• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : نجدو الوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ کونسی ہے؟

حدیث نمبر : 1527
حدثنا علي، حدثنا سفيان، حفظناه من الزهري عن سالم، عن أبيه، وقت النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے علی بن مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم نے زہری سے یہ حدیث یاد رکھی، ان سے سالم نے کہا اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میقات متعین کردیئے تھے۔

حدیث نمبر : 1528
حدثنا أحمد، حدثنا ابن وهب، قال أخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله، عن أبيه ـ رضى الله عنه ـ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏مهل أهل المدينة ذو الحليفة، ومهل أهل الشأم مهيعة وهي الجحفة، وأهل نجد قرن‏"‏‏. ‏ قال ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ زعموا أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ولم أسمعه ‏"‏ومهل أهل اليمن يلملم‏"‏‏. ‏
( دوسری سند ) اور امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے احمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں سالم بن عبداللہ نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیاکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایاتھا کہ مدینہ والو ں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ذولحلیفہ اور شام والوں کے لئے مہیعہ یعنی حجفہ اور نجد والوں کے لئے قرن منازل۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ لوگ کہتے تھے کہ نبی کریم نے فرمایا کہ یمن والے احرام یلملم سے باندھیں لیکن میں نے اسے آپ سے نہیں سنا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : جو لوگ میقات کے ادھر رہتے ہوں ان کے احرام باندھنے کی جگہ

حدیث نمبر : 1529
حدثنا قتيبة، حدثنا حماد، عن عمرو، عن طاوس، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم وقت لأهل المدينة ذا الحليفة، ولأهل الشأم الجحفة، ولأهل اليمن يلملم، ولأهل نجد قرنا، فهن لهن ولمن أتى عليهن من غير أهلهن، ممن كان يريد الحج والعمرة فمن كان دونهن فمن أهله حتى إن أهل مكة يهلون منها‏.‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوںنے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انہوں نے کہاکہ ہم سے عمرو بن دینارنے، ان سے طاوس نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ والوں کے لئے ذولحلیفہ میقات ٹھہرایا اور شام والوں کے لئے حجفہ، یمن والوں کے لئے یلملم اور نجد والوں کے لئے قرن منازل۔ یہ ان ملکوں کے لوگوں کے لیے ہیں اور دوسرے ان تمام لوگوں کے لیے بھی جوان ملکوں سے گزریں۔ اور حج اور عمرہ کا ارادہ رکھتے ہوں۔ لیکن جو لوگ میقات کے اندر رہتے ہوں۔ تو وہ اپنے شہروں سے احرام باندھیں، تا آنکہ مکہ کے لوگ مکہ ہی سے احرام باندھیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : یمن والوں کے احرام باندھنے کی جگہ کونسی ہے؟

حدیث نمبر : 1530
حدثنا معلى بن أسد، حدثنا وهيب، عن عبد الله بن طاوس، عن أبيه، عن ابن عباس، رضى الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم وقت لأهل المدينة ذا الحليفة، ولأهل الشأم الجحفة، ولأهل نجد قرن المنازل، ولأهل اليمن يلملم، هن لأهلهن ولكل آت أتى عليهن من غيرهم ممن أراد الحج والعمرة فمن كان دون ذلك، فمن حيث أنشأ حتى أهل مكة من مكة‏.‏
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن طاوس نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہمانے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ والوں کے لئے ذوالحلیفہ کو میقات مقرر کیا، شام والوں کے لئے حجفہ، نجدوالوں کے لئے قرن منازل او ریمن والوں کے لئے یلملم۔ یہ ان ملکوں کے باشندوں کے میقات ہیں او رتمام ان دوسرے مسلمانوں کے بھی جو ان ملکوں سے گزر کر آئیں اور حج اور عمرہ کا ارادہ رکھتے ہوں۔ لیکن جو لوگ میقات کے اندر رہتے ہیں تو ( وہ احرام وہیں سے باندھیں ) جہاں سے سفر شروع کریں تا آنکہ مکہ کے لوگ احرام مکہ ہی سے باندھیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : عراق والوں کے احرام باندھنے کی جگہ ذات عرق ہے

حدیث نمبر : 1531
حدثني علي بن مسلم، حدثنا عبد الله بن نمير، حدثنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال لما فتح هذان المصران أتوا عمر فقالوا يا أمير المؤمنين، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم حد لأهل نجد قرنا، وهو جور عن طريقنا، وإنا إن أردنا قرنا شق علينا‏.‏ قال فانظروا حذوها من طريقكم‏.‏ فحد لهم ذات عرق‏.‏
ہم سے علی بن مسلم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبید اللہ عمری نے نافع سے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ جب یہ دوشہر ( بصرہ اور کوفہ ) فتح ہوئے تو لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اورکہا کہ یا امیرالمومنین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کے لوگوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ قرن منازل قراردی ہے اور ہمارا راستہ ادھر سے نہیں ہے، اگر ہم قرن کی طرف جائیں تو ہمارے لئے بڑی دشواری ہوگی۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھرتم لوگ اپنے راستے میں اس کے برابر کوئی جگہ تجویز کرلو۔ چنانچہ ان کے لئے ذات عرق کی تعیین کردی۔

تشریح : یہ مقام مکہ شریف سے بیالیس میل پر ہے۔۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ مقام اپنی رائے اور اجتہاد سے مقرر کیا مگر جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عراق والوں کا میقات ذات عراق مروی ہے گو اس کے مرفوع ہونے میں شک ہے۔ اس روایت سے یہ بھی نکلا کہ اگر کوئی مکہ میں حج یا عمرے کی نیت سے اور کسی راستے سے آئے جس میں کوئی میقات راہ میں نہ پڑے تو جس میقات کے مقابل پہنچے وہاں سے احرام باندھ لے۔ بعضوں نے کہا کہ اگر کوئی میقات کی برابری معلوم نہ ہو سو سکے تو جو میقات سب سے دور ہے اتنی دور سے احرام باندھ لے۔ میں کہتا ہوں ابوداؤد اور نسائی نے باسناد صحیح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے نکالا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عراق والوں کے لئے ذات عرق مقرر کیا اور احمد اور دار قطنی نے عبداللہ بن عمرو بن عاص سے بھی ایسا ہی نکالا ہے۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اجتہا حدیث کے مطابق پڑا ( مولانا وحیدی الزماں )

اس بارے میں حافظ ابن حجر نے بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔ آخر میں آپ فرماتے ہیں لکن لما سن عمر ذات عرق وتبعہ علیہ الصحابۃ واستمر علیہ العمل کان اولی بالا تباع یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے مقرر فرمادیا اور صحابہ کرام نے اس پر عمل کیا تو اب اس کی اتباع ہی بہتر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : ذوالحلیفہ میں احرام باندھتے وقت نماز پڑھنا

حدیث نمبر : 1532
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أناخ بالبطحاء بذي الحليفة فصلى بها‏.‏ وكان عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يفعل ذلك‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے، انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ذوالحلیفہ کے پتھر یلے میدان میں اپنی سواری روکی اور پھر وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی۔ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شجرہ پر سے گزر کرجانا

حدیث نمبر : 1533
حدثنا إبراهيم بن المنذر، حدثنا أنس بن عياض، عن عبيد الله، عن نافع، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يخرج من طريق الشجرة، ويدخل من طريق المعرس، وأن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا خرج إلى مكة يصلي في مسجد الشجرة، وإذا رجع صلى بذي الحليفة ببطن الوادي، وبات حتى يصبح‏.‏
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شجرہ کے راستے سے گزر تے ہوئے ” معرس “ کے راستے سے مدینہ آتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ جاتے تو شجرہ کی مسجد میں نماز پڑھتے لیکن واپسی میں ذوالحلیفہ کے نشیب میں نماز پڑھتے۔ آپ رات وہیں گزارتے تا آنکہ صبح ہوجاتی۔ باب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کہ وادی عقیق مبارک وادی ہے

شجرہ ایک درخت تھا ذوالحلیفہ کے قریب۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی راستے سے آتے اور جاتے۔ اب وہاں ایک مسجد بن گئی ہے۔ آج کل اس جگہ کا نام بئرعلی ہے، یہ علی حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نہیں ہیں بلکہ کوئی اور علی ہیں جن کی طرف یہ جگہ اور یہاں کا کنواں منسوب ہے۔ معرس عربی میں اس مقام کو کہتے ہیں جہاں مسافر رات کو کو اتریں اور وہاں ڈیرہ لگائیں۔ یہ مذکورہ معرس ذوالحلیفہ کی مسجد تلے واقع ہے اور یہاں سے مدینہ بہت ہی قریب ہے۔ اللہ ہر مسلمان کو بار بار ان مقامات مقدسہ کی زیارت نصیب کرے۔ آمین۔ آپ دن کی روشنی میں مدینہ میں داخل ہوا کرتے تھے۔ پس سنت یہی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کہ وادی عقیق مبارک وادی ہے

حدیث نمبر : 1534
حدثنا الحميدي، حدثنا الوليد، وبشر بن بكر التنيسي، قالا حدثنا الأوزاعي، قال حدثني يحيى، قال حدثني عكرمة، أنه سمع ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ يقول إنه سمع عمر ـ رضى الله عنه ـ يقول سمعت النبي صلى الله عليه وسلم بوادي العقيق يقول ‏"‏أتاني الليلة آت من ربي فقال صل في هذا الوادي المبارك وقل عمرة في حجة‏"‏‏. ‏
ہم سے ابو بکر عبداللہ حمیدی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ولید اور بشر بن بکر تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے بیان کیا، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے سنا، ان کا بیان تھا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وادی عقیق میں سنا۔ آپ نے فرمایا تھا کہ رات میرے پاس میرے رب کا ایک فرشتہ آیا اور کہاکہ اس ” مبارک وادی “ میں نماز پڑھ اور اعلان کر کہ کہ عمرہ حج میں شریک ہوگیا۔

ایام حج میں عمرہ عہدجاہلیت میں سخت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے اس غلط خیال کی بھی اصلاح کی اور اعلان کرایا کہ اب ایام حج میں عمرہ داخل ہوگیا۔ یعنی جاہلیت کا خیال باطل ہوا۔
ایام حج میں عمرہ کیاجاسکتاہے۔اسی لئے تمتع کو افضل قرادیا گیا کہ اس میں حاجی پہلے عمرہ کر کے جاہلیت کی رسم کی بیج کنی کرتا ہے۔ پھر اس میں جو آسانیاں ہیں کہ یوم ترویہ تک احرام کھول کر آزادی مل جاتی ہے۔ یہ آسانی بھی اسلام کو مطلوب ہے۔ اسی لئے تمتع حج کی بہترین صورت ہے۔

حدیث نمبر : 1535
حدثنا محمد بن أبي بكر، حدثنا فضيل بن سليمان، حدثنا موسى بن عقبة، قال حدثني سالم بن عبد الله، عن أبيه ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه رئي وهو في معرس بذي الحليفة ببطن الوادي قيل له إنك ببطحاء مباركة‏.‏ وقد أناخ بنا سالم، يتوخى بالمناخ الذي كان عبد الله ينيخ، يتحرى معرس رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو أسفل من المسجد الذي ببطن الوادي، بينهم وبين الطريق وسط من ذلك‏.‏
ہم سے محمد بن ابی بکر مقدمی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سالم بن عبداللہ بن عمر نے بیان کیا اور ان سے ان کے والد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے کہ معرس کے قریب ذوالحلیفہ کی بطن وادی ( وادی عقیق ) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب دِکھا یا گیا۔ ( جس میں ) آپ سے کہا گیا تھا کہ آپ اس وقت ” بطحاءمبارکہ “ میںہیں۔ موسیٰ بن عقبہ نے کہا کہ سالم نے ہم کو بھی وہاں ٹھہرایا وہ اس مقام کو ڈھونڈ رہے تھے جہاں عبداللہ اونٹ بٹھایا کرتے تھے یعنی جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اترا کرتے تھے۔ وہ مقام اس مسجد کے نیچے کی طرف میں ہے جو نالے کے نشیب میں ہے۔ اترنے والوں اور راستے کے بیچوں بیچ ( وادی عقیق مدینہ سے چار میل بقیع کی جانب ہے۔

حدیث سے وادی کی فضیلت ظاہر ہے۔ اس میں قیام کرنااور یہاں نمازیں ادا کرنا باعث اجر و ثواب اور اتباع سنت ہے۔ تبع جب مدینہ سے واپس ہوا تو اس نے یہاں قیام کیا تھااور اس زمین کی خوبی دیکھ کر کہا تھاکہ یہ تو عقیق کی مانند ہے۔ اسی وقت سے اس کا نام عقیق ہوگیا۔ ( فتح الباری
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : اگر کپڑوں پر خلوق ( ایک قسم کی خوشبو ) لگی ہو تو اس کو تین بار دھونا

حدیث نمبر : 1536
قال أبو عاصم أخبرنا ابن جريج، أخبرني عطاء، أن صفوان بن يعلى، أخبره أن يعلى قال لعمر ـ رضى الله عنه ـ أرني النبي صلى الله عليه وسلم حين يوحى إليه قال فبينما النبي صلى الله عليه وسلم بالجعرانة، ومعه نفر من أصحابه، جاءه رجل فقال يا رسول الله كيف ترى في رجل أحرم بعمرة، وهو متضمخ بطيب فسكت النبي صلى الله عليه وسلم ساعة فجاءه الوحى، فأشار عمر ـ رضى الله عنه ـ إلى يعلى، فجاء يعلى، وعلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ثوب قد أظل به فأدخل رأسه، فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم محمر الوجه، وهو يغط ثم سري عنه فقال ‏"‏أين الذي سأل عن العمرة ‏"‏فأتي برجل فقال ‏"‏اغسل الطيب الذي بك ثلاث مرات، وانزع عنك الجبة، واصنع في عمرتك كما تصنع في حجتك‏"‏‏. ‏ قلت لعطاء أراد الإنقاء حين أمره أن يغسل ثلاث مرات قال نعم‏.‏
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم، ضحاک بن مخلد نبیل نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ابن جریج نے خبر دی کہا کہ مجھے عطاء بن ابی رباح نے خبرد ی، انہیں صفوان بن یعلیٰ نے، کہا کہ ان کے باپ یعلیٰ بن امیہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کبھی آپ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دکھایئے جب آپ پر وحی نازل ہو رہی ہو۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ ٹھہر ے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے آ کر پوچھا یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! اس شخص کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے جس نے عمرہ کا احرام اس طرح باندھا کہ اس کے کپڑے خوشبو میں بسے ہوئے ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر تھوڑی دیر کے لئے چپ ہوگئے۔ پھر آپ پر وحی نازل ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یعلیٰ رضی اللہ عنہ کو اشارہ کیا۔ یعلیٰ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک کپڑا تھا جس کے اندر آپ تشریف رکھتے تھے۔ انہو ں نے کپڑے کے اند راپنا سر کیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ روئے مبارک سرخ ہے اور آپ خراٹے لے رہے ہیں۔ پھر یہ حالت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ وہ شخص کہاں ہے جس نے عمرہ کے متعلق پوچھا تھا۔ شخص مذکور حاضرکیا گیا توآپ نے فرمایا کہ جو خوشبو لگا رکھی ہے اسے تین مرتبہ دھولے اور اپنا جبہ اتاردے۔ عمرہ میں بھی اسی طرح کر جس طرح حج میں کرتے ہو۔ میں نے عطاءسے پوچھا کہ کیا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تین مرتبہ دھونے کے حکم سے پوری طرح صفائی مراد تھی؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں۔

تشریح : اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے جو احرام کے وقت خوشبو لگانا جائز نہیں سمجھتے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خوشبوکے اثر کو تین بار دھونے کا حکم فرمایا مالک اور امام محمد کا یہی قول ہے۔ اور جمہور علما کے نزدیک احرام باندھتے وقت خوشبو لگانا درست ہے گو اس کا اثر احرام کے بعد باقی رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یعلیٰ کی حدیث 8ھ کی ہے اور 10 ھ میں یعنی حجتہ الوداع میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے احرام باندھتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خوشبو لگائی اور یہ آخری فعل پہلے کا ناسخ ہے۔ ( وحیدی )

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں واجاب الجمہور بان قصۃ یعلی کانت بالجعرانۃ کما ثبت ف ہذا الحدیث وہی فی سنۃ ثمان بلا خلاف وقد ثبت عن عائشۃ انہا طیبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدھا عند احرامہا کما سیاتی ف الذی بعدہ وکان ذالک ف حجۃ الوداع سنۃ عشربلا خلاف وانما یوخذ باالاخر فالا خر من الامر۔ ( فتح الباری ) خلاصہ اس عبارت کا وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : احرام باندھنے کے وقت خوشبو لگانا

حدیث نمبر : 1536
وما يلبس إذا أراد أن يحرم ويترجل ويدهن وقال ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ يشم المحرم الريحان وينظر في المرآة، ويتداوى بما يأكل الزيت والسمن‏.‏ وقال عطاء يتختم ويلبس الهميان‏.‏ وطاف ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ وهو محرم، وقد حزم على بطنه بثوب‏.‏ ولم تر عائشة ـ رضى الله عنها ـ بالتبان بأسا للذين يرحلون هودجها‏.‏
اور احرام کے ارادہ کے وقت کیا پہننا چاہئے اور کنگھا کر ے اورتیل لگائے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ محرم خوشبو دار پھول سونگھ سکتاہے۔ اسی طرح آئینہ دیکھ سکتا ہے اور ان چیزوں کو جو کھائی جاتی ہیں بطور دوا بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ مثلاً زیتون کا تیل اور گھی وغیرہ۔ اور عطاء نے فرمایا کہ محرم انگوٹھی پہن سکتاہے اور ہمیانی باندھ سکتا ہے۔ ابن عمر نے طواف کیا اس وقت آپ محرم تھے لیکن پیٹ پر ایک کپڑا باندھا رکھا تھا۔ م عائشہ رضی اللہ عنہ نے جانگئے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا تھا۔ ابو عبداللہ ( امام بخاری ) نے کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی مراد اس حکم سے ان لوگوں کے لئے تھی جو ان کے ہودج کو اونٹ پر کسا کرتے تھے۔

اس کو سعید بن منصور نے وصل کیا۔ دارقطنی کی روایت میں یوں ہے اور حمام میں جاسکتاہے اور داڑھ میں درد ہو تو اکھاڑ سکتاہے ہے پھوڑا پھوڑ سکتا ہے، اگرناخن ٹوٹ گیا ہوتو اتنا ٹکڑا نکا ل سکتاہے۔ جمہور علماءکے نزدیک احرام میں جانگیا پہننا درست نہیں کیونکہ یہ پاجامہ ہی کے حکم میں ہے۔

حدیث نمبر : 1537
حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن منصور، عن سعيد بن جبير، قال كان ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يدهن بالزيت‏.‏ فذكرته لإبراهيم، قال: ما تصنع بقوله:
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیا ن کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ ابن عمررضی اللہ عنہما سادہ تیل استعمال کرتے تھے ( احرام کے باوجود ) میں نے اس کا ذکر ابراہیم نخعی سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تم ابن عمر رضی اللہ عنہما کی بات نقل کرتے ہو۔

حدیث نمبر : 1538
حدثني الأسود، عن عائشة رضي الله عنها قالت: كأني أنظر إلي وبيص الطيب في مفارق رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو محرم.
مجھ سے تو اسود نے بیان کیا، اور ان سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محرم ہیں اور گویا میں آپ کی مانگ میں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں۔

تشریح : ابراہیم نخعی کامطلب یہ ہے کہ ابن عمر نے جو احرام لگاتے وقت خوشبو سے پرہیز کیا اور سادہ بغیر خوشبو کا تیل ڈالا تو ہمیں اس فعل سے کوئی غرض نہیں جب آنحضرت کی حدیث موجود ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ احرام باندھتے وقت آپ نے خوشبو لگائی۔ یہاں تک کہ احرام کے بعد بھی اس کا اثر آپ کی مانگ میں رہا۔ اس روایت سے حنفیہ کو سبق لیناچاہئے۔ ابراہیم نخعی حضرت امام ابو حنیفہ کے استاذ الاستاذ ہیں انہوں نے حدیث کے خلاف ابن عمر رضی اللہ عنہ عنہماکا قول وفعل رد کردیا تواور کس مجتہد اور فقیہ کا قول حدیث کے خلاف کب قابل قبول ہوگیا ( مولانا وحید الزماں مرحوم )

اس مقام پر حدیث نبوی لوکان موسیٰ حیا واتبعتموہ الخ بھی یاد رکھنی ضروری ہے۔ یعنی آپ نے فرمایا کہ اگر آج موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوں اور تم میرے خلاف ان کی اتباع کرنے لگو تو تم سیدھے راستے سے گمراہ ہوجاؤ گے مگر مقلدین کا حال اس قدر عجیب ہے کہ وہ اپنے اماموں کی محبت میں نہ قرآن کو قابل غور گر دانتے ہیں نہ احادیث کو۔ ان کا آخری جواب یہی ہوتا ہے کہ ہم کو قول امام بس ہے۔ایسے مقلدین جامد کے لئے حضرت امام مہدی علیہ السلام ہی شاید راہنما بن سکیں ورنہ سراسر نا امیدی ہے۔

حدیث نمبر : 1539
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت كنت أطيب رسول الله صلى الله عليه وسلم لإحرامه حين يحرم، ولحله قبل أن يطوف بالبيت‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبردی، انہیں عبدالرحمن بن قاسم نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرام باندھتے تو میں آپ کے احرام کےلئے اور اسی طرح بیت اللہ کے طواف زیارت سے پہلے حلال ہونے کے لئے، خوشبو لگایا کرتی تھیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : بالوں کو جما کر باندھنا

احرام باندھتے وقت اس خیال سے کہ بال پریشان نہ ہوں، ان میں گردوغبار نہ سماءے، بالوں کو گوند یا خطمی یا کسی اور لعاب سے جما لیتے ہیں۔ عربی زبان میں اسے تلبید کہتے ہیں۔

حدیث نمبر : 1540
حدثنا أصبغ، أخبرنا ابن وهب، عن يونس، عن ابن شهاب، عن سالم، عن أبيه ـ رضى الله عنه ـ قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يهل ملبدا‏.‏
ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، کا کہا کہ ہمیں عبدللہ بن وہب نے خبر دی، انہیں یونس نے، انہیں ابن شہاب نے، انہیں سالم نے اور ان سے ان کے والد نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تلبیدکی حالت میں لبیک کہتے سنا۔

احرام باندھتے وقت اس خیال سے کہ بال پریشان نہ ہوں، ان میں گردوغبار نہ سمائے، بالوں کو گوند یا خطمی یا کسی اور لعاب سے جما لیتے ہیں۔ عربی زبان میں اسے تلبید کہتے ہیں۔
 
Top