وضاح یشکری نے بیان کیا، ان سے عاصم احول اور حصین سلمی نے، ان سے عکرمہ نے، اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( مکہ میں فتح مکہ کے موقع پر ) انیس دن ٹھہرے اور برابر قصر کرتے رہے۔ اس لیے انیس دن کے سفر میں ہم بھی قصر کرتے رہتے ہیں اور اس سے اگر زیادہ ہو جائے تو پوری نماز پڑھتے ہیں۔

تشریح : اس ترجمہ میں دو باتیں بیان ہوئی ہیں ایک یہ کہ سفر میں چار رکعت نماز کوقصر کرے یعنی دورکعتیں پڑھے دوسرے مسافر اگر کہیں ٹھہرنے کی نیت کر لے تو جتنے دن تک ٹھہرنے کی نیت کرے وہ قصر کر سکتا ہے۔

امام شافعی اور امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ جب کہیں چار دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو پوری نماز پڑھے۔ حنفیہ کے نزدیک پندرہ سے کم میں قصر کرے۔ زیادہ کی نیت ہو تو پوری نمازپڑھے امام احمد اور داؤد کا مذہب یہ کہ چار دن سے زیادہ دن ٹھہرنے کا ارادہ ہوتو پوری نماز پڑھے۔ اسحاق بن راہویہ انیس دن سے کم قصر بتلاتے ہیں اور زیادہ کی صورت میں نماز پوری پڑھنے کا فتوی دیتے ہیں۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی مذہب یہی معلوم ہوتا ہے حضرت مولانا عبید اللہ صاحب مبارک پوری رحمہ اللہ نے امام احمد کے مسلک کو ترجیح دی ہے۔ ( مرعاۃ، ج2ص:256 )

حدیث نمبر : 1081
أبو معمر، قال حدثنا عبد الوارث، قال حدثنا يحيى بن أبي إسحاق، قال سمعت أنسا، يقول خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم من المدينة إلى مكة، فكان يصلي ركعتين ركعتين حتى رجعنا إلى المدينة‏.‏ قلت أقمتم بمكة شيئا قال أقمنا بها عشرا‏.‏
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد الوارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی اسحاق نے بیان کیا انہوں نے انس رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہم مکہ کے ارادہ سے مدینہ سے نکلے تو برابر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو دو رکعت پڑھتے رہے۔ یہاں تک کہ ہم مدینہ واپس آئے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کا مکہ میں کچھ دن قیام بھی رہا تھا؟ تو اس کا جواب انس رضی اللہ عنہ نے یہ دیا کہ دس دن تک ہم وہاں ٹھہرے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب تقصیر الصلوۃ
باب : منیٰ میں نماز قصر کرنے کا بیان

حدیث نمبر : 1082
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن عبيد الله، قال أخبرني نافع، عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ قال صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم بمنى ركعتين، وأبي بكر وعمر، ومع عثمان صدرا من إمارته ثم أتمها‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ نے عبید اللہ عمری سے بیان کیا، کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے، کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ منیٰ میں در رکعت ( یعنی چار رکعت والی نمازوں میں ) قصر پڑھی۔ عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ان کے دور خلافت کے شروع میں دو ہی رکعت پڑھی تھیں۔ لیکن بعد میں آپ رضی اللہ عنہ نے پوری پڑھی تھیں۔

حدیث نمبر : 1083
حدثنا أبو الوليد، قال حدثنا شعبة، أنبأنا أبو إسحاق، قال سمعت حارثة بن وهب، قال صلى بنا النبي صلى الله عليه وسلم آمن ما كان بمنى ركعتين‏.‏
ہم سے ابو الولید نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ابو اسحاق نے خبر دی، انہوں نے حارثہ سے سنا اور انہوں نے وہب رضی اللہ عنہ سے کہ آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں امن کی حالت میں ہمیں دورکعت نماز پڑھائی تھی۔

حدیث نمبر : 1084
حدثنا قتيبة، قال حدثنا عبد الواحد، عن الأعمش، قال حدثنا إبراهيم، قال سمعت عبد الرحمن بن يزيد، يقول صلى بنا عثمان بن عفان ـ رضى الله عنه ـ بمنى أربع ركعات، فقيل ذلك لعبد الله بن مسعود ـ رضى الله عنه ـ فاسترجع ثم قال صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بمنى ركعتين، وصليت مع أبي بكر ـ رضى الله عنه ـ بمنى ركعتين، وصليت مع عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنه ـ بمنى ركعتين، فليت حظي من أربع ركعات ركعتان متقبلتان‏.‏
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم نخعی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عبد الرحمن بن یزید سے سنا، وہ کہتے تھے کہ ہمیں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں چار رکعت نماز پڑھائی تھی لیکن جب اس کا ذکر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ پھر کہنے لگے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منی ٰ میں دو رکعت نماز پڑھی ہے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی میں نے دوہی رکعت ہی پڑھی ہیں اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی دو رکعت پڑھی تھی کاش میرے حصہ میں ان چار رکعتوں کے بجائے دو مقبول رکعتیں ہوتیں۔

تشریح : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی منیٰ میں نماز کا ذکر اس وجہ سے کیا کہ آپ حضرات حج کے ارادہ سے جاتے اور حج کے ارکان ادا کرتے ہوئے منیٰ میں بھی قیام کیا ہوتا۔ یہاں سفر کی حالت میں ہوتے تھے اس لیے قصر کرتے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کا ہمیشہ یہی معمول تھا کہ منیٰ میں قصر کرتے تھے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی ابتدائی دور خلافت میں قصر کیا لیکن بعد میں جب پوری چار رکعتیں آپ نے پڑھیں تو ابن مسعودرضی اللہ عنہ نے اس پر سخت ناگواری کا اظہار فرمایا۔ دوسری روایتوں میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی پوری چار رکعت پڑھنے کا عذر بیان کیا تھا جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب تقصیر الصلوۃ
باب : حج کے موقعہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے دن قیام کیا تھا؟

حدیث نمبر : 1085
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال حدثنا وهيب، قال حدثنا أيوب، عن أبي العالية البراء، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال قدم النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه لصبح رابعة يلبون بالحج، فأمرهم أن يجعلوها عمرة إلا من معه الهدى‏.‏ تابعه عطاء عن جابر‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیا ن کیا کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ایوب نے بیان کیا ان سے ابوالعالیہ براء نے ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو ساتھ لے کر تلبیہ کہتے ہوئے ذی الحجہ کی چوتھی تاریخ کو ( مکہ میں ) تشریف لائے پھر آپ نے فرمایا کہ جن کے پاس ہدی نہیں ہے وہ بجائے حج کے عمرہ کی نیت کر لیں اور عمرہ سے فارغ ہو کر حلال ہوجائیں پھر حج کا احرام باندھیں۔ اس حدیث کی متابعت عطاءنے جابر سے کی ہے۔

تشریح : کیونکہ آپ چوتھی ذی الحجہ کو مکہ معظمہ پہنچے تھے اور چودھویں کو مراجعت فرمائے مدینہ ہوئے تو مدت اقامت کل دس دن ہوئی اور مکہ میں صرف چار دن رہنا ہوا باقی ایام منیٰ وغیرہ میں صرف ہوئے اسی لیے امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا کہ جب مسافر کسی مقام میں چار دن سے زیادہ رہنے کی نیت کرے تو پوری نماز پڑھے چار دن تک قصر کرتا رہے اور امام احمد نے کہا اکیس نمازوں تک ( مولانا وحید الزماں مرحوم ) پچھلی روایت جس میں آپ کا قیام اکیس دن مذکور ہے اس میں یہ قیام فتح مکہ سے متعلق ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے مغازی میں دوسرے طریق سے اقامت کا مقام مکہ بیان فرمایا ہے جہاں آپ نے انیس دن قیام فرمایا اورآپ نماز قصرکرتے رہے معلوم ہوا کہ قصر کے لیے یہ آخری حد ہے اگر اس سے زیادہ ٹھہرنے کا فیصلہ ہو تو نماز پوری پڑھنی ہوگی اور اگر فیصلہ نہ کر سکے اور تردد میں آج کل آج کل کر تا رہ جائے تو وہ جب تک اس حالت میں ہے قصر کر سکتا ہے جیسا کہ زاد المعاد میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے بیان فرمایا :ومنھا انہ صلی اللہ علیہ وسلم اقام بتبوک عشرین یوما یقصر الصلوۃ ولم یقل للامۃ لا یقصر الرجل الصلوۃ اذا قام اکثر من ذلک ولکن انفق اقامتہ ھذہ المدۃ وھذہ الاقامۃ فی حالۃ السفر لا تخرج عن حکم السفر سواءطالت او قصرت اذا کان غیر متوطن ولا عازم علی الاقامۃ بذلک الموضع۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں بیس دن تک مقیم رہے اور نماز قصر فرماتے رہے اور آپ نے امت کے لیے نہیں فرمایا کہ امت میں سے اگر کسی کا اس سے بھی زیادہ کہیں ( حالت سفر میں ) اقامت کا موقعہ آجائے تو وہ قصر نہ کرے۔ ایسا آپ نے کہیں نہیں فرمایا پس جب کوئی شخص سفر میں کسی جگہ بہ حیثیت وطن کے نہ اقامت کرے اور نہ وہاں اقامت کا عزم ہو مگر آج کل میں تردد رہے تو اس کی مدت اقامت کم ہو یا زیادہ وہ بہر حال سفر کے حکم میں ہے اور نماز قصر کر سکتا ہے۔

حافظ نے کہا کہ بعض لوگوں نے احمد سے امام احمد بن حنبل کو سمجھا یہ بالکل غلط ہے کیونکہ امام احمد نے عبد اللہ بن مبارک سے نہیں سنا ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب تقصیر الصلوۃ
باب : نماز کتنی مسافت میں قصر کرنی چاہیے

وسمى النبي صلى الله عليه وسلم يوما وليلة سفرا‏.‏ وكان ابن عمر وابن عباس ـ رضى الله عنهم ـ يقصران ويفطران في أربعة برد وهى ستة عشر فرسخا‏.‏
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اور ایک رات کی مسافت کو بھی سفر کہا ہے اور عبد اللہ ابن عمر اور عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہم چار برد ( تقریبا اڑتالیس میل کی مسافت ) پر قصر کرتے اور روزہ بھی افطار کرتے تھے۔ چار برد میں سولہ فرسخ ہوتے ہیں ( اور ایک فرسخ میں تین میل )

تشریح : اس ترجمہ میں دو باتیں بیان ہوئی ہیں ایک یہ کہ سفر میں چار رکعت نماز کو قصر کرے یعنی دورکعت پڑھے دوسرے مسافر اگر کہیں زیادہ ٹھہرنے کی نیت کرے وہ قصر کر سکتا ہے امام شافعی اوراما م احمد ومالک کا یہ مذہب ہے کہ جب کہیں چار دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو نماز پوری پڑھے اور چار دن سے کم ٹھہرنے کی نیت ہو تو قصر کر تا رہے اور حنفیہ کے نزدیک پندرہ دن سے کم میں قصر کرے پندرہ دن یا زیادہ ٹھہرنے کی نیت ہو تو پوری نمازپڑھے اور اسحاق بن راھویہ کا مذہب یہ ہے کہ انیس دن سے کم میں قصر کرتا رہے انیس دن یا زیادہ ٹھہرنے کی نیت ہو تو پوری نماز پڑھے امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب معلوم ہوتا ہے۔

ابن المنذر نے کہا کہ مغرب اور فجر کی نماز میں بالاجماع قصرنہیں ہے ( مولانا وحید الزماں مرحوم )
ترجمہ باب میں حضرت امام بخاری رحمہ اللہ جو حدیث صحیح لائے ہیں اس سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ ہی کے مسلک کی تائید ہوتی ہے گویا امام رحمہ اللہ کا فتوی اس حدیث پر ہے۔ یہاں کاانیس روز کا قیام فتح مکہ کے موقع پر ہوا تھا بعض راویوں نے اس قیام کو صرف سترہ دن بتلایا ہے گویا انہوں نے آنے اور جانے کے دو دن چھوڑ کر سترہ دن کا شمارکیا اور جنہوں نے ہر دونوں کو شمار کیا، انہوں نے انیس روز بتلائے۔
اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ سفر کے لیے کم سے کم ایک دن رات کی راہ ضروری ہے۔ حنفیہ نے تین دن کی مسافت کو سفر کہا ہے اس مسئلہ میں کوئی بیس قول ہیں۔ ابن منذر نے ان کو نقل کیا ہے صحیح اور مختار مذہب اہل حدیث کا ہے کہ ہر سفر میں قصر کرنا چاہیے جس کو عرف میں سفر کہیں اس کی کوئی حد مقرر نہیں امام شافعی اور امام مالک اور امام اوزاعی کا یہ قول ہے کہ دو منزل سے کم میں قصر جائز نہیں دومنزل اڑتالیس میل ہوتے ہیں ایک میل چھ ہزار ہاتھ کا ایک ہاتھ چوبیس انگل چھ جوکا ( وحیدی ) فتح الباری میں جمہور کا مذہب یہ نقل ہواہے کہ جب اپنے شہر سے باہر ہو جائے اس کا قصر شروع ہو جاتا ہے۔
امام نووی نے شرح مسلم میں فقہائے اہل حدیث کا بھی یہی مسلک نقل کیا ہے کہ سفر میں دومنزلوںسے کم میں قصر جائز نہیں اوردومنزلوں کے اڑتالیس میل ہاشمی ہوتے ہیں۔ داؤد ظاہری اور دیگر اہل ظاہر کا مسلک یہ ہے کہ قصر کرنا بہر حال جائز ہے سفر دراز ہو یا کم یہاں تک کہ اگر تین میل کا سفر ہو تب بھی یہ حضرات قصر جائز کہتے ہیں تفصیل گزر چکی ہے۔

حدیث نمبر : 1086
حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، قال قلت لأبي أسامة حدثكم عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا تسافر المرأة ثلاثة أيام إلا مع ذي محرم‏"‏‏. ‏
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، انہوں نے ابو اسامہ سے، میں نے پوچھا کہ کیا آپ سے عبیداللہ عمری نے نافع سے یہ حدیث بیان کی تھی کہ ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا تھا کہ عورتیں تین دن کا سفر ذی رحم محرم کے بغیر نہ کریں ( ابو اسامہ نے کہا ہاں )

محرم وہ جن سے عورت کے لیے نکاح حرام ہے اگر ان میں سے کوئی نہ ہو تو عورت کے لیے سفر کرنا جائز نہیں۔ یہاں تین دن کی قید کا مطلب ہے کہ اس مدت پر لفظ کا اطلاق کیا گیا اور ایک دن اوررات کو بھی سفر کہا گیا ہے تقریبا اڑتالیس میل پر اکثر اتفاق ہے کما مر۔

حدیث نمبر : 1087
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا تسافر المرأة ثلاثا إلا مع ذي محرم‏"‏‏. ‏ تابعه أحمد عن ابن المبارك عن عبيد الله عن نافع عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیا ن کیا، کہا کہ ہم سے یحی ٰ بن سعیدقطان نے، عبید اللہ عمری سے بیا ن کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں نافع نے خبر دی، انہیں ا بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر دی کہ آپ نے فرمایا عورت تین دن کا سفر اس وقت تک نہ کرے جب تک اس کے ساتھ کوئی محرم رشتہ دار نہ ہو۔ اس روایت کی متابعت احمد نے ا بن مبارک سے کی ان سے عبید اللہ عمری نے ان سے نافع نے ا ور ان سے ا بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے۔

حدیث نمبر : 1088
حدثنا آدم، قال حدثنا ابن أبي ذئب، قال حدثنا سعيد المقبري، عن أبيه، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنهما ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تسافر مسيرة يوم وليلة ليس معها حرمة‏"‏‏. ‏ تابعه يحيى بن أبي كثير وسهيل ومالك عن المقبري عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه‏.
ہم سے آدم نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے ا بن ابی ذئب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید مقبری نے اپنے باپ سے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی خاتون کے لیے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتی ہو، جائز نہیں کہ ایک دن رات کا سفر بغیر کسی ذی رحم محرم کے کرے۔ اس روایت کی متابعت یحییٰ بن ابی کثیر، سہیل اور مالک نے مقبری سے کی۔ وہ اس روایت کو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے۔

تشریح : عورت کے لیے پہلی احادیث میں تین دن کے سفر کی ممانعت وارد ہوئی ہے جب کہ اس کے ساتھ کوئی ذی محرم نہ ہو اور اس حدیث میں ایک دن اور ایک رات کی مدت کا ذکر آیا۔ دن سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد لفظ سفرکا کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ حد بتلانا مقصود ہے یعنی ایک دن رات کی مدت سفر کوشرعی سفر کا ابتدائی حصہ اور تین دن کے سفر کو آخری حصہ قراردیا ہے۔ پھراس سے جس قدر بھی زیادہ ہو پہلے بتلایا جاچکا ہے کہ اہل حدیث کے ہاں قصر کرنا سنت ہے فرض وا جب نہیں ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ قصر اللہ کی طرف کا ایک صدقہ ہے جسے قبول کرنا ہی مناسب ہے۔
 
Top