Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : جو شخص اپنا میوہ یاکھجور کا درخت یا کھیت بیچ ڈالے
وقد وجب فيه العشر أو الصدقة فأدى الزكاة من غيره أو باع ثماره ولم تجب فيه الصدقة. وقول النبي صلى الله عليه وسلم " لا تبيعوا الثمرة حتى يبدو صلاحها". فلم يحظر البيع بعد الصلاح على أحد ولم يخص من وجب عليه الزكاة ممن لم تجب. حالانکہ اس میں دسواں حصہ یا زکوٰۃ واجب ہوچکی ہو اب وہ اپنے دوسرے مال سے یہ زکوٰۃ ادا کرے تو یہ درست ہے یا وہ میوہ بیچے جس میں صدقہ واجب ہی نہ ہوا ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میوہ اس وقت تک نہ بیچو جب تک اس کی پختگی نہ معلوم ہوجائے۔ اور پختگی معلوم ہوجانے کے بعد کسی کو بیچنے سے آپ نے منع نہیں فرمایا۔ اور یوں نہیں فرمایا کہ زکوٰۃ واجب ہوگئی ہو تو نہ بیچے اور واجب نہ ہوئی ہوتو بیچے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ ہر حال میں مالک کو اپنامال بیچنا درست ہے خواہ اس میں زکوٰۃ اور عشر واجب ہوگیا ہو یا نہ ہوا ہو۔ اور رد کیا شافعی رحمہ اللہ کے قول کو جنہوں نے ایسے مال کا بیچنا جائز نہیں رکھا جس میں زکوٰۃ واجب ہوگئی ہو جب تک زکوٰۃ ادا نہ کرے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمان نبوی لا تبیحوا الثمرۃ الخ کے عموم سے دلیل لی کہ میوہ کی پختگی کے جب آثار معلوم ہوجائیں تو اس کا بیچنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقاً درست رکھا اور زکوٰۃ کے وجوب یا عدم وجوب کی آپ نے کوئی قید نہیں لگائی۔ ( وحیدی )
حدیث نمبر : 1486
حدثنا حجاج، حدثنا شعبة، أخبرني عبد الله بن دينار، سمعت ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع الثمرة حتى يبدو صلاحها. وكان إذا سئل عن صلاحها قال حتى تذهب عاهته.
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے عبداللہ بن دینار نے خبر دی ‘ کہا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کو ( درخت پر ) اس وقت تک بیچنے سے منع فرمایا ہے جب تک اس کی پختگی ظاہر نہ ہو۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ سے جب پوچھتے کہ اس کی پختگی کیاہے، وہ کہتے کہ جب یہ معلوم ہوجائے کہ اب یہ پھل آفت سے بچ رہے گا۔
حدیث نمبر : 1487
حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثني الليث، حدثني خالد بن يزيد، عن عطاء بن أبي رباح، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ. نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع الثمار حتى يبدو صلاحها.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے خالد بن یزید نے بیان کیا ‘ ان سے عطاءبن ابی رباح نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھل کو اس وقت تک بیچنے سے منع فرمایا جب تک ان کی پختگی کھل نہ جائے۔
حدیث نمبر : 1488
حدثنا قتيبة، عن مالك، عن حميد، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الثمار حتى تزهي، قال حتى تحمار.
ہم سے قتیبہ نے امام مالک سے بیان کیا ‘ ان سے حمید نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تک پھل پر سرخی نہ آجائے ‘ انہیں بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ مراد یہ ہے کہ جب تک وہ پک کر سرخ نہ ہوجائیں۔
یعنی یہ یقین نہ ہوجائے کہ اب میوہ ضرور اترے گا اور کسی آفت کا ڈر نہ رہے۔ پختہ ہونے کا مطلب یہ کہ اس کے رنگ سے اس کی پختگی ظاہر ہوجائے۔ اس سے پہلے بیچنا اس لیے منع ہوا کہ کبھی کوئی آفت آتی ہے تو سارا میوہ خراب ہوجاتا ہے یا گر جاتا ہے۔ اب گویا مشتری کا مال مفت کھالینا ٹھہرا۔
باب : جو شخص اپنا میوہ یاکھجور کا درخت یا کھیت بیچ ڈالے
وقد وجب فيه العشر أو الصدقة فأدى الزكاة من غيره أو باع ثماره ولم تجب فيه الصدقة. وقول النبي صلى الله عليه وسلم " لا تبيعوا الثمرة حتى يبدو صلاحها". فلم يحظر البيع بعد الصلاح على أحد ولم يخص من وجب عليه الزكاة ممن لم تجب. حالانکہ اس میں دسواں حصہ یا زکوٰۃ واجب ہوچکی ہو اب وہ اپنے دوسرے مال سے یہ زکوٰۃ ادا کرے تو یہ درست ہے یا وہ میوہ بیچے جس میں صدقہ واجب ہی نہ ہوا ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میوہ اس وقت تک نہ بیچو جب تک اس کی پختگی نہ معلوم ہوجائے۔ اور پختگی معلوم ہوجانے کے بعد کسی کو بیچنے سے آپ نے منع نہیں فرمایا۔ اور یوں نہیں فرمایا کہ زکوٰۃ واجب ہوگئی ہو تو نہ بیچے اور واجب نہ ہوئی ہوتو بیچے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ ہر حال میں مالک کو اپنامال بیچنا درست ہے خواہ اس میں زکوٰۃ اور عشر واجب ہوگیا ہو یا نہ ہوا ہو۔ اور رد کیا شافعی رحمہ اللہ کے قول کو جنہوں نے ایسے مال کا بیچنا جائز نہیں رکھا جس میں زکوٰۃ واجب ہوگئی ہو جب تک زکوٰۃ ادا نہ کرے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمان نبوی لا تبیحوا الثمرۃ الخ کے عموم سے دلیل لی کہ میوہ کی پختگی کے جب آثار معلوم ہوجائیں تو اس کا بیچنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقاً درست رکھا اور زکوٰۃ کے وجوب یا عدم وجوب کی آپ نے کوئی قید نہیں لگائی۔ ( وحیدی )
حدیث نمبر : 1486
حدثنا حجاج، حدثنا شعبة، أخبرني عبد الله بن دينار، سمعت ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع الثمرة حتى يبدو صلاحها. وكان إذا سئل عن صلاحها قال حتى تذهب عاهته.
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے عبداللہ بن دینار نے خبر دی ‘ کہا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کو ( درخت پر ) اس وقت تک بیچنے سے منع فرمایا ہے جب تک اس کی پختگی ظاہر نہ ہو۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ سے جب پوچھتے کہ اس کی پختگی کیاہے، وہ کہتے کہ جب یہ معلوم ہوجائے کہ اب یہ پھل آفت سے بچ رہے گا۔
حدیث نمبر : 1487
حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثني الليث، حدثني خالد بن يزيد، عن عطاء بن أبي رباح، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ. نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع الثمار حتى يبدو صلاحها.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے خالد بن یزید نے بیان کیا ‘ ان سے عطاءبن ابی رباح نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھل کو اس وقت تک بیچنے سے منع فرمایا جب تک ان کی پختگی کھل نہ جائے۔
حدیث نمبر : 1488
حدثنا قتيبة، عن مالك، عن حميد، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الثمار حتى تزهي، قال حتى تحمار.
ہم سے قتیبہ نے امام مالک سے بیان کیا ‘ ان سے حمید نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تک پھل پر سرخی نہ آجائے ‘ انہیں بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ مراد یہ ہے کہ جب تک وہ پک کر سرخ نہ ہوجائیں۔
یعنی یہ یقین نہ ہوجائے کہ اب میوہ ضرور اترے گا اور کسی آفت کا ڈر نہ رہے۔ پختہ ہونے کا مطلب یہ کہ اس کے رنگ سے اس کی پختگی ظاہر ہوجائے۔ اس سے پہلے بیچنا اس لیے منع ہوا کہ کبھی کوئی آفت آتی ہے تو سارا میوہ خراب ہوجاتا ہے یا گر جاتا ہے۔ اب گویا مشتری کا مال مفت کھالینا ٹھہرا۔