• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : عورت کا خود اپنے شوہر کو یا اپنی زیر تربیت یتیم بچوں کو زکوٰۃ دینا۔

قاله أبو سعيد عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
اس کو ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔

حدیث نمبر : 1466
حدثنا عمر بن حفص، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، قال حدثني شقيق، عن عمرو بن الحارث، عن زينب، امرأة عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ قال فذكرته لإبراهيم فحدثني إبراهيم عن أبي عبيدة عن عمرو بن الحارث عن زينب امرأة عبد الله بمثله سواء، قالت كنت في المسجد فرأيت النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ تصدقن ولو من حليكن‏"‏‏. ‏ وكانت زينب تنفق على عبد الله وأيتام في حجرها، قال فقالت لعبد الله سل رسول الله صلى الله عليه وسلم أيجزي عني أن أنفق عليك وعلى أيتامي في حجري من الصدقة فقال سلي أنت رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ فانطلقت إلى النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ فوجدت امرأة من الأنصار على الباب، حاجتها مثل حاجتي، فمر علينا بلال فقلنا سل النبي صلى الله عليه وسلم أيجزي عني أن أنفق على زوجي وأيتام لي في حجري وقلنا لا تخبر بنا‏.‏ فدخل فسأله فقال ‏"‏ من هما‏"‏‏. ‏ قال زينب قال ‏"‏ أى الزيانب‏"‏‏. ‏ قال امرأة عبد الله‏.‏ قال ‏"‏ نعم لها أجران أجر القرابة وأجر الصدقة‏"‏‏. ‏
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا ‘ ان سے شقیق نے ‘ ان سے عمر وبن الحارث نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہ نے۔ ( اعمش نے ) کہا کہ میں نے اس حدیث کا ذکر ابراہیم نحعی سے کیا۔ تو انہوں نے بھی مجھ سے ابوعبیدہ سے بیان کیا۔ ان سے عمروبن حارث نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب نے ‘ بالکل اسی طرح حدیث بیان کی ( جس طرح شقیق نے کی کہ ) زینب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں مسجد نبوی میں تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے دیکھا۔ آپ یہ فرما رہے تھے ‘ صدقہ کرو ‘ خواہ اپنے زیور ہی میں سے دو۔ اور زینب اپنا صدقہ اپنے شوہر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور چند یتیموں پر بھی جوان کی پرورش میں تھے خرچ کیا کرتی تھیں۔ اس لیے انہوں نے اپنے خاوند سے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھئے کہ کیا وہ صدقہ بھی مجھ سے کفایت کرے گا جو میں آپ پر اور ان چند یتیموں پر خرچ کروں جو میری سپردگی میں ہیں۔ لیکن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم خود جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لو۔ آخر میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس وقت میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر ایک انصاری خاتون کو پایا۔ جو میری ہی جیسی ضرورت لے کر موجود تھیں۔ ( جو زینب ابومسعود انصاری کی بیوی تھیں ) پھر ہمارے سامنے سے بلال گذرے۔ تو ہم نے ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ دریافت کیجئے کہ کیا وہ صدقہ مجھ سے کفایت کرے گا جسے میں اپنے شوہر اور اپنی زیر تحویل چند یتیم بچوں پر خرچ کردوں۔ ہم نے بلال سے یہ بھی کہا کہ ہمارا نام نہ لینا۔ وہ اندر گئے اور آپ سے عرض کیا کہ دو عورتیں مسئلہ دریافت کرتی ہیں۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دونوں کون ہیں؟ بلال رضی اللہ عنہ نے کہہ دیا کہ زینب نام کی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ کون سی زینب؟ بلال رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! بے شک درست ہے۔ اور انہیں دوگنا ثواب ملے گا۔ ایک قرابت داری کا اور دوسرا خیرات کرنے کا۔

تشریح : اس حدیث میں صدقہ یعنی خیرات کا لفظ ہے جو فرض صدقہ یعنی زکوٰۃ اور نفل خیرات دونوں کو شامل ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور ثوری رحمہ اللہ اور صاحبین اور امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ سے ایک روایت ایسی ہی ہے اپنے خاوند کو اور بیٹوں کو ( بشرطیکہ وہ غریب مسکین ہوں ) دینا درست ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ماں باپ اور بیٹے کو دینا درست نہیں۔ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک خاوند کو بھی زکوٰۃ دیناد رست نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان حدیثوں میں صدقہ سے نفل صدقہ مراد ہے۔ ( وحیدی )

لیکن خود حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے یہاں زکوٰۃ فرض کو مراد لیا ہے۔ جس سے ان کا مسلک ظاہر ہے حدیث کے ظاہر الفاظ سے بھی حضرت امام کے خیال ہی کی تائید ہوتی ہے۔

حدیث نمبر : 1467
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا عبدة، عن هشام، عن أبيه، عن زينب ابنة أم سلمة، ‏{‏عن أم سلمة،‏}‏ قالت قلت يا رسول الله ألي أجر أن أنفق على بني أبي سلمة إنما هم بني‏.‏ فقال ‏"‏ أنفقي عليهم، فلك أجر ما أنفقت عليهم‏"‏‏.
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبدہ نے ‘ ان سے ہشام نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے باپ نے ‘ ان سے زینب بنت ام سلمہ نے ‘ ان سے ام سلمہ نے ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ! اگر میں ابوسلمہ ( اپنے پہلے خاوند ) کے بیٹوں پر خرچ کروں تو درست ہے یا نہیں۔ کیونکہ وہ میری بھی اولاد ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں ان پر خرچ کر۔ تو جو کچھ بھی ان پر خرچ کرے گی اس کا ثواب تجھ کو ملے گا۔

محتاج اولاد پر صدقپ خیرات حتی کہ مال ذکوۃ دینے کا جواز ثابت ہوا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان

{وفي الرقاب... وفي سبيل الله} /التوبة: 60
( زکوٰۃ کے مصارف بیان کرتے ہوئے کہ زکوٰۃ ) غلام آزاد کرانے میں ‘ مقروضوں کے قرض ادا کرنے میں اور اللہ کے راستے میں خرچ کی جائے۔
وفی الرقاب سے یہی مراد ہے۔ بعضوں نے کہا مکاتب کی مدد کرنا مراد ہے اور اللہ کی راہ سے مراد غازی اور مجاہد لوگ ہیں۔ اور امام احمد رحمہ اللہ اور اسحاق نے کہا کہ حاجیوں کو دینا بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔ مکاتب وہ غلام جو اپنی آزادی کا معاملہ اپنے مالک سے طے کرلے اور معاملہ کی تفصیلات لکھ جائیں۔

ويذكر عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ يعتق من زكاة ماله ويعطي في الحج‏.‏ وقال الحسن إن اشترى أباه من الزكاة جاز ويعطي في المجاهدين والذي لم يحج‏.‏ ثم تلا ‏{‏إنما الصدقات للفقراء‏}‏ الآية في أيها أعطيت أجزأت‏.‏ وقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن خالدا احتبس أدراعه في سبيل الله‏"‏‏. ‏ ويذكر عن أبي لاس حملنا النبي صلى الله عليه وسلم على إبل الصدقة للحج‏.‏
اور ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اپنی زکوٰۃ میں سے غلام آزاد کرسکتا ہے اور حج کے لیے دے سکتا ہے۔ اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر کوئی زکوٰۃ کے مال سے اپنے آپ کو جو غلام ہو خرید کر آزاد کردے تو جائز ہے۔ اور مجاہدین کے اخراجات کے لیے بھی زکوٰۃ دی جائے۔ اسی طرح اس شخص کو بھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے جس نے حج نہ کیا ہو۔ ( تاکہ اس امداد سے حج کرسکے ) پھر انہوں نے سورئہ توبہ کی آیت انما الصدقات للفقراءآخر تک کی تلاوت کی اور کہا کہ ( آیت میں بیان شدہ تمام مصارف زکوٰۃ میں سے ) جس کو بھی زکوٰۃ دی جائے کافی ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ خالد رضی اللہ عنہ نے تو اپنی زرہیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں وقف کردی ہیں۔ ابوالاس ( زیادہ خزاعی صحابی ) رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں زکوٰۃ کے اونٹوں پر سوار کرکے حج کرایا۔

تشریح : قرآن شریف میں زکوٰۃ کے آٹھ مصارف مذکور ہیں۔ فقرائ‘ مساکین‘ عاملین زکوٰۃ‘ مؤلفۃ القلوب‘ رقاب‘ غارمین فی سبیل اللہ ابن السبیل یعنی مسافر۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ والا ان میں سے کسی میں بھی زکوٰۃ کا مال خرچ کرے تو کافی ہوگا۔ اگر ہوسکے تو آٹھوں قسموں میں دے مگر یہ ضروری نہیں ہے حضرت امام ابوحنیفہ اور جمہور علماءاور اہل حدیث کا یہی قول ہے اور شافعیہ سے منقول ہے کہ آٹھوں مصرف میں زکوٰۃ خرچ کرنا واجب ہے گو کسی مصرف کا ایک ہی آدمی ملے۔ مگر ہمارے زمانہ میں اس پر عمل مشکل ہے۔ اکثر ملکوں میں مجاہدین اور مؤلفتہ القلوب اور رقاب نہیں ملتے۔ اسی طرح عاملین زکوٰۃ ( وحیدی )

آیت مصارف زکوٰۃ کے تحت امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزاد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
“یہ آٹھ مصارف جس ترتیب سے بیان کیے گئے ہیں حقیقت میں معاملہ کی قدرتی ترتیب بھی یہی ہے سب سے پہلے فقراءاور مساکین کا ذکر کیا جو استحقاق میں سب سے مقدم ہیں پھر عاملین کا ذکر آیا جن کی موجودگی کے بغیر زکوٰۃ کا نظام قائم نہیں رہ سکتا۔ پھر ان کا ذکر آیا جن کا دل ہاتھ میں لینا ایمان کی تقویت اور حق کی اشاعت کے لیے ضروری تھا۔ پھر غلاموں کو آزاد اکرانے اور قرضداروں کو بار قرض سے سبکدوش کرانے کے مقاصد نمایاں ہوئے پھر فی سبیل اللہ کا مقصد رکھا گیا جس کا زیادہ اطلاق وفاع پر ہوا۔ پھر دین کے اور امت کے عام مصالح اس میں شامل ہیں۔ مثلاً قرآن اور علوم دینی کی ترویج واشاعت‘ مدارس کا اجراءوقیام‘ دعاۃ و مبلغین کے ضروری مصارف‘ ہدایت وارشادات کے تمام مفید وسائل۔
فقہا ومفسرین کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے۔ بعضوں نے مسجد‘ کنواں‘ پل جیسی تعمیرات خیر یہ کو بھی اس میں داخل کردیا۔ ( نیل الاوطار ) فقہائے حنفیہ میں سے صاحب فتاویٰ ظہیر یہ لکھتے ہیں المراد طلبۃ العلم اور صاحب بدائع کے نزدیک وہ تمام کام جو نیکی اور خیرات کے لیے ہوں اس میں داخل ہیں۔ سب کے آخر میں ابن السبیل یعنی مسافر کو جگہ دی۔

جمہور کے مذہب کا مطلب یہ ہے کہ تمام مصارف میں بیک وقت تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے۔ جس وقت جیسی حالت اور جیسی ضرورت ہو اسی کے مطابق خرچ کرنا چاہیے۔ اور یہی مذہب قرآن وسنت کی تصریحات اورروح کے مطابق بھی ہے۔ ائمہ اربعہ میں صرف امام شافعی رحمہ اللہ اس کے خلاف گئے ہیں۔” ( اقتباس از تفسیر ترجمان القرآن آزاد جلد 2 ص 130 )
فی سبیل اللہ کی تفسیر میں نواب صدیق حسن خاں مرحوم لکھتے ہیں: واماسبیل اللہ فالمراد ہہنا الطریق الیہ عزوجل والجہاد وان کان اعظم الطریق الی اللہ عزوجل لکن لادلیل علی اختصاص ہذا السہم بہ بل یصح صرف ذلک فی کل ماکان طریقا الی اللہ ہذا معنی الایۃ لغۃ والواجب الوقوف علی المعنی اللغویۃ حیث لم یصح النقل ہناشرعا ومن جملۃ سبیل اللہ الصرف فی العلماءالذین یقومون بمصالح المسلمین الدینیۃ فان لہم فی مال اللہ نصیبا بل الصرف فی ہذہ الجہۃ من اہم الامور لان العلماءورثۃ الانبیاءوحملۃ الدین وبہم تحفظ بیضۃ الاسلام وشریعۃ سیدالانام وقد کان علماءالصحابۃ یا خذون من العطاءمایقوم بما یحتاجون الیہ۔

اور علامہ شوکانی اپنی کتاب وبل الغمام میںلکھتے ہیں۔ ومن جملۃ فی سبیل اللہ الصرف فی العلماءفان لہم فی مال اللہ نصیباً سواءکانوا اغنیاءوفقراءبل الصرف فی ہذہ الجہۃ من اہم الامور وقد کان علماءالصحابۃ یا خذون من جملۃ ہذہ الاموال التی کانت تفرق بین المسلمین علی ہذہ الصفۃ من الزکوٰۃ الخ ( ملخص از کتاب دلیل الطالب ص 432 )
خلاصہ یہ کہ یہاں سبیل اللہ سے مراد جہاد ہے جو وصول الی اللہ کا بہت ہی بڑا راستہ ہے۔ مگر اس حصہ کے ساتھ سبیل اللہ کی تخصیص کرنے پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ ہر وہ نیک جگہ مراد ہے جو طریق الی اللہ سے متعلق ہو۔ آیت کے لغوی معانی یہی ہیں۔ جن پر واقفیت ضروری ہے۔ اور سبیل اللہ میں ان علماءپر خرچ کرنا بھی جائز ہے جو خدمات مسلمین میں دینی حیثیت سے لگے ہوئے ہیں۔ ان کے لیے اللہ کے مال میں یقینا حصہ ہے بلکہ یہ اہم الامور ہے۔ اس لیے کہ علماءانبیاءکرام کے وارث ہیں۔ ان ہی کی مساعی جمیلہ سے اسلام اور شریعت سیدالانام محفوظ ہے۔ علمائے صحابہ بھی اپنی حاجات کے مطابق اس سے عطایا لیا کرتے تھے۔

علامہ شوکانی کہتے ہیں کہ فی سبیل اللہ میں علمائے دین کے مصارف میں خرچ کرنا بھی داخل ہے۔ ان کا اللہ کے مال میں حصہ ہے اگرچہ وہ غنی بھی کیوں نہ ہوں۔ اس مصرف میں خرچ کرنا بہت ہی اہم ہے اور علمائے صحابہ بھی اپنی حاجات کے لیے اس صفت پر اموال زکوٰۃ سے عطایا لیا کرتے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

حدیث نمبر : 1468
حدثنا أبو اليمان: أخبرنا شعيب: حدثنا أبو الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بالصدقة، فقيل: منع ابن جميل، وخالد بن الوليد، وعباس بن عبد المطلب، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: (ما ينقم ابن جميل إلا أنه كان فقيرا فأغناه الله ورسوله، وأما خالد: فإنكم تظلمون خالدا، فقد احتبس أدراعه وأعتده في سبيل الله، وأما العباس ابن عبد المطلب: فعم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فهي عليه صدقة ومثلها معها). تابعه ابن أبي الزناد، عن أبيه. وقال ابن إسحق، عن أبي الزناد: (هي عليه ومثلها معها). وقال ابن جريج: حدثت عن الأعرج: بمثله.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے اعرج سے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ وصول کرنے کا حکم دیا۔ پھر آپ سے کہا گیا کہ ابن جمیل اور خالد بن ولید اور عباس بن عبدالمطلب نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابن جمیل یہ شکر نہیں کرتا کہ کل تک وہ فقیر تھا۔ پھر اللہ نے اپنے رسول کی دعا کی برکت سے اسے مالدار بنادیا۔ باقی رہے خالد ‘ تو ان پر تم لوگ ظلم کرتے ہو۔ انہوں نے تو اپنی زرہیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں وقف کررکھی ہیں۔ اور عباس بن عبدالمطلب ‘ تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں۔ اور ان کی زکوٰۃ انہی پر صدقہ ہے۔ اور اتنا ہی اور انہیں میری طرف سے دینا ہے۔ اس روایت کی متابعت ابوالزناد نے اپنے والد سے کی اور ابن اسحاق نے ابوالزناد سے یہ الفاظ بیان کیے۔ ہی علیہ ومثلہا معہا ( صدقہ کے لفظ کے بغیر ) اور ابن جریج نے کہا کہ مجھ سے اعرج سے اسی طرح یہ حدیث بیان کی گئی۔

تشریح : اس حدیث میں تین اصحاب کا واقعہ ہے۔ پہلا ابن جمیل ہے جو اسلام لانے سے پہلے محض قلاش اور مفلس تھا۔ اسلام کی برکت سے مالدار بن گیا تو اس کا بدلہ یہ ہے کہ اب وہ زکوٰۃ دینے میں کراہتا ہے اور خفا ہوتا ہے۔ اور حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرما دیا جب انہوں نے اپنا سارا مال واسباب ہتھیار وغیرہ فی سبیل اللہ وقف کردیا ہے تو اب وقفی مال کی زکوٰۃ کیوں دینے لگا۔ اللہ کی راہ میں مجاہدین کو دینا یہ خود زکوٰۃ ہے۔ بعض نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ خالد تو ایسا سخی ہے کہ اس نے ہتھیار گھوڑے وغیرہ سب راہ خدا میں دے ڈالے ہیں۔ وہ بھلا فرض زکوٰۃ کیسے نہ دے گا تم غلط کہتے ہو کہ وہ زکوٰۃ نہیں دیتا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ زکوٰۃ بلکہ اس سے دونا میں ان پر سے تصدق کروں گا۔ مسلم کی روایت میں یوں ہے کہ عباس رضی اللہ عنہ کی زکوٰۃ بلکہ اس کا دونا روپیہ میں دوں گا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ دو برس کی زکوٰۃ پیشگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کودے چکے تھے۔ اس لیے انہوں نے ان تحصیل کرنے والوں کو زکوٰۃ نہ دی۔ بعضوں نے کہا مطلب یہ ہے کہ بالفعل ان کو مہلت دو۔ سال آئندہ ان سے دوہری یعنی دو برس کی زکوٰۃ وصول کرنا۔ ( مختصر ازوحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : سوال سے بچنے کا بیان

حدیث نمبر : 1469
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن عطاء بن يزيد الليثي، عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ أن ناسا من الأنصار سألوا رسول الله صلى الله عليه وسلم فأعطاهم، ثم سألوه فأعطاهم، حتى نفد ما عنده فقال ‏"‏ ما يكون عندي من خير فلن أدخره عنكم، ومن يستعفف يعفه الله، ومن يستغن يغنه الله، ومن يتصبر يصبره الله، وما أعطي أحد عطاء خيرا وأوسع من الصبر‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں امام مالک نے ‘ ابن شہاب سے خبر دی ‘ انہیں عطاءبن یزید لیثی نے اور انہیں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ نے انہیں دیا۔ پھر انہوں نے سوال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دیا۔ یہاں تک کہ جو مال آپ کے پاس تھا۔ اب وہ ختم ہوگیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے پاس جو مال ودولت ہوتو میں اسے بچا کر نہیں رکھوں گا۔ مگر جو شخص سوال کرنے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے سوال کرنے سے محفوظ ہی رکھتا ہے۔ اور جو شخص بے نیازی برتتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بے نیاز بنادیتا ہے اور جو شخص اپنے اوپر زور ڈال کر بھی صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے صبرو استقلال دے دیتا ہے۔ اور کسی کو بھی صبر سے زیادہ بہتر اور اس سے زیادہ بے پایاں خیر نہیں ملی۔ ( صبر تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے )

تشریح : شریعت اسلامیہ کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک یہ خوبی بھی کس قدر اہم ہے کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے‘ سوال کرنے سے مختلف طریقوں کے ساتھ ممانعت کی ہے اور ساتھ ہی اپنے زور بازو سے کمانے اور رزق حاصل کرنے کی ترغیبات دلائی ہیں۔ مگر پھر بھی کتنے ہی ایسے معذورین مرد عورت ہوتے ہیں جن کو بغیر سوال کئے چارہ نہیں۔ ان کے لیے فرمایا وَاَمَّا السَّائِلَ فَلاَ تَنہَر یعنی سوال کرنے والوں کو نہ ڈانٹو بلکہ نرمی سے ان کو جواب دے دو۔

حدیث ہذا کے راوی حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ہیں۔ جن کا نام سعد بن مالک ہے۔ اور یہ انصاری ہیں۔ جو کنیت ہی سے زیادہ مشہور ہیں۔ حافظ حدیث اور صاحب فضل و عقل علمائے کبار صحابہ میں ان کا شمار ہے 84 سال کی عمر پائی اور 74 ھ میں انتقال کیا اور جنت البقیع میں سپرد خاک کئے گئے رضی اللہ عنہ وارضاہ۔

حدیث نمبر : 1470
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ والذي نفسي بيده لأن يأخذ أحدكم حبله فيحتطب على ظهره خير له من أن يأتي رجلا، فيسأله، أعطاه أو منعه‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی ‘ انہیں ابوالزناد نے ‘ انہیں اعرج نے ‘ انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر کوئی شخص رسی سے لکڑیوں کا بوجھ باندھ کر اپنی پیٹھ پر جنگل سے اٹھا لائے ( پھر انہیں بازار میں بیچ کر اپنا رزق حاصل کرے ) تو وہ اس شخص سے بہتر ہے جو کسی کے پاس آکر سوال کرے۔ پھر جس سے سوال کیا گیا ہے وہ اسے دے یا نہ دے۔

تشریح : حدیث ہذا سے یہ نکلتا ہے کہ ہاتھ سے محنت کرکے کھانا کمانا نہایت افضل ہے۔ علماءنے کہا ہے کہ کمائی کے تین اصول ہیں۔ ایک زراعت‘ دوسری تجارت‘ تیسری صنعت وحرفت۔ بعضوں نے کہا ان تینوں میں تجارت افضل ہے۔ بعضوں نے کہا زراعت افضل ہے۔ کیونکہ اس میں ہاتھ سے محنت کی جاتی ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ کوئی کھانا اس سے بہتر نہیں ہے جو ہاتھ سے محنت کرکے پیدا کیا جائے‘ زراعت کے بعد پھر صنعت افضل ہے۔ اس میں بھی ہاتھ سے کام کیا جاتا ہے۔ اور نوکری تو بدترین کسب ہے۔ ان احادیث سے یہ بھی ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محنت کرکے کمانے والے مسلمان پر کس قدر محبت کا اظہار فرمایا کہ اس کی خوبی پر آپ نے اللہ پاک کی قسم کھائی۔ پس جو لوگ محض نکمے بن کر بیٹھے رہتے ہیں اور دوسروں کے دست نگر رہتے ہیں۔ پھر قسمت کا گلہ کرنے لگتے ہیں۔ یہ لوگ عنداللہ وعندالرسول اچھے نہیں ہیں۔

حدیث نمبر : 1471
حدثنا موسى، حدثنا وهيب، حدثنا هشام، عن أبيه، عن الزبير بن العوام ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لأن يأخذ أحدكم حبله فيأتي بحزمة الحطب على ظهره فيبيعها فيكف الله بها وجهه، خير له من أن يسأل الناس أعطوه أو منعوه‏"‏‏.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے والد نے ‘ ان سے زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی بھی اگر ( ضرورت مند ہوتو ) اپنی رسی لے کر آئے اور لکڑیوں کا گٹھا باندھ کر اپنی پیٹھ پر رکھ کر لائے۔ اور اسے بیچے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اس کی عزت کو محفوظ رکھ لے تو یہ اس سے اچھاہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرتا پھرے ‘ اسے وہ دیں یا نہ دیں۔

اس حدیث کے راوی حضرت زبیر بن عوام ہیں جن کی کنیت ابوعبداللہ قریشی ہے۔ ان کی والدہ حضرت صفیہ عبدالمطلب کی بیٹی اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی ہیں۔ یہ اور ان کی والدہ شروع میں ہی اسلام لے آئے تھے جب کہ ان کی عمر سولہ سال کی تھی۔ اس پر ان کے چچا نے دھویں سے ان کا دم گھوٹ کر تکلیف پہنچائی تاکہ یہ اسلام چھوڑ دیں مگر انہوں نے اسلام کو نہ چھوڑا۔ یہ تمام غزوات میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اور یہ وہ ہیں جنہوں نے سب سے اول تلوار اللہ کے راستے میں سونتی۔ اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ احد میں ڈٹے رہے۔ اور عشرہ مبشرہ میں ان کا بھی شمار ہے۔ چونسٹھ سال کی عمر میں بصرہ میں شہید کردئیے گئے۔ یہ حادثہ 36 ھ میں پیش آیا۔ اول وادی سباع میں دفن ہوئے۔ پھر بصرہ میں منتقل کردئیے گئے۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ۔

حدیث نمبر : 1472
وحدثنا عبدان، أخبرنا عبد الله، أخبرنا يونس، عن الزهري، عن عروة بن الزبير، وسعيد بن المسيب، أن حكيم بن حزام ـ رضى الله عنه ـ قال سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم فأعطاني، ثم سألته فأعطاني، ثم سألته فأعطاني ثم قال ‏"‏ يا حكيم إن هذا المال خضرة حلوة، فمن أخذه بسخاوة نفس بورك له فيه، ومن أخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه كالذي يأكل ولا يشبع، اليد العليا خير من اليد السفلى‏"‏‏. ‏ قال حكيم فقلت يا رسول الله والذي بعثك بالحق لا أرزأ أحدا بعدك شيئا حتى أفارق الدنيا، فكان أبو بكر ـ رضى الله عنه ـ يدعو حكيما إلى العطاء فيأبى أن يقبله منه، ثم إن عمر ـ رضى الله عنه ـ دعاه ليعطيه فأبى أن يقبل منه شيئا‏.‏ فقال عمر إني أشهدكم يا معشر المسلمين على حكيم، أني أعرض عليه حقه من هذا الفىء فيأبى أن يأخذه‏.‏ فلم يرزأ حكيم أحدا من الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى توفي‏.‏
ہم سے عبد ان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں یونس نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں عروہ بن زبیر اور سعید بن مسیب نے کہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا۔ میں نے پھر مانگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر عطا فرمایا۔ میں نے پھر مانگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی عطا فرمایا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ اے حکیم! یہ دولت بڑی سرسبز اور بہت ہی شیریں ہے۔ لیکن جو شخص اسے اپنے دل کو سخی رکھ کرلے تو اس کی دولت میں برکت ہوتی ہے۔ اور جو لالچ کے ساتھ لیتا ہے تو اس کی دولت میں کچھ بھی برکت نہیں ہوگی۔ اس کا حال اس شخص جیسا ہوگا جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا ( یاد رکھو ) اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے۔ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ کہ میں نے عرض کی اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ اب اس کے بعد میں کسی سے کوئی چیز نہیں لوں گا۔ تاآنکہ اس دنیا ہی سے میں جدا ہوجاؤں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حکیم رضی اللہ عنہ کو ان کا معمول دینے کو بلاتے تو وہ لینے سے انکار کردیتے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی انہیں ان کا حصہ دینا چاہا تو انہوں نے اس کے لینے سے انکار کردیا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مسلمانو! میں تمہیں حکیم بن حزام کے معاملہ میں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کا حق انہیں دینا چاہا لیکن انہوں نے لینے سے انکار کردیا۔ غرض حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسی طرح کسی سے بھی کوئی چیز لینے سے ہمیشہ انکار ہی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ وفات پاگئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مال فے یعنی ملکی آمدنی سے ان کا حصہ ان کو دینا چاہتے تھے مگر انہوں نے وہ بھی نہیں لیا۔

تشریح : حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوخالد قریشی اسدی ہے۔ یہ حضرت ام المؤمنین خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے ہیں۔ واقعہ فیل سے تیرہ سال پہلے کعبہ میں پیدا ہوئے۔ یہ قریش کے معزز ترین لوگوں میں سے ہیں۔ جاہلیت اور اسلام ہر دو زمانوں میں بڑی عزت ومنزلت کے مالک رہے۔ فتح مکہ کے دن اسلام لائے۔ 64ھ میں اپنے مکان کے اندر مدینہ میں وفات پائی۔ ان کی عمر ایک سوبیس سال کی ہوئی۔ ساٹھ سال عہد جاہلیت میں گزارے اور ساٹھ سال زمانہ اسلام میں زندگی پائی۔ بڑے زیرک اور فاضل متقی صحابہ میں سے تھے زمانہ جاہلیت میں سوغلاموں کو آزاد کیا۔ اور سو اونٹ سواری کے لیے بخشے۔ وفات نبوی کے بعد یہ مدت تک زندہ رہے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد میں بھی دس سال کی زندگی پائی۔ مگر کبھی ایک پیسہ بھی انہوں نے کسی سے نہیں لیا۔ جو بہت بڑے درجے کی بات ہے۔

اس حدیث میں حکیم انسانیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قانع اور حریص کی مثال بیان فرمائی کہ جو بھی کوئی دنیاوی دولت کے سلسلہ میں قناعت سے کام لے گا اور حرص اور لالچ کی بیماری سے بچے گا اس کے لیے برکتوں کے دروازے کھلیں گے اور تھوڑا مال بھی اسکے لیے کافی ہوسکے گا۔ اس کی زندگی بڑے ہی اطمینان اور سکون کی زندگی ہوگی۔ اور جو شخص حرص کی بیماری اور لالچ کے بخار میں مبتلا ہوگا اس کا پیٹ بھر ہی نہیں سکتا خواہ اس کو ساری دنیا کی دولت حاصل ہوجائے وہ پھر بھی اسی چکر میں رہے گا کہ کسی نہ کسی طرح سے اور زیادہ مال حاصل کیا جائے۔ ایسے طماع لوگ نہ اللہ کے نام پر خرچ کرنا جانتے ہیں نہ مخلوق کو فائدہ پہنچانے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ نہ کشادگی کے ساتھ اپنے اور اپنے اہل وعیال ہی پر خرچ کرتے ہیں۔ اگر سرمایہ داروں کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو ایک بہت ہی بھیانک تصویر نظرآتی ہے۔ فحر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی حقائق کو اس حدیث مقدس میں بیان فرمایا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ

باب : اگر اللہ پاک کسی کو بن مانگے اور بن دل لگائے اور امیدوار رہے کوئی چیز دلادے ( تو اس کو لے لے )

اللہ تعالیٰ نے میں فرمایا۔ ان کے مالوں میں مانگنے والے اور خاموش رہنے والے دونوں کا حصہ ہے
اس آیت سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے یہ نکالا کہ بن مانگے جو اللہ دے دے اس کا لینا درست ہے۔ ورنہ محروم خاموش فقیر کا حصہ کچھ نہ رہے گا۔ قسطلانی نے کہا کہ بغیر سوال جو آئے اس کا لے لینا درست ہے بشرطیکہ حلال کا مال ہو اگر مشکوک مال ہوتو واپس کر دینا ہی پرہیز گاری ہے۔

حدیث نمبر : 1473
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن يونس، عن الزهري، عن سالم، أن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال سمعت عمر، يقول كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعطيني العطاء فأقول أعطه من هو أفقر إليه مني فقال ‏"‏ خذه، إذا جاءك من هذا المال شىء، وأنت غير مشرف ولا سائل، فخذه، وما لا فلا تتبعه نفسك‏"‏‏. ‏
ہم سے یحیٰی بن بکیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے یونس نے ‘ ان سے زہری نے ‘ ان سے سالم نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی چیز عطا فرماتے تو میں عرض کرتا کہ آپ مجھ سے زیادہ محتاج کو دے دیجئے۔ لیکن آنحضور فرماتے کہ لے لو ‘ اگر تمہیں کوئی ایسا مال ملے جس پر تمہارا خیال نہ لگا ہوا ہو اور نہ تم نے اسے مانگا ہوتو اسے قبول کرلیا کرو۔ اور جو نہ ملے تو اس کی پرواہ نہ کرو اور اس کے پیچھے نہ پڑو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : اگر کوئی شخص اپنی دولت بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کرے؟

حدیث نمبر : 1474
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عبيد الله بن أبي جعفر، قال سمعت حمزة بن عبد الله بن عمر، قال سمعت عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ما يزال الرجل يسأل الناس حتى يأتي يوم القيامة ليس في وجهه مزعة لحم‏"‏‏. ‏
ہم سے یحیٰی بن بکیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے عبیداللہ بن ابی جعفر نے کہا ‘ کہ میں نے حمزہ بن عبداللہ بن عمر سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا ‘ انہو ںنے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آدمی ہمیشہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن اس طرح اٹھے گا کہ اس کے چہرے پر ذرا بھی گوشت نہ ہوگا۔


حدیث نمبر : 1475
وقال إن الشمس تدنو يوم القيامة حتى يبلغ العرق نصف الأذن، فبينا هم كذلك استغاثوا بآدم، ثم بموسى، ثم بمحمد صلى الله عليه وسلم‏"‏‏. ‏ وزاد عبد الله حدثني الليث حدثني ابن أبي جعفر ‏"‏ فيشفع ليقضى بين الخلق، فيمشي حتى يأخذ بحلقة الباب، فيومئذ يبعثه الله مقاما محمودا، يحمده أهل الجمع كلهم‏"‏‏. ‏وقال معلى: حدثنا وهيب، عن النعمان بن راشد، عن عبد الله بن مسلم، أخي الزهري، عن حمزة: سمع ابن عمر رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم: في المسألة.
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سورج اتنا قریب ہو جائے گا کہ پسینہ آدھے کان تک پہنچ جائے گا۔ لوگ اسی حال میں اپنی مخلصی کے لیے حضرت آدم علیہ السلام سے فریاد کریں گے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام سے۔ اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ عبداللہ نے اپنی روایت میں یہ زیادتی کی ہے کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ابن ابی جعفر نے بیان کیا ‘ کہ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت کریں گے کہ مخلوق کا فیصلہ کیا جائے۔ پھر آپ بڑھیں گے اور جنت کے دروازے کا حلقہ تھام لیں گے۔ اور اسی دن اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود عطا فرمائے گا۔ جس کی تمام اہل محشر تعریف کریں گے۔ اور معلی بن اسد نے کہا کہ ہم سے وہیب نے نعمان بن راشد سے بیان کیا ‘ ان سے زہری کے بھائی عبداللہ بن مسلم نے ‘ ان سے حمزہ بن عبداللہ نے ‘ اور انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر اتنی ہی حدیث بیان کی جو سوال کے باب میں ہے۔

تشریح : حدیث کے باب میں بھی سوال کرنے کی مذمت کی گئی ہے اور بتلایا گیاہے کہ غیر مستحق سوال کرنے والوں کا حشر میں یہ حال ہوگا کہ ان کے چہرے پر گوشت نہ ہوگا اور اس ذلت وخواری کے ساتھ وہ میدان حشر میں محشور ہوں گے۔

سوال کرنے کی تفصیل میں علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وہی علی ثلاثۃ اوجہ حرام ومکروہ ومباح فالحرام لمن سال وہو غنی من زکوٰۃ او اظہر من الفقر فوق ماہو بہ والمکروہ لمن سال ما عندہ ما یمنعہ عن ذلک ولم یظہر من الفقر فوق ما ہو بہ والمباح لمن سال بالمعروف قریبا او صدیقا واما السوال عند الضرورۃ واجب لا حیاءالنفس وادخلہ الداودی فی المباح واما الاخذ من غیر مسئلۃ ولا اشراف نفس فلا باس بہ ( عینی ) یعنی سوال کی تین قسمیں ہیں۔ حرام‘ مکروہ اور مباح۔ حرام تو اس کے لیے جو مالدار ہونے کے باوجود زکوٰۃ میں سے مانگے اور خواہ مخواہ اپنے کو محتاج ظاہر کرے۔ مکروہ اس کے لیے جس کے پاس وہ چیز موجود ہے جسے وہ اور سے مانگ رہا ہے، وہ یہ نہیں سوچتا کہ یہ چیز تو میرے پاس موجود ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ اپنے آپ کو محتاج بھی ظاہر نہیں کرتا پھر سوال کررہا ہے۔ اور مباح اس کے لیے ہے جو حقیقی حاجت کے وقت اپنے کسی خاص دوست یا رشتہ دار سے سوال کرے۔ بعض مرتبہ سخت ترین ضرورت کے تحت جہاں موت وزندگی کا سوال آجائے سوال کرنا بھی ضروری ہوجاتا ہے اور بغیر سوال کئے اور تانکے جھانکے کوئی چیز از خود مل جائے تو اس کے لینے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔

غیر مستحقین سائلین کی سزا کے بیان کے ساتھ اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کبریٰ کا بھی بیان کیا گیا ہے جو قیامت میں آپ کو حاصل ہوگی۔ جہاں کسی بھی نبی ورسول کو مجال کلام نہ ہوگا وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نوع انسان کے لیے شافع اور مشفع بن کر تشریف لائیں گے۔ اللہم ارزقنا شفاعۃ حبیبک صلی اللہ علیہ وسلم یوم القیامۃ امین
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : ( سورہ بقرہ میں ) اللہ تعالیٰ کا ارشاد

{لا يسألون الناس إلحافا} /البقرة: 273/. وكم الغنى. وقول النبي صلى الله عليه وسلم: (ولا يجد غنى يغنيه). لقول الله تعالى: {للفقراء الذين أحصروا في سبيل الله - إلى قوله - فإن الله به عليم}. /البقرة: 273/.
کہ جو لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے اور کتنے مال سے آدمی مالدار کہلاتا ہے۔ اس کا بیان اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ وہ شخص جو بقدر کفایت نہیں پاتا ( گویا اس کو غنی نہیں کہہ سکتے ) اور ( اللہ تعالیٰ نے اسی سورۃ میں فرمایا ہے کہ ) صدقہ خیرات تو ان فقراءکے لیے ہے جو اللہ کے راستے میں گھر گئے ہیں۔ کسی ملک میں جانہیں سکتے کہ وہ تجارت ہی کرلیں۔ ناواقف لوگ انہیں سوال نہ کرنے کی وجہ سے غنی سمجھتے ہیں۔ آخر آیت فان اللہ بہ علیم تک ( یعنی وہ حد کیا ہے جس سے سوال ناجائز ہو )۔

باب کی حدیث میں اس کی تصریح نہیں ہے۔ شاید امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کو اس کے متعلق کوئی حدیث ایسی نہیں ملی جو ان کی شرط پر ہو۔

حدیث نمبر : 1476
حدثنا حجاج بن منهال: حدثنا شعبة: أخبرني محمد بن زياد قال: سمعت أبا هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (ليس المسكين الذي ترده الأكلة والأكلتان، ولكن المسكين الذي ليس له غنى، ويستحيي، أو، لا يسأل الناس إلحافا). ‏
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے محمد بن زیاد نے خبر دی انہوں نے کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسکین وہ نہیں جسے ایک دو لقمے در در پھرائیں۔ مسکین تو وہ ہے جس کے پاس مال نہیں۔ لیکن اسے سوال سے شرم آتی ہے اور وہ لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتا ( مسکین وہ جو کمائے مگر بقدر ضرورت نہ پاسکے )۔

تشریح : ابوداؤد نے سہل بن حنظلہ سے نکالا کہ صحابہ نے پوچھا تو نگری جس سے سوال منع ہو، کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب صبح شام کا کھانا اس کے پاس موجود ہو۔ ابن خزیمہ کی روایت میں یوں ہے جب دن رات کا پیٹ بھر کھانا اس کے پاس ہو۔ بعضوں نے کہا یہ حدیث منسوخ ہے دوسری حدیثوں سے جس میں مالدار اس کو فرمایا ہے جس کے پاس پچاس درہم ہوں یا اتنی مالیت کی چیزیں ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1477
حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا إسماعيل ابن علية، حدثنا خالد الحذاء، عن ابن أشوع، عن الشعبي، حدثني كاتب المغيرة بن شعبة، قال كتب معاوية إلى المغيرة بن شعبة أن اكتب، إلى بشىء سمعته من النبي، صلى الله عليه وسلم‏.‏ فكتب إليه سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ إن الله كره لكم ثلاثا قيل وقال، وإضاعة المال، وكثرة السؤال‏"‏‏. ‏
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے خالد حذاءنے بیان کیا ‘ ان سے ابن اشوع نے ‘ ان سے عامر شعبی نے۔ کہا کہ مجھ سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے منشی وراد نے بیان کیا۔ کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ انہیں کوئی ایسی حدیث لکھئے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین باتیں پسند نہیں کرتا۔ بلاوجہ کی گپ شپ، فضول خرچی۔ لوگوں سے بہت مانگنا۔

تشریح : فضول کلامی بھی ایسی بیماری ہے جس سے انسان کا وقار خاک میں مل جاتا ہے۔ اس لیے کم بولنا اور سوچ سمجھ کر بولنا عقل مندوں کی علامت ہے۔ اسی طرح فضول خرچی کرنا بھی انسان کی بڑی بھاری حماقت ہے جس کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب دولت ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ اسی لیے قرآنی تعلیم یہ ہے کہ نہ بخیل بنو اور نہ اتنے ہاتھ کشادہ کرو کہ پریشان حالی میں مبتلا ہوجاؤ۔ درمیانی چال بہر حال بہتر ہے۔ تیسرا عیب کثرت کے ساتھ دست سوال دراز کرنا یہ بھی اتنا خطرناک مرض ہے کہ جس کو لگ جائے اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا اور وہ بُری طرح سے اس میں گرفتار ہوکر دنیا وآخرت میں ذلیل وخوار ہوجاتا ہے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث لکھ کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو پیش کیا۔ اشارہ تھا کہ آپ کی کامیابی کا راز اس حدیث میں مضمر ہے۔ جس میں آپ کو لکھ رہا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جوامع الکلم میں اس حدیث شریف کو بھی بڑا مقام حاصل ہے۔ اللہ پاک ہم کو یہ حدیث سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔

حدیث نمبر : 1478
حدثنا محمد بن غرير الزهري، حدثنا يعقوب بن إبراهيم، عن أبيه، عن صالح بن كيسان، عن ابن شهاب، قال أخبرني عامر بن سعد، عن أبيه، قال أعطى رسول الله صلى الله عليه وسلم رهطا وأنا جالس فيهم قال فترك رسول الله صلى الله عليه وسلم منهم رجلا لم يعطه، وهو أعجبهم إلى، فقمت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فساررته فقلت ما لك عن فلان والله إني لأراه مؤمنا‏.‏ قال ‏"‏ أو مسلما ‏"‏ قال فسكت قليلا ثم غلبني ما أعلم فيه فقلت يا رسول الله‏.‏ ما لك عن فلان والله إني لأراه مؤمنا‏.‏ قال ‏"‏ أو مسلما‏"‏‏. ‏ قال فسكت قليلا ثم غلبني ما أعلم فيه فقلت يا رسول الله ما لك عن فلان والله إني لأراه مؤمنا‏.‏ قال ‏"‏ أو مسلما ـ يعني فقال ـ إني لأعطي الرجل وغيره أحب إلى منه، خشية أن يكب في النار على وجهه‏"‏‏. ‏ وعن أبيه عن صالح عن إسماعيل بن محمد أنه قال سمعت أبي يحدث هذا فقال في حديثه فضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده فجمع بين عنقي وكتفي ثم قال ‏"‏ أقبل أى سعد إني لأعطي الرجل‏"‏‏. ‏ قال أبو عبد الله ‏{‏فكبكبوا‏}‏ قلبوا ‏{‏مكبا‏}‏ أكب الرجل إذا كان فعله غير واقع على أحد، فإذا وقع الفعل قلت كبه الله لوجهه، وكببته أنا‏. قال أبو عبد الله: صالح بن كيسان أكبر من الزهري، وهو قد أدرك ابن عمر.‏
ہم سے محمد بن غریر زہری نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے اپنے باپ سے بیان کیا ‘ ان سے صالح بن کیسان نے ان سے ابن شہاب نے ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اپنے باپ سعد بن ابی وقاص سے خبر دی۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند اشخاص کو کچھ مال دیا۔ اسی جگہ میں بھی بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے شخص کو چھوڑ دیا اور انہیں کچھ نہیں دیا۔ حالانکہ ان لوگوں میں وہی مجھے زیادہ پسند تھا۔ آخر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب جاکر چپکے سے عرض کیا ‘ فلاں شخص کو آپ نے کچھ بھی نہیں دیا؟ واللہ میں اسے مومن خیال کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ یا مسلمان؟ انہوں نے بیان کیا کہ اس پر میں تھوڑی دیر تک خاموش رہا۔ لیکن میں ان کے متعلق جو کچھ جانتا تھا اس نے مجھے مجبور کیا ‘ اور میں نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ! آپ فلاں شخص سے کیوں خفا ہیں ‘ واللہ! میں اسے مومن سمجھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ یا مسلمان؟ تین مرتبہ ایسا ہی ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص کو دیتا ہوں ( اور دوسرے کو نظرانداز کرجاتا ہوں ) حالانکہ وہ دوسرا میری نظر میں پہلے سے زیادہ پیارا ہوتا ہے۔ کیونکہ ( جس کو میں دیتا ہوں نہ دینے کی صورت میں ) مجھے ڈر اس بات کا رہتا ہے کہ کہیں اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں نہ ڈال دیا جائے۔ اور ( یعقوب بن ابراہیم ) اپنے والد سے ‘ وہ صالح سے ‘ وہ اسماعیل بن محمد سے ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد سے سنا کہ وہ یہی حدیث بیان کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میری گردن اور مونڈھے کے بیچ میں مارا۔ اور فرمایا۔ سعد! ادھر سنو۔ میں ایک شخص کو دیتا ہوں۔ آخر حدیث تک۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ ) نے کہا کہ ( قرآن مجید میں لفظ ) کبکبوا اوندھے لٹا دینے کے منعے میں ہے۔ اور سورئہ ملک میں جو مکبا کا لفظ ہے وہ اکب سے نکلا ہے۔ اکب لازم ہے یعنی اوندھا گرا۔ اور اس کا متعدی کب ہے۔ کہتے ہیں کہ کبہ اللہ لوجہہ یعنی اللہ نے اسے اوندھے منہ گرادیا۔ اور کببۃ یعنی میں نے اس کو اوندھا گرایا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا صالح بن کیسان عمر میں زہری سے بڑے تھے وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ملے ہیں۔

تشریح : یہ حدیث کتاب الایمان میں گزرچکی ہے۔ ابن اسحاق نے مغازی میں نکالا‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ آپ نے عیینہ بن حصن اور اقرع بن حابس کو سو سو روپے دے دیے۔ اور جعیل سراقہ کو کچھ نہیں دیا۔ آپ نے فرمایا‘ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جعیل بن سراقہ عیینہ اور اقرع ایسے ساری زمین بھرلوگوں سے بہتر ہے۔ لیکن میں عیینہ اور اقرع کا روپیہ دے کر دل ملاتا ہوں اور جعیل کے ایمان پر تو مجھ کو بھروسہ ہے۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1479
حدثنا إسماعيل بن عبد الله، قال حدثني مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ ليس المسكين الذي يطوف على الناس ترده اللقمة واللقمتان والتمرة والتمرتان، ولكن المسكين الذي لا يجد غنى يغنيه، ولا يفطن به فيتصدق عليه، ولا يقوم فيسأل الناس‏"‏‏. ‏
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ نے ابوالزناد سے بیان کیا ‘ ان سے اعرج نے ‘ اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسکین وہ نہیں ہے جو لوگوں کا چکر کاٹتا پھرتا ہے تاکہ اسے دو ایک لقمہ یا دو ایک کھجور مل جائیں۔ بلکہ اصلی مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال نہیں کہ وہ اس کے ذریعہ سے بے پرواہ ہوجائے۔ اس حال میں بھی کسی کو معلوم نہیں کہ کوئی اسے صدقہ ہی دے دے اور نہ وہ خود ہاتھ پھیلانے کے لیے اٹھتا ہے۔

حدیث نمبر : 1480
حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، حدثنا أبو صالح، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لأن يأخذ أحدكم حبله، ثم يغدو ـ أحسبه قال ـ إلى الجبل فيحتطب، فيبيع فيأكل ويتصدق خير له من أن يسأل الناس‏"‏‏. ‏ ‏
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوصالح ذکوان نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ‘ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی شخص اپنی رسی لے کر ( میرا خیال ہے کہ آپ نے یوں فرمایا ) پہاڑوں میں چلا جائے پھر لکڑیاں جمع کرکے انہیں فروخت کرے۔ اس سے کھائے بھی اور صدقہ بھی کرے۔ یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔

تشریح : جب کھجور یا انگور یا اور کوئی میوہ درختوں پر پختہ ہوجائے تو ایک جاننے والے شخص کو بادشاہ یا حاکم بھیجتا ہے وہ جاکر اندازہ کرتا ہے کہ اس میں اتنا میوہ اترے گا۔ پھر اسی کا دسواں حصہ زکوٰۃ کے طورپر لیا جاتا ہے اس کو خرص کہتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ یہ جاری رکھا اور خلفائے راشدین نے بھی۔ امام شافعی اور امام احمد اور اہلحدیث سب اس کو جائز کہتے ہیں۔ لیکن حنفیہ نے برخلاف احادیث صحیحہ کے صرف اپنی رائے سے اس کو ناجائز قرار دیا ہے۔ ان کا قول دیوار پر پھینک دینے کے لائق ہے ( از مولانا وحیدالزمان مرحوم )

اندازہ لگانے کے لیے کھجور کا ذکر اس لیے آگیا کہ مدینہ میں بکثرت کھجوریں ہی ہوا کرتی تھیں ورنہ انگور وغیرہ کا اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے جیسا کہ حدیث ذیل سے ظاہر ہے۔
عن عتاب بن اسید ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یبعث علی الناس من یخرص علیہم کرومہم وثمارہم رواہ الترمذی و ابن ماجۃ۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے پاس اندازہ کرنے والوں کو بھیجا کرتے تھے۔ جو ان کے انگوروں اور پھلوں کا اندازہ لگاتے۔ وعنہ ایضا قال امر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یخرص العنب الحدیث رواہ ابوداؤد والترمذی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ کھجوروں کی طرح انگوروں کا بھی اندازہ لگالیا جائے پھر ان کے خشک ہونے پر ان میں سے اسی اندازہ کے مطابق عشر میں منقیٰ لیا جائے گا۔

حضرت امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ والا حادیث المذکورۃ تدل علی مشروعیۃ الخرص فی العنب والنخل وقد قال الشافعی فی احد قولہ بوجوبہ مستدلا بمافی حدیث عتاب من ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم امربذالک وذہبت العترۃ ومالک وروی الشافعی انہ جائز فقط وذہبت الہادویۃ وروی عن الشافعی ایضاً الی انہ مندوب وقال ابو حنیفۃ لا یجوز لا نہ رجم بالغیب والاحادیث المذکورۃ ترد علیہ ( نیل الاوطار )
یعنی احادیث مذکورہ کھجور اور انگوروں میں اندازہ کرنے کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہیں اور عتاب کی حدیث مذکورہ سے دلیل پکڑتے ہوئے امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنے ایک قول میں اسے واجب قرار دیا ہے اور عترہ اور امام مالک رحمہ اللہ اور ایک قول میں امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی اسے صرف درجہ جواز میں رکھا ہے۔ اور حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اسے ناجائز کہتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ اندازہ ایک غریبی اندازہ ہے۔ اور احادیث مذکورہ ان کے اس قول کی تردید کرتی ہیں۔

اس حدیث کے ذیل میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حکی الترمذی عن بعض اہل العلم ان تفسیرہ ان الثمار اذا ادرکت من الرطب و العنب مماتجب فیہ الزکوۃ بعث السلطان خارصا ینظر فیقول یخرج من ہذا کذا وکذا زبیباً وکذا وکذا تمراً فیحصیہ وینظر مبلغ العشر فیثبتہ علیہم ویخلی بینہم وبین الثمار فاذا جاءوقت الجذ اذ اخذ منہم العشر الی اخرہ ( فتح الباری )
یعنی خرص کی تفسیر بعض اہل علم سے یوں منقول ہے کہ جب انگور اور کھجور اس حال میں ہوں کہ ان پر زکوٰۃ لاگو ہوتو بادشاہ ایک اندازہ کرنے والا بھیجے گا۔ جو ان باغوں میں جاکر ان کا اندازہ کرکے بتلائے گا کہ اس میں اتنا انگور اور اتنی اتنی کھجور نکلے گی۔ اس کا صحیح اندازہ کرکے دیکھے گا کہ عشر کے نصاب کو یہ پہنچتے ہیں یا نہیں۔ اگر عشر کا نصاب موجود ہے تو پھر وہ ان پر عشر ثابت کردے گا اور مالکوں کو پھلوں کے لیے اختیار دے دے گا وہ جو چاہیں کریں۔ جب کٹائی کا وقت آئے گا تو اسی اندازہ کے مطابق ان سے زکوٰۃ وصول کی جائے گی۔ اگرچہ علماءکا اب اس کے متعلق اختلاف ہے مگر صحیح بات یہی ہے کہ خرص اب بھی جائز ہے اور اس بارے میں اصحاب الرائے کا فتویٰ درست نہیں ہے۔ حدیث ذیل میں جنگ تبوک 9 ھ کا ذکر ہے۔ اسی موقع پر ایلہ کے عیسائی حاکم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کرلی تھی جو ان لفظوں میں لکھی گئی تھی۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم ہذہ امنۃ من اللہ ومحمد النبی رسول اللہ لیو حنابن روبہ واہل ایلۃ سفنہم وسیارتہم فی البر والبحرلہم ذمۃ اللہ ومحمد النبی۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول محمد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ یوحنا بن روبہ اور اہل ایلہ کے لیے امن کا پروانہ ہے۔ خشکی اور تری میں ہر جگہ ان کے سفینے اور ان کی گاڑیاں سب کے لیے اللہ اور اس کے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے امن وامان کی گارنٹی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : کھجور کا درختوں پر اندازہ کرلینا درست ہے

حدیث نمبر : 1481
حدثنا سهل بن بكار، حدثنا وهيب، عن عمرو بن يحيى، عن عباس الساعدي، عن أبي حميد الساعدي، قال غزونا مع النبي صلى الله عليه وسلم غزوة تبوك فلما جاء وادي القرى إذا امرأة في حديقة لها فقال النبي صلى الله عليه وسلم لأصحابه ‏"‏ اخرصوا‏"‏‏. ‏ وخرص رسول الله صلى الله عليه وسلم عشرة أوسق فقال لها ‏"‏ أحصي ما يخرج منها‏"‏‏. ‏ فلما أتينا تبوك قال ‏"‏ أما إنها ستهب الليلة ريح شديدة فلا يقومن أحد، ومن كان معه بعير فليعقله‏"‏‏. ‏ فعقلناها وهبت ريح شديدة فقام رجل فألقته بجبل طيئ ـ وأهدى ملك أيلة للنبي صلى الله عليه وسلم بغلة بيضاء، وكساه بردا وكتب له ببحرهم ـ فلما أتى وادي القرى قال للمرأة ‏"‏ كم جاء حديقتك‏"‏‏. ‏ قالت عشرة أوسق خرص رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إني متعجل إلى المدينة، فمن أراد منكم أن يتعجل معي فليتعجل‏"‏‏. ‏ فلما ـ قال ابن بكار كلمة معناها ـ أشرف على المدينة قال ‏"‏ هذه طابة‏"‏‏. ‏ فلما رأى أحدا قال ‏"‏ هذا جبيل يحبنا ونحبه، ألا أخبركم بخير دور الأنصار‏"‏‏. ‏ قالوا بلى‏.‏ قال ‏"‏ دور بني النجار، ثم دور بني عبد الأشهل، ثم دور بني ساعدة، أو دور بني الحارث بن الخزرج، وفي كل دور الأنصار ـ يعني ـ خيرا‏"‏‏. قال أبو عبد الله: كل بستان عليه حائط فهو حديقة، وما لم يكن عليه حائط لم يقل حديقة.‏
ہم سے سہل بن بکار نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے ‘ ان سے عمروبن یحیٰی نے ‘ ان سے عباس بن سہل ساعدی نے ‘ ان سے ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم غزوئہ تبوک کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جارہے تھے۔ جب آپ وادی قریٰ ( مدینہ منورہ اور شام کے درمیان ایک قدیم آبادی ) سے گزرے تو ہماری نظر ایک عورت پر پڑی جو اپنے باغ میں کھڑی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا کہ اس کے پھلوں کا اندازہ لگاؤ ( کہ اس میں کتنی کھجور نکلے گی ) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس وسق کا اندازہ لگایا۔ پھر اس عورت سے فرمایا کہ یاد رکھنا اس میں سے جتنی کھجور نکلے۔ جب ہم تبوک پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج رات بڑے زور کی آندھی چلے گی اس لیے کوئی شخص کھڑا نہ رہے۔ اور جس کے پاس اونٹ ہوں تو وہ اسے باندھ دیں۔ چنانچہ ہم نے اونٹ باندھ لیے۔ اور آندھی بڑے زور کی آئی۔ ایک شخص کھڑا ہوا تھا۔ تو ہوا نے اسے جبل طے پر جا پھینکا۔ اور ایلہ کے حاکم ( یوحنا بن روبہ ) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سفید خچر اور ایک چادر کا تحفہ بھیجا۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریری طورپر اسے اس کی حکومت پر برقرار رکھا پھر جب وادی قریٰ ( واپسی میں ) پہنچے تو آپ نے اسی عورت سے پوچھا کہ تمہارے باغ میںکتنا پھل آیا تھا اس نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندازہ کے مطابق دس وسق آیا تھا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں مدینہ جلد جانا چاہتا ہوں۔ اس لیے جو کوئی میرے ساتھ جلدی چلنا چاہے وہ میرے ساتھ جلد روانہ ہو پھر جب ( ابن بکار امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ نے ایک ایسا جملہ کہا جس کے معنے یہ تھے ) کہ مدینہ دکھائی دینے لگا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ہے طابہ! پھر آپ نے احد پہاڑ دیکھا تو فرمایا کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کیا میں انصار کے سب سے اچھے خاندان کی نشاندہی نہ کروں؟ صحابہ نے عرض کی کہ ضرور کیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ بنو نجار کا خاندان۔ پھر بنو عبدالاشہل کا خاندان، پھر بنو ساعدہ کایا ( یہ فرمایا کہ ) نبی حارث بن خزرج کا خاندان۔ اور فرمایا کہ انصار کے تمام ہی خاندانوں میں خیر ہے ‘ ابو عبداللہ ( قاسم بن سلام ) نے کہا کہ جس باغ کی چہار دیواری ہوا سے حدیقہ کہیں گے۔ اور جس کی چہار دیواری نہ ہو اسے حدیقہ نہیں کہیں گے۔

حدیث نمبر : 1482
وقال سليمان بن بلال حدثني عمرو، ‏"‏ ثم دار بني الحارث، ثم بني ساعدة‏"‏‏. ‏ وقال سليمان عن سعد بن سعيد، عن عمارة بن غزية، عن عباس، عن أبيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ أحد جبل يحبنا ونحبه‏"‏‏. ‏ ‏
اور سلیمان بن بلال نے کہا کہ مجھ سے عمرو نے اس طرح بیان کیا کہ پھر بنی حارث بن خزرج کا خاندان اور پھر بنو ساعدہ کا خاندان۔ اور سلیمان نے سعد بن سعید سے بیان کیا ‘ ان سے عمارہ بن غزنیہ نے ‘ ان سے عباس نے ‘ ان سے ان کے باپ ( سہل ) نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا احد وہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔

تشریح : اس طویل حدیث میں جہاں کھجوروں کا اندازہ کرلینے کا ذکر ہے وہاں اور بھی بہت سے حقائق کا بیان ہے۔ غزوئہ تبوک 9 ھ میں ایسے وقت میں پیش آیا کہ موسم گرما اپنے پورے شباب پر تھا اور مدینہ میں کھجور کی فصل بالکل تیار تھی۔ پھر بھی صحابہ کرام نے بڑی جان نثاری کا ثبوت دیا اور ہر پریشانی کا مقابلہ کرتے ہوئے وہ اس طویل سفر میں شریک ہوئے۔ سرحد کا معاملہ تھا۔ آپ دشمن کے انتظار میں وہاں کافی ٹھہرے رہے مگر دشمن مقابلہ کے لیے نہ آیا۔ بلکہ قریب ہی ایلہ شہر کے عیسائی حاکم یوحنا بن روبہ نے آپ کو صلح کا پیغام دیا۔ آپ نے اس کی حکومت اس کے لیے برقرار رکھی۔ کیونکہ آپ کا منشاءملک گیری کا ہرگز نہ تھا۔ واپسی میں آپ کو مدینہ کی محبت نے سفر میں عجلت پر آمادہ کردیا تو آپ نے مدینہ جلد سے جلد پہنچنے کا اعلان فرمادیا۔ جب یہ پاک شہر نظر آنے لگا تو آپ اس قدر خوش ہوئے کہ آپ نے اس مقدس شہر کو لفظ طابہ سے موسوم فرمایا۔ جس کے معنے پاکیزہ اور عمدہ کے ہیں۔ احد پہاڑ کے حق میں بھی اپنی انتہائی محبت کا اظہار فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبائل انصار کی درجہ بدرجہ فضیلت بیان فرمائی جن میں اولین درجہ بنونجار کو دیا گیا۔ ان ہی لوگوں میں آپ کی ننہال تھی اور سب سے پہلے جب آپ مدینہ تشریف لائے یہ لوگ ہتھیار باندھ کر آپ کے استقبال کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ پھر تمام ہی قبائل انصار تعریف کے قابل ہیں جنہوں نے دل وجان سے اسلام کی ایسی مدد کی کہ تاریخ میں ہمیشہ کے لیے یاد رہ گئے۔ رضی اللہ عنہم ورضواعنہ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : اس زمین کی پیداوار سے دسواں حصہ لینا ہوگا جس کی سیرابی بارش یا جاری ( نہر ‘ دریا وغیرہ ) پانی سے ہوئی ہو اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے شہد میں زکوٰۃ کو ضروری نہیں جانا

حدیث نمبر : 1483
حدثنا سعيد بن أبي مريم، حدثنا عبد الله بن وهب، قال أخبرني يونس بن يزيد، عن الزهري، عن سالم بن عبد الله، عن أبيه ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ فيما سقت السماء والعيون أو كان عثريا العشر، وما سقي بالنضح نصف العشر‏"‏‏. ‏ قال أبو عبد الله هذا تفسير الأول لأنه لم يوقت في الأول ـ يعني حديث ابن عمر ـ وفيما سقت السماء العشر وبين في هذا ووقت، والزيادة مقبولة، والمفسر يقضي على المبهم إذا رواه أهل الثبت، كما روى الفضل بن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يصل في الكعبة‏.‏ وقال بلال قد صلى‏.‏ فأخذ بقول بلال وترك قول الفضل‏.
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے یونس بن یزید نے خبر دی ‘ انہیں شہاب نے ‘ انہیں سالم بن عبداللہ بن عمر نے ‘ انہیں ان کے والد نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ وہ زمین جسے آسمان ( بارش کا پانی ) یا چشمہ سیراب کرتا ہو۔ یا وہ خود بخود نمی سے سیراب ہوجاتی ہو تو اس کی پیداوار سے دسواں حصہ لیا جائے اور وہ زمین جسے کنویں سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جاتا ہو تو اس کی پیداوار سے بیسواں حصہ لیا جائے۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ ) نے کہا کہ یہ حدیث یعنی عبداللہ بن عمر کی حدیث کہ جس کھیتی میں آسمان کا پانی دیا جائے ‘ دسواں حصہ ہے پہلی حدیث یعنی ابوسعید کی حدیث کی تفسیر ہے۔ اس میں زکوٰۃ کی کوئی مقدار مذکور نہیں ہے اور اس میں مذکور ہے۔ اور زیادتی قبول کی جاتی ہے۔ اور گول مول حدیث کا حکم صاف صاف حدیث کے موافق لیا جاتا ہے۔ جب اس کا راوی ثقہ ہو۔ جیسے فضل بن عباس رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ میں نماز نہیں پڑھی۔ لیکن بلال رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ آپ نے نماز ( کعبہ میں ) پڑھی تھی۔ اس موقع پر بھی بلال رضی اللہ عنہ کی بات قبول کی گئی اور فضل رضی اللہ عنہ کا قول چھوڑ دیا گیا۔

تشریح : اصول حدیث میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ثقہ اور ضابط شخص کی زیادتی مقبول ہے۔ اسی بناپر ابوسعید رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس میں یہ مذکور نہیں ہے کہ زکوٰۃ میں مال کا کون سا حصہ لیا جائے گا یعنی دسواں حصہ یا بیسواں حصہ اس حدیث یعنی ابن عمر کی حدیث میں زیادتی ہے تو یہ زیادتی واجب القبول ہوگی۔ بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے یہ حدیث یعنی ابوسعید کی حدیث پہلی حدیث یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کی تفسیر کرتی ہے۔ کیونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں نصاب کی مقدار مذکور نہیں ہے۔ بلکہ ہر ایک پیداوار سے دسواں حصہ یا بیسواں حصہ لیے جانے کا اس میں ذکر ہے۔ خواہ پانچ وسق ہو یا اس سے کم ہو۔ اور ابوسعید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں تفصیل ہے کہ پانچ وسق سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ تو یہ زیادتی ہے۔ اور زیادتی ثقہ اور معتبر راوی کی مقبول ہے۔ ( وحیدالزماں مرحوم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : پانچ وسق سے کم میں زکوٰۃ فرض نہیں ہے

حدیث نمبر : 1484
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، حدثنا مالك، قال حدثني محمد بن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي صعصعة، عن أبيه، عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ ليس فيما أقل من خمسة أوسق صدقة، ولا في أقل من خمسة من الإبل الذود صدقة، ولا في أقل من خمس أواق من الورق صدقة‏"‏‏. ‏ قال أبو عبد الله هذا تفسير الأول إذا قال ‏"‏ ليس فيما دون خمسة أوسق صدقة‏"‏‏. ‏ ويؤخذ أبدا في العلم بما زاد أهل الثبت أو بينوا‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یحیٰی بن سعید قطان نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے محمد بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی صعصعہ نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے باپ نے بیان کیا اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ وسق سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے ‘ اور پانچ مہاراونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ اور چاندی کے پانچ اوقیہ سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔

تشریح : اہلحدیث کا مذہب یہ ہے کہ گیہوں اور جو اورجواراور کھجور اور انگور میں جب ان کی مقدار پانچ وسق یا زیادہ ہوتو زکوٰۃ واجب ہے۔ اور ان کے سوا دوسری چیزوں میں جیسے اور ترکاریاں اور میوے وغیرہ میں مطلقاً زکوٰۃ نہیں خواہ وہ کتنے ہی ہوں۔ قسطلانی نے کہا میووں میں سے صرف کھجور اور انگور میں اور اناجوں میں سے ہر ایک اناج میں جو ذخیرہ رکھے جاتے ہیں جیسے گیہوں‘ جو‘جوار‘ مسور‘ باجرہ‘ چنا‘ لوبیا وغیرہ ان سب میں زکوٰۃ ہے۔ اور حنفیہ کے نزدیک پانچ وسق کی قید بھی نہیں ہے، قلیل ہو یا کثیر سب میں زکوٰۃ واجب ہے۔ اور امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث لاکر ان کا رد کیا۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ

باب : کھجور کے پھل توڑنے کے وقت زکوٰۃ لی جائے

وهل يترك الصبي فيمس تمر الصدقة.
اور زکوٰۃ کی کھجور کو بچے کا ہاتھ لگانا یا اس میں سے کچھ کھالینا۔

حدیث نمبر : 1485
حدثنا عمر بن محمد بن الحسن الأسدي، حدثنا أبي، حدثنا إبراهيم بن طهمان، عن محمد بن زياد، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يؤتى بالتمر عند صرام النخل فيجيء هذا بتمره وهذا من تمره حتى يصير عنده كوما من تمر، فجعل الحسن والحسين ـ رضى الله عنهما ـ يلعبان بذلك التمر، فأخذ أحدهما تمرة، فجعلها في فيه، فنظر إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخرجها من فيه فقال ‏"‏ أما علمت أن آل محمد صلى الله عليه وسلم لا يأكلون الصدقة‏"‏‏.
ہم سے عمر بن محمد بن حسن اسدی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا ‘ ان سے محمد بن زیاد نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس توڑنے کے وقت زکوٰۃ کی کھجور لائی جاتی، ہر شخص اپنی زکوٰۃ لاتا اور نوبت یہاں تک پہنچتی کہ کھجور کا ایک ڈھیر لگ جاتا۔ ( ایک مرتبہ ) حسن اور حسین رضی اللہ عنہما ایسی ہی کھجوروں سے کھیل رہے تھے کہ ایک نے ایک کھجور اٹھاکر اپنے منہ میں رکھ لی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جونہی دیکھا تو ان کے منہ سے وہ کھجور نکال لی۔ اور فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد زکوٰۃ کامال نہیں کھاسکتی۔

معلوم ہوا کہ یہ فرض زکوٰۃ تھی کیونکہ وہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر حرام ہے۔ حدیث سے یہ نکلا کہ چھوٹے بچوں کو دین کی باتیں سکھلانا اور ان کو تنبیہ کرنا ضروری ہے۔
 
Top