• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : زکوٰۃ کے اونٹوں سے مسافر لوگ کام لے سکتے ہیں اور ان کا دودھ پی سکتے ہیں

حدیث نمبر : 1501
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن شعبة، حدثنا قتادة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ أن ناسا، من عرينة اجتووا المدينة، فرخص لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يأتوا إبل الصدقة فيشربوا من ألبانها وأبوالها، فقتلوا الراعي واستاقوا الذود، فأرسل رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتي بهم، فقطع أيديهم وأرجلهم وسمر أعينهم، وتركهم بالحرة يعضون الحجارة‏.‏ تابعه أبو قلابة وحميد وثابت عن أنس‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے یحیٰی قطان نے بیان کیا ‘ ان سے شعبہ نے کہا کہ ہم سے قتادہ نے بیان کیا ‘ اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ عرینہ کے کچھ لوگوں کو مدینہ کی آب وہوا موافق نہیں آئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت دے دی کہ وہ زکوٰۃ کے اونٹوں میںجاکر ان کا دودھ اور پیشاب استعمال کریں ( کیونکہ وہ ایسے مرض میں مبتلا تھے جس کی دوا یہی تھی ) لیکن انہوں نے ( ان اونٹوں کے ) چرواہے کو مار ڈالا اور اونٹوں کو لے کر بھاگ نکلے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے آخر وہ لوگ پکڑ لائے گئے۔ آں حضور نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کٹوادئیے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروا دیں پھر انہیں دھوپ میں ڈلوا دیا ( جس کی شدت کی وجہ سے ) وہ پتھر چبانے لگے تھے۔ اس روایت کی متابعت ابوقلابہ ثابت اور حمید نے انس رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے کی ہے۔

تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مسافر اور بیمار جان کر زکوٰۃ کے اونٹوں کی چراگاہ میں بھیج دیا کیونکہ وہ مرض استسقاءکے مریض تھے۔ مگر وہاں ان ظالموں نے اونٹوں کے محافظ کو نہ صرف قتل کیا بلکہ اس کا مثلہ کرڈالا اور اونٹوں کو لے کر بھاگ گئے۔ بعد میں پکڑے گئے اور قصاص میں ان کو ایسی ہی سزادی گئی۔

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے ثابت فرمایا کہ مسافروں کے لیے زکوٰۃ کے اونٹوں کا دودھ وغیرہ دیا جاسکتا ہے اور ان کی سواری بھی ان پر ہوسکتی ہے۔ غرض المصنف فی ہذا الباب اثبات وضع الصدقۃ فی صنف واحد خلافا لمن قال یجب استیعاب الاصناف الثمانیۃ ( فتح الباری ) یعنی مصنف کا مقصد اس باب سے یہ ثابت کرنا ہے کہ اموال زکوٰۃ کو صرف ایک ہی مصرف پر بھی خرچ کیا جاسکتا ہے برخلاف ان کے جو آٹھوں مصارف کا استیعاب ضروری جانتے ہیں۔ ان لوگوں کی یہ سنگین سزا قصاص ہی میں تھی اور بس۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : زکوٰۃ کے اونٹوں پر حاکم کا اپنے ہاتھ سے داغ دینا

حدیث نمبر : 1502
حدثنا إبراهيم بن المنذر، حدثنا الوليد، حدثنا أبو عمرو الأوزاعي، حدثني إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، حدثني أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ قال غدوت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بعبد الله بن أبي طلحة ليحنكه، فوافيته في يده الميسم يسم إبل الصدقة‏.‏
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ولید نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوعمرو اوزاعی نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن ابی طلحہ کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا کہ آپ ان کی تحنیک کردیں۔ ( یعنی اپنے منہ سے کوئی چیز چباکر ان کے منہ میں ڈال دیں ) میں نے اس وقت دیکھا کہ آپ کے ہاتھ میں داغ لگانے کا آلہ تھا اور آپ زکوٰۃ کے اونٹوں پر داغ لگارہے تھے :

معلوم ہوا کہ جانور کو ضرورت سے داغ دینا درست ہے اور رد ہوا حنفیہ کا جنہوں نے داغ دینا مکروہ اور اس کو مثلہ سمجھا ہے۔ ( وحیدی ) اور بچوں کے لیے تحنیک بھی سنت ہے کہ کھجور وغیرہ کوئی چیز کسی نیک آدمی کے منہ سے کچلواکر بچے کے منہ میں ڈالی جائے تاکہ اس کو بھی نیک فطرت حاصل ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : صدقہ فطر کا فرض ہونا

ورأى أبو العالية وعطاء وابن سيرين صدقة الفطر فريضة
ابو العالیہ ‘ عطاء اور ابن سیرین رحمتہ اللہ علیہم نے بھی صدقہ فطر کو فرض سمجھا ہے۔

تشریح : حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الزکوٰۃ کو ختم فرماتے ہوئے صدقہ فطر کے مسائل بھی پیش فرمادئیے۔ قال اللہ تعالیٰ قد افلح من تزکی وذکراسم ربہ فصلی روی عن ابن عمر وعمرو بن عوف قالا نزلت فی زکوٰۃ الفطر وروی عن ابی العالیۃ وابن المسیب وابن سیرین وغیرہم قالوا یعطی صدقۃ الفطر ثم یصلی رواہ البیہقی وغیرہ ( مرعاۃ ) یعنی قرآنی آیت فلاح پائی اس شخص نے جس نے تزکیہ حاصل کیا اور اپنے رب کا نام یاد کیا۔ اور نماز پڑھی۔ حضرات عبداللہ بن عمر اور عمرو بن عوف کہتے ہیں کہ یہ آیت صدقہ فطر کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ یہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ پہلے صدقہ فطر ادا کیا جائے‘ پھر نماز پڑھی جائے۔ لفظ تزکی کے تزکیہ سے روزوں کو پاک صاف کرنا مراد ہے جس کے لیے صدقہ فطر ادا کیا جاتا ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: فرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زکوٰۃ الفطر طہرۃ للصائم من اللغو والرفث الحدیث رواہ ابو داود وابن ماجۃ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ فطر کو فرض قرار دیا جو روزہ دارکو لغو اور گناہوں سے ( جو اس سے حالت روزہ میں صادر ہوتے ہیں ) پاک صاف کردیتی ہے۔ پس آپ کا لفظ تزکی سے مراد صدقہ فطر ادا کرنا ہوا۔ حدیث ہذا کے تحت علامہ شوکانی فرماتے ہیں: فیہ دلیل علی ان صدقۃ الفطر من الفرائض وقد نقل ابن المنذر وغیرہ الاجماع ذلک ولکن الحنفیۃ یقولون بالوجوب دون الفرضیۃ علی قاعدتہم فی التفرقۃ بین الفرض والوجوب ( نیل الاوطار )

یعنی اس حدیث میں دلیل ہے کہ صدقہ فطر فرائض اسلامیہ میں سے ہے۔ ابن منذر وغیرہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے مگر حنفیہ اسے واجب قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے ہاں ان کے قاعدہ کے تحت فرض اور واجب میں فرق ہے اس لیے وہ اس کو فرض نہیں بلکہ واجب کے درجہ میں رکھتے ہیں۔ علامہ عینی حنفی فرماتے ہیں کہ یہ صرف لفظی نزاع ہے۔
بعض کتب فقہ حنفیہ میں اسے صدقۃ الفطرۃ یعنی تاکی زیادتی کے ساتھ لکھا گیا ہے اور اس سے مراد وہ فطرت لی گئی ہے جو آیت شریفہ فطرۃ اللہ التی فطرالناس علیہا میں ہے۔ مگر حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: واما لفظ الفطر بدون تاءفلا کلام فی انہ معنی لغوی مستعمل قبل الشرع لانہ ضد الصوم ویقال لہا ایضا زکوٰۃ الفطرو زکوٰۃ رمضان وزکوٰۃ الصوم وصدقۃ رمضان وصدقۃ الصوم الخ ( مرعاۃ )

لیکن لفظ فطر بغیر تاءکے کوئی شک نہیں کہ یہ لغوی معنی میں مستعمل ہے، شریعت کے نزول سے پہلے بھی یہ روزہ کی ضد پر بولا جاتا رہا ہے۔ اسے زکوٰۃ الفطر، زکوٰۃ رمضان، زکوٰۃ صوم وصدقہ رمضان وصدقہ صوم کے ناموں سے بھی پکارا گیاہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : صدقہ فطر کا مسلمانوں پر یہاں تک کہ غلام لونڈی پر بھی فرض ہونا

حدیث نمبر : 1504
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم فرض زكاة الفطر صاعا من تمر، أو صاعا من شعير، على كل حر أو عبد، ذكر أو أنثى، من المسلمين‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں نافع نے ‘ اور انہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطر کی زکوٰۃ آزاد یا غلام ‘ مردیا عورت تمام مسلمانوں پر ایک صاع کھجور یا جو فرض کی تھی۔

تشریح : غلام اور لونڈی پر صدقہ فطر فرض ہونے سے یہ مراد ہے کہ ان کا مالک ان کی طرف سے صدقہ دے۔ بعضوں نے کہا کہ یہ صدقہ پہلے غلام لونڈی پر فرض ہوتا ہے پھر مالک ان کی طرف سے اپنے اوپر اٹھالیتا ہے۔ ( وحیدی )

صدقہ فطرکی فرضیت یہاں تک ہے کہ یہ اس پر بھی فرض ہے جس کے پاس ایک روز کی خوراک سے زائد غلہ یا کھانے کی چیز موجود ہے۔ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صاع من براوقمح عن کل اثنین صغیر اوکبیر حراو عبد ذکر او انثیٰ اما غنیکم فیزکیہ اللہ واما فقیر کم فیرد علیہ اکثر مما اعطاہ ( ابوداود ) یعنی ایک صاع گیہوں چھوٹے بڑے دونوں آدمیوں آزاد غلام مرد عورت کی طرف سے نکالا جائے اس صدقہ کی وجہ سے اللہ پاک مالدار کو گناہوں سے پاک کردے گا ( اس کا روزہ پاک ہوجائے گا ) اور غریب کو اس سے بھی زیادہ دے گا جتنا کہ اس نے دیا ہے۔

صاع سے مراد صاع حجازی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مدینہ منورہ میں مروج تھا‘ نہ صاع عراقی مراد ہے۔ صاع حجازی کا وزن اسی تولے کے سیر کے حساب سے پونے تین سیر کے قریب ہوتا ہے، حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وہو خمسۃ ارطال وثلث رطل بغدادی ویقال لہ الصاع الحجازی لانہ مستعملا فی بلاد الحجاز وہو الصاع الذی کان مستعملا فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم وبہ کانوا یخرجون صدقۃ الفطر وزکوٰۃ المعشرات وغیر ہما من الحقوق الواجبۃ المقدرۃ فی عہدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم وبہ قال مالک والشافعی واحمد وابو یوسف وعلماءالحجاز وقال ابو حنیفۃ ومحمد بالصاع العراقی وہو ثمانیۃ ارطال بالرطل المذکور وانما قیل لہ العراقی لانہ کان مستعملا فی بلاد العراق وہوالذی یقال لہ الصاع الحجاجی لانہ اُبَرزہ الحجاج الوالی وکان ابو یوسف یقول کقول ابی حنیفۃ ثم رجع الی قول الجمہور لما تناظر مع مالک بالمدینۃ فاراہ المیعان التی توارثہا اہل المدینۃ عن اسلافہم فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ( مرعاۃ ج 3 ص 93 )
صاع کا وزن 5 رطل اور ثلث رطل بغدادی ہے، اسی کو صاع حجازی کہا جاتا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حجاز میں مروج تھا۔ اور عہد رسالت میں صدقہ فطر اور عشر کا غلہ اور دیگر حقوق واجبہ بصورت اجناس اسی صاع سے وزن کرکے ادا کئے جاتے تھے۔ امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ اور امام ابویوسف رحمہ اللہ اور علماءحجاز کا یہی قول ہے۔ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ صاع عراقی مراد لیتے ہیں۔ جو بلاد عراق میں مروج تھا۔ جسے صاع حجاجی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا وزن آٹھ رطل مذکور کے برابر ہوتا ہے امام ابویوسف رحمہ اللہ بھی اپنے استاد گرامی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کے قول پر فتویٰ دیتے تھے مگر جب آپ مدینہ تشریف لائے اور اس بارے میں امام المدینہ امام مالک رحمہ اللہ سے تبادلہ خیال فرمایا تو امام مالک رحمہ اللہ نے مدینہ کے بہت سے پرانے صاع جمع کرائے۔ جو اہل مدینہ کو زمانہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم سے بطور وراثت ملے تھے اور جن کا عہد نبوی میں رواج تھا، ان کا وزن کیا گیا تو 5 رطل ثلث بغدادی نکلا۔ چنانچہ حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ نے اس بارے میں قول جمہور کی طرف رجوع فرمالیا۔ صاع حجاجی اس لیے کہا گیا کہ اسے حجاج والی نے جاری کیاتھا۔

حساب بالا کی رو سے صاع حجازی کا وزن 234 تو لہ ہوتا ہے جس کے 6 تولہ کم تین سیر بنتے ہیں جو اسی ( 80 ) تولہ والے سیر کے مطابق ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : صدقہ فطر میں اگر جو دے تو ایک صاع ادا کرے

حدیث نمبر : 1505
حدثنا قبيصة، حدثنا سفيان، عن زيد بن أسلم، عن عياض بن عبد الله، عن أبي سعيد ـ رضى الله عنه ـ قال كنا نطعم الصدقة صاعا من شعير‏.‏
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا ‘ انہو ںنے کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے زیدبن اسلم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عیاض بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم ایک صاع جو کاصدقہ دیا کرتے تھے۔

تفصیل سے بتلایا جاچکا ہے کہ صاع سے مراد صاع حجازی ہے جو عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں مروج تھا۔ جس کا وزن تین سیر سے کچھ کم ہوتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : گیہوں یا دو سرا اناج بھی صدقہ فطر میں ایک صاع ہونا چاہیے

حدیث نمبر : 1506
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن زيد بن أسلم، عن عياض بن عبد الله بن سعد بن أبي سرح العامري، أنه سمع أبا سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ يقول كنا نخرج زكاة الفطر صاعا من طعام، أو صاعا من شعير، أو صاعا من تمر، أو صاعا من أقط، أو صاعا من زبيب‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی ‘ ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا ‘ ان سے عیاض بن عبداللہ بن سعد بن ابی سرح عامری نے بیان کیا ‘ کہ انہوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا۔ آپ فرماتے تھے کہ ہم فطرہ کی زکوٰۃ ایک صاع اناج یا گیہوں یا ایک صاع جو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع زبیب ( خشک انگوریا انجیر ) نکالا کرتے تھے۔

تشریح : طعام سے اکثر لوگوں کے نزدیک گیہوں ہی مراد ہے۔ بعضوں نے کہا جو کے سوا دوسرے اناج اور اہل حدیث اور شافعیہ اور جمہور علماءکا یہی قول ہے کہ اگر صدقہ فطر میں گیہوں دے تو بھی ایک صاع دینا کافی سمجھا۔ ابن خزیمہ اور حاکم نے ابوسعید رضی اللہ عنہ سے نکالا۔ میں تو وہی صدقہ دوں گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دیا کرتا تھا۔ یعنی ایک صاع کھجور یا ایک صاع گیہوں یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع جو۔ ایک شخص نے کہا یا دو مدنصف صاع گیہوں‘ انہوں نے کہا نہیں یہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی ٹھہرائی ہوئی بات ہے۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : صدقہ فطر میں کھجور بھی ایک صاع نکالی جائے

حدیث نمبر : 1507
حدثنا أحمد بن يونس، حدثنا الليث، عن نافع، أن عبد الله، قال أمر النبي صلى الله عليه وسلم بزكاة الفطر، صاعا من تمر، أو صاعا من شعير‏.‏ قال عبد الله ـ رضى الله عنه ـ فجعل الناس عدله مدين من حنطة‏.‏
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے نافع کے واسطہ سے بیان کیا ‘ ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع کھجوریا ایک صاع جو کی زکوٰۃ فطر دینے کا حکم فرمایا تھا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر لوگوں نے اسی کے برابر دومد ( آدھا صاع ) گیہوں کر لیا تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : صدقہ فطر میں منقیٰ بھی ایک صاع دینا چاہیے

حدیث نمبر : 1508
حدثنا عبد الله بن منير، سمع يزيد العدني، حدثنا سفيان، عن زيد بن أسلم، قال حدثني عياض بن عبد الله بن أبي سرح، عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ قال كنا نعطيها في زمان النبي صلى الله عليه وسلم صاعا من طعام، أو صاعا من تمر، أو صاعا من شعير، أو صاعا من زبيب، فلما جاء معاوية وجاءت السمراء قال أرى مدا من هذا يعدل مدين‏.‏
ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے یزیدبن ابی حکیم عدنی سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ‘ ان سے زیدبن اسلم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے عیاض بن عبداللہ بن سعد بن ابی سرح نے بیان کیا اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ فطر ایک صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو یا ایک صاع زبیب ( خشک انگور یا خشک انجیر ) نکالتے تھے۔ پھر جب معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں آئے اور گیہوں کی آمدنی ہوئی تو کہنے لگے میں سمجھتا ہوں اس کا ایک مد دوسرے اناج کے دو مد کے برابر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : صدقہ فطر نماز عید سے پہلے ادا کرنا

حدیث نمبر : 1509
حدثنا آدم، حدثنا حفص بن ميسرة، حدثنا موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم أمر بزكاة الفطر قبل خروج الناس إلى الصلاة‏.‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے حفص بن میسرہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا ‘ ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر نماز ( عید ) کے لیے جانے سے پہلے پہلے نکالنے کا حکم دیا تھا۔

حدیث نمبر : 1510
حدثنا معاذ بن فضالة، حدثنا أبو عمر، عن زيد، عن عياض بن عبد الله بن سعد، عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ قال كنا نخرج في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الفطر صاعا من طعام‏.‏ وقال أبو سعيد وكان طعامنا الشعير والزبيب والأقط والتمر‏.‏
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو عمر حفص بن میسرہ نے بیان کیا ‘ ان سے زیدبن اسلم نے بیان کیا ‘ ان سے عیاض بن عبداللہ بن سعد نے ‘ ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عیدالفطر کے دن ( کھانے کے غلہ سے ) ایک صاع نکالتے تھے۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمارا کھانا ( ان دنوں ) جو، زبیب، پنیر اور کھجور تھا۔

تشریح : صدقہ فطر عید سے ایک دو دن پہلے بھی نکالا جاسکتا ہے مگر نماز عید سے پہلے تو اسے ادا کرہی دینا چاہیے۔ جیسا کہ دوسری روایات میں صاف موجود ہے فمن اداہا قبل الصلوٰۃ فہی زکوٰۃ مقبولۃ ومن اداہا بعد الصلوٰۃ فہی صدقۃ من الصدقات ( ابوداود وابن ماجہ ) یعنی جو اسے نماز عید سے قبل ادا کردے گا اس کی یہ زکوٰۃ الفطر مقبول ہوگی اور جو نماز کے بعد ادا کرے گا اس صورت میں یہ ایسا ہی معمولی صدقہ ہوگا جیسے عام صدقات ہوتے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : صدقہ فطر، آزاد اور غلام پر واجب ہونا

وقال الزهري في المملوكين للتجارة يزكى في التجارة، ويزكى في الفطر‏.‏
اور زہری نے کہا جو غلام لونڈی سوداگری کامال ہوں تو ان کی سالانہ زکوٰۃ بھی دی جائے گی اور ان کی طرف سے صدقہ فطر بھی ادا کیا جائے۔

تشریح : پہلے ایک باب اس مضمون کا گزرچکا ہے کہ غلام وغیرہ پر جو مسلمان ہوں صدقہ فطر واجب ہے پھر اس باب کے دوبارہ لانے سے کیا غرض ہے؟ ابن منیر نے کہا کہ پہلے باب سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مطلب یہ تھا کہ کافر کی طرف سے صدقہ فطر نہ نکالیں۔ اس لیے اس میں من المسلمین کی قید لگائی۔ اور اس باب کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ہونے پر صدقہ فطر کس کس پر اور کس کس طرف سے واجب ہے۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1511
حدثنا أبو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا أيوب، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال فرض النبي صلى الله عليه وسلم صدقة الفطر ـ أو قال رمضان ـ على الذكر والأنثى، والحر والمملوك، صاعا من تمر أو صاعا من شعير، فعدل الناس به نصف صاع من بر‏.‏ فكان ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يعطي التمر، فأعوز أهل المدينة من التمر فأعطى شعيرا، فكان ابن عمر يعطي عن الصغير والكبير، حتى إن كان يعطي عن بني، وكان ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يعطيها الذين يقبلونها، وكانوا يعطون قبل الفطر بيوم أو يومين‏.‏
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ انہو ںنے کہا کہ ہم سے ایوب نے بیان کیا ‘ ان سے نافع نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر یا یہ کہا کہ صدقہ رمضان مرد، عورت، آزاد اور غلام ( سب پر ) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض قرار دیا تھا۔ پھر لوگوں نے آدھا صاع گیہوں اس کے برابر قرار دے لیا۔ لیکن ابن عمر رضی اللہ عنہما کھجور دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ مدینہ میں کھجور کا قحط پڑا تو آپ نے جو صدقہ میں نکالا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما چھوٹے بڑے سب کی طرف سے یہاں تک کہ میرے بیٹوں کی طرف سے بھی صدقہ فطر نکالتے تھے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما صدقہ فطر ہر فقیر کو جو اسے قبول کرتا، دے دیا کرتے تھے۔ اور لوگ صدقہ فطر ایک یا دو دن پہلے ہی دے دیا کرتے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا میرے بیٹوں سے نافع کے بیٹے مراد ہیں۔ امام بخاری نے کہا وہ عید سے پہلے جو صدقہ دے دیتے تھے تو اکٹھا ہونے کے لیے نہ فقیروں کے لیے ( پھر وہ جمع کرکے فقرا میں تقسیم کردیا جاتا
 
Top