• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : جو شخص اپنا میوہ یاکھجور کا درخت یا کھیت بیچ ڈالے

وقد وجب فيه العشر أو الصدقة فأدى الزكاة من غيره أو باع ثماره ولم تجب فيه الصدقة‏.‏ وقول النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا تبيعوا الثمرة حتى يبدو صلاحها‏"‏‏. ‏ فلم يحظر البيع بعد الصلاح على أحد ولم يخص من وجب عليه الزكاة ممن لم تجب‏.‏ حالانکہ اس میں دسواں حصہ یا زکوٰۃ واجب ہوچکی ہو اب وہ اپنے دوسرے مال سے یہ زکوٰۃ ادا کرے تو یہ درست ہے یا وہ میوہ بیچے جس میں صدقہ واجب ہی نہ ہوا ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میوہ اس وقت تک نہ بیچو جب تک اس کی پختگی نہ معلوم ہوجائے۔ اور پختگی معلوم ہوجانے کے بعد کسی کو بیچنے سے آپ نے منع نہیں فرمایا۔ اور یوں نہیں فرمایا کہ زکوٰۃ واجب ہوگئی ہو تو نہ بیچے اور واجب نہ ہوئی ہوتو بیچے۔

امام بخاری رحمہ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ ہر حال میں مالک کو اپنامال بیچنا درست ہے خواہ اس میں زکوٰۃ اور عشر واجب ہوگیا ہو یا نہ ہوا ہو۔ اور رد کیا شافعی رحمہ اللہ کے قول کو جنہوں نے ایسے مال کا بیچنا جائز نہیں رکھا جس میں زکوٰۃ واجب ہوگئی ہو جب تک زکوٰۃ ادا نہ کرے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمان نبوی لا تبیحوا الثمرۃ الخ کے عموم سے دلیل لی کہ میوہ کی پختگی کے جب آثار معلوم ہوجائیں تو اس کا بیچنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقاً درست رکھا اور زکوٰۃ کے وجوب یا عدم وجوب کی آپ نے کوئی قید نہیں لگائی۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1486
حدثنا حجاج، حدثنا شعبة، أخبرني عبد الله بن دينار، سمعت ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع الثمرة حتى يبدو صلاحها‏.‏ وكان إذا سئل عن صلاحها قال حتى تذهب عاهته‏.‏
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے عبداللہ بن دینار نے خبر دی ‘ کہا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کو ( درخت پر ) اس وقت تک بیچنے سے منع فرمایا ہے جب تک اس کی پختگی ظاہر نہ ہو۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ سے جب پوچھتے کہ اس کی پختگی کیاہے، وہ کہتے کہ جب یہ معلوم ہوجائے کہ اب یہ پھل آفت سے بچ رہے گا۔

حدیث نمبر : 1487
حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثني الليث، حدثني خالد بن يزيد، عن عطاء بن أبي رباح، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ‏.‏ نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع الثمار حتى يبدو صلاحها‏.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے خالد بن یزید نے بیان کیا ‘ ان سے عطاءبن ابی رباح نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھل کو اس وقت تک بیچنے سے منع فرمایا جب تک ان کی پختگی کھل نہ جائے۔

حدیث نمبر : 1488
حدثنا قتيبة، عن مالك، عن حميد، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الثمار حتى تزهي، قال حتى تحمار‏.‏
ہم سے قتیبہ نے امام مالک سے بیان کیا ‘ ان سے حمید نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تک پھل پر سرخی نہ آجائے ‘ انہیں بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ مراد یہ ہے کہ جب تک وہ پک کر سرخ نہ ہوجائیں۔

یعنی یہ یقین نہ ہوجائے کہ اب میوہ ضرور اترے گا اور کسی آفت کا ڈر نہ رہے۔ پختہ ہونے کا مطلب یہ کہ اس کے رنگ سے اس کی پختگی ظاہر ہوجائے۔ اس سے پہلے بیچنا اس لیے منع ہوا کہ کبھی کوئی آفت آتی ہے تو سارا میوہ خراب ہوجاتا ہے یا گر جاتا ہے۔ اب گویا مشتری کا مال مفت کھالینا ٹھہرا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : کیا آدمی اپنی چیز کو جو صدقہ میں دی ہو پھر خرید سکتا ہے؟ اور دوسرے کا دیا ہوا صدقہ خریدنے میں تو کوئی حرج نہیں۔

ولا بأس أن يشتري صدقته غيره لأن النبي صلى الله عليه وسلم إنما نهى المتصدق خاصة عن الشراء ولم ينه غيره‏.
کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص صدقہ دینے والے کو پھر اس کے خریدنے سے منع فرمایا۔ لیکن دوسرے شخص کو منع نہیں فرمایا۔

حدیث نمبر : 1489
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن سالم، أن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ كان يحدث أن عمر بن الخطاب تصدق بفرس في سبيل الله فوجده يباع، فأراد أن يشتريه، ثم أتى النبي صلى الله عليه وسلم فاستأمره فقال ‏"‏ لا تعد في صدقتك ‏"‏ فبذلك كان ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ لا يترك أن يبتاع شيئا تصدق به إلا جعله صدقة‏.‏
ہم سے یحیٰی بن بکیر نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے عقیل نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے سالم نے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے تھے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک گھوڑا اللہ کے راستہ میں صدقہ کیا۔ پھر اسے آپ نے دیکھا کہ وہ بازار میں فروخت ہورہا ہے۔ اس لیے ان کی خواہش ہوئی کہ اسے وہ خود ہی خرید لیں۔ اور اجازت لینے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنا صدقہ واپس نہ لو۔ اسی وجہ سے اگر ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنا دیا ہوا کوئی صدقہ خرید لیتے ‘ تو پھر اسے صدقہ کردیتے تھے۔ ( اپنے استعمال میں نہ رکھتے تھے ) باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔

حدیث نمبر : 1490
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك بن أنس، عن زيد بن أسلم، عن أبيه، قال سمعت عمر ـ رضى الله عنه ـ يقول حملت على فرس في سبيل الله، فأضاعه الذي كان عنده، فأردت أن أشتريه، وظننت أنه يبيعه برخص، فسألت النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ لا تشتر ولا تعد في صدقتك، وإن أعطاكه بدرهم، فإن العائد في صدقته كالعائد في قيئه‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں امام مالک بن انس نے خبر دی ‘ انہیں زید بن اسلم نے اور ان سے ان کے باپ نے بیان کیا ‘ کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ انہوں نے ایک گھوڑا اللہ تعالیٰ کے راستہ میں ایک شخص کو سواری کے لیے دے دیا۔ لیکن اس شخص نے گھوڑے کو خراب کردیا۔ اس لیے میں نے چاہا کہ اسے خرید لوں۔ میرا یہ بھی خیال تھا کہ وہ اسے سستے داموں بیچ ڈالے گا۔ چنانچہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنا صدقہ واپس نہ لو۔ خواہ وہ تمہیں ایک درہم ہی میں کیوں نہ دے کیونکہ دیاہوا صدقہ واپس لینے والے کی مثال قے کرکے چاٹنے والے کی سی ہے۔

باب کی حدیثوں سے بظاہر یہ نکلتا ہے کہ اپنا دیا ہوا صدقہ تو خریدنا حرام ہے لیکن دوسرے کا دیا ہوا صدقہ فقیر سے فراغت کے ساتھ خرید سکتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر صدقہ کا حرام ہونا

حدیث نمبر : 1491
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا محمد بن زياد، قال سمعت أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال أخذ الحسن بن علي ـ رضى الله عنهما ـ تمرة من تمر الصدقة، فجعلها في فيه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ كخ كخ ـ ليطرحها ثم قال ـ أما شعرت أنا لا نأكل الصدقة‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن زیاد نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے زکوٰۃ کی کھجوروں کے ڈھیر سے ایک کھجور اٹھاکر اپنے منہ میں ڈال لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ چھی چھی! نکالو اسے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم لوگ صدقہ کامال نہیں کھاتے۔

قسطلانی نے کہا کہ ہمارے اصحاب کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ فرض زکوٰۃ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل کے لیے حرام ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے۔ امام جعفر صادق سے شافعی رحمہ اللہ اور بیہقی رحمہ اللہ نے نکالا کہ وہ سبیلوں میں سے پانی پیا کرتے۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو صدقے کا پانی ہے‘ انہوں نے کہا ہم پر فرض زکوٰۃ حرام ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کی لونڈی غلاموں کو صدقہ دینا درست ہے

حدیث نمبر : 1492
حدثنا سعيد بن عفير، حدثنا ابن وهب، عن يونس، عن ابن شهاب، حدثني عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال وجد النبي صلى الله عليه وسلم شاة ميتة أعطيتها مولاة لميمونة من الصدقة، قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ هلا انتفعتم بجلدها‏"‏‏. ‏ قالوا إنها ميتة‏.‏ قال ‏"‏ إنما حرم أكلها‏"‏‏. ‏
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ‘ ان سے یونس نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ کہا کہ مجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ رضی اللہ عنہما کی باندی کو جو بکری صدقہ میں کسی نے دی تھی وہ مری ہوئی دیکھی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ اس کے چمڑے کو کیوں نہیں کام میں لائے۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو مردہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ حرام تو صرف اس کا کھانا ہے۔

حدیث نمبر : 1493
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا الحكم، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أنها أرادت أن تشتري بريرة للعتق، وأراد مواليها أن يشترطوا ولاءها، فذكرت عائشة للنبي صلى الله عليه وسلم فقال لها النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اشتريها، فإنما الولاء لمن أعتق‏"‏‏. ‏ قالت وأتي النبي صلى الله عليه وسلم بلحم فقلت هذا ما تصدق به على بريرة فقال ‏"‏ هو لها صدقة، ولنا هدية‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے حکم بن عتبہ نے بیان کیا ‘ ان سے ابراہیم نخعی نے ‘ ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہ ان کا ارادہ ہوا کہ بریرہ رضی اللہ عنہ کو ( جو باندی تھیں ) آزاد کردینے کے لیے خرید لیں۔ لیکن اس کے اصل مالک یہ چاہتے تھے کہ ولاء انہیں کے لیے رہے۔ اس کا ذکر عائشہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ تو آپ نے فرمایا کہ تم خرید کر آزاد کر دو’ ولاءتو اسی کی ہوتی ہے ‘ جو آزاد کرے۔ انہو ں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا۔ میں نے کہا کہ یہ بریرہ رضی اللہ عنہ کو کسی نے صدقہ کے طورپر دیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ یہ ان کے لیے صدقہ تھا۔ لیکن اب ہمارے لیے یہ ہدیہ ہے۔

غلام کے آزاد کردینے کے بعد مالک اور آزاد شدہ غلام میں بھائی چارہ کے تعلق کو ولاءکہا جاتا ہے۔ گیا غلام آزاد ہونے کے بعد بھی اصل مالک سے کچھ نہ کچھ متعلق رہتا تھا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو اس شخص کا حق ہے جو اسے خرید کر آزاد کرا رہا ہے اب بھائی چارے کا تعلق اصل مالک کی بجائے اس خرید کر آزاد کرنے والے سے ہوگا۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : جب صدقہ محتاج کی ملک ہوجائے

حدیث نمبر : 1494
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا خالد، عن حفصة بنت سيرين، عن أم عطية الأنصارية ـ رضى الله عنها ـ قالت دخل النبي صلى الله عليه وسلم على عائشة ـ رضى الله عنها ـ فقال ‏"‏ هل عندكم شىء‏"‏‏. ‏ فقالت لا‏.‏ إلا شىء بعثت به إلينا نسيبة من الشاة التي بعثت بها من الصدقة‏.‏ فقال ‏"‏ إنها قد بلغت محلها‏"‏‏. ‏
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے خالد حذاءنے بیان کیا ‘ ان سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے یہاں تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے پاس کچھ ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ نہیں کوئی چیز نہیں۔ ہاں نسیبہ رضی اللہ عنہ کا بھیجا ہوا اس بےکری کا گوشت ہے جو انہیں صدقہ کے طورپر ملی ہے۔ تو آپ نے فرمایا لاؤ خیرات تو اپنے ٹھکانے پہنچ گئی۔

معلوم ہوا کہ صدقہ کا مال بایں طور اغنیاءکی تحویل میں بھی آسکتا ہے۔ کیونکہ یہ محتاج آدمی کی ملکیت میں ہوکر اب کسی کو بھی مسکین کی طرف سے دیا جاسکتا ہے۔

حدیث نمبر : 1495
حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا وكيع، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم أتي بلحم تصدق به على بريرة فقال ‏"‏ هو عليها صدقة، وهو لنا هدية‏"‏‏. وهل يترك الصبي فيمس تمر الصدقة.‏
ہم سے یحیٰی بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ انہو ںنے کہا کہ ہم سے وکیع نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ قتادہ سے اور وہ انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وہ گوشت پیش کیا گیا جو بریرہ رضی اللہ عنہ کو صدقہ کے طورپر ملا تھا۔ آپ نے فرمایا کو یہ گوشت ان پر صدقہ تھا۔ لیکن ہمارے لیے یہ ہدیہ ہے۔ ابوداؤد نے کہا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی۔ انہیں قتادہ نے کہ انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے تھے۔

مقصد یہ ہے کہ صدقہ مسکین کی ملکیت میں آکر اگر کسی کو بطور تحفہ پیش کردیا جائے تو جائز ہے اگرچہ وہ تحفہ پانے والا غنی ہی کیوں نہ ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : مالداروں سے زکوٰۃ وصول کی جائے۔ اور فقراءپر خرچ کردی جائے خواہ وہ کہیں بھی ہوں

حدیث نمبر : 1496
حدثنا محمد، أخبرنا عبد الله، أخبرنا زكرياء بن إسحاق، عن يحيى بن عبد الله بن صيفي، عن أبي معبد، مولى ابن عباس عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لمعاذ بن جبل حين بعثه إلى اليمن ‏"‏ إنك ستأتي قوما أهل كتاب، فإذا جئتهم فادعهم إلى أن يشهدوا أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، فإن هم أطاعوا لك بذلك، فأخبرهم أن الله قد فرض عليهم خمس صلوات في كل يوم وليلة، فإن هم أطاعوا لك بذلك فأخبرهم أن الله قد فرض عليهم صدقة تؤخذ من أغنيائهم فترد على فقرائهم، فإن هم أطاعوا لك بذلك فإياك وكرائم أموالهم، واتق دعوة المظلوم، فإنه ليس بينه وبين الله حجاب‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں زکریا ابن اسحاق نے خبر دی ‘ انہیں یحیٰی بن عبداللہ بن صیفی نے ‘ انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام ابومعبدنے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن بھیجا ‘ تو ان سے فرمایا کہ تم ایک ایسی قوم کے پاس جارہے ہو جو اہل کتاب ہیں۔ اس لیے جب تم وہاں پہنچو تو پہلے انہیں دعوت دو کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے سچے رسول ہیں۔ وہ اس بات میں جب تمہاری بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر روزانہ دن رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ تمہاری یہ بات بھی مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ دینا ضروری قرار دیا ہے ‘ یہ ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے غریبوں پر خرچ کی جائے گی۔ پھر جب وہ اس میں بھی تمہاری بات مان لیں تو ان کے اچھے مال لینے سے بچو اور مظلوم کی آہ سے ڈرو کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔

تشریح : اس حدیث کے ذیل مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں “قال الحافظ استدل بہ علی ان الامام الذی یتولی قبض الزکوٰۃ وصوفہا امابنفسہ واما بنائبہ فمن امتنع منہا اخذت منہ قہراً یعنی حافظ ابن حجر نے کہا کہ اس حدیث کے جملہ تؤخذ من اغنیائہم سے دلیل لی گئی ہے کہ زکوٰۃ امام وقت وصول کرے گا۔ اور وہی اسے اس کے مصارف میں خرچ کرے گا۔ وہ خود کرے یا اپنے نائب سے کرائے۔ اگر کوئی زکوٰۃ اسے نہ دے تو وہ زبردستی اس سے وصول کرے گا۔ بعض لوگوں نے یہاں جانوروں کی زکوٰۃ مراد لی ہے اور سونے چاندی کی زکوٰۃ میں مختار قرار دیا ہے۔ فان ادی زکوٰتہما خفیۃ یجزءللہ لیکن حضرت مولانا عبیداللہ مد ظلہ فرماتے ہیں والظاہر عندی ان ولایۃ اخذ الامام ظاہرۃ وباطنۃ فان لم یکن امام فرقہا المالک فی مصارفہا وقد حقق ذلک الشوکانی فی السیل الجرار بما لا مزید علیہ فلیرجع الیہ۔ یعنی میرے نزدیک تو ظاہر وباطن ہر قسم کے اموال کے لیے امام وقت کی تولیت ضروری ہے۔ اور اگر امام نہ ہو ( جیسے کہ دور حاضرہ میں کوئی امام خلیفۃ المسلمین نہیں ) تو مالک کو اختیار ہے کہ اس کے مصارف میں خود اس مال زکوٰۃ کو خرچ کردے اس مسئلہ کو امام شوکانی نے سیل الجرار میں بڑی ہی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے جس سے زیادہ ممکن نہیں۔ جو چاہے ادھر رجوع کرسکتا ہے۔

یہ مسئلہ کہ اموال زکوٰۃ کو دوسرے شہروں میں نقل کرنا جائز ہے یا نہیں‘ اس بارے میں بھی حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مسلک اس باب سے ظاہر ہے کہ مسلمان فقراءجہاں بھی ہوں ان پر وہ صرف کیا جاسکتا ہے۔ حضرت امام رحمہ اللہ کے نزدیک ترد علی فقرآئہم کی ضمیر اہل اسلام کی طرف لوٹتی ہے۔ قال ابن المنیر اختار البخاری جواز نقل الزکوٰۃ من بلد المال لعموم قولہ فترد فی فقرائہم لان الضمیر یعود للمسلمین فای فقیر منہم ردت فیہ الصدقۃ فی ای جہۃ کان فقد وافق عموم الحدیث انتہی۔

المحدث الکبیر مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: والظاہر عندی عدم النقل الا اذا فقد المستحقون لہا اوتکون فی النقل مصلحۃ انفع واہم من عدمہ واللہ تعالیٰ اعلم ( مرعاۃ جلد 3ص 4 ) یعنی زکوٰۃ نقل نہ ہونی چاہیے مگر جب مستحق مفقود ہوں یا نقل کرنے میں زیادہ فائدہ ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : امام ( حاکم ) کی طرف سے زکوٰۃ دینے والے کے حق میں دعائے خیروبرکت کرنا

وقوله ‏{‏خذ من أموالهم صدقة تطهرهم وتزكيهم بها وصل عليهم إن صلاتك سكن لهم‏}‏‏.‏
اللہ تعالیٰ کا ( سورہ توبہ میں ) ارشاد ہے کہ آپ ان کے مال سے خیرات لیجئے جس کے ذریعہ آپ انہیں پاک کریں۔ اور ان کا تزکیہ کریں۔ اور ان کے حق میں خیروبرکت کی دعا کریں۔ آخر آیت تک۔

حدیث نمبر : 1497
حدثنا حفص بن عمر، حدثنا شعبة، عن عمرو، عن عبد الله بن أبي أوفى، قال كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا أتاه قوم بصدقتهم قال ‏"‏ اللهم صل على آل فلان‏"‏‏. ‏ فأتاه أبي بصدقته، فقال ‏"‏ اللهم صل على آل أبي أوفى‏"‏‏.
ہم سے حفص بن عمر نے بنان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے عمروبن مرہ سے بیان کیا ‘ ان سے عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب کوئی قوم اپنی زکوٰۃ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتی تو آپ ان کے لیے دعا فرماتے۔ اے اللہ! آل فلاں کو خیرو برکت عطا فرما ‘ میرے والد بھی اپنی زکوٰۃ لے کر حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! آل ابی اوفیٰ کو خیروبرکت عطا فرما۔

تشریح : حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے ثابت فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی خلفائے اسلام کے لیے مناسب ہے کہ وہ زکوٰۃ ادا کرنے والوں کے حق میں خیروبرکت کی دعائیں کریں۔ لفظ امام سے ایسے ہی خلیفہ اسلام مراد ہیں جو فی الواقع مسلمانوں کے لیے انما الامام جنۃ یقاتل من ورائہ الخ ( امام لوگوں کے لیے ڈھال ہے جس کے پیچھے ہوکر لڑائی کی جاتی ہے ) کے مصداق ہوں۔

زکوٰۃ اسلامی اسٹیٹ کے لیے اور اس کے بیت المال کے لیے ایک اہم ذریعہ آمدنی ہے جس کے وجود پذیر ہونے سے ملت کے کتنے ہی مسائل ہوتے ہیں۔ عہد رسالت اور پھر عہد خلافت راشدہ کے تجربات اس پر شاہد عادل ہیں۔ مگر صد افسوس کہ اب نہ تو کہیں وہ صحیح اسلامی نظام ہے اور نہ وہ حقیقی بیت المال۔ اس لیے خود مالداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی دیانت کے پیش نظر زکوٰۃ نکالیں اور جو مصارف ہیں ان میں دیانت کے ساتھ خرچ کریں۔ دور حاضرہ میں کسی مولوی یا مسجد کے پیش امام یا کسی مدرسہ کے مدرس کو امام وقت خلیفہ اسلام تصور کرکے اور یہ سمجھ کر کہ ان کو دئیے بغیر زکوٰۃ ادا نہ ہوگی‘ زکوٰۃ ان کے حوالہ کرنا بڑی نادانی بلکہ اپنی زکوٰۃ کو غیر مصرف میں خرچ کرنا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : جو مال سمندر سے نکالا جائے

وقال ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ ليس العنبر بركاز هو شىء دسره البحر‏.‏
اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عنبر کو رکاز نہیں کہہ سکتے۔ عنبر تو ایک چیز ہے جسے سمندر کنارے پر پھینک دیتا ہے۔

وقال الحسن في العنبر واللؤلؤ الخمس، فإنما جعل النبي صلى الله عليه وسلم في الركاز الخمس، ليس في الذي يصاب في الماء‏.
اور امام بصری رحمہ اللہ نے کہا عنبر اور موتی میں پانچواں حصہ لازم ہے۔ حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رکاز میں پانچواں حصہ مقرر فرمایا ہے۔ تو رکاز اس کو نہیں کہتے جو پانی میں ملے۔

حدیث نمبر : 1498
وقال الليث حدثني جعفر بن ربيعة، عن عبد الرحمن بن هرمز، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أن رجلا من بني إسرائيل سأل بعض بني إسرائيل بأن يسلفه ألف دينار، فدفعها إليه، فخرج في البحر، فلم يجد مركبا، فأخذ خشبة فنقرها فأدخل فيها ألف دينار، فرمى بها في البحر، فخرج الرجل الذي كان أسلفه، فإذا بالخشبة فأخذها لأهله حطبا ـ فذكر الحديث ـ فلما نشرها وجد المال‏"‏‏. ‏
اور لیث نے کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیا ن کیا ‘ انہوں نے عبدالرحمن بن ہرمز سے ‘ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ‘ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے دوسرے بنی اسرائیل کے شخص سے ہزار اشرفیاں قرض مانگیں۔ اس نے اللہ کے بھروسے پر اس کو دے دیں۔ اب جس نے قرض لیا تھا وہ سمندر پر گیا کہ سوار ہوجائے اور قرض خواہ کا قرض ادا کرے لیکن سواری نہ ملی۔ آخر اس نے قرض خواہ تک پہنچنے سے ناامید ہوکر ایک لکڑی لی اس کو کریدا اور ہزار اشرفیاں اس میں بھر کروہ لکڑی سمندر میں پھینک دی۔ اتفاق سے قرض خواہ کام کاج کو باہر نکلا ‘ سمندر پر پہنچا تو ایک لکڑی دیکھی اور اس کو گھر میں جلانے کے خیال سے لے آیا۔ پھر پوری حدیث بیان کی۔ جب لکڑی کو چیرا تو اس میں اشرفیاں پائیں۔

تشریح : حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ یہ ثابت فرمانا چاہتے ہیں کہ دریا میں سے جو چیزیں ملیں عنبر موتی وغیرہ ان میں زکوٰۃ نہیں ہے اور جن حضرات نے ایسی چیزوں کو رکاز میں شامل کیا ہے ان کا قول صحیح نہیں۔

حضرت امام اس ذیل میں یہ اسرائیلی واقعہ لائے جس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ قال الاسماعیلی لیس فی ہذا الحدیث شئی یناسب الترجمۃ رجل اقترض قرضاً فارتجع قرضہ وکذا قال الداودی حدیث الخشبۃ لیس من ہذا الباب فی شئی واجاب عبدالملک بانہ اشاربہ الی ان کل ماالقاہ البحر جاز اخذہ ولا خمس فیہ الخ ( فتح الباری )
یعنی اسماعیلی نے کہا کہ اس حدیث میں باب سے کوئی وجہ مناسبت نہیں ہے ایسا ہی داؤدی نے بھی کہا کہ حدیث خشبہ کو ( لکڑی جس میں روپیہ ملا ) اس سے کوئی مناسبت نہیں۔ عبدالملک نے ان حضرات کو یہ جواب دیا ہے کہ اس کے ذریعہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ ہر وہ چیز جسے دریا باہر پھینک دے اس کا لینا جائز ہے اور اس میں خمس نہیں ہے اس لحاظ سے حدیث اور باب میں مناسبت موجود ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں وذہب الجمھورالی انہ لا یجب فیہ شئی یعنی جمہور اس طرف گئے ہیں کہ دریا سے جو چیزیں نکالی جائیں ان میں زکوٰۃ نہیں ہے۔

اسرائیلی حضرات کا یہ واقعہ قابل عبرت ہے کہ دینے والے نے محض اللہ کی ضمانت پر اس کو ایک ہزار اشرفیاں دے ڈالیں اور اسکی امانت ودیانت کو اللہ نے اس طرح ثابت رکھا کہ لکڑی کو معہ اشرفیوں کے قرض دینے والے تک پہنچا دیا۔ اور اس نے بایں صورت اپنی اشرفیوں کو وصول کرلیا۔ فیالواقع اگر قرض لینے والا وقت پر ادا کرنے کی صحیح نیت دل میں رکھتا ہو تو اللہ پاک ضرور ضرور کسی نہ کسی ذریعہ سے ایسے سامان مہیا کرا دیتا ہے کہ وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ یہ مضمون ایک حدیث میں بھی آیا ہے۔ مگر آج کل ایسے دیانت دار عنقا ہیں۔ الا ماشاءاللہ وباللہ التوفیق۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : رکاز میں پانچواں حصہ واجب ہے

وقال مالك وابن إدريس الركاز دفن الجاهلية، في قليله وكثيره الخمس‏.‏ وليس المعدن بركاز، وقد قال النبي صلى الله عليه وسلم في المعدن ‏"‏ جبار، وفي الركاز الخمس‏"‏‏. ‏ وأخذ عمر بن عبد العزيز من المعادن من كل مائتين خمسة‏.‏ وقال الحسن ما كان من ركاز في أرض الحرب ففيه الخمس، وما كان من أرض السلم ففيه الزكاة، وإن وجدت اللقطة في أرض العدو فعرفها، وإن كانت من العدو ففيها الخمس‏.‏ وقال بعض الناس المعدن ركاز مثل دفن الجاهلية لأنه يقال أركز المعدن‏.‏ إذا خرج منه شىء‏.‏ قيل له قد يقال لمن وهب له شىء، أو ربح ربحا كثيرا، أو كثر ثمره أركزت‏.‏ ثم ناقض وقال لا بأس أن يكتمه فلا يؤدي الخمس‏.‏ وقال بعض الناس: المعدن ركاز مثل دفن الجاهلية، لأنه يقال: أركز المعدن إذا خرج منه شيء. قيل له: قد يقال لمن وهب له شيء، أو ربح ربحا كثيرا، أو كثر ثمره، أركزت. ثم ناقض، وقال: لا بأس أن يكتمه فلا يؤدي الخمس.
اور امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا رکاز جاہلیت کے زمانے کا خزانہ ہے۔ اس میں تھوڑا مال نکلے یا بہت پانچواں حصہ لیا جائے گا۔ اور کان رکاز نہیں ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کان کے بارے میں فرمایا اس میں اگر کوئی گر کریا کام کرتا ہوا مرجائے تو اس کی جان مفت گئی۔ اور رکاز میں پانچواں حصہ ہے۔ اور عمر بن عبدالعزیز خلیفہ کانوں میں سے چالیسواں حصہ لیا کرتے تھے۔ دو سو روپوں میں سے پانچ روپیہ۔ اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے کہاجو رکاز دارالحرب میں پائے تو اس میں سے پانچواں حصہ لیا جائے اور جو امن اور صلح کے ملک میں ملے تو اس میں سے زکوٰۃ چالیسواں حصہ لی جائے۔ اور اگر دشمن کے ملک میں پڑی ہوئی چیز ملے تو اس کو پہنچوادے ( شاید مسلمان کا مال ہو ) اگر دشمن کا مال ہوتو اس میں سے پانچواں حصہ ادا کرے۔ اور بعض لوگوں نے کہا معدن بھی رکاز ہے جاہلیت کے دفینہ کی طرح کیونکہ عرب لوگ کہتے ہیں ارکزالمعدن جب اس میں سے کوئی چیز نکلے۔ ان کا جواب یہ ہے اگر کسی شخص کو کوئی چیز ہبہ کی جائے یا وہ نفع کمائے یا اس کے باغ میں میوہ بہت نکلے۔ تو کہتے ہیں ارکزت ( حالانکہ یہ چیزیں بالاتفاق رکاز نہیں ہیں ) پھر ان لوگوں نے اپنے قول کے آپ خلاف کیا۔ کہتے ہیں رکاز کا چھپالینا کچھ برا نہیں پانچواں حصہ نہ دے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ امام المحدثین امیرالمجتہدین حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے لفظ “بعض الناس” کااستعمال فرمایا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قال ابن التین المراد ببعض الناس ابو حنیفۃ قلت وہذا اول موضع ذکرہ فیہ البخاری بہذہ الصیغۃ ویحتمل ان یرید بہ ابا حنیفۃ وغیرہ من الکوفیین ممن قال بذلک قال ابن ذہب ابوحنیفۃ والثوری وغیر ہما الی ان المعدن کالرکاز واحتج لہم بقول العرب رکز الرجل اذا اصاب رکاز اوہی قطع من الذہب تخرج من المعدن وحجۃ للجمہور تفرقۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بین المعدن والرکاز بو اوالعطف فصح انہ غیرہ الخ ( فتح الباری ) یعنی ابن تین نے کہا کہ مراد یہاں حضرت امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ پہلا موقع ہے کہ ان کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اس صیغہ کے ساتھ ذکر کیا ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد امام ابوحنیفہ اور ان کے علاوہ دوسرے کوفی بھی ہوں جو ایسا کہتے ہیں۔ ابن بطال نے کہا کہ حضرت امام ابوحنیفہ اور ثوری وغیرہمانے کہا کہ معدن یعنی کان بھی رکاز ہی میں داخل ہے۔ کیونکہ جب کوئی شخص کان سے کوئی سونے کا ڈلا پالے تو عرب لوگ بولتے ہیں رکزالرجل فلاں کو رکاز مل گیا۔ اور وہ سونے کا ٹکڑا ہوتا ہے جو کان سے نکلتا ہے۔ اور جمہور کی دلیل اس بارے میں یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معدن اور رکاز کا واؤ عطف کے ساتھ الگ الگ ذکر فرمایا ہے۔ پس صحیح یہ ہوا کہ معدن اور رکاز دو الگ الگ ہیں۔
رکاز وہ پرانا دفینہ جو کسی کو کہیں مل جائے۔ اس میں سے بیت المال میں پانچواں حصہ دیا جائے گا۔ اور معدن کان کو کہتے ہیں۔ ہر دو میں فرق ظاہر ہے۔ پس ان کا حکم بھی الگ الگ ہے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ جانور سے جو نقصان پہنچے اس کا کچھ بدلہ نہیں۔ اور کنویں کا بھی معاف ہے اور کان کے حادثہ میں کوئی مرجائے تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ اور رکاز میں پانچواں حصہ ہے۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ معدن اور رکاز دو الگ الگ ہیں۔
حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: واحتج الجمہور ایضاً بان الرکاز فی لغۃ اہل الحجاز ہو دفین الجاہلیۃ ولا شک فی ان النبی الحجازی صلی اللہ علیہ وسلم تکلم بلغۃ اہل الحجاز واراد بہ مایریدون منہ قال ابن الاثیر الجزری فی النہایۃ الرکاز عند اہل الحجاز کنوز الجاہلیۃ المدفونۃ فی الارض وعند اہل العراق المعادن والقولان تحتملہما اللغۃ لان کلا منہما مرکوز فی الارض ای ثابت یقال رکزہ یرکزہ رکزاً اذا دفنہ وار کز الرجل اذا وجد الرکاز والحدیث انما جاءفی التفسیر الاول وہوالکنز الجاہلی وانما کان فیہ الخمس لکثرۃ نفعہ وسہولۃ اخذہ الخ ( مرعاۃ ج 3 ص 63 )
یعنی جمہور نے اس سے بھی حجت پکڑی ہے کہ حجازیوں کی لغت میں رکاز جاہلیت کے دفینے پر بولا جاتا ہے۔ اور کوئی شک نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی حجازی ہیں اور آپ اہل حجاز ہی کی لغت میںکلام فرماتے تھے۔ ابن اثیر جزری نے کہا کہ اہل حجاز کے نزدیک رکاز جاہلیت کے گڑے ہوئے خزانوں پر بولا جاتا ہے۔ اور اہل عراق کے ہاں کانوں پر بھی اور لغوی اعتبار سے ہردو کا احتمال ہے اس لیے کہ دونوں ہی زمین میں گڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور حدیث مذکور تفسیر اول ( یعنی عہد جاہلیت کے دفینوں ) ہی کے متعلق ہے اور وہ کنز جاہلی ہے اور اس میں خمس ہے اس لیے کہ اس کا نفع کثیر ہے اور وہ آسانی سے حاصل ہوجاتا ہے۔
اس سلسلہ میں احناف کے بھی کچھ دلائل ہیں۔ جن کی بناپر وہ معدن کو بھی رکاز میں داخل کرتے ہیں۔ کیونکہ لغت میں ارکز المعدن کا لفظ مستعمل ہے جب کان سے کوئی چیز نکلے تو کہتے ہیں ارکز المعدن حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کا الزامی جواب دیا ہے کہ لفظ ارکز تو مجازاً بعض دفعہ نفع کثیر پر بھی بولا جاتا ہے۔ وہ نفع کثیر کسی کو کسی کی بخشش سے حاصل ہویا تجارتی منافع سے ہویا کثرت پیداوار سے ایسے مواقع پر بھی لفظ ارکزت بول دیتے ہیں۔ یعنی تجھے خزانہ مل گیا۔ تو کیا اس طرح بول دینے سے اسے بھی رکاز کے ذیل میںلایا جاسکتا ہے؟ پس ایسے ہی مجازاً یہ لفظ کان پر بھی بول دیا گیا ہے۔ ورنہ حقیقت یہی ہے کہ کان رکاز میں داخل نہیں ہے۔ اس کا مزید ثبوت خود حنفی حضرات کا یہ فتویٰ ہے کہ کان کہیں پوشیدہ جگہ میں مل جائے تو پانے والا اسے چھپا بھی سکتا ہے۔ اور ان کے فتویٰ کے مطابق جو پانچواں حصہ اسے ادا کرنا ضروری تھا‘ اسے وہ اپنے ہی اوپر خرچ کرسکتا ہے۔ یہ فتویٰ بھی دلالت کررہا ہے کہ رکاز اور معدن دونوں الگ الگ ہیں۔ چند روایات بھی ہیں جو مسلک حنفیہ کی تائید میں پیش کی جاتی ہیں۔ لیکن سند کے اعتبار سے وہ بخاری شریف کی روایات مذکورہ کے برابر نہیں ہیں۔ لہٰذا ان سے استدلال ضعیف ہے۔
سارے طول طویل مباحث کے بعد حضرت شیخ الحدیث موصوف فرماتے ہیں: والقول الراجح عندنا ہو ماذہب الیہ الجمہور من ان الرکاز انما ہو کنز الجاہلیۃ الموضوع فی الارض وانہ لا یعم المعدن بل ہو غیرہ واللہ تعالیٰ اعلم۔ یعنی ہمارے نزدیک رکاز کے متعلق جمہور ہی کا قول راجح ہے کہ وہ دور جاہلیت کے دفینے ہیں جو پہلے لوگوں نے زمین میں دفن کردئیے ہیں۔ اور لفظ رکاز میں معدن داخل نہیں ہے۔ بلکہ ہردو الگ الگ ہیں۔ اور رکاز میں خمس ہے۔
رکاز کے متعلق اور بھی بہت سی تفصیلات ہیں کہ اس کا نصاب کیا ہے؟ قلیل یا کثیر میں کچھ فرق ہے یا نہیں؟ اور اس پر سال گزرنے کی قید ہے یا نہیں؟ اور وہ سونے چاندی کے علاوہ لوہا‘ تانبا‘ سیسہ‘ پیتل وغیرہ کو بھی شامل ہے یا نہیں؟ اور رکاز کامصرف کیا ہے؟ اور کیا ہرپانے والے پر اس میں خمس واجب ہے؟ پانے والا غلام ہویا آزاد ہو‘ مسلم ہو یا ذمی ہو؟ رکاز کی پہچان کیا ہے؟ کیا یہ ضروری ہے کہ اس کے سکوں پر پہلے کسی بادشاہ کا نام یا اس کی تصویر یا کوئی اور علامت ہونی ضروری ہے وغیرہ وغیرہ ان جملہ مباحث کے لیے اہل علم حضرات مرعاۃ المفاتیح جلد 3 ص 64 و 65 کا مطالعہ فرمائیں جہاں حضرت الاستاذ مولانا عبیداللہ صاحب مدظلہ نے تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے جزاہ اللہ خیر الجزاءفی الدارین۔ میں اپنے ان مختصر صفحات میں تفصیل مزید سے قاصر ہوں اور عوام کے لیے میں نے جو لکھ دیا ہے اسے کافی سمجھتا ہوں۔

حدیث نمبر : 1499
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، وعن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ العجماء جبار، والبئر جبار، والمعدن جبار، وفي الركاز الخمس‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں ابن شہاب نے ‘ ان سے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جانور سے جو نقصان پہنچے اس کاکچھ بدلہ نہیں اور کنویں کا بھی یہی حال ہے اور کان کا بھی یہی حکم ہے اور رکاز میں سے پانچواں حصہ لیا جائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : اللہ تعالیٰ نے سورہ توبہ میں فرمایا زکوٰۃ کے تحصیلداروں کو بھی زکوٰۃ سے دیا جائے گا

اور ان کو حاکم کے سامنے حساب سمجھانا ہوگا۔ یہاں کان اور رکاز کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے الگ الگ بیان فرمایا۔ اور یہی باب کا مطلب ہے۔

حدیث نمبر : 1500
حدثنا يوسف بن موسى، حدثنا أبو أسامة، أخبرنا هشام بن عروة، عن أبيه، عن أبي حميد الساعدي ـ رضى الله عنه ـ قال استعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا من الأسد على صدقات بني سليم يدعى ابن اللتبية، فلما جاء حاسبه‏.‏
ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ انہو ں نے کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے باپ ( عروہ بن زبیر ) نے بیان کیا ‘ ان سے حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسد کے ایک شخص عبداللہ بن لتبیہ کو بنی سلیم کی زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر فرمایا۔ جب وہ آئے تو آپ نے ان سے حساب لیا۔

زکوٰۃ وصول کرنے والوں سے حاکم اسلام حساب لے گا تاکہ معاملہ صاف رہے‘ کسی کو بدگمانی کا موقع نہ ملے۔ ابن منیر نے کہا کہ احتمال ہے کہ عامل مذکور نے زکوٰۃ میں سے کچھ اپنے مصارف میں خرچ کردیا ہو‘ لہٰذا اس سے حساب لیا گیا۔ بعض روایات سے یہ بھی ظاہر ہے کہ بعض مال کے متعلق اس نے کہا تھا کہ یہ مجھے بطور تحفہ ملا ہے‘ اس پر حساب لیا گیا۔ اور تحفہ کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہ سب بیت المال ہی کا ہے۔ جس کی طرف سے تم کو بھیجا گیا تھا۔ تحفہ میں تمہارا کوئی حق نہیں ہے۔
 
Top