• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : اس بیان میں کہ کیا عورت میت کے بال تین لٹوں میں تقسیم کر دیئے جائیں؟

حدیث نمبر : 1262
حدثنا قبيصة، حدثنا سفيان، عن هشام، عن أم الهذيل، عن أم عطية ـ رضى الله عنها ـ قالت ضفرنا شعر بنت النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ تعني ثلاثة قرون‏.‏ وقال وكيع قال سفيان ناصيتها وقرنيها‏.‏
ہم سے قبیصہ نے حدیث بیان کی، ان سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ام ہذیل نے اور ان سے ام عطیہ نے، انہوں نے کہا کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کے سر کے بال گوندھ کر ان کی تین چوٹیاں کردیں اور وکیع نے سفیان سے یوں روایت کیا، ایک پیشانی کی طرف کے بالوں کی چوٹی اور دوادھر ادھر کے بالوں کی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : عورت کے بالوں کی تین لٹیں بنا کر اس کے پیچھے ڈال دی جائیں

حدیث نمبر : 1263
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى بن سعيد، عن هشام بن حسان، قال حدثتنا حفصة، عن أم عطية ـ رضى الله عنها ـ قالت توفيت إحدى بنات النبي صلى الله عليه وسلم فأتانا النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ اغسلنها بالسدر وترا ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن ذلك، واجعلن في الآخرة كافورا أو شيئا من كافور، فإذا فرغتن فآذنني‏"‏‏. ‏ فلما فرغنا آذناه، فألقى إلينا حقوه، فضفرنا شعرها ثلاثة قرون وألقيناها خلفها‏.‏

[/AB] ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ہشام بن حسان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حفصہ نے بیان کیا، ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی کا انتقال ہوگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ ان کو پانی اور بیری کے پتوں سے تین یا پانچ مرتبہ غسل دے لو۔ اگر تم مناسب سمجھو تو اس سے زیادہ بھی دے سکتی ہو اور ا ٓخر میں کافور یا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایاکہ ) تھوڑی سی کافور استعمال کرو پھر جب غسل دے چکو تو مجھے خبر دو۔ چنانچہ فارغ ہو کر ہم نے آپ کو خبر دی تو آپ نے ( ان کے کفن کے لیے ) اپنا ازار عنایت کیا۔ ہم نے اس کے سر کے بالوں کی تین چوٹیاں کر کے انہیں پیچھے کی طرف ڈال دیا تھا۔

صحیح ابن حبان میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا حکم دیا تھا کہ بالوں کی تین چوٹیاں کردو۔ اس حدیث سے میت کے بالوں کا گوندھنا بھی ثابت ہوا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : اس بارے میں کہ کفن کے لیے سفید کپڑے ہونے مناسب ہیں

حدیث نمبر : 1264
حدثنا محمد بن مقاتل، أخبرنا عبد الله، أخبرنا هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كفن في ثلاثة أثواب يمانية بيض سحولية من كرسف، ليس فيهن قميص ولا عمامة‏.‏
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو عبد اللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے باپ عروہ بن زبیر نے اور انہیں ( ان کی خالہ ) ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یمن کے تین سفید سوتی دھلے ہوئے کپڑوں میں کفن دیا گیا ان میں نہ قمیص تھی نہ عمامہ۔

تشریح : بلکہ ایک ازار تھی ایک چادر ایک لفافہ پس سنت یہی تین کپڑے ہیں عمامہ باندھنا بدعت ہے۔ حنابلہ اور ہمارے امام احمد بن حنبل نے اس کو مکروہ رکھا ہے اور شافعیہ نے قمیص اور عمامہ کا بڑھانا بھی جائز رکھا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ سفید کپڑوں میں کفن دیا کرو۔ ترمذی نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن کے بارے میں جتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں ان سب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث زیادہ صحیح ہے۔ افسوس ہے کہ ہمارے زمانہ کے لوگ زندگی بھی شادی غمی کے رسوم اور بدعات میں گرفتار رہتے ہیں اور مرتے وقت بھی بیچاری میت کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ کہیں کفن خلاف سنت کرتے ہیں کہیں لفافہ کے اوپر ایک چادر ڈالتے ہیں کہیں میت پر شامیانہ تانتے ہیں، کہیں تیجا دسواں چہلم کرتے ہیں۔ کہیں قبرمیں پیری مریدی کا شجر رکھتے ہیں۔ کہیں قبر کا چراغ جلاتے ہیں۔ کہیں صندل شیرینی چادر چڑھاتے ہیں۔ کہیں قبر پر میلہ اور مجمع کر تے ہیں اور اس کا نام عرس رکھتے ہیں۔ کہیں قبر کو پختہ کرتے ہیں، اس پر عمارت اور گنبد اٹھاتے ہیں۔ یہ سب امور بدعت اور ممنوع ہیں۔ اللہ تعالی مسلمانوں کی آنکھیں کھولے اور ان کو نیک توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین ( وحیدی )

روایت میں کفن نبوی کے متعلق لفظ ’سحولیۃ” آیا ہے۔ جس کی تشریح علامہ شوکانی کے لفظوں میں یہ ہے۔ سحولیۃ بضم المھملتین ویروی بفتح اولہ نسبۃ الی سحول قریۃ بالیمن قال النووی والفتح اشھر وھو روایۃ الاکثرین قال ابن الاعرابی وغیرہ ھی ثیاب بیض نقیۃ لا تکون الامن القطن وقال ابن قتیبۃ ثیاب بیض ولم یخصھا بالقطن وفی روایۃ للبخاری “سحول” بدون نسبۃ وھو جمع سحل والسحل الثوب الا بیض النقی ولا یکون الامن قطن کما تقدم وقال الازھری بالفتح المدینۃ وبالضم الثیاب وقیل النسبۃ الی القریۃ بالضم واما بالفتح فنسبۃ الی القصار لانہ یسحل الثیاب ای ینقیھا کذا فی الفتح۔ ( نیل الاوطار، جلد:3ص:40 ) خلاصہ یہ کہ لفظ “سحولیہ” سین اورحاءکے ضمہ کے ساتھ ہے اور سین کا فتح بھی روایت کیا گیا ہے۔ جو ایک گاؤں کی طرف نسبت ہے جو یمن میں واقع تھا۔ ابن اعرابی وغیرہ نے کہا کہ وہ سفید صاف ستھرا کپڑا ہے جو سوتی ہوتا ہے۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں لفظ “سحول”آیا ہے جو سحل کی جمع ہے اور وہ سفید دھلا ہو اکپڑا ہوتا ہے۔ ازہری کہتے ہیں کہ سحول سین کے فتح کے ساتھ شہر مراد ہوگا اور ضمہ کے ساتھ دھوبی مراد ہوگا جوکپڑے کو دھو کر صاف شفاف بنا دیتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : دو کپڑوں میں کفن دینا

حدیث نمبر : 1265
حدثنا أبو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن أيوب، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهم ـ قال بينما رجل واقف بعرفة إذ وقع عن راحلته فوقصته ـ أو قال فأوقصته ـ قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اغسلوه بماء وسدر، وكفنوه في ثوبين، ولا تحنطوه ولا تخمروا رأسه، فإنه يبعث يوم القيامة ملبيا‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے حماد نے، ان سے ایوب نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ ایک شخص میدان عرفہ میں ( احرام باندھے ہوئے ) کھڑا ہوا تھا کہ اپنی سواری سے گر پڑا اور سواری نے انہیں کچل دیا۔ یا ( وقصتہ کے بجائے یہ لفظ ) او قصتہ کہا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے فرمایا کہ پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر دو کپڑوں میں انہیں کفن دو اور یہ بھی ہدایت فرمائی کہ انہیں خوشبو نہ لگاؤ اور نہ ان کا سرچھپاؤ۔ کیونکہ یہ قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھے گا۔

ثابت ہوا کہ محرم کو دو کپڑوں میں دفنایا جائے۔ کیونکہ وہ حالت احرام میں ہے اور محرم کے لیے احرام کی صرف دو ہی چادریں ہیں، برخلاف ا س کے دیگر مسلمانوں کے لیے مرد کے لیے تین چادریں اور عورت کے لیے پانچ کپڑے مسنون ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز

باب : میت کو خوشبو لگانا

حدیث نمبر : 1266
حدثنا قتيبة، حدثنا حماد، عن أيوب، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال بينما رجل واقف مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرفة إذ وقع من راحلته فأقصعته ـ أو قال فأقعصته ـ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اغسلوه بماء وسدر، وكفنوه في ثوبين، ولا تحنطوه ولا تخمروا رأسه، فإن الله يبعثه يوم القيامة ملبيا‏"‏‏.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ایوب نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدان عرفہ میں وقوف کئے ہوئے تھا کہ وہ اپنے اونٹ سے گر پڑا اور اونٹ نے انہیں کچل دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر دو کپڑوں کا کفن دو، خوشبو نہ لگاؤ اور نہ سر ڈھکو کیونکہ اللہ تعالی قیامت کے دن انہیں لبیک کہتے ہوئے اٹھائے گا۔

تشریح : محرم کو خوشبو نہ لگائی جائے۔ اس سے ثابت ہوا کہ غیر محرم میت کو خوشبو لگانی چاہیے۔ باب کامقصد یہی ہے۔ محرم کو خوشبو کے لیے اس واسطے منع فرمایا کہ وہ حالت احرام ہی میں ہے اور قیامت میں اس طرح لبیک پکارتا ہوا اٹھے گا اور ظاہر ہے کہ محرم کو حالت احرام میں خوشبو کا استعمال منع ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : محرم کو کیونکر کفن دیا جائے

حدیث نمبر : 1267
حدثنا أبو النعمان، أخبرنا أبو عوانة، عن أبي بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهم ـ أن رجلا، وقصه بعيره، ونحن مع النبي صلى الله عليه وسلم وهو محرم فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اغسلوه بماء وسدر، وكفنوه في ثوبين، ولا تمسوه طيبا، ولا تخمروا رأسه، فإن الله يبعثه يوم القيامة ملبدا‏"‏‏.
ہم سے ابو النعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو ابو عوانہ نے خبر دی، انہیں ابو بشر جعفر نے، انہیں سعید بن جبیر نے، انہیں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احرام باندھے ہوئے تھے کہ ایک شخص کی گردن اس کے اونٹ نے توڑ ڈالی۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے دو اور کپڑوں کا کفن دو اور خوشبو نہ لگاؤ نہ ان کے سر کو ڈھکو۔ اس لیے کہ اللہ تعالی انہیں اٹھائےگا۔ اس حالت میں کہ وہ لبیک پکار تاہوگا۔

حدیث نمبر : 1268
حدثنا مسدد، حدثنا حماد بن زيد، عن عمرو، وأيوب، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهم ـ قال كان رجل واقف مع النبي صلى الله عليه وسلم بعرفة فوقع عن راحلته ـ قال أيوب فوقصته، وقال عمرو فأقصعته ـ فمات فقال ‏"‏ اغسلوه بماء وسدر، وكفنوه في ثوبين، ولا تحنطوه ولا تخمروا رأسه، فإنه يبعث يوم القيامة ـ قال أيوب يلبي، وقال عمرو ـ ملبيا‏"‏‏.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے حماد بن زید نے، ان سے عمرو اور ایوب نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدان عرفات میں کھڑا ہوا تھا، اچانک وہ اپنی سواری سے گر پڑا۔ ایوب نے کہا اونٹنی نے اس کی گردن توڑ ڈالی۔ اور عمرو نے یوں کہا کہ اونٹنی نے اس کو گرتے ہی مار ڈالا اور اس کا انتقال ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور دو کپڑوں کا کفن دو اور خوشبو نہ لگاؤ نہ سر ڈھکو کیونکہ قیامت میں یہ اٹھا یا جائے گا۔ ایوب نے کہا کہ ( یعنی ) تلبیہ کہتے ہوئے ( اٹھا یا جائے گا ) اور عمرونے ( اپنی روایت میں ملبی کے بجائے ) ملبیا کا لفظ نقل کیا۔ ( یعنی لبیک کہتا ہوا اٹھے گا )

معلوم ہوا کہ محرم مر جائے تو اس کا احرام باقی رہے گا۔ شافعیہ اور اہلحدیث کا یہی قول ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : قمیص میں کفن دینا اور اس کاحاشیہ سلا ہوا ہو یا بغیر سلا ہوا ہو اور بغیر قمیص کے کفن دینا

حدیث نمبر : 1269
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى بن سعيد، عن عبيد الله، قال حدثني نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن عبد، الله بن أبى لما توفي جاء ابنه إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله أعطني قميصك أكفنه فيه، وصل عليه واستغفر له، فأعطاه النبي صلى الله عليه وسلم قميصه فقال ‏"‏ آذني أصلي عليه‏"‏‏. ‏ فآذنه، فلما أراد أن يصلي عليه جذبه عمر ـ رضى الله عنه ـ فقال أليس الله نهاك أن تصلي على المنافقين فقال ‏"‏ أنا بين خيرتين قال ‏{‏استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم‏}‏‏"‏‏. ‏ فصلى عليه فنزلت ‏{‏ولا تصل على أحد منهم مات أبدا‏}‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ عمری نے کہا کہ مجھ سے نافع نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن ابی ( منافق ) کی موت ہوئی تو اس کا بیٹا ( عبداللہ صحابی ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! والدکے کفن کے لیے آپ اپنی قمیص عنایت فرمائیے اور ان پر نماز پڑھئے اور مغفرت کی دعا کیجئے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص ( غایت مروت کی وجہ سے ) عنایت کی اور فرما یا کہ مجھے بتانا میں نماز جنازہ پڑھوں گا ۔ عبداللہ نے اطلاع بھجوائی ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا نے کے لیے آگے بڑھے تو عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو پیچھے سے پکڑلیا اور عرض کیا کہ کیا اللہ تعالی نے آپ کو منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اختیار دیا گیا ہے جیساکہ ارشاد باری ہے ” تو ان کے لیے استغفار کر یا نہ کر اور اگر تو سترمرتبہ بھی استغفار کر ے تو بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا “ چنانچہ نبی کری صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی ۔ اس کے بعد یہ آیت اتری ” کسی بھی منافق کی موت پر اس کی نماز جنازہ کبھی نہ پڑھانا “ ۔

حدیث نمبر : 1270
حدثنا مالك بن إسماعيل، حدثنا ابن عيينة، عن عمرو، سمع جابرا ـ رضى الله عنه ـ قال أتى النبي صلى الله عليه وسلم عبد الله بن أبى بعد ما دفن فأخرجه، فنفث فيه من ريقه وألبسه قميصه‏.‏
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے ابن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرونے، انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو عبد اللہ بن ابی کو دفن کیا جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبر سے نکلوایا اور اپنا لعاب دہن ا سکے منہ میں ڈالا اور اپنی قمیص پہنائی۔

تشریح : عبد اللہ بن ابی مشہور منافق ہے جو جنگ احد کے موقع پر راستے میں سے کتنے ہی سادہ لوح مسلمانوں کو بہکا کر واپس لے آیا تھا اور اسی نے ایک موقع پر یہ بھی کہا تھا کہ ہم مدنی اور شریف لوگ ہیں اور یہ مہاجر مسلمان ذلیل پردیسی ہیں۔ ہمارا داؤ لگے گا تو ہم ان کو مدینہ سے نکال باہر کریں گے۔ اس کا بیٹا عبداللہ سچا مسلمان صحابی رسول تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دل شکنی گوارا نہیں کی اور ازراہ کرم اپنا کرتہ اس کے کفن کے لیے عنایت فرمایا۔ بعضوں نے کہا کہ جنگ بدر میں جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ قید ہو کر آئے تو وہ ننگے تھے۔ان کا یہ حال زاردیکھ کر اسی عبداللہ بن ابی نے اپنا کرتا ان کو پہنچادیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا بدلہ ادا کردیا کہ یہ احسان باقی نہ رہے۔

ان منافق لوگوں کے بارے میں پہلی آیت استغفرلہم اولا تستغفرلہم ان تستغفرلہم ( التوبہ: 80 ) نازل ہوئی تھی۔ اس آیت سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمجھے کہ ان پر نماز پڑھنا منع ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سمجھایا کہ اس آیت میں مجھ کو اختیار دیا گیا ہے۔ تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ خاموش رہے۔ بعد میں آیت ولا تصل علي احد منہم ( التوبہء84 ) نازل ہوئی۔ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے منافقوں پر نماز جنازہ پڑھنے سے قطعاً روک دیا۔ پہلی اور دوسری روایتوں میں تطبیق یہ ہے کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرتہ دینے کا وعدہ فرمادیا تھا پھر عبداللہ کے عزیزوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینا مناسب نہ جانا اور عبداللہ کا جنازہ تیار کرکے قبر میں اتاردیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کیا جو روایت میں مذکور ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : بغیر قمیص کے کفن دینا

مستملی کے نسخہ میں یہ ترجمہ باب نہیں ہے اور وہی ٹھیک ہے کیونکہ یہ مضمون اگلے باب میں بیان ہوچکا ہے۔

حدیث نمبر : 1271
حدثنا أبو نعيم، حدثنا سفيان، عن هشام، عن عروة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت كفن النبي صلى الله عليه وسلم في ثلاثة أثواب سحول كرسف، ليس فيها قميص ولا عمامة‏.‏
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا‘ ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے عروہ بن زبیر نے‘ ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سوتی دھلے ہوئے کپڑوں کا کفن دیا گیاتھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن میں نہ قمیص تھی اور نہ عمامہ۔

حدیث نمبر : 1272
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن هشام، حدثني أبي، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كفن في ثلاثة أثواب، ليس فيها قميص ولا عمامة‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے یحیٰی ٰ نے‘ ان سے ہشام نے‘ ان سے ان کے باپ عروہ بن زبیر نے‘ ان سے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین کپڑوں کا کفن دیا گیا تھا جن میں نہ قمیص تھی اور نہ عمامہ تھا۔ حضرت امام ابوعبداللہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابو نعیم نے لفظ ثلاثہ نہیں کہا اور عبداللہ بن ولید نے سفیان سے لفظ ثلاثہ نقل کیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : عمامہ کے بغیر کفن دینے کا بیان

حدیث نمبر : 1273
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كفن في ثلاثة أثواب بيض سحولية، ليس فيها قميص ولا عمامة‏.
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے مالک نے بیان کیا‘ ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے ان کے باپ عروہ بن زبیر نے‘ ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سحول کے تین سفید کپڑوں کا کفن دیا گیا تھا نہ ان میں قمیص تھی اور نہ عمامہ تھا۔

مطلب یہ ہے کہ چوتھا کپڑا نہ تھا۔ قسطلانی نے کہا امام شافعی رحمہ اللہ نے قمیص پہنانا جائز رکھا ہے مگر اس کو سنت نہیں سمجھا اور ان کی دلیل حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا فعل ہے جسے بیہقی نے نکالا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا۔ تین لفافے اور ایک قمیص اور ایک عمامہ لیکن شرح مہذب میں ہے کہ قمیص اور عمامہ نہ ہو۔ اگرچہ قمیص اور عمامہ مکروہ نہیں مگر اولیٰ کے خلاف ہے ( وحیدی ) بہتر یہی ہے کہ صرف تین چادروں میں کفن دیا جائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : کفن کی تیاری میت کے سارے مال میں سے کرنا چاہیے

وبه قال عطاء والزهري وعمرو بن دينار وقتادة‏.‏ وقال عمرو بن دينار الحنوط من جميع المال‏.‏ وقال إبراهيم يبدأ بالكفن ثم بالدين ثم بالوصية‏.‏ وقال سفيان أجر القبر والغسل هو من الكفن‏.‏
اور عطاء اور زہری اور عمروبن دینار اور قتادہ رضی اللہ عنہ کا یہی قول ہے۔ اور عمروبن دینار نے کہا خوشبودار کا خرچ بھی سارے مال سے کیا جائے۔ اور ابراہیم نخعی نے کہا پہلے مال میں سے کفن کی تیاری کریں‘ پھر قرض ادا کریں۔ پھر وصیت پوری کریں اور سفیان ثوری نے کہا قبر اور غسال کی اجرت بھی کفن میں داخل ہے۔

حدیث نمبر : 1274
حدثنا أحمد بن محمد المكي، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن سعد، عن أبيه، قال أتي عبد الرحمن بن عوف ـ رضى الله عنه ـ يوما بطعامه فقال قتل مصعب بن عمير ـ وكان خيرا مني ـ فلم يوجد له ما يكفن فيه إلا بردة، وقتل حمزة أو رجل آخر خير مني فلم يوجد له ما يكفن فيه إلا بردة، لقد خشيت أن يكون قد عجلت لنا طيباتنا في حياتنا الدنيا، ثم جعل يبكي‏.
ہم سے احمد بن محمد مکی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے‘ ان سے ان کے باپ سعد نے اور ان سے ان کے والد ابراہیم بن عبدالرحمن نے بیان کیا کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک دن کھانا رکھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ( غزوئہ احد میں ) شہید ہوئے‘ وہ مجھ سے افضل تھے۔ لیکن ان کے کفن کے لیے ایک چادر کے سوا اور کوئی چیز مہیا نہ ہوسکی۔ اسی طرح جب حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے یا کسی دوسرے صحابی کا نام لیا‘ وہ بھی مجھ سے افضل تھے۔ لیکن ان کے کفن کے لیے بھی صرف ایک ہی چادر مل سکی۔ مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے چین اور آرام کے سامان ہم کو جلدی سے دنیا ہی میں دے دئیے گئے ہوں پھر وہ رونے لگے۔

تشریح : امام المحدثین رحمتہ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا کہ حضرت مصعب اور حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہما کا کل مال اتنا ہی تھا۔ بس ایک چادر کفن کے لیے تو ایسے موقع پر سارا مال خرچ کرنا چاہیے۔ اس میں اختلاف ہے کہ میت قرض دار ہوتو صرف اتنا کفن دیا جائے کہ سترپوشی ہوجائے یا سارا بدن ڈھانکا جائے۔ حافظ ابن حجر نے اس کو ترجیح دی ہے کہ سارا بدن ڈھانکا جائے ایسا کفن دینا چاہیے۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ قریشی جلیل القدر صحابی ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے پہلے ہی ان کو مدینہ شریف بطور معلم القرآن ومبلغ اسلام بھیج دیا تھا۔ ہجرت سے پہلے ہی انہوں نے مدینہ میں جمعہ قائم فرمایا جب کہ مدینہ خود ایک گاؤں تھا۔ اسلام سے قبل یہ قریش کے حسین نوجوانوں میں عیش وآرام میں زیب وزینت میں شہرت رکھتے تھے مگر اسلام لانے کے بعد یہ کامل درویش بن گئے۔ قرآن پاک کی آیت رِجَال صَدَقُوا مَا عَاہَدُو اللّٰہَ عَلَیہِ ( الاحزاب: 23 ) ان ہی کے حق میں نازل ہوئی۔ جنگ احد میں یہ شہید ہوئے ( رضی اللہ عنہ وارضاہ )
 
Top