• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : جنازے پر نماز کا مشروع ہونا

وقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من صلى على الجنازة‏"‏‏. ‏ وقال ‏"‏ صلوا على صاحبكم‏"‏‏. ‏ وقال ‏"‏ صلوا على النجاشي‏"‏‏. ‏ سماها صلاة، ليس فيها ركوع ولا سجود، ولا يتكلم فيها، وفيها تكبير وتسليم‏.‏ وكان ابن عمر لا يصلي إلا طاهرا‏.‏ ولا يصلي عند طلوع الشمس ولا غروبها، ويرفع يديه، وقال الحسن أدركت الناس وأحقهم على جنائزهم من رضوهم لفرائضهم‏.‏ وإذا أحدث يوم العيد أو عند الجنازة يطلب الماء ولا يتيمم، وإذا انتهى إلى الجنازة وهم يصلون يدخل معهم بتكبيرة‏.‏ وقال ابن المسيب يكبر بالليل والنهار والسفر والحضر أربعا‏.‏ وقال أنس ـ رضى الله عنه ـ التكبيرة الواحدة استفتاح الصلاة‏.‏ وقال ‏{‏ولا تصل على أحد منهم مات أبدا‏}‏ وفيه صفوف وإمام‏.‏

اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص جنازے پر نماز پڑھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا تم اپنے ساتھی پر نماز جنازہ پڑھ لو۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نجاشی پر نماز پڑھو۔ اس کو نماز کہا اس میں نہ رکوع ہے نہ سجدہ اور نہ اس میں بات کی جاسکتی ہے اور اس میں تکبیر ہے اور سلام ہے۔ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جنازے کی نماز نہ پڑھتے جب تک باوضو نہ ہوتے اور سورج نکلنے اور ڈوبنے کے وقت نہ پڑھتے اور جنازے کی نماز میں رفع یدین کرتے اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے بہت سے صحابہ اور تابعین کو پایا وہ جنازے کی نماز میں امامت کا زیادہ حقدار اسی کو جانتے جس کو فرض نماز میں امامت کا زیادہ حقدار سمجھتے اور جب عید کے دن یا جنازے پر وضونہ ہوتو پانی ڈھونڈھے‘ تیمم نہ کرے اور جب جنازے پر اس وقت پہنچے کہ لوگ نماز پڑھ رہے ہوں تو اللہ اکبر کہہ کر شریک ہوجائے۔ اور سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے کہا رات ہو یا دن‘ سفر ہو یا حضر جنازے میں چار تکبیریں کہے۔ اور انس رضی اللہ عنہ نے کہا پہلی تکبیر جنازے کی نماز شروع کرنے کی ہے اور اللہ جل جلالہ نے ( سورئہ توبہ میں ) فرمایا ان منافقوں میں جب کوئی مرجائے تو ان پر کبھی نماز نہ پڑھیو۔ اور اس میں صفیں ہیں اور امام ہوتا ہے۔

تشریح : کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نماز جنازہ کو صرف دعا کی حد تک مانتے ہیں اور اسے بے وضو پڑھنا بھی جائز کہتے ہیں۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی خدا داد بصیرت کی بناپر ایسے ہی لوگوں کا یہاں رد فرمایا ہے اور بتلایا ہے کہ جنازہ کی نماز نماز ہے اسے محض دعا کہنا غلط ہے۔ قرآن مجید میں‘ فرامین دربار رسالت میں‘ اقوال صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین میں اسے لفظ نماز ہی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کے لیے باوضو ہوناشرط ہے۔

قسطلانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام مالک اور اوزاعی اور احمد اور اسحاق کے نزدیک اوقات مکروہہ میں نماز جنازہ جائز نہیں۔ لیکن امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک جنازہ کی نماز اوقات مکروہہ میں بھی جائز ہے۔
اس نماز میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرتے تھے۔ اس روایت کو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب رفع الیدین میں نکالا ہے۔ اس میں اور نمازوں کی طرح تکبیر تحریمہ بھی ہوتی ہے اور اس کے علاوہ چار تکبیروں سے یہ نماز مسنون ہے۔ اس کی امامت کے لیے بھی وہی شخص زیادہ حقدار ہے جو پنجوقتہ نماز پڑھانے کے لائق ہے۔ الغرض نماز جنازہ نماز ہے۔ یہ محض دعا نہیں ہے جو لوگ ایسا کہتے ہیں ان کا قول صحیح نہیں۔
تکبیرات جنازہ میں ہر تکبیر پر رفع الیدین کرنا اس بارے میں امام شافعی رحمہ اللہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت کیا ہے کہ وہ تکبیرات جنازہ میں اپنے ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: واختلفو افی رفع الایدی فی ہذہ التکبیرات مذہب الشافعی الرفع فی جمیعہا وحکاہ ابن المنذر عن ابن عمر وعمر بن عبدالعزیز وعطاءوسالم بن عبداللہ وقیس ابن ابی حازم والزہری والاوزاعی واحمد واسحاق واختارہ ابن المنذر وقال الثوری وابو حنیفۃ واصحاب الرای لا یرفع الا فی التکبیر الاولیٰ ( مسلم مع نووی مطبوعہ کراچی‘ جلد:1 ) یعنی تکبیرات جنازہ میں ہر تکبیر پر رفع الیدین کرنے میں علماءنے اختلاف کیا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ ہر تکبیر پر رفع الیدین کیا جائے۔ اس کو عبداللہ بن عمر اور عمر بن عبدالعزیز اور عطاءاور سالم بن عبداللہ اور قیس ابن ابی حازم اور زہری اور اوزاعی اور احمد اور اسحاق سے نقل کیا ہے اور ابن منذر کے نزدیک مختار مذہب یہی ہے اور امام ثوری اور امام ابوحنیفہ اور اصحاب الرائے کا قول یہ ہے کہ صرف تکبیراولیٰ میں ہاتھ اٹھائے جائیں ہر تکبیر پر رفع الیدین کے متعلق کوئی صحیح مرفوع حدیث موجود نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

حدیث نمبر : 1322
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن الشيباني، عن الشعبي، قال أخبرني من، مر مع نبيكم صلى الله عليه وسلم على قبر منبوذ فأمنا فصففنا خلفه‏.‏ فقلنا يا أبا عمرو من حدثك قال ابن عباس رضى الله عنهما‏.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے‘ ان سے شیبانی نے اور ان سے شعبی نے بیان کیا کہ مجھے اس صحابی نے خبر دی تھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک الگ تھلگ قبر پر سے گزرا۔ وہ کہتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری امامت کی اور ہم نے آپ کے پیچھے صفیں بنالیں۔ ہم نے پوچھا کہ ابو عمرو ( یہ شعبی کی کنیت ہے ) یہ آپ سے بیان کرنے والے کون صحابی ہیں؟ فرمایا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

اس باب کا مقصد یہ بتانا ہے کہ نماز جنازہ بھی نماز ہے اور تمام نمازوں کی طرح اس میں وہی چیزیں ضروری ہیں جو نمازوں کے لیے ہونی چاہئیں۔ اس مقصد کے لیے حدیث اور اقوال صحابہ وتابعین کے بہت سے ٹکڑے ایسے بیان کئے ہیں جن میں نماز جنازہ کے لیے “نماز” کا لفظ ثابت ہوا اور حدیث واردہ میں بھی اس پر نماز ہی کا لفظ بولا گیا جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امام ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صحابہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صف باندھی۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر کوئی مسلمان جس پر نماز جنازہ پڑھنی ضروری تھی اور اس کو بغیر نماز پڑھائے دفن کردیا گیا تو اس کی قبر پر نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : جنازہ کے ساتھ جانے کی فضیلت

وقال زيد بن ثابت ـ رضى الله عنه ـ إذا صليت فقد قضيت الذي عليك‏.‏ وقال حميد بن هلال ما علمنا على الجنازة إذنا، ولكن من صلى ثم رجع فله قيراط‏.‏ اور زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نماز پڑھ کر تم نے اپنا حق ادا کردیا۔ حمید بن ہلال ( تابعی ) نے فرمایا کہ ہم نماز پڑھ کر اجازت لینا ضروری نہیں سمجھتے۔ جو شخص بھی نماز جنازہ پڑھے اور پھر واپس آئے تو اسے ایک قیراط کا ثواب ملتا ہے۔
حافظ نے کہا کہ یہ اثر مجھ کو موصولاً نہیں ملا۔ اور امام بخاری کی غرض ان لوگوں کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ اگر کوئی صرف نماز جنازہ پڑھ کر گھر کو لوٹ جانا چاہے تو جنازے کے وارثوں سے اجازت لے کر جانا چاہیے۔ اور اس بارے میں ایک مرفوع حدیث وارد ہے جو ضعیف ہے۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1323
حدثنا أبو النعمان، حدثنا جرير بن حازم، قال سمعت نافعا، يقول حدث ابن عمر، أن أبا هريرة ـ رضى الله عنهم ـ يقول من تبع جنازة فله قيراط‏.‏ فقال أكثر أبو هريرة علينا‏.‏
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا‘ ان سے جریر بن حازم نے بیان کیا‘ کہا کہ میں نے نافع سے سنا‘ آپ نے بیان کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جو دفن تک جنازہ کے ساتھ رہے اسے ایک قیراط کا ثواب ملے گا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ابوہریرہ احادیث بہت زیادہ بیان کرتے ہیں۔

حدیث نمبر : 1324
فصدقت ـ يعني عائشة ـ أبا هريرة وقالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقوله‏.‏ فقال ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ لقد فرطنا في قراريط كثيرة‏.‏ ‏{‏فرطت‏}‏ ضيعت من أمر الله‏.
پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے بھی تصدیق کی اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ارشاد خود سنا ہے۔ اس پر ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ پھر تو ہم نے بہت سے قیراطوں کا نقصان اٹھایا۔ ( سورہ زمر میں جو لفظ ) فرطت آیا ہے اس کے یہی معنی ہیں میں نے ضائع کیا۔

تشریح : حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی عادت ہے کہ قرآن کی آیتوں میں جو لفظ وارد ہوئے ہیں اگر حدیث میں کوئی وہی لفظ آجاتا ہے تو آپ اس کے ساتھ ساتھ قرآن کے لفظ کی بھی تفسیر کردیتے ہیں۔ یہاں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے کلام میں فرطت کا لفظ آیا اور قرآن میں بھی فَرَّطتُ فِی جَنبِ اللّٰہِ ( الزمر: 56 ) آیا ہے تو اس کی بھی تفسیر کردی یعنی میں نے اللہ کا حکم کچھ ضائع کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی نسبت کہا‘ انہوں نے بہت حدیثیں بیان کیں۔ اس سے یہ مطلب نہیں تھا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جھوٹے ہیں۔ بلکہ ان کو یہ شبہ رہا کہ شاید ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھول گئے ہوں یا حدیث کا مطلب اور کچھ ہو وہ نہ سمجھے ہوں۔ جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بھی ان کی شہادت دی تو ان کو پورا یقین آیا اور انہوں نے افسوس سے کہا کہ ہمارے بہت سے قیراط اب تک ضائع ہوئے۔ حضرت امام کا مقصد باب اس شخص کی فضیلت بیان کرنا ہے جو جنازے کے ساتھ جائے‘ اسے ایک قیراط کا ثواب ملے گا۔ قیراط ایک بڑا وزن مثل احد پہاڑ کے مراد ہے اور جو شخص دفن ہونے تک ساتھ رہے اسے دو قیراط برابر ثواب ملے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : جو شخص دفن ہونے تک ٹھہرا رہے

حدیث نمبر : 1325
حدثنا عبد الله بن مسلمة، قال قرأت على ابن أبي ذئب عن سعيد بن أبي سعيد المقبري، عن أبيه، أنه سأل أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ فقال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم‏. حدثنا أحمد بن شبيب بن سعيد قال: حدثني أبي: حدثنا يونس: قال ابن شهاب: وحدثني عبد الرحمن الأعرج: أن أبا هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (من شهد الجنازة حتى يصلي فله قيراط، ومن شهد حتى تدفن كان له قيراطان). قيل: وما القيراطان؟ قال: (مثل الجبلين العظيمين).
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے ابن ابی ذئب کے سامنے یہ حدیث پڑھی‘ ان سے ابوسعید مقبری نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ نے‘ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ ( دوسری سند ) ہم سے احمد بن شبیب نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا‘ ان سے یونس نے بیان کیا کہ ابن شہاب نے کہا کہ ( مجھ سے فلاں نے یہ بھی حدیث بیان کی ) اور مجھ سے عبدالرحمن اعرج نے بھی کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے جنازہ میں شرکت کی پھر نماز جنازہ پڑھی تو اسے ایک قیراط کا ثواب ملتا ہے اور جو دفن تک ساتھ رہا تو اسے دو قیراط کا ثواب ملتا ہے۔ پوچھا گیا کہ دو قیراط کتنے ہوں گے؟ فرمایا کہ دو عظیم پہاڑوں کے برابر ہے۔

یعنی دنیا کا قیراط مت سمجھو جو درہم کا بارہواں حصہ ہوتا ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ آخرت کے قیراط احد پہاڑ کے برابر ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : بڑوں کے ساتھ بچوں کا بھی نماز جنازہ میں شریک ہونا

حدیث نمبر : 1326
حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا يحيى بن أبي بكير، حدثنا زائدة، حدثنا أبو إسحاق الشيباني، عن عامر، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم قبرا، فقالوا هذا دفن، أو دفنت البارحة‏.‏ قال ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ فصفنا خلفه ثم صلى عليها‏.‏
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن ابی بکیر نے‘ انہوں نے کہا ہم سے زائدہ نے بیان کیا‘ ان سے ابو اسحاق شیبانی نے‘ ان سے عامر نے‘ ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر پر تشریف لائے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اس میت کو گزشتہ رات میں دفن کیا گیا ہے۔ ( صاحب قبر مرد تھا یا عورت تھی ) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ پھر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بندی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی۔

باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔ کیونکہ ابن عباس اس واقعہ کے وقت بچے ہی تھے۔ مگر آپ کے ساتھ برابر صف میں شریک ہوئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : نماز جنازہ عیدگاہ میں اور مسجد میں ( ہر دو جگہ جائز ہے )

حدیث نمبر : 1327
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، وأبي، سلمة أنهما حدثاه عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال نعى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم النجاشي صاحب الحبشة، يوم الذي مات فيه فقال ‏"‏ استغفروا لأخيكم‏"‏‏. ‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا' انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا‘ ان سے عقیل نے بیان کیا‘ ان سے ابن شہاب نے بیان کیا‘ ان سے سعید بن مسیب اور ابو سلمہ نے بیان کیا اور ان دونوں حضرات سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ کے نجاشی کی وفات کی خبر دی ‘ اسی دن جس دن ان کا انتقال ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اپنے بھائی کے لیے خدا سے مغفرت چاہو۔

حدیث نمبر : 1328
وعن ابن شهاب، قال حدثني سعيد بن المسيب، أن أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال إن النبي صلى الله عليه وسلم صف بهم بالمصلى فكبر عليه أربعا‏.
اور ابن شہاب سے یوں بھی روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھ سے سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدگاہ میں صف بندی کرائی پھر ( نماز جنازہ کی ) چار تکبیریں کہیں۔

تشریح : امام نووی فرماتے ہیں قال ابن عبدالبر وانعقد الا جماع بعد ذلک علی اربع واجمع الفقہاءواہل الفتویٰ بالامصار علی اربع علی ماجاءفی احادیث الصحاح وماسوی ذلک عندہم شذو ذلایلتفت الیہ ( نووی ) یعنی ابن عبدالبرنے کہا کہ تمام فقہاءاور اہل فتویٰ کا چار تکبیروں پر اجماع ہوچکا ہے جیسا کہ احادیث صحاح میں آیا ہے اور جو اس کے خلاف ہے وہ نوادر میں داخل ہے جس کی طرف التفات نہیں کیا جاسکتا۔

شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ والراجح عندی انہ لا ینبغی ان یزاد علی اربع لان فیہ خروجا من الخلاف ولان ذلک ہوالغالب من فعلہ لکن الامام اذا کبر خمساً تابعہ الماموم لان ثبوت الخمس لامردلہ من حیث الروایۃ العمل الخ ( مرعاۃ‘ ج:2ص:477 ) یعنی میرے نزدیک راجح یہی ہے کہ چار تکبیروں سے زیادہ نہ ہوں۔ اختلاف سے بچنے کا یہی راستہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے اکثر یہی ثابت ہے۔ لیکن اگر امام پانچ تکبیریں کہے تو مقتدیوں کو اس کی پیروی کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ روایت اور عمل کے لحاظ سے پانچ کا بھی ثبوت موجود ہے جس سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔

حدیث نمبر : 1329
حدثنا إبراهيم بن المنذر، حدثنا أبو ضمرة، حدثنا موسى بن عقبة، عن نافع، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن اليهود، جاءوا إلى النبي صلى الله عليه وسلم برجل منهم وامرأة زنيا، فأمر بهما فرجما قريبا من موضع الجنائز عند المسجد‏.‏
ہم سے ابراہیم بن منذرنے بیان کیا‘ ان سے ابو ضمرہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا‘ ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں اپنے ہم مذہب ایک مرد اور عورت کا جنہوں نے زنا کیا تھا‘ مقدمہ لے کر آئے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے مسجد کے نزدیک نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ کے پاس انہیں سنگسار کر دیا گیا۔

تشریح : جنازہ کی نماز مسجد میں بلاکر اہت جائز ودرست ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سے ظاہر ہے: عن عائشۃ انہا قالت لما توفی سعد بن ابی وقاص ادخلوا بہ المسجد حتی اصلی علیہ فانکروا ذلک علیہا فقالت واللہ لقد صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابن بیضاءفی المسجد سہیل واخیہ رواہ مسلم وفی روایۃ ما صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی سہیل بن البیضاءالافی جوف المسجد رواہ الجماعۃ الاالبخاری یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص کے جنازہ پر انہوں نے فرمایا کہ اسے مسجد میں داخل کرو یہاں تک کہ میں بھی اس پر نماز جنازہ ادا کروں۔ لوگوں نے اس پر کچھ انکار کیا تو آپ نے فرمایا کہ قسم اللہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاءکے دونوں بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی پر نماز جنازہ مسجد ہی میں ادا کی تھی۔

اور ایک روایت میں ہے کہ سہیل بن بیضاءکی نمازجنازہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے بیچوں بیچ ادا فرمائی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ مسجد میں پڑھی جاسکتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہر دو کا جنازہ مسجد ہی میں ادا کیا گیا تھا۔
علامہ شوکانی فرماتے ہیں والحدیث یدل علی جواز ادخال المیت فی المسجد والصلوٰۃ علیہ وفیہ وبہ قال الشافعی واحمد واسحاق والجمہور یعنی یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ میت کو مسجد میں داخل کرنا اور وہاں اس کا جنازہ پڑھناد رست ہے۔ امام شافعی اور احمد اور اسحاق اور جمہور کا بھی یہی قول ہے۔ جو لوگ میت کے ناپاک ہونے کا خیال رکھتے ہیں ان کے نزدیک مسجد میں نہ میت کا لانا درست نہ وہاں نماز جنازہ جائز۔ مگر یہ خیال بالکل غلط ہے‘ مسلمان مردہ اور زندہ نجس نہیں ہوا کرتا۔ جیسا کہ حدیث میں صاف موجود ہے۔ ان المومن لا ینجس حیا ولامیتا بے شک مومن مردہ اور زندہ نجس نہیں ہوتا۔ یعنی نجاست حقیقی سے وہ دور ہوتا ہے۔

بنو بیضاءتین بھائی تھے۔ سہل وسہیل اور صفوان ان کی والدہ کو بطور وصف بیضاءکہا گیا۔ اس کا نام دعد تھا اور ان کے والد کا نام وہب بن ربیعہ قریشی فہری ہے۔
اس بحث کے آخر میں حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ صاحب مبارک پوری فرماتے ہیں۔ والحق انہ یجوز الصلوٰۃ علی الجنائزفی المسجد من غیر کراہۃ والافضل الصلوٰۃ علیہا خارج المسجد لان اکثر صلواتہ صلی اللہ علیہ وسلم علی الجنائز کان فی المصلی الخ ( مرعاۃ ) یعنی حق یہی ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ بلاکراہت درست ہے اور افضل یہ ہے کہ مسجد سے باہر پڑھی جائے کیونکہ اکثر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو عیدگاہ میں پڑھا ہے۔

اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اسلامی عدالت میں اگر کوئی غیر مسلم کا کوئی مقدمہ دائر ہو تو فیصلہ بہر حال اسلامی قانون کے تحت کیا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودی زانیوں کے لیے سنگساری کا حکم اس لیے بھی صادر فرمایا کہ خود تورات میں بھی یہی حکم تھا جسے علماءیہود نے بدل دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا ان ہی کی شریعت کے مطابق فیصلہ فرمایا۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : قبروں پر مسجد بنانا مکروہ ہے

ولما مات الحسن بن الحسن بن علي ـ رضى الله عنهم ـ ضربت امرأته القبة على قبره سنة، ثم رفعت، فسمعوا صائحا يقول ألا هل وجدوا ما فقدوا‏.‏ فأجابه الآخر بل يئسوا فانقلبوا‏.‏ اور جب حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنہم گزرگئے‘ تو ان کی بیوی ( فاطمہ بنت حسین ) نے ایک سال تک قبر پر خیمہ لگائے رکھا۔ آخر خیمہ اٹھایا گیا تو لوگوں نے ایک آواز سنی “ کیا ان لوگوں نے جن کو کھویا تھا‘ ان کو پایا؟ دوسرے نے جواب دیا نہیں بلکہ نا امید ہو کر لوٹ گئے۔ ”

تشریح : یہ حسن حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے اور بڑے ثقات تابعین میں سے تھے۔ ان کی بیوی فاطمہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں اور ان کے ایک صاحبزادے تھے ان کا نام نامی بھی حسن تھا۔ گویا تین پشت تک یہی مبارک نام رکھا گیا۔ ان کی بیوی نے اپنے دل کو تسلی دینے اور غم غلط کرنے کے لیے سال بھر تک اپنے محبوب شوہر کی قبر کے پاس ڈیرہ رکھا۔ اس پر ان کو ہاتف غیب سے ملامت ہوئی اور وہ واپس ہوگئیں۔

حدیث نمبر : 1330
حدثنا عبيد الله بن موسى، عن شيبان، عن هلال ـ هو الوزان ـ عن عروة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال في مرضه الذي مات فيه ‏"‏ لعن الله اليهود والنصارى، اتخذوا قبور أنبيائهم مسجدا‏"‏‏. ‏ قالت ولولا ذلك لأبرزوا قبره غير أني أخشى أن يتخذ مسجدا‏.‏
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا‘ ان سے شیبان نے‘ ان سے ہلال وزان نے‘ ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں فرمایا کہ یہود اور نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہوکہ انہوں نے اپنے انبیاءکی قبروں کو مساجد بنالیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عہنا نے کہا کہ اگر ایسا ڈر نہ ہوتا تو آپ کی قبر کھلی رہتی ( اور حجرہ میں نہ ہوتی ) کیونکہ مجھے ڈر اس کا ہے کہ کہیں آپ کی قبر بھی مسجد نہ بنالی جائے۔

تشریح : یعنی خود قبروں کو پوجنے لگے یا قبروں پر مسجد اور گرجا بناکر وہاں خدا کی عبادت کرنے لگے۔ توباب کی مطابقت حاصل ہوگئی۔ امام ابن قیم نے کہا جو لوگ قبروں پر وقت معین میں جمع ہوتے ہیں وہ بھی گویا قبر کو مسجد بناتے ہیں۔ دوسری حدیث میں ہے میری قبر کو عید نہ کرلینا یعنی عید کی طرح وہاں میلہ اور مجمع نہ کرنا۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ بھی ان یہودیوں اور نصرانیوں کے پیرو ہیں جن پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی۔

افسوس! ہمارے زمانے میں گور پرستی ایسی شائع ہورہی ہے کہ یہ نام کے مسلمان خدا اور رسول سے ذرا بھی نہیں شرماتے‘ قبروں کو اس قدر پختہ شاندار بناتے ہیں کہ ان کی عمارات کو دیکھ کر مساجد کا شبہ ہوتا ہے۔ حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی کے ساتھ قبروں پر ایسی تعمیرات کے لیے منع فرمایا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوہیاج اسدی کو کہا تھا ابعثک علی ما بعثنی علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تدع تمثالا الا طمستہ ولا قبرا مشرفا الاسویتہ رواہ الجماعۃ الا البخاری وابن ماجہ یعنی کیا میں تم کو اس خدمت کے لیے نہ بھیجوں جس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا۔ وہ یہ کہ کوئی مورت ایسی نہ چھوڑ جسے تو مٹا نہ دے اور کوئی اونچی قبر نہ رہے جسے تو برابر نہ کردے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبروں کا حد سے زیادہ اونچا اور بلند کرنا بھی شارع کو ناپسند ہے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں۔ فیہ ان السنۃ ان القبر لا یرفع رفعا کثیرا من غیر فرق بین من کان فاضلا ومن کان غیر فاضل والظاہر ان رفع القبور زیادۃ علی القدر الماذون حرام یعنی سنت یہی ہے کہ قبر کو حد شرعی سے زیادہ بلندنہ بنایا جائے خواہ وہ کسی فاضل عالم صوفی کی ہویا کسی غیر فاضل کی اور ظاہر ہے کہ شرعی اجازت سے زیادہ قبروں کو اونچا کرنا حرام ہے۔

آگے علامہ فرماتے ہیں: ومن رفع القبور الداخل تحت الحدیث دخولا اولیا القبیب والمشاہد المعمورۃ علی القبور وایضا ہو من اتخاذالقبور مساجد وقد لعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فاعل ذلک کما سیاتی وکم قدسری عن تشیدا بنیۃ القبور وتحسینہا من مفاسد یبکی لہا الاسلام منہا اعتقاد الجہلۃ لہا کا عتقاد الکفار للاصنام وعظم ذلک فظنوا انہا قادرۃ علی جلب المنافع ودفع الضرر فجعلوہا مقصد الطلب قضاءالحوائج وملجاءلنجاح المطالب وسالوا منہا مایسالہ العباد من ربہم وشدوا الیہا الرحال وتمسحوا بہا واستغاثوا وبالجملۃ انہم لم یدعوا شیئا مما کانت الجاہلیۃ تفعلہ بالاصنام الا فعلوہ فانا للہ وانا الیہ راجعون ومع ہذا المنکر الشنیع الکفر الفظیع لا نجد من یغضب للہ ویغار حمیۃ للدین الحنیف لا عالما ولا متعلما ولا امیرا ولا وزیرا ولا ملکا وتوارد الینا من الاخبار مالا یشک معہ ان کثیرا من ہولاءالمقبورین او اکثرہم اذا توجہت علیہ یمین من جہۃ خصمہ حلف باللہ فاجرا واذ قیل لہ بعد ذلک احلف بشیخک ومعتقدک الولی الفلانی تلعثم وتلکاءوابی واعترف بالحق وہذا من ابین الادلۃ الدالۃ علی ان شرکہم قد بلغ فوق شرک من قال انہ تعالیٰ ثانی اثنین اوثالث ثلاثۃ فیا علماءالدین ویاملوک المسلمین ای رزءللاسلام اشد من الکفروای بلاءلہذا الدین اضر علیہ من عبادۃ غیر اللہ وای مصیبۃ یصاب بہا المسلمون تعدل ہذہ المصیبۃ وای منکر یجب انکارہ ان لم یکن انکار ہذا الشرک البین واجبا۔

لقد اسمعت لو نادیت حیا
ولکن لا حیاۃ لمن تنادی
ولو نارا نفخت بہا اضاعت
ولکن انت تنفخ فی الرماد

( نیل الاوطار‘ ج:4ص: 90 )

یعنی بزرگوں کی قبروں پر بنائی ہوئی عمارات، قبے اور زیارت گاہیں یہ سب اس حدیث کے تحت داخل ہونے کی وجہ سے قطعاً ناجائز ہیں۔ یہی قبروں کو مساجد بنانا ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے اور ان قبور کے پختہ بنانے اور ان پر عمارات کو مزین کرنے سے اس قدر مفاسد پیدا ہورہے ہیں کہ آج ان پر اسلام رو رہا ہے۔ ان میں سے مثلاً یہ کہ ایسے مزاروں کے بارے میں جاہل لوگ وہی اعتقادات رکھتے ہیں جو کفار بتوں کے بارے میں رکھتے ہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر۔ ایسے جاہل ان قبور والوں کو نفع دینے والے اور نقصان دور کرنے والے تصور کرتے ہیں۔ اس لیے ان سے حاجات طلب کرتے ہیں۔ اپنی مرادیں ان کے سامنے رکھتے ہیں اور ان سے ایسے ہی دعائیں کرتے ہیں جیسے بندگان خدا کو خدا سے دعائیں کرنی چاہئیں۔ ان مزرات کی طرف کجاوے باندھ باندھ کر سفر کرتے ہیں اور وہاں جاکر ان قبروں کو مسح کرتے ہیں اور ان سے فریاد رسی چاہتے ہیں۔ مختصر یہ کہ جاہلیت میں جو کچھ بتوں کے ساتھ کیا جاتا تھا وہ سب کچھ ان قبروں کے ساتھ ہورہا ہے۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔

اور اس کھلے ہوئے بدترین کفر ہونے کے باوجود ہم کسی بھی اللہ کے بندے کو نہیں پاتے جو اللہ کے لیے اس پر غصہ کرے اور دین حنیف کی کچھ غیرت اس کو آئے۔ عالم ہوں یا متعلم‘ امیرہوں یا وزیر یا بادشاہ‘ اس بارے میں سب خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ سنا گیا ہے کہ یہ قبرپرست دشمن کے سامنے اللہ کی جھوٹی قسم کھاجاتے ہیں۔ مگر اپنے پیروں مشائخ کی جھوٹی قسموں کے وقت ان کی زبانیں لڑکھڑانے لگ جاتی ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ ان کا شرک ان لوگوں سے بھی آگے بڑھا ہوا ہے جو وہ خدا یا تین خدا مانتے ہیں۔ پس اے دین کے عالمو! اور مسلمانوں کے بادشاہو! اسلام کے لیے ایسے کفر سے بڑھ کر اور مصیبت کیا ہوگی اور غیر اللہ کی پرستش سے بڑھ کر دین اسلام کے لیے اور نقصان کی چیز کیا ہوگی اور مسلمان اس سے بھی بڑھ کر اور کس مصیبت کا شکار ہوں گے اور اگر اس کھلے ہوئے شرک کے خلاف ہی آواز انکار بلند نہ کی جاسکی تو اور کونسا گناہ ہوگا جس کے لیے زبانیں کھل سکیں گی۔ کسی شاعر نے سچ کہا ہے۔
“اگر تو زندوں کو پکارتا تو سنا سکتا تھا۔ مگر جن ( مردوں ) کو تو پکار رہا ہے وہ تو زندگی سے قطعاً محروم ہیں۔ اگر تم آگ میں پھونک مارتے تو وہ روشن ہوتی لیکن تم راکھ میں پھونک مار رہے ہو جو کبھی بھی روشن نہیں ہوسکتی۔”
خلاصہ یہ کہ ایسی قبور اور ایسے مزارات اور ان پر یہ عرس‘ قوالیاں‘ میلے ٹھیلے‘ گانے بجانے قطعاً حرام اور شرک اور کفر ہیں۔ اللہ ہر مسلمان کو شرک جلی اور خفی سے بچائے۔ آمین
حدیث علی رضی اللہ عنہ کے ذیل میں حجتہ الہند حضرت شاہ ولی اللہ مرحوم فرماتے ہیں: ونہی ان یجصص القبر وان یبنی علیہ وان یقعد علیہ وقال لا تصلوا الیہا لان ذلک ذریعۃ ان یتخذہا الناس معبودا وان یفر طوا فی تعظمہا بمالیس بحق فیحر فوا دینہم کما فعل اہل الکتاب وہو قولہ صلی اللہ علیہ وسلم لعن اللہ الیھود والنصاریٰ اتخذوا قبور انبیائہم مساجد الخ ( حجۃ اللہ البالغۃ، ج: 2ص:126 کراتشی ) اور قبر کو پختہ کرنے اور اس پر عمارت بنانے اور اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ قبروں کی طرف نماز نہ پڑھو کیونکہ یہ اس بات کا ذریعہ ہے کہ لوگ قبروں کی پرستش کرنے لگیں اور لوگ ان قبروں کی اتنی زیادہ تعظیم کرنے لگیں جس کی وہ مستحق نہیں ہیں۔ پس لوگ اپنے دین میں تحریف کرڈالیں جیسا کہ اہل کتاب نے کیا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہود اور نصاریٰ پر خدا کی لعنت ہو۔ انہوں نے اپنے انبیاءکی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔ پس حق یہ ہے کہ توسط اختیار کرے۔ نہ تو مردہ کی اس قدر تعظیم کرے کہ وہ شرک ہوجائے اور نہ اس کی اہانت اور اس کے ساتھ عداوت کرے کہ مرنے کے بعد اب یہ سارے معاملات ختم کرکے مرنے والا اللہ کے حوالہ ہوچکا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : اگر کسی عورت کا نفاس کی حالت میں انتقال ہوجائے تو اس پر نماز جنازہ پڑھنا

حدیث نمبر : 1331
حدثنا مسدد، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا حسين، حدثنا عبد الله بن بريدة، عن سمرة ـ رضى الله عنه ـ قال صليت وراء النبي صلى الله عليه وسلم على امرأة ماتت في نفاسها، فقام عليها وسطها‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے یزیدین زریع نے‘ ان سے حسین معلم نے‘ ان سے عبداللہ بن بریدہ نے‘ ان سے سمرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداءمیں ایک عورت ( ام کعب ) کی نماز جنازہ پڑھی تھی جس کا نفاس میں انتقال ہوگیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی کمر کے مقابل کھڑے ہوئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : اس بارے میں کہ عورت اور مرد کی نماز جنازہ میں کہاں کھڑا ہوا جائے؟

حدیث نمبر : 1332
حدثنا عمران بن ميسرة، حدثنا عبد الوارث، حدثنا حسين، عن ابن بريدة، حدثنا سمرة بن جندب ـ رضى الله عنه ـ قال صليت وراء النبي صلى الله عليه وسلم على امرأة ماتت في نفاسها فقام عليها وسطها‏.
ہم سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا‘ ان سے حسین نے بیان کیا اور ان سے ابن بریدہ نے کہ ہم سے سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک عورت کی نماز جنازہ پڑھی تھی جس کا زچگی کی حالت میں انتقال ہوگیا تھا۔ آپ اس کے بیچ میں کھڑے ہوئے۔

تشریح : مسنون یہی ہے کہ امام عورت کی کمر کے مقابل کھڑا ہو اور مرد کے سرکے مقابل۔ سنن ابوداؤد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور بتلایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے غالباً ابوداؤد والی روایت کو ضعیف سمجھا اور ترجیح اس کو دی کہ امام مرد اور عورت دونوں کی کمر کے مقابل کھڑا ہو۔ اگرچہ اس حدیث میں صرف عورت کے وسط میں کھڑا ہونے کا ذکر ہے اور یہی مسنون بھی ہے۔ مگر حضرت امام رحمہ اللہ نے باب میں عورت اور مرد دونوں کو یکساں قرار دیا ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں وقد ذہب بعض اہل العلم الی ہذا ای الی ان الامام یقوم حذاءراس الرجل وحذاءعجیزۃ المراۃ وہو قول احمد و اسحاق وہو قول الشافعی وہو الحق وہو روایۃ عن ابی حنیفۃ قال فی الہدایۃ وعن ابی حنیفۃ انہ یقوم من الرجل بحذاءراسہ ومن المراۃ بحذاءوسطہا لان انسا فعل کذالک وقال ہوالسنۃ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں کہ جنازہ کی نماز میں امام مرد میت کے سر کے پاس کھڑا ہو اور عورت کے بدن کے وسط میں کمر کے پاس۔ امام احمد رحمہ اللہ اور اسحق رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی قول ہے اور یہی حق ہے اور ہدایہ میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ امام مرد میت کے سرکے پاس اور عورت کے وسط میں کھڑا ہو اس لیے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا تھا اور فرمایا تھا کہ سنت یہی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : نماز میں چار تکبیریں کہنا

وقال حميد صلى بنا أنس ـ رضى الله عنه ـ فكبر ثلاثا ثم سلم، فقيل له فاستقبل القبلة، ثم كبر الرابعة ثم سلم‏.‏
اور حمید طویل نے بیان کیا کہ ہمیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی تو تین تکبیریں کہیں پھر سلام پھیردیا۔ اس پر انہیں لوگوں نے یاد دہانی کرائی تو دوبارہ قبلہ رخ ہوکر چوتھی تکبیر بھی کہی پھر سلام پھیرا۔

تشریح : اکثر علماءجیسے امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ اور اسحاق رحمہ اللہ اور سفیان ثوری رحمہ اللہ اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کا یہی قول ہے اور سلف کا اس میں اختلاف ہے۔ کسی نے پانچ تکبیریں کہیں‘ کسی نے تین‘ کسی نے سات۔ امام احمد رحمہ اللہ نے کہا کہ چار سے کم نہ ہوں اور سات سے زیادہ نہ ہوں۔ بیہقی نے روایت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جنازہ پر لوگ سات اور چھ اور پانچ اور چار تکبیریں کہا کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چار پر لوگوں کا اتفاق کرادیا ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1333
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نعى النجاشي في اليوم الذي مات فيه، وخرج بهم إلى المصلى فصف بهم، وكبر عليه أربع تكبيرات‏.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی ‘ انہیں ابن شہاب نے‘ انہیں سعید بن مسیب نے‘ انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نجاشی کا جس دن انتقال ہوا اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی وفات کی خبر دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ عید گاہ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صف بندی کرائی اور چار تکبیریں کہیں۔

حدیث نمبر : 1334
حدثنا محمد بن سنان، حدثنا سليم بن حيان، حدثنا سعيد بن ميناء، عن جابر ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى على أصحمة النجاشي فكبر أربعا‏.‏ وقال يزيد بن هارون وعبد الصمد عن سليم أصحمة‏.‏ وتابعه عبد الصمد‏.‏
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سلیم بن حیان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سعید بن میناءنے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحمہ نجاشی کی نماز جنازہ پڑھائی تو چار تکبیریں کہیں۔ یزید بن ہارون واسطی اور عبدالصمد نے سلیم سے اصحمہ نام نقل کیا ہے اور عبدالصمد نے اس کی متابعت کی ہے۔

نجاشی حبش کے ہر بادشاہ کا لقب ہوا کرتا تھا۔ جیسا کہ ہر ملک میں بادشاہوں کے خاص لقب ہوا کرتے ہیں شاہ حبش کا اصل نام اصحمہ تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : نماز جنازہ میں سورئہ فاتحہ پڑھنا ( ضروری ہے )

وقال الحسن يقرأ على الطفل بفاتحة الكتاب ويقول اللهم اجعله لنا فرطا وسلفا وأجرا‏.
اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ بچے کی نماز جنازہ میں پہلے سورئہ فاتحہ پڑھی جائے پھر یہ دعا پڑھی جائے اللہم اجعلہ لنا فرطا وسلفا واجرا یا اللہ! اس بچے کو ہمارا امیر سامان کردے اور آگے چلنے والا‘ ثواب دلانے والا۔

حدیث نمبر : 1335
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن سعد، عن طلحة، قال صليت خلف ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ‏.‏ حدثنا محمد بن كثير، أخبرنا سفيان، عن سعد بن إبراهيم، عن طلحة بن عبد الله بن عوف، قال صليت خلف ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ على جنازة فقرأ بفاتحة الكتاب قال ليعلموا أنها سنة‏.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے غندر ( محمد بن جعفر ) نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ ان سے سعد بن ابراہیم نے اور ان سے طلحہ نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اقتداءمیں نماز ( جنازہ ) پڑھی ( دوسری سند ) ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں سفیان ثوری نے خبر دی ‘ انہیں سعد بن ابراہیم نے‘ انہیں طلحہ بن عبداللہ بن عوف نے‘ انہوں نے بتلایا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے سورئہ فاتحہ ( ذرا پکار کر ) پڑھی۔ پھر فرمایا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہی طریقہ نبوی ہے۔

تشریح : جنازہ کی نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنی ایسی ہی واجب ہے جیسا کہ دوسری نمازوں میں کیونکہ حدیث لا صلوٰۃ لمن لم یقرا بفاتحۃ الکتاب ہر نماز کو شامل ہے۔

اس کی تفصیل حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے لفظوں میں یہ ہے۔ والحق والصواب ان قراۃ الفاتحۃ فی صلوٰۃ الجنازۃ واجبۃ کما ذہب الیہ الشافعی واحمد واسحاق وغیرہم لانہم اجمعواعلی انہا صلوٰۃ وقد ثبت حدیث لا صلوٰۃ الا بفاتحۃ الکتاب فہی داخلۃ تحت العموم واخراجہا منہ یحتاج الی دلیل ولا نہا صلوٰۃ یجب فیہا القیام فوجبت فیہا القراۃ کسائر الصلوات ولانہ وردالامر بقراتہا فقدروی ابن ماجۃ باسناد فیہ ضعف یسیر عن ام شریک قالت امرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان نقراءعلی میتنا بفاتحۃ الکتاب وروی الطبرانی فی الکبیر من حدیث ام عفیف قالب امرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان نقرا علی میتنا بفاتحۃ الکتاب قال الہیثمی وفیہ عبدالمنعم ابوسعید وہو ضعیف انتہی۔

والا مر من ادلۃ الوجوب وروی الطبرانی فی الکبیر ایضا من حدیث اسماءبنت یزید قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا صلیتم علی الجنازۃ فاقر ؤا بفاتحۃ الکتاب قال الہیثمی وفیہ معلیٰ بن حمران ولم اجد من ذکرہ وبقیۃ رجالہ موثقون وفی بعضہم کلام ہذا وقد صنف حسن الشر نبلانی من متاخری الحنفیۃ فی ہذہ المسئلۃ رسالۃ اسمہا النظم المستطاب لحکم القراءۃ فی صلوٰۃ الجنازۃ ام الکتاب وحقق فیہا ان القراءۃ اولیٰ من ترک القراءۃ ولا دلیل علی الکراہۃ وہوالذی اختارہ الشیخ عبدالحی اللکہنوی فی تصانیفہ لعمدۃ الرعایۃ والتعلیق الممجد وامام الکلام ثم انہ استدل بحدیث ابن عباس علی الجہر بالقراءۃ فی الصلوٰۃ علی الجنازۃ لا نہ یدل علی انہ جہر بہا حتی سمع ذالک من صلی معہ واصرح من ذلک ماذکر ناہ من روایۃ النسائی بلفظ صلیت خلف ابن عباس علی جنازۃ فقرا بفاتحۃ الکتاب وسورۃ وجہر حتی اسمعنا فلما فرغ اخذت بیدہ فسالتہ فقال سنۃ وحق وفی روایۃ اخریٰ لہ ایضا صلیت خلف ابن عباس علی جنازۃ فسمعتہ یقرا بفاتحۃ الکتاب الخ ویدل علی الجہر بالدعاءحدیث عوف بن مالک الاتی فان الظاہر انہ حفظ الدعاءالمذکور لما جہربہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی الصلوٰہ علی الجنازۃ اصرح منہ حدیث واثلۃ فی الفصل الثانی۔

واختلف العلماءفی ذلک فذہب بعضہم الی انہ یستحب الجہر بالقراءۃ والدعاءفیہا واستدلوا بالروایات التی ذکرناہا انفا و ذہب الجمہور الی انہ لا یندب الجہربل یندب الاسرار قال ابن قدامۃ ویسر القراءۃوالدعاءفی صلوٰۃ الجنازۃ لا نعلم بین اہل العلم فیہ خلا فا انتہی۔
واستدلوا لذلک بما ذکرنا من حدیث ابی امامۃ قال السنۃ فی الصلوٰۃ علی الجنازۃ ان یقرا فی التکبیرۃ الاولیٰ بام القرآن مخافتۃ لحدیث اخرجہ النسائی ومن طریقہ ابن حزم فی المحلیٰ ( ص:129ج:5 ) قال النووی فی شرح المہذب رواہ النسائی باسناد علی شرط الصحیحین وقال ابوامامۃ ہذا صحابی انتہی وبما روی الشافعی فی الام ( ص:239ج:1 والبیہقی ص:39ج:4 ) من طریقہ عن مطرف بن مازن عن معمرعن الزہری قال اخبرنی ابوامامۃ بن سہل انہ اخبرہ رجل من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان السنۃ فی الصلوۃ علی الجنازہ ان یکبر الامام ثم یقرا بفاتحۃ الکتاب بعدالتکبیرۃ الاولیٰ سرا فی نفسہ الحدیث وضعفت ہذہ الروایۃ بمطرف لکن قواہا البیہقی بمارواہ فی المعرفۃ والسنن من طریق عبیداللہ بن ابی زیاد الرصا فی عن الزہری بمعنی روایۃ مطرف وبما روی الحاکم ( ص:359،ج:1 ) والبیہقی من طریقہ ( ص:42ج:4 ) عن شرحبیل بن سعدقال حضرت عبداللہ بن مسعود صلی علی جنازۃ بالابواءفکبر ثم قرا بام القرآن رافعاً صوتہ بہا ثم صلی علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ثم قال اللہم عبدک وابن عبدک الحدیث وفی آخرہ ثم انصرف فقال یا ایہا الناس انی لم اقرا علنا ( ای جہرا ) الا لتعلموا انہا سنۃ قال الحافظ فی الفتح وشرحبیل مختلف فی توثیقہ انتہی۔

واخرج ابن الجارود فی المنتقیٰ من طریق زید بن طلحۃ التیمی قال سمعت ابن عباس قرا علی جنازۃ فاتحۃ الکتاب وسورۃ وجہر بالقراءۃ وقال انما جہرت لاعلمکم انہا سنۃ۔

وذہب بعضہم الی انہ یخیربین الجہر والاسرار وقال بعض اصحاب الشافعی انہ یجہر باللیل کاللیلۃ ویسربالنہار۔ قال شیخنا فی شرح الترمذی قول ابن عباس انما جہرت لتعلموا انہا سنۃ یدل علی ان جہرہ کان للتعلیم ای لالبیان ان الجہر بالقراءۃ سنۃ قال واما قول بعض اصحاب الشافعی یجہر باللیل کاللیلۃ فلم اقف علی روایۃ تدل علی ہذا انتہی۔ وہذا یدل علی ان الشیخ مال الی قول الجمہور ان الاسرار بالقرا ءۃ مندوب ہذا وروایۃ ابن عباس عندالنسائی بلفظ فقرا بفاتحۃ الکتاب وسورۃ تدل علی مشروعیۃ قرا ءۃ سورۃ مع الفاتحۃ فی الصلوٰۃ الجنازۃ قال الشوکانی لامحیص عن المصیر الی ذلک لانہا زیادۃ خارجۃ من مخرج صحیح قلت ویدل علیہ ایضا ما ذکرہ ابن حزم فی المحلیّٰ ( ص:129ج:5 ) معلقا عن محمدبن عمروبن عطاءان المسور بن مخرمۃ صلی علی الجنازۃ فقرا فی التکبیر الاولیٰ بفاتحۃ الکتاب وسورۃ قصیرۃ رفع بہاصوتہ فلما فرغ قال لا اجہل ان تکون ہذہ الصلوۃ عجماءولکن اردت ان اعلمکم ان فیہا قرا ءۃ۔
( مرعاۃ المفاتیح، ج:2ص:478 )
حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ مبارک پوری رحمہ اللہ کے اس طویل بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ جنازہ میں پڑھنی واجب ہے جیسا کہ امام شافعی اور احمد اور اسحاق وغیر ہم کا مذہب ہے۔ ان سب کا اجماع ہے کہ سورۃ فاتحہ ہی نماز ہے اور حدیث میں موجود ہے کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ پس نماز جنازہ بھی اسی عموم کے تحت داخل ہے اور اسے اس عموم سے خارج کرنے کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے اور یہ بھی کہ جنازہ ایک نماز ہے جس میں قیام واجب ہے۔ پس دیگر نمازوں کی طرح اس میں بھی قرات واجب ہے اور اس لیے بھی کہ اس کی قرات کا صریح حکم موجود ہے۔ جیسا کہ ابن ماجہ میں ام شریک سے مروی ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ اگرچہ اس حدیث کی سند میں کچھ ضعف ہے مگر دیگر دلائل وشواہد کی بناپر اس سے استدلال درست ہے اور طبرانی میں بھی ام عفیف سے ایسا ہی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جمازہ کی نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم فرمایا اور امرو جوب کے لیے ہوتا ہے۔ طبرانی میں اسماءبنت یزید سے بھی ایسا ہی مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم جنازہ پر نماز پڑھو تو سورۃ فاتحہ پڑھا کرو۔
متاخرین حنفیہ میں ایک مولانا حسن شرنبلانی مرحوم نے اس مسئلہ پر ایک رسالہ بنام النظم المستطاب لحکم القراءۃ فی صلوٰۃ الجنازۃ بام الکتاب کہا ہے۔ جس میں ثابت کیا ہے کہ جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا نہ پڑھنے سے بہتر ہے اور اس کی کراہیت پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ ایسا ہی مولانا عبدالحی لکھنؤی رحمہ اللہ نے اپنی تصانیف عمدۃ الرعایہ اور تعلیق الممجد اور امام الکلام وغیرہ میں لکھا ہے۔
پھر حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کے جہر پر دلیل پکڑی گئی ہے کہ وہ حدیث صاف دلیل ہے کہ انہوں نے اسے بالجہر پڑھا۔ یہاں تک کہ مقتدیوں نے اسے سنا اور اس سے بھی زیادہ صریح دلیل وہ ہے جسے نسائی نے روایت کیاہے۔ راوی کا بیان ہے کہ میں نے ایک جنازہ کی نماز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے پڑھی۔ آپ نے سورۃ فاتحہ اور ایک سورۃ کو جہر کے ساتھ ہم کو سنا کر پڑھا۔ جب آپ فارغ ہوئے تو میں نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر یہ مسئلہ آپ سے پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ بے شک یہی سنت اور حق ہے اور جنازہ کی دعاؤں کو جہر سے پڑھنے پر عوف بن مالک کی حدیث دلیل ہے۔ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آپ کے بلند آواز سے پڑھنے پر سن سن کر ان دعاؤں کو حفظ ویاد کرلیا تھا اور اس سے بھی زیادہ صریح واثلہ کی حدیث ہے۔
اور علماءکا اس بارے میں اختلاف ہے۔ بعض نے روایات مذکورہ کی بناپر جہر کو مستحب مانا ہے جیسا کہ ہم نے ابھی اس کا ذکر کیا ہے۔ جمہور نے آہستہ پڑھنے کو مستحب گردانا ہے۔ جمہور کی دلیل حدیث امامہ ہے جس میں آہستہ پڑھنے کو سنت بتایا گیا ہے اخرجہ النسائی۔ علامہ ابن حزم نے محلّٰی میں اور امام شافعی نے کتاب الام میں اور بیہقی وغیرہ نے بھی روایت کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے فرمایا کہ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ آہستہ پڑھی جائے۔
شرحبیل بن سعد کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پیچھے ایک جنازہ میں بمقام ابواءشریک ہوا۔ آپ نے سورۃ فاتحہ اور درود اور دعاؤں کو بلند آواز سے پڑھا پھر فرمایا کہ میں جہر سے نہ پڑھتا مگر اس لیے پڑھا تاکہ تم جان لو کہ یہ سنت ہے۔
اور منتقی ابن جارود میں ہے کہ زید بن طلحہ تیمی نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے ایک جنازہ کی نماز پڑھی جس میں انہوں نے سورۃ فاتحہ اور ایک سورت کو بلند آواز سے پڑھا اور بعد میں فرمایا کہ میں نے اس لیے جہر کیا ہے تاکہ تم کو سکھلاؤں کہ یہ سنت ہے۔
بعض علماءکہتے ہیں کہ جہر اور سرہردو کے لیے اختیار ہے۔ بعض شافعی حضرات نے کہا کہ رات کو جنازہ میں جہر اور دن میں سر کے ساتھ پڑھا جائے۔ ہمارے شیخ مولانا عبدالرحمن مبارک پوری رحمتہ اللہ علیہ قول جمہور کی طرف ہیں اور فرماتے ہیں کہ قرات آہستہ ہی مستحب ہے اور نسائی والی روایات عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما میں دلیل ہے کہ جنازہ میں سورۃ فاتحہ مع ایک سورۃ کے پڑھنا مشروع ہے۔ مسور بن مخرمہ نے ایک جنازہ میں پہلی تکبیر میں سورۃ فاتحہ اور ایک مختصر سی سورت پڑھی۔ پھر فرمایا کہ میں نے قرات جہر سے اس لیے کی ہے کہ تم جان لو کہ اس نماز میں بھی قرات ہے اور یہ نماز گونگی ( بغیر قرات والی ) نہیں ہے۔ انتہی مختصرا
خلاصتہ المرام یہ کہ جنازہ میں سورہ فاتحہ مع ایک سورۃ کے پڑھنا ضروری ہے۔ حضرت قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب مالا بدمنہ میں اپنا وصیت نامہ بھی درج فرمایا ہے۔ جس میں آپ فرماتے ہیں کہ میرا جنازہ وہ شخص پڑھائے جو اس میں سورہ فاتحہ پڑھے۔ پس ثابت ہوا کہ جملہ اہل حق کا یہی مختار مسلک ہے۔

علمائے احناف کا فتوی!
فاضل محترم صاحب تفہیم البخاری نے اس موقع پر فرمایا ہے کہ حنفیہ کے نزدیک بھی نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنی جائز ہے۔ جب دوسری دعاؤں سے اس میں جامعیت بھی زیادہ ہے تو اس کے پڑھنے میں حرج کیا ہوسکتا ہے۔ البتہ دعا اور ثناءکی نیت سے اسے پڑھنا چاہئے قرات کی نیت سے نہیں۔ ( تفہیم البخاری‘ پ5 ص:122 )
فاضل موصوف نے آخر میں جو کچھ ارشاد فرمایا ہے وہ صحیح نہیں جب کہ سابقہ روایات مذکورہ میں اسے قرات کے طور پر پڑھنا ثابت ہے۔ پس اس فرق کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ بہر حال خدا کرے ہمارے محترم حنفی بھائی جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنی شروع فرمادیں یہ بھی ایک نیک اقدام ہوگا۔
روایات بالا میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے جو یہ فرمایا کہ یہ سنت اور حق ہے اس کی وضاحت حضرت مولانا شیخ الحدیث مدظلہ العالی نے یوں فرمائی ہے۔
والمراد بالسنۃ الطریقۃ المالوفۃ عنہ صص لا مایقابل الفریضۃ فانہ اصطلاح عرفی حادث فقال الاشرف الضمیر المونث لقراءۃ الفاتحۃ ولیس المراد بالسنۃ انہا لیست بواجبۃ بل مایقابل البدعۃ ای انہا طریقۃ مرویۃ وقال القسطلانی انہا ای قراءۃ الفاتحۃ فی الجنازۃ سنۃ ای طریقۃ الشارع فلا ینا فی کونہا واجبۃ وقد علم ان قول الصحابی من السنۃ کذا حدیث مرفوع عند الاکثر قال الشافعی فی الام واصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا یقولون السنۃ الالسنۃ رسول اللہ علیہ وسلم ان شاءاللہ تعالیٰ انتہٰی ( مرعاۃ المفاتیح، ص:477 ) یعنی یہاں لفظ سنت سے طریقہ مالوفہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہے نہ وہ سنت جو فرض کے مقابلہ پر ہوتی ہے۔ یہ ایک عرفی اصطلاح استعمال کی گئی ہے یہ مراد نہیں کہ یہ واجب نہیں ہے بلکہ وہ سنت مراد ہے جو بدعت کے مقابلہ پر بولی جاتی ہے۔ یعنی یہ طریقہ مرویہ ہے اور قسطلانی نے کہا کہ جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنی سنت ہے یعنی شارع کا طریقہ ہے اور یہ واجب ہونے کے منافی نہیں ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے کتاب الام میں فرمایا ہے کہ صحابہ کرام لفظ سنت کا استعمال سنت یعنی طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے تھے۔ اقوال صحابہ میں حدیث مرفوع پر بھی سنت کا لفظ بولا گیا ہے۔ بہرحال یہاں سنت سے مراد یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ نماز میں پڑھنا طریقہ نبوی ہے اور یہ واجب ہے کہ اس کے پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی جیسا کہ تفصیل بالا میں بیان کیا گیا ہے۔
 
Top