Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : زکوٰۃ کے اونٹوں سے مسافر لوگ کام لے سکتے ہیں اور ان کا دودھ پی سکتے ہیں
حدیث نمبر : 1501
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن شعبة، حدثنا قتادة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ أن ناسا، من عرينة اجتووا المدينة، فرخص لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يأتوا إبل الصدقة فيشربوا من ألبانها وأبوالها، فقتلوا الراعي واستاقوا الذود، فأرسل رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتي بهم، فقطع أيديهم وأرجلهم وسمر أعينهم، وتركهم بالحرة يعضون الحجارة. تابعه أبو قلابة وحميد وثابت عن أنس.
ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے یحیٰی قطان نے بیان کیا ‘ ان سے شعبہ نے کہا کہ ہم سے قتادہ نے بیان کیا ‘ اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ عرینہ کے کچھ لوگوں کو مدینہ کی آب وہوا موافق نہیں آئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت دے دی کہ وہ زکوٰۃ کے اونٹوں میںجاکر ان کا دودھ اور پیشاب استعمال کریں ( کیونکہ وہ ایسے مرض میں مبتلا تھے جس کی دوا یہی تھی ) لیکن انہوں نے ( ان اونٹوں کے ) چرواہے کو مار ڈالا اور اونٹوں کو لے کر بھاگ نکلے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے آخر وہ لوگ پکڑ لائے گئے۔ آں حضور نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کٹوادئیے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروا دیں پھر انہیں دھوپ میں ڈلوا دیا ( جس کی شدت کی وجہ سے ) وہ پتھر چبانے لگے تھے۔ اس روایت کی متابعت ابوقلابہ ثابت اور حمید نے انس رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے کی ہے۔
تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مسافر اور بیمار جان کر زکوٰۃ کے اونٹوں کی چراگاہ میں بھیج دیا کیونکہ وہ مرض استسقاءکے مریض تھے۔ مگر وہاں ان ظالموں نے اونٹوں کے محافظ کو نہ صرف قتل کیا بلکہ اس کا مثلہ کرڈالا اور اونٹوں کو لے کر بھاگ گئے۔ بعد میں پکڑے گئے اور قصاص میں ان کو ایسی ہی سزادی گئی۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے ثابت فرمایا کہ مسافروں کے لیے زکوٰۃ کے اونٹوں کا دودھ وغیرہ دیا جاسکتا ہے اور ان کی سواری بھی ان پر ہوسکتی ہے۔ غرض المصنف فی ہذا الباب اثبات وضع الصدقۃ فی صنف واحد خلافا لمن قال یجب استیعاب الاصناف الثمانیۃ ( فتح الباری ) یعنی مصنف کا مقصد اس باب سے یہ ثابت کرنا ہے کہ اموال زکوٰۃ کو صرف ایک ہی مصرف پر بھی خرچ کیا جاسکتا ہے برخلاف ان کے جو آٹھوں مصارف کا استیعاب ضروری جانتے ہیں۔ ان لوگوں کی یہ سنگین سزا قصاص ہی میں تھی اور بس۔
باب : زکوٰۃ کے اونٹوں سے مسافر لوگ کام لے سکتے ہیں اور ان کا دودھ پی سکتے ہیں
حدیث نمبر : 1501
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن شعبة، حدثنا قتادة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ أن ناسا، من عرينة اجتووا المدينة، فرخص لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يأتوا إبل الصدقة فيشربوا من ألبانها وأبوالها، فقتلوا الراعي واستاقوا الذود، فأرسل رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتي بهم، فقطع أيديهم وأرجلهم وسمر أعينهم، وتركهم بالحرة يعضون الحجارة. تابعه أبو قلابة وحميد وثابت عن أنس.
ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے یحیٰی قطان نے بیان کیا ‘ ان سے شعبہ نے کہا کہ ہم سے قتادہ نے بیان کیا ‘ اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ عرینہ کے کچھ لوگوں کو مدینہ کی آب وہوا موافق نہیں آئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت دے دی کہ وہ زکوٰۃ کے اونٹوں میںجاکر ان کا دودھ اور پیشاب استعمال کریں ( کیونکہ وہ ایسے مرض میں مبتلا تھے جس کی دوا یہی تھی ) لیکن انہوں نے ( ان اونٹوں کے ) چرواہے کو مار ڈالا اور اونٹوں کو لے کر بھاگ نکلے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے آخر وہ لوگ پکڑ لائے گئے۔ آں حضور نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کٹوادئیے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروا دیں پھر انہیں دھوپ میں ڈلوا دیا ( جس کی شدت کی وجہ سے ) وہ پتھر چبانے لگے تھے۔ اس روایت کی متابعت ابوقلابہ ثابت اور حمید نے انس رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے کی ہے۔
تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مسافر اور بیمار جان کر زکوٰۃ کے اونٹوں کی چراگاہ میں بھیج دیا کیونکہ وہ مرض استسقاءکے مریض تھے۔ مگر وہاں ان ظالموں نے اونٹوں کے محافظ کو نہ صرف قتل کیا بلکہ اس کا مثلہ کرڈالا اور اونٹوں کو لے کر بھاگ گئے۔ بعد میں پکڑے گئے اور قصاص میں ان کو ایسی ہی سزادی گئی۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے ثابت فرمایا کہ مسافروں کے لیے زکوٰۃ کے اونٹوں کا دودھ وغیرہ دیا جاسکتا ہے اور ان کی سواری بھی ان پر ہوسکتی ہے۔ غرض المصنف فی ہذا الباب اثبات وضع الصدقۃ فی صنف واحد خلافا لمن قال یجب استیعاب الاصناف الثمانیۃ ( فتح الباری ) یعنی مصنف کا مقصد اس باب سے یہ ثابت کرنا ہے کہ اموال زکوٰۃ کو صرف ایک ہی مصرف پر بھی خرچ کیا جاسکتا ہے برخلاف ان کے جو آٹھوں مصارف کا استیعاب ضروری جانتے ہیں۔ ان لوگوں کی یہ سنگین سزا قصاص ہی میں تھی اور بس۔