• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : مکہ میں کدھر سے داخل ہو

حدیث نمبر : 1575
حدثنا إبراهيم بن المنذر، قال حدثني معن، قال حدثني مالك، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخل من الثنية العليا، ويخرج من الثنية السفلى‏.‏
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، ان سے معن بن عیسیٰ نے بیان کیا، ان سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمررضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں بلند گھاٹی ( یعنی جنت المعلیٰ ) کی طرف سے داخل ہوتے اور نکلتے ثنیہ سفلیٰ کی طرف سے یعنی نیچے کی گھاٹی ( باب شبیکہ ) کی طرف سے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : مکہ سے جاتے وقت کون سی راہ سے جائے

حدیث نمبر : 1576
حدثنا مسدد بن مسرهد البصري، حدثنا يحيى، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل مكة من كداء من الثنية العليا التي بالبطحاء، ويخرج من الثنية السفلى‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد بصری نے بیان کیا، انہو ںنے کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ عمری نے، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثنیہ علیا یعنی مقام کداء کی طرف سے داخل ہوتے جو بطحاء میں ہے اور ثنیہ سلفیٰ کی طرف سے نکلتے تھے یعنی نیچے والی گھاٹی کی طرف سے۔

تشریح : ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ مکہ شریف میں ایک راہ سے آنا اور دوسری راہ سے جانا مستحب ہے۔ نسخہ مطبوعہ مصر میں یہاں اتنی عبارت زیادہ ہے۔ قال ابو عبداللہ کا ن یقال ہو مسددا کاسمہ قال ابو عبداللہ سمعت یحییٰ بن معین یقول سمعت یحییٰ بن سعید القطان یقول لو ان مسدد اتیتہ فی بیتہ فحدثتہ لاسحٰق ذالک وما ابالی کتبی کانت عندی او عند مسددیعنی امام بخاری رضی اللہ عنہ نے کہا مسدد اسم بامسمی تھے یعنی مسدد کے معنی عربی زبان میں مضبوط اور درست کے ہیں تووہ حدیث کی روایت میں مضبوط تھے اور میں نے یحییٰ بن معین سے سنا، وہ کہتے ہیں میں نے یحییٰ قطان سے سنا، وہ کہتے تھے اگر میں مسدد کے گھر جاکر ان کو حدیث سنایا کرتا تو وہ اس کے لائق تھے اور میری کتابیں حدیث کی میرے پاس رہیں یا مسدد کے پاس مجھے کچھ پرواہ نہیں۔ گو یا یحیٰ قطان نے مسدد کی بے حد تعریف کی۔

حدیث نمبر : 1577
حدثنا الحميدي، ومحمد بن المثنى، قالا حدثنا سفيان بن عيينة، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم لما جاء إلى مكة دخل من أعلاها وخرج من أسفلها‏.‏
ہم حمیدی اور محمدبن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تشریف لائے تو اوپر کی بلند جانب سے شہر کے اندر داخل ہوئے اور ( مکہ سے ) واپس جب گئے تو نیچے کی طرف سے نکل گئے۔

حدیث نمبر : 1578
حدثنا محمود بن غيلان المروزي، حدثنا أبو أسامة، حدثنا هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم دخل عام الفتح من كداء، وخرج من كدا من أعلى مكة‏.‏
ہم سے محمود بن غیلان مروزی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا، انہو ںنے کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا۔ ان سے ان کے والد عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر شہر میں کداء کی طرف سے داخل ہوئے اور کدیٰ کی طرف سے نکلے جو مکہ کے بلند جانب ہے۔

کداءبالمد ایک پہاڑ ہے مکہ کے نزدیک اور کدیٰ بضمِ کاف بھی ایک دوسرا پہاڑ ہے جو یمن کے راستے ہے۔ یہ راویت بظاہر اگلی روایتوں کے خلاف ہے۔ لیکن کرمانی نے کہا کہ یہ فتح مکہ کا ذکر ہے اور اگلی روایتوں میں حجتہ الوداع کا۔ حافظ نے کہا یہ راوی کی غلطی ہے اور ٹھیک ہے کہ آپ کداءیعنی بلند جانب سے داخل ہوئے یہ عبارت من اعلیٰ کداءمکۃ سے متعلق ہے نہ کدیٰ بالقصر سے ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1579
حدثنا أحمد، حدثنا ابن وهب، أخبرنا عمرو، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم دخل عام الفتح من كداء أعلى مكة‏.‏ قال هشام وكان عروة يدخل على كلتيهما من كداء وكدا، وأكثر ما يدخل من كداء، وكانت أقربهما إلى منزله‏.
ہم سے احمد بن عیسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ ابن وہب نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عمرو بن حارث نے خبر دی اور انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد عروہ بن زبیر نے اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ موقع پر داخل ہوتے وقت مکہ کے بالائی علاقہ کداء سے داخل ہوئے۔ ہشام نے بیان کیا کہ عروہ اگرچہ کداء اور کدیٰ دونوں طرف سے داخل ہوتے تھے لیکن اکثر کدیٰ سے داخل ہوتے کیونکہ یہ راستہ ان کے گھر سے قریب تھا۔

حدیث نمبر : 1580
حدثنا عبد الله بن عبد الوهاب، حدثنا حاتم، عن هشام، عن عروة، دخل النبي صلى الله عليه وسلم عام الفتح من كداء من أعلى مكة‏.‏ وكان عروة أكثر ما يدخل من كداء وكان أقربهما إلى منزله‏.‏
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے خاتم بن اسماعیل نے ہشام سے بیان کیا، ان سے عروہ نے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر مکہ کے بالائی علاقہ کداءکی طرف سے داخل ہوئے تھے۔ لیکن عروہ اکثر کدیٰ کی طرف سے داخل ہوتے تھے کیونکہ یہ راستہ ان کے گھر سے قریب تھا۔

حدیث نمبر : 1581
حدثنا موسى، حدثنا وهيب، حدثنا هشام، عن أبيه، دخل النبي صلى الله عليه وسلم عام الفتح من كداء‏.‏ وكان عروة يدخل منهما كليهما وأكثر ما يدخل من كداء أقربهما إلى منزله‏.‏ قال أبو عبد الله كداء وكدا موضعان‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ہشام نے اپنے باپ سے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر کداءسے داخل ہوئے تھے۔ عروہ خود اگر چہ دونوں طرف سے ( کداءاو رکدیٰ ) داخل ہوتے لیکن اکثر آپ کدیٰ کی طرف سے داخل ہوتے تھے کیونکہ یہ راستہ ان کے گھر سے قریب تھا۔ ابو عبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ کداءاور کدیٰ دومقامات کے نام ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : فضائل مکہ اور کعبہ کی بناءکا بیان

وقوله تعالى ‏{‏وإذ جعلنا البيت مثابة للناس وأمنا واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى وعهدنا إلى إبراهيم وإسماعيل أن طهرا بيتي للطائفين والعاكفين والركع السجود * وإذ قال إبراهيم رب اجعل هذا بلدا آمنا وارزق أهله من الثمرات من آمن منهم بالله واليوم الآخر قال ومن كفر فأمتعه قليلا ثم أضطره إلى عذاب النار وبئس المصير * وإذ يرفع إبراهيم القواعد من البيت وإسماعيل ربنا تقبل منا إنك أنت السميع العليم * ربنا واجعلنا مسلمين لك ومن ذريتنا أمة مسلمة لك وأرنا مناسكنا وتب علينا إنك أنت التواب الرحيم‏}‏‏.‏
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ” اور جب کہ بنا دیا ہم نے خانہ کعبہ کو باربار لوٹنے کی جگہ لوگوں کے لئے اور کردیا اس کو امن کی جگہ اور ( حکم دیا ہم نے ) کہ مقام ابراہیم کو نمازپڑھنے کی جگہ بناو اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل سے عہدلیا کہ وہ دونوں پاک کردیں میرے مکان کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لئے۔ اے اللہ ! کردے اس شہر کو امن کی جگہ اور یہاں کے ان رہنے والوں کو پھلوں سے روزی دے جو اللہ او ریوم آخرت پر ایمان لائیں صرف ان کو، اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور جس نے کفر کیا اس کو میں دنیا میں چند روز مزے کرنے دوں گا پھر اسے دوزخ کے عذاب میں کھینچ لاوں گا اور وہ برا ٹھکاناہے۔۔ اور جب ابراہیم واسماعیل علیہماا لسلام خانہ کعبہ کی بنیاد اٹھارہے تھے ( تو وہ یوں دعا کررہے تھے ) اے ہمارے رب ! ہماری اس کوشش کو قبول فرما۔ تو ہی ہماری ( دعاوں کو ) سننے والا اور ( ہماری نیتوں کا ) جاننے والا ہے۔ اے ہمارے رب ! ہمارے ! ہمیں اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری نسل سے ایک جماعت بنائیو جو تیری فرمانبردار ہو۔ ہم کو احکام حج سکھا اور ہمارے حال پر توجہ فرماکہ توبہت ہی توجہ فرمانے والا ہے۔ اور بڑا رحیم ہے۔

حدیث نمبر : 1582
حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا أبو عاصم، قال أخبرني ابن جريج، قال أخبرني عمرو بن دينار، قال سمعت جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ قال لما بنيت الكعبة ذهب النبي صلى الله عليه وسلم وعباس ينقلان الحجارة فقال العباس للنبي صلى الله عليه وسلم اجعل إزارك على رقبتك‏.‏ فخر إلى الأرض، وطمحت عيناه إلى السماء فقال ‏"‏أرني إزاري‏"‏‏. ‏ فشده عليه‏.‏
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو عاصم نبیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عمرو بن دینا ر نے خبر دی، کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ( زمانہ جاہلیت میں ) جب کعبہ کی تعمیر ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور عباس رضی اللہ عنہ بھی پتھر اٹھا کر لارہے تھے۔ عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اپنا تہبند اتار کر کاندھے پر ڈال لو ( تاکہ پتھر اٹھا نے میں تکلیف نہ ہو ) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا تو ننگے ہوتے ہی بے ہوش ہو کر آپ زمین پر گرپڑے اور آپ کی آنکھیں آسمان کی طرف لگ گئیں۔ آپ کہنے لگے مجھے میرا تہبند دے دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مضبوط باندھ لیا۔

تشریح : اس زمانہ میں محنت مزدوری کے وقت ننگے ہونے میں عیب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ لیکن چونکہ یہ امر مروت اور غیرت کے خلاف تھا، اللہ نے اپنے حبیب کے لئے اس وقت بھی یہ گوارہ نہ کیا گو اس وقت تک آپ کو پیغمبری نہیں ملی تھی۔

حدیث نمبر : 1583
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله، أن عبد الله بن محمد بن أبي بكر، أخبر عبد الله بن عمر، عن عائشة ـ رضى الله عنهم ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لها ‏"‏ألم ترى أن قومك لما بنوا الكعبة اقتصروا عن قواعد إبراهيم‏"‏‏. ‏ فقلت يا رسول الله ألا تردها على قواعد إبراهيم‏.‏ قال ‏"‏لولا حدثان قومك بالكفر لفعلت‏"‏‏. ‏ فقال عبد الله ـ رضى الله عنه ـ لئن كانت عائشة ـ رضى الله عنها ـ سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أرى رسول الله صلى الله عليه وسلم ترك استلام الركنين اللذين يليان الحجر، إلا أن البيت لم يتمم على قواعد إبراهيم‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے سالم بن عبداللہ نے کہ عبداللہ بن محمد بن ابی بکر نے انہیں خبردی، انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبردی اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیوی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ آنحضور صلی اللہ نے ان سے فرمایا کہ تجھے معلوم ہے جب تیری قوم نے کعبہ کی تعمیر کی تو بنیاد ابراہیم کو چھوڑ دیا تھا۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! پھر آپ بنیاد ابراہیم پر اس کو کیوں نہیں بنا دیتے؟ آپ نے فرمایا کہ اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر سے بالکل نزدیک نہ ہوتا تو میں بے شک ایسا کردیتا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اگر عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے ( اور یقینا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سچی ہیں ) تو میں سمجھتا ہو ںیہی وجہ تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حطیم سے متصل جو دیواروں کے کونے ہیں ان کو نہیں چومتے تھے۔ کیونکہ خانہ کعبہ ابراہیمی بنیادوں پر پورا نہ ہواتھا۔

تشریح : کیونکہ حطیم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنا میں کعبہ میں داخل تھا۔ قریش نے پیسہ کم ہونے کی وجہ سے کعبہ کو چھوٹا کردیا اور حطیم کی زمین کعبہ کے باہر چھٹی رہنے دی۔ اس لئے طواف میں حطیم کو شامل کر لیتے ہیں ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1584
حدثنا مسدد، حدثنا أبو الأحوص، حدثنا أشعث، عن الأسود بن يزيد، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت سألت النبي صلى الله عليه وسلم عن الجدر أمن البيت هو قال ‏"‏نعم‏"‏‏. ‏ قلت فما لهم لم يدخلوه في البيت قال ‏"‏إن قومك قصرت بهم النفقة‏"‏‏. ‏ قلت فما شأن بابه مرتفعا قال ‏"‏فعل ذلك قومك ليدخلوا من شاءوا ويمنعوا من شاءوا، ولولا أن قومك حديث عهدهم بالجاهلية فأخاف أن تنكر قلوبهم أن أدخل الجدر في البيت وأن ألصق بابه بالأرض‏"‏‏. ‏ حدثنا مسدد، حدثنا أبو الأحوص، حدثنا أشعث، عن الأسود بن يزيد، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت سألت النبي صلى الله عليه وسلم عن الجدر أمن البيت هو قال ‏"‏نعم‏"‏‏. ‏ قلت فما لهم لم يدخلوه في البيت قال ‏"‏إن قومك قصرت بهم النفقة‏"‏‏. ‏ قلت فما شأن بابه مرتفعا قال ‏"‏فعل ذلك قومك ليدخلوا من شاءوا ويمنعوا من شاءوا، ولولا أن قومك حديث عهدهم بالجاهلية فأخاف أن تنكر قلوبهم أن أدخل الجدر في البيت وأن ألصق بابه بالأرض‏"‏‏. ‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوالاحوص سلام بن سلیم جعفی نے بیان کیا، ان سے اشعت نے بیان کیا، ان سے اسود بن یزید نے او ران سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا حطیم بھی بیت اللہ میں داخل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، پھر میں نے پوچھا کہ پھر لوگوں نے اسے کعبے میں کیوں نہیں شامل کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ تمہاری قوم کے پاس خرچ کی کمی پڑ گئی تھی۔ پھرمیں نے پوچھا کہ یہ دروازہ کیوں اونچا بنایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بھی تمہاری قوم ہی نے کیا تاکہ جسے چاہیں اندر آنے دیں او رجسے چاہیں روک دیں۔ اگر تمہاری قوم کی جاہلیت کا زمانہ تازہ تازہ نہ ہوتا اور مجھے اس کا خوف نہ ہوتا کہ ان کے دل بگڑ جائیں گے تو اس حطیم کو بھی میں کعبہ میں شامل کردیتا اور کعبہ کا دروازہ زمین کے برابر کردیتا۔

حدیث نمبر : 1585
حدثنا عبيد بن إسماعيل، حدثنا أبو أسامة، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏لولا حداثة قومك بالكفر لنقضت البيت ثم لبنيته على أساس إبراهيم ـ عليه السلام ـ فإن قريشا استقصرت بناءه ـ وجعلت له خلفا‏"‏‏. ‏ قال أبو معاوية حدثنا هشام خلفا يعني بابا‏.‏
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا، اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر سے ابھی تازہ نہ ہوتا تو میں خانہ کعبہ کو توڑ کر اسے ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر بناتا کیونکہ قریش نے اس میں کمی کر دی ہے۔ اس میں ایک دروازہ اور اس دروازے کے مقابل رکھتا۔ ابو معاویہ نے کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا۔ حدیث میں خلف سے دروازہ مراد ہے۔

تشریح : اب کعبہ میں ایک ہی دروازہ ہے وہ بھی قد آدم سے زیادہ اونچا ہے۔ داخلے کے وقت لوگ بڑی مشکل سے سیڑھی پر چڑھ کر کعبے کے اندر جاتے ہیں اور ایک ہی دروازہ ہونے سے اس کے اندر تازی ہوا مشکل سے آتی ہے۔ داخلے کے لئے کعبہ شریف کو ایام حج میں بہت تھوڑی مدت کے لئے کھولاجاتاہے۔ الحمدللہ کہ 1351 ھ کے حج میں کعبہ شریف میں مترجم کو داخلہ نصیب ہوا تھا۔ والحمد للہ علی ذالک۔

حدیث نمبر : 1586
حدثنا بيان بن عمرو، حدثنا يزيد، حدثنا جرير بن حازم، حدثنا يزيد بن رومان، عن عروة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لها ‏"‏يا عائشة لولا أن قومك حديث عهد بجاهلية لأمرت بالبيت فهدم، فأدخلت فيه ما أخرج منه وألزقته بالأرض، وجعلت له بابين بابا شرقيا وبابا غربيا، فبلغت به أساس إبراهيم‏"‏‏. ‏ فذلك الذي حمل ابن الزبير ـ رضى الله عنهما ـ على هدمه‏.‏ قال يزيد وشهدت ابن الزبير حين هدمه وبناه وأدخل فيه من الحجر، وقد رأيت أساس إبراهيم حجارة كأسنمة الإبل‏.‏ قال جرير فقلت له أين موضعه قال أريكه الآن‏.‏ فدخلت معه الحجر فأشار إلى مكان فقال ها هنا‏.‏ قال جرير فحزرت من الحجر ستة أذرع أو نحوها‏.‏
ہم سے بیان بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یزید بن ہاروں نے بیان کیا، انہو ں نے کہا کہ ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یزید بن رومان نے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ رضی اللہ عنہ ! اگر تیری قوم کازمانہ جاہلیت ابھی تازنہ ہوتا، تو میں بیت اللہ کو گرانے کا حکم دے دیتا تاکہ ( نئی تعمیر میں ) اس حصہ کو بھی داخل کردوں جو اس سے باہر رہ گیا ہے اور اس کی کرسی زمین کے برابر کردوں اور اس کے دو دروازے بنا دوں، ایک مشرق میں اور ایک مغرب میں۔ اس طرح ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر اس کی تعمیر ہوجاتی۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا کعبہ کو گرانے سے یہی مقصد تھا۔ یزید نے بیان کیا کہ میں اس وقت موجود تھا جب عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اسے گرایا تھا اور اس کی نئی تعمیر کر کے حطیم کو اس کے اند رکردیاتھا۔ میں نے ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کے پائے بھی دیکھے جو اونٹ کی کوہان کی طرح تھے۔ جریربن حاز م نے کہا کہ میں نے ان سے پوچھا، ان کی جگہ کہاں ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ابھی دکھاتا ہوں۔ چنانچہ میں ان کے ساتھ حطیم میں گیا اور آپ نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ وہ جگہ ہے۔ جریر نے کہا کہ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ جگہ حطیم میں سے چھ ہاتھ ہوگی یا ایسی ہی کچھ۔

تشریح : معلوم ہو ا کہ حطیم کی زمین کعبہ میں شریک نہ تھی۔ کیونکہ پرنالے سے لے کر حطیم کی دیوار تک سترہ ہاتھ جگہ ہے اور ایک اتہائی ہاتھ دیوار کا عرض دو ہاتھ اور تہائی ہے۔ باقی پندرہ ہاتھ حطیم کے اندر ہے۔ بعض کہتے ہیں کل حطیم کی زمین کعبہ میں شریک تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں امتیاز کے لئے حطیم کے گرد ایک چھوٹی سی دیوار اٹھادی ( وحیدی )

جس مقدس جگہ پرآج خانہ کعبہ کی عمارت ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں فرشتوں نے پہلے پہل عبادت الہٰی کے لئے مسجد تعمیر کی۔ قرآن مجید میں ہے۔ اِنَّ اَوَّلَ بَیتٍ وُّضِعَ لِلنَاسِ لَلَّذِی بِبَکَّۃَ مُبرَکاَّوَّ ہُدَّی لِلعٰلَمِینِ ( آل عمران: 96 ) یعنی اللہ کی عبادت کے لئے اور لوگوں کی ہدایت کے لئے برکت والا گھر جو سب سے پہلے دنیا کے اند رتعمیر ہوا وہ مکہ شریف ولا گھر ہے۔

ابن ابی شیبہ، اسحاق بن راہویہ، عبدبن حمید، حرث بن ابی اسامہ، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور بہقی نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ ان رجلاقال لہ الا تخبرنی عن البیت اہواول بیت وضع فی الارض قال لا ولکنہ اول بیت وضع للناس فیہ البرکۃ والہدیٰ ومقام ابراہیم ومن دخلہ کان امنا ایک شخص نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آیا وہ سب سے پہلا مکان ہے جو روئے زمین پر بنایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ بات نہیں ہے بلکہ یہ متبرک مقامات میں سب سے پہلا مکان ہے جو لوگوں کے لئے تعمیر ہوا اس میں برکت اور ہدایت ہے اور مقام ابراہیم ہے جوشخص وہاں داخل ہوجائے اس کو امن مل جاتاہے۔


حضرت آدم علیہ السلام کا بیت اللہ کو تعمیر کرنا!
عبدالرزاق، ابن جریر، ابن منذر، حضرت عطاءسے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا۔ قال آدم ای رب مالی لا اسمع اصوات الملئکۃ قال لخطیئتک ولکن اھبط الی الارض فابن لی بیتا ثم احفف بہ کما رایت الملائکۃ تحف بیتی الذی فی السماءفزعم الناس انہ بناہ خمسۃ اجبل من حراءولبنان وطور زیتاوطورسینا والجودی فکان ہذا بنا آدم حتی بناہ ابراہیم بعد ( ترجمہ ) حضرت آدم علیہ السلام نے بارگاہ الٰہی میں عرض کی، پرور دگار کیا بات ہے کہ مجھے فرشتوں کی آوازیں سنائی نہیں دیتیں۔ ارشاد الٰہی ہوا یہ تمہاری اس لغزش کا سبب ہے جو شجر ممنوعہ کے استعمال کے باعث تم سے ہوگئی۔ لیکن ایک صورت ابھی باقی ہے کہ تم زمین پر اترو اور ہمارے لئے ایک مکان تیار کرو اور اس کو گھیرے رہو جس طرح تم نے فرشتوں کو دیکھاہے کہ وہ ہمارے مکان کو جو آسمان پر ہے گھیرے ہوئے ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کا حکم کی بنا پر حضرت آدم علیہ السلام نے کوہ حرا، لبنان، طور زیتا، طور سینا اور جودی ایسے پانچ پہاڑوں کے پتھروں سے بیت اللہ شریف کی تعمیر کی، یہاں تک کہ اس کے آثار مٹ گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے بعد از سر نو اس کو تعمیر کیا۔ابن جریر، ابن ابی حاتم اور طبرانی نے حضر ت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : لما اھبط اللہ آدم من الجنۃ قال انی مہبط معک بیتا یطاف حولہ کما یطاف حول عرشی ویصلی عندہ کما یصلی عند عرشی فلما کان زمن الطوفان رفعہ اللہ الیہ فکانت الانبیاءیحجونہ ولا یعلمون مکانہ حتی تولاہ اللہ بعد لا براہیم واعلمہ مکانہ فبناہ من خمسۃ اجبل حراءولبنان، وثبیروجبل االطور و جبل الحمر وہو جبل بیت المقدس۔
( ترجمہ ) اللہ سبحانہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو جنت سے زمین پراتارا تو ارشاد فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ایک گھر بھی اتاروں گا۔ جس کا طواف اسی طرح کیا جاتا ہے جیساکہ میرے عرش کا طواف ہوتا ہے اور اس کے پاس نماز اسی طرح ادا کی جائے گی جس طرح کہ میرے عرش کے پاس ادا کی جاتی ہے۔ پھر طوفان نوح کا زمانہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو اٹھالیا۔ اس کے بعد انبیاءعلیہم السلام بیت اللہ شریف کا حج تو کیاکرتے تھے مگر اس کا مقام کسی کو معلوم نہ تھا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا پتہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتایا اور اس کی جگہ دکھادی تو آپ نے اس کو پانچ پہاڑوں سے بنایا۔ کوہ حرا، لبنان ثبیر، جبل الحمر، جبل طور ( جبل الحمر کو جبل بیت المقدس بھی کہتے ہیں )

ازرقی اور ابن منذر نے حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا اللہ سبحانہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی تو ان کو مکہ مکرمہ جانے کاارشاد ہوا۔جب وہ چلنے لگے تو زمین اور بڑے بڑے میدان لپیٹ کرمختصر کردیئے گئے۔ یہاں تک کہ ایک ایک میدان جہاں سے وہ گزرتے تھے ایک قدم کے برابر ہوگیا اور زمین میں جہا ں کہیں سمندر یا تالاب تھے ان کے دہانے ایک ایک بستی ہوجاتی اور اس میں عجیب برکت نظر آتی۔ شدہ شدہ آپ مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔ مکہ شریف آنے سے پیشتر آدم علیہ السلام کی آہ و زاری اور آپ کا رنج وغم جنت سے چلے آنے کی وجہ سے بہت تھا، یہاں تک کہ فرشتے بھی آپ کے گریہ کی وجہ سے گریہ کرتے وار آپ کے رنج میں شریک ہوتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کا غم غلط کرنے کے لے جنت کا ایک خیمہ عنایت فرمایا تھا جو مکہ مکرمہ میں کعبہ شریف کے مقام پر نصب کیا گیاتھا۔ یہ وقت وہ تھا کہ ابھی کعبۃ اللہ کو کعبہ کا لقب نہیں دیا گیاتھا۔ اسی دن کعبۃ اللہ کے ساتھ رکن بھی نازل ہوا۔ اس دن وہ سفید یا قوت اور جنت کا ٹکڑا تھا۔ جب حضرت آدم علیہ السلام مکہ شریف آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت اپنے ذمہ لے لی اور اس خیمہ کی حفاظت فرشتوں کے ذریعہ کرائی۔ یہ خیمہ آپ کے آخر وقت تک وہیں لگارہا۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح قبض فرمائی تو اس خیمہ کو اپنی طرف اٹھالیا اور آدم علیہ السلام کے صاحبزادوں نے اس کے بعد اس خیمہ کے مقام پر مٹی اور پتھر کا ایک مکان بنایا۔ جو ہمیشہ آباد رہا۔ آدم علیہ السلام کے صاحبزادے اور ان کے بعد والی نسلیں یکے بعد دیگر ے اس کی آبادی کا انتظام کرتی رہیںجب نوح علیہ السلام کا زمانہ آیا تو وہ عمارت غرق ہوگئی اور اس کا نشا ن چھپ گیا۔
حضرت ہود علیہ السلام اور صالح علیہ السلام کے سوا تمام انبیاءعلیم السلام نے بیت اللہ شریف کی زیارت کی ہے
ابن اسحاق اور بیہقی نے حضرت عروہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا مامن نبی الاوقد حج البیت الاماکان من ہود و صالح ولقدحجہ نوح فلما کا ن فی الارض ما کان من الغرق اصاب البیت ما اصاب الارض وکان البیت ربوۃ حمرآءفبعث اللہ عزوجل ہودافتشا غل بامرقومہ حتی قبضہ اللہ الیہ فلم یحجہ حتی مات فلما بواہ اللہ لا براہیم علیہ السلام حجہ ثم لم یبق نبی بعد الا حجہ ( ترجمہ ) جس قدر انبیاءعلیہم السلام مبعوث ہوئے سب ہی نے بیت اللہ شریف کا حج ادافرمایا مگر حضرت ہود اور حضرت صالح علیہ السلام کو اس کا موقع نہ ملا۔حضرت نوح علیہ السلام نے بھی حج ادا فرمایاہے لیکن جب آپ کے زمانہ میں زمین پر طوفان آیا اور ساری زمین غرقاب ہوئی تو بیت اللہ شریف کو بھی اس سے حصہ ملا۔ بیت اللہ شریف ایک سرخ رنگ کا ٹیلہ رہ گیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تو آپ حکم الٰہی کے مطابق فریضہ تبلیغ کی ادئیگی میں مشغول رہے اور آپ کی مشغولیت اس درجہ رہی کہ آپ کو آخردم تک حج کرنے کی نوبت نہ آئی۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیت اللہ شریف ببانے کا موقع ملا تو انہوں نے حج ادا فرمایا آپ کے بعد جس قدر انبیاءعلیہم السلام تشریف لائے سب نے حج ادا فرمایا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بیت اللہ کو تعمیر کرنا!
طبقات ابن سعد میں حضرت ابو جہم بن حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اوحی اللہ عزوجل الی ابراہیم یامرہ بالمسیر الی بلدہ الحرام فرکب ابراہیم البراق وجعل اسمعیل امامہ وہا ابن سنتین وہاجر خلفہ ومعہ جبرئیل یدلہ علی موضع البیت حتی قدم بہ مکۃ فانزل اسمعیل وامہ الی جانب البیت ثم انصرف ابراہیم الی الشام ثم اوحی اللہ الی ابراہیم ان تبنی البیت وہویومئذ ابن مائۃ سنۃواسمعیل یؤمئذابن ثلاثین سنۃ فبناہ معہ وتوفی اسمعیل بعد ابیہ فد فن داخل الحجر مما یلی۔ یعنی اللہ عزوجل نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بذریعہ وحی حکم بھیجا کہ بلدالحرام مکہ شریف کی طرف چلیں۔ چنانچہ آپ بہ تعمیل حکم الٰہی براق پر سوار ہوگئے۔ اپنے پیارے نور نظر حضرت اسماعیل کوجن کی عمر شریف ہنوز دوسال کی تھی اپنے سامنے اور بی بی ہاجرہ کو اپنے پیچھے لے لیا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام بیت اللہ شریف کامقام بتلانے کی غرض سے آپ کے ساتھ تھے۔ جب مکہ مرمکرمہ تشریف لائے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام اور آپ کی والدہ ماجدہ کو بیت اللہ کے ایک جانب میں اتارا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام شام کو واپس ہوئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب کہ آپ کی عمر شریف کامل ایک سو سال تھی، بذریعہ وحی بیت اللہ شریف کے بنانے کا حکم فرمایا۔ اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر مبارک تیس سال کی تھی۔ چنانچہ اپنے صاحبزادے کو ساتھ لے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی بنیاد ڈالی۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وفات ہوگئی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بھی آپ کے بعد وفات پائی تو حجر اسود اور کعبہ شریف کے درمیان اپنی والدہ ماجدہ حضرت ہاجرہ کے ساتھ دفن ہوئے اور آپ کے صاحبزادے حضرت ثابت بن اسماعیل اپنے والد محترم کے بعد اپنے ماموؤں کے ساتھ مل کر جو بنی جرہم سے تھے کعبہ شریف کے متولی قرار پائے۔

ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن حاتم اور بہقی کی روایت کے مطابق حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کعبۃ اللہ شریف بنانے کا حکم ہواتو آپ کو معلوم نہ ہوسکا کہ اس کو کس طرح بنائیں۔ اس نوبت پر اللہ پاک نے سکینہ یعنی ایک ہوا بھیجی جس کے دو کنارے تھے۔ اس نے بیت اللہ شریف کے مقام پر طوق کی طرح ایک حلقہ باندھ دیا۔ ادھر آپ کو حکم ہوچکا تھا کہ سکینہ جہاں ٹھہرے بس وہیں تعمیر ہونی چاہئے۔ چنانچہ حضرت ابراہم علیہ السلام نے اس مقام پر بیت اللہ شریف کو تعمیر فرمایا۔
دیلمی نے حضرت علی رضی اللہ سے مرفوعاً روایت کی ہے۔زیر تفسیر آیت وَاِذ یَرفَعُ اِبرَہِیمُ القَوَاعِدَ ( البقرۃ: 127 ) کہ بیت اللہ شریف جس طرح مربع ہے اسی طرح ایک چوکونی ابرنمودار ہوا اس سے آواز آتی تھی کہ بیت اللہ کا ارتفاع ایسا ہی چوکونا ہونا چاہئے جیسا میںیعنی ابر چوکونا ہوں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کو اسی کے مطابق مربع بنا یا۔

سعید بن منصور اور عبد بن حمید، ابن ابی حاتم وغیرہ نے سعید بن مسیب سے روایت کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہوا کہ ڈالے ہوئے نشان کے نیچے کھودنا شرو ع کیا۔ پس بیت اللہ شریف کے ستون برآمد ہوگئے۔ جس کو تیس تیس آدمی بھی ہلا نہیں سکتے تھے۔
آیت بالا کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں القواعد التی کانت قوعد البیت قبل ذلک ستون جن کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بنایا، یہ وہی ستون ہیں جو بیت اللہ شریف میں پہلے کے بنے ہوئے تھے۔ ان ہی کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بلند کیا۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت اللہ شریف اگرچہ حضرت ابراہیم وحضرت اسماعیل علیہ السلام کا تعمیر فرمودہ ہے لیکن اس کا سنگ بنیاد ان حضرات کا رکھا ہوا نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد قدیم ہے آپ نے صرف اس کی تجدید فرمائی۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام تعمیر کعبہ فرمارہے تھے۔ تو یہ دعائیں آپ کی زبان پر تھیں۔
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم اے رب! ہماری اس خدمت توحید کو قبول فرمائیے۔ تو جاننے والا سننے والا ہے۔

رَبَّنَاوَاجعلنَا مُسلِمَینِ لَکَ وَ مِن ذُرّیِتِنَآ اُمَّۃً مُّسلِمَمۃًلَّکَ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُب عَلَینَا اِنَّکَ اَنتَ التَّوبُ الرَّحِیمُ ( البقرۃ: 128 ) اے رب! ہمیں اپنا فرمانبردار بنالے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت ہمیشہ اس مشن کو زندہ رکھنے والی بنا دے او مناسک حج سے ہمیں آگاہ کردے اور ہمارے اوپر اپنی عنایات کی نظر کردے تو نہایت ہی تواب اور رحیم ہے۔

رَبِّ اجعَل ہٰذَاالبَلَدَ اٰمناً وَّاجُنُبنِی وَبَنِیَّ اَن نَّعبُدَ الاَصنَامَ ( سورہ ابراہیم : 135 ) اے رب! اس شہر کو امن و امان والا مقام بنادے اور مجھے اور میری اولاد کو ہمیشہ بت پرستی کی حماقت سے بچاتا رہیو۔ ”رَبَّنَا اِنِّی اَسکَنتُ مِن ذِرِّیَّتِی بِوَادٍ غَیرِذِی زَرعٍ عِندَبَیتِکَ المُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیمُوا الصَّلٰوۃَ ) ( ابراہیم: 37 ) اے رب!میں اپنی اولاد کو ایک بنجرنا قابل کاشت بیابان میں تیرے پاک گھر کے قریب آباد کرتا ہوں۔ اے رب! میری غرض ان کو یہاں بسانے سے صرف یہ ہے کہ یہ تیری عبادت کریں۔ نماز قائم کریں۔ میرے مولا! لوگوں کے دل ان کی طرف پھیردے اور ان کو میووں سے روزی عطا کرنا کہ یہ تیری شکر گزاری کریں۔

قال ابن عباس بنی ابراہیم البیت من خمسۃ اجبل من طور سینا وطور زیتا ولبنان جبل بالشام والجودی جبل بالجزیرۃ وبنی قواعدہ من حراءجبل بمکۃ فلما انتہی ابراہیم الی موضع الحجر الاسود قال الاسماعیل ائتنی بحجرحسن یکون للناس علما فا تاہ بحجرفقال ائتنی باحسن منہ فمضی اسماعیل لیطلب حجرا احسن منہ فصاح ابوقبیس یا ابراہیم ان لک عندی ودیعۃ فخذ ہا فقذف بالحجرالاسود فاخذہ ابراہیم فوضعہ مکانہ ( خازن، ج 1 ص : 94 ) یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے طور سینا وطور زیتا جبل لبنان جو شام میں ہے اور جبل جودی جو جزیرہ میں ہیں ان چاروں پہاڑوں کے پتھروں کا استعمال کیا۔ جب آپ حجر اسود کے مقام تک پہنچ گئے، تو آپ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے فرمایا کہ ایک خوبصورت سا پتھر لاؤ جس کو نشانی کے طور پر ( طوافوں کی گنتی کے لئے ) میں قائم کردوں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام ایک پتھر لائے، اس کو آپ نے واپس کردیا اور فرمایا اور مناسب پتھر تلاش کر کے لاؤ۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام پتھر تلاش کررہی رہے تھے۔ کہ جبل ابو قبیس سے ایک غیبی صدا بلند ہوئی کہ اے ابراہیم! میرے پاس آپ کو دینے کی ایک امانت ہے، اسے لیجائیے۔ چنانچہ اس پہاڑ نے حجراسود کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے کردیا اور آپ نے اس پتھر کو اس کے مقام پر نصب کردیا۔ بعض روایات میں یو ں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حجر اسود کو لاکر آپ کے حوالہ کیا۔ ( ابن کثیر ) اور شرقی گوشہ میں باہر کی طرف زمین سے ڈیڑھ گز کی بلندی پر ایک طاق میں اس کو نصب کیا گیا۔ تعمیر ابراہیمی بالکل سادہ تھی نہ اس پر چھت تھی نہ دروازہ نہ چونہ۔ مٹی سے کام لیا گیا تھا۔ صرف پتھر کی چاردیواری تھی علامہ ازرقی نے تاریخ مکہ میںتعمیر ابراہیمی کا عرض وطول حسب ذیل لکھا ہے۔

بلندی زمین سے چھت تک 9 گز۔ طول حجر اسود سے رکن شامی تک 32 گز۔ عرض رکن شامی سے غربی تک 22 گز۔ گھر بن چکا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے مناسک حج سے آگاہ کردیا۔ اب ارشاد باری ہوا وَّطَہِّر بَیتِیَ لِلطَّآ ئِفِینَ وَالقَآئِمِینَ والرُکَّعِ السُّجُو دِ وَ اَذِّن فِی النَّاسِ بالحَجِّ یَاتُوکَ رِجَالاً وَّعَلیٰ کُلِّ ضَامِرٍیاتِین مِن کُلِّ فَجٍّ عَمِیقٍ الحج : 27 ) یعنی ہمارا گھر طوار کرنے والوں، نماز میں قیام کرنے والوں، رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک کردے اور تمام لوگوں کو پکاردے کہ حج کو آئیں پیدل بھی اور دبلی اونٹنیوں پر بھی ہر دور دراز گوشہ سے آئیں گے۔ اس زمانہ میں اعلان واشتہار کے لے وسائل نہیں تھے۔ویران جگہ تھی، آدم زاد کا کوسوں تک پتہ نہ تھا۔ ابراہیم علیہ السلام کی آواز حدود حرم سے باہر نہیں جاسکتی تھی۔ لیکن اس معمولی آواز کو قدرت حق تعالیٰ نے مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک اور زمین سے آسمان تک پہنچا دیا۔

مفسرین آیت بالا کے ذیل میں لکھتے ہیں۔فنا دی علی جبل ابو قبیس یا ایہا الناس ان ربکم بنی بیتا واو جب علیکم الحج الیہ فاجیبوا ربکم والتفت بوجہہ یمینا وشمالا شرقا وغربا فاجابہ کل من کتب لہ ان یحج من اصلاب الرجال وارحام الامہات لبیک اللہم لبیک ( جلالین ) یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جبل ابو قبیس پر چڑھ کر پکارا اے لوگو! تمہارے رب نے اپنی عبادت کے لئے ایک مکان بنوایا اور تم پر اس کا حج فرض کردیا ہے۔ آپ یہ اعلان کرتے ہوئے شمال وجنوب، مشرق ومغرب کی طرف منہ کرتے جاتے اور آواز بلند کرتے جاتے تھے۔ پس جن انسانوں کی قسمت میں حج بیت اللہ کی سعادت ازلی لکھی جا چکی ہے۔ انہو ں نے اپنے باپوں کی پشت سے اور اپنی ماؤں کے ارحام سے اس مبارک ندا کو سن کر جواب دیا لبیک اللہم لبیک یا اللہ! ہم حاضر ہیں، یااللہ ! ہم تیرے پاک گھر کی زیارت کے لئے حاضرہیں۔

بنائے ابراہیمی کے بعد!
ابراہیم علیہ السلام کی یہ تعمیر ایک مدت تک قائم رہی اور اس کی تولیت ونگرانی سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی اولاد پر اس کا حج فرض کردیاہے۔ آپ یہ اعلان کرتے ہوئے شمال وجنوب،مشرق ومغرب کی طرف منہ کرتے جاتے اور آواز بلند کرتے جاتے تھے۔ پس جن انسانوں کی قسمت میں حج بیت اللہ کی سعادت ازلی لکھی جاچکی ہے۔ انھوں نے اپنے باپوں کی پشت سے اور اپنی ماؤں کے ارحام سے اس مبارک ندا کو سن کر جواب دیا لبیک اللہم لبیک یا اللہ! ہم حاضر ہیں، یا اللہ! ہم تیرے پاک گھر کی زیارت کے لیے حاضر ہیں۔

تعمیرقصی بن کلاب!
براہیمی تعمیرکے بعد خانہ کعبہ کو چوتھی مرتبہ قصی بن کلاب قریشی نے تعمیر کیا۔ قصی قریش کے ممتاز افراد میں سے تھے تعمیر کعبہ کے ساتھ ساتھ قومی تعمیر کے لئے بھی اس نے بڑے بڑے اہم کام انجام دیئے۔ تمام قریش کو جمع کر کے بذریعہ تقاریر ان میں اتحاد کی روح پھونکی۔ دار لندوہ کا بانی بھی یہی شحض ہے جس میں قریش اپنے قومی اجتماعات ومذہبی تقریبات نکاح وغیرہ کے لئے جمع ہوا کرتے تھے۔ سقایہ ( حاجیوں کو آب زمزم پلانا ) اور رفادہ ( یعنی حاجیوں کے کھانے پینے کاانتظام کرنا ) یہ محکمے اسی نے قائم کئے قریش کے قومی فنڈے سے ایک سالانہ رقم منیٰ اور مکہ معظمہ میں لنگر خانوں کے لے مقرر کی۔ اس کے ساتھ چرمی حوض بنوائے جن میں حجاج کے لئے ایام حج میں پانی بھر وا دیاجاتا تھا۔ قصی نے اپنے سارے خاندان قریش کو مجتمع کر کے کعبہ شریف کے آس پاس بسایا۔ خدمت کعبہ کے متعلق متعدد کمیٹیاں قائم کیں جن کو مختلف خدمات کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ خانہ کعبہ کی چھت پر گوگل کی لکڑی کی چھت بنا کر اطراف میں درختوں کی باڑی لگادی اور اس پر سیاہ غلاف ڈالا۔ یہ تعمیر حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ طفولیت تک باقی تھی آپ نے اپنے بچپن میں اس کو ملاحظہ فرمایا۔

تعمیرقریش! یہ تعمیر نبوت محمدی سے پانچ سال قبل جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف 35 سال کی تھی،ہوئی۔ اس تعمیر میں اور بنائے ابراہیمی میں1675 سال کا زمانہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ ایک عورت نزد کعبہ بخور جلا رہی تھی، پردہ شریف میں آگ لگ گئی اور پھیل گئی یہاں تک کہ کعبہ شریف کی چھت بھی جل گئی اور پتھر بھی چٹخ گئے۔ جگہ جگہ سے دیواریں شق ہوگئیں۔ کچھ ہی دنو ںبعد سیلاب آیا۔ جس نے اس کی بنیادوں کو ہلا دیا کہ گرجانے کا خطرہ قوی ہوگیا۔ قریش نے اس تعمیر کے لئے چندہ جمع کیا۔ مگر شرط یہ رکھی کہ سود، اجرت زنا، غارت گری اور چوری کا پیسہ نہ لگایا جائے اس لیے خرچ میں کمی ہوگئی۔جس کا تدارک یہ کیا گیا کہ شمالی رخ سے سات ذراع زمین باہر چھوڑ کر عمارت بنادی۔ اس متروکہ حصہ کا نام حطیم ہے۔
آیت شریفہ وَاِذا یَرفَعُ اِبرَا ہِیمُ القَوَاعِدَ البقرۃ: 127 ) کی تفسیرین میں ابن کثیر میں تفصیلات یو آئی ہیں۔ قال محمد ابن اسحاق بن یسار فی السیرۃ ولما بلغ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خمس وثلاثین سنۃ اجتعمت قریش لبنیان الکعبۃوکانوا یہمون بذلک یسقفوہا ویہابون ہدمہا وانما کانت رضما فوق القامۃ فاراد وارفعہا وتسقیفہا و ذالک ان نفرا سر قوا کنزالکعبۃ وانما کان الکنز جوف الکعبۃ وکان الذی وجدعندہ الکنز دویک مولی بنی ملیح بن عمرو من خزاعۃ فقطعت قریش یدہ ویزعم الناس ان الذین سرقو ہ وضعوہ عند دویک وکان البحر قد رمی بسفینہ الی جدۃ لرجل من تجار الروم فتحطت فاخذو اخشبہا فاعدوہ لتسقیفہا وکان بمکۃرجل قبطی نجار فہیا لہم فی انفسہم بعض ما یصلحہا و کانت حیۃ تخرج من بئر الکعبۃ التی کانت تطرح فیہا مایہدی لہا کل یوم فتشرف علی جدار الکعبۃ و کان مما یہابون وذالک انہ کان لا یدنو منہا احد الارجزالت وکشت وفتحت فاہا فکانوایہا بونہا فبنیا ہی یوما تشرف علی جدار الکعبۃ کما کانت تصنع بعث اللہ الیہا طائر اِفا ختطفہا فذہب بہا فقالت قریش انا نرجوا ان یکون اللہ قد رضی ما اردنا عند نا عامل رفیق وعندنا خشب وقد کفانا اللہ الحیۃ فلما اجمعو ا امرہم فی ہدمہا وبنیانھا قام ابن وہب بن عمرو فتناول من الکعبۃ حجرا فوثب من یدہ حتی رجع الی موضعہ فقال یا معشر قریش لا تدخلوا فی بنیا نہا من کسبکم الا طیبا لا یدخل فیہا مہر بغی ولا بیع ربا ولا ظلمۃ احد من الناس الی اخرہ۔
خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف 35 سال کی تھی کہ قریش نے کعبہ کی از سر نو تعمیر کا فیصلہ اور اس کی دیواروں کو بلند کر کے چھت ڈالنے کی تجویز پاس کی۔ کچھ دنوں کے بعد اور حادثات کے ساتھ ساتھ کعبہ شریف میں چوری کا حادثہ بھی ہوچکا تھا۔ اتفاق سے چور پکڑا گیا، اس کا ہاتھ کاٹا گیا اور تعمیری پروگرام میں مزید پختگی ہوگئی۔ حسن اتفاق سے ہ باقوم نامی ایک رومی تاجر کی کشتی طوفانی موجوں سے ٹکراتی ہوئی جدہ کے کنارے آپڑی اور لکڑی کا سامان ارزاں مل جانے کی اہل مکہ کو تو قع ہوئی۔ ولید بن مغیرہ لکڑی خرید نے کے خیال سے جدہ آیا اور سامان تعمیر کے ساتھ ہی باقوم کو جوفن معماری میں استاد تھا اپنے ساتھ لے گیا۔ ان ہی ایام میں کعبہ شریف کی دیواروں میں ایک خطرناک اژدہا پایا گیا۔ جس کو مارنے کی کسی کو ہمت نہ ہوتی تھی۔ اتفاقاوہ ایک دن دیوار کعبہ پر بیٹھا ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا پرندہ بھیجا جو اس کو آن کی آن میں اچک کر لے گیا۔ اب قریش نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ومشیت ہمارے ساتھ ہے اس لئے تعمیر کا کام فوراً شروع کردینا چاہئے۔ مگر کسی کی ہمت نہ ہوتی تھی کہ چھت پر چڑھے اور بیت اللہ کو منہدم کرے ۔ آخر جرات کرکے ابن وہب آگے بڑھا اور ایک پتھر جدا کیا تو وہ پتھر ہاتھ سے چھوٹ کر پھر اپنی جگہ پر جاٹھہرا۔ اس وقت ابن وہب نے اعلان کیا کہ ناجائز کمائی کا پیسہ ہر گز ہر گز تعمیر میں نہ لگایا جائے۔ پھر ولید بن مغیرہ نے کدال لے کر یہ کہتے ہوئے کہ اے اللہ! تو جانتا ہے ہماری نیت بخیر ہے اس کا ہدم شروع کردیا بنیاد نکل آئی تو اس کے مختلف حصوں کی تعمیر مختلف قبائل پرتقسیم کردی گئی اور کام شروع ہوگیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ شریک کار تھے اور کندھوں پتھر رکھ کر لاتے تھے۔ جب حجر اسود رکھنے کا وقت آیا تو قبائل میں اختلاف پڑگیا۔ ہر خاندان اس شرف کے حصول کا دعویدار تھا۔ آخر مرنے مارنے تک نوبت پہنچ گئی، مگرولید بن مغیرہ نے یہ تجویز پیش کی کہ کل صبح کو جو شخص بھی سب سے پہلے حرم شریف میں قدم رکھے، اس کے فیصلے کو واجب العمل سمجھوچنانچہ صبح کو سب سے پہلے حرم شریف میں آنے والے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ سب نے بیک زبان آپ کے فیصلے کو بخوشی ماننے کااعتراف کیا۔ آپ نے حجر اسود کو اپنی چادر مبارک کے وسط میں رکھا اور ہر قبیلہ کے ایک ایک سردار کو اس چادر کے اٹھانے میں شریک کرلیا۔ جب وہ چادر گوشہ کعبہ تک پہنچ گئی تو آپ نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اٹھا کر دیوار میں نصب فرمادیا۔ دیواریں اٹھا رہ ہاتھ اونچی کردی گئیں۔ اندرونی فرش بھی پتھر کا بنایا۔ اپنی امتیازی شان قائم رکھنے کے لئے دروازہ قد آدم اونچا رکھا۔ اندرون بیت اللہ شمالاً و جنوباً تین تین ستون قائم کئے۔ جن پر شہتیر ڈال کر چھت پاٹ دی اور رکن عراقی کی طرف اندر ہی اندر زینہ چڑھا یا کہ چھت پر پہنچ سکیں اور شمالی سمت پر پر نالہ لگایا تاکہ چھت کا بارشی پانی حجر میں آکر پڑے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : حرم کی زمین کی فضیلت اوراللہ نے سورہ نمل میں فرمایا

وقوله تعالى ‏{‏إنما أمرت أن أعبد رب هذه البلدة الذي حرمها وله كل شىء وأمرت أن أكون من المسلمين‏}‏ وقوله جل ذكره ‏{‏أولم نمكن لهم حرما آمنا يجبى إليه ثمرات كل شىء رزقا من لدنا ولكن أكثرهم لا يعلمون‏}‏
” مجھ کو تویہی حکم ہے کہ عبادت کروں اس شہر کے رب کی جس نے اس کو حرمت والا بنایا اور ہر چیز اسی کے قبضہ وقدرت میں ہے اور مجھ کو حکم ہے تا بعد ار بن کر رہنے کا “ او راللہ تعالیٰ نے سورہ قصص میں فرمایا ” کیا ہم نے ان کو جگہ نہیں دی حرم میں جہاں امن ہے ان کے لئے اور کھنچے چلے آتے ہیں اس کی طرف، میوے ہر قسم کے جو روزی ہے ہماری طرف سے لیکن بہت سے ان میں نہیں جانتے۔ “

حدیث نمبر : 1587
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا جرير بن عبد الحميد، عن منصور، عن مجاهد، عن طاوس، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم فتح مكة ‏"‏إن هذا البلد حرمه الله، لا يعضد شوكه، ولا ينفر صيده، ولا يلتقط لقطته إلا من عرفها‏"‏‏.
ہم سے علی بن عبداللہ بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر بن عبدالحمید نے منصور سے بیان کیا ان سے مجاہد نے، ان سے طاوس نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ پر فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس شہر ( مکہ ) کو حرمت والا بنایا ہے ( یعنی عزت دی ہے ) پس اس کے ( درختوں کے ) کانٹے تک بھی نہیں کاٹے جاسکتے یہاں کے شکار بھی نہیں ہنکائے جاسکتے۔ اور ان کے علاوہ جو اعلان کرکے ( مالک تک پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہوں ) کوئی شخص یہاں کی گری پڑی چیز بھی نہیں اٹھا سکتا ہے۔

تشریح : مسند احمد رحمہ اللہ وغیرہ میں عیاش بن ابی ربیعہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان ہذہ الامۃ لا تزال بخیر ما عظموا ہذہ الحرمۃ یعنی الکعبۃ حق تعظیمہا فاذا ضیعوا ذلک ہلکوا یعنی یہ امت ہمیشہ خیرو بھلائی کے ساتھ رہے گی جب تک یہ پورے طورپر کعبہ کی تعظیم کرتے رہیں گے اور جب اس کو ضائع کردیں گے، ہلاک ہوجائیں گے۔ معلوم ہوا کہ کعبہ شریف اور اس کے اطراف ساری ارض حرم بلکہ سارا شہرامت مسلمہ کے لیے انتہائی معزز ومؤقرمقامات ہیں۔ ان کے بارے میں جو بھی تعظیم وتکریم سے متعلق ہدایات کتاب وسنت میں دی گئی ہیں، ان کو ہمہ وقت ملحوظ رکھنا بے حد ضروری ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حرمت کعبہ کے ساتھ ملت اسلامیہ کی حیات وابستہ ہے۔ باب کے تحت جو آیات قرآنی حضرت امام بخاری رحمہ اللہ لائے ہیں ان میں بہت سے حقائق کا بیان ہے خاص طورپر اس کا کہ اللہ پاک نے شہر مکہ میں یہ برکت رکھی ہے کہ یہاں چاروں طرف سے ہر قسم کے میوے پھل اناج غلے کھنچے چلے آتے ہیں۔ دنیا ہر ایک پھل وہاں کے بازاروں میں دستیاب ہوجاتا ہے۔ خاص طورپر آج کے زمانہ میں حکومت سعودیہ خلدہا اللہ تعالیٰ نے اس مقدس شہر کو جو ترقی دی ہے اور اس کی تعمیر جدید جن جن خطوط پر کی ہے اور کررہی ہے وہ پوری ملت اسلامیہ کے لیے حد درجہ قابل تشکر ہیں۔ ایدہم اللہ بنصرہ العزیز۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : مکہ شریف کے گھر مکان میراث ہوسکتے ہیں ان کا بیچنا اور خریدنا جائز ہے

حدیث نمبر : 1587
وأن الناس في مسجد الحرام سواء خاصة لقوله تعالى ‏{‏إن الذين كفروا ويصدون عن سبيل الله والمسجد الحرام الذي جعلناه للناس سواء العاكف فيه والباد ومن يرد فيه بإلحاد بظلم نذقه من عذاب أليم‏}‏‏.‏ البادي الطاري، معكوفا محبوسا‏.‏
مسجد حرام میں سب لوگ برابر ہیں یعنی خاص مسجد میں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ( سورہ حج ) میں فرمایا، جن لوگوں نے کفر کیا اور جو لوگ اللہ کی راہ اور مسجد حرام سے لوگوں کو روکتے ہیں کہ جس کو ہم نے تمام لوگوں کے لیے یکساں مقرر کیا ہے۔ خواہ وہ وہیں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے اور جو شخص وہاں شرارت کے ساتھ حد سے تجاوز کرے، ہم اسے دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ ابو عبداللہ امام بخاری نے کہا کہ لفظ بادی باہر سے آنے والے کے معنی میں ہے اور معکوفاً کالفظ رکے ہوئے کے معنے میں ہے۔

حدیث نمبر : 1588
حدثنا أصبغ، قال أخبرني ابن وهب، عن يونس، عن ابن شهاب، عن علي بن حسين، عن عمرو بن عثمان، عن أسامة بن زيد ـ رضى الله عنهما ـ أنه قال يا رسول الله، أين تنزل في دارك بمكة‏.‏ فقال ‏"‏وهل ترك عقيل من رباع أو دور‏"‏‏. ‏ وكان عقيل ورث أبا طالب هو وطالب ولم يرثه جعفر ولا علي ـ رضى الله عنهما ـ شيئا لأنهما كانا مسلمين، وكان عقيل وطالب كافرين، فكان عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنه ـ يقول لا يرث المؤمن الكافر‏.‏ قال ابن شهاب وكانوا يتأولون قول الله تعالى ‏{‏إن الذين آمنوا وهاجروا وجاهدوا بأموالهم وأنفسهم في سبيل الله والذين آووا ونصروا أولئك بعضهم أولياء بعض‏}‏ الآية‏.
ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عبداللہ بن وہب نے خبردی، انہیں یونس نے، انہیں ابن شہاب نے، انہیں علی بن حسین نے، انہیں عمرو بن عثمان نے اور انہیں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے کہ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ مکہ میں کیا اپنے گھر میں قیام فرمائیں گے۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ عقیل نے ہمارے لیے محلہ یا مکان چھوڑا ہی کب ہے۔ ( سب بیچ کھوچ کر برابر کردئیے ) عقیل اور طالب، ابوطالب کے وارث ہوئے تھے۔ جعفر اور علی رضی اللہ عنہما کو وراثت میں کچھ نہیں ملا تھا، کیونکہ یہ دونوں مسلمان ہوگئے تھے اور عقیل رضی اللہ عنہ ( ابتداءمیں ) اور طالب اسلام نہیں لائے تھے۔ اسی بنیاد پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا۔ ابن شہاب نے کہا کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے دلیل لیتے ہیں کہ ” جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اپنے مال اور جان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی، وہی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔ “

تشریح : مجاہد سے منقول ہے کہ مکہ تمام مباح ہے نہ وہاں کے گھروں کا بیچنا درست ہے نہ کرایہ پر دینا اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی ایسا ہی منقول ہے اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ثوری رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے اور جمہور علماءکے نزدیک مکہ کے گھر مکان ملک ہیں اور مالک کے مرجانے کے بعد وہ وارثوں کے ملک ہوجاتے ہیں۔ امام ابویوسف رحمہ اللہ ( شاگرد امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ) کا بھی یہ قول ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ ہاں خاص مسجد حرام میں سب مسلمانوں کا حق برابر ہے جو جہاں بیٹھ گیا اس کو وہاں سے کوئی اٹھا نہیں سکتا۔ اوپر کی آیت میں چونکہ عاکف اور معکوف کا مادہ ایک ہی ہے۔ اس لیے معکوف کی بھی تفسیر بیان کردی۔

حدیث باب میں عقیل کا ذکر ہے۔ سو ابو طالب کے چار بیٹے تھے۔ عقیل، طالب، جعفر اور علی۔ علی اور جعفر نے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا اور آپ کے ساتھ مدینہ آگئے مگر عقیل مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے ابوطالب کی ساری جائیداد کے وہ وارث ہوئے۔ انہوں نے اسے بیچ ڈالا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کا ذکر فرمایا تھا جو یہاں مذکور ہے۔ کہتے ہیں کہ بعد میں عقیل مسلمان ہوگئے تھے۔ داؤدی نے کہا جو کوئی ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلا جاتا اس کا عزیز جو مکہ میں رہتا وہ ساری جائداد دبالیتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد ان معاملات کو قائم رکھا تاکہ کسی کی دل شکنی نہ ہو۔ کہتے ہیں کہ ابوطالب کے یہ مکانات عرصہ دراز بعد محمد بن یوسف، حجاج ظالم کے بھائی نے ایک لاکھ دینار میں خریدلیے تھے۔ اصل میں یہ جائداد ہاشم کی تھی، ان سے عبدالمطلب کو ملی۔ انہوں نے سب بیٹوں کو تقسیم کردی۔ اسی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ بھی تھا۔
آیت مذکورئہ باب شروع اسلام میں مدینہ منورہ میں اتری تھی۔ اللہ پاک نے مہاجرین اور انصار کو ایک دوسرے کا وارث بنا دیا تھا۔ بعد میں یہ آیت اتری واولو الارحام بعضہم اولیٰ ببعض ( الانفال: 75 ) یعنی غیر آدمیوں کی نسبت رشتہ دار میراث کے زیادہ حقدار ہیں۔ خیر اس آیت سے مومنوں کا ایک دوسرے کا وارث ہونا نکلتا ہے۔ اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ مومن کافر کا وارث نہ ہوگا اور شاید امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مضمون کی طرف اشارہ کیا جو اس کے بعد ہے۔ والذین امنوا ولم یہاجروا ( الانفال: 72 ) یعنی جو لوگ ایمان بھی لے آئے مگر کافروں کے ملک سے ہجرت نہیں کی تو تم ان کے وارث نہیں ہوسکتے۔ جب ان کے وارث نہ ہوئے تو کافروں کے بطریق اولیٰ وارث نہ ہوں گے۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں کہاں اترے تھے؟

حدیث نمبر : 1589
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال حدثني أبو سلمة، أن أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم حين أراد قدوم مكة ‏"‏منزلنا غدا إن شاء الله بخيف بني كنانة حيث تقاسموا على الكفر‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے کہا کہ مجھ سے ابو سلمہ نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ( منیٰ سے لوٹتے ہوئے حجتہ الوداع کے موقع پر ) مکہ آنے کا ارادہ کیا تو فرمایا کہ کل ان شاءاللہ ہمارا قیام اسی خیف بنی کنانہ ( یعنی محصب ) میں ہوگا جہاں ( قریش نے ) کفر پر اڑے رہنے کی قسم کھائی تھی۔

حدیث نمبر : 1590
حدثنا الحميدي، حدثنا الوليد، حدثنا الأوزاعي، قال حدثني الزهري، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم من الغد يوم النحر وهو بمنى ‏"‏نحن نازلون غدا بخيف بني كنانة حيث تقاسموا على الكفر‏"‏‏. ‏ يعني ذلك المحصب، وذلك أن قريشا وكنانة تحالفت على بني هاشم وبني عبد المطلب، أو بني المطلب أن لا يناكحوهم، ولا يبايعوهم حتى يسلموا إليهم النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ وقال سلامة عن عقيل ويحيى بن الضحاك عن الأوزاعي أخبرني ابن شهاب وقالا بني هاشم وبني المطلب‏.‏ قال أبو عبد الله بني المطلب أشبه‏.‏
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ولیدبن مسلم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے زہری نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ گیارہویں کی صبح کو جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں تھے تو یہ فرمایا تھا کہ کل ہم خیف بنی کنانہ میں قیام کریں گے جہاں قریش نے کفر کی حمایت کی قسم کھائی تھی۔ آپ کی مراد محصب سے تھی کیونکہ یہیں قریش اور کنانہ نے بنوہاشم اور بنو عبدالمطلب یا ( راوی نے ) بنو المطلب ( کہا ) کے خلاف حلف اٹھایا تھا کہ جب تک وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے حوالہ نہ کردیں، ان کے یہاں بیاہ شادی نہ کریں گے اور نہ ان سے خریدوفروخت کریں گے۔ اور سلامہ بن روح نے عقیل اور یحٰ بن ضحاک سے روایت کیا، ان سے امام اوزاعی نے بیان کیا کہ مجھے ابن شہاب نے خبردی، انہو ںنے ( اپنی روایت میں ) بنوہاشم اور بنو المطلب کہا۔ ابو عبداللہ امام بخاری نے کہا کہ بنو المطلب زیادہ صحیح ہے۔

تشریح : کہتے ہیں ا س مضمون کی ایک تحریری دستاویز مرتب کی گئی تھی۔ اس کو منصور بن عکرمہ نے لکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا ہاتھ شل کردیا۔ جب یہ معاہدہ بنی ہاشم اور بنی مطلب نے سنا تو وہ گھبرائے مگر اللہ کی قدرت کہ اس معاہدہ کے کاغذ کو دیمک نے کھالیا۔ جو کعبہ شریف میں لٹکا ہوا تھا۔ کاغذ میں فقط وہ مقام رہ گیا جہاں اللہ کا نام تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خبر ابوطالب کو دی۔ ابو طالب نے ان کافروں کو کہا میرا بھتیجا یہ کہتا ہے کہ جاکر اس کاغذ کو دیکھو اگر اس کا بیان صحیح نکلے تو اس کی ایذا دہی سے باز آؤ، اگر جھوٹ نکلے تو میں اسے تمہارے حوالے کردوں گا پھر تم کو اختیار ہے۔ قریش نے جاکر دیکھا تو جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا تھا کہ ساری تحریک کو دیمک چاٹ گئی تھی، صرف اللہ کا نام رہ گیا تھا۔ تب وہ بہت شرمندہ ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اس مقام پر جاکر اترے تو آپ نے اللہ کا شکر کیا اور یاد کیا کہ ایک دن تو وہ تھا۔ ایک آج مکہ پر اسلام کی حکومت ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : اللہ تعالیٰ نے سورہ ابراہیم میں فرمایا

‏{‏وإذ قال إبراهيم رب اجعل هذا البلد آمنا واجنبني وبني أن نعبد الأصنام * رب إنهن أضللن كثيرا من الناس فمن تبعني فإنه مني ومن عصاني فإنك غفور رحيم * ربنا إني أسكنت من ذريتي بواد غير ذي زرع عند بيتك المحرم ربنا ليقيموا الصلاة فاجعل أفئدة من الناس تهوي إليهم‏}‏ اور جب ابراہیم نے کہا میرے رب ! اس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو اس سے محفوظ رکھیو کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔ میرے رب ! ان بتوں نے بہتوں کوگمراہ کیا ہے اللہ تعالیٰ کے فرمان لعلہم یشکرون تک۔

تشریح : اس باب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف آیت پر اکتفا کیا اور ارشاد فرما دیا کہ قرآن مجید کی رو سے مکہ شہر امن والا شہر ہے۔ یہاں بدامنی قطعاً حرام ہے اور اس شہر کو بت پرستی جیسے جرم سے پاک رہنا ہے اور یہاں کے اسماعیلی خاندان والوں کو بت پرستی سے دور ہی رہنا ہے۔ اللہ پاک نے ایک عرصہ دراز کے بعد اپنے خلیل کی دعاقبول کی کہ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ نے حضرت خلیل کی دعا کے مطابق اس شہر کو با امن بنا دیا۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں لم یذکر فی ہذہ الترجمۃ حدیثا وکانہ اشار الی حدیث ابن عباس فی قصۃ اسکان ابراہیم لہا جروا بنہا فی مکۃ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے گویا اس آیت کو لاکر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حضرت ہاجرہ اور ان کے بیٹے کو یہاں لاکر آباد کرنے کی طرف اشارہ فرمایا۔ آگے خود موجود ہے رَبَّنَا اِنِّی اَسکَنتُ مِن ذُرِّیَّتِی بِوَادٍ غَیرَ ذِی زَرعٍ عِندَ بَیتِکَ المُحَرَّمَ رَبَّنَا لِیُقِیمُوا الصَّلوٰۃَ فَاجعَل اَفئِدَۃَ مِّنَ النَّاسِ تَہوِی اِلَیہِمَ ( ابراہیم: 37 ) یعنی یا اللہ! میں نے اس بنجر بیابان میں اپنی اولاد کو لاکر محض اس لیے آباد کیا ہے تاکہ یہاں یہ تیرے گھر کعبہ کی خدمت کریں۔ یہاں نماز قائم کریں۔ پس تو لوگوں کے دل ان کی طرف پھیردے ( کہ وہ سالانہ حج کے لیے بڑی تعداد میں یہاں آیا کریں، جن کی آمد ان کا ذریعہ معاش بھی ہو ) اور ان کو پھلوں سے روزی دے تاکہ یہ شکر کریں۔ ہزارہا سال گزر جانے کے باوجود یہ ابراہیمی دعا آج بھی فضائے مکہ کی لہروں میں گونجتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اس کی قبولیت کے پورے پورے اثرات دن بدن مستحکم ہی ہوتے جارہے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : اللہ تعالیٰ نے سورہ مائدہ میں فرمایا

‏{‏جعل الله الكعبة البيت الحرام قياما للناس والشهر الحرام والهدى والقلائد ذلك لتعلموا أن الله يعلم ما في السموات وما في الأرض وأن الله بكل شىء عليم‏}‏‏.‏

اللہ نے کعبہ کو عزت والا گھر اور لوگوں کے قیام کی جگہ بنایا ہے اور اس طرح حرمت والے مہینہ کو بنایا۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان وان اللہ بکل شئی علیم تک ( ساتھ ہی یہ بھی ہے جو حدیث ذیل میں مذکور ہے )

حدیث نمبر : 1591
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، حدثنا زياد بن سعد، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏يخرب الكعبة ذو السويقتين من الحبشة‏"‏‏. ‏
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے زیاد بن سعد نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسیب نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کعبہ کو دو پتلی پنڈلیوں والا ایک حقیر حبشی تباہ کردے گا۔

مگر یہ قیامت کے قریب اس وقت ہوگا جب زمین پر ایک بھی مسلمان باقی نہ رہے گا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ جب تک دنیا میں ایک بھی کلمہ گو مسلمان باقی ہے کعبہ شریف کی طرف کوئی دشمن آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھ سکتا۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اہل اسلام بلحاظ تعداد ہر زمانہ میں بڑھتے ہی رہے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ آج بھی ساٹھ ستر کروڑ مسلمان دنیا میں موجود ہیں۔ کثر اللہ امۃ الاسلام آمین۔

حدیث نمبر : 1592
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ‏.‏ وحدثني محمد بن مقاتل، قال أخبرني عبد الله ـ هو ابن المبارك ـ قال أخبرنا محمد بن أبي حفصة، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت كانوا يصومون عاشوراء قبل أن يفرض رمضان، وكان يوما تستر فيه الكعبة، فلما فرض الله رمضان قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏من شاء أن يصومه فليصمه، ومن شاء أن يتركه فليتركه‏"‏‏. ‏
ہم سے یح¸ٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ( دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ) اور مجھ سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن مبارک نے خبردی، انہوں نے کہا کہ ہمیں محمد بن ابی حفصہ نے خبردی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ نے اور ان سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ رمضان ( کے روزے ) فرض ہونے سے پہلے مسلمان عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔ عاشوراءہی کے دن ( جاہلیت میں ) کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان فرض کردیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا کہ اب جس کاجی چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے چھوڑ دے۔

اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ اس میں عاشوراءکے دن کعبہ پر پردہ ڈالنے کا ذکر ہے جس سے کعبہ شریف کی عظمت ثابت ہوئی جو باب کا مقصود ہے۔

حدیث نمبر : 1593
حدثنا أحمد، حدثنا أبي، حدثنا إبراهيم، عن الحجاج بن حجاج، عن قتادة، عن عبد الله بن أبي عتبة، عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ليحجن البيت وليعتمرن بعد خروج يأجوج ومأجوج‏"‏‏. ‏ تابعه أبان وعمران عن قتادة‏.‏ وقال عبد الرحمن عن شعبة قال ‏"‏لا تقوم الساعة حتى لا يحج البيت‏"‏‏. ‏ والأول أكثر، سمع قتادة عبد الله وعبد الله أبا سعيد‏.‏
ہم سے احمد بن حفص نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے میرے والد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا، ان سے حجاج بن حجاج اسلمی نے، ان سے قتادہ نے، ان سے عبداللہ بن ابی عتبہ نے اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیت اللہ کا حج اور عمرہ یا جوج اور ماجوج کے نکلنے کے بعد بھی ہوتا رہے گا۔ عبداللہ بن ابی عتبہ کے ساتھ اس حدیث کو ابان اور عمران نے قتادہ سے روایت کیا اور عبدالرحمن نے شعبہ کے واسطہ سے یوں بیان کیا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک بیت اللہ کا حج بند نہ ہوجائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ پہلی روایت زیادہ راویوں نے کی ہے اور قتادہ نے عبداللہ بن عتبہ سے سنا اور عبداللہ نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا۔

تشریح : یاجوج ماجوج دو کافر قومیں یافث بن نوح کی اولاد ہیں جن کی اولاد میں روسی اور ترک بھی ہیں قیامت کے قریب وہ ساری دنیا پر قابض ہوکر بڑا دھند مچائیں گے۔ پورا ذکر علامات قیامت میں آئے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو یہاں اس لیے لائے کہ اس کی دوسری روایت میں بظاہر تعارض ہے اور فی الحقیقت تعارض نہیں، اس لیے کہ قیامت تو یاجوج اور ماجوج کے نکلنے اور ہلاک ہونے کے بہت دنوں بعد قائم ہوگی تو یاجوج اورماجوج کے وقت میں لوگ حج اور عمرہ کرتے رہیں گے۔ اس کے بعد پھر قرب قیامت پر لوگوں میں کفر پھیل جائے گا اور حج اور عمرہ موقوف ہوجائے گا۔ ابان کی روایت کو امام احمد رحمہ اللہ نے اور عمران کی روایت کو ابویعلٰی اور ابن خزیمہ نے وصل کیا ہے۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا لا یزال الناس علی دین ماحجوا البیت واستقبلوا القبلۃ ( فتح ) یعنی مسلمان اپنے دین پر اس وقت تک قائم رہیں گے جب تک وہ کعبہ کا حج اور اس کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھتے رہیں گے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : کعبہ پر غلاف چڑھانا

امام بخاری رحمہ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ کعبہ پر غلاف چڑھانا جائز ہے یا اس کے غلاف کا تقسیم کرنا۔ کہتے ہیں سب سے پہلے تبع حمیری نے اس پر غلاف چڑھایا، اسلام سے نو سوبرس پہلے۔ بعضوں نے کہا عدنان نے اور ریشمی غلاف عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے چڑھایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اس کا غلاف انطاع اور کمبل کا تھا۔ پھر آپ نے یمنی کپڑے کا غلاف چڑھایا۔

حدیث نمبر : 1594
حدثنا عبد الله بن عبد الوهاب، حدثنا خالد بن الحارث، حدثنا سفيان، حدثنا واصل الأحدب، عن أبي وائل، قال جئت إلى شيبة‏.‏ وحدثنا قبيصة، حدثنا سفيان، عن واصل، عن أبي وائل، قال جلست مع شيبة على الكرسي في الكعبة فقال لقد جلس هذا المجلس عمر ـ رضى الله عنه ـ فقال لقد هممت أن لا أدع فيها صفراء ولا بيضاء إلا قسمته‏.‏ قلت إن صاحبيك لم يفعلا‏.‏ قال هما المرآن أقتدي بهما‏.‏
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد بن حارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے واصل احدب نے بیان کیا اور ان سے ابووائل نے بیان کیا کہ میں شیبہ کی خدمت میں حاضر ہوا ( دوسری سند ) اور ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان نے واصل سے بیان کیا اور ان سے ابووائل نے بیان کیا کہ میں شیبہ کے ساتھ کعبہ میں کرسی پر بیٹھا ہوا تھا تو شیبہ نے فرمایا کہ اسی جگہ بیٹھ کر عمر رضی اللہ عنہ نے ( ایک مرتبہ ) فرمایا کہ میرا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ کعبہ کے اندر جتنا سوناچاندی ہے اسے نہ چھوڑوں ( جسے زمانہ جاہلیت میں کفار نے جمع کیا تھا ) بلکہ سب کو نکال کر ( مسلمانوں میں ) تقسیم کردوں۔ میں نے عرض کی کہ آپ کے ساتھیوں ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ) نے تو ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں بھی انہیں کی پیروی کررہا ہوں ( اسی لیے میں اس کے ہاتھ نہیں لگاتا )

قال الاسما عیلی لیس فی حدیث الباب لکسوۃ الکعبۃ ذکر یعنی فلا یطابق الترجمۃ وقال ابن بطال معنی الترجمۃ صحیح ووجہہا انہ معلوم ان الملوک فی کل زمان کانوا یتفاخرون بکسوۃ الکعبۃ برفیع الثیاب المنسوجۃ بالذہب وغیرہ کما یتفاخرون بتسبیل الاموال لہا فاراد البخاری ان عمر لمارای قسمۃ الذہب والفضۃ صوابا کان حکم الکسوۃ حکم المال تجوز قسمتہابل مافضل من کسوتہا اولیٰ بالقسمۃ وقال ابن المنیر فی الحاشیۃ یحتمل ان مقصودہ التنبیہ علی ان کسوۃ الکعبۃ مشروع والحجۃ فیہ انہا لم تزل تقصد بالمال یوضع فیہا علی معنی الزینۃ اعظاما لہا فالکسوۃ من ہذا القبیل۔ ( فتح الباری )

تشریح : بیت اللہ شریف پر غلاف ڈالنے کا رواج بہت قدیم زمانہ سے ہے۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ جس شخص نے سب سے پہلے کعبہ مقدس کو غلاف پہنایا وہ حمیر کا بادشاہ اسعد ابوکرب ہے۔ یہ شخص جب مکہ شریف آیا تو نہایت بردیمانی سے غلاف تیار کراکر ہمراہ لایا اور بھی مختلف اقسام کی سوتی وریشمی چادروں کے پردے ساتھ تھے۔

قریش جب خانہ کعبہ کے متولی ہوئے تو عام چندہ سے ان کا نیا غلاف سالانہ تیار کراکر کعبہ شریف کو پہنانے کا دستور ہوگیا۔ یہاں تک کہ ابوربیعہ بن مغیرہ مخزومی کا زمانہ آیا جو قریش میں بہت ہی سخی اور صاحب ثروت تھا۔ اس نے اعلان کیا کہ ایک سال چندے سے غلاف تیار کیا جائے اور ایک سال میں اکیلا اس کے جملہ اخراجات برداشت کیا کروں گا۔ اسی بناپر اس کا نام عدل قریش پڑگیا۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی والدہ نبیلہ بنت حرام نے قبل از اسلام ایک غلاف چڑھایا تھا جس کی صورت یہ ہوئی کہ نو عمر بچہ یعنی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا بھائی خوار نامی گم ہوگیاتھا۔ اور انہوں نے منت مانی کہ میرا بچہ مل گیا تو کعبہ پر غلاف چڑھاؤں گی۔ چنانچہ ملنے پر انہوں نے اپنی منت پوری کی۔
8ھ میں مکہ دار الاسلام بن گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یمنی چادر کا غلاف ڈالا۔ آپ کی وفات کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کی پیروی کی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جب مصر فتح ہوگیا تو آپ نے قباطی مصری کا جو کہ بیش قیمت کپڑا ہے بیت اللہ پر غلاف چڑھایا اور سالانہ اس کا اہتمام فرمایا۔ آپ پچھلے سال کا غلاف حاجیوں پر تقسیم فرمادیا کرتے اور نیا غلاف چڑھا دیا کرتے تھے۔ شروع میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی یہی عمل رہا۔ ایک دفعہ آپ نے غلاف کعبہ کا کپڑا کسی حائضہ عورت کو پہنے ہوئے دیکھا تو تقسیم کی عادت بدل دی اور قدیم غلاف دفن کیا جانے لگا۔ اس کے بعد ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مشورہ دیا کہ یہ اضاعت مال ہے، اس لیے بہتر ہے کہ پرانا پردہ فروخت کردیا جائے۔ چنانچہ اس کی قیمت غریبوں میں تقسیم ہونے لگی۔ رفتہ رفتہ بنو شیبہ بلاشرکت غیرے اس کے مالک بن گئے۔
اکثر سلاطین اسلام کعبہ شریف پر غلاف ڈالنے کو اپنا فخر سمجھتے رہے اور قسم قسم کے قیمتی غلاف سالانہ چڑھاتے رہے ہیں۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک غلاف دیباکا 10 محرم کو اور دوسراقباطی کا 29 رمضان کو چڑھا دیا گیاتھا۔ خلیفہ مامون رشید نے اپنے عہد خلافت میں بجائے ایک کے تین غلاف بھیجے۔ جن میں ایک مصری پارچہ کا تھا۔ اور دوسرا سفید دیباکا اور تیسرا سرخ دیبا کا تھا تاکہ پہلا یکم رجب کو اور دوسرا 27 رمضان کو اور تیسرا آٹھویں ذی الحجہ کو بیت اللہ پر چڑھایا جائے۔ خلفائے عباسیہ کو اس کا بہت زیادہ اہتمام تھا اور سیاہ کپڑا ان کا شعار تھا۔ اس لیے اکثر سیاہ ریشم ہی کا غلاف کعبہ کے لیے تیار ہوتا تھا۔ سلاطین کے علاوہ دیگر امراءواہل ثروت بھی اس خدمت میں حصہ لیتے تھے اور ہر شخص چاہتا تھا کہ میرا غلاف تادیر ملبوس رہے۔ اس لیے اوپر نیچے بہت سے غلاف بیت اللہ پر جمع ہوگئے۔
160ھ میں سلطان مہدی عباسی جب حج کے لیے آئے تو خدام کعبہ نے کہا کہ بیت اللہ پر اتنے غلاف جمع ہوگئے ہیں کہ بنیادوں کو ان کے بوجھ کا تحمل دشوار ہے۔ سلطان نے حکم دے دیا کہ تمام غلاف اتار دئیے جائیں اور آئندہ ایک سے زیادہ غلاف نہ چڑھایا جائے۔
عباسی حکومت جب ختم ہوگئی تو 659 ھ میں شاہ یمن ملک مظفراس سے خدمت کو انجام دیا۔ اس کے بعد مدت تک خالص یمن سے غلاف آتا رہا اور کبھی شاہان مصر کی شرکت میں مشترکہ۔ خلافت عباسیہ کے بعد شاہان مصر میں سب سے پہلے اس خدمت کا فخر ملک ظاہر بیبرس کو نصیب ہوا۔ پھرشاہان مصر نے مستقل طورپر اس کے اوقاف کردئیے اور غلاف کعبہ سالانہ مصر سے آنے لگا۔ 751 ھ میں ملک مجاہد نے چاہا کہ مصری غلاف اتار دیا جائے اور میرے نام کا غلاف چڑھایا جائے مگر شریف مکہ کے ذریعہ جب یہ خبر شاہ مصر کو پہنچی تو ملک مجاہد گرفتار کرلیا گیا۔
کعبہ شریف کو بیرونی غلاف پہنانے کا دستور تو زمانہ قدیم سے چلا آتا ہے مگر اندرونی غلاف کے متعلق تقی الدین فارسی کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے ملک ناصر حسن چرکسی نے 761 ھ میں کعبہ کا اندرونی غلاف روانہ کیا تھا۔ جو تخمیناً 817 ھ تک کعبے کے اندر دیواروں پر لٹکارہا۔ اس کے بعد ملک الاشرف ابونصر سیف الدین سلطان مصر نے 825 ھ میں سرخ رنگ کا اندرونی غلاف کعبے کے لیے روانہ کیا۔ آج کل یہ غلاف خود حکومت سعودیہ عربیہ خلدہا اللہ تعالیٰ کے زیر اہتمام تیار کرایا جاتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : کعبہ کے گرانے کا بیان

قالت عائشة ـ رضى الله عنها ـ قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏يغزو جيش الكعبة، فيخسف بهم‏"‏‏. ‏ اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک فوج بیت اللہ پر چڑھائی کرے گی اور وہ زمین میں دھنسادی جائے گی۔

حدیث نمبر : 1595
حدثنا عمرو بن علي، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا عبيد الله بن الأخنس، حدثني ابن أبي مليكة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏كأني به أسود أفحج، يقلعها حجرا حجرا‏"‏‏.
ہم سے عمروبن علی فلاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبیداللہ بن اخنس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گویا میری نظروں کے سامنے وہ پتلی ٹانگوں والا سیاہ آدمی ہے جو خانہ کعبہ کے ایک ایک پتھر کو اکھاڑ پھینکے گا۔

حدیث نمبر : 1596
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن يونس، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، أن أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏يخرب الكعبة ذو السويقتين من الحبشة‏"‏‏. ‏
ہم سے یحٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کعبہ کو دو پتلی پنڈلیوں والا حبشی خراب کرے گا۔

تشریح : اوپر والی حدیث میں افحج کا لفظ ہے اورافحج وہ ہے جو اکڑتا ہوا چلے یا چلتے میں اس کے دونوں پنجے تو نزدیک رہیں اور دونوں ایڑیوں میں فاصلہ رہے۔ وہ حبشی مردود جو قیامت کے قریب کعبہ ڈھائے گا وہ اسی شکل کا ہوگا۔ دوسری روایت میں ہے اس کی آنکھیں نیلی، ناک پھیلی ہوئی ہوگی، پیٹ بڑا ہوگا۔ اس کے ساتھ اور لوگ ہوںگے، وہ کعبہ کا ایک ایک پتھر اکھاڑ ڈالیں گے اور سمندر میں لے جاکر پھینک دیں گے۔ یہ قیامت کے بالکل نزدیک ہوگا۔ اللہ ہرفتنے سے بچائے آمین۔

ووقع ہذا الحدیث عند احمد من طریق سعید بن سمعان عن ابی ہریرۃ باتم من ہذا السیاق ولفظہ یبایع للرجل بین الرکن والمقام ولن یستحل ہذا البیت الا اہلہ فاذا استحلوہ فلا تسال عن ہلکۃ العرب ثم تجئی الحبثۃ فیخربونہ خرابا لا یعمر بعدہ ابدا وہم الذین یستخرجون کنزہ ولا بی قرۃ فی السفن من وجہ آخر عن ابی ہریرۃ مرفوعا لا یستخرج کنز الکعبۃ الا ذوالسویقتین من الحبشۃ ونحوہ لا بی داود من حدیث عبداللہ بن عمرو بن العاص وزاد احمد والطبرانی من طریق مجاہد عنہ فیسلبہا حلیتہا ویجردہا من کسوتہا کانی انظر الیہ اصیلع افیدع یقرب علیہا بمسحاتہ او بمعولہ۔

قیل ہدا الحدیث یخالف قولہ تعالیٰ اولم یروا انا جعلنا حرما امنا ولان اللہ حبس عن مکۃ الفیل ولم یمکن اصحابہ من تخریب الکعبۃ ولم تکن اذ ذاک قبلۃ فکیف یسلط علیہا الحبشۃ بعد ان صارت قبلۃ للمسلمین واجیب بان ذلک محمول علی انہ یقع فی اخر الزمان قرب قیام الساعۃ حیث لا یبقی فی الارض احد یقول اللہ اللہ کماثبت فی صحیح مسلم لا تقوم الساعۃ حتی لا یقال فی الارض اللہ اللہ واعترض بعض الملحدین علی الحدیث الماضی فقال کیف سودتہ خطایا المشرکین ولم تبیضہ طاعات اہل التوحید واجیب بما قال ابن قتیبۃ لوشاءاللہ لکان ذلک وانما اجری اللہ العادۃ بان السواد یصبغ علی العکس من البیاض۔ ( فتح الباری
 
Top