• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : اگر میت کے پاس ایک ہی کپڑا نکلے

حدیث نمبر : 1275
حدثنا محمد بن مقاتل، أخبرنا عبد الله، أخبرنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم، عن أبيه، إبراهيم أن عبد الرحمن بن عوف ـ رضى الله عنه ـ أتي بطعام وكان صائما فقال قتل مصعب بن عمير وهو خير مني، كفن في بردة، إن غطي رأسه بدت رجلاه، وإن غطي رجلاه بدا رأسه ـ وأراه قال ـ وقتل حمزة وهو خير مني، ثم بسط لنا من الدنيا ما بسط ـ أو قال أعطينا من الدنيا ما أعطينا ـ وقد خشينا أن تكون حسناتنا عجلت لنا، ثم جعل يبكي حتى ترك الطعام‏.‏
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم کو شعبہ نے خبر دی ‘ انہیں سعد بن ابراہیم نے‘ انہیں ان کے باپ ابراہیم بن عبدالرحمن نے کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے سامنے کھانا حاضر کیا گیا۔ وہ روزہ سے تھے اس وقت انہوں نے فرمایا کہ ہائے! مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ شہید کئے گئے‘ وہ مجھ سے بہتر تھے۔ لیکن ان کے کفن کے لیے صرف ایک چادر میسر آسکی کہ اگر اس سے ان کا سرڈھانکا جاتا تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں ڈھانکے جاتے تو سرکھل جاتا اور میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے یہ بھی فرمایا اور حمزہ رضی اللہ عنہ بھی ( اسی طرح ) شہید ہوئے وہ بھی مجھ سے اچھے تھے۔ پھر ان کے بعد دنیا کی کشادگی ہمارے لیے خوب ہوئی یا یہ فرمایا کہ دنیا ہمیں بہت دی گئی اور ہمیں تو اس کا ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری نیکیوں کا بدلہ اسی دنیا میں ہم کو مل گیا ہو پھر آپ اس طرح رونے لگے کہ کھانا بھی چھوڑ دیا۔

تشریح : حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کے ہاں صرف ایک چادر ہی ان کا کل متاع تھی، وہ بھی تنگ‘ وہی ان کے کفن میں دے دی گئی۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
حالانکہ حضرت عبدالرحمن روزہ دار تھے دن بھر کے بھوکے تھے پھر بھی ان تصورات میں کھانا ترک کردیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور اس قدر مالدار تھے کہ رئیس التجار کا لقب ان کو حاصل تھا۔ انتقال کے وقت دولت کے انبار ورثاءکو ملے۔ ان حالات میں بھی مسلمانوں کی ہر ممکن خدمات کے لیے ہر وقت حاضر رہا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ان کے کئی سو اونٹ مع غلہ کے ملک شام سے آئے تھے۔ وہ سارا غلہ مدینہ والوں کے لیے مفت تقسیم فرما دیا۔ رضی اللہ عنہ وار ضاہ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : جب کفن کا کپڑا چھوٹا ہو کہ سر اور پاؤں دونوں نہ ڈھک سکیں تو سر چھپا دیں ( اور پاؤں پر گھاس وغیرہ ڈال دیں )

حدیث نمبر : 1276
حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، حدثنا شقيق، حدثنا خباب ـ رضى الله عنه ـ قال هاجرنا مع النبي صلى الله عليه وسلم نلتمس وجه الله، فوقع أجرنا على الله، فمنا من مات لم يأكل من أجره شيئا منهم مصعب بن عمير، ومنا من أينعت له ثمرته فهو يهدبها‏.‏ قتل يوم أحد، فلم نجد ما نكفنه إلا بردة إذا غطينا بها رأسه خرجت رجلاه، وإذا غطينا رجليه خرج رأسه، فأمرنا النبي صلى الله عليه وسلم أن نغطي رأسه، وأن نجعل على رجليه من الإذخر‏.‏
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے میرے والد نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شقیق نے بیان کیا‘ کہا ہم سے خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا‘ کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف اللہ کے لیے ہجرت کی۔ اب ہمیں اللہ تعالیٰ سے اجر ملنا ہی تھا۔ ہمارے بعض ساتھی تو انتقال کرگئے اور ( اس دنیا میں ) انہوں نے اپنے کئے کا کوئی پھل نہیں دیکھا۔ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ بھی انہیں لوگوں میں سے تھے اور ہمارے بعض ساتھیوں کا میوہ پک گیا اور وہ چن چن کر کھاتا ہے۔ ( مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ) احد کی لڑائی میں شہید ہوئے ہم کو ان کے کفن میں ایک چادر کے سوا اور کوئی چیز نہ ملی اور وہ بھی ایسی کہ اگر اس سے سر چھپاتے ہیں تو پاؤں کھل جاتا ہے اور اگر پاؤں ڈھکتے تو سرکھل جاتا۔ آخر یہ دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سرکو چھپا دیں اور پاؤں پر سبز گھاس اذ خرنامی ڈال دیں۔

باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے کیونکہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا کفن جب ناکافی رہا تو ان کے پیروں کو اذخرنامی گھاس سے ڈھانک دیا گیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : ان کے بیان میں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اپنا کفن خود ہی تیار رکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کسی طرح کا اعتراض نہیں فرمایا

حدیث نمبر : 1277
حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا ابن أبي حازم، عن أبيه، عن سهل ـ رضى الله عنه ـ أن امرأة، جاءت النبي صلى الله عليه وسلم ببردة منسوجة فيها حاشيتها ـ أتدرون ما البردة قالوا الشملة‏.‏ قال نعم‏.‏ قالت نسجتها بيدي، فجئت لأكسوكها‏.‏ فأخذها النبي صلى الله عليه وسلم محتاجا إليها، فخرج إلينا وإنها إزاره، فحسنها فلان فقال اكسنيها، ما أحسنها‏.‏ قال القوم ما أحسنت، لبسها النبي صلى الله عليه وسلم محتاجا إليها، ثم سألته وعلمت أنه لا يرد‏.‏ قال إني والله ما سألته لألبسها إنما سألته لتكون كفني‏.‏ قال سهل فكانت كفنه‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ نے اور ان سے سہل رضی اللہ عنہ نے کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بنی ہوئی حاشیہ دار چادر آپ کے لیے تحفہ لائی۔ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے ( حاضرین سے ) پوچھا کہ تم جانتے ہو چادر کیا؟ لوگوں نے کہا کہ جی ہاں! شملہ۔ سہل رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں شملہ ( تم نے ٹھیک بتایا ) خیر اس عورت نے کہا کہ میں نے اپنے ہاتھ سے اسے بناہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنانے کے لیے لائی ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کپڑا قبول کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اس وقت ضرورت بھی تھی پھر اسے ازار کے طورپر باندھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو ایک صاحب ( عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ) نے کہا کہ یہ تو بڑی اچھی چادر ہے‘ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پہنا دیجئے۔ لوگوں نے کہا کہ آپ نے ( مانگ کر ) کچھ اچھا نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی ضرورت کی وجہ سے پہنا تھا اور تم نے یہ مانگ لیا حالانکہ تم کو معلوم ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا سوال رد نہیں کرتے۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ خدا کی قسم! میں نے اپنے پہننے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ چادر نہیں مانگی تھی۔ بلکہ میں اسے اپنا کفن بناؤں گا۔ سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہی چادر ان کا کفن بنی۔

تشریح : گویا حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی ہی میں اپنا کفن مہیا کرلیا۔ یہی باب کا مقصد ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی مخیر معتمد بزرگ سے کسی واقعی ضرورت کے موقع پر جائز سوال بھی کیا جاسکتا ہے۔ ایسی احادیث سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس کرکے جو آج کے پیروں کا تبرک حاصل کیا جاتا ہے یہ درست نہیں کیونکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات اور معجزات میں سے ہیں اور آپ ذریعہ خیروبرکت ہیں کوئی اور نہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : عورتوں کا جنازے کے ساتھ جانا کیسا ہے؟

حدیث نمبر : 1278
حدثنا قبيصة بن عقبة، حدثنا سفيان، عن خالد الحذاء، عن أم الهذيل، عن أم عطية ـ رضى الله عنها ـ قالت نهينا عن اتباع الجنائز، ولم يعزم علينا‏.
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا‘ ان سے خالد حذاءنے‘ ان سے ام ہذیل حفصہ بنت سیرین نے‘ ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہمیں ( عورتوں کو ) جنازے کے ساتھ چلنے سے منع کیا گیا مگر تاکید سے منع نہیں ہوا۔

بہر حال عورتوں کے لیے جنازہ کے ساتھ جانا منع ہے۔ کیونکہ عورتیں ضعیف القلب ہوتی ہیں۔ وہ خلاف شرع حرکات کرسکتی ہیں۔ شارع کی اور بھی بہت سی مصلحتیں ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : عورت کا اپنے خاوند کے سوا اور کسی پر سوگ کرنا کیسا ہے؟

حدیث نمبر : 1279
حدثنا مسدد، حدثنا بشر بن المفضل، حدثنا سلمة بن علقمة، عن محمد بن سيرين، قال توفي ابن لأم عطية ـ رضى الله عنها ـ فلما كان اليوم الثالث دعت بصفرة، فتمسحت به وقالت نهينا أن نحد أكثر من ثلاث إلا بزوج‏.
ہم سے مسددبن مسرہد نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے بشربن مفضل نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سلمہ بن علقمہ نے اور ان سے محمد بن سیرین نے کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے ایک بیٹے کا انتقال ہوگیا۔ انتقال کے تیسرے دن انہوں نے صفرہ خلوق ( ایک قسم کی زرد خوشبو ) منگوائی اور اسے اپنے بدن پر لگایا اور فرمایا کہ خاوند کے سوا کسی دوسرے پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے ہمیں منع کیا گیا ہے۔

حدیث نمبر : 1280
حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، حدثنا أيوب بن موسى، قال أخبرني حميد بن نافع، عن زينب ابنة أبي سلمة، قالت لما جاء نعى أبي سفيان من الشأم دعت أم حبيبة ـ رضى الله عنها ـ بصفرة في اليوم الثالث، فمسحت عارضيها وذراعيها وقالت إني كنت عن هذا لغنية، لولا أني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تحد على ميت فوق ثلاث، إلا على زوج، فإنها تحد عليه أربعة أشهر وعشرا‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ایوب بن موسیٰ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ مجھے حمید بن نافع نے زینب بنت ابی سلمہ سے خبر دی کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر جب شام سے آئی تو ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ( ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اور ام المؤمنین ) نے تیسرے دن صفرہ ( خوشبو ) منگوا کر اپنے دونوں رخساروں اور بازوؤں پر ملا اور فرمایا کہ اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سنا ہوتا کہ کوئی بھی عورت جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ شوہر کے سوا کسی کا سوگ تین دن سے زیادہ منائے اور شوہر کا سوگ چار مہینے دس دن کرے۔ تو مجھے اس وقت اس خوشبو کے استعمال کی ضرورت نہیں تھی۔

تشریح : جب کہ میں خود رانڈ بیوہ اوربڑھیا ہوں، میں نے اس حدیث پر عمل کرنے کے خیال سے خوشبو کا استعمال کرلیا۔ قال بن حجر ہو وہم لانہ مات بالمدینۃ بلا خلاف وانما الذی مات بالشام اخوہا یزید بن ابی سفیان والحدیث فی مسندی ابن ابی شیبۃ والدارمی بلفظ جاءنعی لا خی ام حبیبۃ اوحمیم لہا ولا حمد نحوہ فقوی کو نہ اخاہا یعنی علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ وہم ہے۔ اس لیے کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا انتقال بلا اختلاف مدینہ میں ہوا ہے۔ شام میں انتقال کرنے والے ان کے بھائی یزید بن ابی سفیان تھے۔ مسند ابن ابی شیبہ اور دارمی اورمسند احمد وغیرہ میں یہ وضاحت موجود ہے۔ اس حدیث سے ظاہر ہوا کہ صرف بیوی اپنے خاوند پر چار ماہ دس دن سوگ کرسکتی ہے اور کسی بھی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا جائز نہیں ہے۔ بیوی کے خاوند پر اتنا سوگ کرنے کی صورت میں بھی بہت سے اسلامی مصالح پیش نظر ہیں۔

حدیث نمبر : 1281
حدثنا إسماعيل، حدثني مالك، عن عبد الله بن أبي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، عن حميد بن نافع، عن زينب بنت أبي سلمة، أخبرته قالت، دخلت على أم حبيبة زوج النبي صلى الله عليه وسلم فقالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر تحد على ميت فوق ثلاث، إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا‏"‏‏. ‏
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا‘ ان سے عبداللہ بن ابی بکر نے بیان کیا‘ ان سے محمد بن عمروبن حزم نے‘ ان سے حمید بن نافع نے‘ ان کو زینب بنت ابی سلمہ نے خبر دی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئی تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ کوئی بھی عورت جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے شوہر کے سوا کسی مردے پر بھی تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں ہے۔ ہاں شوہر پر چار مہینے دس دن تک سوگ منائے۔

حدیث نمبر : 1282
ثم دخلت على زينب بنت جحش حين توفي أخوها، فدعت بطيب فمست ثم قالت ما لي بالطيب من حاجة، غير أني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر يقول ‏"‏ لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر تحد على ميت فوق ثلاث، إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا‏"‏‏.
پھر میں حضرت زینب بنت حجش کے یہاں گئی جب کہ ان کے بھائی کا انتقال ہوا‘ انہوں نے خوشبو منگوائی اور اسے لگایا‘ پھر فرمایا کہ مجھے خوشبو کی کوئی ضرورت نہ تھی لیکن میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ کسی بھی عورت کو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو‘ جائز نہیں ہے کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے۔ لیکن شوہر کا سوگ ( عدت ) چار مہینے دس دن تک کرے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز

باب : قبروں کی زیارت کرنا

حدیث نمبر : 1283
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا ثابت، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ قال مر النبي صلى الله عليه وسلم بامرأة تبكي عند قبر فقال ‏"‏ اتقي الله واصبري‏"‏‏. ‏ قالت إليك عني، فإنك لم تصب بمصيبتي، ولم تعرفه‏.‏ فقيل لها إنه النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ فأتت باب النبي صلى الله عليه وسلم فلم تجد عنده بوابين فقالت لم أعرفك‏.‏ فقال ‏"‏ إنما الصبر عند الصدمة الأولى‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ ان سے ثابت نے بیان کیا اور ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک عورت پر ہوا جو قبر پر بیٹھی ہوئی رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سے ڈر اور صبر کر۔ وہ بولی جاؤ جی پرے ہٹو۔ یہ مصیبت تم پر پڑی ہوتی تو پتہ چلتا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان نہ سکی تھی۔ پھر جب لوگوں نے اسے بتایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے، تو اب وہ ( گھبرا کر ) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ پر پہنچی۔ وہاں اسے کوئی دربان نہ ملا۔ پھر اس نے کہا کہ میں آپ کو پہچان نہ سکی تھی۔ ( معاف فرمائیے ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صبر تو جب صدمہ شروع ہو اس وقت کرنا چاہیے۔ ( اب کیا ہوتا ہے )

تشریح : مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ “میں نے تمہیں قبر کی زیارت کرنے سے منع کیا تھا‘ لیکن اب کرسکتے ہو، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائے اسلام میں ممانعت تھی اور پھر بعد میں اس کی اجازت مل گئی۔” دیگر احادیث میں یہ بھی ہے کہ قبروں پر جایا کرو کہ اس سے موت یاد آتی ہے یعنی اس سے آدمی کے دل میں رقت پیدا ہوتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ “اللہ نے ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو قبروں کی بہت زیارت کرتی ہیں۔” اس کی شرح میں قرطبی نے کہا کہ یہ لعنت ان عورتوں پر ہے جو رات دن قبروں ہی میں پھرتی رہیں اور خاوندوں کے کاموں کا خیال نہ رکھیں، نہ یہ کہ مطلق زیارت عورتوں کو منع ہے۔ کیونکہ موت کو یاد کرنے میں مرد عورت دونوں برابر ہیں۔ لیکن عورتیں اگر قبرستان میں جاکر جزع فزع کریں اور خلاف شرع امور کی مرتکب ہوں تو پھر ان کے لیے قبروں کی زیارت جائز نہیں ہوگی۔

علامہ عینی حنفی فرماتے ہیں: ان زیارۃ القبور مکروہ للنساءبل حرام فی ہذا الزمان ولا سیما نساءمصر یعنی حالات موجودہ میں عورتوں کے لیے زیارت قبور مکروہ بلکہ حرام ہے خاص طور پر مصری عورتوں کے لیے۔ یہ علامہ نے اپنے حالات کے مطابق کہا ہے ورنہ آج کل ہر جگہ عورتوں کا یہی حال ہے۔

مولانا وحید الزماں صاحب مرحوم فرماتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صاف نہیں بیان کیا کہ قبروں کی زیارت جائز ہے یا نہیں۔ کیونکہ اس میں اختلاف ہے اور جن حدیثوں میں زیارت کی اجازت آئی ہے وہ ان کی شرط پر نہ تھیں، مسلم نے مرفوعاً نکالا “میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا اب زیارت کرو کیونکہ اس سے آخرت کی یاد پیدا ہوتی ہے۔” ( وحیدی )
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے جو حدیث یہاں نقل فرمائی ہے اس سے قبروں کی زیارت یوں ثابت ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو وہاں رونے سے منع فرمایا۔ مطلق زیارت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی تعرض نہیں فرمایا۔ اسی سے قبروں کی زیارت ثابت ہوئی۔ مگر آج کل اکثر لوگ قبرستان میں جاکر مردوں کا وسیلہ تلاش کرتے اور بزرگوں سے حاجت طلب کرتے ہیں۔ ان کی قبروں پر چادر چڑھاتے پھول ڈالتے ہیں وہاں جھاڑو بتی کا انتظام کرتے اورفرش فروش بچھاتے ہیں۔ شریعت میں یہ جملہ امور ناجائز ہیں۔ بلکہ ایسی زیارات قعطاً حرام ہیں جن سے اللہ کی حدود کو توڑا جائے اور وہاں خلاف شریعت کام کئے جائیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ

إذا كان النوح من سنته‏.‏ لقول الله تعالى ‏{‏قوا أنفسكم وأهليكم نارا‏}‏‏.‏ وقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ كلكم راع، ومسئول عن رعيته‏"‏‏. ‏ فإذا لم يكن من سنته، فهو كما قالت عائشة ـ رضى الله عنها – ‏{‏لا تزر وازرة وزر أخرى‏}‏‏.‏ وهو كقوله ‏{‏وإن تدع مثقلة‏}‏ ذنوبا ‏{‏إلى حملها لا يحمل منه شىء‏}‏ وما يرخص من البكاء في غير نوح‏.‏ وقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏{‏لا تقتل نفس ظلما إلا كان على ابن آدم الأول كفل من دمها‏}‏‏.‏ وذلك لأنه أول من سن القتل‏.‏
میت پر اس کے گھروالوں کے رونے سےعذاب ہوتا ہے یعنی جب رونا ماتم کرنا میت کے خاندان کی رسم ہو۔ کیونکہ اللہ پاک نے سورئہ تحریم میں فرمایا کہ اپنے نفس کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ یعنی ان کو بُرے کاموں سے منع کرو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں ہر کوئی نگہبان ہے اور اپنے ماتحتوں سے پوچھا جائے گا اور اگر یہ رونا پیٹنا اس کے خاندان کی رسم نہ ہو اور پھر اچانک کوئی اس پر رونے لگے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا دلیل لینا اس آیت سے صحیح ہے کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کو اپنا بوجھ اٹھانے کو بلائے تو وہ اس کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور بغیر نوحہ چلائے پیٹے رونا درست ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا میں جب کوئی ناحق خون ہوتا ہے تو آدم کے پہلے بیٹے قابیل پر اس خون کا کچھ وبال پڑتا ہے کیونکہ ناحق خون کی بناسب سے پہلے اسی نے ڈالی۔

حدیث نمبر : 1284
حدثنا عبدان، ومحمد، قالا أخبرنا عبد الله، أخبرنا عاصم بن سليمان، عن أبي عثمان، قال حدثني أسامة بن زيد ـ رضى الله عنهما ـ قال أرسلت ابنة النبي صلى الله عليه وسلم إليه إن ابنا لي قبض فائتنا‏.‏ فأرسل يقرئ السلام ويقول ‏"‏ إن لله ما أخذ وله ما أعطى وكل عنده بأجل مسمى، فلتصبر ولتحتسب‏"‏‏. ‏ فأرسلت إليه تقسم عليه ليأتينها، فقام ومعه سعد بن عبادة ومعاذ بن جبل وأبى بن كعب وزيد بن ثابت ورجال، فرفع إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصبي ونفسه تتقعقع ـ قال حسبته أنه قال ـ كأنها شن‏.‏ ففاضت عيناه‏.‏ فقال سعد يا رسول الله ما هذا فقال ‏"‏ هذه رحمة جعلها الله في قلوب عباده، وإنما يرحم الله من عباده الرحماء‏"‏‏. ‏
ہم سے عبد ان اور محمد بن مقاتل نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم کو عاصم بن سلیمان نے خبر دی ‘ انہیں ابوعثمان عبدالرحمن نہدی نے‘ کہا کہ مجھ سے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی ( حضرت زینب رضی اللہ عنہ ) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع کرائی کہ میرا ایک لڑکا مرنے کے قریب ہے‘ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کہلوایا اور کہلوایا کہ اللہ تعالیٰ ہی کا سارا مال ہے‘ جو لے لیا وہ اسی کا تھا اور جو اس نے دیا وہ بھی اسی کا تھا اور ہر چیز اس کی بارگاہ سے وقت مقررہ پر ہی واقع ہوتی ہے۔ اس لیے صبر کرو اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھو۔ پھر حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے قسم دے کر اپنے یہاں بلوا بھیجا۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانے کے لیے اٹھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سعد بن عبادہ‘ معاذ بن جبل‘ ابی بن کعب‘ زیدبن ثابت اور بہت سے دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ بچے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا گیا۔ جس کی جانکنی کا عالم تھا۔ ابو عثمان نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جیسے پُرانا مشکیزہ ہوتا ہے ( اور پانی کے ٹکرانے کی اندر سے آواز ہوتی ہے۔ اسی طرح جانکنی کے وقت بچہ کے حلق سے آواز آرہی تھی ) یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ سعد رضی اللہ عنہ بول اٹھے کہ یا رسول اللہ! یہ رونا کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو اللہ کی رحمت ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ( نیک ) بندوں کے دلوں میں رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اپنے ان رحم دل بندوں پر رحم فرماتا ہے جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔

تشریح : اس مسئلہ میں ابن عمر اور عائشہ رضی اللہ عنہما کا ایک مشہور اختلاف تھا کہ میت پر اس کے گھر والوں کے نوحہ کی وجہ سے عذاب ہوگا یا نہیں؟ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اس باب میں اسی اختلاف پر یہ طویل محاکمہ کیا ہے۔ اس سے متعلق مصنف رحمہ اللہ متعدد احادیث ذکر کریں گے اور ایک طویل حدیث میں جو اس باب میں آئے گی۔ دونوں کی اس سلسلے میں اختلاف کی تفصیل بھی موجود ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کا خیال یہ تھا کہ میت پر اس کے گھر والوں کے نوحہ سے عذاب نہیں ہوتا کیونکہ ہر شخص صرف اپنے عمل کا ذمہ دار ہے۔ قرآن میں خود ہے کہ کسی پر دوسرے کی کوئی ذمہ داری نہیں لاَ تَزِرُ وَازِرَۃ وِّزرَ اُخرٰی ( الانعام : 164 ) اس لیے نوحہ کی وجہ سے جس گناہ کے مرتکب مردہ کے گھروالے ہوتے ہیں اس کی ذمہ داری مردے پر کیسے ڈالی جاسکتی ہے؟

لیکن ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پیش نظریہ حدیث تھی “میت پر اس کے گھر والوں کے نوحہ سے عذاب ہوتا ہے”۔ حدیث صاف تھی اور خاص میت کے لیے لیکن قرآن میں ایک عام حکم بیان ہوا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہ کا جواب یہ تھا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے غلطی ہوئی‘ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ایک خاص واقعہ سے متعلق تھا۔ کسی یہودی عورت کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس پر اصل عذاب کفر کی وجہ سے ہورہا تھا لیکن مزید اضافہ گھر والوں کے نوحہ نے بھی کردیا تھا کہ وہ اس کے استحاق کے خلاف اس کا ماتم کررہے تھے اور خلاف واقعہ نیکیوں کو اس کی طرف منسوب کررہے تھے۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر جو کچھ فرمایا وہ مسلمانوں کے بارے میں نہیں تھا۔ لیکن علماءنے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے خلاف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس استدلال کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ دوسری طرف ابن عمررضی اللہ عنہما کی حدیث کو بھی ہر حال میں نافذ نہیں کیا بلکہ اس کی نوک پلک دوسرے شرعی اصول وشواہد کی روشنی میں درست کئے گئے ہیں اور پھر اسے ایک اصول کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ہے۔
علماءنے اس حدیث کی جو مختلف وجوہ و تفصیلات بیان کی ہیں انہیں حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ اس پر امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کے محاکمہ کا حاصل یہ ہے کہ شریعت کا ایک اصول ہے۔ حدیث میں ہے کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ ہر شخص نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں سے متعلق اس سے سوال ہوگا۔ یہ حدیث متعدد اور مختلف روایتوں سے کتب احادیث اور خود بخاری میں موجود ہے۔ یہ ایک مفصل حدیث ہے اور اس میں تفصیل کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ بادشاہ سے لے کر ایک معمولی سے معمولی خادم تک راعی اور نگراں کی حیثیت رکھتا ہے اور ان سب سے ان کی رعیتوں کے متعلق سوال ہوگا۔ یہاں صاحب تفہیم البخاری نے ایک فاضلانہ بیان لکھا ہے جسے ہم شکریہ کے ساتھ “تشریح” میں نقل کرتے ہیں۔
قرآن مجید میں ہے کہ قوآ انفسکم واہليکم ناراً ( التحریم:6 ) خود کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اس موقع پر واضح کیا ہے کہ جس طرح اپنی اصلاح کا حکم شریعت نے دیا ہے اسی طرح اپنی رعیت کی اصلاح کا بھی حکم ہے‘ اس لیے ان میں سے کسی ایک کی اصلاح سے غفلت تباہ کن ہے۔ اب اگر مردے کے گھر غیر شرعی نوحہ وماتم کا رواج تھا لیکن اپنی زندگی میں اس نے انہیں اس سے نہیں روکا اور اپنے گھر میں ہونے والے اس منکر پر واقفیت کے باوجود اس نے تساہل سے کام لیا‘ تو شریعت کی نظر میں وہ بھی مجرم ہے۔ شریعت نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ایک اصول بنادیا تھا۔ ضروری تھا کہ اس اصول کے تحت اپنی زندگی میں اپنے گھر والوں کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کرتا۔ لیکن اگر اس نے ایسا نہیں کیا‘ تو گویا وہ خود اس عمل کا سبب بنا ہے۔ شریعت کی نظر اس سلسلے میں بہت دور تک ہے۔ اسی محاکمہ میں امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے یہ حدیث نقل کی ہے کہ “کوئی شخص اگر ظلماً ( ظالمانہ طور پر ) قتل کیا جاتا ہے تو اس قتل کی ایک حد تک ذمہ داری آدم علیہ السلام کے سب سے پہلے بیٹے ( قابیل ) پر عائد ہوتی ہے۔” قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا تھا۔ یہ روئے زمین پر سب سے پہلا ظالمانہ قتل تھا۔ اس سے پہلے دنیا اس سے ناواقف تھی۔ اب چونکہ اس طریقہ ظلم کی ایجاد سب سے پہلے آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے کی تھی‘ اس لیے قیامت تک ہونے والے ظالمانہ قتل کے گناہ کا ایک حصہ اس کے نام بھی لکھا جائے گا۔ شریعت کے اس اصول کو اگر سامنے رکھا جائے تو عذاب وثواب کی بہت سی بنیادی گر ہیں کھل جائیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بیان کردہ اصول پر بھی ایک نظر ڈال لیجئے۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ قرآن نے خود فیصلہ کردیا ہے کہ “کسی انسان پر دوسرے کی کوئی ذمہ داری نہیں۔” حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تھا کہ مرنے والے کو کیا اختیار ہے؟ اس کا تعلق اب اس عالم ناسوت سے ختم ہوچکا ہے۔ نہ وہ کسی کو روک سکتا ہے اور نہ اس پر قدرت ہے۔ پھر اس ناکردہ گناہ کی ذمہ داری اس پر عائد کرنا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے؟
اس موقع پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ شریعت نے ہر چیز کے لیے اگرچہ ضابطے اور قاعدے متعین کردئیے ہیں لیکن بعض اوقات کسی ایک میں بہت سے اصول بیک وقت جمع ہوجاتے ہیں اور یہیں سے اجتہاد کی حد شروع ہوجاتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جزئی کس ضابطے کے تحت آسکتی ہے؟ اور ان مختلف اصول میں اپنے مضمرات کے اعتبار سے جزئی کس اصول سے زیادہ قریب ہے؟ اس مسئلہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے اجتہاد سے یہ فیصلہ کیا تھا کہ میت پر نوحہ وماتم کا میت سے تعلق قرآن کے بیان کردہ اس اصول سے متعلق ہے کہ “کسی انسان پر دوسرے کی ذمہ داری نہیں۔” جیسا کہ ہم نے تفصیل سے بتایا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اجتہاد کو امت نے اس مسئلہ میں قبول نہیں کیا ہے۔ اس باب پر ہم نے یہ طویل نوٹ اس لیے لکھا کہ اس میں روز مرہ زندگی سے متعلق بعض بنیادی اصول سامنے آئے تھے۔ جہاں تک نوحہ وماتم کا سوال ہے اسے اسلام ان غیر ضروری اور لغو حرکتوں کی وجہ سے رد کرتا ہے جو اس سلسلے میں کی جاتی تھیں۔ ورنہ عزیز وقریب یا کسی بھی متعلق کی موت پر غم قدرتی چیز ہے اور اسلام نہ صرف اس کے اظہار کی اجازت دیتا ہے بلکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض افراد کو جن کے دل میں اپنے عزیز وقریب کی موت سے کوئی ٹیس نہیں لگی‘ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سخت دل کہا۔ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عزیز وقریب کی وفات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا اور آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے ( تفہیم البخاری )
نصوص شرعیہ کی موجودگی میں ان کے خلاف اجتہاد قابل قبول نہیں ہے۔ خواہ اجتہاد کرنے والا کوئی ہو۔ رائے اور قیاس ہی وہ بیماریاں ہیں جنہوں نے امت کا بیڑہ غرق کردیا اور امت تقسیم درتقسیم ہوکر رہ گئی۔ حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کی مناسب توجیہ فرمادی ہے‘ وہی ٹھیک ہے۔

حدیث نمبر : 1285
حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا أبو عامر، حدثنا فليح بن سليمان، عن هلال بن علي، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ قال شهدنا بنتا لرسول الله صلى الله عليه وسلم قال ورسول الله صلى الله عليه وسلم جالس على القبر ـ قال فرأيت عينيه تدمعان قال ـ فقال ‏"‏ هل منكم رجل لم يقارف الليلة‏"‏‏. ‏ فقال أبو طلحة أنا‏.‏ قال ‏"‏ فانزل‏"‏‏. ‏ قال فنزل في قبرها‏.‏
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابوعامر عقدی نے بیان کیا‘ کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا‘ ان سے ہلال بن علی نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی ( حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا ) کے جنازہ میں حاضر تھے۔ ( وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں۔ جن کا ۵ھ میں انتقال ہوا ) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئی تھیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا۔ کیا تم میں کوئی ایسا شخص بھی ہے کہ جو آج کی رات عورت کے پاس نہ گیا ہو۔ اس پر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر قبر میں تم اترو۔ چنانچہ وہ ان کی قبر میں اترے۔

تشریح : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں اتارا۔ ایسا کرنے سے ان کو تنبیہ کرنا منظور تھی۔ کہتے ہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس شب میں جس میں حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہانے انتقال فرمایا ایک لونڈی سے صحبت کی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا یہ کام پسند نہ آیا ( وحیدی )

حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عقد میں تھیں۔ ان کے انتقال پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے آپ کا عقد فرما دیا جن کے انتقال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو اسے بھی عثمان رضی اللہ عنہ ہی کے عقد میں دیتا۔ اس سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جو وقعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں تھی وہ ظاہر ہے۔

حدیث نمبر : 1286
حدثنا عبدان، حدثنا عبد الله، أخبرنا ابن جريج، قال أخبرني عبد الله بن عبيد الله بن أبي مليكة، قال توفيت ابنة لعثمان ـ رضى الله عنه ـ بمكة وجئنا لنشهدها، وحضرها ابن عمر وابن عباس ـ رضى الله عنهم ـ وإني لجالس بينهما ـ أو قال جلست إلى أحدهما‏.‏ ثم جاء الآخر، فجلس إلى جنبي فقال عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ لعمرو بن عثمان ألا تنهى عن البكاء، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إن الميت ليعذب ببكاء أهله عليه‏"‏‏. ‏
ہم سے عبد ان نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم کو ابن جریج نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملیکہ نے خبر دی کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی ایک صاحبزادی ( ام ابان ) کا مکہ میں انتقال ہوگیا تھا۔ ہم بھی ان کے جنازے میں حاضر ہوئے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی تشریف لائے۔ میں ان دونوں حضرات کے درمیان میں بیٹھا ہوا تھا یا یہ کہا کہ میں ایک بزرگ کے قریب بیٹھ گیا اور دوسرے بزرگ بعد میں آئے اور میرے بازو میں بیٹھ گئے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عمروبن عثمان سے کہا ( جو ام ابان کے بھائی تھے ) رونے سے کیوں نہیں روکتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ میت پر گھروالوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے۔

حدیث نمبر : 1287
فقال ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قد كان عمر ـ رضى الله عنه ـ يقول بعض ذلك، ثم حدث قال صدرت مع عمر ـ رضى الله عنه ـ من مكة حتى إذا كنا بالبيداء، إذا هو بركب تحت ظل سمرة فقال اذهب، فانظر من هؤلاء الركب قال فنظرت فإذا صهيب، فأخبرته فقال ادعه لي‏.‏ فرجعت إلى صهيب فقلت ارتحل فالحق أمير المؤمنين‏.‏ فلما أصيب عمر دخل صهيب يبكي يقول واأخاه، واصاحباه‏.‏ فقال عمر ـ رضى الله عنه ـ يا صهيب أتبكي على وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن الميت يعذب ببعض بكاء أهله عليه‏"‏‏. ‏
اس پر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی تائید کی کہ عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی فرمایا تھا۔ پھر آپ بیان کرنے لگے کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ سے چلا جب ہم بیداءتک پہنچے تو سامنے ایک ببول کے درخت کے نیچے چند سوار نظر پڑے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جاکر دیکھو تو سہی یہ کون لوگ ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا تو صہیب رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر جب اس کی اطلاع دی تو آپ نے فرمایا کہ انہیں بلا لاؤ۔ میں صہیب رضی اللہ عنہ کے پاس دوبارہ آیا اور کہا کہ چلئے امیرالمؤمنین بلاتے ہیں۔ چنانچہ وہ خدمت میں حاضر ہوئے۔ ( خیریہ قصہ تو ہوچکا ) پھر جب حضرت عمررضی اللہ عنہ زخمی کئے گئے تو صہیب رضی اللہ عنہ روتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔ وہ کہہ رہے تھے ہائے میرے بھائی! ہائے میرے صاحب! اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ صہیب رضی اللہ عنہ! تم مجھ پر روتے ہو‘ تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میت پر اس کے گھروالوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے۔

حدیث نمبر : 1288
قال ابن عباس ـ رضى الله عنهما فلما مات عمر ـ رضى الله عنه ـ ذكرت ذلك لعائشة ـ رضى الله عنها ـ فقالت رحم الله عمر، والله ما حدث رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله ليعذب المؤمن ببكاء أهله عليه‏.‏ ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إن الله ليزيد الكافر عذابا ببكاء أهله عليه‏"‏‏. ‏ وقالت حسبكم القرآن ‏{‏ولا تزر وازرة وزر أخرى‏}‏‏.‏ قال ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ عند ذلك والله هو أضحك وأبكى‏.‏ قال ابن أبي مليكة والله ما قال ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ شيئا‏.‏
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا تو میں نے اس حدیث کا ذکر عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ رحمت عمر پر ہو۔ بخدارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ اللہ مومن پر اس کے گھروالوں کے رونے کی وجہ سے عذاب کرے گا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کافر کا عذاب اس کے گھروالوں کے رونے کی وجہ سے اور زیادہ کردیتا ہے۔ اس کے بعد کہنے لگیں کہ قرآن کی یہ آیت تم کو بس کرتی ہے کہ “ کوئی کسی کے گناہ کا ذمہ دار اور اس کا بوجھ اٹھانے والا نہیں۔ ” اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس وقت ( یعنی ام ابان کے جنازے میں ) سورئہ نجم کی یہ آیت پڑھی “ اور اللہ ہی ہنساتا ہے اور وہی رُلاتا ہے۔ ” ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ خدا کی قسم! ابن عباس کی یہ تقریر سن کر ابن عمررضی اللہ عنہما نے کچھ جواب نہیں دیا۔

تشریح : یہ آیت سورۃ فاطر میں ہے۔ مطلب امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا یہ ہے کہ کسی شخص پر غیر کے فعل سے سزانہ ہوگی مگر ہاں جب اس کو بھی اس فعل میں ایک طرح کی شرکت ہو۔ جیسے کسی کے خاندان کی رسم رونا پیٹنا نوحہ کرنا ہو اور وہ اس سے منع نہ کر جائے تو بے شک اس کے گھر والوں کے نوحہ کرنے سے اس پر عذاب ہوگا۔ بعضوں نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث اس پر محمول ہے کہ جب میت نوحہ کرنے کی وصیت کرجائے۔ بعضوں نے کہا کہ عذاب سے یہ مطلب ہے کہ میت کو تکلیف ہوتی ہے اس کے گھر والوں کے نوحہ کرنے سے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسی کی تائید کی ہے حدیث لاتقتل نفس کو خود امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے دیات وغیرہ میں وصل کیا ہے۔ اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ ناحق خون کوئی اور بھی کرتا ہے تو قابیل پر اس کے گناہ کا ایک حصہ ڈالا جاتا ہے اور اس کی وجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی کہ اس نے ناحق خون کی بنا سب سے پہلے قائم کی تو اسی طرح جس کے خاندان میں نوحہ کرنے اور رونے پیٹنے کی رسم ہے اور اس نے منع نہ کیا تو کیا عجب ہے کہ نوحہ کرنے والوں کے گناہ کا ایک حصہ اس پر بھی ڈالا جائے اور اس کو عذاب ہو۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1289
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن عبد الله بن أبي بكر، عن أبيه، عن عمرة بنت عبد الرحمن، أنها أخبرته أنها، سمعت عائشة ـ رضى الله عنها ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت إنما مر رسول الله صلى الله عليه وسلم على يهودية يبكي عليها أهلها فقال ‏"‏ إنهم ليبكون عليها، وإنها لتعذب في قبرها‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا‘ انہیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں عبداللہ بن ابی بکرنے‘ انہیں ان کے باپ نے اور انہیں عمرہ بنت عبدالرحمن نے‘ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا۔ آپ نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا‘ انہیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں عبداللہ بن ابی بکرنے‘ انہیں ان کے باپ نے اور انہیں عمرہ بنت عبدالرحمن نے‘ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا۔ آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک یہودی عورت پر ہوا جس کے مرنے پر اس کے گھر والے رو رہے تھے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ لوگ رو رہے ہیں حالانکہ اس کو قبر میں عذاب کیا جارہا ہے۔

تشریح : اس کے دونوں معنی ہوسکتے ہیں یعنی اس کے گھر والوں کے رونے سے یا اس کے کفر کی وجہ سے دوسری صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ یہ تو اس رنج میں ہیں کہ ہم سے جدائی ہوگئی اور اس کی جان عذاب میں گرفتار ہے۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اگلی حدیث کی تفسیر کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد وہ میت ہے جو کافر ہے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو عام سمجھا اور اسی لیے صہیب رضی اللہ عنہ پر انکار کیا۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1290
حدثنا إسماعيل بن خليل، حدثنا علي بن مسهر، حدثنا أبو إسحاق ـ وهو الشيباني ـ عن أبي بردة، عن أبيه، قال لما أصيب عمر ـ رضى الله عنه ـ جعل صهيب يقول واأخاه‏.‏ فقال عمر أما علمت أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إن الميت ليعذب ببكاء الحى‏"‏‏. ‏
ہم سے اسماعیل بن خلیل نے بیان کیا‘ ان سے علی بن مسہر نے بیان کیا‘ ان سے ابواسحاق شیبانی نے‘ ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ان کے والد ابوموسیٰ اشعری نے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ کو زخمی کیا گیا تو صہیب رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہوئے آئے‘ ہائے میرے بھائی! اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مردے کو اس کے گھروالوں کے رونے سے عذاب کیا جاتا ہے۔

تشریح : شوکانی نے کہا کہ رونا اور کپڑے پھاڑنا اور نوحہ کرنا یہ سب کام حرام ہیں ایک جماعت سلف کا جن میں حضرت عمر اور عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما ہیں یہ قول ہے کہ میت کے لوگوں کے رونے سے میت کو عذاب ہوتا ہے اور جمہور علماءاس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ عذاب اسے ہوتا ہے جو رونے کی وصیت کرجائے اور ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مطلقاً یہ ثابت ہوا کہ میت پر رونے سے اس کو عذاب ہوتا ہے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو مانا اور سن لیا۔ اس پر ہم کچھ زیادہ نہیں کرتے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس پر اجماع نقل کیا کہ جس رونے سے میت کو عذاب ہوتا ہے وہ رونا پکار کر رونا اور نوحہ کرنا ہے نہ کہ صرف آنسو بہانا۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : میت پر نوحہ کرنا مکروہ ہے

وقال عمر ـ رضى الله عنه ـ دعهن يبكين على أبي سليمان ما لم يكن نقع أو لقلقة‏.‏ والنقع التراب على الرأس، واللقلقة الصوت‏.‏
اور حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا‘ عورتوں کو ابوسلیمان ( خالد بن ولید ) پر رونے دے جب تک وہ خاک نہ اڑائیں اور چلائیں نہیں۔ نقع سر پر مٹی ڈالنے کو اور لقلقہ چلانے کو کہتے ہیں۔

( نوحہ کہتے ہیں میت پر چلاکر رونا اور اس کی خوبیاں بیان کرنا )

حدیث نمبر : 1291
حدثنا أبو نعيم، حدثنا سعيد بن عبيد، عن علي بن ربيعة، عن المغيرة ـ رضى الله عنه ـ قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ إن كذبا على ليس ككذب على أحد، من كذب على متعمدا فليتبوأ مقعده من النار‏"‏‏. ‏ سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ من نيح عليه يعذب بما نيح عليه‏"‏‏. ‏
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سعید بن عبیدنے‘ ان سے علی بن ربیعہ نے اور ان سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے کہ میرے متعلق کوئی جھوٹی بات کہنا عام لوگوں سے متعلق جھوٹ بولنے کی طرح نہیں ہے جو شخص بھی جان بوجھ کر میرے اوپر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی سنا کہ کسی میت پر اگر نوحہ وماتم کیا جائے تو اس نوحہ کی وجہ سے بھی اس پر عذاب ہوتا ہے۔

حدیث نمبر : 1292
حدثنا عبدان، قال أخبرني أبي، عن شعبة، عن قتادة، عن سعيد بن المسيب، عن ابن عمر، عن أبيه ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ الميت يعذب في قبره بما نيح عليه‏"‏‏. ‏ تابعه عبد الأعلى حدثنا يزيد بن زريع حدثنا سعيد حدثنا قتادة‏.‏ وقال آدم عن شعبة ‏"‏ الميت يعذب ببكاء الحى عليه‏"‏‏. ‏
ہم سے عبد ان عبداللہ بن عثمان نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھے میرے باپ نے خبر دی ‘ انہیں شعبہ نے‘ انہیں قتادہ نے‘ انہیں سعید بن مسیب نے‘ انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے باپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میت کو اس پر نوحہ کئے جانے کی وجہ سے بھی قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ عبدان کے ساتھ اس حدیث کو عبدالاعلیٰ نے بھی یزیدبن زریع سے روایت کیا۔ انہوں نے کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا‘ کہا ہم سے قتادہ نے۔ اور آدم بن ابی ایاس نے شعبہ سے یوں روایت کیا کہ میت پر زندے کے رونے سے عذاب ہوتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : ...

حدیث نمبر : 1293
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، حدثنا ابن المنكدر، قال سمعت جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ قال جيء بأبي يوم أحد، قد مثل به حتى وضع بين يدى رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد سجي ثوبا فذهبت أريد أن أكشف عنه فنهاني قومي، ثم ذهبت أكشف عنه فنهاني قومي، فأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم فرفع فسمع صوت صائحة فقال ‏"‏ من هذه‏"‏‏. ‏ فقالوا ابنة عمرو أو أخت عمرو‏.‏ قال ‏"‏ فلم تبكي أو لا تبكي فما زالت الملائكة تظله بأجنحتها حتى رفع‏"‏‏. ‏
ہم سے علی بن عبداللہ بن مدینی نے بیان کیا‘ ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے محمد بن منکدر نے بیان کیا‘ کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا‘ انہوں نے فرمایا کہ میرے والد کی لاش احد کے میدان سے لائی گئی۔ ( مشرکوں نے ) آپ کی صورت تک بگاڑ دی تھی۔ نعش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھی گئی۔ اوپر سے ایک کپڑا ڈھکا ہوا تھا‘ میں نے چاہا کہ کپڑے کو ہٹاؤں۔ لیکن میری قوم نے مجھے روکا۔ پھر دوبارہ کپڑا ہٹانے کی کوشش کی۔ اس مرتبہ بھی میری قوم نے مجھ کو روک دیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے جنازہ اٹھایا گیا۔ اس وقت کسی زور زور سے رونے والے کی آواز سنائی دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ عمرو کی بیٹی یا ( یہ کہا کہ ) عمرو کی بہن ہیں۔ ( نام میں سفیان کو شک ہوا تھا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روتی کیوں ہیں؟ یا یہ فرمایا کہ روؤ نہیں کہ ملائکہ برابر اپنے پروں کا سایہ کئے رہے ہیں جب تک اس کا جنازہ اٹھایا گیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز

باب : آنحضرت کا یہ فرمانا کہ گریبان چاک کرنے والے ہم میں سے نہیں ہیں

حدیث نمبر : 1294
حدثنا أبو نعيم، حدثنا سفيان، حدثنا زبيد اليامي، عن إبراهيم، عن مسروق، عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ليس منا من لطم الخدود، وشق الجيوب، ودعا بدعوى الجاهلية‏"‏‏. ‏
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا‘ کہ ہم سے سفیان ثوری نے‘ ان سے زبید یامی نے بیان کیا‘ ان سے ابراہیم نخعی نے‘ ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو عورتیں ( کسی کی موت پر ) اپنے چہروں کو پیٹتی اور گریبان چاک کرلیتی ہیں اور جاہلیت کی باتیں بکتی ہیں وہ ہم میں سے نہیں ہیں۔

یعنی ہماری امت سے خارج ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ حرکت سخت ناپسندیدہ ہے۔
 
Top