• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : مردہ کو دفن کرنے کے بعد قبر پر نماز جنازہ پڑھنا

حدیث نمبر : 1336
حدثنا حجاج بن منهال، حدثنا شعبة، قال حدثني سليمان الشيباني، قال سمعت الشعبي، قال أخبرني من، مر مع النبي صلى الله عليه وسلم على قبر منبوذ فأمهم وصلوا خلفه‏.‏ قلت من حدثك هذا يا أبا عمرو قال ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ‏.‏
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھ سے سلیمان شیبانی نے بیان کیا‘ کہا کہ میں نے شعبی سے سنا‘ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے اس صحابی نے خبر دی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک الگ تھلگ قبر سے گزرے تھے۔ قبر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم امام بنے اور صحابہ نے آپ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی۔ شیبانی نے کہا کہ میں نے شعبی سے پوچھا کہ ابو عمرو! یہ آپ سے کس صحابی نے بیان کیا تھا تو انہوں نے بتلایا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے۔

حدیث نمبر : 1337
حدثنا محمد بن الفضل، حدثنا حماد بن زيد، عن ثابت، عن أبي رافع، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن أسود ـ رجلا أو امرأة ـ كان يقم المسجد فمات، ولم يعلم النبي صلى الله عليه وسلم بموته فذكره ذات يوم فقال ‏"‏ ما فعل ذلك الإنسان‏"‏‏. ‏ قالوا مات يا رسول الله‏.‏ قال ‏"‏ أفلا آذنتموني‏"‏‏. ‏ فقالوا إنه كان كذا وكذا قصته‏.‏ قال فحقروا شأنه‏.‏ قال ‏"‏ فدلوني على قبره‏"‏‏. ‏ فأتى قبره فصلى عليه‏.‏
ہم سے محمد بن فضل نے کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا‘ ان سے ثابت نے بیان کیا‘ ان سے ابو رافع نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ کالے رنگ کا ایک مرد یا ایک کالی عورت مسجد کی خدمت کیا کرتی تھیں‘ ان کی وفات ہوگئی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی وفات کی خبر کسی نے نہیں دی۔ ایک دن آپ نے خود یاد فرمایا کہ وہ شخص دکھائی نہیں دیتا۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! ان کا تو انتقال ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم نے مجھے خبر کیوں نہیں دی؟ صحابہ نے عرض کی کہ یہ وجوہ تھیں ( اس لیے آپ کو تکلیف نہیں دی گئی ) گویا لوگوں نے ان کو حقیر جان کر قابل توجہ نہیں سمجھا لیکن آپ نے فرمایا کہ چلو مجھے ان کی قبر بتادو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبر پر تشریف لائے اور اس پر نماز جنازہ پڑھی۔

تشریح : یہ کالا مرد یا کالی عورت مسجد نبوی کی جاروب کش بڑے بڑے بادشاہان ہفت اقلیم سے اللہ کے نزدیک مرتبہ اور درجہ میں زائد تھی۔ حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈھونڈ کر اس کی قبر پر نماز پڑھی۔ واہ رے قسمت! آپ کی کفش برداری اگر ہم کو بہشت میں نصیب ہوجائے تو ایسی دنیا کی لاکھوں سلطنتیں اس پر تصدق کردیں ( وحیدی )

حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اس سے ثابت فرمایا کہ اگر کسی مسلمان مرد یا عورت کا جنازہ نہ پڑھا گیا ہو تو قبر پر دفن کرنے کے بعد بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ بعض نے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص بتلایا ہے مگر یہ دعویٰ بے دلیل ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : اس بیان میں کہ مردہ لوٹ کر جانے والوں کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔

یہاں سے یہ نکلا کہ قبرستان میں جوتے پہن کر جانا جائز ہے۔ ابن منیر نے کہا کہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے یہ باب اس لیے قائم کیا کہ دفن کے آداب کا لحاظ رکھیں اور شوروغل اور زمین پر زور زور سے چلنے سے پرہیز کریں جیسے زندہ سوتے آدمی کے ساتھ کرتا ہے۔

حدیث نمبر : 1338
حدثنا عياش، حدثنا عبد الأعلى، حدثنا سعيد، قال وقال لي خليفة حدثنا ابن زريع، حدثنا سعيد، عن قتادة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ العبد إذا وضع في قبره، وتولي وذهب أصحابه حتى إنه ليسمع قرع نعالهم، أتاه ملكان فأقعداه فيقولان له ما كنت تقول في هذا الرجل محمد صلى الله عليه وسلم فيقول أشهد أنه عبد الله ورسوله‏.‏ فيقال انظر إلى مقعدك من النار، أبدلك الله به مقعدا من الجنة ـ قال النبي صلى الله عليه وسلم فيراهما جميعا ـ وأما الكافر ـ أو المنافق ـ فيقول لا أدري، كنت أقول ما يقول الناس‏.‏ فيقال لا دريت ولا تليت‏.‏ ثم يضرب بمطرقة من حديد ضربة بين أذنيه، فيصيح صيحة يسمعها من يليه إلا الثقلين‏"‏‏.
ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا۔ ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا‘ ان سے یزید بن زریع نے‘ ان سے سعید بن ابی عروبہ نے‘ ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور دفن کرکے اس کے لوگ باگ پیٹھ موڑ کر رخصت ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ پھر دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس شخص ( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے متعلق تمہارا کیا اعتقاد ہے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس جواب پر اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ دیکھ جہنم کا اپنا ایک ٹھکانا لیکن اللہ تعالیٰ نے جنت میں تیرے لیے ایک مکان اس کے بدلے میں بنا دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اس بندہ مومن کو جنت اور جہنم دونوں دکھائی جاتی ہیں اور رہا کافریا منافق تو اس کا جواب یہ ہوتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں‘ میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا تھا وہی میں بھی کہتا رہا۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ نہ تونے کچھ سمجھا اور نہ ( اچھے لوگوں کی ) پیروی کی۔ اس کے بعد اسے ایک لوہے کے ہتھوڑے سے بڑے زور سے مارا جاتا ہے اور وہ اتنے بھیانک طریقہ سے چیختا ہے کہ انسان اور جن کے سوا اردگرد کی تمام مخلوق سنتی ہے۔

تشریح : اس حدیث سے یہ نکلا کہ ہر شخص کے لیے دو دو ٹھکانے بنے ہیں‘ ایک جنت میں اور ایک دوزخ میں اور یہ قرآن شریف سے بھی ثابت ہے کہ کافروں کے ٹھکانے جو جنت میں ہیں ان کے دوزخ میں جانے کی وجہ سے ان ٹھکانوں کو ایماندار لے لیں گے۔

قبر میں تین باتوں کا سوال ہوتا ہے من ربک تیرا رب کون ہے؟ مومن جواب دیتاہے ربی اللہ میرا رب اللہ ہے پھر سوال ہوتا ہے ومادینک تیرا دین کیا تھا‘ مومن کہتا ہے دینی الاسلام میرا دین اسلام تھا۔ پھر پوچھا جاتا ہے کہ تیرا نبی کون ہے؟ وہ بولتا ہے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرے نبی رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ان جوابات پر اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور کافر اور منافق ہر سوال کے جواب میں یہی کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ جیسا لوگ کہتے رہتے تھے میں بھی کہہ دیا کرتا تھا۔ میرا کوئی دین مذہب نہ تھا۔ اس پر اس کے لیے دوزخ کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔

لم لادریت ولم لا تلیت کے ذیل مولانا وحیدالزماں مرحوم فرماتے ہیں۔ یعنی نہ مجتہد ہوا نہ مقلد اگر کوئی اعتراض کرے کہ مقلد تو ہوا کیونکہ اس نے پہلے کہا کہ لوگ جیسا کہتے تھے میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تقلید کچھ کام کی نہیں کہ سنے سنائے پر ہر شخص عمل کرنے لگا۔ بلکہ تقلید کے لیے بھی غور لازم ہے کہ جس شخص کے ہم مقلد بنتے ہیں آیا وہ لائق اور فاضل اور سمجھ دار تھا یا نہیں اور دین کا علم اس کو تھا یا نہیں۔ سب باتیں بخوبی تحقیق کرنی ضروری ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : جو شخص ارض مقدس یا ایسی ہی کسی برکت والی جگہ دفن ہونے کا آرزو مند ہو

حدیث نمبر : 1339
حدثنا محمود، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن ابن طاوس، عن أبيه، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال ‏"‏ أرسل ملك الموت إلى موسى ـ عليهما السلام ـ فلما جاءه صكه فرجع إلى ربه فقال أرسلتني إلى عبد لا يريد الموت‏.‏ فرد الله عليه عينه وقال ارجع فقل له يضع يده على متن ثور، فله بكل ما غطت به يده بكل شعرة سنة‏.‏ قال أى رب، ثم ماذا قال ثم الموت‏.‏ قال فالآن‏.‏ فسأل الله أن يدنيه من الأرض المقدسة رمية بحجر‏"‏‏. ‏ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ فلو كنت ثم لأريتكم قبره إلى جانب الطريق عند الكثيب الأحمر‏"‏‏. ‏
ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں عبداللہ بن طاؤس نے‘ انہیں ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ملک الموت ( آدمی کی شکل میں ) موسی علیہ السلام کے پاس بھیجے گئے۔ وہ جب آئے تو موسیٰ علیہ السلام نے ( نہ پہچان کر ) انہیں ایک زور کا طمانچہ مارا اور ان کی آنکھ پھوڑ ڈالی۔ وہ واپس اپنے رب کے حضور میں پہنچے اور عرض کیا کہ یا اللہ تو نے مجھے ایسے بندے کی طرف بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھ پہلے کی طرح کردی اور فرمایا کہ دوبارہ جا اور ان سے کہہ کہ آپ اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھئے اور پیٹھ کے جتنے بال آپ کے ہاتھ تلے آجائیں ان کے ہر بال کے بدلے ایک سال کی زندگی دی جاتی ہے۔ ( موسیٰ علیہ السلام تک جب اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام پہنچا تو ) آپ نے کہا کہ اے اللہ! پھر کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر بھی موت آنی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام بولے تو ابھی کیوں نہ آجائے۔ پھر انہوں نے اللہ سے دعا کی کہ انہیں ایک پتھر کی مار پر ارض مقدس سے قریب کردیا جائے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں وہاں ہوتا تو تمہیں ان کی قبر دکھاتا کہ لال ٹیلے کے پاس راستے کے قریب ہے۔

بیت المقدس ہویا مکہ مدینہ ایسے مبارک مقامات میں دفن ہونے کی آرزو کرنا جائز ہے۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا مقصد باب یہی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : رات میں دفن کرنا کیسا ہے؟ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رات میں دفن کئے گئے۔

حدیث نمبر : 1340
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا جرير، عن الشيباني، عن الشعبي، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال صلى النبي صلى الله عليه وسلم على رجل بعد ما دفن بليلة قام هو وأصحابه، وكان سأل عنه فقال ‏"‏ من هذا‏"‏‏. ‏ فقالوا فلان، دفن البارحة‏.‏ فصلوا عليه‏.‏
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا‘ ان سے شیبانی نے‘ ان سے شعبی نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کی نماز جنازہ پڑھی جن کا انتقال رات میں ہوگیا تھا ( اور اسے رات ہی میں دفن کردیا گیا تھا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق پوچھا تھا کہ یہ کن کی قبر ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ فلاں کی ہے جسے کل رات ہی دفن کیا گیا ہے۔ پھر سب نے ( دوسرے روز ) نماز جنازہ پڑھی۔

معلوم ہوا کہ رات کو دفن کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ بلکہ بہتر یہی ہے کہ رات ہو یا دن مرنے والے کے کفن دفن میں دیرنہ کی جائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : قبروں پر مسجد تعمیر کرنا کیسا ہے؟

حدیث نمبر : 1341
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت لما اشتكى النبي صلى الله عليه وسلم ذكرت بعض نسائه كنيسة رأينها بأرض الحبشة، يقال لها مارية، وكانت أم سلمة وأم حبيبة ـ رضى الله عنهما ـ أتتا أرض الحبشة، فذكرتا من حسنها وتصاوير فيها، فرفع رأسه فقال ‏"‏ أولئك إذا مات منهم الرجل الصالح بنوا على قبره مسجدا، ثم صوروا فيه تلك الصورة، أولئك شرار الخلق عند الله‏"‏‏. ‏
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا‘ کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا‘ ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے ان کے باپ نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پڑے تو آپ کی بعض بیویوں ( ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ) نے ایک گرجے کا ذکر کیا جسے انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا جس کا نام ماریہ تھا۔ ام سلمہ اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہا دونوں حبش کے ملک میں گئی تھیں۔ انہوں نے اس کی خوبصورتی اور اس میں رکھی ہوئی تصاویر کا بھی ذکر کیا۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سرمبارک اٹھاکر فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان میں کوئی صالح شخص مرجاتا تو اس کی قبر پر مسجد تعمیر کردیتے۔ پھر اس کی مورت اس میں رکھتے۔ اللہ کے نزدیک یہ لوگ ساری مخلوق میں برے ہیں۔

تشریح : امام قسطلانی فرماتے ہیں: قال القرطبی انما صوروا اوائلہم الصور لیتانسوا بہا ویتذکروا افعالہم الصالحۃ فیجتہدون کاجتہادہم ویعبدون اللہ عند قبورہم ثم خلفہم قوم جہلوا مرادہم ووسوس لہم الشیطان ان اسلافکم کانو یعبدون ہذہ الصورو یعظمونہا فحذر النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن مثل ذلک سداللذریعۃ المودیۃ الی ذلک بقولہ اولئک شرارالخلق عنداللہ وموضع الترجمۃ بنوا علی قبرہ مسجدا وہو مول علی مذمۃ من اتخذ القبر مسجدا ومقتضاہ التحریم لا سیما وقد ثبت اللعن علیہ یعنی قرطبی نے کہا کہ بنواسرائیل نے شروع میں اپنے بزرگوں کے بت بنائے تاکہ ان سے انس حاصل کریں اور ان کے نیک کاموں کو یاد کر کرکے خود بھی ایسے ہی نیک کام کریں اور ان کی قبروں کے پاس بیٹھ کر عبادت الٰہی کریں۔ پیچھے اور بھی زیادہ جاہل لوگ پیدا ہوئے۔ جنہوں نے اس مقصد کو فراموش کردیا اور ان کو شیطان نے وسوسوں میں ڈالا کہ تمہارے اسلاف ان ہی مورتوں کو پوجتے تھے اور انہی کی تعظیم کرتے تھے۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی شرک کا سدباب کرنے کے لیے سختی کے ساتھ ڈرایا اور فرمایا کہ اللہ کے نزدیک یہی لوگ بدترین مخلوق ہیں۔ اور ترجمۃ الباب لفظ حدیث بنو اعلی قبرہ مسجدا سے ثابت ہوتا ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی مذمت کی جو قبر کو مسجد بنالے۔ اس سے اس فعل کی حرمت بھی ثابت ہوتی ہے اور ایسا کرنے پر لعنت بھی دارد ہوئی ہے۔

حضرت نوع علیہ السلام کی قوم نے بھی شروع شروع میں اسی طرح اپنے بزرگوں کے بت بنائے‘ بعد میں پھر ان بتوں ہی کو خدا کا درجہ دے دیاگیا۔ عموماً جملہ بت پرست اقوام کا یہی حال ہے۔ جب کہ وہ خود کہتے بھی ہیں کہ مَانَعبُدُہُم اِلاَّ لِیُقَرِّبُونَا اِلَی اللّٰہِ رُلفٰی ( الزمر:3 ) یعنی ہم ان بتوں کو محض اس لیے پوجتے ہیں کہ یہ ہم کو اللہ سے قریب کردیں۔ باقی یہ معبود نہیں ہیں یہ تو ہمارے لیے وسیلہ ہیں۔ اللہ پاک نے مشرکین کے اس خیال باطل کی تردید میں قرآن کریم کا بیشتر حصہ نازل فرمایا۔

صد افسوس! کہ کسی نہ کسی شکل میں بہت سے مدعیان اسلام میں بھی اس قسم کا شرک داخل ہوگیا ہے۔ حالانکہ شرک اکبر ہویا اصغر اس کے مرتکب پر جنت ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔ مگر اس صورت میں کہ وہ مرنے سے پہلے اس سے تائب ہوکر خالص خدا پرست بن جائے۔ اللہ پاک ہر قسم کے شرک سے بچائے۔ آمین
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : عورت کی قبر میں کون اترے؟

حدیث نمبر : 1342
حدثنا محمد بن سنان، حدثنا فليح بن سليمان، حدثنا هلال بن علي، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال شهدنا بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ورسول الله صلى الله عليه وسلم جالس على القبر، فرأيت عينيه تدمعان فقال ‏"‏ هل فيكم من أحد لم يقارف الليلة‏"‏‏. ‏ فقال أبو طلحة أنا‏.‏ قال ‏"‏ فانزل في قبرها‏"‏‏. ‏ فنزل في قبرها فقبرها‏.‏ قال ابن المبارك قال فليح أراه يعني الذنب‏.‏ قال أبو عبد الله ‏{‏ليقترفوا‏}‏ أى ليكتسبوا‏.‏
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا‘ ان سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا‘ ان سے ہلال بن علی نے بیان کیا‘ ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کے جنازہ میں حاضر تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم قبر پر بیٹھے ہوئے تھے‘ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ آپ نے پوچھا کہ کیاایسا آدمی بھی کوئی یہاں ہے جو آج رات کو عورت کے پاس نہ گیا ہو۔ اس پر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بولے کہ میں حاضر ہوں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم قبر میں اُتر جاؤ۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ اُتر گئے اور میت کو دفن کیا۔ عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا کہ فلیح نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ﴿ لم یقارف ﴾ کا معنی یہ ہے کہ جس نے گناہ نہ کیا ہو۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے کہا کہ سورئہ انعام میں جو ﴿ لیقترفوا ﴾ آیا ہے اس کا معنی یہی ہے تاکہ گناہ کریں۔

ایک بات عجیب مشہور ہوگئی ہے کہ موت کے بعد شوہر بیوی کے لیے ایک اجنبی اور عام آدمی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا‘ یہ انتہائی لغو اور غلط تصور ہے۔ اسلام میں شوہر اور بیوی کا تعلق اتنا معمولی نہیں کہ وہ مرنے کے بعد ختم ہوجائے اور مرد عورت کے لیے اجنبی بن جائے۔ پس عورت کے جنازے کو خود اس کا خاوند بھی اتار سکتا ہے اور حسب ضرورت دوسرے لوگ بھی جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہوا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : شہید کی نماز جنازہ پڑھیں یا نہیں؟

حدیث نمبر : 1343
حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، قال حدثني ابن شهاب، عن عبد الرحمن بن كعب بن مالك، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يجمع بين الرجلين من قتلى أحد في ثوب واحد ثم يقول ‏"‏ أيهم أكثر أخذا للقرآن‏"‏‏. ‏ فإذا أشير له إلى أحدهما قدمه في اللحد وقال ‏"‏ أنا شهيد على هؤلاء يوم القيامة‏"‏‏. ‏ وأمر بدفنهم في دمائهم، ولم يغسلوا ولم يصل عليهم‏.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن شہاب نے بیان کیا‘ ان سے عبدالرحمن بن کعب بن مالک نے‘ ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دو دو شہیدوں کو ملا کر ایک ہی کپڑے کا کفن دیا۔ آپ دریافت فرماتے کہ ان میں قرآن کسے زیادہ یاد ہے۔ کسی ایک کی طرف اشارہ سے بتایا جاتا تو آپ بغلی قبر میں اسی کو آگے کرتے اور فرماتے کہ میں قیامت میں ان کے حق میں شہادت دوں گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو ان کے خون سمیت دفن کرنے کا حکم دیا۔ نہ انہیں غسل دیا گیا اور نہ ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی۔

حدیث نمبر : 1344
حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، حدثني يزيد بن أبي حبيب، عن أبي الخير، عن عقبة بن عامر، أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج يوما فصلى على أهل أحد صلاته على الميت، ثم انصرف إلى المنبر فقال ‏"‏ إني فرط لكم، وأنا شهيد عليكم، وإني والله لأنظر إلى حوضي الآن، وإني أعطيت مفاتيح خزائن الأرض ـ أو مفاتيح الأرض ـ وإني والله ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي، ولكن أخاف عليكم أن تنافسوا فيها‏"‏‏.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے یزیدبن ابی حبیب نے بیان کیا‘ ان سے ابوالخیر یزیدبن عبداللہ نے‘ ان سے عقبہ بن عامرنے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور احد کے شہیدوں پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھی جاتی ہے۔ پھر منبر پر تشریف لائے اور فرمایا۔ دیکھو میں تم سے پہلے جاکر تمہارے لیے میر سامان بنوں گا اور میں تم پر گواہ رہوں گا۔ اور قسم اللہ کی میں اس وقت اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا ( یہ فرمایا کہ ) مجھے زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم خدا کی مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کروگے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم لوگ دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے۔ ( نتیجہ یہ کہ آخرت سے غافل ہو جاؤ گے )

تشریح : شہید فی سبیل اللہ جو میدان جنگ میں مارا جائے اس پر نماز جنازہ پڑھنے نہ پڑھنے کے بارے میں اختلاف ہے۔ اسی باب کے ذیل میں ہر دو احادیث میں یہ اختلاف موجود ہے۔ ان میں تطبیق یہ ہے کہ دوسری حدیث جس میں شہدائے احد پر نماز کا ذکر ہے اس سے مراد صرف دعا اور استغفار ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کانہ صلی اللہ علیہ وسلم دعالہم واستغفرلہم حین قرب اجلہ بعد ثمان سنین کالمودع للاحیاءوالاموات ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی اس حدیث میں جو ذکر ہے یہ معرکہ احد کے آٹھ سال بعد کا ہے۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آخری وقت میں شہدائے احد سے بھی رخصت ہونے کے لیے وہاں گئے اور ان کے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔

طویل بحث کے بعد المحدث الکبیر مولانا عبدالرحمن مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں۔ قلت الظاہر عندی ان الصلوٰۃ علی الشہید لیست بواجبۃ فیجوز ان یصلی علیہا ویجوز ترکہا واللہ اعلم یعنی میرے نزدیک شہید پر نماز جنازہ پڑھنا اور نہ پڑھنا ہر دو امور جائز ہیں واللہ اعلم۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : دو یاتین آدمیوں کو ایک قبر میں دفن کرنا

حدیث نمبر : 1345
حدثنا سعيد بن سليمان، حدثنا الليث، حدثنا ابن شهاب، عن عبد الرحمن بن كعب، أن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ أخبره أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يجمع بين الرجلين من قتلى أحد‏.
ہم سے سعید بن سلیمان نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا۔ ان سے عبدالرحمن بن کعب نے کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے انہیں خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دو دو شہیدوں کو دفن کرنے میں ایک ساتھ جمع فرمایا تھا۔

حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : اس شخص کی دلیل جو شہداء کا غسل مناسب نہیں سمجھتا

حدیث نمبر : 1346
حدثنا أبو الوليد، حدثنا ليث، عن ابن شهاب، عن عبد الرحمن بن كعب، عن جابر، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ادفنوهم في دمائهم‏"‏‏. ‏ ـ يعني يوم أحد ـ ولم يغسلهم‏.‏
ہم سے ابو الولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبدالرحمن بن کعب نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں خون سمیت دفن کردو یعنی احد کی لڑائی کے موقع پر اور انہیں غسل نہیں دیا تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : بغلی قبر میں کون آگے رکھا جائے

‏{‏ملتحدا‏}‏ معدلا، ولو كان مستقيما كان ضريحا‏.
امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ بغلی قبر کو لحد اس لیے کہا گیا کہ یہ ایک کونے میں ہوتی ہے اور ہر جائر ( اپنی جگہ سے ہٹی ہوئی چیز ) کو ملحد کہیں گے۔ اسی سے ہے ( سورئہ کہف میں ) لفظ ملتحدا یعنی پناہ کا کونہ اور اگر قبر سیدھی ( صندوقی ) ہو تو اسے ضریح کہتے ہیں۔

حدیث نمبر : 1347
حدثنا ابن مقاتل، أخبرنا عبد الله، أخبرنا ليث بن سعد، حدثني ابن شهاب، عن عبد الرحمن بن كعب بن مالك، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يجمع بين الرجلين من قتلى أحد في ثوب واحد ثم يقول ‏"‏ أيهم أكثر أخذا للقرآن‏"‏‏. ‏ فإذا أشير له إلى أحدهما قدمه في اللحد وقال ‏"‏ أنا شهيد على هؤلاء‏"‏‏. ‏ وأمر بدفنهم بدمائهم، ولم يصل عليهم ولم يغسلهم‏.
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں لیث بن سعد نے خبر دی۔ انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن شہاب نے بیان کیا‘ ان سے عبدالرحمن بن کعب بن مالک نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد کے دو دو شہید مردوں کو ایک ہی کپڑے میں کفن دیتے اور پوچھتے کہ ان میں قرآن کس نے زیادہ یا دکیا ہے، پھر جب کسی ایک طرف اشارہ کر دیا جاتا تو لحد میں اسی کو آگے بڑھاتے اور فرماتے جاتے کہ میں ان پر گواہ ہوں۔ آپ نے خون سمیت انہیں دفن کرنے کا حکم دیا، نہ ان کی نماز جنازہ پڑھی اور نہ انہیں غسل دیا۔

حدیث نمبر : 1348
وأخبرنا الأوزاعي، عن الزهري، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لقتلى أحد ‏"‏ أى هؤلاء أكثر أخذا للقرآن‏"‏‏. ‏ فإذا أشير له إلى رجل قدمه في اللحد قبل صاحبه‏.‏ وقال جابر فكفن أبي وعمي في نمرة واحدة‏.‏
پھر ہمیں امام اوزاعی نے خبر دی۔ انہیں زہری نے اور ان سے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھتے جاتے تھے کہ ان میں قرآن زیادہ کس نے حاصل کیا ہے؟ جس کی طرف اشارہ کردیا جاتا آپ لحد میں اسی کو دوسرے سے آگے بڑھاتے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میرے والد اور چچا کو ایک ہی کمبل میں کفن دیا گیا تھا۔

وقال سليمان بن كثير حدثني الزهري، حدثنا من، سمع جابرا ـ رضى الله عنه‏.‏
اور سلیمان بن کثیر نے بیان کیا کہ مجھ سے زہری نے بیان کیا‘ ان سے اس شخص نے بیان کیا جنہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا تھا۔

مسلک راجح یہی ہے جو حضرت امام نے بیان فرمایا کہ شہید فی سبیل اللہ پر نماز جنازہ نہ پڑھی جائے۔ تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔
 
Top