Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : نالے میں اترتے وقت لبیک کہے
حدیث نمبر : 1555
حدثنا محمد بن المثنى، قال حدثني ابن أبي عدي، عن ابن عون، عن مجاهد، قال كنا عند ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ فذكروا الدجال أنه قال " مكتوب بين عينيه كافر ". فقال ابن عباس لم أسمعه ولكنه قال " أما موسى كأني أنظر إليه إذ انحدر في الوادي يلبي ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے ابن عدی نے بیان کیا ، ان سے عبداللہ بن عون نے ان سے مجاہد نے بیان کیا ، کہا کہ ہم عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر تھے ۔ لوگوں نے دجال کا ذکر کیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافرلکھا ہوا ہوگا ۔ تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں نے تو یہ نہیں سنا ۔ ہاں آپ نے یہ فرمایا تھا کہ گویا میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں کہ جب آپ نالے میں اترے تو لبیک کہہ رہے ہیں ۔
تشریح : معلوم ہوا کہ عالم مثال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حج کے لئے لبیک پکارتے ہوئے دیکھا۔ ایک روایت میں ایسے ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بھی دکر ہے۔ ایک حدیث میں حضرت عیسیٰ بن مریم کا فج الروحاءسے احرام باندھنے کا ذکر ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آپ نے اس حالت میں خواب میں دیکھا ہو۔ حافظ نے اسی پر اعتماد کیاہے۔
مسلم شریف میں یہ واقعہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے یو ں مروی ہے۔کانی انظر الی موسیٰ ہابطامن الثنیۃ واضعا اصبعیۃ فی اذنیہ مارابہذا الوادی ولہ جوار الی اللہ بالتلبیۃ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گویا میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ رہاہوں آپ گھاٹی سے اترے ہوئے کانوں میں انگلیاں ڈالے ہوئے لبیک بلند آواز سے پکارتے ہوئے اس وادی سے گزررہے ہیں۔
اس کے ذیل میں حافظ صاحب کی پوری تقریر یہ ہے۔ واختلف اہل التحقیق فی معنی قولہ کانی انظر علی اوجہ الاول ہو علی الحقیقۃ والا نبیاءاحیاءعند ربھم یرزقون فلامانع ان یحجوافی ہذا الحال کما ثبت فی صحیح مسلم من حدیث انس انہ صلی اللہ علیہ وسلم رای موسیٰ قائما فی قبرہ یصلی قال القرطبی حببت الیہم العبادۃ فہم یتعبدون بما یجدونہ من دواعی انفسہم بمالا یلزمون بہ کما یلہم اہل الجنۃ الذکر ویویدہ ان عمل الاخرۃ ذکر ودعاءقولہ تعالیٰ دعواہم فیہا سبحنک اللہم الایۃ لیکن تمام ہذا لتوجیہ ان یقال ان المنظور الیہ ہی ارواحہم فلعہا مثلث لہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الدنیا کما مثلت لہ لیلۃ الااسریٰ واما اجسادہم فہی فی القبور قال ابن المنیر وغیرہ یجعل اللہ لروحہ مثالافیری فی الیقظۃ کما یری فی النوم ثانیہاکانہ مثلت لہ احوالہم التی کان فی الحیاۃ الدنیاکیف تعبدو کیف حجوا وکیف لبواو لہذا قال کانی انظر ثالثہا کانہ اخبر بالوحی عن ذالک فلشدۃ قطعہ بہ قال کانی انظر الیہ رابعہا کانا رویۃ منام تقدمت لہ فاخبر عنہا لما حج عندما تذکر ذالک ورؤیا الانبیاءوحی وہذا ہوا المعتمد عندی کما سیاتی فی احادیث الانبیاءمن التصریح بنحو ذالک فی احادیث آخرو کون ذلک کان فی المنام والذی قبلہ لیس ببعید واللہ اعلم۔ ( فتح الباری )
یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کانی انظر الیہ ( گویا میں ان کو دیکھ رہا ہوں ) کی اہل تحقیق نے مختلف توجیہات کی ہیں۔ اول تو یہ کہ یہ حقیقت پر مبنی ہے کہ کیونکہ انبیاءکرام اپنے رب کے ہاں سے رزق دیئے جاتے ہیں اور وہ اپنی قبور میں ز ندہ ہیں۔ پس کچھ مشکل نہیں کہ وہ ا س حالت میں حج بھی کرتے ہوں جیسا کہ صحیح مسلم میںحدیث انس سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں نمازپڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے قرطبی نے کہا کہ عبادت ان کے لئے محبوب ترین چیز رہی۔ پس وہ عالم آخرت میں بھی اسی حالت میں بطیب خاطر مشغول ہیں حالانکہ یہ ان کے لئے وہاں لازم نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ اہل جنت کو ذکر الہٰی کا الہام ہوتا رہے گا اور اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ عمل آخرت ذکر اور دعا ہے جیسا کہ آیت شریفہ دَعواہُم فِیہَا سُبحٰنَکَ اللّٰہُمَّ ( یونس:10 ) میں مذکورہے۔لیکن اس توجیہ کی تکمیل اس پر ہے کہ آپ کو ان کی ارواح نظر آئیں اور عالم مثال میں ان کو دنیا میں آپ کو دکھلایا گیا۔ جیسا کہ معراج میں آپ کو تمثیلی اشکال میں ان کو دکھلایا گیا تھا۔ حالانکہ ان کے اجسادان کی قبروں میں تھے۔ ابن منیر نے کہا کہ اللہ پاک ان کی ارواح طیبہ کو عالم مثال میں دکھلادیتا ہے۔ یہ عالم بیداری میں بھی ایسے ہی دکھائی دیئے جاتے ہیں جیسے عالم خواب میں ۔ دوسری توجیہ یہ کہ ان کے تمثیلی حالات دکھلائے گئے۔ جیسے کہ وہ دنیا میں عبادت اور حج اور لبیک وغیرہ کیا کرتے تھے۔ تیسری یہ کہ وحی سے یہ حال معلوم کرایا گیا جو اتنا قطعی تھا کہ آپ نے کانی انظر الیہ سے اسے تعبیر فرمایا۔ چوتھی توجیہ یہ کہ یہ عالم خواب کا معاملہ ہے جو آپ کو دکھلایا گیا اور انبیاءکے خواب بھی وحی کے درجہ میں ہوتے ہیں اور میرے نزدیک اسی توجیہ کو ترجیح ہے جیسا کہ احادیث الانبیاءمیں صراحت آئے گی اور اس کا حالت خواب میں نظر آنا کوئی بعید چیز نہیں ہے۔
خلاصۃ المرام یہ ہے کہ عالم خواب میں یاعالم مثال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سفر حج میں لبیک پکارتے ہوئے اور مذکورہ وادی میں سے گزرتے ہوئے دیکھا۔ صلی اللہ علیہ وسلم وعلی نبینا علیہ الصلٰوۃ والسلام۔
باب : نالے میں اترتے وقت لبیک کہے
حدیث نمبر : 1555
حدثنا محمد بن المثنى، قال حدثني ابن أبي عدي، عن ابن عون، عن مجاهد، قال كنا عند ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ فذكروا الدجال أنه قال " مكتوب بين عينيه كافر ". فقال ابن عباس لم أسمعه ولكنه قال " أما موسى كأني أنظر إليه إذ انحدر في الوادي يلبي ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے ابن عدی نے بیان کیا ، ان سے عبداللہ بن عون نے ان سے مجاہد نے بیان کیا ، کہا کہ ہم عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر تھے ۔ لوگوں نے دجال کا ذکر کیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافرلکھا ہوا ہوگا ۔ تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں نے تو یہ نہیں سنا ۔ ہاں آپ نے یہ فرمایا تھا کہ گویا میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں کہ جب آپ نالے میں اترے تو لبیک کہہ رہے ہیں ۔
تشریح : معلوم ہوا کہ عالم مثال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حج کے لئے لبیک پکارتے ہوئے دیکھا۔ ایک روایت میں ایسے ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بھی دکر ہے۔ ایک حدیث میں حضرت عیسیٰ بن مریم کا فج الروحاءسے احرام باندھنے کا ذکر ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آپ نے اس حالت میں خواب میں دیکھا ہو۔ حافظ نے اسی پر اعتماد کیاہے۔
مسلم شریف میں یہ واقعہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے یو ں مروی ہے۔کانی انظر الی موسیٰ ہابطامن الثنیۃ واضعا اصبعیۃ فی اذنیہ مارابہذا الوادی ولہ جوار الی اللہ بالتلبیۃ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گویا میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ رہاہوں آپ گھاٹی سے اترے ہوئے کانوں میں انگلیاں ڈالے ہوئے لبیک بلند آواز سے پکارتے ہوئے اس وادی سے گزررہے ہیں۔
اس کے ذیل میں حافظ صاحب کی پوری تقریر یہ ہے۔ واختلف اہل التحقیق فی معنی قولہ کانی انظر علی اوجہ الاول ہو علی الحقیقۃ والا نبیاءاحیاءعند ربھم یرزقون فلامانع ان یحجوافی ہذا الحال کما ثبت فی صحیح مسلم من حدیث انس انہ صلی اللہ علیہ وسلم رای موسیٰ قائما فی قبرہ یصلی قال القرطبی حببت الیہم العبادۃ فہم یتعبدون بما یجدونہ من دواعی انفسہم بمالا یلزمون بہ کما یلہم اہل الجنۃ الذکر ویویدہ ان عمل الاخرۃ ذکر ودعاءقولہ تعالیٰ دعواہم فیہا سبحنک اللہم الایۃ لیکن تمام ہذا لتوجیہ ان یقال ان المنظور الیہ ہی ارواحہم فلعہا مثلث لہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الدنیا کما مثلت لہ لیلۃ الااسریٰ واما اجسادہم فہی فی القبور قال ابن المنیر وغیرہ یجعل اللہ لروحہ مثالافیری فی الیقظۃ کما یری فی النوم ثانیہاکانہ مثلت لہ احوالہم التی کان فی الحیاۃ الدنیاکیف تعبدو کیف حجوا وکیف لبواو لہذا قال کانی انظر ثالثہا کانہ اخبر بالوحی عن ذالک فلشدۃ قطعہ بہ قال کانی انظر الیہ رابعہا کانا رویۃ منام تقدمت لہ فاخبر عنہا لما حج عندما تذکر ذالک ورؤیا الانبیاءوحی وہذا ہوا المعتمد عندی کما سیاتی فی احادیث الانبیاءمن التصریح بنحو ذالک فی احادیث آخرو کون ذلک کان فی المنام والذی قبلہ لیس ببعید واللہ اعلم۔ ( فتح الباری )
یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کانی انظر الیہ ( گویا میں ان کو دیکھ رہا ہوں ) کی اہل تحقیق نے مختلف توجیہات کی ہیں۔ اول تو یہ کہ یہ حقیقت پر مبنی ہے کہ کیونکہ انبیاءکرام اپنے رب کے ہاں سے رزق دیئے جاتے ہیں اور وہ اپنی قبور میں ز ندہ ہیں۔ پس کچھ مشکل نہیں کہ وہ ا س حالت میں حج بھی کرتے ہوں جیسا کہ صحیح مسلم میںحدیث انس سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں نمازپڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے قرطبی نے کہا کہ عبادت ان کے لئے محبوب ترین چیز رہی۔ پس وہ عالم آخرت میں بھی اسی حالت میں بطیب خاطر مشغول ہیں حالانکہ یہ ان کے لئے وہاں لازم نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ اہل جنت کو ذکر الہٰی کا الہام ہوتا رہے گا اور اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ عمل آخرت ذکر اور دعا ہے جیسا کہ آیت شریفہ دَعواہُم فِیہَا سُبحٰنَکَ اللّٰہُمَّ ( یونس:10 ) میں مذکورہے۔لیکن اس توجیہ کی تکمیل اس پر ہے کہ آپ کو ان کی ارواح نظر آئیں اور عالم مثال میں ان کو دنیا میں آپ کو دکھلایا گیا۔ جیسا کہ معراج میں آپ کو تمثیلی اشکال میں ان کو دکھلایا گیا تھا۔ حالانکہ ان کے اجسادان کی قبروں میں تھے۔ ابن منیر نے کہا کہ اللہ پاک ان کی ارواح طیبہ کو عالم مثال میں دکھلادیتا ہے۔ یہ عالم بیداری میں بھی ایسے ہی دکھائی دیئے جاتے ہیں جیسے عالم خواب میں ۔ دوسری توجیہ یہ کہ ان کے تمثیلی حالات دکھلائے گئے۔ جیسے کہ وہ دنیا میں عبادت اور حج اور لبیک وغیرہ کیا کرتے تھے۔ تیسری یہ کہ وحی سے یہ حال معلوم کرایا گیا جو اتنا قطعی تھا کہ آپ نے کانی انظر الیہ سے اسے تعبیر فرمایا۔ چوتھی توجیہ یہ کہ یہ عالم خواب کا معاملہ ہے جو آپ کو دکھلایا گیا اور انبیاءکے خواب بھی وحی کے درجہ میں ہوتے ہیں اور میرے نزدیک اسی توجیہ کو ترجیح ہے جیسا کہ احادیث الانبیاءمیں صراحت آئے گی اور اس کا حالت خواب میں نظر آنا کوئی بعید چیز نہیں ہے۔
خلاصۃ المرام یہ ہے کہ عالم خواب میں یاعالم مثال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سفر حج میں لبیک پکارتے ہوئے اور مذکورہ وادی میں سے گزرتے ہوئے دیکھا۔ صلی اللہ علیہ وسلم وعلی نبینا علیہ الصلٰوۃ والسلام۔