Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : جنازے پر نماز کا مشروع ہونا
وقال النبي صلى الله عليه وسلم " من صلى على الجنازة". وقال " صلوا على صاحبكم". وقال " صلوا على النجاشي". سماها صلاة، ليس فيها ركوع ولا سجود، ولا يتكلم فيها، وفيها تكبير وتسليم. وكان ابن عمر لا يصلي إلا طاهرا. ولا يصلي عند طلوع الشمس ولا غروبها، ويرفع يديه، وقال الحسن أدركت الناس وأحقهم على جنائزهم من رضوهم لفرائضهم. وإذا أحدث يوم العيد أو عند الجنازة يطلب الماء ولا يتيمم، وإذا انتهى إلى الجنازة وهم يصلون يدخل معهم بتكبيرة. وقال ابن المسيب يكبر بالليل والنهار والسفر والحضر أربعا. وقال أنس ـ رضى الله عنه ـ التكبيرة الواحدة استفتاح الصلاة. وقال {ولا تصل على أحد منهم مات أبدا} وفيه صفوف وإمام.
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص جنازے پر نماز پڑھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا تم اپنے ساتھی پر نماز جنازہ پڑھ لو۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نجاشی پر نماز پڑھو۔ اس کو نماز کہا اس میں نہ رکوع ہے نہ سجدہ اور نہ اس میں بات کی جاسکتی ہے اور اس میں تکبیر ہے اور سلام ہے۔ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جنازے کی نماز نہ پڑھتے جب تک باوضو نہ ہوتے اور سورج نکلنے اور ڈوبنے کے وقت نہ پڑھتے اور جنازے کی نماز میں رفع یدین کرتے اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے بہت سے صحابہ اور تابعین کو پایا وہ جنازے کی نماز میں امامت کا زیادہ حقدار اسی کو جانتے جس کو فرض نماز میں امامت کا زیادہ حقدار سمجھتے اور جب عید کے دن یا جنازے پر وضونہ ہوتو پانی ڈھونڈھے‘ تیمم نہ کرے اور جب جنازے پر اس وقت پہنچے کہ لوگ نماز پڑھ رہے ہوں تو اللہ اکبر کہہ کر شریک ہوجائے۔ اور سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے کہا رات ہو یا دن‘ سفر ہو یا حضر جنازے میں چار تکبیریں کہے۔ اور انس رضی اللہ عنہ نے کہا پہلی تکبیر جنازے کی نماز شروع کرنے کی ہے اور اللہ جل جلالہ نے ( سورئہ توبہ میں ) فرمایا ان منافقوں میں جب کوئی مرجائے تو ان پر کبھی نماز نہ پڑھیو۔ اور اس میں صفیں ہیں اور امام ہوتا ہے۔
تشریح : کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نماز جنازہ کو صرف دعا کی حد تک مانتے ہیں اور اسے بے وضو پڑھنا بھی جائز کہتے ہیں۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی خدا داد بصیرت کی بناپر ایسے ہی لوگوں کا یہاں رد فرمایا ہے اور بتلایا ہے کہ جنازہ کی نماز نماز ہے اسے محض دعا کہنا غلط ہے۔ قرآن مجید میں‘ فرامین دربار رسالت میں‘ اقوال صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین میں اسے لفظ نماز ہی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کے لیے باوضو ہوناشرط ہے۔
قسطلانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام مالک اور اوزاعی اور احمد اور اسحاق کے نزدیک اوقات مکروہہ میں نماز جنازہ جائز نہیں۔ لیکن امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک جنازہ کی نماز اوقات مکروہہ میں بھی جائز ہے۔
اس نماز میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرتے تھے۔ اس روایت کو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب رفع الیدین میں نکالا ہے۔ اس میں اور نمازوں کی طرح تکبیر تحریمہ بھی ہوتی ہے اور اس کے علاوہ چار تکبیروں سے یہ نماز مسنون ہے۔ اس کی امامت کے لیے بھی وہی شخص زیادہ حقدار ہے جو پنجوقتہ نماز پڑھانے کے لائق ہے۔ الغرض نماز جنازہ نماز ہے۔ یہ محض دعا نہیں ہے جو لوگ ایسا کہتے ہیں ان کا قول صحیح نہیں۔
تکبیرات جنازہ میں ہر تکبیر پر رفع الیدین کرنا اس بارے میں امام شافعی رحمہ اللہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت کیا ہے کہ وہ تکبیرات جنازہ میں اپنے ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: واختلفو افی رفع الایدی فی ہذہ التکبیرات مذہب الشافعی الرفع فی جمیعہا وحکاہ ابن المنذر عن ابن عمر وعمر بن عبدالعزیز وعطاءوسالم بن عبداللہ وقیس ابن ابی حازم والزہری والاوزاعی واحمد واسحاق واختارہ ابن المنذر وقال الثوری وابو حنیفۃ واصحاب الرای لا یرفع الا فی التکبیر الاولیٰ ( مسلم مع نووی مطبوعہ کراچی‘ جلد:1 ) یعنی تکبیرات جنازہ میں ہر تکبیر پر رفع الیدین کرنے میں علماءنے اختلاف کیا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ ہر تکبیر پر رفع الیدین کیا جائے۔ اس کو عبداللہ بن عمر اور عمر بن عبدالعزیز اور عطاءاور سالم بن عبداللہ اور قیس ابن ابی حازم اور زہری اور اوزاعی اور احمد اور اسحاق سے نقل کیا ہے اور ابن منذر کے نزدیک مختار مذہب یہی ہے اور امام ثوری اور امام ابوحنیفہ اور اصحاب الرائے کا قول یہ ہے کہ صرف تکبیراولیٰ میں ہاتھ اٹھائے جائیں ہر تکبیر پر رفع الیدین کے متعلق کوئی صحیح مرفوع حدیث موجود نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
حدیث نمبر : 1322
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن الشيباني، عن الشعبي، قال أخبرني من، مر مع نبيكم صلى الله عليه وسلم على قبر منبوذ فأمنا فصففنا خلفه. فقلنا يا أبا عمرو من حدثك قال ابن عباس رضى الله عنهما.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے‘ ان سے شیبانی نے اور ان سے شعبی نے بیان کیا کہ مجھے اس صحابی نے خبر دی تھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک الگ تھلگ قبر پر سے گزرا۔ وہ کہتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری امامت کی اور ہم نے آپ کے پیچھے صفیں بنالیں۔ ہم نے پوچھا کہ ابو عمرو ( یہ شعبی کی کنیت ہے ) یہ آپ سے بیان کرنے والے کون صحابی ہیں؟ فرمایا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
اس باب کا مقصد یہ بتانا ہے کہ نماز جنازہ بھی نماز ہے اور تمام نمازوں کی طرح اس میں وہی چیزیں ضروری ہیں جو نمازوں کے لیے ہونی چاہئیں۔ اس مقصد کے لیے حدیث اور اقوال صحابہ وتابعین کے بہت سے ٹکڑے ایسے بیان کئے ہیں جن میں نماز جنازہ کے لیے “نماز” کا لفظ ثابت ہوا اور حدیث واردہ میں بھی اس پر نماز ہی کا لفظ بولا گیا جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امام ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صحابہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صف باندھی۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر کوئی مسلمان جس پر نماز جنازہ پڑھنی ضروری تھی اور اس کو بغیر نماز پڑھائے دفن کردیا گیا تو اس کی قبر پر نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے۔
باب : جنازے پر نماز کا مشروع ہونا
وقال النبي صلى الله عليه وسلم " من صلى على الجنازة". وقال " صلوا على صاحبكم". وقال " صلوا على النجاشي". سماها صلاة، ليس فيها ركوع ولا سجود، ولا يتكلم فيها، وفيها تكبير وتسليم. وكان ابن عمر لا يصلي إلا طاهرا. ولا يصلي عند طلوع الشمس ولا غروبها، ويرفع يديه، وقال الحسن أدركت الناس وأحقهم على جنائزهم من رضوهم لفرائضهم. وإذا أحدث يوم العيد أو عند الجنازة يطلب الماء ولا يتيمم، وإذا انتهى إلى الجنازة وهم يصلون يدخل معهم بتكبيرة. وقال ابن المسيب يكبر بالليل والنهار والسفر والحضر أربعا. وقال أنس ـ رضى الله عنه ـ التكبيرة الواحدة استفتاح الصلاة. وقال {ولا تصل على أحد منهم مات أبدا} وفيه صفوف وإمام.
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص جنازے پر نماز پڑھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا تم اپنے ساتھی پر نماز جنازہ پڑھ لو۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نجاشی پر نماز پڑھو۔ اس کو نماز کہا اس میں نہ رکوع ہے نہ سجدہ اور نہ اس میں بات کی جاسکتی ہے اور اس میں تکبیر ہے اور سلام ہے۔ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جنازے کی نماز نہ پڑھتے جب تک باوضو نہ ہوتے اور سورج نکلنے اور ڈوبنے کے وقت نہ پڑھتے اور جنازے کی نماز میں رفع یدین کرتے اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے بہت سے صحابہ اور تابعین کو پایا وہ جنازے کی نماز میں امامت کا زیادہ حقدار اسی کو جانتے جس کو فرض نماز میں امامت کا زیادہ حقدار سمجھتے اور جب عید کے دن یا جنازے پر وضونہ ہوتو پانی ڈھونڈھے‘ تیمم نہ کرے اور جب جنازے پر اس وقت پہنچے کہ لوگ نماز پڑھ رہے ہوں تو اللہ اکبر کہہ کر شریک ہوجائے۔ اور سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے کہا رات ہو یا دن‘ سفر ہو یا حضر جنازے میں چار تکبیریں کہے۔ اور انس رضی اللہ عنہ نے کہا پہلی تکبیر جنازے کی نماز شروع کرنے کی ہے اور اللہ جل جلالہ نے ( سورئہ توبہ میں ) فرمایا ان منافقوں میں جب کوئی مرجائے تو ان پر کبھی نماز نہ پڑھیو۔ اور اس میں صفیں ہیں اور امام ہوتا ہے۔
تشریح : کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نماز جنازہ کو صرف دعا کی حد تک مانتے ہیں اور اسے بے وضو پڑھنا بھی جائز کہتے ہیں۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی خدا داد بصیرت کی بناپر ایسے ہی لوگوں کا یہاں رد فرمایا ہے اور بتلایا ہے کہ جنازہ کی نماز نماز ہے اسے محض دعا کہنا غلط ہے۔ قرآن مجید میں‘ فرامین دربار رسالت میں‘ اقوال صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین میں اسے لفظ نماز ہی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کے لیے باوضو ہوناشرط ہے۔
قسطلانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام مالک اور اوزاعی اور احمد اور اسحاق کے نزدیک اوقات مکروہہ میں نماز جنازہ جائز نہیں۔ لیکن امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک جنازہ کی نماز اوقات مکروہہ میں بھی جائز ہے۔
اس نماز میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرتے تھے۔ اس روایت کو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب رفع الیدین میں نکالا ہے۔ اس میں اور نمازوں کی طرح تکبیر تحریمہ بھی ہوتی ہے اور اس کے علاوہ چار تکبیروں سے یہ نماز مسنون ہے۔ اس کی امامت کے لیے بھی وہی شخص زیادہ حقدار ہے جو پنجوقتہ نماز پڑھانے کے لائق ہے۔ الغرض نماز جنازہ نماز ہے۔ یہ محض دعا نہیں ہے جو لوگ ایسا کہتے ہیں ان کا قول صحیح نہیں۔
تکبیرات جنازہ میں ہر تکبیر پر رفع الیدین کرنا اس بارے میں امام شافعی رحمہ اللہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت کیا ہے کہ وہ تکبیرات جنازہ میں اپنے ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: واختلفو افی رفع الایدی فی ہذہ التکبیرات مذہب الشافعی الرفع فی جمیعہا وحکاہ ابن المنذر عن ابن عمر وعمر بن عبدالعزیز وعطاءوسالم بن عبداللہ وقیس ابن ابی حازم والزہری والاوزاعی واحمد واسحاق واختارہ ابن المنذر وقال الثوری وابو حنیفۃ واصحاب الرای لا یرفع الا فی التکبیر الاولیٰ ( مسلم مع نووی مطبوعہ کراچی‘ جلد:1 ) یعنی تکبیرات جنازہ میں ہر تکبیر پر رفع الیدین کرنے میں علماءنے اختلاف کیا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ ہر تکبیر پر رفع الیدین کیا جائے۔ اس کو عبداللہ بن عمر اور عمر بن عبدالعزیز اور عطاءاور سالم بن عبداللہ اور قیس ابن ابی حازم اور زہری اور اوزاعی اور احمد اور اسحاق سے نقل کیا ہے اور ابن منذر کے نزدیک مختار مذہب یہی ہے اور امام ثوری اور امام ابوحنیفہ اور اصحاب الرائے کا قول یہ ہے کہ صرف تکبیراولیٰ میں ہاتھ اٹھائے جائیں ہر تکبیر پر رفع الیدین کے متعلق کوئی صحیح مرفوع حدیث موجود نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
حدیث نمبر : 1322
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن الشيباني، عن الشعبي، قال أخبرني من، مر مع نبيكم صلى الله عليه وسلم على قبر منبوذ فأمنا فصففنا خلفه. فقلنا يا أبا عمرو من حدثك قال ابن عباس رضى الله عنهما.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے‘ ان سے شیبانی نے اور ان سے شعبی نے بیان کیا کہ مجھے اس صحابی نے خبر دی تھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک الگ تھلگ قبر پر سے گزرا۔ وہ کہتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری امامت کی اور ہم نے آپ کے پیچھے صفیں بنالیں۔ ہم نے پوچھا کہ ابو عمرو ( یہ شعبی کی کنیت ہے ) یہ آپ سے بیان کرنے والے کون صحابی ہیں؟ فرمایا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
اس باب کا مقصد یہ بتانا ہے کہ نماز جنازہ بھی نماز ہے اور تمام نمازوں کی طرح اس میں وہی چیزیں ضروری ہیں جو نمازوں کے لیے ہونی چاہئیں۔ اس مقصد کے لیے حدیث اور اقوال صحابہ وتابعین کے بہت سے ٹکڑے ایسے بیان کئے ہیں جن میں نماز جنازہ کے لیے “نماز” کا لفظ ثابت ہوا اور حدیث واردہ میں بھی اس پر نماز ہی کا لفظ بولا گیا جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امام ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صحابہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صف باندھی۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر کوئی مسلمان جس پر نماز جنازہ پڑھنی ضروری تھی اور اس کو بغیر نماز پڑھائے دفن کردیا گیا تو اس کی قبر پر نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے۔