• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : اس شخص کی فضیلت جس کی کوئی اولاد مرجائے اور وہ اجر کی نیت سے صبر کرے

وقال الله عز وجل ‏{‏وبشر الصابرين‏}‏
اور اللہ تعالی نے ( سورہ بقرہ میں ) فرمایاہے کہ صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا۔

حدیث نمبر : 1248
حدثنا أبو معمر، حدثنا عبد الوارث، حدثنا عبد العزيز، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ما من الناس من مسلم يتوفى له ثلاث لم يبلغوا الحنث، إلا أدخله الله الجنة بفضل رحمته إياهم‏"‏‏. ‏
ہم سے ابو معمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد الوارث نے، ان سے عبد العزیز نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مسلمان کے اگر تین بچے مر جائیں جو بلوغت کو نہ پہنچے ہوں تو اللہ تعالی اس رحمت کے نتیجے میں جو ان بچوں سے وہ رکھتا ہے مسلمان ( بچے کے باپ اور ماں ) کو بھی جنت میں داخل کرے گا۔

حدیث نمبر : 1249
حدثنا مسلم، حدثنا شعبة، حدثنا عبد الرحمن بن الأصبهاني، عن ذكوان، عن أبي سعيد، رضى الله عنه أن النساء، قلن للنبي صلى الله عليه وسلم اجعل لنا يوما‏.‏ فوعظهن، وقال ‏"‏ أيما امرأة مات لها ثلاثة من الولد كانوا حجابا من النار‏"‏‏. ‏ قالت امرأة واثنان‏.‏ قال ‏"‏ واثنان‏"‏‏. ‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے، ان سے عبدالرحمن بن عبد اللہ اصبہانی نے، ان سے ذکوان نے اور ان سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ عورتوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمیں بھی نصیحت کر نے کے لیے آپ ایک دن خاص فرما دیجےے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ان کی درخواست منظورفرماتے ہوئے ایک خاص دن میں ) ان کو وعظ فرمایا اور بتلایا کہ جس عورت کے تین بچے مر جائیں تو وہ اس کے لیے جہنم سے پناہ بن جاتے ہیں۔ اس پر ایک عورت نے پوچھا، حضور! اگر کسی کے دوہی بچے مریں؟ آپ نے فرمایا کہ دو بچوں پر بھی۔

حدیث نمبر : 1250
وقال شريك، عن ابن الأصبهاني: حدثني أبو صالح، عن أبي سعيد وابي هريرة رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم. قال أبو هريرة: (لم يبلغوا الحنث).

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے، ان سے عبدالرحمن بن عبد اللہ اصبہانی نے، ان سے ذکوان نے اور ان سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ عورتوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمیں بھی نصیحت کر نے کے لیے آپ ایک دن خاص فرما دیجےے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ان کی درخواست منظورفرماتے ہوئے ایک خاص دن میں ) ان کو وعظ فرمایا اور بتلایا کہ جس عورت کے تین بچے مر جائیں تو وہ اس کے لیے جہنم سے پناہ بن جاتے ہیں۔ اس پر ایک عورت نے پوچھا، حضور! اگر کسی کے دوہی بچے مریں؟ آپ نے فرمایا کہ دو بچوں پر بھی۔

حدیث نمبر : 1251
حدثنا علي، حدثنا سفيان، قال سمعت الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا يموت لمسلم ثلاثة من الولد، فيلج النار إلا تحلة القسم‏"‏‏. ‏ قال أبو عبد الله ‏{‏وإن منكم إلا واردها‏}‏‏.
ہم سے علی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، انہوں نے کہا کہ میں نے زہری سے سنا، انہوں نے سعید بن مسیب سے سنا اور انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کے اگر تین بچے مرجائیں تو وہ دوزخ میں نہیں جائےگا اور اگر جائے گا بھی تو صرف قسم پوری کرنے کے لیے۔ ابو عبد اللہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ( قرآن کی آیت یہ ہے ) تم میں سے ہر ایک کو دوزخ کے اوپر سے گزرنا ہوگا۔

تشریح : نابالغ بچوں کی وفات پر اگر ماں باپ صبر کریں تو اس پر ثواب ملتا ہے۔ قدرتی طور پر اولاد کی موت ماں باپ کے لیے بہت بڑا غم ہے اور اسی لیے اگر کوئی اس پر یہ سمجھ کر صبر کرے کہ اللہ تعالی ہی نے یہ بچہ دیا تھا اور اب اسی نے اٹھالیا تو اس حادثہ کی سنگینی کے مطابق اس پرثواب بھی اتنا ہی ملے گا۔ اس کے گنا ہ معاف ہو جائیں گے۔ اور آخرت میں اس کی جگہ جنت میں ہوگی۔ آخر میں یہ بتایا ہے کہ جہنم سے یوں تر ہر مسلمان کو گزرنا ہوگا لیکن جو مومن بندے اس کے مستحق نہیں ہوں گے، ان کا گزرنا بس ایسا ہی ہوگا جیسے قسم پوری کی جارہی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر قرآن مجید کی آیت بھی لکھی ہے۔ بعض علماءنے ا س کی یہ توجیہ بیان کی ہے کہ پل صراط چونکہ ہے ہی جہنم پر اور اس سے ہر انسان کو گزرنا ہوگا۔ اب جو نیک ہے وہ اس سے بآسانی گزر جائے گا لیکن بدعمل یا کافر اس سے گزر نہ سکیں گے اورجہنم میں چلے جائیں گے تو جہنم سے گزر نے سے یہی مرادہے۔

یہاں اس بات کا بھی لحاظ رہے کہ حدیث میں نابالغ اولاد کے مرنے پر اس اجر عظیم کا وعدہ کیا گیا ہے۔ بالغ کا ذکر نہیں ہے حالانکہ بالغ اور خصوصا جوان اولاد کی موت کا سانحہ سب سے بڑا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے ماں باپ کی اللہ تعالی سے شفارس کرتے ہیں۔ بعض روایتوں میں ایک بچے کی موت پر بھی یہی وعدہ موجود ہے۔جہاں تک صبر کا تعلق ہے وہ بہر حال بالغ کی موت پر بھی ملے گا۔
الغرض دوزخ کے اوپر سے گزرنے کا مطلب پل صراط کے اوپر سے گزرناہے جو دوزخ کے پشت پر نصب ہے پس مومن کا دوزخ میں جانا یہی پل صراط کے اوپر سے گزرنا ہے۔آیت شریفہ ( وان منکم الا واردھا ) کا یہی مفہوم ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : کسی مرد کا کسی عورت سے قبر کے پاس یہ کہنا کہ صبر کر

حدیث نمبر : 1252
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا ثابت، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ قال مر النبي صلى الله عليه وسلم بامرأة عند قبر وهي تبكي فقال ‏"‏ اتقي الله واصبري‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ثابت نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر پر بیٹھی ہوئی رورہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ا س سے فرمایا کہ خدا سے ڈر اور صبر کر۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : میت کو پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دینا اور وضو کرانا

حدیث نمبر : 1252
وحنط ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ ابنا لسعيد بن زيد، وحمله وصلى ولم يتوضأ‏.‏ وقال ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ المسلم لا ينجس حيا ولا ميتا‏.‏ وقال سعد لو كان نجسا ما مسسته‏.‏ وقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ المؤمن لا ينجس‏"‏‏.
اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے بچے ( عبد الرحمن ) کے خوشبو لگائی پھر اس کی نعش اٹھا کر لے گئے اور نماز پڑھی، پھر وضو نہیں کیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ مسلمان نجس نہیں ہوتا، زندہ ہویا مردہ، سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر ( سعید بن زید رضی اللہ عنہ ) کی نعش نجس ہوتی تو میں اسے چھوتا ہی نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مومن ناپاک نہیں ہوتا۔

حدیث نمبر : 1253
حدثنا إسماعيل بن عبد الله، قال حدثني مالك، عن أيوب السختياني، عن محمد بن سيرين، عن أم عطية الأنصارية ـ رضى الله عنها ـ قالت دخل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم حين توفيت ابنته فقال ‏"‏ اغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن ذلك بماء وسدر، واجعلن في الآخرة كافورا أو شيئا من كافور، فإذا فرغتن فآذنني‏"‏‏. ‏ فلما فرغنا آذناه فأعطانا حقوه فقال ‏"‏ أشعرنها إياه‏"‏‏. ‏ تعني إزاره‏.‏
ہم سے اسماعیل بن عبد اللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے اور ان سے محمد بن سیرین نے، ان سے ام عطیہ انصاری رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ( زینب یا ام کلثوم رضی اللہ عنہما ) کی وفات ہوئی آپ وہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ تین یا پانچ مرتبہ غسل دے دو اور اگر مناسب سمجھو تو اس سے بھی زیادہ دے سکتی ہو۔ غسل کے پانی میںبیری کے پتے ملا لو اور آخر میں کافور یا ( یہ کہا کہ ) کچھ کافور کا استعمال کر لینا اور غسل سے فارغ ہونے پر مجھے خبر دے دینا۔ چنا نچہ ہم نے جب غسل دے لیا تو آپ کو خبر دیدی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنا ازار دیا اور فرمایا کہ اسے ان کی قمیص بنا دو۔ آپ کی مراد اپنے ازار سے تھی۔

تشریح : حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مطلب باب یہ ہے کہ مومن مرنے سے ناپاک نہیں ہو جاتا اور غسل محض بدن کو پاک صاف کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ اس لیے غسل کے پانی میں بیر کے پتوں کا ڈالنا مسنون ہوا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اثر کو امام مالک نے مؤطا میں وصل کیا۔ اگر مردہ نجس ہوتا تو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس کونہ چھوتے نہ اٹھاتے اگر چھوتے تو اپنے اعضاءکو دھوتے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے اس حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ کیاکہ جو میت کو نہلائے وہ غسل کرے اور جو اٹھا ئے وہ وضوکرے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کو سعید بن منصور نے سند صحیح کے ساتھ وصل کیا اور یہ کہ “مومن نجس نہیں ہوتا”اس روایت کو مرفوعاً خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الغسل میں روایت کیا ہے اور سعد بن ابی وقاص کے قول کو ابن ابی شیبہ نے نکالا کہ سعد رضی اللہ عنہ کو سعید بن زید کے مرنے کی خبر ملی۔ وہ گئے اور ان کو غسل اور کفن دیا، خوشبو لگائی اور گھر میں آکر غسل کیا اور کہنے لگے کہ میں نے گرمی کی وجہ سے غسل کیا ہے نہ کہ مردے کو غسل دینے کی وجہ سے۔ اگر وہ نجس ہوتا تو میں اسے ہاتھ ہی کیوں لگا تا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کو اپنا ازار تبرک کے طور پر عنایت فرمایا۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ اسے قمیص بنا دو کہ یہ ان کے بدن مبارک سے ملا رہے۔ جمہور کے نزدیک میت کو غسل دلانا فرض ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : میت کو طاق مرتبہ غسل دینا مستحب ہے

حدیث نمبر : 1254
حدثنا محمد، حدثنا عبد الوهاب الثقفي، عن أيوب، عن محمد، عن أم عطية ـ رضى الله عنها ـ قالت دخل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن نغسل ابنته فقال ‏"‏ اغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك بماء وسدر، واجعلن في الآخرة كافورا، فإذا فرغتن فآذنني‏"‏‏. ‏ فلما فرغنا آذناه، فألقى إلينا حقوه فقال ‏"‏ أشعرنها إياه
ہم سے محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد الوہاب ثقفی نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے محمد نے، ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کو غسل دے رہی تھیں کہ آپ تشریف لائے اور فرمایا کہ تین یا پانچ مرتبہ غسل دو یا اس سے بھی زیادہ، پانی اور بیر کے پتوں سے اور آخر میں کافور بھی استعمال کرنا۔ پھر فارغ ہو کر مجھے خبر دے دینا۔ جب ہم فارغ ہوئے تو آپ کو خبر کر دی۔ آپ نے اپنا ازار عنایت فرمایا اور فرمایا کہ یہ اندر اس کے بدن پر لپیٹ دو۔

فقال أيوب وحدثتني حفصة بمثل حديث محمد وكان في حديث حفصة ‏"‏ اغسلنها وترا‏"‏‏. ‏ وكان فيه ‏:‏ ‏"‏ ثلاثا أو خمسا أو سبعا‏"‏‏. ‏ وكان فيه أنه قال ‏"‏ ابدأن بميامنها ومواضع الوضوء منها‏"‏‏. ‏ وكان فيه أن أم عطية قالت ومشطناها ثلاثة قرون‏.‏
ایوب نے کہا کہ مجھ سے حفصہ نے بھی محمد بن سیرین کی حدیث کی طرح بیان کیاتھا۔ حفصہ کی حدیث میں تھا کہ طاق مرتبہ غسل دینا اور اس میں یہ تفصیل تھی کہ تین یا پانچ یا سات مرتبہ ( غسل دینا ) اور اس میں یہ بھی بیان تھا کہ میت کے دائیں طرف سے اعضاءوضو سے غسل شروع کیا جائے۔ یہ بھی اسی حدیث میں تھا کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہم نے کنگھی کر کے ان کے بالوں کو تین لٹوں میں تقسیم کر دیا تھا۔

معلوم ہوا کہ عورت کے سر میں کنگھی کر کے اس کے بالوں کی تین لٹیں گوندھ کر پیچھے ڈال دیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہی قول ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : اس بیان میں کہ ( غسل ) میت کی دائیں طرف سے شروع کیا جائے

حدیث نمبر : 1255
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، حدثنا خالد، عن حفصة بنت سيرين، عن أم عطية ـ رضى الله عنها ـ قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في غسل ابنته ‏"‏ ابدأن بميامنها ومواضع الوضوء منها‏"‏‏.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کے غسل کے وقت فرمایا تھا کہ دائیں طرف سے اور اعضاءوضو سے غسل شروع کرنا۔

ہر اچھاکام دائیں طرف سے شروع کرنا مشروع ہے اور اس بارے میں کئی احادیث وارد ہوئی ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : اس بارے میں کہ پہلے میت کے اعضاء وضو کو دھویا جائے

حدیث نمبر : 1256
حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن خالد الحذاء، عن حفصة بنت سيرين، عن أم عطية ـ رضى الله عنها ـ قالت لما غسلنا بنت النبي صلى الله عليه وسلم قال لنا ونحن نغسلها ‏"‏ ابدأن بميامنها ومواضع الوضوء‏"‏‏.
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے خالدحذاءنے، ان سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کو ہم غسل دے رہی تھیں۔ جب ہم نے غسل شروع کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غسل دائیں طرف سے اور اعضاءوضو سے شروع کرو۔

اس سے معلوم ہوا کہ پہلے استنجا وغیرہ کرا کے وضو کرایا جائے اور کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا بھی ثابت ہوا پھر غسل دلایا جائے اور غسل دائیں طرف سے شروع کیا جائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : اس بیان میں کہ کیا عورت کو مرد کے ازار کا کفن دیا جاسکتا ہے؟

حدیث نمبر : 1257
حدثنا عبد الرحمن بن حماد، أخبرنا ابن عون، عن محمد، عن أم عطية، قالت توفيت بنت النبي صلى الله عليه وسلم فقال لنا ‏"‏ اغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن، فإذا فرغتن فآذنني‏"‏‏. ‏ فلما فرغنا آذناه فنزع من حقوه إزاره وقال ‏"‏ أشعرنها إياه‏"‏‏. ‏
ہم سے عبد الرحمن بن حماد نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ابن عون نے خبر دی، انھیں محمد نے، ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی کا انتقال ہوگیا۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا کہ تم اسے تین یا پانچ مرتبہ غسل دو اور اگر مناسب سمجھو تو اس سے زیادہ مرتبہ بھی غسل دے سکتی ہو۔ پھر فارغ ہوکر مجھے خبر دی نا۔ چنانچہ جب ہم غسل دے چکیں تو آپ کو خبر دی اور آپ نے اپنا ازار عنایت فرمایا اور فرمایا کہ اسے اس کے بدن سے لپیٹ دو۔

ابن بطال نے کہا کہ اس کے جواز پر اتفاق ہے اور جس نے یہ کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات اور تھی دوسروں کو ایسا نہ کرنا چاہیے اس کا قول بے دلیل ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : میت کے غسل میں کافور کا استعمال آخر میں ایک بار کیا جائے

حدیث نمبر : 1258
حدثنا حامد بن عمر، حدثنا حماد بن زيد، عن أيوب، عن محمد، عن أم عطية، قالت توفيت إحدى بنات النبي صلى الله عليه وسلم فخرج، فقال ‏"‏ اغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن بماء وسدر، واجعلن في الآخرة كافورا أو شيئا من كافور، فإذا فرغتن فآذنني‏"‏‏. ‏ قالت فلما فرغنا آذناه، فألقى إلينا حقوه فقال ‏"‏ أشعرنها إياه‏"‏‏. ‏وعن أيوب، عن حفصة، عن أم عطية ـ رضى الله عنهما ـ بنحوه
ہم سے حامد بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے محمد نے اور ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ اسے تین یا پانچ مرتبہ غسل دے دو اور اگر تم مناسب سمجھو تو اس سے بھی زیادہ پانی اور بیری کے پتوں سے نہلاؤ اور آخر میں کافور یا ( یہ کہاکہ ) کچھ کافورکا بھی استعمال کرنا۔ پھر فارغ ہوکر مجھے خبر دینا۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے بیا ن کیا کہ جب ہم فارغ ہو ئے تو ہم نے کہلا بھجوایا۔ آپ نے اپنا تہبند ہمیں دیا اور فرمایا کہ اسے اندر جسم پر لپیٹ دو۔ ایوب نے حفصہ بنت سیرین سے روایت کی، ان سے ام عطیہ نے اسی طرح حدیث بیان کی۔

حدیث نمبر : 1259
وقالت إنه قال ‏"‏ اغسلنها ثلاثا أو خمسا أو سبعا أو أكثر من ذلك إن رأيتن‏"‏‏. ‏ قالت حفصة قالت أم عطية ـ رضى الله عنها ـ وجعلنا رأسها ثلاثة قرون‏.‏
اور ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے اس روایت میں یوں کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین یا پانچ یا سات مرتبہ یا اگر تم مناسب سمجھو تو اس سے بھی زیا دہ غسل دے سکتی ہو۔ حفصہ نے بیان کیا کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہم نے ان کے سر کے بال تین لٹوں میں تقسیم کر دیئے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : میت عورت ہو تو غسل کے وقت اس کے بال کھولنا

وقال ابن سيرين لا بأس أن ينقض شعر الميت
اور ابن سیرین رحمہ اللہ نے کہا کہ میت ( عورت ) کے سر کے بال کھولنے میں کوئی حرج نہیں۔

حدیث نمبر : 1260
حدثنا أحمد، حدثنا عبد الله بن وهب، أخبرنا ابن جريج، قال أيوب وسمعت حفصة بنت سيرين، قالت حدثتنا أم عطية ـ رضى الله عنها ـ أنهن جعلن رأس بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثة قرون نقضنه ثم غسلنه ثم جعلنه ثلاثة قرون‏.‏
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیاانہیں ابن جریج نے خبر دی، ان سے ایوب نے بیان کیاکہ میں نے حفصہ بنت سیرین سے سنا، انہوں نے کہا کہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے ہم سے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کے بالوں کو تین لٹوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ پہلے بال کھولے گئے پھر انہیں دھوکر ان کی تین چوٹیاں کر دی گئیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : میت پر کپڑا کیونکر لپیٹنا چا ہیے

وقال الحسن الخرقة الخامسة تشد بها الفخذين والوركين تحت الدرع‏.‏
اور حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ عورت کے لیے ایک پانچواں کپڑا چاہیے جس سے قمیص کے تلے رانیں اور سرین باندھے جائیں۔
تشریح : اس کو ابن ابی شیبہ نے وصل کیا، امام حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عورت کے کفن میں پانچ کپڑے سنت ہیں۔ احمد اور ابوداؤد کی روایت میںلیلیٰ بنت قانف سے یہ ہے کہ میں بھی ان عورتوں میں تھی جنہوں نے حضر ت ام کلثوم بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوغسل دیا تھا۔ پہلے آپ نے کفن کے لیے تہبند دیا پھر کرتہ دیا اور اوڑھنی یعنی سر بندھن پھر چادر پھر لفافہ میں لپیٹ دی گئیں۔ معلوم ہوا کہ عورت کے کفن میں یہ پانچ کپڑے سنت ہیں اگر میسر ہوں ورنہ مجبوری میں ایک بھی جائز ہے۔

حدیث نمبر : 1261
حدثنا أحمد، حدثنا عبد الله بن وهب، أخبرنا ابن جريج، أن أيوب، أخبره قال سمعت ابن سيرين، يقول جاءت أم عطية ـ رضى الله عنها ـ امرأة من الأنصار من اللاتي بايعن، قدمت البصرة، تبادر ابنا لها فلم تدركه ـ فحدثتنا قالت دخل علينا النبي صلى الله عليه وسلم ونحن نغسل ابنته فقال ‏"‏ اغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن ذلك بماء وسدر، واجعلن في الآخرة كافورا، فإذا فرغتن فآذنني‏"‏‏. ‏ قالت فلما فرغنا ألقى إلينا حقوه فقال ‏"‏ أشعرنها إياه‏"‏‏. ‏ ولم يزد على ذلك، ولا أدري أى بناته‏.‏ وزعم أن الإشعار الففنها فيه، وكذلك كان ابن سيرين يأمر بالمرأة أن تشعر ولا تؤزر‏.‏
ہم سے احمد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیا، انہیں ابن جریج نے خبر دی، انہیں ایوب نے خبر دی، کہا کہ میں نے ابن سیرین سے سنا، انہوں نے کہا کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے یہاں انصار کی ان خواتین میں سے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی، ایک عورت آئی، بصرہ میں انہیں اپنے ایک بیٹے کی تلاش تھی۔ لیکن وہ نہ ملا۔ پھر اس نے ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کو غسل دے رہی تھیں کہ آپ تشریف لائے اور فرمایا کہ تین یا پانچ مرتبہ غسل دے دو اور اگر مناسب سمجھو تو اس سے بھی زیادہ دے سکتی ہو۔ غسل پانی اور بیری کے پتوں سے ہوناچاہیے اور آخر میں کافور بھی استعمال کر لینا۔ غسل سے فارغ ہو کر مجھے خبر کرادینا۔ انہوں نے بیان کیا کہ جب ہم غسل دے چکیں ( تو اطلاع دی ) اور آپ نے ازار عنایت کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اسے اندر بدن سے لپیٹ دو۔ اس سے زیادہ آپ نے کچھ نہیں فرمایا۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ یہ آپ کی کونسی بیٹی تھیں ( یہ ایوب نے کہا ) اور انہوں نے بتایا کہ اشعار کا مطلب یہ ہے یہ اس میں نعش لپیٹ دی جائے۔ ابن سیرین رحمہ اللہ بھی یہی فرمایا کرتے تھے کہ عورت کے بدن میں اسے لپیٹا جائے ازار کے طور پر نہ باندھا جائے۔
 
Top