• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر افسوس کرنا

حدیث نمبر : 1295
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن عامر بن سعد بن أبي وقاص، عن أبيه ـ رضى الله عنه ـ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعودني عام حجة الوداع من وجع اشتد بي فقلت إني قد بلغ بي من الوجع وأنا ذو مال، ولا يرثني إلا ابنة، أفأتصدق بثلثى مالي قال ‏"‏ لا‏"‏‏. ‏ فقلت بالشطر فقال ‏"‏ لا ‏"‏ ثم قال ‏"‏ الثلث والثلث كبير ـ أو كثير ـ إنك أن تذر ورثتك أغنياء خير من أن تذرهم عالة يتكففون الناس، وإنك لن تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله إلا أجرت بها، حتى ما تجعل في في امرأتك‏"‏‏. ‏ فقلت يا رسول الله، أخلف بعد أصحابي قال ‏"‏ إنك لن تخلف فتعمل عملا صالحا إلا ازددت به درجة ورفعة، ثم لعلك أن تخلف حتى ينتفع بك أقوام ويضر بك آخرون، اللهم أمض لأصحابي هجرتهم، ولا تردهم على أعقابهم، لكن البائس سعد ابن خولة، يرثي له رسول الله صلى الله عليه وسلم أن مات بمكة‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا‘ انہیں امام مالک نے خبر دی۔ انہیں ابن شہاب نے‘ انہیں عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اور انہیں ان کے والد سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع کے سال ( ۰۱ھ میں ) میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ میں سخت بیمار تھا۔ میں نے کہاکہ میرا مرض شدت اختیار کرچکا ہے میرے پاس مال واسباب بہت ہے اور میری صرف ایک لڑکی ہے جو وارث ہوگی تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کو خیرات کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے کہا آدھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ایک تہائی کردو اور یہ بھی بڑی خیرات ہے یا بہت خیرات ہے اگر تو اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑ جائے تو یہ اس سے بہتر ہوگا کہ محتاجی میں انہیں اس طرح چھوڑ کر جائے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ یہ یاد رکھو کہ جو خرچ بھی تم اللہ کی رضا کی نیت سے کروگے تو اس پر بھی تمہیں ثواب ملے گا۔ حتیٰ کہ اس لقمہ پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو۔ پھر میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرے ساتھی تو مجھے چھوڑ کر ( حجتہ الوداع کرکے ) مکہ سے جارہے ہیں اور میں ان سے پیچھے رہ رہا ہوں۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں رہ کر بھی اگر تم کوئی نیک عمل کروگے تو اس سے تمہارے درجے بلند ہوں گے اور شاید ابھی تم زندہ رہوگے اور بہت سے لوگوں کو ( مسلمانوں کو ) تم سے فائدہ پہنچے گا اور بہتوں کو ( کفار و مرتدین کو ) نقصان۔ ( پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ) اے اللہ! میرے ساتھیوں کو ہجرت پر استقلال عطا فرما اور ان کے قدم پیچھے کی طرف نہ لوٹا۔ لیکن مصیبت زدہ سعد بن خولہ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مکہ میں وفات پاجانے کی وجہ سے اظہار غم کیا تھا۔

تشریح : اس موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کا وہ زریں اصول بیان کیا ہے جو اجتماعی زندگی کی جان ہے۔ احادیث کے ذخیرہ میں اس طرح کی احادیث کی کمی نہیں اور اس سے ہماری شریعت کے مزاج کا پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی اتباع کرنے والوں سے کس طرح کی زندگی کا مطالبہ کرتی ہے۔ خداوند تعالیٰ خود شارع ہیں اور اس نے اپنی تمام دوسری مخلوقات کے ساتھ انسانوں کو بھی پیدا کیا ہے۔ اس لیے انسان کی طبیعت میں فطری طور پر جو رجحانات اور صلاحیتیں موجود ہیں خداوند تعالیٰ اپنے احکام و اوامر میں انہیں نظرانداز نہیں کرتے۔ شریعت میں معاد ومعاش سے متعلق جن احکام پر عمل کرنے کا ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے‘ ان کا مقصد یہ ہے کہ خدا کی عبادت اس کی رضا کے مطابق ہوسکے اور زمین میں شرو فساد نہ پھیلے۔ اہل وعیال پر خرچ کرنے کی اہمیت اور اس پر اجروثواب کا استحقاق صلہ رحمی اور خاندانی نظام کی اہمیت کے پیش نظر ہے کہ جن پر معاشرہ کی صلاح وبقا کا مدار ہے۔ حدیث کا یہ حصہ کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ دے تو اس پر بھی اجروثواب ملے گا اسی بنیاد پر ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اس میں حظ نفس بھی ہے۔ لیکن اگر ازدواجی زندگی کے ذریعہ مسلمان اس خاندانی نظام کو پروان چڑھاتا ہے جس کی ترتیب اسلام نے دی اور اس کے مقتضیات پر عمل کی کوشش کرتا ہے تو قضاءشہوت بھی اجروثواب کا باعث ہے۔ شیخ نووی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حظ نفس اگر حق کے مطابق ہوتو اجروثواب میں اس کی وجہ سے کوئی کمی نہیں ہوتی۔ مسلم میں اس سلسلے کی ایک حدیث بہت زیادہ واضح ہے‘ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری شرمگاہ میں صدقہ ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم اپنی شہوت بھی پوری کریں اور اجر بھی پائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! کیا تم اس پر غور نہیں کرتے کہ اگر حرام میں مبتلا ہوگئے تو پھر کیا ہوگا؟ اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ شریعت ہمیں کن حدود میں رکھنا چاہتی ہے اور اس کے لیے اس نے کیا کیا جتن کئے ہیں اور ہمارے بعض فطری رجحانات کی وجہ سے جو بڑی خرابیاں پیدا ہوسکتی تھیں‘ ان کے سد باب کی کس طرح کوشش کی ہے۔

حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس کے باوجود کہ بیوی کے منہ میں لقمہ دینے اور دوسرے طریقوں سے خرچ کرنے کا داعیہ نفعانی اور شہوانی بھی ہے۔ خود یہ لقمہ جس جسم کا جزو بنے گا شوہر اسی سے منتفع ( فائدہ ) اٹھاتا ہے لیکن شریعت کی طرف سے پھر بھی اجروثواب کا وعدہ ہے۔ اس لیے اگر دوسروں پر خرچ کیا جائے جن سے کوئی نسبت وقرابت نہیں اور جہاں خرچ کرنے کے لیے کچھ زیادہ مجاہدہ کی بھی ضرورت ہوگی تو اس پر اجروثواب کس قدر مل سکتا ہے۔ تاہم یہ یاد رہے کہ ہر طرح کے خرچ اخراجات میں مقدم اعزا واقرباءہیں۔ اور پھر دوسرے لوگ کہ اعزاپر خرچ کرکے آدمی شریعت کے کئی مطالبوں کو ایک ساتھ پورا کرتا ہے۔
سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ مہاجرین میں سے تھے۔ لیکن آپ کی وفات مکہ میں ہوگئی تھی۔ یہ بات پسند نہیں کی جاتی تھی کہ جن لوگوں نے اللہ اور رسول سے تعلق کی وجہ سے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہجرت کی تھی وہ بلا کسی سخت ضرورت کے مکہ میں قیام کریں۔ چنانچہ سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ مکہ میں بیمار ہوئے تو وہاں سے جلد نکل جانا چاہا کہ کہیں وفات نہ ہوجائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ پر اس لیے اظہار غم کیا تھا کہ مہاجر ہونے کے باوجود ان کی وفات مکہ میں ہوگئی۔ اسی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بھی دعا کی کہ اللہ تعالیٰ صحابہ کو ہجرت پر استقلال عطا فرمائے تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ نقصان کس طرح کا ہوگا۔ کیونکہ یہ تکوینیات سے متعلق ہے۔ ( تفہیم البخاری )
ترجمہ باب رثاءسے وہی اظہار افسوس اور رنج وغم مراد ہے نہ مرثیہ پڑھنا۔ مرثیہ اس کو کہتے ہیں کہ میت کے فضائل اور مناقب بیان کئے جائیں اور لوگوں کو بیان کرکے رلایا جائے۔ خواہ وہ نظم ہو یا نثر یہ تو ہماری شریعت میں منع ہے خصوصاً لوگوں کو جمع کرکے سنانا اور رُلانا اس کی ممانعت میں تو کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ صحیح حدیث میں وارد ہے جس کو احمد اور ابن ماجہ نے نکالا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مرثیوں سے منع فرمایا۔
سعد رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ اور صحابہ تو آپ کے ساتھ مدینہ طیبہ روانہ ہوجائیں گے اور میں مکہ ہی میں پڑے پڑے مرجاؤں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے گول مول فرمایا جس سے سعد رضی اللہ عنہ نے معلوم کرلیا کہ میں اس بیماری سے مروں گا نہیں۔ پھر آگے صاف فرمایا کہ شاید تو زندہ رہے گا اور تیرے ہاتھ سے مسلمانوں کو فائدہ اور کافروں کا نقصان ہوگا۔ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑا معجزہ ہے جیسے آپ کی پیش گوئی تھی ویسا ہی ہوا۔ سعد رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدت تک زندہ رہے عراق اور ایران انہوں نے فتح کیا۔ رضی اللہ عنہ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : غمی کے وقت سرمنڈوانے کی ممانعت

حدیث نمبر : 1296
وقال الحكم بن موسى حدثنا يحيى بن حمزة، عن عبد الرحمن بن جابر، أن القاسم بن مخيمرة، حدثه قال حدثني أبو بردة بن أبي موسى ـ رضى الله عنه ـ قال وجع أبو موسى وجعا فغشي عليه، ورأسه في حجر امرأة من أهله، فلم يستطع أن يرد عليها شيئا، فلما أفاق قال أنا بريء ممن برئ منه رسول الله صلى الله عليه وسلم، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم برئ من الصالقة والحالقة والشاقة‏.‏
او رحکم بن موسیٰ نے بیان کیا کہ ہم سے یحیٰی بن حمزہ نے بیان کیا‘ ان سے عبدالرحمن بن جابر نے کہ قاسم بن مخیمرہ نے ان سے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوبردہ ابوموسیٰ نے بیان کیاکہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیمار پڑے‘ ایسے کہ ان پر غشی طاری تھی اور ان کا سر ان کی ایک بیوی ام عبداللہ بنت ابی رومہ کی گود میں تھا ( وہ ایک زور کی چیخ مار کر رونے لگی ) ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ اس وقت کچھ بول نہ سکے لیکن جب ان کو ہوش ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ میں بھی اس کام سے بیزار ہوں جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیزاری کا اظہار فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( کسی غم کے وقت ) چلاکر رونے والی‘ سرمنڈوانے والی اور گریبان چاک کرنے والی عورتوں سے اپنی بیزاری کا اظہار فرمایا تھا۔

معلوم ہوا کہ غمی میں سرمنڈوانا‘ گریبان چاک کرنا اور چلاکر نوحہ کرنا یہ جملہ حرکات حرام ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : رخسار پیٹنے والے ہم میں سے نہیں ہیں ( یعنی ہماری امت سے خارج ہیں )

حدیث نمبر : 1297
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن، حدثنا سفيان، عن الأعمش، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ ليس منا من ضرب الخدود، وشق الجيوب، ودعا بدعوى الجاهلية‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالرحمن بن مہدی نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا‘ ان سے اعمش نے‘ ان سے عبداللہ بن مرہ نے‘ ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص ( کسی میت پر ) اپنے رخسار پیٹے‘ گریبان پھاڑے اور عہد جاہلیت کی سی باتیں کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

جو لوگ عرصہ دراز کے شہید شدہ بزرگوں پر سینہ کوبی کرتے ہیں وہ غور کریں کہ وہ کسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بغاوت کررہے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : اس بارے میں کہ مصیبت کے وقت جاہلیت کی باتیں اور واویلا کرنے کی ممانعت ہے

حدیث نمبر : 1298
حدثنا عمر بن حفص، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ليس منا من ضرب الخدود، وشق الجيوب، ودعا بدعوى الجاهلية‏"‏‏.
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ حفص نے اور ان سے اعمش نے اور ان سے عبداللہ بن مرہ نے‘ ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو ( کسی کی موت پر ) اپنے رخسار پیٹے‘ گریبان چاک کرے اور جاہلیت کی باتیں کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

یعنی اس کا یہ عمل ان لوگوں جیسا ہے جو غیر مسلم ہیں یا یہ کہ ہماری امت سے خارج ہے۔ بہر حال اس سے بھی نوحہ کی حرمت ثابت ہوئی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : جو شخص مصیبت کے وقت ایسا بیٹھے کہ وہ غمگین دکھائی دے

حدیث نمبر : 1299
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد الوهاب، قال سمعت يحيى، قال أخبرتني عمرة، قالت سمعت عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت لما جاء النبي صلى الله عليه وسلم قتل ابن حارثة وجعفر وابن رواحة جلس يعرف فيه الحزن، وأنا أنظر من صائر الباب ـ شق الباب ـ فأتاه رجل، فقال إن نساء جعفر، وذكر بكاءهن، فأمره أن ينهاهن، فذهب ثم أتاه الثانية، لم يطعنه فقال انههن‏.‏ فأتاه الثالثة قال والله غلبننا يا رسول الله فزعمت أنه قال ‏"‏ فاحث في أفواههن التراب‏"‏‏. ‏ فقلت أرغم الله أنفك، لم تفعل ما أمرك رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم تترك رسول الله صلى الله عليه وسلم من العناء‏.‏
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا‘ کہا کہ میں نے یحیٰی ٰ سے سنا‘ انہوں نے کہا کہ مجھے عمرہ نے خبر دی‘ کہا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا‘ آپ نے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زید بن حارثہ‘ جعفر اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم کی شہادت ( غزوئہ موتہ میں ) کی خبر ملی‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اس طرح تشریف فرما تھے کہ غم کے آثار آپ کے چہرے پر ظاہر تھے۔ میں دروازے کے سوراخ سے دیکھ رہی تھی۔ اتنے میں ایک صاحب آئے اور جعفر رضی اللہ عنہ کے گھر کی عورتوں کے رونے کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں رونے سے منع کردے۔ وہ گئے لیکن واپس آکر کہا کہ وہ تو نہیں مانتیں۔ آپ نے پھر فرمایا کہ انہیں منع کردے۔ اب وہ تیسری مرتبہ واپس ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! قسم اللہ کی وہ تو ہم پر غالب آگئی ہیں ( عمرہ نے کہا کہ ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یقین ہوا کہ ( ان کے اس کہنے پر ) رسول کریم نے فرمایا کہ پھر ان کے منہ میں مٹی جھونک دے۔ اس پر میں نے کہا کہ تیرا برا ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اب جس کام کا حکم دے رہے ہیں وہ تو کروگے نہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف میں ڈال دیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے باز نہ آنے پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا اور غصہ میں کہا کہ ان کے منہ میں مٹی جھونک دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی بے حد غمگین تھے۔ یہی مقصد باب ہے۔

حدیث نمبر : 1300
حدثنا عمرو بن علي، حدثنا محمد بن فضيل، حدثنا عاصم الأحول، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال قنت رسول الله صلى الله عليه وسلم شهرا حين قتل القراء، فما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم حزن حزنا قط أشد منه‏.
ہم سے عمروبن علی نے بیان کیا‘ ان سے محمد بن فضیل نے بیان کیا‘ ان سے عاصم احول نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ جب قاریوں کی ایک جماعت شہید کردی گئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مہینہ تک قنوت پڑھتے رہے۔ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں سے زیادہ کبھی غمگین رہے ہوں۔

تشریح : یہ شہدائے کرام قاریوں کی ایک معزز ترین جماعت تھی جو سترنفوس پر مشتمل تھی۔ حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ صاحب مبارکپوری رحمہ اللہ کے لفظوں میں اس جماعت کا تعارف یہ ہے: وکانوا من اوزاع الناس ینزلون الصفۃ یتفقہون العلم ویتعلمون القرآن وکانوا رداءللمسلمین اذانزلت بہم نازلۃ وکانوا حقا عمار المسجد ولیوث الملاحم بعثہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی اہل نجد من بنی عامر لیدعوہم الی الاسلام ویقروا علیہم القرآن فلما نزلوا بئرمعونۃ قصدہم عامر بن الطفیل فی احباءمن بنی سلیم وہم رعل وذکو ان وعصیۃ فقاتلوہم ( فاصیبوا ) ای فقتلوا جمیعا وقیل ولم ینج منہم الاکعب بن زید الانصاری فانہ تخلص وبہ رمق وظنوا انہ مات فعاش حتی استشہدیوم الخندق واسر عمرو بن امیۃ الضمری وکان ذلک فی السنۃ الرابعۃ من الہجرۃ ای فی صفر علی راس اربعۃ اشہر من احد فحزن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حزنا شدیدا قال انس رضی اللہ عنہ مارایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وجد علی احدما وجد علیہم ( مرعاۃ ج:2ص222 ) یعنی بعض اصحاب صفہ میں سے یہ بہترین اللہ والے بزرگ تھے جو قرآن پاک اور دینی علوم میں مہارت حاصل کرتے تھے اور یہ وہ لوگ تھے کہ مصائب کے وقت ان کی دعائیں اہل اسلام کے لیے پشت پناہی کا کام دیتی تھی۔ یہ مسجد نبوی کے حقیقی طور پر آباد کرنے والے اہل حق لوگ تھے جو جنگ وجہاد کے مواقع پر بہادر شیروں کی طرح میدان میں کام کیا کرتے تھے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجد کے قبیلہ بنو عامر میں تبلیغ اسلام اور تعلیم قرآن مجید کے لیے روانہ فرمایا تھا۔ جب یہ بئر معونہ کے قریب پہنچے تو عامر بن طفیل نامی ایک غدار نے رعل اور ذکوان نامی قبائل کے بہت سے لوگوں کو ہمراہ لے کر ان پر حملہ کردیا اور یہ سب وہاں شہید ہوگئے۔ جن کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر صدمہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے ایک ماہ تک قبائل رعل وذکوان کے لیے قنوت نازلہ پڑھی۔ یہ 4ھ کا واقعہ ہے۔ کہا گیا ہے کہ ان میں سے صرف ایک بزرگ کعب بن زید انصاری رضی اللہ عنہ کسی طرح بچ نکلے۔ جسے ظالموں نے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔ یہ بعد تک زندہ رہے۔ یہاں تک کہ جنگ خندق میں شہید ہوئے۔ رضی اللہ عنہم آمین
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : جو شخص مصیبت کے وقت ( اپنے نفس پر زور ڈال کر ) اپنا رنج ظاہر نہ کرے

وقال محمد بن كعب القرظي الجزع القول السيئ والظن السيئ‏.‏ وقال يعقوب ـ عليه السلام –{‏إنما أشكو بثي وحزني إلى الله‏}‏
اور محمد بن کعب قرظی نے کہا کہ جزع اس کو کہتے ہیں کہ بری بات منہ سے نکالنا اور پروردگار سے بدگمانی کرنا‘ اور حضرت یعقوب علیہ السلام نے کہا تھا میں تو اس بے قراری اور رنج کا شکوہ اللہ ہی سے کرتا ہوں۔ ( سورئہ یوسف )

حدیث نمبر : 1301
حدثنا بشر بن الحكم، حدثنا سفيان بن عيينة، أخبرنا إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، أنه سمع أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ يقول اشتكى ابن لأبي طلحة ـ قال ـ فمات وأبو طلحة خارج، فلما رأت امرأته أنه قد مات هيأت شيئا ونحته في جانب البيت، فلما جاء أبو طلحة قال كيف الغلام قالت قد هدأت نفسه، وأرجو أن يكون قد استراح‏.‏ وظن أبو طلحة أنها صادقة، قال فبات، فلما أصبح اغتسل، فلما أراد أن يخرج، أعلمته أنه قد مات، فصلى مع النبي صلى الله عليه وسلم ثم أخبر النبي صلى الله عليه وسلم بما كان منهما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لعل الله أن يبارك لكما في ليلتكما‏"‏‏. ‏ قال سفيان فقال رجل من الأنصار فرأيت لهما تسعة أولاد كلهم قد قرأ القرآن‏.‏
ہم سے بشربن حکم نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا‘ کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا‘ آپ نے بتلایا کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک بچہ بیمار ہوگیا انہوں نے کہا کہ اس کا انتقال بھی ہوگیا۔ اس وقت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ گھر میں موجود نہ تھے۔ ان کی بیوی ( ام سلیم ) نے جب دیکھا کہ بچے کا انتقال ہوگیا تو انہوں نے کچھ کھانا تیار کیا اور بچے کو گھر کے ایک کونے میں لٹا دیا۔ جب ابو طلحہ رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو انہوں نے پوچھا کہ بچے کی طبیعت کیسی ہے؟ ام سلیم نے کہا کہ اسے آرام مل گیا ہے اور میرا خیال ہے کہ اب وہ آرام ہی کررہا ہوگا۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ وہ صحیح کہہ رہی ہیں۔ ( اب بچہ اچھا ہے ) پھر ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے ام سلیم کے پاس رات گزاری اور جب صبح ہوئی تو غسل کیا لیکن جب باہر جانے کا ارادہ کیا تو بیوی ( ام سلیم ) نے اطلاع دی کہ بچے کا انتقال ہوچکا ہے۔ پھر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ سے ام سلیم کا حال بیان کیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شاید اللہ تعالیٰ تم دونوں کو اس رات میں برکت عطا فرمائے گا۔ سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ انصار کے ایک شخص نے بتایا کہ میں نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی انہیں بیوی سے نو بیٹے دیکھے جو سب کے سب قرآن کے عالم تھے۔

تشریح : حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی نیک ترین صالحہ صابرہ بیوی کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ بچے کا انتقال ہوگیا ہے اور اب وہ پورے سکون کے ساتھ لیٹا ہوا ہے۔ لیکن حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھا کہ بچے کو افاقہ ہوگیا ہے اور اب وہ آرام سے سورہا ہے۔ اس لیے وہ خود بھی آرام سے سوئے‘ ضروریات سے فارغ ہوئے اور بیوی کے ساتھ ہم بستر بھی ہوئے اور اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے برکت کی بشارت دی۔ یہ کہ ان کے غیر معمولی صبروضبط اور خدا وند تعالیٰ کی حکمت پر کامل یقین کا ثمرہ تھا۔ بیوی کی اس ادا شناسی پر قربان جائیے کہ کس طرح انہوں نے اپنے شوہر کو ایک ذہنی کوفت سے بچالیا۔

محدث علی بن مدینی نے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ان نولڑکوں کے نام نقل کئے ہیں جو سب عالم قرآن ہوئے اور اللہ نے ان کو بڑی ترقی بخشی۔ وہ نو بچے یہ تھے۔ اسحاق‘ اسماعیل‘ یعقوب‘ عمیر‘ عمر‘ محمد ‘ عبداللہ‘ زید اور قاسم۔ انتقال کرنے والے بچے کو ابوعمیر کہتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پیار سے فرمایا کرتے تھے ابوعمیر تمہاری نغیر یعنی چڑیا کیسی ہے؟ یہ بچہ بڑا خوبصورت اور وجیہ تھا۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ اس سے بڑی محبت کیا کرتے تھے۔ بچے کی ماں ام سلیم کے استقلال کو دیکھئے کہ منہ پر تیوری نہ آنے دی اور رنج کو ایسا چھپایا کہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سمجھے واقعی بچہ اچھا ہوگیا ہے۔ پھر یہ دیکھئے کہ ام سلیم نے بات بھی ایسی کہی کہ جھوٹ نہ ہو کیونکہ موت درحقیقت راحت ہے۔ وہ معصوم جان تھی اس کے لیے تو مرنا آرام ہی آرام تھا۔ ادھر بیماری کی تکلیف گئی۔ ادھر دنیا کے فکروں سے جو مستقبل میں ہوتے نجات پائی۔ ترجمہ باب یہیں سے نکلتا ہے کہ ام سلیم نے رنج اور صدمہ کو پی لیا بالکل ظاہر نہ ہونے دیا۔
دوسری روایت میں یوں ہے کہ ام سلیم نے اپنے خاوند سے کہا کہ اگر کچھ لوگ عاریت کی چیزلیں پھر واپس دینے سے انکار کریں تو کیسا ہے؟ اس پو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بولے کہ ہرگز انکار نہ کرنا چاہیے۔ بلکہ عاریت کی چیز واپس کردینا چاہیے تب ام سلیم نے کہا کہ یہ بچہ بھی اللہ کا تھا۔ آپ کو عاریتہ ملا ہوا تھا‘ اللہ نے اسے لے لیا تو آپ کو رنج نہ کرنا چاہیے۔ اللہ نے ان کو صبرو استقلال کے بدلے نولڑکے عطا کئے جو سب عالم قرآن ہوئے۔ سچ ہے کہ صبر کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : صبر وہی ہے جو مصیبت آتے ہی کیا جائے

وقال عمر ـ رضى الله عنه ـ نعم العدلان، ونعم العلاوة ‏{‏الذين إذا أصابتهم مصيبة قالوا إنا لله وإنا إليه راجعون * أولئك عليهم صلوات من ربهم ورحمة وأولئك هم المهتدون‏}‏‏.‏ وقوله تعالى ‏{‏واستعينوا بالصبر والصلاة وإنها لكبيرة إلا على الخاشعين‏}‏
اور حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ دونوں طرف کے بوجھے اور بیچ کا بوجھ کیا اچھے ہیں۔ یعنی سورئہ بقرہ کی اس آیت میں خوشخبری سنا صبر کرنے والوں کو جن کو مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں ہم سب اللہ ہی کی ملک ہیں اور اللہ ہی کے پاس جانے والے ہیں۔ ایسے لوگوں پر ان کے مالک کی طرف سے شاباشیاں ہیں اور مہربانیاں اور یہی لوگ راستہ پانے والے ہیں۔ اور اللہ نے سورئہ بقرہ میں فرمایا صبر اور نماز سے مدد مانگو۔ اور وہ نماز بہت مشکل ہے مگر خدا سے ڈرنے والوں پر مشکل نہیں۔

حدیث نمبر : 1302
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن ثابت، قال سمعت أنسا ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ الصبر عند الصدمة الأولى‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا‘ ان سے شعبہ نے ان سے ثابت نے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے نقل کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صبر تو وہی ہے جو صدمہ کے شروع میں کیا جائے۔

تشریح : ترجمتہ الباب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے مصیبت کے وقت صبر کی فضیلت بیان کی کہ اس سے صابر بندے پر اللہ کی رحمتیں ہوتی ہیں اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق ملتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ والے قول کو حاکم نے مستدرک میں وصل کیا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صلوات اور رحمت کو تو جانور کے دونوں طرف کے بوجھے قرار دیا اور بیچ کا بوجھ جو پیٹھ پر رہتا ہے اسے اولئک ہم المہتدون سے تعبیر فرمایا۔ پیچھے بیان ہوا ہے کہ ایک عورت ایک قبر پر بیٹھی ہوئی رو رہی تھی آپ نے اسے منع فرمایا تو وہ خفا ہوگئی۔ پھر جب اس کو آپ کے متعلق علم ہوا تو وہ دوڑی ہوئی معذرت خواہی کے لیے آئی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب کیا رکھا ہے صبر تو مصیبت کے شروع ہی میں ہوا کرتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ اے ابراھیم! ہم تمہاری جدائی پر غمگین ہیں

وقال ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ تدمع العين ويحزن القلب ‏"‏‏.‏

ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) آنکھ آنسو بہاتی ہیں اور دل غم سے نڈھال ہے۔


حدیث نمبر: 1303

حدثنا الحسن بن عبد العزيز،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا يحيى بن حسان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا قريش ـ هو ابن حيان ـ عن ثابت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ قال دخلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم على أبي سيف القين ـ وكان ظئرا لإبراهيم ـ عليه السلام ـ فأخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم إبراهيم فقبله وشمه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم دخلنا عليه بعد ذلك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإبراهيم يجود بنفسه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فجعلت عينا رسول الله صلى الله عليه وسلم تذرفان‏.‏ فقال له عبد الرحمن بن عوف ـ رضى الله عنه ـ وأنت يا رسول الله فقال ‏"‏ يا ابن عوف إنها رحمة ‏"‏‏.‏ ثم أتبعها بأخرى فقال صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن العين تدمع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والقلب يحزن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولا نقول إلا ما يرضى ربنا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإنا بفراقك يا إبراهيم لمحزونون ‏"‏‏.‏ رواه موسى عن سليمان بن المغيرة عن ثابت عن أنس ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏

ہم سے حسن بن عبدالعزیز نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یحیٰی بن حسان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے قریش نے جو حیان کے بیٹے ہیں، نے بیان کیا، ان سے ثابت نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کی کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابوسیف لوہار کے یہاں گئے۔ یہ ابراہیم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے رضی اللہ عنہ) کو دودھ پلانے والی انا کے خاوند تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم رضی اللہ عنہ کو گود میں لیا اور پیار کیا اور سونگھا۔ پھر اس کے بعد ہم ان کے یہاں پھر گئے۔ دیکھا کہ اس وقت ابراہیم رضی اللہ عنہ دم توڑ رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں۔ تو عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بول پڑے کہ یا رسول اللہ! اور آپ بھی لوگوں کی طرح بےصبری کرنے لگے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ ابن عوف! یہ بےصبری نہیں یہ تو رحمت ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ روئے اور فرمایا۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور دل غم سے نڈھال ہے پر زبان سے ہم کہیں گے وہی جو ہمارے پروردگار کو پسند ہے اور اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی سے غمگین ہیں۔ اسی حدیث کو موسیٰ بن اسماعیل نے سلیمان بن مغیرہ سے ‘ ان سے ثابت نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : مریض کے پاس رونا کیسا ہے؟

حدیث نمبر : 1304
حدثنا أصبغ، عن ابن وهب، قال أخبرني عمرو، عن سعيد بن الحارث الأنصاري، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال اشتكى سعد بن عبادة شكوى له فأتاه النبي صلى الله عليه وسلم يعوده مع عبد الرحمن بن عوف وسعد بن أبي وقاص وعبد الله بن مسعود ـ رضى الله عنهم ـ فلما دخل عليه فوجده في غاشية أهله فقال ‏"‏ قد قضى‏"‏‏. ‏ قالوا لا يا رسول الله‏.‏ فبكى النبي صلى الله عليه وسلم فلما رأى القوم بكاء النبي صلى الله عليه وسلم بكوا فقال ‏"‏ ألا تسمعون إن الله لا يعذب بدمع العين، ولا بحزن القلب، ولكن يعذب بهذا ـ وأشار إلى لسانه ـ أو يرحم وإن الميت يعذب ببكاء أهله عليه‏"‏‏. ‏ وكان عمر ـ رضى الله عنه ـ يضرب فيه بالعصا، ويرمي بالحجارة ويحثي بالتراب‏.‏
ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا‘ ان سے عبداللہ بن وہب نے کہا کہ مجھے خبر دی عمر وبن حارث نے‘ انہیں سعید بن حارث انصاری نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کسی مرض میں مبتلا ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کے لیے عبدالرحمن بن عوف‘ سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کے ساتھ ان کے یہاں تشریف لے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر گئے تو تیمار داروں کے ہجوم میں انہیں پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا وفات ہو گئی؟ لوگوں نے کہا نہیں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( ان کے مرض کی شدت کو دیکھ کر ) رو پڑے۔ لوگوں نے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے ہوئے دیکھا تو وہ سب بھی رونے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سنو! اللہ تعالیٰ آنکھوں سے آنسو نکلنے پر بھی عذاب نہیں کرے گا اور نہ دل کے غم پر۔ ہاں اس کا عذاب اس کی وجہ سے ہوتا ہے‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان کی طرف اشارہ کیا ( اور اگر اس زبان سے اچھی بات نکلے تو ) یہ اس کی رحمت کا بھی باعث بنتی ہے اور میت کو اس کے گھروالوں کے نوحہ وماتم کی وجہ سے بھی عذاب ہوتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میت پر ماتم کرنے پر ڈنڈے سے مارتے‘ پتھر پھینکتے اور رونے والوں کے منہ میں مٹی جھونک دیتے۔

تشریح : فوجدہ فی غاشیۃ اہلہ کا ترجمہ بعضوں نے یوں کیا ہے دیکھا تو وہ بے ہوش ہیں اور ان کے گردا گرد لوگ جمع ہیں۔ آپ نے لوگوں کو اکٹھا دیکھ کر یہ گمان کیا کہ شاید سعد رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا۔ آپ نے زبان کی طرف اشارہ فرماکر ظاہر فرمایا کہ یہی زبان باعث رحمت ہے اگر اس سے کلمات خیر نکلیں اور یہی باعث عذاب ہے اگر اس سے بُرے الفاظ نکالے جائیں۔ اس حدیث سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جلال کا بھی اظہار ہوا کہ آپ خلاف شریعت رونے پیٹنے والوں پر انتہائی سختی فرماتے۔ فی الواقع اللہ طاقت دے تو شرعی اوامر ونواہی کے لیے پوری طاقت سے کام لینا چاہیے۔

حضرت سعد بن عبادہ انصاری خزرجی رضی اللہ عنہ بڑے جلیل القدر صحابی ہیں۔ عقبہ ثانیہ میں شرف الاسلام سے مشرف ہوئے۔ ان کا شمار بارہ نقباءمیں ہے۔ انصار کے سرداروں میں سے تھے اور شان وشوکت میں سب سے بڑھ چڑھ کر تھے۔ بدر کی مہم کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مشاورتی اجلاس طلب فرمایا تھا اس میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! آپ کا اشارہ ہماری طرف ہے۔ اللہ کی قسم! اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم انصار کو سمندر میں کودنے کا حکم فرمائیں گے تو ہم اس میں کود پڑیں گے اور اگر خشکی میں حکم فرمائیں گے تو ہم وہاں بھی اونٹوں کے کلیجے پگھلاویں گے۔ آپ کی اس پر جوش تقریر سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بے حد خوش ہوئے۔ اکثر غزوات میں انصار کا جھنڈا اکثر آپ ہی کے ہاتھوں میں رہتا تھا۔ سخاوت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ خاص طور پر اصحاب صفہ پر آپ کے جو دو کرم کی بارش بکثرت برساکرتی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ سے بے انتہا محبت تھی۔ اسی وجہ سے آپ کی اس بیماری میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی عیادت کے لیے تشریف لائے تو آپ کی بیماری کی تکلیف دہ حالت دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ 15ھ میں بہ زمانہ خلافت فاروقی سرزمین شام میں بمقام حوران آپ کی شہادت اس طرح ہوئی کہ کسی دشمن نے نعش مبارک کو غسل خانہ میں ڈال دیا۔ انتقال کے وقت ایک بیوی اور تین بیٹے آپ نے چھوڑے۔ اور حوران ہی میں سپرد خاک کئے گئے۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ آمین۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : کس طرح کے نوحہ وبکا سے منع کرنا اور اس پر جھڑکنا چاہیے

حدیث نمبر : 1305
حدثنا محمد بن عبد الله بن حوشب، حدثنا عبد الوهاب، حدثنا يحيى بن سعيد، قال أخبرتني عمرة، قالت سمعت عائشة ـ رضى الله عنها ـ تقول لما جاء قتل زيد بن حارثة وجعفر وعبد الله بن رواحة، جلس النبي صلى الله عليه وسلم يعرف فيه الحزن، وأنا أطلع من شق الباب، فأتاه رجل فقال يا رسول الله إن نساء جعفر وذكر بكاءهن فأمره بأن ينهاهن، فذهب الرجل ثم أتى فقال قد نهيتهن، وذكر أنهن لم يطعنه، فأمره الثانية أن ينهاهن، فذهب، ثم أتى، فقال والله لقد غلبنني أو غلبننا الشك من محمد بن حوشب ـ فزعمت أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ فاحث في أفواههن التراب‏"‏‏. ‏ فقلت أرغم الله أنفك، فوالله ما أنت بفاعل وما تركت رسول الله صلى الله عليه وسلم من العناء‏.‏
ہم سے محمد بن عبداللہ بن حوشب نے بیان کیا‘ کہا ہم سے عبوالوہاب ثقفی نے‘ ان سے یحیٰی بن سعید انصاری نے‘ کہا کہ مجھے عمرہ بنت عبدالرحمن انصاری نے خبر دی ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا‘ آپ نے فرمایا کہ جب زید بن حارثہ‘ جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کی خبرآئی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح بیٹھے کہ غم کے آثارآپ کے چہرے پر نمایاں تھے میں دروازے کے ایک سراخ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہی تھی۔ اتنے میں ایک صاحب آئے اور کہا کہ یا رسول اللہ! جعفر کے گھرکی عورتیں نوحہ اور ماتم کررہی ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے روکنے کے لیے کہا۔ وہ صاحب گئے لیکن پھر واپس آگئے اور کہا کہ وہ نہیں مانتیں۔ آپ نے دوبارہ روکنے کے لیے بھیجا۔ وہ گئے اور پھر واپس چلے آئے۔ کہا کہ بخدا وہ تو مجھ پر غالب آگئی ہیں یا یہ کہا کہ ہم پر غالب آگئی ہیں۔ شک محمد بن حوشب کو تھا۔ ( عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ) میرا یقین یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ان کے منہ میں مٹی جھونک دے۔ اس پر میری زبان سے نکلا کہ اللہ تیری ناک خاک آلودہ کرے تونہ تو وہ کام کرسکا جس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا اور نہ آپ کو تکلیف دینا چھوڑتا ہے۔

تشریح : زید بن حارثہ کی والدہ کا نام سعدیٰ اور باپ کا نام حارثہ اور ابواسامہ کنیت تھی۔ بنی قضاعہ کے چشم وچراغ تھے جو یمن کا ایک معزز قبیلہ تھا۔ بچپن میں قزاق آپ کو اٹھاکر لے گئے۔ بازار عکاظ میں غلام بن کرچار سودر ہم میں حکیم بن حزام کے ہاتھ فروخت ہوکر ان کی پھوپھی ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں پہنچ گئے اور وہاں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آگئے۔ ان کے والد کو یمن میں خبر ہوئی تو وہ دوڑے ہوئے آئے اور دربار نبوت میں ان کی واپسی کے لیے درخواست کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ کو کلی اختیار دے دیا کہ اگر وہ گھرجانا چاہیں تو خوشی سے اپنے والد کے ساتھ چلے جائیں اور اگر چاہیں تو میرے پاس رہیں۔ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر والوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ترجیح دی اور والد اور چچا کے ہمراہ نہیں گئے۔ اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات اور اخلاق فاضلہ ان کے دل میں گھر کر چکے تھے۔ اس واقعہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مقام حجر میں لے گئے اور حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگو! گواہ رہو میں نے زید کو اپنا بیٹا بنا لیا۔ وہ میرے وارث ہیں اور میں اس کا وارث ہوں۔ اس کے بعد وہ زید بن محمد یکارے حانے لگے۔ یہاں تک کہ قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی کہ متبنٰی لڑکوں کو ان کے والدین کی طرف منسوب کرکے پکارو۔ اللہ کے یہاں انصاف کی بات ہے۔ پھر وہ زیدبن حارثہ کے نام سے پکارے جانے لگے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح ام ایمن اپنی آزاد کردہ لونڈی سے کرادیا تھا۔ جن کے بطن سے ان کا لڑکا اسامہ پیدا ہوا۔ ان کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ نے قرآن مجید میں ایک آیت میں ان کا نام لے کر ان کا ایک واقعہ بیان فرمایا ہے جب کہ قرآن مجید میں کسی بھی صحابی کا نام لے کر کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ غزوئہ موتہ 8ھ میں یہ بہادرانہ شہید ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر 55 سال کی تھی۔
ان کے بعد فوج کی کمان حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے سنبھالی۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محترم چچا ابو طالب کے بیٹے تھے۔ والدہ کا نام فاطمہ تھا۔ یہ شروع ہی میں اکتیس آدمیوں کے ساتھ اسلام لے آئے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دس سال بڑے تھے۔ صورت اور سیرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ہی مشابہ تھے۔ قریش کے مظالم سے تنگ آکر ہجرت حبشہ میں یہ بھی شریک ہوئے اور نجاشی کے دربار میں انہوں نے اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں ایسی پُرجوش تقریر کی کہ شاہ حبش مسلمان ہوگیا۔ 7ھ میں یہ اس وقت مدینہ تشریف لائے جب فرزندان توحید نے خیبر کو فتح کیا۔ آپ نے ان کو اپنے گلے سے لگالیا اور فرمایا کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ مجھے تمہارے آنے سے زیادہ خوشی حاصل ہوئی ہے یافتح خیبر سے ہوئی ہے۔ غزوئہ موتہ میں یہ بھی بہادرانہ شہید ہوئے اور اس خبر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ترین صدمہ ہوا۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کا گھر ماتم کدہ بن گیا۔ اسی موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو یہاں حدیث میں مذکور ہے۔
ان کے بعد حضرت عبداللہ بن ابی رواحہ رضی اللہ عنہ نے فوج کی کمان سنبھالی۔ بیعت عقبہ میں یہ موجود تھے۔ بدر‘ احد‘ خندق اور اس کے بعد کے تمام غزوات میں سوائے فتح مکہ اور بعد والے غزوات میں یہ شریک رہے۔ بڑے ہی فرمانبردار اطاعت شعار صحابی تھے۔ قبیلہ خزرج سے ان کا تعلق تھا۔ لیلتہ العقبہ میں اسلام لاکر بنوحارثہ کے نقیب مقرر ہوئے اور حضرت مقداد بن اسود کندی رضی اللہ عنہ سے سلسلہ مؤاخات قائم ہوا۔ فتح بدرکی خوشخبری مدینہ میں سب سے پہلے لانے والے آپ ہی تھے۔ جنگ موتہ میں بہادرانہ جام شہادت نوش فرمایا۔ ان کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق اللہ کی تلوار حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے قیادت سنبھالی اور ان کے ہاتھ پر مسلمانوں کو فتح عظیم حاصل ہوئی۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت فرمایا کہ پکارکر‘ بیان کرکرکے مرنے والوں پر نوحہ وماتم کرنا یہاں تک ناجائز ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کے لیے اس حرکت نازیبا نوحہ وماتم کرنے کی وجہ سے ان کے منہ میں مٹی ڈالنے کا حکم فرمایا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی کی دلیل ہے اور یہ ایک محاورہ ہے جو انتہائی ناراضگی پر دلالت کرتا ہے۔

حدیث نمبر : 1306
حدثنا عبد الله بن عبد الوهاب، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا أيوب، عن محمد، عن أم عطية ـ رضى الله عنها ـ قالت أخذ علينا النبي صلى الله عليه وسلم عند البيعة أن لا ننوح، فما وفت منا امرأة غير خمس نسوة أم سليم وأم العلاء وابنة أبي سبرة امرأة معاذ وامرأتين أو ابنة أبي سبرة وامرأة معاذ وامرأة أخرى‏.‏
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا‘ ان سے ایوب سختیانی نے‘ ان سے محمد نے اور ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لیتے وقت ہم سے یہ عہد بھی لیا تھا کہ ہم ( میت پر ) نوحہ نہیں کریں گی۔ لیکن اس اقرار کو پانچ عورتوں کے سوا اور کسی نے پورا نہیں کیا۔ یہ عورتیں ام سلیم‘ ام علائ‘ ابوسبرہ کی صاحبزادی جو معاذ کے گھر میں تھیں اور اس کے علاوہ دو عورتیں یا ( یہ کہا کہ ) ابوسبرہ کی صاحبزادی، معاذ کی بیوی اور ایک دوسری خاتون ( رضی اللہ عنہن )۔

تشریح : حدیث کے راوی کو یہ شک ہے کہ یہ ابوسبرہ کی وہی صاحبزادی ہیں جو معاذ رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھیں یا کسی دوسری صاحبزادی کا یہاں ذکر ہے اور معاذ کی جو بیوی اس عہد کا حق ادا کرنے والوں میں تھیں وہ ابوسبرہ کی صاحبزادی نہیں تھیں۔ معاذ کی جورو ام عمرو بنت خلاد تھی۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وقتاً فوقتاً مسلمان مردوں‘ عورتوں سے اسلام پر ثابت قدمی کی بیعت لیا کرتے تھے۔ ایسے ہی ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے خصوصیت سے نوحہ نہ کرنے پر بھی بیعت لی۔ بیعت کے اصطلاحی معنی اقرار کرنے کے ہیں۔ یہ ایک طرح کا حلف نامہ ہوتا ہے۔ بیعت کی بہت سی قسمیں ہیں۔ جن کا تفصیلی بیان اپنے موقع پر آئے گا۔
اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انسان کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو پھر بھی کمزوریوں کا مسجمہ ہے۔ صحابیات کی شان مسلم ہے پھر بھی ان میں بہت سی خواتین سے اس عہد پر قائم نہ رہا گیا جیسا کہ مذکور ہوا ہے۔
 
Top