• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوجانا۔

حدیث نمبر : 1307
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، حدثنا الزهري، عن سالم، عن أبيه، عن عامر بن ربيعة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا رأيتم الجنازة فقوموا حتى تخلفكم‏"‏‏. ‏ قال سفيان قال الزهري أخبرني سالم عن أبيه قال أخبرنا عامر بن ربيعة عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ زاد الحميدي ‏"‏ حتى تخلفكم أو توضع‏"‏‏.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا‘ ان سے زہری نے‘ ان سے سالم نے‘ ان سے ان کے باپ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے‘ ان سے عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجاؤ اور کھڑے رہو یہاں تک کہ جنازہ تم سے آگے نکل جائے۔ سفیان نے بیان کیا‘ ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے سالم نے اپنے باپ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے خبر دی۔ آپ نے فرمایا کہ ہمیں عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے خبر دی تھی۔ حمیدی نے یہ زیادتی کی ہے۔ “ یہاں تک کہ جنازہ آگے نکل جائے یا رکھ دیا جائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : اگر کوئی جنازہ دیکھ کر کھڑا ہو جائے تو اسے کب بیٹھنا چاہئے؟

حدیث نمبر : 1308
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ عن عامر بن ربيعة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا رأى أحدكم جنازة فإن لم يكن ماشيا معها فليقم حتى يخلفها، أو تخلفه أو توضع من قبل أن تخلفه‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی جنازہ دیکھے تو اگر اس کے ساتھ نہیں چل رہا ہے تو کھڑا ہی ہوجائے تا آنکہ جنازہ آگے نکل جائے یا آگے جانے کی بجائے خود جنازہ رکھ دیا جائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : جو شخص جنازہ کے ساتھ ہو وہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک جنازہ لوگوں کے کاندھوں سے اتار کر زمین پر نہ رکھ دیا جائے اور اگر پہلے بیٹھ جائے تو اس سے کھڑا ہونے کے لیے کہا جائے

حدیث نمبر : 1309
حدثنا أحمد بن يونس، حدثنا ابن أبي ذئب، عن سعيد المقبري، عن أبيه، قال كنا في جنازة فأخذ أبو هريرة ـ رضى الله عنه ـ بيد مروان فجلسا قبل أن توضع، فجاء أبو سعيد ـ رضى الله عنه ـ فأخذ بيد مروان فقال قم فوالله لقد علم هذا أن النبي صلى الله عليه وسلم نهانا عن ذلك‏.‏ فقال أبو هريرة صدق‏.
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا‘ ان سے ابن ابی ذئب نے‘ ان سے سیعد مقبری نے اور ان سے ان کے والد نے کہ ہم ایک جنازہ میں شریک تھے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مروان کا ہاتھ پکڑا اور یہ دونوں صاحب جنازہ رکھے جانے سے پہلے بیٹھ گئے۔ اتنے میں ابوسعید رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور مروان کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ اٹھو! خدا کی قسم! یہ ( ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ) جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع فرمایا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بولے کہ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے سچ کہا ہے۔

تشریح : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ حدیث یاد نہ رہی تھی۔ جب حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے یاد دلائی تو آپ کو یاد آئی اور آپ نے اس کی تصدیق کی۔ اکثر صحابہ اور تابعین اس کو مستحب جانتے ہیں اور شعبی اور نخعی نے کہا کہ جنازہ زمین پر رکھے جانے سے پہلے بیٹھ جانا مکروہ ہے اور بعضوں نے کھڑے رہنے کو فرض کہا ہے۔ نسائی نے ابوہریرہ اور ابوسعید رضی اللہ عنہما سے نکالا کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی جنازے میں بیٹھتے ہوئے نہیں دیکھا جب تک جنازہ زمین پر نہ رکھا جاتا۔

حدیث نمبر : 1310
حدثنا مسلم ـ يعني ابن إبراهيم ـ حدثنا هشام، حدثنا يحيى، عن أبي سلمة، عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا رأيتم الجنازة فقوموا، فمن تبعها فلا يقعد حتى توضع‏"‏‏.
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا‘ ان سے یحیٰی بن ابی کثیر نے‘ ان سے ابو سلمہ اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم لوگ جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجاؤ اور جو شخص جنازہ کے ساتھ چل رہا ہو وہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک جنازہ رکھ نہ دیا جائے۔

تشریح : اس بارے میں بہت کچھ بحث وتمحیص کے بعد شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: والقول الراجح عندی ہو ماذہب الیہ الجمہور من انہ یستحب ان لا یجلس التابع والمشیع للجنازۃ حتی توضع بالارض وان النہی فی قولہ فلا یقعد محمول علی التنزیہ واللہ تعالیٰ اعلم

ویدل علی استحباب القیام الی ان توضع مارواہ البیہقی ( ص: 27ج:4 ) من طریق ابی حازم قال مشیت مع ابی ہریرۃ وابن الزبیر والحسن بن علی امام الجنازۃ حتی انتہینا الی المقبرۃ فقاموا حتی وضعت ثم جلسوا فقلت لبعضعہم فقال ان القائم مثل الحامل یعنی فی الاجر ( مرعاۃ‘ جلد: 2 ص: 471 )
یعنی میرے نزدیک قول راجح وہی ہے جدھر جمہور گئے ہیں اور وہ یہ کہ جنازہ کے ساتھ چلنے والوں اور اس کے رخصت کرنے والوں کے لیے مستحب ہے کہ وہ جب تک جنازہ زمین پر نہ رکھ دیا جائے نہ بیٹھیں اور حدیث میں نہ بیٹھنے کی نہی تنزیہی ہے اور اس قیام کے استحباب پر بیہقی کی وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جسے انہوں نے ابوحازم کی سند سے روایت کیا ہے کہ ہم حضرت ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر اور حسن بن علی رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایک جنازہ کے ہمراہ گئے۔ پس یہ جملہ حضرات کھڑے ہی رہے جب تک وہ جنازہ زمین پر نہ رکھ دیا گیا۔ اس کے بعد وہ سب بھی بیٹھ گئے۔ میں نے ان میں سے بعض سے مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ کھڑا رہنے والا بھی اسی کے مثل ہے جو خود جنازہ کو اٹھا رہا ہے یعنی ثواب میں یہ دونوں برابر ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : اس شخص کے بارے میں جو یہودی کا جنازہ دیکھ کر کھڑا ہوگیا

حدیث نمبر : 1311
حدثنا معاذ بن فضالة، حدثنا هشام، عن يحيى، عن عبيد الله بن مقسم، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ قال مر بنا جنازة فقام لها النبي صلى الله عليه وسلم وقمنا به‏.‏ فقلنا يا رسول الله، إنها جنازة يهودي‏.‏ قال ‏"‏ إذا رأيتم الجنازة فقوموا‏"‏‏. ‏
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا‘ ان سے یحیٰی بن ابی کثیر نے بیان کیا‘ ان سے عبیداللہ بن مقسم نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ ہمارے سامنے سے ایک جنازہ گزرا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور ہم بھی کھڑے ہوگئے۔ پھر ہم نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ تو یہودی کا جنازہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم لوگ جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجایا کرو۔

تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہودی کے جنازے کے لیے بھی کھڑے ہوجانا ظاہر کررہا ہے کہ آپ کے قلب مبارک میں محض انسانیت کے رشتہ کی بناپر ہر انسان سے کس قدر محبت تھی۔ یہودی کے جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہونے کی کئی وجوہ بیان کی گئی ہیں۔ آئندہ حدیث میں بھی کچھ ایسا ہی ذکر ہے۔ وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس سوال کا جواب فرمایا۔ الیست نفسا یعنی جان کے معاملہ میں مسلمان اور غیر مسلمان برابر ہیں۔ زندگی اور موت ہردو پر وارد ہوتی ہیں۔ حضرت جابر کی روایت میں مزید تفصیل موجود ہے۔ مرت جنازۃ فقام لہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقمنا معہ فقلنا یا رسول اللہ انہا یہودیۃ فقال ان الموت فزع فاذا رایتم الجنازۃ فقوموا متفق علیہ یعنی ایک جنازہ گزرا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اقتدا میں ہم سب کھڑے ہوگئے۔ بعد میں ہم نے کہا کہ حضور یہ ایک یہودیہ کا جنازہ تھا۔ آپ نے فرمایا کہ کچھ بھی ہو بے شک موت بہت ہی گھبراہٹ میں ڈالنے والی چیز ہے۔ موت کسی کی بھی ہو اسے دیکھ کر گھبراہٹ ہونی چاہیے پس تم بھی کوئی جنازہ دیکھو کھڑے ہوجایا کرو۔

نسائی اور حاکم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ انما قمنا للملئکۃ ہم فرشتوں کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور احمد میں بھی حدیث ابوموسیٰ سے ایسی ہی روایت موجود ہے۔
پس خلاصۃ الکلام یہ کہ جنازہ کو دیکھ کر بلا امتیاز مذہب عبرت حاصل کرنے کے لیے‘ موت کو یاد کرنے کے لیے‘ فرشتوں کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوجانا چاہیے۔ حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔

حدیث نمبر : 1312
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا عمرو بن مرة، قال سمعت عبد الرحمن بن أبي ليلى، قال كان سهل بن حنيف وقيس بن سعد قاعدين بالقادسية، فمروا عليهما بجنازة فقاما‏.‏ فقيل لهما إنها من أهل الأرض، أى من أهل الذمة فقالا إن النبي صلى الله عليه وسلم مرت به جنازة فقام فقيل له إنها جنازة يهودي‏.‏ فقال ‏"‏ أليست نفسا‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عمروبن مرہ نے بیان کیا کہ میں نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے سنا۔ انہوں نے کہا کہ سہل بن حنیف اور قیس بن سعد رضی اللہ عنہما قادسیہ میں کسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں کچھ لوگ ادھر سے ایک جنازہ لے کر گزرے تو یہ دونوں بزرگ کھڑے ہوگئے۔ عرض کیا گیا کہ جنازہ تو ذمیوں کا ہے ( جو کافر ہیں ) اس پر انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اسی طرح سے ایک جنازہ گزرا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے کھڑے ہوگئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ یہ تو یہودی کا جنازہ تھا۔ آپ نے فرمایا کیا یہودی کی جان نہیں ہے؟

حدیث نمبر : 1313
وقال أبو حمزة عن الأعمش، عن عمرو، عن ابن أبي ليلى، قال كنت مع قيس وسهل ـ رضى الله عنهما ـ فقالا كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ وقال زكرياء عن الشعبي عن ابن أبي ليلى كان أبو مسعود وقيس يقومان للجنازة‏.
اور ابو حمزہ نے اعمش سے بیان کیا‘ ان سے عمرو نے‘ ان سے ابن ابی لیلیٰ نے کہ میں قیس اور سہل رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا۔ ان دونوں نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ اور زکریا نے کہا ان سے شعبی نے اور ان سے ابن ابی لیلیٰ نے کہ ابو مسعود اور قیس رضی اللہ عنہما جنازہ کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : اس بارے میں کہ عورتیں نہیں بلکہ مرد ہی جنازے کو اٹھائیں

حدیث نمبر : 1314
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا الليث، عن سعيد المقبري، عن أبيه، أنه سمع أبا سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا وضعت الجنازة واحتملها الرجال على أعناقهم، فإن كانت صالحة قالت قدموني‏.‏ وإن كانت غير صالحة قالت يا ويلها أين يذهبون بها يسمع صوتها كل شىء إلا الإنسان، ولو سمعه صعق‏"‏‏. ‏
ہم سے عبدالعزیز نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید مقبری نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ کیسان نے کہ انہوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب میت چارپائی پر رکھی جاتی ہے اور مرد اسے کاندھوں پر اٹھاتے ہیں تو اگر وہ نیک ہو تو کہتا ہے کہ مجھے آگے لے چلو۔ لیکن اگر نیک نہیں تو کہتا ہے ہائے بربادی! مجھے کہاں لیے جارہے ہو۔ اس آواز کو انسان کے سوا تمام مخلوق خدا سنتی ہے۔ اگر انسان کہیں سن پائے تو بے ہوش ہوجائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : جنازے کو جلد لے چلنا

وقال أنس ـ رضى الله عنه ـ أنتم مشيعون، وامش بين يديها، وخلفها وعن يمينها، وعن شمالها‏.‏ وقال غيره قريبا منها‏.
اور انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم جنازے کو پہنچا دینے والے ہو تم اس کے سامنے بھی چل سکتے ہو پیچھے بھی‘ دائیں بھی اور بائیں بھی‘ سب طرف چل سکتے ہو اور انس رضی اللہ عنہ کے سوا اور لوگوں نے کہا جنازے کے قریب چلنا چاہیے۔

حدیث نمبر : 1315
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال حفظناه من الزهري عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ أسرعوا بالجنازة، فإن تك صالحة فخير تقدمونها ‏{‏إليه‏}‏، وإن يك سوى ذلك فشر تضعونه عن رقابكم‏"‏‏. ‏
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم نے زہری سے سن کر یہ حدیث یاد کی‘ انہوں نے سعید بن مسیب سے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنازہ لے کر جلد چلا کرو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اس کو بھلائی کی طرف نزدیک کررہے ہو اور اگر اس کے سوا ہے تو ایک شر ہے جسے تم اپنی گردنوں سے اتارتے ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : نیک میت چارپائی پر کہتا ہے کہ مجھے آگے بڑھائے چلو ( جلد دفناؤ )


حدیث نمبر : 1316
حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، حدثنا سعيد، عن أبيه، أنه سمع أبا سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ إذا وضعت الجنازة فاحتملها الرجال على أعناقهم، فإن كانت صالحة قالت قدموني‏.‏ وإن كانت غير صالحة قالت لأهلها يا ويلها أين يذهبون بها يسمع صوتها كل شىء إلا الإنسان، ولو سمع الإنسان لصعق‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید مقبری نے بیان کیا۔ ان سے ان کے والد ( کیسان ) نے اور انہوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا‘ آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ جب میت چارپائی پر رکھی جاتی ہے اور لوگ اسے کاندھوں پر اٹھاتے ہیں اس وقت اگر وہ مرنے والا نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے جلد آگے بڑھائے چلو۔ لیکن اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے کہ ہائے بربادی! مجھے کہاں لیے جارہے ہو۔ اس کی یہ آواز انسان کے سواہر مخلوق خدا سنتی ہے۔ کہیں اگر انسان سن پائے تو بے ہوش ہوجائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : امام کے پیچھے جنازہ کی نماز کے لیے دو یا تین صفیں کرنا

حدیث نمبر : 1317
حدثنا مسدد، عن أبي عوانة، عن قتادة، عن عطاء، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى على النجاشي، فكنت في الصف الثاني أو الثالث‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو عوانہ وضاح یشکری نے بیان کیا‘ ان سے قتادہ نے بیان کیا‘ ان سے عطاءنے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی تو میں دوسری یا تیسری صف میں تھا۔

بہر حال دو صف ہوں یا تین صف ہر طرح جائز ہے۔ مگر تین صفیں بنانا بہتر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : جنازہ کی نماز میں صفیں باندھنا

حدیث نمبر : 1318
حدثنا مسدد، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا معمر، عن الزهري، عن سعيد، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال نعى النبي صلى الله عليه وسلم إلى أصحابه النجاشي، ثم تقدم فصفوا خلفه فكبر أربعا‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یزیدبن زریع نے بیان کیا‘ انہو ںنے کہا کہ ہم سے معمرنے‘ ان سے زہری نے‘ ان سے سعید نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو نجاشی کی وفات کی خبر سنائی‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے اور لوگوں نے آپ کے پیچھے صفیں بنا لیں‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار مرتبہ تکبیر کہی۔

حدیث نمبر : 1319
حدثنا مسلم، حدثنا شعبة، حدثنا الشيباني، عن الشعبي، قال أخبرني من، شهد النبي صلى الله عليه وسلم أنه أتى على قبر منبوذ فصفهم وكبر أربعا‏.‏ قلت من حدثك قال ابن عباس رضى الله عنهما‏.‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شیبانی نے‘ ان سے شعبی نے بیان کیا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے خبر دی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر پر آئے جو اور قبروں سے الگ تھلگ تھی۔ صحابہ نے صف بندی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار تکبیریں کہیں۔ میں نے پوچھا کہ یہ حدیث آپ سے کس نے بیان کی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے۔

حدیث نمبر : 1320
حدثنا إبراهيم بن موسى، أخبرنا هشام بن يوسف، أن ابن جريج، أخبرهم قال أخبرني عطاء، أنه سمع جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ يقول قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ قد توفي اليوم رجل صالح من الحبش فهلم فصلوا عليه‏"‏‏. ‏ قال فصففنا فصلى النبي صلى الله عليه وسلم عليه ونحن صفوف‏.‏ قال أبو الزبير عن جابر كنت في الصف الثاني‏.
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی کہ انہیں ابن جریج نے خبر دی ‘ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے عطاءبن ابی رباح نے خبر دی ‘ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج حبش کے ایک مرد صالح ( نجاشی حبش کے بادشاہ ) کا انتقال ہوگیا ہے۔ آؤ ان کی نماز جنازہ پڑھو۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر ہم نے صف بندی کرلی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ ہم صف باندھے کھڑے تھے۔ ابوالزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے نقل کیا کہ میں دوسری صف میں تھا۔

تشریح : ان سب حدیثوں سے میت غائب پر نماز جنازہ غائبانہ پڑھنا ثابت ہوا۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ اور اکثر سلف کا یہی قول ہے۔ علامہ ابن حزم کہتے ہیں کہ کسی بھی صحابی سے اس کی ممانعت ثابت نہیں اور قیاس بھی اسی کو مقتضی ہے کہ جنازے کی نماز میں دعا کرنا ہے اور دعا کرنے میں یہ ضروری نہیں کہ جس کے لیے دعا کی جائے وہ ضرور حاضر بھی ہو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہ حبش نجاشی کا جنازہ غائبانہ ادا فرمایا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ نماز جنازہ غائبانہ درست ہے مگر اس بارے میں علمائے احناف نے بہت کچھ تاویلات سے کام کیا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے زمین کا پردہ ہٹاکر اللہ نے نجاشی کا جنازہ ظاہر کردیا تھا۔ کچھ کہتے ہیں کہ یہ خصوصیات نبوی سے ہے۔ کچھ نے کہا کہ یہ خاص نجاشی کے لیے تھا۔ بہر حال یہ تاویلات دورازکار ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نجاشی کے لیے پھر معاویہ بن معاویہ مزنی کے لیے‘ نماز جنازہ غائبانہ ثابت ہے۔
حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: واجیب عن ذلک بان الاصل عدم الخصوصیۃ ولوفتح باب ہذا الخصوص لانسد کثیر من احکام الشرع قال الخطابی زعم ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان مخصوصا بہذا الفعل فاسد لان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا فعل شیئا من افعال الشریعۃ کان علینا اتباعہ والا یتسابہ والتخصیص لا یعلم الا بدلیل ومما یبین ذلک انہ صلی اللہ علیہ وسلم خرج بالناس الی الصلٰوۃ فصف بہم وصلوا معہ فعلم ان ہذا التاویل فاسد وقال ابن قدامہ نقتدی بالنبی صلی اللہ علیہ وسلم مالم یثبت ما یقتضی اختصاصہ ( مرعاۃ ) یعنی نجاشی کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ غائبانہ کو مخصوص کرنے کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اصل میں عدم خصوصیت ہے اور اگر خواہ مخواہ ایسے خصوص کا دروازہ کھولا جائے گا‘ تو بہت سے احکام شریعت یہی کہہ کر مسدود کردئیے جائیں گے کہ یہ خصوصیات نبوی میں سے ہیں۔ امام خطابی نے کہا کہ یہ گمان کہ نماز جنازہ غائبانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص تھی بالکل فاسد ہے۔ اس لیے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی کام کریں تو اس کا اتباع ہم پر واجب ہے۔ تخصیص کے لیے کوئی کھلی دلیل ہونی ضروری ہے۔ یہاں تو صاف بیان کیا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ہمراہ لے کر نجاشی کی نماز پڑھانے کے لیے نکلے۔ صف بندی ہوئی اور آپ نے نماز پڑھائی۔ ظاہر ہوا کہ یہ تاویل فاسد ہے۔ ابن قدامہ نے کہا کہ جب تک کسی امر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت صحیح دلیل سے ثابت نہ ہو ہم اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کریں گے۔

کچھ روایات جن سے کچھ اختصاص پر روشنی پڑسکتی ہے مروی ہیں مگر وہ سب ضعیف اور ناقابل استناد ہیں۔ علامہ ابن حجرنے فرمایا کہ ان پر توجہ نہیں دی جاسکتی۔ اور واقدی کی یہ روایت کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نجاشی کے جنازہ اور زمین کا درمیانی پردہ ہٹا دیا گیا تھا بغیر سند کے ہے جو ہرگز استدلال کے قابل نہیں ہے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے شرح سفر السعادت میں ایسا ہی لکھا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : جنازے کی نماز میں بچے بھی مردوں کے برابر کھڑے ہوں

حدیث نمبر : 1321
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عبد الواحد، حدثنا الشيباني، عن عامر، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بقبر قد دفن ليلا فقال ‏"‏ متى دفن هذا‏"‏‏. ‏ قالوا البارحة‏.‏ قال ‏"‏ أفلا آذنتموني‏"‏‏. ‏ قالوا دفناه في ظلمة الليل فكرهنا أن نوقظك‏.‏ فقام فصففنا خلفه‏.‏ قال ابن عباس وأنا فيهم فصلى عليه‏.‏
ہم سے موسیٰ ابن اسماعیل نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شیبانی نے بیان کیا‘ ان سے عامر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک قبر پر ہوا۔ میت کو ابھی رات ہی دفنایا گیا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ دفن کب کیا گیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ گذشتہ رات۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے کیوں نہیں اطلاع کرائی؟ لوگوں نے عرض کیا کہ اندھیری رات میں دفن کیا گیا‘ اس لیے ہم نے آپ کو جگانا مناسب نہ سمجھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور ہم نے آپ کے پیچھے صفیں بنالیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں بھی انہیں میں تھا ( نابالغ تھا لیکن ) نماز جنازہ میں شرکت کی۔
 
Top