• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : صدقہ فطر بڑوں اور چھوٹوں پر واجب ہے

اور ابو عمرو نے بیان کیا ‘ کہ عمر ‘ علی ‘ ابن عمر ‘ جابر ‘ عائشہ ‘ طاؤس ‘ عطاء اور ابن سیرین رضی اللہ عنہم کا خیال یہ تھا کہ یتیم کے مال سے بھی زکوٰۃ دی جائے گی۔ اور زہری دیوانے کے مال سے زکوٰۃ نکالنے کے قائل تھے۔

حدیث نمبر : 1512
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن عبيد الله، قال حدثني نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنه ـ قال فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم صدقة الفطر صاعا من شعير، أو صاعا من تمر على الصغير والكبير والحر والمملوك‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یحیٰی قطان نے عبیداللہ عمری کے واسطے سے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع جو یا ایک صاع کھجور کا صدقہ فطر، چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام سب پر فرض قرار دیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب الحج


صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : حج کی فرضیت اور اس کی فضیلت کا بیان

‏{‏ولله على الناس حج البيت من استطاع إليه سبيلا ومن كفر فإن الله غني عن العالمين‏}‏
اور اللہ پاک نے ( سورہ آل عمران میں ) فرمایا لوگوں پر فرض ہے کہ اللہ کے لیے خانہ کعبہ کا حج کریں جس کو وہاں تک راہ مل سکے۔ اور جو نہ مانے ( اور باوجود قدرت کے حج کو نہ جائے ) تو اللہ سارے جہاں سے بے نیاز ہے۔

تشریح : اپنے معمول کے مطابق امیرالمومنین فی الحدیث حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے حج کی فرضیت ثابت کرنے کے لیے قرآن پاک کی آیت مذکورہ کو نقل فرمایا۔ یہ سورہ آل عمران کی آیت ہے جس میں اللہ نے استطاعت والوں کے لیے حج کو فرض قرار دیا ہے۔ حج کے لفظی معنی قصد کرنے کے ہیں۔ واصل الحج فی اللغۃ القصد وفی الشرع القصد الی البیت الحرام باعمال مخصوصۃ لغوی معنی حج کے قصد کے ہیں اور شرعی معنی یہ کہ بیت اللہ شریف کا اعمال مخصوصہ کے ساتھ قصد کرنا۔ استطاعت کا لفظ اتنا جامع ہے کہ اس میں مالی، جسمانی، ملکی ہر قسم کی استطاعت داخل ہے۔ حج السام کے پانچوں رکنوں میں سے ایک رکن ہے۔ اور وہ ساری عمر میں ایک بار فرض ہے۔ اس کی فرضیت 9 ھ میں ہوئی۔ بعض کا خیال ہے کہ 5ھ یا 6 ھ میں حج فرض ہوا۔ حج کی فرضیت کا منکر کافر ہے اور باوجود قدرت کے حج نہ کرنے والوں کے حق میں کہا گیا ہے کہ کچھ تعجب نہیں اگر وہ یہودی یا نصرانی ہوکر مریں۔ حج کا فریضہ ہرمسلمان پر اسی وقت عائد ہوتا ہے جب کہ اس کو جسمانی اور مالی اور ملکی طورپر طاقت حاصل ہو۔ جیسا کہ آیت شریفہ من استطاع الیہ سبیلا سے ظاہر ہے۔

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ آیت قرآنی لانے کے بعد وہ حدیث لائے جس میں صاف صاف ان فریضۃ اللہ علی عبادہ فی الحج ادرکت ابی الخ کے الفاظ موجود ہیں۔ اگرچہ یہ ایک قبیلہ خشعم کی مسلمان عورت کے الفاظ ہیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر کوئی اعتراض نہیں فرمایا۔ اس لحاظ سے یہ حدیث تقریری ہوگئی اور اس سے فرضیت حج کا واضح لفظوں میں ثبوت ہوا۔
ترمذی شریف باب ماجاءمن التعلیظ فی ترک الحج میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من ملک زاداً وراحلۃ تبلغہ الی بیت اللہ ولم یحج فلا علیہ ان یموت یہودیاً اونصرانیا۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس شخص کو خرچ اخراجات سواری وغیرہ سفربیت اللہ کے لیے روپیہ میسر ہو ( اور وہ تندرست بھی ہو ) پھر اس نے حج نہ کیا تو اس کو اختیار ہے یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر۔ یہ بڑی سے بڑی وعید ہے جو ایک سچے مرد مسلمان کے لیے ہوسکتی ہے۔ پس جو لوگ باوجود استطاعت کے مکہ شریف کا رخ نہیں کرتے بلکہ یورپ اور دیگر ممالک کی سیروسیاحت میں ہزارہا روپیہ برباد کردیتے ہیں مگر حج کے نام سے ان کی روح خشک ہوجاتی ہے، ایسے لوگوں کو اپنے ایمان واسلام کی خیر مانگنی چاہیے۔ اسی طرح جو لوگ دن رات دنیاوی دھندوں میں منہمک رہتے ہیں اور اس پاک سفر کے لیے ان کو فرصت نہیں ہوتی ان کا بھی دین ایمان سخت خطرے میں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جس شخص پر حج فرض ہوجائے اس کو اس کی ادائیگی میں حتیٰ الامکان جلدی کرنی چاہیے۔ اور لیت ولعل میں وقت نہ ٹالنا چاہیے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں ممالک محروسہ میں مندرجہ ذیل پیغام شائع کرایا تھا۔ لقد ہممت ان ابعث رجالا الی ہذہ الامصار فینظروا کل من کان لہ جدۃ ولا یحج فیضربوا علیہم الجزیۃ ماہم بمسلمین ماہم بمسلمین ( نیل الاوطار ج 4 ص 165 ) میری ولی خواہش ہے کہ میں کچھ آدمیوں کو شہروں اور دیہاتوں میں تفتیش کے لیے روانہ کروں جو ان لوگوں کی فہرست تیار کریں جو استطاعت کے باوجود اجتماع حج میں شرکت نہیں کرتے، ان پر کفار کی طرح جزیہ مقرر کردیں۔ کیونکہ ان کا دعویٰ اسلام فضول وبیکار ہے وہ مسلمان نہیں ہیں۔

وہ مسلمان نہیں ہیں۔ اس سے زیادہ بدنصیبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہوگی کہ بیت اللہ شریف جیسا بزرگ اور مقدس مقام اس دنیا میں موجود ہو اور وہاں تک جانے کی ہر طرح سے آدمی طاقت بھی رکھتا ہو اور پھر کوئی مسلمان اس کی زیارت کو نہ جائے جس کی زیارت کے لیے بابا آدم علیہ السلام سینکڑوں مرتبہ پیدل سفر کرکے گئے۔ اخرج ابن خزیمۃ وابوالشیخ فی العظمۃ والدیلمی عن ابن عباس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ان ادم اتی ہذا البیت الف اتیۃ لم یرکب قط فیہن من الہند علی رجلیہ۔ یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ آدم علیہ السلام نے بیت اللہ شریف کا ملک ہند سے ایک ہزار مرتبہ پیدل چل کر حج کیا۔ ان حجوں میں آپ کبھی سواری پر سوار ہوکر نہیں گئے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کافروں کے مظالم سے تنگ آکر مکہ معظمہ سے ہجرت فرمائی تو رخصتی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کو چوما اور آپ وسط مسجد میں کھڑے ہوکر بیت اللہ شریف کی طرف متوجہ ہوئے اور آبدیدئہ نم آپ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم! تو اللہ کے نزدیک تمام جہاں سے پیارا وبہتر گھر ہے اور یہ شہر بھی اللہ کے نزدیک احب البلاد ہے۔ اگر کفار قریش مجھ کو ہجرت پر مجبور نہ کرتے تو میں تیری جدائی ہرگز اختیار نہ کرتا۔ ( ترمذی )
جب آپ مکہ شریف سے باہر نکلے تو پھر آپ نے اپنی سواری کا منہ مکہ شریف کی طرف کرکے فرمایا: واللہ انک لخیر ارض اللہ واحب ارض اللہ الی اللہ ولولا اخرجت منک ماخرجت ( احمد، ترمذی، ابن ماجہ ) قسم اللہ کی! اے شہر مکہ تو اللہ کے نزدیک بہترین شہر ہے، تیری زمین اللہ کو تمام روئے زمین سے پیاری ہے۔ اگر میں یہاں سے نکلنے پر مجبور نہ کیا جاتا تو کبھی یہاں سے نہ نکلتا۔

فضیلت حج کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں من حج ہذا البیت فلم یرفث ولم یفسق رجع کما ولدتہ امہ ( ابن ماجہ ص 213 ) یعنی جس نے پورے آداب وشرائط کے ساتھ بیت اللہ شریف کا حج کیا۔ نہ جماع کے قریب گیا اور نہ کوئی بے ہودہ حرکت کی وہ شخص گناہوں سے ایسا پاک صاف ہوکر لوٹتا ہے جیسا ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے دن پاک صاف تھا۔

ابوہریرہ کی روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی حج بیت اللہ کے ارادے سے روانہ ہوتا ہے۔ اس شخص کی سواری جتنے قدم چلتی ہے ہر قدم کے عوض اللہ تعالیٰ اس کا ایک گناہ مٹاتا ہے۔ اس کے لیے ایک نیکی لکھتا ہے۔ اور ایک درجہ جنت میں اس کے لیے بلند کرتا ہے۔ جب وہ شخص بیت اللہ شریف میں پہنچ جاتا ہے اور وہاں طواف بیت اللہ اور صفا و مروہ کی سعی کرتا ہے پھر بال منڈواتا یا کترواتا ہے تو گناہوں سے ایسا پاک وصاف ہوجاتا ہے جیسا ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے دن تھا۔ ( ترغیب وترہیب ص224 )
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً ابن خزیمہ کی روایت ہے کہ جو شخص مکہ معظمہ سے حج کے واسطے نکلا اور پیدل عرفات گیا پھر واپس بھی وہاں سے پیدل ہی آیا تو اس کو ہرقدم کے بدلے کروڑوں نیکیاں ملتی ہیں۔
بیہقی نے عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ حج وعمرہ ساتھ ساتھ ادا کرو۔ اس پاک عمل سے فقر کو اللہ تعالیٰ دور کردیتا ہے اور گناہوں سے اس طرح پاک کردیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کو میل سے پاک کردیتی ہے۔
مسند احمد میں ابن عباس کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جس مسلمان پر حج فرض ہوجائے اس کو ادائیگی میں جلدی کرنی چاہیے۔ اور فرصت کو غنیمت جاننا چاہیے۔ نہ معلوم کل کیا پیش آئے اے زفرصت بے خبر در ہرچہ باشی زود باش۔ میدان عرفات میں جب حاجی صاحبان اپنے رب کے سامنے ہاتھ پھیلا کر دین ودنیا کی بھلائی کے لیے دعا مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آسمانوں پر فرشتوں میں ان کی تعریف فرماتا ہے۔
ابویعلیٰ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جو حاجی راستے میں انتقال کرجائے اس کے لیے قیامت تک ہر سال حج کا ثواب لکھا جاتا ہے۔
الغرض فرضیت حج کے بارے میں اور فضائل حج کے متعلق اور بھی بہت سی مرویات ہیں۔ مومن مسلمان کے لیے اسی قدر کافی وافی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس مسلمان کو اتنی طاقت دے کہ وہ حج کو جاسکے اس کو ضرور بالضرور وقت کو غنیمت جاننا چاہیے اور توحید کی اس عظیم الشان سالانہ کانفرنس میں بلاحیل وحجت شرکت کرنی چاہیے۔ وہ کانفرنس جس کی بنیاد آج سے چار ہزار سال قبل اللہ کے پیارے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے پاک ہاتھوں سے رکھی اس دن سے آج تک ہرسال یہ کانفرنس ہوتی چلی آرہی ہے۔ پس اس کی شرکت کے لیے ہر مومن مسلمان ہر ابراہیمی ہرمحمدی کو ہروقت متمنی رہنا چاہیے۔

حج کی فرضیت کے شرائط کیا ہیں؟:
حج فرض ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط ہیں، ان میں سے اگر ایک چیز بھی فوت ہو جائے تو حج کے لیے جانا فرض نہیں ہے۔ قاعدہ کلیہ ہے اذافات الشرط فات المشروط شرط کے فوت ہوجانے سے مشروط بھی ساتھ ہی فوت ہوجاتا ہے۔ شرائط یہ ہیں ( 1 ) مسلمان ہونا ( 2 ) عاقل یا بالغ ہونا ( 3 ) راستے میں امن وامان کا پایا جانا ( 4 ) اخراجات سفر کے لیے پوری رقم کاموجود ہونا ( 5 ) تندرست ہونا ( 6 ) عورتوں کے لیے ان کے ساتھ کسی محرم کا ہونا، محرم اس کو کہتے ہیں جس سے عورت کے لیے نکاح کرنا ہمیشہ کے لیے قطعاً حرام ہوجیسے بیٹا یا سگا بھائی یا باپ یا داماد وغیرہ۔ محرم کے علاوہ مناسب تو یہی ہے کہ عورت کے ساتھ اس کا شوہر ہو۔ اگر شوہر نہ ہوتو کسی محرم کا ہونا ضروری ہے۔ عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تسافر امراۃ مسیرۃ یوم ولیلۃ الا ومعہا ذو محرم متفق علیہ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عورت ایک رات دن کی مسافت کا سفر بھی نہ کرے جب تک اس کے ساتھ کوئی محرم نہ ہو۔
عن ابی عباس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یخلون رجل بامراۃ ولا تسافرون امراۃ الا ومعہا محرم الحدیث متفق علیہ ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مرد کسی غیر عورت کے ساتھ ہرگز تنہائی میں نہ ہو۔ اور نہ ہرگز ہرگز کوئی عورت بغیر شوہر یا کسی ذی محرم کو ساتھ لیے سفر کرے۔ ایک شخص نے عرض کیا، حضور! میرا نام مجاہدین کی فہرست میں آگیا اور میری عورت حج کے لیے جارہی ہے۔ آپ نے فرمایا، جاؤ تم اپنی عورت کے ساتھ حج کرو۔

حج کے مہینوں اور ایام کا بیان
چونکہ حج کے لیے عموماً ماہ شوال سے تیاری شروع ہوجاتی ہے۔ اس لیے شوال وذی قعدہ و عشرئہ ذی الحجہ کو اشہرالحج یعنی حج کے مہینے کہا جاتا ہے۔ ارکان حج کی ادائیگی کے لیے خاص دن مقرر ہیں جو آٹھ ذی الحجہ سے شروع ہوتے ہیں اور تیرہ ذی الحجہ پر ختم ہوتے ہیں۔ ایام جاہلیت میں کفار عرب اپنے اغراض کے ماتحت حج کے مہینوں کا الٹ پھیر کرلیا کرتے تھے۔ قرآن پاک نے ان کے اس فعل کو کفر میں زیادتی سے تعبیر کیا۔ اور سختی کے ساتھ اس حرکت سے روکا ہے۔ عمرہ مطلق زیارت کو کہتے ہیں۔ اس لیے یہ سال بھر میں ہرمہینے میں ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے ایام کی خاص قیود نہیں ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مدت العمر میں چار مرتبہ عمرہ کیا۔ جن میں سے تین عمرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ ذی قعدہ میں کئے اور ایک عمرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حجتہ الوداع کے ساتھ ہوا۔ ( متفق علیہ )

حدیث نمبر : 1513
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن سليمان بن يسار، عن عبد الله بن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال كان الفضل رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم فجاءت امرأة من خثعم، فجعل الفضل ينظر إليها وتنظر إليه، وجعل النبي صلى الله عليه وسلم يصرف وجه الفضل إلى الشق الآخر فقالت يا رسول الله إن فريضة الله على عباده في الحج أدركت أبي شيخا كبيرا، لا يثبت على الراحلة، أفأحج عنه قال ‏"‏نعم‏"‏‏. ‏ وذلك في حجة الوداع‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی انھیں ابن شہاب نے، انہیں سلیمان بن یسارنے، اور ان سے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ فضل بن عباس ( حجۃ الوداع میں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سواری کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے کہ قبیلہ خثعم کی ایک خوبصورت عورت آئی۔ فضل اس کو دیکھنے لگے وہ بھی انہیں دیکھ رہی تھی۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فضل رضی اللہ عنہ کا چہرہ بار بار دوسری طرف موڑ دیناچاہتے تھے۔ اس عورت نے کہا یا رسول اللہ ! اللہ کا فریضہ حج میرے والد کے لئے ادا کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ لیکن وہ بہت بوڑھے ہیںاونٹنی پر بیٹھ نہیں سکتے۔ کیا میں ان کی طرف سے حج ( بدل ) کرسکتی ہوں؟ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ یہ حجتہ الوداع کا واقعہ تھا۔

تشریح : اس حدیث سے یہ نکلا کہ نیابتا دو سرے کی طرف سے حج کرنا درست ہے۔ مگر وہ شخص دوسرے کی طرف سے حج کرسکتاہے جو اپنا فرض حج ادا کرچکا ہوا۔ اور حنفیہ کے نزدیک مطلقاً درست ہے اور ان کے مذہب کو وہ حدیث رد کرتی ہے جس کو ابن خزیمہ اور اصحاب سنن نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نکالا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو شبرمہ کی طرف سے لبیک پکار تے ہوئے سنا، فرمایا کہ تو اپنی طرف سے حج کرچکا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا تو پہلے اپنی طرف حج کر پھر شبرمہ کی طرف سے کرلو۔ اسی طرح کسی شخص کے مرجانے کے بعد بھی اس کی طرف حج درست ہے۔بشرطیکہ وہ وصیت کر گیا ہو۔ اور بعضوں نے ماں باپ کی طرف سے بلا وصیت بھی حج درست رکھا ہے۔ ( وحیدی )

حج کی ایک قسم حج بدل بھی ہے۔ جو کسی معذور یا متوفی کی طرف سے نیابتا کیا جاتا ہے۔ ا س کی نیت کرتے وقت لبیک کے ساتھ جس کی طرف سے حج کے لئے آیا ہے اس کا نام لینا چاہئے۔ مثلاً ایک شخص زید کی طرف سے حج کے لئے گیا تو وہ یوں پکارے لَبَّیکَ عَن زَیدٍ نِیَابَۃً کسی معذور زندے کی طرف سے حج کرنا جائز ہے۔اسی طرح کسی مرے ہوئے کی طرف سے بھی حج بدل کرایا جاسکتا ہے۔ ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ مریا باپ بہت ہی بوڑھا ہوگیا ہے۔ وہ سواری پر بھی چلنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ آپ اجازت دیں تو میں ان کی طرف سے حج اداکرلوں۔ آپ نے فرمایا۔ ہاں کرلو ( ابن ماجہ ) مگر اس کے لئے یہ ضر وری ہے کہ جس شخص سے حج بدل کرایا جائے وہ پہلے خود اپنا حج ادا کرچکا ہو۔جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سے ظاہر ہے۔

عن ابن عباس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمع رجلا یقول لبیک عن شبرمۃ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من شبرمۃ قال قریب لی قال ہل حججت قط قال لا قال فاجعل ہذا عن نفسک ثم حج عن شبرمۃ رواہ ابن ماجۃ یعنی ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سنا وہ لبیک پکارتے وقت کسی شخص شبرمہ نامی کی طرف سے لبیک پکاررہا ہے ہے۔ آپ نے دریافت کیا کہ بھئی یہ شبرمہ کون ہے؟ اس نے کہا کہ شبرمہ میرا ایک قریبی ہے۔ آپ نے پوچھا تو نے کبھی اپنا حج ادا کیا ہے۔ اس نے کہا نہیں۔آپ نے فرمایا، اپنے نفس کی طرف سے حج ادا کر پھر شبرمہ کی طرف سے کرنا۔

اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ حج بدل وہی شخص کرسکتا ہے جوپہلے اپنا حج کرچکا ہو۔ بہت سے ائمہ اور امام شافعی رحمہ اللہ وامام احمد رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے۔ لمعات میں ملاعلی قاری مرحوم لکھتے ہیں:الامر یدل بظاہر علی ان النیابۃانما یجوز بعد اداءفرض الحج والیہ ذہب جماعۃ من الائمۃ والشافعی واحمد یعنی امر نبوی بظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے نیابت اسی کے لئے جائز ہے جو اپنا فرض ادا کرچکا ہو۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز کتاب نیل الاوطار میں یہ باب منعقد کیا ہے۔ باب من حج عن غیرہ ولم یکن حج عن نفسہ یعنی جس شخص نے اپنا حج نہیں کیا وہ غیر کا حج بدل کرسکتا ہے یا نہیں اس پر آپ حدیث بالا شبرمہ والی لائے ہیں۔ اور اس پر فیصلہ دیا ہے وہ لیس فی ہذا الباب اصح منہ یعنی حدیث شبرمہ سے زیادہ اس باب میں اور کوئی صحیح حدیث اور وارد نہیں ہوئی ہے۔ پھر فرماتے ہیں:وظاہر الحدیث انہ لا یجوز لمن یحج عن نفسہ ان یحج عن غیرہ وسوائً کان مستطیعا اوغیر مستطیع لا ن النبی صلی اللہ علیہ وسلم لم یستفصل ہذا للرجل الذی سمعہ یلبی عن شبرمۃ وہو ینزل منزلۃ العموم والیٰ ذلک ذہب الشافعی والناصر ( جزءرابع نیل الاوطارص173 ) یعنی اس حدیث ظاہر ہے کہ جس شخص نے اپنے نفس کی طرف سے پہلے حج نہ کیا ہو وہ حج بدل کسی دوسرے کی طرف سے نہیں کرسکتا۔خواہ وہ اپنا حج کرنے کی طاقت رکھنے والا ہو یا طاقت نہ رکھنے والا ہو۔ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس شخص کو شبرمہ کی طرف سے لبیک پکارتے ہوئے سنا تھا اس سے آپ نے یہ تفصیل دریافت نہیں کی۔ پس یہ بمنزلہ عموم ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ وناصر رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے۔

پس حج بدل کرنے اور کرانے والوں کو سوچ سمجھ لینا چاہئے۔ امر ضروری یہی ہے کہ حج بدل کے لئے ایسے آدمی کو تلاش کیا جائے جو اپنا حج ادا کرچکا ہوتا کہ بلاشک وشبہ ادائیگی فریضہ حج ہوسکے۔ اگرکسی بغیرحج کئے ہوئے کو بھیج دیا تو حدیث بالا کے خلاف ہو گا۔نیز حج کی قبولیت اور ادائیگی میں پورا پورا تردد بھی باقی رہے گا۔ عقل مند ایسا کام کیوں کرے جس میں کافی روپیہ خرچ ہو اور قبولیت میں تردد وشک وشبہ ہاتھ آئے
چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : اللہ پاک کا سورہ حج میں یہ ارشاد کہ

‏{‏يأتوك رجالا وعلى كل ضامر يأتين من كل فج عميق * ليشهدوا منافع لهم‏}‏‏.‏ ‏{‏فجاجا‏}‏ الطرق الواسعة
لوگ پیدل چل کر تیرے پاس آئیں اور دبلے اونٹوں پر دور دراز راستوں سے اس لئے کہ دین اور دنیا کے فائدے حاصل کریں۔ امام بخاری نے کہا سورہ نوح میں جو فجاجا کا لفظ آیا ہے اس کے معنی کھلے اور کشادہ راستے کے ہیں۔

اگلی آیت سورہ حج کی اس باب سے متلق تھی اور چونکہ اس میں فج کا لفظ ہے اور فجاجا اسی کی جمع ہے جو سورہ نوح میں وارد ہے۔ اس لیے اس کی بھی تفسیر بیان کر دی۔
تشریح : اس آیت کریمہ کے ذیل مفسرین لکھتے ہیں: فنادیٰ علٰی جبل ابو قبیس یا ایہا الناس ان ربکم بنٰی بیتا واوجب علیکم الحج الیہ فاجیبوا ربکم والتفت بوجہہ یمینا و شمالا وشرقا غربا فاجابہ کل من کتب لہ ان یحج من اصلاب الرجال و ارحام الامہات لبیک اللہم لبیک ( جلالین ) یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جبل ابو قبیس پر چڑھ کر پکارا، اے لوگو! تمہارے رب نے اپنی عبادت کے لئے ایک گھر بنوایا ہے اور تم پر اس کا حج فرض کردیا ہے۔ آپ یہ اعلان کرتے ہوئے شمال وجنوب مشرق ومغرب کی طرف منہ کرتے جاتے اور آواز بلند کرتے جاتے تھے۔ پس جن انسانوں کی قسمت میں حج بیت اللہ کی سعادت ازلی لکھی جاچکی ہے۔ انہوں نے اپنے باپوں کی پشت سے اور اپنی ماؤں کے ارحام سے اس مبارک ندا کو سن کر جواب دیا لبیک اللھم لبیک ۔ یا اللہ ہم حاضر ہیں۔ یا اللہ ہم تیرے پاک گھر کی زیارت کے لئے حا ضر ہیں۔

قرآن مجیدکی مذکورہ پیش گوئی کی جھلک تو رات میں آج بھی موجود ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل آیات سے ظاہر ہے۔
” اونٹنیاں کثرت سے تجھے آکر چھپا لیں گی مدیان اور عیفہ کی جو اونٹنیاں ہیں اور وہ سب جو سبا کی ہیں آئیں گی۔“ ( سعیاہ 60/6 ) ” قیدار کی ساری بھڑیں ( قیدار اسماعیل علیہ السلام کے بیٹے کا نام ہے ) تیرے پاس جمع ہوں گی۔ نبیط ( پسر اسماعیل ) کے مینڈھے تیری خدمت میں حاضرہوں گے۔ وہ میری منظوری کے واسطے میرے مذبح پر چڑھائے جائیں گے۔ اپنے شوکت کے گھر کو بزرگی دوں گا۔ یہ کون ہیں جو بدلی کی طرف اڑتے ہیں اور کبوتر کی مانند اپنے کابک کی طرف جاتے ہیں۔ یقینا بحری ممالک تیری راہ تکیں گے اور نرسیس کے جہاز پہلے آئےں گے۔ ” ( سعیاہ 60/13 )
ان جملہ پیش گوئیوں سے عظمت کعبہ ظاہر ہے۔ وللتفصیل مقام اخر۔
حدیث نمبر : 1514
حدثنا أحمد بن عيسى، حدثنا ابن وهب، عن يونس، عن ابن شهاب، أن سالم بن عبد الله، أخبره أن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يركب راحلته بذي الحليفة ثم يهل حتى تستوي به قائمة‏.‏
ہم سے احمد بن عیسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبداللہ بن وہب نے خبر دی، انہیں یونس نے، انہیں بن شہاب نے کہ سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے انہیں خبر دی، ان سے عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذی الحلیفہ میں دیکھا کہ اپنی سواری پر چڑھ رہے ہیں۔ پھر جب وہ سیدھی کھڑی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیک کہا۔

حدیث نمبر : 1515
حدثنا إبراهيم، أخبرنا الوليد، حدثنا الأوزاعي، سمع عطاء، يحدث عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ أن إهلال رسول الله صلى الله عليه وسلم من ذي الحليفة حين استوت به راحلته‏.‏ رواه أنس وابن عباس رضى الله عنهم‏.‏
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ولید بن مسلم نے خبردی، کہا کہ ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا، انہوں نے عطاءبن ابی رباح سے سنا، وہ جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے تھے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ سے احرام باندھا جب سواری آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوگئی۔ ابراہیم بن موسیٰ کی یہ حدیث ابن عباس اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے۔

امام بخاری کی غرض ان حدیثوں کے لانے سے یہ ہے کہ حج پاپیادہ اور سوار ہوکر دونوں طرح درست ہے۔ بعضوں نے کہا ان لوگوں پر رد ہے جو کہتے ہیں کہ حج پاپیادہ افضل ہے، اگر ایسا ہوتا تو آپ بھی پاپیادہ حج کرتے مگر آپ نے اونٹنی پر سوار ہوکر حج کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سب سے افضل ہے۔ ( وحیدی ) اونٹ کی جگہ آج کل موٹرکاروں نے لے لی ہے اور اب حج بے حد آرام دہ ہوگیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : پالان پر سوار ہوکر حج کرنا

حدیث نمبر : 1516
وقال أبان حدثنا مالك بن دينار، عن القاسم بن محمد، عن عائشة، رضى الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم بعث معها أخاها عبد الرحمن، فأعمرها من التنعيم، وحملها على قتب‏.‏ وقال عمر ـ رضى الله عنه ـ شدوا الرحال في الحج، فإنه أحد الجهادين‏.‏
اور ابان نے کہا ہم سے مالک بن دینار نے بیان کیا، ان سے قاسم بن محمد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ان کے بھائی عبدالرحمن کو بھیجا اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو تنعیم سے عمرہ کرایا او رپالان کی پچھلی لکڑی پر ان کو بٹھا لیا۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حج کے لئے پالا نیں باندھو کیونکہ یہ بھی ایک جہاد ہے۔

حدیث نمبر : 1517
وحدثنا محمد بن أبي بكر، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا عزرة بن ثابت، عن ثمامة بن عبد الله بن أنس، قال حج أنس على رحل، ولم يكن شحيحا، وحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم حج على رحل وكانت زاملته‏.‏
محمد بن ابی بکر نے بیان کیا کہ ہم سے زید بن زریع نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عزرہ بن ثابت نے بیان کیا، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے بیان کیا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ ایک پالان پر حج کے لئے تشریف لے گئے اور آپ بخیل نہیں تھے۔ آپ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی پالان پر حج کے لئے تشریف لے گئے تھے، اسی پر آپ کا اسباب بھی لدا ہوا تھا۔

تشریح : مطلب یہ ہے کہ حج میں تکلف کرنا اور آرام کی سواری ڈھونڈناسنت کے خلاف ہے۔ سادے پالان پر چڑھنا کافی ہے۔ شغدف اور محمل اور عمدہ کجاوے اور گدے اور تکیے ان چیزوں کی ضرورت نہیں۔ عبادت میں جس قدر مشقت ہو اتنا ہی زیادہ ثواب ہے۔ ( وحیدی ) یہ باتیں آج کے سفر حج میں خواب وخیال بن کر رہ گئی ہیں۔ اب ہر جگہ موٹرکار، ہوائی جہاز دوڑتے پھر رہے ہیں۔حج کا مبارک سفر بھی ریل، دخانی جہاز، موٹر کار اور ہوائی جہازوں سے ہورہا ہے۔ پھر زیادہ سے زیادہ آرام ہر ہر قدم پر موجود ہے۔ ان تکلّفات کے ساتھ حج اس حدیث کی تصدیق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آخرزمانہ میں سفر حج بھی ایک تفریح کا ذریعہ بن جائے گا۔ لیکن سنت کے شیدائی ان حالات میں بھی چاہیں تو سادگی کے ساتھ یہ مبارک سفر کرتے ہوئے قدم قدم پر خدا ترسی سنت شعاری کا ثبوت دے سکتے ہیں۔ مکہ شریف سے پیدل چلنے کی اجازت ہے۔ حکومت مجبور نہیں کرتی کہ ہر شخص موٹر ہی کا سفر کرے مگر آرام طلبی کی دنیا میں یہ سب باتیں دقیانوسی سمجھی جانے لگی۔ بہرحال حقیقت ہے کہ سفر حج جہاد سے کم نہیں ہے بشرطیکہ حقیقی حج نصیب ہو۔

لفظ زاملہ ایسے اونٹ پر بولا جاتا جو حالت سفر میں علیحدہ سامان اسباب اور کھانے پینے کی اشیاءاٹھانے کے لئے استعمال میں آتا تھا، یہاں راوی کا مقصد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سفر مبارک اس قدر سادگی سے کیا کہ ایک ہی اونٹ سے سواری اور سامان اٹھانا ہر دو کام لے لئے گئے

حدیث نمبر : 1518
حدثنا عمرو بن علي، حدثنا أبو عاصم، حدثنا أيمن بن نابل، حدثنا القاسم بن محمد، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أنها قالت يا رسول الله، اعتمرتم ولم أعتمر‏.‏ فقال ‏"‏يا عبد الرحمن اذهب بأختك فأعمرها من التنعيم‏"‏‏. ‏ فأحقبها على ناقة فاعتمرت‏.‏
ہم سے عمر وبن علی فلاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو عاصم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایمن بن نابل نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے قاسم بن محمدنے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ انھوں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ لوگوں نے تو عمرہ کرلیا لیکن میں نہ کرسکی۔ اس لئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عبدالرحمن اپنی بہن کو لے جا اور انہیں تنعیم سے عمرہ کرالا۔ چنانچہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنے اونٹ کے پیچھے بٹھا لیا اور عائشہ رضی اللہ عنہ نے عمرہ ادا کیا۔

تشریح : آنحضرت نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو عمرہ کا احرام باندھنے کے لئے تنعیم بھیجا۔ اس بارے میں حضرت علامہ نواب صدیق حسن خان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ میقاتش حل است ازبرائے مکی بحدیث صحیحین وغیرہما کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عبدالرحمن بن ابی بکر را امر فرمود باعائشۃ بسوئے تنعیم برآید ووئے ازانجا عمرہ برآردوہر کہ آنرااز مسکن ومکہ صحیح گوید جواب دادہ کہ این امر بنابر تطیب خاطر عائشہ بو د تا ازحل بکہ درآید چنانکہ دیگر ازواج کردنداواین واجب خلاف ظاہر است۔ ہاصل آنکہ ازوے صلی اللہ علیہ وسلم تعین میقات عمرہ واقع نشدہ وتعیین میقات حج ازبرائے اہل ہر جست ثابت گشتہ پس اگر عمرہ دریں مواقیت ہمچوحج باشد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم درحدیث صحیح گفتہ فمن کان دونہم فمہلہ من اہلہ وکذلک اہل مکۃ یہلون منہا واین در صحیحین است بلکہ درحقیقت ابن عباس بعد ذکر مواقیت اہل ہر محل تصریح آمدہ با آنکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم فرمود حدیث فہن لا ہلہن ولمن اتی علیہن من غیر اہلھن لمن کان یرید الحج والعمرۃ واین حدیث درصحیحین است ودران تصریح بعمرہ است۔ ( بدور الاہلہ، ص:152 )
اہل مکہ کے لئے عمرہ کا میقات حل ہے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ وہ اپنی بہن عائشہ کو تنعیم لے جائیں اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ کرآئیں اور جن علماءنے یہ کہا کہ عمرہ کا میقات اپنا گھر اور مکہ ہی ہے، انہوںنے اس حدیث کے بارے میں جواب دیا کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے محض حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی دل جوئی کے لئے فرمایا تھا تاکہ وہ حل سے کر آئیں جیسا کہ دیگر ازواج مطہرات نے کیا تھا اور یہ جواب ظاہر کے خلاف ہے، حاصل یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ کے لیے میقات کا تعیین واقع نہیں ہوا اور میقات حج کا تعیین ہر جہت والوں کے لئے ثابت ہواہے۔ پس اگر عمرہ ان مواقیت میں حج کی مانند ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث صحیح میں فرمایاہے کہ جو لوگ میقات کے اندر ہوں ان کا میقات ان کا گھر ہے وہ اپنے گھروں سے احرام باندھیں اسی طرح مکہ والے بھی مکہ ہی سے احرام باندھیں اور یہ حدیث صحیحین میں ہے۔ بلکہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ میں ہرجگہ کی میقات کا ذکر کرنے کے بعد صراحتاً آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پس یہ میقات ان لوگوں کے لئے ہیں جو ان کے اہل ہیں اور جو بھی ادھر سے گزریں حالانکہ وہ یہاں کے باشندے نہ ہوں۔ پھر ان کے لئے میقات یہی مقامات ہیں جو بھی حج اور عمرے کاارادہ کر کے آئیں۔ پس اس حدیث میں صراحتاً عمرہ کا لفظ موجود ہے۔

نواب مرحوم کا اشارہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ جب حج کا احرام مکہ والے مکہ ہی سے باندھیں گے اور ان کے گھر ہی ان کے میقات ہیں تو عمرہ کے لئے بھی یہی حکم ہے۔ کیونکہ حدیث ہذا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ کا ایک ہی جگہ ذکر فرمایا ہے۔ بہ سلسلہ میقات جس قدر احکامات حج کے لئے ہیں وہی سب عمرہ کے لئے ہیں۔ ان کی بنا پر صرف مکہ شریف سے عمرہ کا احرام باندھنے والوں کے لئے تنعیم جانا ضروری نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : حج مبرور کی فضلیت کا بیان

حدیث نمبر : 1519
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال سئل النبي صلى الله عليه وسلم أى الأعمال أفضل قال ‏"‏إيمان بالله ورسوله‏"‏‏. ‏ قيل ثم ماذا قال ‏"‏جهاد في سبيل الله‏"‏‏. ‏ قيل ثم ماذا قال ‏"‏حج مبرور‏"‏‏.
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسیب نے بیان کیا اوران سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ کون سا کام بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ پوچھا گیا کہ پھر اس کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ پھر پوچھا گیا کہ پھر اس کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حج مبرور۔

تشریح : مبرور لفظ بر سے بنا ہے جس کے معنی نیکی کے ہیں۔ قرآن مجید میں لیس البر میں یعنی لفظ ہے۔ یہ وہ حج ہے جس میں ازاول تا آخر نیکیاں ہی نیکیاں کی گئی ہوں۔ گناہ کا شائبہ بھی نہ ہو۔ ایسا حج قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتا ہے۔ عند اللہ یہی حج مقبول ہے پھر ایسا حاجی عمر بھر ایک مثالی مسلمان بن جاتا ہے اور اس کی زندگی سراپا اسلام اور ایمان کے رنگ میں رنگ جاتی ہے۔ اگر ایسا حج نصیب نہیں تو وہی مثال ہوگی خر عیسیٰ گر بمکہ رودچوں بیاد ہنوز خرباشند

حج مبرور کی تعریف میں حافظ فرماتے ہیں الذی لا یخالطہ شئی من الاثم یعنی حج مبرور وہ ہے جس میں گناہ کا مطلقاً دخل نہ ہو۔ حدیث جابر میں ہے کھانا کھلانا اور سلام پھیلانا جو حاجی اپنا شعار بنالے اس کا حج حج مبرور ہے۔ یہی حج وہ ہے جس سے گذشتہ صغیرہ وکبیرہ جملہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور ایسا حاجی اس حالت میں لوٹتا ہے گویا وہ آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ اللہ پاک ہر حاجی کو ایسا ہی حج نصیب کرے۔
مگر افسوس ہے کہ آج کی مادی ترقیات نے، نئی نئی ایجادات نے روحانی عالم کو بالکل مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ بیشتر حاجی مکہ شریف کے بازاروں میں جب مغربی سازوسامان دیکھتے ہیں، ان کی آنکھیں چکا چوند ہوجاتی ہیں وہ جائز اور ناجائز سے بلا ہو کر ایسی ایسی چیزیں خرید لیتے ہیں کہ واپس اپنے وطن آکر حاجیوں کی بدنامی کا موجب بنتے ہیں۔ حکومت کی نظروں میں ذلیل ہوتے ہیں۔ الامن رحم اللہ۔

حدیث نمبر : 1520
حدثنا عبد الرحمن بن المبارك، حدثنا خالد، أخبرنا حبيب بن أبي عمرة، عن عائشة بنت طلحة، عن عائشة أم المؤمنين ـ رضى الله عنها ـ أنها قالت يا رسول الله، نرى الجهاد أفضل العمل، أفلا نجاهد قال ‏"‏لا، لكن أفضل الجهاد حج مبرور‏"‏‏. ‏
ہم سے عبدالرحمن بن مبارک نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ طحان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں حبیب بن ابی عمرہ نے خبردی، انہیں عائشہ بنت طلحہ نے اور انہیں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ انہو ں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم دیکھتے ہیں کہ جہاد سب نیک کاموں سے بڑھ کر ہے۔ پھر ہم بھی کیوں نہ جہاد کریں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ سب سے افضل جہاد حج ہے جو مبرور ہو۔

حدیث نمبر : 1521
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا سيار أبو الحكم، قال سمعت أبا حازم، قال سمعت أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏من حج لله فلم يرفث ولم يفسق رجع كيوم ولدته أمه‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سیارابوالحکم نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابو حزم سے سنا، انہو ں نے بیان کیا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ نے فرمایا جس شخص نے اللہ کے لئے اس شان کے ساتھ حج کیا کہ نہ کوئی فحش بات ہوئی اور نہ کوئی گناہ تو وہ اس دن کی طرح واپس ہوگا جیسے اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔

حدیث بالا میں لفظ مبرور سے مراد وہ حج جں میں ریا کاری کا دخل نہ ہو، خالص اللہ کی رضا کے لئے ہو جس میں ازاول تا آخر کوئی گناہ نہ کیا جائے اور جس کے بعد حاجی کی پہلی حالت بدل کر اب وہ سراپا نیکیوں کا مجسمہ بن جائے۔ بلاشک اس کا حج حج مبرور ہے حدیث مذکور میں حج مبرور کے کچھ اوصاف خود ذکر میں آگئے ہیں، اسی تفصیل کے لئے حضرت امام اس حدیث کو یہاں لائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : حج اور عمرہ کی میقاتوں کا بیان

حدیث نمبر : 1522
حدثنا مالك بن إسماعيل، حدثنا زهير، قال حدثني زيد بن جبير، أنه أتى عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ في منزله وله فسطاط وسرادق، فسألته من أين يجوز أن أعتمر قال فرضها رسول الله صلى الله عليه وسلم لأهل نجد قرنا، ولأهل المدينة ذا الحليفة، ولأهل الشأم الجحفة‏.‏
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے زہیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے زید بن جبیر نے بیان کیا کہ وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی قیامگاہ پر حاضر ہوئے۔ وہاں قنات کے ساتھ شامیانہ لگا ہوا تھا ( زید بن جبیر نے کہا کہ ) میں نے پوچھا کہ کس جگہ سے عمرہ کا احرام باندھنا چاہئے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے جوا ب دیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نجدوالوں کے لئے قرن، مدینہ والوں کے لئے ذولحلیفہ اور شام والوں کے لئے حجفہ مقرر کیا ہے۔

میقات اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے حج یا عمرہ کے لئے احرام باندھ لینا چاہئے اور وہاں سے بغیر احرام باندھے آگے بڑھنا ناجائز ہے اور ادھر ہندوستان کی طرف سے جانے والوں کے لیے یلملم پہاڑ کے محاذ سے احرام باندھ لینا چاہئے۔ جب جہاز پہاڑوں سے گزرتا ہے تو کپتان خود سارے حاجیوں کو اطلاع کرادیتا ہے یہ جگہ عدن کے قریب پڑتی ہے۔ قرن منازل مکہ سے دومنزل پر طائف کے قریب ہے اور ذوالحلیفہ مدینہ سے چھ میل پر ہے اور حجفہ مکہ سے پانچ چھ منزل پر ہے۔ قسطلانی نے کہا اب لوگ حجفہ کے بدل رابغ سے احرام باندھ لیتے ہیں۔ جو حجفہ کے برابر ہے اور اب حجفہ ویران ہے وہاں کی آب وہوا خراب ہے نہ وہاں کوئی جاتا ہے نہ اترتا ہے ( وحیدی ) واختصت الجحفۃ بالحمیٰ فلاینزلہا احد الاحم ( فتح ) یعنی حجفہ بخار کے لئے مشہور ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں عمالقہ نے قیام کیا تھا جب کہ ان کو یثرب سے بنو عبیل نے نکال دیا تھا مگر یہاں ایسا سیلاب آیا کہ اس نے اس کوبرباد کر کے رکھ دیا۔ اسی لئے اس کا حجفہ نام ہوا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ عمرہ کے میقات بھی وہی ہیں جو حج کے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : فرمان باری تعالیٰ کہ توشہ ساتھ میں لے لو اور سب سے بہتر توشہ تقویٰ ہے

حدیث نمبر : 1523
حدثنا يحيى بن بشر، حدثنا شبابة، عن ورقاء، عن عمرو بن دينار، عن عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال كان أهل اليمن يحجون ولا يتزودون ويقولون نحن المتوكلون، فإذا قدموا مكة سألوا الناس، فأنزل الله تعالى ‏{‏وتزودوا فإن خير الزاد التقوى‏}‏‏.‏ رواه ابن عيينة عن عمرو عن عكرمة مرسلا‏.‏
ہم سے یحییٰ بن بشر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شبابہ بن سوار نے بیان کیا، ان سے ورقاء بن عمرو نے، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عکرمہ نے بیان کیااور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ یمن کے لوگ راستہ کا خرچ ساتھ لائے بغیر حج کے لئے آجاتے تھے۔ کہتے تو یہ تھے کہ ہم توکل کرتے ہیں لیکن جب مکہ آتے تو لوگوں سے مانگنے لگتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ” اور توشہ لے لیا کرو کہ سب سے بہتر توشہ تو تقویٰ ہی ہے۔ “ اس کو ابن عیینہ نے عمرو سے بواسطہ عکرمہ مرسلاً نقل کیاہے۔

تشریح : مرسل اس حدیث کو کہتے ہیں کہ تابعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرے اور جس صحابی سے وہ نقل کررہا ہے اس کا نام نہ لے۔ صحابی کا نام لینے سے یہی حدیث پھر مرفوع کہلاتی ہے جو درجہ قبولیت میں خاص مقام رکھتی ہے۔ یعنی صحیح مرفوع حدیث نبوی ( صلی اللہ علیہ وسلم )

آیت شریفہ میں تقویٰ سے مراد مانگنے سے بچنا اور اپنے مصارف سفر کا خود انتطام کرنا مراد ہے اور یہ بھی کہ اس سفر سے بھی زیادہ اہم سفر آخرت درپیش ہے۔ اس کا توشہ بھی تقویٰ پر ہیزگاری گناہوں سے بچنا اور پاک زندگی گزارنا ہے۔ بہ سلسلہ حج تقویٰ کی تلقین یہی حج کا ماحصل ہے۔ آج بھی جولوگ حج میں دست سوال دراز کرتے ہیں، انہوں نے حج کا مقصد ہی نہیں سمجھا۔ قال المہلب فی ہذا الحدیث من الفقۃ ان ترک السوال من التقویٰ ویویدہ ان اللہ مدح لم یسئل الناس الحافا فان قولہ فان خیرالزاد التقویٰ ای تزودوا واتقوا اذی الناس بسوالکم ایاہم والا ثم فی ذلک ( فتح ) یعنی مہلب نے کہا کہ اس حدیث سے یہ سمجھا گیا کہ سوال نہ کرنا تقویٰ سے ہے اور اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ اللہ پاک نے اس شخص کی تعریف کی ہے جو لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتا۔ خیرالزاد التقویٰ کا مطلب یہ کہ ساتھ میں توشہ اور سوال کر کر کے لوگوں کو تکلیف نہ پہنچاؤ اور سوال کرنے کے گناہ سے بچو۔

مانگنے والا متوکل نہیں ہوسکتا۔ حقیقی توکل یہی ہے کہ کسی سے بھی کسی چیز میں مدد نہ مانگی جائے اور اسباب مہیا کرنے کے باوجود بھی اسباب سے قطع نظر کرنا یہ توکل سے ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ والے سے فرمایا تھا کہ اسے مضبوط باندھ پھر اللہ پر بھروسہ رکھ

گفت پیغمبر باواز بلند
برتوکل زانوئے اشتربہ بند

 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : مکہ والے حج اور عمرے کا احرام کہاں سے باندھیں

حدیث نمبر : 1524
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا وهيب، حدثنا ابن طاوس، عن أبيه، عن ابن عباس، قال إن النبي صلى الله عليه وسلم وقت لأهل المدينة ذا الحليفة، ولأهل الشأم الجحفة، ولأهل نجد قرن المنازل، ولأهل اليمن يلملم، هن لهن ولمن أتى عليهن من غيرهن، ممن أراد الحج والعمرة، ومن كان دون ذلك فمن حيث أنشأ، حتى أهل مكة من مكة‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن طاوس نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ والوں کے احرام کے لیے ذوالحلیفہ، شام والوں کے لئے حجفہ، نجدوالوں کے قرن منزل، یمن والوں کے یلملم متعین کیا۔ یہاں سے ان مقامات والے بھی احرام باندھیں اور ان کے علاوہ وہ لوگ بھی جو ان راستوں سے آئیں اور حج یا عمرہ کا ارادہ رکھتے ہوں۔ لیکن جن کا قیام میقات اور مکہ کے در میان ہے تو وہ احرام اسی جگہ سے باندھیں جہاں سے انہیں سفر شروع کرنا ہے۔ یہاں تک کہ مکہ کے لوگ مکہ ہی سے احرام باندھیں۔

معلوم ہوا کہ حج اور عمرہ کے میقات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہی حضر ت امام بخاری کا مقصد باب ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : مدینہ والوں کا میقات اور انہیں ذوالحلیفہ سے پہلے احرام نہ باندھنا چاہئے

حدیث نمبر : 1525
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏يهل أهل المدينة من ذي الحليفة، وأهل الشأم من الجحفة، وأهل نجد من قرن‏"‏‏. ‏ قال عبد الله وبلغني أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ويهل أهل اليمن من يلملم‏"‏‏.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبردی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ کے لوگ ذولحلیفہ سے احرام باندھیں، شام کے لوگ حجفہ سے اور نجد کے لوگ قرن منازل سے۔ عبداللہ نے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور یمن کے لوگ یلملم سے احرام باندھیں۔

تشریح : شاید حضرت امام بخاری کا مذہب یہ ہے کہ میقات سے پہلے احرام باندھنا درست نہیں ہے، اسحاق اور داؤد کا بھی ہی قول ہے۔ جمہور کے نزدیک درست ہے۔ یہ میقات مکانی میں اختلاف ہے لیکن میقات زمانی یعنی حج کے مہینوں سے پہلے حج کا احرام باندھنا بالا تفاق درست نہیں ہے۔ نجد وہ ملک ہے جو عرب کا بالائی حصہ تہامہ سے عراق تک واقع ہے۔ بعضوں نے کہا جرش سے لے کر کوفہ کے نواح تک تک اس کی مغربی حد حجاز ہے۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : شام کے لوگوں کے احرام باندھنے کی جگہ کہاں ہے؟

حدیث نمبر : 1526
حدثنا مسدد، حدثنا حماد، عن عمرو بن دينار، عن طاوس، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال وقت رسول الله صلى الله عليه وسلم لأهل المدينة ذا الحليفة، ولأهل الشأم الجحفة، ولأهل نجد قرن المنازل، ولأهل اليمن يلملم، فهن لهن ولمن أتى عليهن من غير أهلهن، لمن كان يريد الحج والعمرة، فمن كان دونهن فمهله من أهله، وكذاك حتى أهل مكة يهلون منها‏.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، ان سے طاوس نے بیان کیا، اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ والوں کے لئے ذولحلیفہ کو میقات مقرر کیا۔ شام والوں کے لئے حجفہ نجد والوں کے لئے قرن منازل اور یمن والوں کے لیے یلملم۔ یہ میقات ان ملک والوں کے ہیں اور ان لوگوں کے لئے بھی جو ان ملکوں سے گزر کر حرم میں داخل ہوں اور ان لوگوں کے لئے بھی جو ان ملکوں سے گزر کر حرم میں داخل ہوں اور حج یا عمرہ کا ارادہ رکھتے ہوں۔ لیکن جولوگ میقات کے اندر رہتے ہوں۔ یہاں تک کہ مکہ کے لوگ احرام مکہ ہی سے باندھیں۔

جو حضرات عمرہ کے لئے تنعیم جانا ضروری گردانتے ہیں یہ حدیث ان پر حجت ہے بشرطیہ بنظر تحقیق مطالعہ فرمائیں۔
 
Top