• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : بکریوں کی زکوٰۃ کا بیان

حدیث نمبر : 1454
حدثنا محمد بن عبد الله بن المثنى الأنصاري، قال حدثني أبي قال، حدثني ثمامة بن عبد الله بن أنس، أن أنسا، حدثه أن أبا بكر ـ رضى الله عنه ـ كتب له هذا الكتاب لما وجهه إلى البحرين بسم الله الرحمن الرحيم ‏"‏ هذه فريضة الصدقة التي فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم على المسلمين، والتي أمر الله بها رسوله، فمن سئلها من المسلمين على وجهها فليعطها، ومن سئل فوقها فلا يعط في أربع وعشرين من الإبل فما دونها من الغنم من كل خمس شاة، إذا بلغت خمسا وعشرين إلى خمس وثلاثين ففيها بنت مخاض أنثى، فإذا بلغت ستا وثلاثين إلى خمس وأربعين ففيها بنت لبون أنثى، فإذا بلغت ستا وأربعين إلى ستين ففيها حقة طروقة الجمل، فإذا بلغت واحدة وستين إلى خمس وسبعين ففيها جذعة، فإذا بلغت ـ يعني ـ ستا وسبعين إلى تسعين ففيها بنتا لبون، فإذا بلغت إحدى وتسعين إلى عشرين ومائة ففيها حقتان طروقتا الجمل، فإذا زادت على عشرين ومائة ففي كل أربعين بنت لبون، وفي كل خمسين حقة، ومن لم يكن معه إلا أربع من الإبل فليس فيها صدقة، إلا أن يشاء ربها، فإذا بلغت خمسا من الإبل ففيها شاة، وفي صدقة الغنم في سائمتها إذا كانت أربعين إلى عشرين ومائة شاة، فإذا زادت على عشرين ومائة إلى مائتين شاتان، فإذا زادت على مائتين إلى ثلاثمائة ففيها ثلاث، فإذا زادت على ثلاثمائة ففي كل مائة شاة، فإذا كانت سائمة الرجل ناقصة من أربعين شاة واحدة فليس فيها صدقة، إلا أن يشاء ربها، وفي الرقة ربع العشر، فإن لم تكن إلا تسعين ومائة فليس فيها شىء، إلا أن يشاء ربها‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن عبداللہ بن مثنیٰ انصاری نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے بیان کیا ‘ ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب انہیں بحرین ( کا حاکم بناکر ) بھیجا تو ان کو یہ پروانہ لکھ دیا۔

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔

یہ زکوٰۃ کا وہ فریضہ ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لیے فرض قرار دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا۔ اس لیے جو شخص مسلمانوں سے اس پروانہ کے مطابق زکوٰۃ مانگے تو مسلمانوں کو اسے دے دینا چاہیے اور اگر کوئی اس سے زیادہ مانگے تو ہرگز نہ دے۔ چوبیس یا اس سے کم اونٹوں میں ہر پانچ اونٹ پر ایک بکری دینی ہوگی۔ ( پانچ سے کم میں کچھ نہیں ) لیکن جب اونٹوں کی تعداد پچیس تک پہنچ جائے تو پچیس سے پینتیس تک ایک ایک برس کی اونٹنی واجب ہوگی جو مادہ ہوتی ہے۔ جب اونٹ کی تعداد چھتیس تک پہنچ جائے ( تو چھتیس سے ) پینتالیس تک دو برس کی مادہ واجب ہوگی۔ جب تعداد چھیالیس تک پہنچ جائے ( تو چھیالیس سے ) ساٹھ تک میں تین برس کی اونٹنی واجب ہوگی جو جفتی کے قابل ہوتی ہے۔ جب تعداد اکسٹھ تک پہنچ جائے ( تو اکسٹھ سے ) پچھترتک چار برس کی مادہ واجب ہوگی۔ جب تعداد چھہتر تک پہنچ جائے ( تو چھہتر سے ) نوے تک دو دو برس کی دو اونٹنیاں واجب ہوں گی۔ جب تعداد اکیانوے تک پہنچ جائے تو ( اکیانوے سے ) ایک سوبیس تک تین تین برس کی دو اونٹنیاں واجب ہوں گی جو جفتی کے قابل ہوں۔ پھر ایک سوبیس سے بھی تعداد آگے بڑھ جائے تو ہر چالیس پر دو برس کی اونٹنی واجب ہوگی اور ہر پچاس پر ایک تین برس کی۔ اور اگر کسی کے پاس چار اونٹ سے زیادہ نہیں تو اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی مگر جب ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دے اور ان بکریوں کی زکوٰۃ جو ( سال کے اکثر حصے جنگل یا میدان وغیرہ میں ) چرکر گزارتی ہیں اگر ان کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی ہو تو ( چالیس سے ) ایک سو بیس تک ایک بکری واجب ہوگی اور جب ایک سوبیس سے تعداد بڑھ جائے ( تو ایک سوبیس سے ) سے دو سوتک دوبکریاں واجب ہوں گی۔ اگر دوسو سے بھی تعداد بڑھ جائے تو ( تو دو سو سے ) تین سو تک تین بکریاں واجب ہوں گی اور جب تین سو سے بھی تعداد آگے نکل جائے تو اب ہر ایک سوپر ایک بکری واجب ہوگی۔ اگر کسی شخص کی چرنے والی بکریاں چالیس سے ایک بھی کم ہوں تو ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی مگر اپنی خوشی سے مالک کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ اور چاندی میں زکوٰۃ چالیسواں حصہ واجب ہوگی لیکن اگر کسی کے پاس ایک سونوے ( درہم ) سے زیادہ نہیں ہیں تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی مگر خوشی سے کچھ اگر مالک دینا چاہیے تو اور بات ہے۔

تشریح : زکوٰۃ ان ہی گائے‘ بیل یا اونٹوں یا بکریوں میں واجب ہے جو آدھے برس سے زیادہ جنگل میں چرلیتی ہوں اور اگر آدھے برس سے زیادہ ان کو گھر سے کھلانا پڑتا ہے تو ان پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ اہلحدیث کے نزدیک سوا ان تین جانوروں یعنی اونٹ‘ گائے‘ بکری کے سوا اور کسی جانور میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ مثلاً گھوڑوں یا خچروں یا گدھوں میں۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : زکوٰۃ میں بوڑھایا عیب داریا نر جانور نہ لیا جائے گامگر جب زکوٰۃ وصول کرنے والا مناسب سمجھے تو لے سکتا ہے

حدیث نمبر : 1455
حدثنا محمد بن عبد الله، قال حدثني أبي قال، حدثني ثمامة، أن أنسا ـ رضى الله عنه ـ حدثه أن أبا بكر ـ رضى الله عنه ـ كتب له ‏{‏الصدقة‏}‏ التي أمر الله رسوله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ولا يخرج في الصدقة هرمة، ولا ذات عوار، ولا تيس، إلا ما شاء المصدق‏"‏‏.
ہم سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا مجھ سے ثمامہ نے بیان کیا ‘ ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ احکام زکوٰۃ کے مطابق لکھا کہ زکوٰۃ میں بوڑھے، عیبی اور نرنہ لیے جائیں ‘ البتہ اگر صدقہ وصول کرنے والا مناسب سمجھے تو لے سکتا ہے۔

مثلاً زکوٰۃ کے جانور سب مادیاں ہی مادیاں ہوں نرکی ضرورت ہوتو نرلے سکتا ہے یا کسی عمدہ نسل کے اونٹ یا گائے یا بکری کی ضرورت ہو اور گو اس میں عیب ہو مگر اس کی نسل لینے میں آءندہ فاءدہ ہوتو لے سکتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : بکری کا بچہ زکوٰۃ میں لینا

حدیث نمبر : 1456
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، ح وقال الليث حدثني عبد الرحمن بن خالد، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود، أن أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قال أبو بكر ـ رضى الله عنه ـ والله لو منعوني عناقا كانوا يؤدونها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم لقاتلتهم على منعها‏.‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی اور انہیں زہری نے ( دوسری سند ) اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن خالد نے بیان کیا ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ( آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد زکوٰۃ دینے سے انکار کرنے والوں کے متعلق فرمایا تھا ) قسم اللہ کی اگر یہ مجھے بکری کے ایک بچہ کو بھی دینے سے انکار کریں گے جسے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے تو میں ان کے اس انکار پر ان سے جہاد کروں گا۔

حدیث نمبر : 1457
قال عمر ـ رضى الله عنه ـ فما هو إلا أن رأيت أن الله شرح صدر أبي بكر ـ رضى الله عنه ـ بالقتال، فعرفت أنه الحق‏.‏
عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کے سوا اور کوئی بات نہیں تھی جیسا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جہاد کے لیے شرح صدر عطا فرمایا تھا اور پھر میں نے بھی یہی سمجھا کہ فیصلہ انہیں کا حق تھا۔

تشریح : بکری کا بچہ اس وقت زکوٰۃ میں لیا جائے گا کہ تحصیلدار مناسب سمجھے یا کسی شخص کے پاس نرے بچے ہی بچے رہ جائیں۔ حضرت امام بخاری نے حدیث عنوان میں یہ اشارہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ان لفظوں سے نکالا کہ اگر یہ لوگ بکری کا ایک بچہ جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دیا کرتے تھے اس سے بھی انکار کریں گے تو میں ان پر جہاد کروں گا۔ پہلے پہل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں سے جو زکوٰۃ نہ دیتے تھے لڑنے میں تامل ہوا کیونکہ وہ کلمہ گو تھے۔ لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ان سے زیادہ علم تھا۔ آخر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی ان سے متفق ہوگئے۔ اس حدیث سے یہ صاف نکلتا ہے کہ صرف کلمہ پڑھ لینے سے آدمی کا اسلام پورا نہیں ہوتا۔ جب تک اسلام کے تمام اصول اور قطعی فرائض کو نہ مانے۔ اگر اسلام کے ایک قطعی فرض کا کوئی انکار کرے‘ جیسے نماز یا روزہ یا زکوٰۃ یا جہاد یا حج تو وہ کافر ہوجاتا ہے اور اس پر جہاد کرنا درست ہے۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : زکوٰۃ میں لوگوں کے عمدہ اور چھٹے ہوئے مال نہ لیے جائیں گے

حدیث نمبر : 1458
حدثنا أمية بن بسطام، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا روح بن القاسم، عن إسماعيل بن أمية، عن يحيى بن عبد الله بن صيفي، عن أبي معبد، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما بعث معاذا ـ رضى الله عنه ـ على اليمن قال ‏"‏ إنك تقدم على قوم أهل كتاب، فليكن أول ما تدعوهم إليه عبادة الله، فإذا عرفوا الله فأخبرهم أن الله قد فرض عليهم خمس صلوات في يومهم وليلتهم، فإذا فعلوا، فأخبرهم أن الله فرض عليهم زكاة ‏{‏تؤخذ‏}‏ من أموالهم وترد على فقرائهم، فإذا أطاعوا بها فخذ منهم، وتوق كرائم أموال الناس‏"‏‏. ‏
ہم سے امیہ بن بسطام نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے زید بن زریع نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے روح بن قاسم نے بیان کیا ‘ ان سے اسماعیل بن امیہ نے ‘ ان سے یحیٰی بن عبداللہ بن صیفی نے ‘ ان سے ابومعبد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو ان سے فرمایا کہ دیکھو! تم ایک ایسی قوم کے پاس جارہے ہو جو اہل کتاب ( عیسائی یہودی ) ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے انہیں اللہ کی عبادت کی دعوت دینا۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کو پہچان لیں ( یعنی اسلام قبول کرلیں ) تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ اسے بھی ادا کریں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض قرار دی ہے جو ان کے سرمایہ داروں سے لی جائے گی ( جو صاحب نصاب ہوں گے ) اور انہیں کے فقیروں میں تقسیم کردی جائے گی۔ جب وہ اسے بھی مان لیں تو ان سے زکوٰۃ وصول کر۔ البتہ ان کی عمدہ چیزیں ( زکوٰۃ کے طورپر لینے سے ) پرہیز کرنا۔

ان کے فقیروں میں تقسیم کا مطلب یہ کہ ان ہی کے ملک کے فقیروں کو۔ اس معنی کے تحت ایک ملک کو زکوٰۃ دوسرے ملک کے فقیروں کو بھیجنا نا جائز قرار دیا گیا ہے۔ مگر جمہورعلماءکہتے ہیں کہ مراد مسلمان فقراءہیں خواہ وہ کہیں ہوں اور کسی ملک کے ہوں۔ اس معنی کے تحت زکوٰۃ کا دوسرے ملک میں بھیجنا درست رکھا گیا ہے۔ حدیث اور باب کی مطابقت ظاہر ہے۔ حضرت مولانا عبیداللہ صاحب مدظلہ فرماتے ہیں۔ وقال شیخنا فی شرح الترمذی والظاہر عندی عدم النقل الا اذا فقد المستحقون لہا اوتکون فی النقل مصلحۃ انفع واہم عن عدمہ واللہ تعالیٰ اعلم ( مرعاۃ )

یعنی ہمارے شیخ مولانا عبدالرحمن شرح ترمذی میں فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک ظاہر یہی ہے کہ صرف اسی صورت میں وہاں سے زکوٰۃ دوسری جگہ دی جائے جب وہاں مستحق لوگ نہ ہوں یا وہاں سے نقل کرنے میں کوئی مصلحت ہو یا بہت ہی اہم ہو اور زیادہ سے زیادہ نفع بخش ہو کہ وہ نہ بھیجنے کی صورت میں حاصل نہ ہو۔ ایسی حالت میں دوسری جگہ میں زکوٰۃ نقل کی جاسکتی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں

حدیث نمبر : 1459
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن محمد بن عبد الرحمن بن أبي صعصعة المازني، عن أبيه، عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ ليس فيما دون خمسة أوسق من التمر صدقة، وليس فيما دون خمس أواق من الورق صدقة، وليس فيما دون خمس ذود من الإبل صدقة‏"‏‏. ‏
ہم عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں محمد بن عبدالرحمن بن ابی صعصعہ مازنی نے ‘ انہیں ان کے باپ نے اور انہیں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ وسق سے کم کھجوروں میں زکوٰۃ نہیں اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں۔ اسی طرح پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔

تشریح : اس حدیث کے ذیل حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عن ابی سعید خمس اواق من الورق صدقۃ وہو مطابق للفظ الترجمۃ وکان للمصنف اراد ان یبین بالترجمۃ ماابہم فی لفظ الحدیث اعتماداً علی طریق الاخری واواق بالتنوین وباثبات التحتانیۃ مشدداً ومحففا جمع اوقیۃ بضم الہمزۃ وتشدید التحتانیۃ وحکی الجیانی وقیۃ بحذف الالف وفتح الواو ومقدار الاوقیۃ فی ہذا الحدیث اربعون درہما بالاتفاق والمراد بالدرہم الخالص من الفضۃ سواءکان مضروبا اوغیر مضروب۔

اوسق جمع وسق بفتح الواو ویجوز کسرہا کما حکاہ صاحب المحکم وجمعہ حینئذ اوساق کحمل واحمال وقد وقع کذلک فی روایۃ المسلم وہو ستون صاعا بالاتفاق ووقع فی روایۃ ابن ماجۃ من طریق ابی البختری عن ابی سعید نحو ہذا الحدیث وفیہ والوسق ستون صاعا۔ وقد اجمعوا علی ذلک فی خمسۃ اوسق فمازاد اجمع العلماءعلی اشتراط الحول فی الماشیۃ والنقد دون المعشرات واللہ اعلم ( فتح الباری ) خلاصہ عبارت یہ کہ پانچ اوقیہ چاندی میں زکوٰۃ ہے۔ یہی لفظ باب کے مطابق ہے اور دوسری روایت پر اعتماد کرتے ہوئے لفظ حدیث میں جو ابہام تھا‘ اسے ترجمہ کے ذریعہ بیان کردیا۔ اور لفظ اواق اوقیہ کی جمع ہے جس کی مقدار متفقہ طورپر چالیس درہم ہے۔ درہم سے خالص چاندی کا سکہ مراد ہے جو مضروب ہویا غیر مضروب۔

لفظ اوسق وسق کی جمع ہے اور وہ متفقہ طورپر ساٹھ صاع پر بولا گیا ہے۔ اس پر اجماع ہے کہ عشر کے لیے پانچ وسق کا ہونا ضروری ہے اور جانوروں کے لیے‘ نقدی کے لیے ایک سال کا گزر جانا بھی شرط ہے اس پر علماءکا اجماع ہے۔ اجناس جن سے عشر نکالا جاتا ہے ان کے لیے سال گزرنے کی شرط نہیں ہے۔
حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مدظلہ فرماتے ہیں۔ قلت ہذا الحدیث صریح فی ان النصاب شرط لوجوب العشر اونصف العشر فلا تجب الزکوٰۃ فی شئی من الزروع والثمار حتی تبلغ خمسۃ اوسق وہذا مذہب اکثر اہل العلم والصاع اربعۃ امداد والمد رطل وثلث رطل فالصاع خمسۃ ارطال وثلث رطل ذلک بالرطل الذی وزنہ مائۃ درہم وثمانیۃ وعشرون درہما بالدراہم اللتی کل عشرۃ منہا وزن سبعۃ مثاقیل ( مرعاۃ ) یعنی میں کہتا ہوں کہ حدیث ہذا صراحت کے ساتھ بتلا رہی ہے کہ عشریا نصف عشر کے لیے نصاب شرط ہے پس کھیتی اور پھلوں میں کوئی زکوٰۃ فرض نہ ہوگی جب تک وہ پانچ وسق کو نہ پہنچ جائے اور اکثر اہل علم کا یہی مذہب ہے اور ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔ اور صاع چار مد کا ہوتا ہے اور مد ایک رطل اور تہائی رطل کا پس صاع کے پانچ اور ثلث رطل ہوئے اور یہ حساب اس رطل سے ہے جس کا وزن ایک سو اٹھائیس درہم کے برابر ہوں اور درہم سے مراد وہ جس کے لیے دس درہم کا وزن سات مثقال کے برابر ہو۔

بعض علمائے احناف ہند نے یہاں کی زمینوں سے عشر کو ساقط قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ جو یہاں کی اراضی کو خراجی قرار دیتے ہیں۔ اس بارے میں حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ صاحب مبارکپوری مدظلہ العالی فرماتے ہیں: اختلف اصحاب الفتوی من الحنفیۃ فی اراضی المسلمین فی بلاد الہند فی زمن الا نکلیز وتخبطوا فی ذالک فقال بعضہم لاعشر فیہا لانہا اراضی دارالحرب وقال بعضہم ان اراضی الہند لیست بعشریۃ ولا خراجیۃ بل اراضی الحوز ای اراضی بیت المال واراض المملکۃ والحق عندنا وجوب العشر فی اراضی الہند مطلقا ای علی ای صفۃ کانت فیجب العشراو نصفہ علی المسلم فیما یحصل لہ من الارض اذا بلغ النصاب سواءکانت الارض ملکالہ اولغیرہ زرع فیہا علی سبیل الا جارۃ اوالعاریۃ اوالمزارعۃ لان العشر فی الحب والزرع والعبرۃ لمن یملکہ فیجب الزکوٰۃ فیہ علی مالکہ المسلم ولیس من مونۃ الارض فلایبحث عن صفتہا والفربیۃ التی تاخذہا المملکۃ من اصحاب المزارع فی الہند لیست خراجا شرعیا ولا مما یسقط فریضۃ العشر کما لا یخفی وارجح الی المغنی ( ص 768/2 ) ( مرعاۃ‘ ج:3 ص: 38 ) یعنی انگریزی دور میں ہندی مسلمانوں کی اراضیات کے متعلق علمائے احناف نے جو صاحبان فتویٰ تھے‘ بعض نے یہ خبط اختیار کیا کہ ان زمینوں کی پیداوار میں عشر نہیں ہے‘ اس لیے کہ یہ اراضی دارالحرب ہیں۔ بعض نے کہا کہ یہ زمینیں نہ تو عشری ہیں نہ خراجی بلکہ یہ حکومت کی زمینیں ہیں اور ہمارے نزدیک امرحق یہ ہے کہ اراضی ہند میں مطلقاً پیداوار نصاب پر مسلمانوں کے لیے عشر واجب ہے‘ چاہے وہ زمین ان کی ملک ہو یا غیر کی ہو وہ کاشتکار ہوں یا ٹھیکیدار ہوں بہر حال اناج کی پیداوار جو نصاب کو پہنچ جائے عشرو اجب ہے اور اس بارے میں زمین پر اخراجات اور سرکاری مالیانہ وغیرہ کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا کیونکہ ہندوستان میں سرکار جو محصول لینی ہے‘ وہ خراج شرعی نہیں ہے اور نہ اس سے عشر ساقط ہوسکتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : گائے بیل کی زکوٰۃ کا بیان

وقال أبو حميد قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لأعرفن ما جاء الله رجل ببقرة لها خوار‏"‏‏. ‏ ويقال جؤار ‏{‏تجأرون‏}‏ ترفعون أصواتكم كما تجأر البقرة‏.‏ اور ابوحمید ساعدی نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں ( قیامت کے دن اس حال میں ) وہ شخص دکھلادوں گا جو اللہ کی بارگاہ میں گائے کے ساتھ اس طرح آئے گا کہ وہ گائے بولتی ہوئی ہوگی۔ ( سورئہ مومنون میں لفظ ) جوار ( خوار کے ہم معنی ) یجارون ( اس وقت کہتے ہیں جب ) اس طرح لوگ اپنی آواز بلند کریں جیسے گائے بولتی ہے۔

حدیث نمبر : 1460
حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، عن المعرور بن سويد، عن أبي ذر ـ رضى الله عنه ـ قال انتهيت إلى النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ والذي نفسي بيده ـ أو والذي لا إله غيره، أو كما حلف ـ ما من رجل تكون له إبل أو بقر أو غنم لا يؤدي حقها إلا أتي بها يوم القيامة أعظم ما تكون وأسمنه، تطؤه بأخفافها، وتنطحه بقرونها، كلما جازت أخراها ردت عليه أولاها، حتى يقضى بين الناس‏"‏‏. ‏ رواه بكير عن أبي صالح عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے اعمش نے معرور بن سوید سے بیان کیا ‘ ان سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گیا تھا اور آپ فرمارہے تھے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یا ( آپ نے قسم اس طرح کھائی ) اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ یا جن الفاظ کے ساتھ بھی آپ نے قسم کھائی ہو ( اس تاکید کے بعد فرمایا ) کوئی بھی ایسا شخص جس کے پاس اونٹ گائے یا بکری ہو اور وہ اس کا حق ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے دن اسے لایا جائے گا۔ دنیا سے زیادہ بڑی اور موٹی تازہ کرکے۔ پھر وہ اپنے مالک کو اپنے کھروں سے روندے گی اور سینگ مارے گی۔ جب آخری جانور اس پر سے گزر جائے گا تو پہلا جانور پھر لوٹ کر آئے گا۔ ( اور اسے اپنے سینگ مارے گا اور کھروں سے روندے گا ) اس وقت تک ( یہ سلسلہ برابر قائم رہے گا ) جب تک لوگوں کا فیصلہ نہیں ہوجاتا۔ اس حدیث کو بکیربن عبداللہ نے ابوصالح سے روایت کیا ہے ‘ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔

اس حدیث سے باب کا مطلب یعنی گائے بیل کی زکوٰۃ دینے کا وجوب ثابت ہوا کیونکہ عذاب اس امر کے ترک پر ہوگا جو واجب ہے۔ مسلم کی روایت میں اس حدیث میں یہ لفظ بھی ہیں اور وہ اس کی زکوٰۃ نہ ادا کرتا ہو۔ حضرت امام بخاری کی شرائط کے مطابق انہیں گائے کی زکوٰۃ کے بارے میں کوئی حدیث نہیں ملی۔ اس لیے اس باب کے تحت آپ نے اس حدیث کو ذکر کرکے گائے کی زکوٰۃ کی فرضیت پر دلیل پکڑی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : اپنے رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینا

وقال النبي صلى الله عليه وسلم (له أجران: أجر القرابة والصدقة).
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( زینب کے حق میں فرمایا جو عبداللہ بن مسعود کی بیوی تھی ) اس کو دوگنا ثواب ملے گا ‘ ناطہ جوڑنے اور صدقے کا۔

اہلحدیث کے نزدیک یہ مطلقاً جائز ہے۔ جب اپنے رشتہ دار محتاج ہوں تو باپ بیٹے کو یا بیٹا باپ کو یا خاوند بیوی کو یا بیوی خاوند کو دے۔ بعضوں نے کہا اپنے چھوٹے بچے کو فرض زکوٰۃ دینا بالا جماع درست نہیں اور امام ابوحنیفہ اور امام مالک نے اپنے خاوند کو بھی دینا درست نہیں رکھا اور امام شافعی اور امام احمد نے حدیث کے موافق اس کو جائز رکھا ہے۔ مترجم ( مولانا وحیدالزماں مرحوم ) کہتا ہے کہ رشتہ داروں کو اگر وہ محتاج ہوں زکوٰۃ دینے میں دہرا ثواب ملے گا ناجائز ہونا کیسا؟ ( وحیدی )
رائح کا معنی بے کھٹکے آمدنی کا مال یا بے محنت اور مشقت کی آمدنی کا ذریعہ۔ روح کی روایت خود امام بخاری نے کتاب البیوع میں اور یحییٰ بن یحییٰ کی کتاب الوصایا میں اور اسماعیل کی کتاب التفسیر میں وصل کی۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1461
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، أنه سمع أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ يقول كان أبو طلحة أكثر الأنصار بالمدينة مالا من نخل، وكان أحب أمواله إليه بيرحاء وكانت مستقبلة المسجد، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخلها ويشرب من ماء فيها طيب قال أنس فلما أنزلت هذه الآية ‏{‏لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون‏}‏ قام أبو طلحة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله‏.‏ إن الله تبارك وتعالى يقول ‏{‏لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون‏}‏ وإن أحب أموالي إلى بيرحاء، وإنها صدقة لله أرجو برها وذخرها عند الله، فضعها يا رسول الله حيث أراك الله‏.‏ قال فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ بخ، ذلك مال رابح، ذلك مال رابح، وقد سمعت ما قلت وإني أرى أن تجعلها في الأقربين‏"‏‏. ‏ فقال أبو طلحة أفعل يا رسول الله‏.‏ فقسمها أبو طلحة في أقاربه وبني عمه‏.‏ تابعه روح‏.‏ وقال يحيى بن يحيى وإسماعيل عن مالك رايح‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا ‘ ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے ‘ کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں انصارمیں سب سے زیادہ مالدار تھے۔ اپنے کھجور کے باغات کی وجہ سے۔ اور اپنے باغات میں سب سے زیادہ پسند انہیں بیرحاءکا باغ تھا۔ یہ باغ مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا میٹھا پانی پیا کرتے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی لن تنالوا البرالخ یعنی “ تم نیکی کو اس وقت تک نہیں پاسکتے جب تک تم اپنی پیاری سے پیاری چیز نہ خرچ کرو۔ ” یہ سن کر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پاسکتے جب تک تم اپنی پیاری سے پیاری چیز نہ خرچ کرو۔ اور مجھے بیرحاءکا باغ سب سے زیادہ پیارا ہے۔ اس لیے میں اسے اللہ تعالیٰ کے لیے خیرات کرتا ہوں۔ اس کی نیکی اور اس کے ذخیرئہ آخرت ہونے کا امیدوار ہوں۔ اللہ کے حکم سے جہاں آپ مناسب سمجھیں اسے استعمال کیجئے۔ راوی نے بیان کیا کہ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ خوب! یہ تو بڑا ہی آمدنی کا مال ہے۔ یہ تو بہت ہی نفع بخش ہے۔ اور جو بات تم نے کہی میں نے وہ سن لی۔ اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو دے ڈالو۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا۔ یا رسول اللہ! میں ایسا ہی کروں گا۔ چنانچہ انہوں نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا کے لڑکوں کو دے دیا۔ عبداللہ بن یوسف کے ساتھ اس روایت کی متابعت روح نے کی ہے۔ یحیٰی بن یحیٰی اور اسماعیل نے مالک کے واسطہ سے ( رابح کے بجائے ) رائح نقل کیا ہے۔

تشریح : اس حدیث سے صاف نکلا کہ اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرنا درست ہے۔ یہاں تک کہ بیوی بھی اپنے مفلس خاوند اور مفلس بیٹے پر خیرات کرسکتی ہے۔ اور گویہ صدقہ فرض زکوٰۃ نہ تھا۔ مگر فرض زکوٰۃ کو بھی اس پر قیاس کیاہے۔ بعضوں نے کہا جس کا نفقہ آدمی پر واجب ہوجیسے بیوی کا یا چھوٹے لڑکے کا تو اس کو زکوٰۃ دینا درست نہیں۔ اور چونکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ زندہ تھے‘ اس لیے ان کے ہوتے ہوئے بچے کا خرچ ماں پر واجب نہ تھا۔ لہٰذا ماں کو اس پر خیرات خرچ کرنا جائز ہوا۔ واللہ اعلم۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1462
حدثنا ابن أبي مريم، أخبرنا محمد بن جعفر، قال أخبرني زيد، عن عياض بن عبد الله، عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم في أضحى أو فطر إلى المصلى ثم انصرف فوعظ الناس وأمرهم بالصدقة فقال ‏"‏ أيها الناس تصدقوا‏"‏‏. ‏ فمر على النساء فقال ‏"‏ يا معشر النساء تصدقن، فإني رأيتكن أكثر أهل النار‏"‏‏. ‏ فقلن وبم ذلك يا رسول الله قال ‏"‏ تكثرن اللعن وتكفرن العشير، ما رأيت من ناقصات عقل ودين أذهب للب الرجل الحازم من إحداكن يا معشر النساء‏"‏‏. ‏ ثم انصرف فلما صار إلى منزله جاءت زينب امرأة ابن مسعود تستأذن عليه فقيل يا رسول الله هذه زينب فقال ‏"‏ أى الزيانب‏"‏‏. ‏ فقيل امرأة ابن مسعود‏.‏ قال ‏"‏ نعم ائذنوا لها‏"‏‏. ‏ فأذن لها قالت يا نبي الله إنك أمرت اليوم بالصدقة، وكان عندي حلي لي، فأردت أن أتصدق به، فزعم ابن مسعود أنه وولده أحق من تصدقت به عليهم‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ صدق ابن مسعود، زوجك وولدك أحق من تصدقت به عليهم‏"‏‏. ‏
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں محمد بن جعفر نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے زید بن اسلم نے خبر دی ‘ انہیں عیاض بن عبداللہ نے ‘ اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالضحیٰ یا عید الفطر میں عیدگاہ تشریف لے گئے۔ پھر ( نماز کے بعد ) لوگوں کو وعظ فرمایا اور صدقہ کا حکم دیا۔ فرمایا : لوگو! صدقہ دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی طرف گئے اور ان سے بھی یہی فرمایا کہ عورتو! صدقہ دو کہ میں نے جہنم میں بکثرت تم ہی کو دیکھا ہے۔ عورتوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! ایسا کیوں ہے؟ آپ نے فرمایا ‘ اس لیے کہ تم لعن وطعن زیادہ کرتی ہو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔ میں نے تم سے زیادہ عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص ایسی کوئی مخلوق نہیں دیکھی جو کار آزمودہ مرد کی عقل کو بھی اپنی مٹھی میںلے لیتی ہو۔ ہاں اے عورتو! پھر آپ واپس گھر پہنچے تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہ آئیں اور اجازت چاہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ یہ زینب آئی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کون سی زینب ( کیونکہ زینب نام کی بہت سی عورتیں تھیں ) کہا گیا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اچھا انہیں اجازت دے دو ‘ چنانچہ اجازت دے دی گئی۔ انہوں نے آکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آج آپ نے صدقہ کا حکم دیا تھا۔ اور میرے پاس بھی کچھ زیور ہے جسے میں صدقہ کرنا چاہتی تھی۔ لیکن ( میرے خاوند ) ابن مسعود رضی اللہ عنہ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اور ان کے لڑکے اس کے ان ( مسکینوں ) سے زیادہ مستحق ہیں جن پر میں صدقہ کروں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے صحیح کہا۔ تمہارے شوہر اور تمہارے لڑکے اس صدقہ کے ان سے زیادہ مستحق ہیں جنہیں تم صدقہ کے طورپر دوگی۔ ( معلوم ہوا کہ اقارب اگر محتاج ہوں تو صدقہ کے اولین مستحق وہی ہیں
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : مسلمان پر اس کے گھوڑوں کی زکوٰۃ دینا ضروری نہیں ہے

حدیث نمبر : 1463
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا عبد الله بن دينار، قال سمعت سليمان بن يسار، عن عراك بن مالك، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ليس على المسلم في فرسه وغلامه صدقة‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے سلیمان بن یسار سے سنا ‘ ان سے عراک بن مالک نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان پر اس کے گھوڑے اور غلام کی زکوٰۃ واجب نہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ

باب : مسلمان کو اپنے غلام ( لونڈی ) کی زکوٰۃ دینی ضروری نہیں ہے

حدیث نمبر : 1464
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى بن سعيد، عن خثيم بن عراك، قال حدثني أبي، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا وهيب بن خالد، حدثنا خثيم بن عراك بن مالك، عن أبيه، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ ليس على المسلم صدقة في عبده ولا فرسه‏"‏‏. ‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یحیٰی بن سعید نے بیان کیا ‘ ان سے خثیم بن عراک بن مالک نے ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے ( دوسری سند ) اور ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے خثیم بن عراک بن مالک نے بیان کیا ‘ انہوں نے اپنے باپ سے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان پر نہ اس کے غلام میں زکوٰۃ فرض ہے اور نہ گھوڑے میں۔

اہلحدیث کا محقق مذہب یہی ہے کہ غلاموں اور گھوڑوں میں مطلقاً زکوٰۃ نہیں ہے گو تجارت کے لیے ہوں۔ مگر ابن مندر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ اگر تجارت کے لیے ہوں تو ان میں زکوٰۃ ہے۔ اصل یہ ہے کہ زکوٰۃ ان ہی جنسوں میں لازم ہے جن کا بیان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا۔ یعنی چوپایوں میں سے اونٹ‘ گائے‘ اور بیل بکریوں میں اور نقد مال سے سونے چاندی میں اور غلوں میں سے گیہوں اور جو اور جوار اور میووں میں سے کھجور‘ اور سوکھی انگور میں‘ بس ان کے سوا اور کسی مال میں زکوٰۃ نہیں گو وہ تجارت اور سودا گری ہی کے لیے ہو اور ابن منذر نے جو اجماع اس کے خلاف پر نقل کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ جب ظاہر یہ اور اہلحدیث اس مسئلہ میں مختلف ہیں تو اجماع کیوں کرہوسکتا ہے۔ اور ابوداؤد کی حدیث اور دار قطنی کی حدیث کہ جس مال کو ہم بیچنے کے لیے رکھیں اس میں آپ نے زکوٰۃ کا حکم دیا‘ یا کپڑے میں زکوٰۃ ہے ضعیف ہے۔ حجت کے لیے لائق نہیں۔
اور آیت قرآن خذ من اموالہم صدقۃ میں اموال سے وہی مال مراد ہیں جن کی زکوٰۃ کی تصریح حدیث میں آئی ہے۔ یہ امام شوکانی کی تحقیق ہے اور سید علامہ نے اس کی تائید کی ہے۔ اس بناپر جواہر‘ موتی‘ مونگا‘ یاقوت‘ الماس اور دوسری صدہا اشیائے تجارتی میں جیسے گھوڑے، گاڑیاں، کتابیں،کاغذ میں زکوٰۃ واجب نہ ہوگی۔ مگر چونکہ ائمہ اربعہ اور جمہور علماءاموال تجارتی میں وجوب زکوٰۃ کی طرف گئے ہیں لہٰذا احتیاط اور تقویٰ یہی ہے کہ ان میں سے زکوٰۃ نکالے۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : یتیموں پر صدقہ کرنا بڑا ثواب ہے

حدیث نمبر : 1465
حدثنا معاذ بن فضالة، حدثنا هشام، عن يحيى، عن هلال بن أبي ميمونة، حدثنا عطاء بن يسار، أنه سمع أبا سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ يحدث أن النبي صلى الله عليه وسلم جلس ذات يوم على المنبر وجلسنا حوله فقال ‏"‏ إني مما أخاف عليكم من بعدي ما يفتح عليكم من زهرة الدنيا وزينتها‏"‏‏. ‏ فقال رجل يا رسول الله أويأتي الخير بالشر فسكت النبي صلى الله عليه وسلم فقيل له ما شأنك تكلم النبي صلى الله عليه وسلم ولا يكلمك فرأينا أنه ينزل عليه‏.‏ قال ـ فمسح عنه الرحضاء فقال ‏"‏ أين السائل ‏"‏ وكأنه حمده‏.‏ فقال ‏"‏ إنه لا يأتي الخير بالشر، وإن مما ينبت الربيع يقتل أو يلم إلا آكلة الخضراء، أكلت حتى إذا امتدت خاصرتاها استقبلت عين الشمس، فثلطت وبالت ورتعت، وإن هذا المال خضرة حلوة، فنعم صاحب المسلم ما أعطى منه المسكين واليتيم وابن السبيل ـ أو كما قال النبي صلى الله عليه وسلم ـ وإنه من يأخذه بغير حقه كالذي يأكل ولا يشبع، ويكون شهيدا عليه يوم القيامة‏"‏‏. ‏
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ہشام دستوائی نے ‘ یحیٰی سے بیان کیا۔ ان سے ہلال بن ابی میمونہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عطاءبن یسار نے بیان کیا ‘ اور انہوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ وہ کہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ ہم بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے متعلق اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم پر دنیا کی خوشحالی اور اس کی زیبائش وآرائش کے دروازے کھول دئیے جائیں گے۔ ایک شخص نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! کیا اچھائی برائی پیدا کرے گی؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔ اس لیے اس شخص سے کہا جانے لگا کہ کیا بات تھی۔ تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات پوچھی لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تم سے بات نہیں کرتے۔ پھر ہم نے محسوس کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ بیان کیا کہ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پسینہ صاف کیا ( جو وحی نازل ہوتے وقت آپ کو آنے لگتا تھا ) پھر پوچھا کہ سوال کرنے والے صاحب کہاں ہیں۔ ہم نے محسوس کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ( سوال کی ) تعریف کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھائی برائی نہیں پیدا کرتی ( مگر بے موقع استعمال سے برائی پیدا ہوتی ہے ) کیونکہ موسم بہار میں بعض ایسی گھاس بھی اگتی ہےں جو جان لیوا یا تکلیف دہ ثابت ہوتی ہےں۔ البتہ ہریالی چرنے والا وہ جانور بچ جاتا ہے کہ خوب چرتا ہے اور جب اس کی دونوں کو کھیں بھر جاتی ہیں تو سورج کی طرف رخ کرکے پاخانہ پیشاب کردیتا ہے اور پھر چرتا ہے۔ اسی طرح یہ مال ودولت بھی ایک خوشگوار سبزہ زار ہے۔ اور مسلمان کا وہ مال کتنا عمدہ ہے جو مسکین ‘ یتیم اور مسافر کو دیا جائے۔ یا جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ہاں اگر کوئی شخص زکوٰۃ حقدار ہونے کے بغیر لیتا ہے تو اس کی مثال ایسے شخص کی سی ہے جو کھاتا ہے لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔ اور قیامت کے دن یہ مال اس کے خلاف گواہ ہوگا۔

تشریح : اس طویل حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے مستقبل کی بابت کئی ایک اشارے فرمائے جن میں سے بیشتر باتیں وجود میں آچکی ہیں۔ اس سلسلہ میں آپ نے مسلمانوں کے عروج واقبال کے دور پر بھی اشارہ فرمایا۔ اور یہ بھی بتلایا کہ دنیا کی ترقی مال ودولت کی فراوانی یہاں کا عیش وعشرت یہ چیزیں بظاہر خیر ہیں مگر بعض دفعہ ان کا نتیجہ شرسے بھی تبدیل ہوسکتا ہے۔ اس پر بعض لوگوں نے کہا کہ حضور کیا خیر کبھی شرکا باعث ہوجائے گی۔ اس سوال کے جواب کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے انتظار میں خاموش ہوگئے۔ جس سے کچھ لوگوں کو خیال ہوا کہ آپ اس سوال سے خفا ہوگئے ہیں۔ کافی دیر بعدجب اللہ پاک نے آپ کو بذریعہ وحی جواب سے آگاہ فرمادیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مثال دے کر جو حدیث میںمذکور ہے سمجھایا اور بتلایا کہ گو دولت حق تعالیٰ کی نعمت اور اچھی چیز ہے مگر جب بے موقع اور گناہوں میں صرف کی جائے تو یہی دولت عذاب بن جاتی ہے۔ جیسے فصل کی ہری گھاس وہ جانوروں کے لیے بڑی عمدہ نعمت ہے۔ مگر جو جانور ایک ہی مرتبہ گر کر اس کو حد سے زیادہ کھا جائے تو اس کے لیے یہی گھاس زہر کا کام دیتی ہے۔ جانور پر کیا منحصر ہے۔ یہی روٹی جو آدمی کے لیے باعث حیات ہے اگر اس میں بے اعتدالی کی جائے تو باعث موت بن جاتی ہے۔ تم نے دیکھا ہوگا قحط سے متاثر بھوکے لوگ جب ایک ہی مرتبہ کھانا پالیتے ہیں اور حد سے زیادہ کھا جاتے ہیں تو بعض دفعہ ایسے لوگ پانی پیتے ہی دم توڑ دیتے ہیں اور ہلاک ہوجاتے ہیں۔ یہ کھانا ان کے لیے زہر کا کام دیتاہے۔

پس جو جانور ایک ہی مرتبہ ربیع کی پیداوار پر نہیں گرتا بلکہ سوکھی گھاس پر جو بارش سے ذرا ذرا ہری نکلتی ہے اسکے کھانے پر قناعت کرتا ہے۔ اور پھر کھانے کے بعد سورج کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوکر اس کے ہضم ہونے کا انتظار کرتا ہے۔ پاخانہ پیشاب کرتا ہے تو وہ ہلاک نہیں ہوتا۔
اسی طرح دنیا کا مال بھی ہے جو اعتدال سے حرام وحلال کی پابندی کے ساتھ اس کو کماتا ہے اس سے فائدہ اٹھاتا ہے آپ کھاتا ہے۔ مسکین‘ یتیم‘ مسافروں کی مدد کرتا ہے تو وہ بچارہتا ہے۔ مگر جو حریص کتے کی طرح دنیا کے مال واسباب پر گرپڑتا ہے اور حلال وحرام کی قید اٹھا دیتا ہے۔ آخر وہ مال اس کو ہضم نہیں ہوتا۔ اور استفراغ کی ضرورت پڑتی ہے۔ کبھی بدہضمی ہوکر اسی مال کی دھن میں اپنی جان بھی گنوادیتا ہے۔ پس مال دنیا کی ظاہری خوبصورتی پر فریب مت کھاؤ‘ ہوشیار رہو‘ حلوہ کے اندر زہرلپٹا ہوا ہے۔
حدیث کے آخری الفاظ کالذی یا کل ولا یشبع میں ایسے لالچی طماع لوگوں پر اشارہ ہے جن کو جوع البقر کی بیماری ہوجاتی ہے اور کسی طرح ان کی حرص نہیں جاتی۔
حدیث اور باب میں مطابقت حدیث کا جملہ فنعم صاحب المسلم مااعطی منہ المسکین والیتیم وابن السبیل ہے کہ اس سے یتیموں پر صدقہ کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔
 
Top