• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : ذوالحلیفہ کی مسجد کے پاس احرام باندھنا

حدیث نمبر : 1541
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، حدثنا موسى بن عقبة، سمعت سالم بن عبد الله، قال سمعت ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ‏.‏ وحدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن موسى بن عقبة، عن سالم بن عبد الله، أنه سمع أباه، يقول ما أهل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا من عند المسجد يعني مسجد ذي الحليفة‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے سالم بن عبداللہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا اور ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے، ان سے سالم بن عبداللہ نے، انہوں نے اپنے باپ سے سنا، کہ وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد ذوالحلیفہ کے قریب ہی پہنچ کر احرام باندھاتھا۔

اس میں اختلاف ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس جگہ سے احرام باندھاتھا۔ بعض لوگ ذوالحلیفہ کی مسجد سے بتاتے ہیں جہاںآپ نے احرام کا دوگانہ ادا کیا۔ بعض کہتے ہیںجب مسجد سے نکل کر اونٹنی پر سوار ہوئے۔ بعض کہتے ہیں جب آپ بیداءکی بلندی پر پہنچے۔ یہ اختلاف در حقیقت اختلاف نہیں ہے کیونکہ ان تینوں مقاموں میں آپ نے لبیک پکاری ہوں گی۔ بعضوں نے اول اور دوسرے مقام کی نہ سنی ہوگی بعضوں نے اول کی نہ سنی ہوگی دوسرے کی سنی ہوگی تو ان کو یہی گمان ہوا کہ یہیں سے احرام باندھا۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : محرم کو کونسے کپڑے پہننا درست نہیں

حدیث نمبر : 1542
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رجلا، قال يا رسول الله ما يلبس المحرم من الثياب قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏لا يلبس القمص ولا العمائم ولا السراويلات ولا البرانس ولا الخفاف، إلا أحد لا يجد نعلين فليلبس خفين، وليقطعهما أسفل من الكعبين، ولا تلبسوا من الثياب شيئا مسه الزعفران أو ورس‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبردی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ ایک شخص نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! محرم کو کس طرح کا کپڑا پہننا چاہئے؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہ کرتہ پہنے نہ عمامہ باندھے نہ پاجامہ پہنے نہ باران کوٹ نہ موزے۔ لیکن اگر اس کے پاس جوتی نہ ہو تو وہ موزے اس وقت پہن سکتاہے جب ٹخنوں کے نیچے سے ان کو کاٹ لیا ہو۔ ( اور احرام میں ) کوئی ایسا کپڑا نہ پہنو جس میں زعفران یاورس لگا ہوا ہو۔ ابو عبداللہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ محرم اپنا سردھوسکتاہے لیکن کنگھا نہ کرے۔ بدن بھی نہ کھجلانا چاہئے او جوں سر اور بدن سے نکال کر زمین پر ڈالی جاسکتی ہے۔

ورس ایک زرد گھاس ہوتی ہے خوشبودار اوراس پرسب کا اتفاق ہے کہ محرم کو یہ کپڑے پہننے ناجائزہیں۔ ہر سلا ہوا کپڑا پہننا مرد کو احرام میں ناجائز ہے لیکن عورتوں کو درست ہے۔ خلاصہ یہ کہ ایک لنگی اور ایک چادر، مرد کا یہی احرام ہے۔ یہ ایک فقیری لباس ہے، اب یہ حاجی اللہ کا فقیربن گیا، اس کو اس لباس فقر کا تازندگی لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ ا س موقع پر کوئی کتنا ہی بڑا بادشاہ مالدار کیوں نہ ہو سب کو یہی لباس زیب تن کر کے مساوات انسانی کا یک بہترین نمونہ پیش کرنا ہے اور ہر امیر وغریب کو ایک ہی سطح پر آجانا ہے تاکہ وحدت انسانی کا ظاہر اًاور باطناً بہتر مظاہرہ ہوسکے اور امراءکے دماغوں سے نخوت امیری نکل سکے اور غرباءکو تسلی واطمینان ہوسکے۔ الغرض لباس احرام کے اندر بہت سے روحانی ومادی وسماجی فوائد مضمر ہیں مگر ان کا مطالعہ کرنے کے لئے دیدہ بصیرت کی ضرورت ہے اور یہ چیز ہر کسی کو نہیں ملتی۔انما یتذکر اولو الالباب۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : حج کے لیے سوار ہونا یا سواری پر کسی کے پیچھے بیٹھنا درست ہے

حدیث نمبر : 1543
حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا وهب بن جرير، حدثنا أبي، عن يونس الأيلي، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن أسامة ـ رضى الله عنه ـ كان ردف النبي صلى الله عليه وسلم من عرفة إلى المزدلفة، ثم أردف الفضل من المزدلفة إلى منى‏.‏ قال فكلاهما قال لم يزل النبي صلى الله عليه وسلم يلبي، حتى رمى جمرة العقبة‏.‏
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، ان سے وہب بن جریر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد جریر بن حازم نے بیان کیا۔ ان سے یونس بن زید نے، ان سے زہری نے، ان سے عبید اللہ بن عبداللہ نے اور ان سے زہری نے، ان سے عبید اللہ بن عبداللہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ عرفات سے مزدلفہ تک اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر مزدلفہ سے منیٰ تک حضر ت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما پیچھے بیٹھ گئے تھے، دونوں حضرات نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کی رمی تک برابر تلبیہ کہتے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : محرم چادریں او رتہبند اور کون کون سے کپڑے پہنے

والأزر ولبست عائشة ـ رضى الله عنها ـ الثياب المعصفرة وهى محرمة وقالت لا تلثم ولا تتبرقع ولا تلبس ثوبا بورس ولا زعفران‏.‏ وقال جابر لا أرى المعصفر طيبا‏.‏ ولم تر عائشة بأسا بالحلي والثوب الأسود والمورد والخف للمرأة‏.‏ وقال إبراهيم لا بأس أن يبدل ثيابه‏.‏
او رحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا محرم تھیں لیکن کسم ( کیسو کے پھول ) میں رنگے ہوئے کپڑے پہنے ہوئی تھےں۔ آپ نے فرمایا کہ عورتیں احرام کی حالت میں اپنے ہونٹ نہ چھپائیں نہ منہ پر نقاب ڈالیں او رنہ ورس یا زعفران کا رنگا ہوا کپڑا پہنیں اور جابر بن عبداللہ انصاری نے کہا کہ میں کسم کو خوشبونہیں سمجھتا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے عورتوں کے لئے زیور سیاہ گلابی کپڑے اور موزوں کے پہننے میںکوئی مضائقہ نہیں سمجھا اور ابراہیم نخعی نے کہا کہ عورتوں کو احرام کی حالت میںکپڑے بدل لینے میں کوئی حرج نہیں۔

حدیث نمبر : 1545
حدثنا محمد بن أبي بكر المقدمي، حدثنا فضيل بن سليمان، قال حدثني موسى بن عقبة، قال أخبرني كريب، عن عبد الله بن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال انطلق النبي صلى الله عليه وسلم من المدينة، بعد ما ترجل وادهن ولبس إزاره ورداءه، هو وأصحابه، فلم ينه عن شىء من الأردية والأزر تلبس إلا المزعفرة التي تردع على الجلد، فأصبح بذي الحليفة، ركب راحلته حتى استوى على البيداء، أهل هو وأصحابه وقلد بدنته، وذلك لخمس بقين من ذي القعدة، فقدم مكة لأربع ليال خلون من ذي الحجة، فطاف بالبيت وسعى بين الصفا والمروة، ولم يحل من أجل بدنه لأنه قلدها، ثم نزل بأعلى مكة عند الحجون، وهو مهل بالحج، ولم يقرب الكعبة بعد طوافه بها حتى رجع من عرفة، وأمر أصحابه أن يطوفوا بالبيت وبين الصفا والمروة، ثم يقصروا من رءوسهم ثم يحلوا، وذلك لمن لم يكن معه بدنة قلدها، ومن كانت معه امرأته فهي له حلال، والطيب والثياب‏.
ہم سے محمد بن ابی بکر مقدمی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے کریب نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ حجتہ الوداع میں ظہراور عصر کے درمیان ہفتہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کنگھا کرنے اور تیل لگانے اور ازار او ررداءپہننے کے بعد اپنے صحابہ کے ساتھ مدینہ سے نکلے۔ آپ نے اس وقت زعفران میں رنگے ہوئے ایسے کپڑے کے سوا جس کا رنگ بدن پر لگتا ہو کسی قسم کی چادر یا تہبندپہننے سے منع نہیں کیا۔ دن میں آپ ذوالحلیفہ پہنچ گئے ( اور رات وہیں گزاری ) پھر آپ سوار ہوئے او ربیداءسے آپ کے اور آپ کے ساتھیوں نے لبیک کہا اور احرام باندھا او راپنے اونٹوں کو ہار پہنایا۔ ذی قعدہ کے مہینے میں اب پانچ دن رہ گئے تھے پھر جب آپ مکہ پہنچے تو ذی الحجہ کے چاردن گزر چکے تھے۔ آپ نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا اور مروہ کی سعی کی، آپ ابھی حلال نہیں ہوئے کیونکہ قربانی کے جانور آپ کے ساتھ تھے اور آپ نے ان کی گردن میں ہار ڈال دیا تھا۔ آپ حجون پہاڑ کے نزدیک مکہ کے بالائی حصہ میں اترے۔ حج کا احرام اب بھی باقی تھا۔ بیت اللہ کے طواف کے بعد پھر آپ وہاں اس وقت تک تشریف نہیں لے گئے جب تک میدان عرفات سے واپس نہ ہولئے۔ آپ نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا تھا کہ وہ بیت اللہ کا طواف کریں او رصفا ومروہ کے درمیان سعی کریں، پھر اپنے سروں کے بال ترشوا کر حلال ہوجائیں۔ یہ فرمان ان لوگوں کے لئے تھا جن کے ساتھ قربانی کے جانور نہیں تھے۔ اگر کسی کے ساتھ اس کی بیوی تھی تو وہ اس سے ہم بستر ہوسکتا تھا۔ اسی طرح خوشبو دار اور ( سلے ہوئے ) کپڑے کا استعمال بھی اس کے لئے جائز تھا۔

تشریح : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہفتہ کے دن مدینہ منورہ سے بتاریخ 25 ذی قعدہ کو نکلے تھے۔ اگر مہینہ تیس دن کا ہوتا تو پانچ دن باقی رہے تھے۔ لیکن اتفاق سے مہینہ 29 دن کا ہوگیا اور ذی الحجہ کی پہلی تاریخ پنج شنبہ کو واقع ہوئی۔ کیونکہ دوسری روایتوں سے ثابت ہے کہ آپ عرفات میں جمعہ کے دن ٹھہرے تھے۔ ابن حزم نے جو کہا کہ آپ جمعرات کے دن مدینہ سے نکلے تھے یہ ذہن میں نہیں آتا۔ البتہ ممکن ہے کہ آپ جمعہ کو مدینہ سے نکلے ہوں۔ مگر صحیحین کی روایتوں میں ہے کہ آپ نے اس دن ظہر کی نماز مدینہ میں چار رکعتیں پڑھیں اور عصر کی ذوالحلیفہ میں دو رکعتیں۔ ان روایتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ جمعہ کا دن نہ تھا۔ حجون پہاڑ محصب کے قریب مسجد عقبہ کے برابر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج

باب : ( مدینہ سے چل کر ) ذوالحلیفہ میں صبح تک ٹھہرنا

قاله ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
یہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں۔

حدیث نمبر : 1546
حدثني عبد الله بن محمد: حدثنا هشام بن يوسف: أخبرنا ابن جريج: حدثنا محمد بن المنكدر، عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: صلى النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة أربع، وبذي الحليفة ركعتين، ثم بات حتى أصبح بذي الحليفة، فلما ركب راحلته واستوت به أهل.‏
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے ابن جریج نے خبردی، انہوں نے کہا کہ مجھ سے محمد بن المنکدر نے بیان کیااور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں چار رکعتیں پڑھیں لیکن ذوالحلیفہ میں دورکعت ادا فرمائیں پھر آپ نے رات وہیں گزاری۔ صبح کے وقت جب آپ اپنی سواری پر سوار ہوئے تو آپ نے لبیک پکاری۔

حدیث نمبر : 1547
حدثنا قتيبة، حدثنا عبد الوهاب، حدثنا أيوب، عن أبي قلابة، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى الظهر بالمدينة أربعا، وصلى العصر بذي الحليفة ركعتين، قال وأحسبه بات بها حتى أصبح‏.‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، کہ ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے ابو قلابہ نے اور ان سے انس بن مالک نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر چار رکعت پڑھی لیکن ذوالحلیفہ میں عصر دو رکعت۔ انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ رات صبح تک آپ نے ذولحلیفہ میں ہی گزاردی۔

ذوالحلیفہ وہی جگہ ہے جو آج کل بئر علی کے نام سے مشہور ہے آج بھی حاجی صاحبان کا یہاں پڑاؤ ہوتاہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : لبیک بلند آواز سے کہنا

حدیث نمبر : 1548
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن أيوب، عن أبي قلابة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال صلى النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة الظهر أربعا، والعصر بذي الحليفة ركعتين، وسمعتهم يصرخون بهما جميعا‏.‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ابوایوب نے، ان سے ابو قلابہ نے او ران سے انس بن مالک نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ظہر مدینہ منورہ میں چار رکعت پڑھی۔ لیکن نماز عصر ذوالحلیفہ میں دو رکعت پڑھی۔ میں نے خود سنا کہ لوگ بلند آواز سے حج اور عمرہ دونوں کے لئے لبیک کہہ رہے تھے۔

تشریح : جمہور علماءکا یہی قول ہے کہ لبیک پکار کر کہنا مستحب ہے مگر یہ مردوں کے لئے ہے، عورتیں آہستہ کہیں۔ امام احمد نے مرفوعاً حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو لبیک پکار کر کہنے کا حکم دیا ہے۔ اب لبیک کہنا امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک سنت ہے اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک بغیر لبیک کہے احرام پورا نہ ہوگا۔ آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ حج قران کی نیت کرنے والے لبیک بحجۃ وعمرۃپکار رہے تھے۔ پس قران والوں کوجو حج وعمرہ ہر دو ملا کر کرنا چاہتے ہوں وہ ایسے ہی لبیک پکاریں۔ اور خالی حج کرنے والے لبیک بحجۃ کہیں اور خالی عمرہ کرنے والے لبیک بعمرۃکے الفاظ پکاریں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: فیہ حجۃ للجمہور فی استحباب رفع الاصوات بالتلبیۃ وقدروی مالک فی الموطا واصحاب السنن وصححۃ الترمذی وابن خزیمۃ والحاکم من طریق خلاد بن السائب عن ابیہ مرفوعا جاءنی جبرئیل فامر نی ان امر اصحابی یرفعون اصواتہم بالا ہلال یعنی لبیک کے ساتھ آواز بلند کرنا مستحب ہے۔ مؤطا وغیرہ میں مرفوعاً مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور فرمایا کہ اپنے اصحاب سے کہہ دیجئے کہ لبیک کے ساتھ آواز بلند کریں۔ پس اصحاب کرام اس قدر بلند آواز سے لبیک پکارا کرتے کہ پہاڑ گونجنے لگ جاتے لبیک اللہم کے معنی یا اللہ ! میں تیری عبادت پر قائم ہوں اور تیرے بلانے پر حاضر ہوا ہوں یا میرا اخلاص تیرے ہی لئے ہے، میں تیری طرف متوجہ ہوں۔ تیری بارگاہ میں حاضر ہوں۔لبیک اس دعوت کی قبولیت ہے جو تکمیل عمارت کعبہ کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ( واذن فی الناس بالحج ) کی تعمیل میں پکاری تھی کہ لوگو! آؤ اللہ کا گھر بن گیا ہے پس اس آواز پر ہر حاجی لبیک پکارتا ہے کہ میں حاضر ہوگیا ہوں یا یہ کہ غلام حاضر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : تلبیہ کا بیان

حدیث نمبر : 1549
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن تلبية، رسول الله صلى الله عليه وسلم لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك، لا شريك لك‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبردی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ یہ تھا ” حاضر ہوں اے اللہ ! حاضر ہو ں میں، تیرا کوئی شریک نہیں۔ حاضر ہوں، تمام حمد تیرے ہی لیے ہے اور تمام نعمتیں تیری ہی طرف سے ہیں، ملک تیرا ہی ہے تیرا کوئی شریک نہیں۔ “

حدیث نمبر : 1550
حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن الأعمش، عن عمارة، عن أبي عطية، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت إني لأعلم كيف كان النبي صلى الله عليه وسلم يلبي لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك‏.‏ تابعه أبو معاوية عن الأعمش‏. وقال شعبة: أخبرنا سليمان: سمعت خيثمة، عن أبي عطية: سمعت عائشة رضي الله عنها.‏
ہم سے محمدبن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے اعمش سے بیان کیا، ان سے عمارہ نے ان سے ابو عطیہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ میں جانتی ہوں کہ کس طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تلبیہ کہتے تھے۔ آپ تلبیہ یوں کہتے تھے لبیک لبیک لاشریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃلک ( ترجمہ گزرچکا ہے ) اس کی متابعت سفیان ثوری کی طرح ابو معاویہ نے اعمش سے بھی کی ہے۔ اور شعبہ نے کہا کہ مجھ کو سلیمان اعمش نے خبر دی کہ میں نے خیثمہ سے سنا اور انوہ ںنے ابو عطیہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عہنا سے سنا۔ پھر یہی حدیث بیان کی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : احرام باندھتے وقت جب جانور پر سوار ہونے لگے تولبیک سے پہلے الحمد اللہ، سبحان اللہ اللہ اکبر کہنا

حدیث نمبر : 1551
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا وهيب، حدثنا أيوب، عن أبي قلابة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن معه بالمدينة الظهر أربعا، والعصر بذي الحليفة ركعتين، ثم بات بها حتى أصبح، ثم ركب حتى استوت به على البيداء، حمد الله وسبح وكبر، ثم أهل بحج وعمرة، وأهل الناس بهما، فلما قدمنا أمر الناس فحلوا، حتى كان يوم التروية أهلوا بالحج قال ونحر النبي صلى الله عليه وسلم بدنات بيده قياما، وذبح رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة كبشين أملحين‏.‏ قال أبو عبد الله قال بعضهم هذا عن أيوب عن رجل عن أنس‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا ان سے ابو قلابہ نے اور ان سے انس نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میںہم بھی آپ کے ساتھ تھے ظہر کی نماز چار رکعت پڑھی او رذوالحلیفہ میں عصر کی نماز دو رکعت۔ آپ رات کو وہیں رہے۔ صبح ہوئی تو مقام بیداءسے سواری پر بیٹھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد، اس کی تسبیح اور تکبیر کہی۔ پھر حج اور عمرہ کے لئے ایک ساتھ احرام باندھا اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا ( یعنی قران کیا ) جب ہم مکہ آئے تو آپ کے حکم سے ( جن لوگوں نے حج تمتع کا احرام باندھا تھا ان ) سب نے احرام کھول دیا۔ پھر آٹھویں تاریخ میں سب سے حج کا احرام باندھا۔ انہو ں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے کھڑے ہو کر بہت سے اونٹ نحر کئے۔ حضور اکر م نے ( عید الاضحی کے دن ) مدینہ میں بھی دو چت کبرے سینگوں والے مینڈھے ذبح کئے تھے۔ ابو عبد اللہ امام بخاری نے کہا کہ بعض لوگ اس حدیث کو یوں روایت کرتے ہیںایوب سے، انہوں نے ایک شخص سے، انہوں نے انس سے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : جب سواری سیدھی لے کر کھڑی ہو اس وقت لبیک پکارنا

حدیث نمبر : 1552
حدثنا أبو عاصم، أخبرنا ابن جريج، قال أخبرني صالح بن كيسان، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال أهل النبي صلى الله عليه وسلم حين استوت به راحلته قائمة‏.‏
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے صالح بن کیسان نے خبردی، انہیں نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر آپ کی سواری پوری طرح کھڑی ہوگئی تھی تو آپ نے اس وقت لبیک پکارا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : قبلہ رخ ہوکر احرام باندھتے ہوئے لبیک پکارنا

وقال أبو معمر حدثنا عبد الوارث، حدثنا أيوب، عن نافع، قال كان ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ إذا صلى بالغداة بذي الحليفة أمر براحلته فرحلت ثم ركب، فإذا استوت به استقبل القبلة قائما، ثم يلبي حتى يبلغ المحرم، ثم يمسك حتى إذا جاء ذا طوى بات به حتى يصبح، فإذا صلى الغداة اغتسل، وزعم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم فعل ذلك‏.‏ تابعه إسماعيل عن أيوب في الغسل‏‏
او رابومعمر نے کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، انہوںنے کہا کہ ہم سے ایوب سختیانی نے نافع سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب ذوالحلیفہ میں صبح کی نماز پڑھ چکے تو اپنی اونٹنی پر پالان لگانے کا حکم فرمایا، سواری لائی گئی تو آپ اس پر سوار ہوئے اور جب وہ آپ کو لے کر کھڑی ہوگئی تو آپ کھڑے ہو کر قبلہ رو ہوگئے اور پھر لبیک کہنا شروع کیا تا آنکہ حرم میں داخل ہوگئے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے لبیک کہنا بند کردیا۔ پھرذی طویٰ میں تشریف لاکر رات وہیں گزارتے صبح ہوتی تو نماز پڑھتے اور غسل کرتے ( پھر مکہ میں داخل ہوتے ) آپ یقین کے ساتھ یہ جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کیا تھا۔ عبدالوارث کی طرح اس حدیث کو اسماعیل نے بھی ایوب سے روایت کیا۔ اس میں غسل کا ذکر ہے۔

حدیث نمبر : 1554
حدثنا سليمان بن داود أبو الربيع، حدثنا فليح، عن نافع، قال كان ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ إذا أراد الخروج إلى مكة ادهن بدهن ليس له رائحة طيبة، ثم يأتي مسجد الحليفة فيصلي ثم يركب، وإذا استوت به راحلته قائمة أحرم، ثم قال هكذا رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يفعل‏.‏
ہم سے ابو الربیع سلیمان بن داود نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا کہ حضرت عباللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب مکہ جانے کا ارادہ کرتے تھے پہلے خوشبو کے بغیر تیل استعمال کرتے۔ اس کے بعد مسجد ذوالحلیفہ میں تشریف لاتے یہاں صبح کی نماز پڑھتے، پھرسوار ہوتے، جب اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر پوری طرح کھڑی ہوجاتی تو احرام باندھتے۔ پھر فرماتے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کرتے دیکھا تھا۔
 
Top