Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر افسوس کرنا
حدیث نمبر : 1295
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن عامر بن سعد بن أبي وقاص، عن أبيه ـ رضى الله عنه ـ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعودني عام حجة الوداع من وجع اشتد بي فقلت إني قد بلغ بي من الوجع وأنا ذو مال، ولا يرثني إلا ابنة، أفأتصدق بثلثى مالي قال " لا". فقلت بالشطر فقال " لا " ثم قال " الثلث والثلث كبير ـ أو كثير ـ إنك أن تذر ورثتك أغنياء خير من أن تذرهم عالة يتكففون الناس، وإنك لن تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله إلا أجرت بها، حتى ما تجعل في في امرأتك". فقلت يا رسول الله، أخلف بعد أصحابي قال " إنك لن تخلف فتعمل عملا صالحا إلا ازددت به درجة ورفعة، ثم لعلك أن تخلف حتى ينتفع بك أقوام ويضر بك آخرون، اللهم أمض لأصحابي هجرتهم، ولا تردهم على أعقابهم، لكن البائس سعد ابن خولة، يرثي له رسول الله صلى الله عليه وسلم أن مات بمكة".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا‘ انہیں امام مالک نے خبر دی۔ انہیں ابن شہاب نے‘ انہیں عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اور انہیں ان کے والد سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع کے سال ( ۰۱ھ میں ) میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ میں سخت بیمار تھا۔ میں نے کہاکہ میرا مرض شدت اختیار کرچکا ہے میرے پاس مال واسباب بہت ہے اور میری صرف ایک لڑکی ہے جو وارث ہوگی تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کو خیرات کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے کہا آدھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ایک تہائی کردو اور یہ بھی بڑی خیرات ہے یا بہت خیرات ہے اگر تو اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑ جائے تو یہ اس سے بہتر ہوگا کہ محتاجی میں انہیں اس طرح چھوڑ کر جائے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ یہ یاد رکھو کہ جو خرچ بھی تم اللہ کی رضا کی نیت سے کروگے تو اس پر بھی تمہیں ثواب ملے گا۔ حتیٰ کہ اس لقمہ پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو۔ پھر میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرے ساتھی تو مجھے چھوڑ کر ( حجتہ الوداع کرکے ) مکہ سے جارہے ہیں اور میں ان سے پیچھے رہ رہا ہوں۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں رہ کر بھی اگر تم کوئی نیک عمل کروگے تو اس سے تمہارے درجے بلند ہوں گے اور شاید ابھی تم زندہ رہوگے اور بہت سے لوگوں کو ( مسلمانوں کو ) تم سے فائدہ پہنچے گا اور بہتوں کو ( کفار و مرتدین کو ) نقصان۔ ( پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ) اے اللہ! میرے ساتھیوں کو ہجرت پر استقلال عطا فرما اور ان کے قدم پیچھے کی طرف نہ لوٹا۔ لیکن مصیبت زدہ سعد بن خولہ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مکہ میں وفات پاجانے کی وجہ سے اظہار غم کیا تھا۔
تشریح : اس موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کا وہ زریں اصول بیان کیا ہے جو اجتماعی زندگی کی جان ہے۔ احادیث کے ذخیرہ میں اس طرح کی احادیث کی کمی نہیں اور اس سے ہماری شریعت کے مزاج کا پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی اتباع کرنے والوں سے کس طرح کی زندگی کا مطالبہ کرتی ہے۔ خداوند تعالیٰ خود شارع ہیں اور اس نے اپنی تمام دوسری مخلوقات کے ساتھ انسانوں کو بھی پیدا کیا ہے۔ اس لیے انسان کی طبیعت میں فطری طور پر جو رجحانات اور صلاحیتیں موجود ہیں خداوند تعالیٰ اپنے احکام و اوامر میں انہیں نظرانداز نہیں کرتے۔ شریعت میں معاد ومعاش سے متعلق جن احکام پر عمل کرنے کا ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے‘ ان کا مقصد یہ ہے کہ خدا کی عبادت اس کی رضا کے مطابق ہوسکے اور زمین میں شرو فساد نہ پھیلے۔ اہل وعیال پر خرچ کرنے کی اہمیت اور اس پر اجروثواب کا استحقاق صلہ رحمی اور خاندانی نظام کی اہمیت کے پیش نظر ہے کہ جن پر معاشرہ کی صلاح وبقا کا مدار ہے۔ حدیث کا یہ حصہ کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ دے تو اس پر بھی اجروثواب ملے گا اسی بنیاد پر ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اس میں حظ نفس بھی ہے۔ لیکن اگر ازدواجی زندگی کے ذریعہ مسلمان اس خاندانی نظام کو پروان چڑھاتا ہے جس کی ترتیب اسلام نے دی اور اس کے مقتضیات پر عمل کی کوشش کرتا ہے تو قضاءشہوت بھی اجروثواب کا باعث ہے۔ شیخ نووی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حظ نفس اگر حق کے مطابق ہوتو اجروثواب میں اس کی وجہ سے کوئی کمی نہیں ہوتی۔ مسلم میں اس سلسلے کی ایک حدیث بہت زیادہ واضح ہے‘ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری شرمگاہ میں صدقہ ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم اپنی شہوت بھی پوری کریں اور اجر بھی پائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! کیا تم اس پر غور نہیں کرتے کہ اگر حرام میں مبتلا ہوگئے تو پھر کیا ہوگا؟ اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ شریعت ہمیں کن حدود میں رکھنا چاہتی ہے اور اس کے لیے اس نے کیا کیا جتن کئے ہیں اور ہمارے بعض فطری رجحانات کی وجہ سے جو بڑی خرابیاں پیدا ہوسکتی تھیں‘ ان کے سد باب کی کس طرح کوشش کی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس کے باوجود کہ بیوی کے منہ میں لقمہ دینے اور دوسرے طریقوں سے خرچ کرنے کا داعیہ نفعانی اور شہوانی بھی ہے۔ خود یہ لقمہ جس جسم کا جزو بنے گا شوہر اسی سے منتفع ( فائدہ ) اٹھاتا ہے لیکن شریعت کی طرف سے پھر بھی اجروثواب کا وعدہ ہے۔ اس لیے اگر دوسروں پر خرچ کیا جائے جن سے کوئی نسبت وقرابت نہیں اور جہاں خرچ کرنے کے لیے کچھ زیادہ مجاہدہ کی بھی ضرورت ہوگی تو اس پر اجروثواب کس قدر مل سکتا ہے۔ تاہم یہ یاد رہے کہ ہر طرح کے خرچ اخراجات میں مقدم اعزا واقرباءہیں۔ اور پھر دوسرے لوگ کہ اعزاپر خرچ کرکے آدمی شریعت کے کئی مطالبوں کو ایک ساتھ پورا کرتا ہے۔
سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ مہاجرین میں سے تھے۔ لیکن آپ کی وفات مکہ میں ہوگئی تھی۔ یہ بات پسند نہیں کی جاتی تھی کہ جن لوگوں نے اللہ اور رسول سے تعلق کی وجہ سے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہجرت کی تھی وہ بلا کسی سخت ضرورت کے مکہ میں قیام کریں۔ چنانچہ سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ مکہ میں بیمار ہوئے تو وہاں سے جلد نکل جانا چاہا کہ کہیں وفات نہ ہوجائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ پر اس لیے اظہار غم کیا تھا کہ مہاجر ہونے کے باوجود ان کی وفات مکہ میں ہوگئی۔ اسی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بھی دعا کی کہ اللہ تعالیٰ صحابہ کو ہجرت پر استقلال عطا فرمائے تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ نقصان کس طرح کا ہوگا۔ کیونکہ یہ تکوینیات سے متعلق ہے۔ ( تفہیم البخاری )
ترجمہ باب رثاءسے وہی اظہار افسوس اور رنج وغم مراد ہے نہ مرثیہ پڑھنا۔ مرثیہ اس کو کہتے ہیں کہ میت کے فضائل اور مناقب بیان کئے جائیں اور لوگوں کو بیان کرکے رلایا جائے۔ خواہ وہ نظم ہو یا نثر یہ تو ہماری شریعت میں منع ہے خصوصاً لوگوں کو جمع کرکے سنانا اور رُلانا اس کی ممانعت میں تو کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ صحیح حدیث میں وارد ہے جس کو احمد اور ابن ماجہ نے نکالا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مرثیوں سے منع فرمایا۔
سعد رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ اور صحابہ تو آپ کے ساتھ مدینہ طیبہ روانہ ہوجائیں گے اور میں مکہ ہی میں پڑے پڑے مرجاؤں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے گول مول فرمایا جس سے سعد رضی اللہ عنہ نے معلوم کرلیا کہ میں اس بیماری سے مروں گا نہیں۔ پھر آگے صاف فرمایا کہ شاید تو زندہ رہے گا اور تیرے ہاتھ سے مسلمانوں کو فائدہ اور کافروں کا نقصان ہوگا۔ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑا معجزہ ہے جیسے آپ کی پیش گوئی تھی ویسا ہی ہوا۔ سعد رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدت تک زندہ رہے عراق اور ایران انہوں نے فتح کیا۔ رضی اللہ عنہ ( وحیدی
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر افسوس کرنا
حدیث نمبر : 1295
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن عامر بن سعد بن أبي وقاص، عن أبيه ـ رضى الله عنه ـ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعودني عام حجة الوداع من وجع اشتد بي فقلت إني قد بلغ بي من الوجع وأنا ذو مال، ولا يرثني إلا ابنة، أفأتصدق بثلثى مالي قال " لا". فقلت بالشطر فقال " لا " ثم قال " الثلث والثلث كبير ـ أو كثير ـ إنك أن تذر ورثتك أغنياء خير من أن تذرهم عالة يتكففون الناس، وإنك لن تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله إلا أجرت بها، حتى ما تجعل في في امرأتك". فقلت يا رسول الله، أخلف بعد أصحابي قال " إنك لن تخلف فتعمل عملا صالحا إلا ازددت به درجة ورفعة، ثم لعلك أن تخلف حتى ينتفع بك أقوام ويضر بك آخرون، اللهم أمض لأصحابي هجرتهم، ولا تردهم على أعقابهم، لكن البائس سعد ابن خولة، يرثي له رسول الله صلى الله عليه وسلم أن مات بمكة".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا‘ انہیں امام مالک نے خبر دی۔ انہیں ابن شہاب نے‘ انہیں عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اور انہیں ان کے والد سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع کے سال ( ۰۱ھ میں ) میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ میں سخت بیمار تھا۔ میں نے کہاکہ میرا مرض شدت اختیار کرچکا ہے میرے پاس مال واسباب بہت ہے اور میری صرف ایک لڑکی ہے جو وارث ہوگی تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کو خیرات کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے کہا آدھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ایک تہائی کردو اور یہ بھی بڑی خیرات ہے یا بہت خیرات ہے اگر تو اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑ جائے تو یہ اس سے بہتر ہوگا کہ محتاجی میں انہیں اس طرح چھوڑ کر جائے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ یہ یاد رکھو کہ جو خرچ بھی تم اللہ کی رضا کی نیت سے کروگے تو اس پر بھی تمہیں ثواب ملے گا۔ حتیٰ کہ اس لقمہ پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو۔ پھر میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرے ساتھی تو مجھے چھوڑ کر ( حجتہ الوداع کرکے ) مکہ سے جارہے ہیں اور میں ان سے پیچھے رہ رہا ہوں۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں رہ کر بھی اگر تم کوئی نیک عمل کروگے تو اس سے تمہارے درجے بلند ہوں گے اور شاید ابھی تم زندہ رہوگے اور بہت سے لوگوں کو ( مسلمانوں کو ) تم سے فائدہ پہنچے گا اور بہتوں کو ( کفار و مرتدین کو ) نقصان۔ ( پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ) اے اللہ! میرے ساتھیوں کو ہجرت پر استقلال عطا فرما اور ان کے قدم پیچھے کی طرف نہ لوٹا۔ لیکن مصیبت زدہ سعد بن خولہ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مکہ میں وفات پاجانے کی وجہ سے اظہار غم کیا تھا۔
تشریح : اس موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کا وہ زریں اصول بیان کیا ہے جو اجتماعی زندگی کی جان ہے۔ احادیث کے ذخیرہ میں اس طرح کی احادیث کی کمی نہیں اور اس سے ہماری شریعت کے مزاج کا پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی اتباع کرنے والوں سے کس طرح کی زندگی کا مطالبہ کرتی ہے۔ خداوند تعالیٰ خود شارع ہیں اور اس نے اپنی تمام دوسری مخلوقات کے ساتھ انسانوں کو بھی پیدا کیا ہے۔ اس لیے انسان کی طبیعت میں فطری طور پر جو رجحانات اور صلاحیتیں موجود ہیں خداوند تعالیٰ اپنے احکام و اوامر میں انہیں نظرانداز نہیں کرتے۔ شریعت میں معاد ومعاش سے متعلق جن احکام پر عمل کرنے کا ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے‘ ان کا مقصد یہ ہے کہ خدا کی عبادت اس کی رضا کے مطابق ہوسکے اور زمین میں شرو فساد نہ پھیلے۔ اہل وعیال پر خرچ کرنے کی اہمیت اور اس پر اجروثواب کا استحقاق صلہ رحمی اور خاندانی نظام کی اہمیت کے پیش نظر ہے کہ جن پر معاشرہ کی صلاح وبقا کا مدار ہے۔ حدیث کا یہ حصہ کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ دے تو اس پر بھی اجروثواب ملے گا اسی بنیاد پر ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اس میں حظ نفس بھی ہے۔ لیکن اگر ازدواجی زندگی کے ذریعہ مسلمان اس خاندانی نظام کو پروان چڑھاتا ہے جس کی ترتیب اسلام نے دی اور اس کے مقتضیات پر عمل کی کوشش کرتا ہے تو قضاءشہوت بھی اجروثواب کا باعث ہے۔ شیخ نووی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حظ نفس اگر حق کے مطابق ہوتو اجروثواب میں اس کی وجہ سے کوئی کمی نہیں ہوتی۔ مسلم میں اس سلسلے کی ایک حدیث بہت زیادہ واضح ہے‘ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری شرمگاہ میں صدقہ ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم اپنی شہوت بھی پوری کریں اور اجر بھی پائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! کیا تم اس پر غور نہیں کرتے کہ اگر حرام میں مبتلا ہوگئے تو پھر کیا ہوگا؟ اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ شریعت ہمیں کن حدود میں رکھنا چاہتی ہے اور اس کے لیے اس نے کیا کیا جتن کئے ہیں اور ہمارے بعض فطری رجحانات کی وجہ سے جو بڑی خرابیاں پیدا ہوسکتی تھیں‘ ان کے سد باب کی کس طرح کوشش کی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس کے باوجود کہ بیوی کے منہ میں لقمہ دینے اور دوسرے طریقوں سے خرچ کرنے کا داعیہ نفعانی اور شہوانی بھی ہے۔ خود یہ لقمہ جس جسم کا جزو بنے گا شوہر اسی سے منتفع ( فائدہ ) اٹھاتا ہے لیکن شریعت کی طرف سے پھر بھی اجروثواب کا وعدہ ہے۔ اس لیے اگر دوسروں پر خرچ کیا جائے جن سے کوئی نسبت وقرابت نہیں اور جہاں خرچ کرنے کے لیے کچھ زیادہ مجاہدہ کی بھی ضرورت ہوگی تو اس پر اجروثواب کس قدر مل سکتا ہے۔ تاہم یہ یاد رہے کہ ہر طرح کے خرچ اخراجات میں مقدم اعزا واقرباءہیں۔ اور پھر دوسرے لوگ کہ اعزاپر خرچ کرکے آدمی شریعت کے کئی مطالبوں کو ایک ساتھ پورا کرتا ہے۔
سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ مہاجرین میں سے تھے۔ لیکن آپ کی وفات مکہ میں ہوگئی تھی۔ یہ بات پسند نہیں کی جاتی تھی کہ جن لوگوں نے اللہ اور رسول سے تعلق کی وجہ سے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہجرت کی تھی وہ بلا کسی سخت ضرورت کے مکہ میں قیام کریں۔ چنانچہ سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ مکہ میں بیمار ہوئے تو وہاں سے جلد نکل جانا چاہا کہ کہیں وفات نہ ہوجائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ پر اس لیے اظہار غم کیا تھا کہ مہاجر ہونے کے باوجود ان کی وفات مکہ میں ہوگئی۔ اسی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بھی دعا کی کہ اللہ تعالیٰ صحابہ کو ہجرت پر استقلال عطا فرمائے تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ نقصان کس طرح کا ہوگا۔ کیونکہ یہ تکوینیات سے متعلق ہے۔ ( تفہیم البخاری )
ترجمہ باب رثاءسے وہی اظہار افسوس اور رنج وغم مراد ہے نہ مرثیہ پڑھنا۔ مرثیہ اس کو کہتے ہیں کہ میت کے فضائل اور مناقب بیان کئے جائیں اور لوگوں کو بیان کرکے رلایا جائے۔ خواہ وہ نظم ہو یا نثر یہ تو ہماری شریعت میں منع ہے خصوصاً لوگوں کو جمع کرکے سنانا اور رُلانا اس کی ممانعت میں تو کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ صحیح حدیث میں وارد ہے جس کو احمد اور ابن ماجہ نے نکالا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مرثیوں سے منع فرمایا۔
سعد رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ اور صحابہ تو آپ کے ساتھ مدینہ طیبہ روانہ ہوجائیں گے اور میں مکہ ہی میں پڑے پڑے مرجاؤں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے گول مول فرمایا جس سے سعد رضی اللہ عنہ نے معلوم کرلیا کہ میں اس بیماری سے مروں گا نہیں۔ پھر آگے صاف فرمایا کہ شاید تو زندہ رہے گا اور تیرے ہاتھ سے مسلمانوں کو فائدہ اور کافروں کا نقصان ہوگا۔ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑا معجزہ ہے جیسے آپ کی پیش گوئی تھی ویسا ہی ہوا۔ سعد رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدت تک زندہ رہے عراق اور ایران انہوں نے فتح کیا۔ رضی اللہ عنہ ( وحیدی