Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : بکریوں کی زکوٰۃ کا بیان
حدیث نمبر : 1454
حدثنا محمد بن عبد الله بن المثنى الأنصاري، قال حدثني أبي قال، حدثني ثمامة بن عبد الله بن أنس، أن أنسا، حدثه أن أبا بكر ـ رضى الله عنه ـ كتب له هذا الكتاب لما وجهه إلى البحرين بسم الله الرحمن الرحيم " هذه فريضة الصدقة التي فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم على المسلمين، والتي أمر الله بها رسوله، فمن سئلها من المسلمين على وجهها فليعطها، ومن سئل فوقها فلا يعط في أربع وعشرين من الإبل فما دونها من الغنم من كل خمس شاة، إذا بلغت خمسا وعشرين إلى خمس وثلاثين ففيها بنت مخاض أنثى، فإذا بلغت ستا وثلاثين إلى خمس وأربعين ففيها بنت لبون أنثى، فإذا بلغت ستا وأربعين إلى ستين ففيها حقة طروقة الجمل، فإذا بلغت واحدة وستين إلى خمس وسبعين ففيها جذعة، فإذا بلغت ـ يعني ـ ستا وسبعين إلى تسعين ففيها بنتا لبون، فإذا بلغت إحدى وتسعين إلى عشرين ومائة ففيها حقتان طروقتا الجمل، فإذا زادت على عشرين ومائة ففي كل أربعين بنت لبون، وفي كل خمسين حقة، ومن لم يكن معه إلا أربع من الإبل فليس فيها صدقة، إلا أن يشاء ربها، فإذا بلغت خمسا من الإبل ففيها شاة، وفي صدقة الغنم في سائمتها إذا كانت أربعين إلى عشرين ومائة شاة، فإذا زادت على عشرين ومائة إلى مائتين شاتان، فإذا زادت على مائتين إلى ثلاثمائة ففيها ثلاث، فإذا زادت على ثلاثمائة ففي كل مائة شاة، فإذا كانت سائمة الرجل ناقصة من أربعين شاة واحدة فليس فيها صدقة، إلا أن يشاء ربها، وفي الرقة ربع العشر، فإن لم تكن إلا تسعين ومائة فليس فيها شىء، إلا أن يشاء ربها".
ہم سے محمد بن عبداللہ بن مثنیٰ انصاری نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے بیان کیا ‘ ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب انہیں بحرین ( کا حاکم بناکر ) بھیجا تو ان کو یہ پروانہ لکھ دیا۔
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
یہ زکوٰۃ کا وہ فریضہ ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لیے فرض قرار دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا۔ اس لیے جو شخص مسلمانوں سے اس پروانہ کے مطابق زکوٰۃ مانگے تو مسلمانوں کو اسے دے دینا چاہیے اور اگر کوئی اس سے زیادہ مانگے تو ہرگز نہ دے۔ چوبیس یا اس سے کم اونٹوں میں ہر پانچ اونٹ پر ایک بکری دینی ہوگی۔ ( پانچ سے کم میں کچھ نہیں ) لیکن جب اونٹوں کی تعداد پچیس تک پہنچ جائے تو پچیس سے پینتیس تک ایک ایک برس کی اونٹنی واجب ہوگی جو مادہ ہوتی ہے۔ جب اونٹ کی تعداد چھتیس تک پہنچ جائے ( تو چھتیس سے ) پینتالیس تک دو برس کی مادہ واجب ہوگی۔ جب تعداد چھیالیس تک پہنچ جائے ( تو چھیالیس سے ) ساٹھ تک میں تین برس کی اونٹنی واجب ہوگی جو جفتی کے قابل ہوتی ہے۔ جب تعداد اکسٹھ تک پہنچ جائے ( تو اکسٹھ سے ) پچھترتک چار برس کی مادہ واجب ہوگی۔ جب تعداد چھہتر تک پہنچ جائے ( تو چھہتر سے ) نوے تک دو دو برس کی دو اونٹنیاں واجب ہوں گی۔ جب تعداد اکیانوے تک پہنچ جائے تو ( اکیانوے سے ) ایک سوبیس تک تین تین برس کی دو اونٹنیاں واجب ہوں گی جو جفتی کے قابل ہوں۔ پھر ایک سوبیس سے بھی تعداد آگے بڑھ جائے تو ہر چالیس پر دو برس کی اونٹنی واجب ہوگی اور ہر پچاس پر ایک تین برس کی۔ اور اگر کسی کے پاس چار اونٹ سے زیادہ نہیں تو اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی مگر جب ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دے اور ان بکریوں کی زکوٰۃ جو ( سال کے اکثر حصے جنگل یا میدان وغیرہ میں ) چرکر گزارتی ہیں اگر ان کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی ہو تو ( چالیس سے ) ایک سو بیس تک ایک بکری واجب ہوگی اور جب ایک سوبیس سے تعداد بڑھ جائے ( تو ایک سوبیس سے ) سے دو سوتک دوبکریاں واجب ہوں گی۔ اگر دوسو سے بھی تعداد بڑھ جائے تو ( تو دو سو سے ) تین سو تک تین بکریاں واجب ہوں گی اور جب تین سو سے بھی تعداد آگے نکل جائے تو اب ہر ایک سوپر ایک بکری واجب ہوگی۔ اگر کسی شخص کی چرنے والی بکریاں چالیس سے ایک بھی کم ہوں تو ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی مگر اپنی خوشی سے مالک کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ اور چاندی میں زکوٰۃ چالیسواں حصہ واجب ہوگی لیکن اگر کسی کے پاس ایک سونوے ( درہم ) سے زیادہ نہیں ہیں تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی مگر خوشی سے کچھ اگر مالک دینا چاہیے تو اور بات ہے۔
تشریح : زکوٰۃ ان ہی گائے‘ بیل یا اونٹوں یا بکریوں میں واجب ہے جو آدھے برس سے زیادہ جنگل میں چرلیتی ہوں اور اگر آدھے برس سے زیادہ ان کو گھر سے کھلانا پڑتا ہے تو ان پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ اہلحدیث کے نزدیک سوا ان تین جانوروں یعنی اونٹ‘ گائے‘ بکری کے سوا اور کسی جانور میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ مثلاً گھوڑوں یا خچروں یا گدھوں میں۔ ( وحیدی
باب : بکریوں کی زکوٰۃ کا بیان
حدیث نمبر : 1454
حدثنا محمد بن عبد الله بن المثنى الأنصاري، قال حدثني أبي قال، حدثني ثمامة بن عبد الله بن أنس، أن أنسا، حدثه أن أبا بكر ـ رضى الله عنه ـ كتب له هذا الكتاب لما وجهه إلى البحرين بسم الله الرحمن الرحيم " هذه فريضة الصدقة التي فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم على المسلمين، والتي أمر الله بها رسوله، فمن سئلها من المسلمين على وجهها فليعطها، ومن سئل فوقها فلا يعط في أربع وعشرين من الإبل فما دونها من الغنم من كل خمس شاة، إذا بلغت خمسا وعشرين إلى خمس وثلاثين ففيها بنت مخاض أنثى، فإذا بلغت ستا وثلاثين إلى خمس وأربعين ففيها بنت لبون أنثى، فإذا بلغت ستا وأربعين إلى ستين ففيها حقة طروقة الجمل، فإذا بلغت واحدة وستين إلى خمس وسبعين ففيها جذعة، فإذا بلغت ـ يعني ـ ستا وسبعين إلى تسعين ففيها بنتا لبون، فإذا بلغت إحدى وتسعين إلى عشرين ومائة ففيها حقتان طروقتا الجمل، فإذا زادت على عشرين ومائة ففي كل أربعين بنت لبون، وفي كل خمسين حقة، ومن لم يكن معه إلا أربع من الإبل فليس فيها صدقة، إلا أن يشاء ربها، فإذا بلغت خمسا من الإبل ففيها شاة، وفي صدقة الغنم في سائمتها إذا كانت أربعين إلى عشرين ومائة شاة، فإذا زادت على عشرين ومائة إلى مائتين شاتان، فإذا زادت على مائتين إلى ثلاثمائة ففيها ثلاث، فإذا زادت على ثلاثمائة ففي كل مائة شاة، فإذا كانت سائمة الرجل ناقصة من أربعين شاة واحدة فليس فيها صدقة، إلا أن يشاء ربها، وفي الرقة ربع العشر، فإن لم تكن إلا تسعين ومائة فليس فيها شىء، إلا أن يشاء ربها".
ہم سے محمد بن عبداللہ بن مثنیٰ انصاری نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے بیان کیا ‘ ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب انہیں بحرین ( کا حاکم بناکر ) بھیجا تو ان کو یہ پروانہ لکھ دیا۔
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
یہ زکوٰۃ کا وہ فریضہ ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لیے فرض قرار دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا۔ اس لیے جو شخص مسلمانوں سے اس پروانہ کے مطابق زکوٰۃ مانگے تو مسلمانوں کو اسے دے دینا چاہیے اور اگر کوئی اس سے زیادہ مانگے تو ہرگز نہ دے۔ چوبیس یا اس سے کم اونٹوں میں ہر پانچ اونٹ پر ایک بکری دینی ہوگی۔ ( پانچ سے کم میں کچھ نہیں ) لیکن جب اونٹوں کی تعداد پچیس تک پہنچ جائے تو پچیس سے پینتیس تک ایک ایک برس کی اونٹنی واجب ہوگی جو مادہ ہوتی ہے۔ جب اونٹ کی تعداد چھتیس تک پہنچ جائے ( تو چھتیس سے ) پینتالیس تک دو برس کی مادہ واجب ہوگی۔ جب تعداد چھیالیس تک پہنچ جائے ( تو چھیالیس سے ) ساٹھ تک میں تین برس کی اونٹنی واجب ہوگی جو جفتی کے قابل ہوتی ہے۔ جب تعداد اکسٹھ تک پہنچ جائے ( تو اکسٹھ سے ) پچھترتک چار برس کی مادہ واجب ہوگی۔ جب تعداد چھہتر تک پہنچ جائے ( تو چھہتر سے ) نوے تک دو دو برس کی دو اونٹنیاں واجب ہوں گی۔ جب تعداد اکیانوے تک پہنچ جائے تو ( اکیانوے سے ) ایک سوبیس تک تین تین برس کی دو اونٹنیاں واجب ہوں گی جو جفتی کے قابل ہوں۔ پھر ایک سوبیس سے بھی تعداد آگے بڑھ جائے تو ہر چالیس پر دو برس کی اونٹنی واجب ہوگی اور ہر پچاس پر ایک تین برس کی۔ اور اگر کسی کے پاس چار اونٹ سے زیادہ نہیں تو اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی مگر جب ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دے اور ان بکریوں کی زکوٰۃ جو ( سال کے اکثر حصے جنگل یا میدان وغیرہ میں ) چرکر گزارتی ہیں اگر ان کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی ہو تو ( چالیس سے ) ایک سو بیس تک ایک بکری واجب ہوگی اور جب ایک سوبیس سے تعداد بڑھ جائے ( تو ایک سوبیس سے ) سے دو سوتک دوبکریاں واجب ہوں گی۔ اگر دوسو سے بھی تعداد بڑھ جائے تو ( تو دو سو سے ) تین سو تک تین بکریاں واجب ہوں گی اور جب تین سو سے بھی تعداد آگے نکل جائے تو اب ہر ایک سوپر ایک بکری واجب ہوگی۔ اگر کسی شخص کی چرنے والی بکریاں چالیس سے ایک بھی کم ہوں تو ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی مگر اپنی خوشی سے مالک کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ اور چاندی میں زکوٰۃ چالیسواں حصہ واجب ہوگی لیکن اگر کسی کے پاس ایک سونوے ( درہم ) سے زیادہ نہیں ہیں تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی مگر خوشی سے کچھ اگر مالک دینا چاہیے تو اور بات ہے۔
تشریح : زکوٰۃ ان ہی گائے‘ بیل یا اونٹوں یا بکریوں میں واجب ہے جو آدھے برس سے زیادہ جنگل میں چرلیتی ہوں اور اگر آدھے برس سے زیادہ ان کو گھر سے کھلانا پڑتا ہے تو ان پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ اہلحدیث کے نزدیک سوا ان تین جانوروں یعنی اونٹ‘ گائے‘ بکری کے سوا اور کسی جانور میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ مثلاً گھوڑوں یا خچروں یا گدھوں میں۔ ( وحیدی