Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : اس شخص کی فضیلت جس کی کوئی اولاد مرجائے اور وہ اجر کی نیت سے صبر کرے
وقال الله عز وجل {وبشر الصابرين}
اور اللہ تعالی نے ( سورہ بقرہ میں ) فرمایاہے کہ صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا۔
حدیث نمبر : 1248
حدثنا أبو معمر، حدثنا عبد الوارث، حدثنا عبد العزيز، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم " ما من الناس من مسلم يتوفى له ثلاث لم يبلغوا الحنث، إلا أدخله الله الجنة بفضل رحمته إياهم".
ہم سے ابو معمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد الوارث نے، ان سے عبد العزیز نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مسلمان کے اگر تین بچے مر جائیں جو بلوغت کو نہ پہنچے ہوں تو اللہ تعالی اس رحمت کے نتیجے میں جو ان بچوں سے وہ رکھتا ہے مسلمان ( بچے کے باپ اور ماں ) کو بھی جنت میں داخل کرے گا۔
حدیث نمبر : 1249
حدثنا مسلم، حدثنا شعبة، حدثنا عبد الرحمن بن الأصبهاني، عن ذكوان، عن أبي سعيد، رضى الله عنه أن النساء، قلن للنبي صلى الله عليه وسلم اجعل لنا يوما. فوعظهن، وقال " أيما امرأة مات لها ثلاثة من الولد كانوا حجابا من النار". قالت امرأة واثنان. قال " واثنان".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے، ان سے عبدالرحمن بن عبد اللہ اصبہانی نے، ان سے ذکوان نے اور ان سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ عورتوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمیں بھی نصیحت کر نے کے لیے آپ ایک دن خاص فرما دیجےے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ان کی درخواست منظورفرماتے ہوئے ایک خاص دن میں ) ان کو وعظ فرمایا اور بتلایا کہ جس عورت کے تین بچے مر جائیں تو وہ اس کے لیے جہنم سے پناہ بن جاتے ہیں۔ اس پر ایک عورت نے پوچھا، حضور! اگر کسی کے دوہی بچے مریں؟ آپ نے فرمایا کہ دو بچوں پر بھی۔
حدیث نمبر : 1250
وقال شريك، عن ابن الأصبهاني: حدثني أبو صالح، عن أبي سعيد وابي هريرة رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم. قال أبو هريرة: (لم يبلغوا الحنث).
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے، ان سے عبدالرحمن بن عبد اللہ اصبہانی نے، ان سے ذکوان نے اور ان سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ عورتوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمیں بھی نصیحت کر نے کے لیے آپ ایک دن خاص فرما دیجےے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ان کی درخواست منظورفرماتے ہوئے ایک خاص دن میں ) ان کو وعظ فرمایا اور بتلایا کہ جس عورت کے تین بچے مر جائیں تو وہ اس کے لیے جہنم سے پناہ بن جاتے ہیں۔ اس پر ایک عورت نے پوچھا، حضور! اگر کسی کے دوہی بچے مریں؟ آپ نے فرمایا کہ دو بچوں پر بھی۔
حدیث نمبر : 1251
حدثنا علي، حدثنا سفيان، قال سمعت الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال " لا يموت لمسلم ثلاثة من الولد، فيلج النار إلا تحلة القسم". قال أبو عبد الله {وإن منكم إلا واردها}.
ہم سے علی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، انہوں نے کہا کہ میں نے زہری سے سنا، انہوں نے سعید بن مسیب سے سنا اور انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کے اگر تین بچے مرجائیں تو وہ دوزخ میں نہیں جائےگا اور اگر جائے گا بھی تو صرف قسم پوری کرنے کے لیے۔ ابو عبد اللہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ( قرآن کی آیت یہ ہے ) تم میں سے ہر ایک کو دوزخ کے اوپر سے گزرنا ہوگا۔
تشریح : نابالغ بچوں کی وفات پر اگر ماں باپ صبر کریں تو اس پر ثواب ملتا ہے۔ قدرتی طور پر اولاد کی موت ماں باپ کے لیے بہت بڑا غم ہے اور اسی لیے اگر کوئی اس پر یہ سمجھ کر صبر کرے کہ اللہ تعالی ہی نے یہ بچہ دیا تھا اور اب اسی نے اٹھالیا تو اس حادثہ کی سنگینی کے مطابق اس پرثواب بھی اتنا ہی ملے گا۔ اس کے گنا ہ معاف ہو جائیں گے۔ اور آخرت میں اس کی جگہ جنت میں ہوگی۔ آخر میں یہ بتایا ہے کہ جہنم سے یوں تر ہر مسلمان کو گزرنا ہوگا لیکن جو مومن بندے اس کے مستحق نہیں ہوں گے، ان کا گزرنا بس ایسا ہی ہوگا جیسے قسم پوری کی جارہی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر قرآن مجید کی آیت بھی لکھی ہے۔ بعض علماءنے ا س کی یہ توجیہ بیان کی ہے کہ پل صراط چونکہ ہے ہی جہنم پر اور اس سے ہر انسان کو گزرنا ہوگا۔ اب جو نیک ہے وہ اس سے بآسانی گزر جائے گا لیکن بدعمل یا کافر اس سے گزر نہ سکیں گے اورجہنم میں چلے جائیں گے تو جہنم سے گزر نے سے یہی مرادہے۔
یہاں اس بات کا بھی لحاظ رہے کہ حدیث میں نابالغ اولاد کے مرنے پر اس اجر عظیم کا وعدہ کیا گیا ہے۔ بالغ کا ذکر نہیں ہے حالانکہ بالغ اور خصوصا جوان اولاد کی موت کا سانحہ سب سے بڑا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے ماں باپ کی اللہ تعالی سے شفارس کرتے ہیں۔ بعض روایتوں میں ایک بچے کی موت پر بھی یہی وعدہ موجود ہے۔جہاں تک صبر کا تعلق ہے وہ بہر حال بالغ کی موت پر بھی ملے گا۔
الغرض دوزخ کے اوپر سے گزرنے کا مطلب پل صراط کے اوپر سے گزرناہے جو دوزخ کے پشت پر نصب ہے پس مومن کا دوزخ میں جانا یہی پل صراط کے اوپر سے گزرنا ہے۔آیت شریفہ ( وان منکم الا واردھا ) کا یہی مفہوم ہے۔
باب : اس شخص کی فضیلت جس کی کوئی اولاد مرجائے اور وہ اجر کی نیت سے صبر کرے
وقال الله عز وجل {وبشر الصابرين}
اور اللہ تعالی نے ( سورہ بقرہ میں ) فرمایاہے کہ صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا۔
حدیث نمبر : 1248
حدثنا أبو معمر، حدثنا عبد الوارث، حدثنا عبد العزيز، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم " ما من الناس من مسلم يتوفى له ثلاث لم يبلغوا الحنث، إلا أدخله الله الجنة بفضل رحمته إياهم".
ہم سے ابو معمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد الوارث نے، ان سے عبد العزیز نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مسلمان کے اگر تین بچے مر جائیں جو بلوغت کو نہ پہنچے ہوں تو اللہ تعالی اس رحمت کے نتیجے میں جو ان بچوں سے وہ رکھتا ہے مسلمان ( بچے کے باپ اور ماں ) کو بھی جنت میں داخل کرے گا۔
حدیث نمبر : 1249
حدثنا مسلم، حدثنا شعبة، حدثنا عبد الرحمن بن الأصبهاني، عن ذكوان، عن أبي سعيد، رضى الله عنه أن النساء، قلن للنبي صلى الله عليه وسلم اجعل لنا يوما. فوعظهن، وقال " أيما امرأة مات لها ثلاثة من الولد كانوا حجابا من النار". قالت امرأة واثنان. قال " واثنان".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے، ان سے عبدالرحمن بن عبد اللہ اصبہانی نے، ان سے ذکوان نے اور ان سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ عورتوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمیں بھی نصیحت کر نے کے لیے آپ ایک دن خاص فرما دیجےے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ان کی درخواست منظورفرماتے ہوئے ایک خاص دن میں ) ان کو وعظ فرمایا اور بتلایا کہ جس عورت کے تین بچے مر جائیں تو وہ اس کے لیے جہنم سے پناہ بن جاتے ہیں۔ اس پر ایک عورت نے پوچھا، حضور! اگر کسی کے دوہی بچے مریں؟ آپ نے فرمایا کہ دو بچوں پر بھی۔
حدیث نمبر : 1250
وقال شريك، عن ابن الأصبهاني: حدثني أبو صالح، عن أبي سعيد وابي هريرة رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم. قال أبو هريرة: (لم يبلغوا الحنث).
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے، ان سے عبدالرحمن بن عبد اللہ اصبہانی نے، ان سے ذکوان نے اور ان سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ عورتوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمیں بھی نصیحت کر نے کے لیے آپ ایک دن خاص فرما دیجےے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ان کی درخواست منظورفرماتے ہوئے ایک خاص دن میں ) ان کو وعظ فرمایا اور بتلایا کہ جس عورت کے تین بچے مر جائیں تو وہ اس کے لیے جہنم سے پناہ بن جاتے ہیں۔ اس پر ایک عورت نے پوچھا، حضور! اگر کسی کے دوہی بچے مریں؟ آپ نے فرمایا کہ دو بچوں پر بھی۔
حدیث نمبر : 1251
حدثنا علي، حدثنا سفيان، قال سمعت الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال " لا يموت لمسلم ثلاثة من الولد، فيلج النار إلا تحلة القسم". قال أبو عبد الله {وإن منكم إلا واردها}.
ہم سے علی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، انہوں نے کہا کہ میں نے زہری سے سنا، انہوں نے سعید بن مسیب سے سنا اور انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کے اگر تین بچے مرجائیں تو وہ دوزخ میں نہیں جائےگا اور اگر جائے گا بھی تو صرف قسم پوری کرنے کے لیے۔ ابو عبد اللہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ( قرآن کی آیت یہ ہے ) تم میں سے ہر ایک کو دوزخ کے اوپر سے گزرنا ہوگا۔
تشریح : نابالغ بچوں کی وفات پر اگر ماں باپ صبر کریں تو اس پر ثواب ملتا ہے۔ قدرتی طور پر اولاد کی موت ماں باپ کے لیے بہت بڑا غم ہے اور اسی لیے اگر کوئی اس پر یہ سمجھ کر صبر کرے کہ اللہ تعالی ہی نے یہ بچہ دیا تھا اور اب اسی نے اٹھالیا تو اس حادثہ کی سنگینی کے مطابق اس پرثواب بھی اتنا ہی ملے گا۔ اس کے گنا ہ معاف ہو جائیں گے۔ اور آخرت میں اس کی جگہ جنت میں ہوگی۔ آخر میں یہ بتایا ہے کہ جہنم سے یوں تر ہر مسلمان کو گزرنا ہوگا لیکن جو مومن بندے اس کے مستحق نہیں ہوں گے، ان کا گزرنا بس ایسا ہی ہوگا جیسے قسم پوری کی جارہی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر قرآن مجید کی آیت بھی لکھی ہے۔ بعض علماءنے ا س کی یہ توجیہ بیان کی ہے کہ پل صراط چونکہ ہے ہی جہنم پر اور اس سے ہر انسان کو گزرنا ہوگا۔ اب جو نیک ہے وہ اس سے بآسانی گزر جائے گا لیکن بدعمل یا کافر اس سے گزر نہ سکیں گے اورجہنم میں چلے جائیں گے تو جہنم سے گزر نے سے یہی مرادہے۔
یہاں اس بات کا بھی لحاظ رہے کہ حدیث میں نابالغ اولاد کے مرنے پر اس اجر عظیم کا وعدہ کیا گیا ہے۔ بالغ کا ذکر نہیں ہے حالانکہ بالغ اور خصوصا جوان اولاد کی موت کا سانحہ سب سے بڑا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے ماں باپ کی اللہ تعالی سے شفارس کرتے ہیں۔ بعض روایتوں میں ایک بچے کی موت پر بھی یہی وعدہ موجود ہے۔جہاں تک صبر کا تعلق ہے وہ بہر حال بالغ کی موت پر بھی ملے گا۔
الغرض دوزخ کے اوپر سے گزرنے کا مطلب پل صراط کے اوپر سے گزرناہے جو دوزخ کے پشت پر نصب ہے پس مومن کا دوزخ میں جانا یہی پل صراط کے اوپر سے گزرنا ہے۔آیت شریفہ ( وان منکم الا واردھا ) کا یہی مفہوم ہے۔