Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : حجراسود کا بیان
حدیث نمبر : 1597
حدثنا محمد بن كثير، أخبرنا سفيان، عن الأعمش، عن إبراهيم، عن عابس بن ربيعة، عن عمر ـ رضى الله عنه ـ أنه جاء إلى الحجر الأسود فقبله، فقال إني أعلم أنك حجر لا تضر ولا تنفع، ولولا أني رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يقبلك ما قبلتك.
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں سفیان ثوری نے خبردی، انہیں اعمش نے، انہیں ابراہیم نے، انہیں عابس نے، انہیں ربیعہ نے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دیا اور فرمایا میں خوب جانتا ہوں کہ تو صرف ایک پتھر ہے، نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے میں نہ دیکھتا تو میں بھی کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔
تشریح : حجر اسود وہ کالا پتھر ہے جو کعبہ کے مشرقی کونے میں لگا ہوا ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ حجر اسود جنت کا پتھر ہے۔ پہلے وہ دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا پھر لوگوں کے گناہوں نے اس کو کالا کردیا۔ حاکم کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ بات سن کر علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا اے امیرالمؤمنین! یہ پتھر بگاڑ اور فائدہ کرسکتا ہے، قیامت کے دن اس کی آنکھیں ہوں گی اور زبان اور ہونٹ اور وہ گواہی دے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا ابوالحسن! جہاں تم نہ ہو وہاں اللہ مجھ کو نہ رکھے۔ ذہبی نے کہا کہ حاکم کی روایت ساقط ہے۔ خود مرفوع حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حجر اسود کو بوسہ دیتے وقت ایسا ہی فرمایا تھا۔ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی کہا۔ اخرجہ ابن ابی شیبۃ اس کا مطلب یہ کہ تیرا چومنا محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی نیت سے ہے۔
اس روایت سے صاف یہ نکلا کہ قبروں کی چوکھٹ چومنایا قبروں کی زمین چومنا یا خود قبر کو چومنا یہ سب ناجائز کام ہیں۔ بلکہ بدعات سیہ ہیں۔ کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو صرف اس لیے چوما کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چوما تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ سے کہیں منقول نہیں ہے کہ انہوں نے قبر کا بوسہ لیا ہو۔ یہ سب کام جاہلوں نے نکالے ہیں اور شرک ہیں کیونکہ جن کی قبروں کو چومتے ہیں ان کو اپنے نفع نقصان کا مالک گردانتے ہیں اور ان کی دہائی دیتے اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں۔ لہٰذا شرک ہونے میں کیا کلام ہے۔ کوئی خالص محبت سے چومے تو یہ بھی غلط اور بدعت ہوگا اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہ سے کہیں کسی قبر کو چومنے کا ثبوت نہیں ہے۔
علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں قال الطبری انما قال ذلک عمر لان الناس کانوا حدیثی عہد بعبادۃ الاصنام فخشی عمر ان یظن الجہال ان استلام الحجر من باب تعظیم بعض الاحجار کما کانب العرب تفعل فی الجاہلیۃ فاراد عمر ان یعلم الناس ان استلامہ اتباعا لفعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا لان الحجر ینفع اویضر بذاتہ کما کانت الجاہلیۃ تعتقدہ فی الاوثان ( فتح الباری )
یہ وہ تاریخی پتھر ہے جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام کے مبارک جسموں سے مس ہونے کا شرف حاصل ہے۔ جس وقت خانہ کعبہ کی عمارت بن چکی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے کہا کہ ایک پتھر لاؤ تاکہ اس کو ایسے مقام پر لگادوں جہاں سے طواف شروع کیا جائے۔ تاریخ مکہ میں ہے فقال ابراہیم لا سمعیل علیہما السلام یا اسماعیل ایتنی بحجر اضعہ حتی یکون علماللناس یبتدون منہ الطواف یعنی حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے کہا کہ ایک پتھر لاؤ تاکہ میں ایسی جگہ نصب کر دوں جہاں سے لوگ طواف شروع کریں۔
بعض روایات کی بناپر اس پتھر کی تاریخ حضرت آدم علیہ السلام کے جنت سے ہبوط کے ساتھ ساتھ شروع ہوتی ہے۔ چنانچہ طوفان نوح کے وقت یہ پتھر بہہ کر کوہ ابوقبیس پر چلاگیا تھا۔ اس موقع پر کوہ ابو قبیس سے صدا بلند ہوئی کہ اے ابراہیم! یہ امانت ایک مدت سے میرے سپرد ہے۔ آپ نے وہاں سے اس پتھر کو حاصل کرکے کعبہ کے ایک کونہ میں نصب کردیا اور کعبہ شریف کا طواف کرنے کے لیے اس کو شروع کرنے اور ختم کرنے کا مقام ٹھہرایا۔
حاجیوں کے لیے حجر اسود کو بوسہ دینا یا ہاتھ لگانا یہ کام مسنون اور کار ثواب ہیں۔ قیامت کے دن یہ پتھر ان لوگوں کی گواہی دے گا جو اللہ کے گھر کی زیارت کے لیے آتے ہیں اور اس کو ہاتھ لگاکر حج یا عمرہ کی شہادت ثبت کراتے ہیں۔
بعض روایات کی بناپر عہد ابراہیمی میں پیمان لینے کا یہ عام دستور تھا ایک پتھر رکھ دیا جاتا جس پر لوگ آکر ہاتھ مارتے۔ اس کے معنے یہ ہوتے کہ جس عہد کے لیے وہ پتھر گاڑا گیا ہے اس کو انہوں نے تسلیم کرلیا۔ بلکہ اپنے دلوں میں اس پتھر کی طرح مضبوط گاڑلیا۔ اسی دستور کے موافق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مقتدی قوموں کے لیے یہ پتھر نصب کیا تاکہ جو شخص بیت اللہ شریف میں داخل ہو اس پتھر پر ہاتھ رکھے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے توحید الٰہی کے بیان کو قبول کرلیا۔ اگر جان بھی دینی پڑے گی تو اس سے منحرف نہ ہوگا۔ گویا حجر اسود کا استلام اللہ تعالیٰ سے بیعت کرنا ہے۔ اس تمثیل کی تصریح ایک حدیث میں یوں آئی ہے۔ عن ابن عباس مرفوعا الحجر الاسود یمین اللہ فی ارضہ یصافح بہ خلقہ ( طبرانی ) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ حجر اسود زمین میں گویا اللہ کا دایاں ہاتھ ہے۔ جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے مصافحہ فرماتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی دوسری روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں نزل الحجر الاسود من الجنۃ وہو اشد بیاضا من اللبن فسودتہ خطایا بنی ادم ( رواہ احمد والترمذی ) یعنی حجر اسود جنت سے نازل ہوا تو دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا مگر انسانوں کی خطا کاریوں نے اس کو سیاہ کردیا۔ اس سے حجر اسود کی شرافت وبزرگی مراد ہے۔
ایک روایت میں یوں آیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس تاریخی پتھر کو نطق اور بصارت سے سرفراز کرے گا۔ جن لوگوں نے حقانیت کے ساتھ توحید الٰہی کا عہد کرتے ہوئے اس کو چوما ہے، ان پر یہ گواہی دے گا۔ ان فضائل کے باوجود کسی مسلمان کا یہ عقیدہ نہیں کہ یہ پتھر معبود ہے اس کے اختیار میں نفع وضرر ہے۔
ایک دفعہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے صاف اعلان فرمایا کہ انی اعلم انک حجر لا تضرو لا تنفع ولولا انی رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقبلک ماقبلتک ( رواہ الستۃ واحمد ) یعنی میں خوب جانتا ہوں کہ تو صرف ایک پتھر ہے، تیرے قبضے میں نہ کسی کا نفع ہے نہ نقصان اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بھی بوسہ نہ دیتا۔
علامہ طبری مرحوم لکھتے ہیں انما قال ذلک عمر لان الناس کانوا حدیثی عہد بعبادۃ الاصنام فخشی عمزان یظن الجہال ان استلام الحجر من باب تعظیم بعض الاحجار کما کانت العرب تفعل فی الجاہلیۃ فاراد عمران یعلم الناس ان استلامہ اتباع لفعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا کان الحجر ینفع ویضر بذاتہ کما کانت الجاہلیۃ تعتقدہ فی الاوثان یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اعلان اس لیے کیا کہ اکثر لوگ بت پرستی سے نکل کر قریبی زمانہ میں اسلام کے اندر داخل ہوئے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خطرے کو محسوس کرلیا کہ جاہل لوگ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ زمانہ جاہلیت کے دستور کے مطابق پتھروں کی تعظیم ہے۔ اس لیے آپ نے لوگوں کو آگاہ کیا کہ حجر اسود کا استلام صرف اللہ کے رسول کی اتباع میں کیا جاتا ہے ورنہ حجر اسود اپنی ذات میں نفع یا نقصان پہنچانے کی کوئی طاقت نہیں رکھتا، جیساگ عہد جاہلیت کے لوگ بتوں کے بارے میں اعتقاد رکھتے تھے۔
ابن ابی شیبہ اور دار قطنی نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بھی یہی الفاظ نقل کئے ہیں کہ آپ نے بھی حجر اسود کے استلام کے وقت یوں فرمایا ”میں جانتا ہوں کہ تیری حقیقت ایک پتھر سے زیادہ کچھ نہیں۔ نفع یا نقصان کی کوئی طاقت تیرے اندر نہیں ہے۔ اگر میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں بھی تجھ کو بوسہ نہ دیتا۔“
بعض محدثین نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی یہ الفاظ نقل فرمائے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے فرمایا ”میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے جس میں نفع ونقصان کی تاثیر نہیں ہے۔ اگر مجھے میرے رب کا حکم نہ ہوتاتو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔“
اسلامی روایات کی روشنی میں حجر اسود کی حیثیت ایک تاریخی پتھر کی ہے جس کو اللہ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام نے خانہ خدا کی تعمیر کے وقت ایک ”بنیادی پتھر“ کی حیثیت سے نصب کیا۔ اس لحاظ سے دین حنیف کی ہزارہا سالہ تاریخ اس پتھر کے ساتھ وابستہ ہوجاتی ہے۔ اہل اسلام اس کی جو بھی تعظیم استلام وغیرہ کی شکل میں کرتے ہیں وہ سب کچھ صرف اسی بناپر ہے۔ ملت ابراہیمی کا اللہ کے ہاں مقبول ہونا اور مذہب اسلام کی حقانیت پر بھی یہ پتھر ایک تاریخی شاہد عادل کی حیثیت سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ جس کو ہزارہا سال کے بے شمار انقلابات فنا نہ کرسکے۔ وہ جس طرح ہزاروں برس پہلے نصب کیا گیا تھا آج بھی اسی شکل میں اسی جگہ تمام دنیا کے حوادثات وانقلابات کا مقابلہ کرتے ہوئے موجود ہے۔ اس کو دیکھنے سے اس کو چومنے سے ایک سچے مسلمان موحد کی نظروں کے سامنے دین حنیف کے چار ہزار سالہ تاریخی اوراق یکے بعد دیگرے الٹنے لگ جاتے ہیں۔ حضرت خلیل اللہ اور حضرت ذبیح اللہ علیہ السلام کی پاک زندگیاں سامنے آکر معرفت حق کی نئی نئی راہیں دماغوں کے سامنے کھول دیتی ہیں۔ روحانیت وجد میں آجاتی ہے۔ توحید پرستی کا جذبہ جوش مارنے لگتا ہے۔ حجر اسود بنائے توحید کا ایک بنیادی پتھر ہے ”دعائے خلیل ونوید مسیحا“ حضرت سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے اظہار کے لیے ایک غیر فانی یادگار ہے۔ اس مختصر سے تبصرہ کے بعد کتاب اللہ وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اس حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ مصنوعات الٰہیہ میں جو چیز بھی محترم ہے وہ بالذات محترم نہیں ہے بلکہ پیغمبر اسلام کی تعلیم وارشاد کی وجہ سے محترم ہے۔ اسی کلیہ کے تحت خانہ کعبہ، حجر اسود، صفا مروہ وغیرہ وغیرہ محترم قرار پائے۔ اسی لیے اسلام کا کوئی فعل بھی جس کو وہ عبادت یا لائق عظمت قرار دیتا ہو، ایسا نہیں ہے جس کی سند سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے حق تعالیٰ تک نہ پہنچتی ہو۔ اگر کوئی مسلمان ایسا فعل ایجاد کرے جس کی سند پیغمبر علیہ السلام تک نہ پہنچتی ہوتو وہ فعل نظروں میں کیسا بھی پیارا اور عقل کے نزدیک کتنا ہی مستحسن کیوں نہ ہو، اسلام فوراً اس پر بدعت ہونے کا حکم لگا دیتا ہے اور صرف اس لیے اس کو نظروں سے گرادیتا ہے کہ اس کی سند حضرت رسول خدا تک نہیں پہنچتی بلکہ وہ ایک غیر ملہم انسان کا ایجاد کیا ہوا فعل ہے۔
اسی پاک تعلیم کا اثر ہے کہ سارا کعبہ باوجود یکہ ایک گھر ہے حجر اسود اور رکن یمانی وملتزم پر پیغمبراسلام علیہ السلام نے جو طریق استلام یا چمٹنے کا بتلایا ہے مسلمان اس سے انچ بھر آگے نہیں بڑھتے۔ نہ دوسری دیواروں کے پتھروں کو چومتے ہیں۔ کیونکہ مسلمان مخلوقات الٰہیہ کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد وعمل کے تابع ہیں۔
باب : حجراسود کا بیان
حدیث نمبر : 1597
حدثنا محمد بن كثير، أخبرنا سفيان، عن الأعمش، عن إبراهيم، عن عابس بن ربيعة، عن عمر ـ رضى الله عنه ـ أنه جاء إلى الحجر الأسود فقبله، فقال إني أعلم أنك حجر لا تضر ولا تنفع، ولولا أني رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يقبلك ما قبلتك.
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں سفیان ثوری نے خبردی، انہیں اعمش نے، انہیں ابراہیم نے، انہیں عابس نے، انہیں ربیعہ نے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دیا اور فرمایا میں خوب جانتا ہوں کہ تو صرف ایک پتھر ہے، نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے میں نہ دیکھتا تو میں بھی کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔
تشریح : حجر اسود وہ کالا پتھر ہے جو کعبہ کے مشرقی کونے میں لگا ہوا ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ حجر اسود جنت کا پتھر ہے۔ پہلے وہ دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا پھر لوگوں کے گناہوں نے اس کو کالا کردیا۔ حاکم کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ بات سن کر علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا اے امیرالمؤمنین! یہ پتھر بگاڑ اور فائدہ کرسکتا ہے، قیامت کے دن اس کی آنکھیں ہوں گی اور زبان اور ہونٹ اور وہ گواہی دے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا ابوالحسن! جہاں تم نہ ہو وہاں اللہ مجھ کو نہ رکھے۔ ذہبی نے کہا کہ حاکم کی روایت ساقط ہے۔ خود مرفوع حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حجر اسود کو بوسہ دیتے وقت ایسا ہی فرمایا تھا۔ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی کہا۔ اخرجہ ابن ابی شیبۃ اس کا مطلب یہ کہ تیرا چومنا محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی نیت سے ہے۔
اس روایت سے صاف یہ نکلا کہ قبروں کی چوکھٹ چومنایا قبروں کی زمین چومنا یا خود قبر کو چومنا یہ سب ناجائز کام ہیں۔ بلکہ بدعات سیہ ہیں۔ کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو صرف اس لیے چوما کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چوما تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ سے کہیں منقول نہیں ہے کہ انہوں نے قبر کا بوسہ لیا ہو۔ یہ سب کام جاہلوں نے نکالے ہیں اور شرک ہیں کیونکہ جن کی قبروں کو چومتے ہیں ان کو اپنے نفع نقصان کا مالک گردانتے ہیں اور ان کی دہائی دیتے اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں۔ لہٰذا شرک ہونے میں کیا کلام ہے۔ کوئی خالص محبت سے چومے تو یہ بھی غلط اور بدعت ہوگا اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہ سے کہیں کسی قبر کو چومنے کا ثبوت نہیں ہے۔
علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں قال الطبری انما قال ذلک عمر لان الناس کانوا حدیثی عہد بعبادۃ الاصنام فخشی عمر ان یظن الجہال ان استلام الحجر من باب تعظیم بعض الاحجار کما کانب العرب تفعل فی الجاہلیۃ فاراد عمر ان یعلم الناس ان استلامہ اتباعا لفعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا لان الحجر ینفع اویضر بذاتہ کما کانت الجاہلیۃ تعتقدہ فی الاوثان ( فتح الباری )
یہ وہ تاریخی پتھر ہے جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام کے مبارک جسموں سے مس ہونے کا شرف حاصل ہے۔ جس وقت خانہ کعبہ کی عمارت بن چکی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے کہا کہ ایک پتھر لاؤ تاکہ اس کو ایسے مقام پر لگادوں جہاں سے طواف شروع کیا جائے۔ تاریخ مکہ میں ہے فقال ابراہیم لا سمعیل علیہما السلام یا اسماعیل ایتنی بحجر اضعہ حتی یکون علماللناس یبتدون منہ الطواف یعنی حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے کہا کہ ایک پتھر لاؤ تاکہ میں ایسی جگہ نصب کر دوں جہاں سے لوگ طواف شروع کریں۔
بعض روایات کی بناپر اس پتھر کی تاریخ حضرت آدم علیہ السلام کے جنت سے ہبوط کے ساتھ ساتھ شروع ہوتی ہے۔ چنانچہ طوفان نوح کے وقت یہ پتھر بہہ کر کوہ ابوقبیس پر چلاگیا تھا۔ اس موقع پر کوہ ابو قبیس سے صدا بلند ہوئی کہ اے ابراہیم! یہ امانت ایک مدت سے میرے سپرد ہے۔ آپ نے وہاں سے اس پتھر کو حاصل کرکے کعبہ کے ایک کونہ میں نصب کردیا اور کعبہ شریف کا طواف کرنے کے لیے اس کو شروع کرنے اور ختم کرنے کا مقام ٹھہرایا۔
حاجیوں کے لیے حجر اسود کو بوسہ دینا یا ہاتھ لگانا یہ کام مسنون اور کار ثواب ہیں۔ قیامت کے دن یہ پتھر ان لوگوں کی گواہی دے گا جو اللہ کے گھر کی زیارت کے لیے آتے ہیں اور اس کو ہاتھ لگاکر حج یا عمرہ کی شہادت ثبت کراتے ہیں۔
بعض روایات کی بناپر عہد ابراہیمی میں پیمان لینے کا یہ عام دستور تھا ایک پتھر رکھ دیا جاتا جس پر لوگ آکر ہاتھ مارتے۔ اس کے معنے یہ ہوتے کہ جس عہد کے لیے وہ پتھر گاڑا گیا ہے اس کو انہوں نے تسلیم کرلیا۔ بلکہ اپنے دلوں میں اس پتھر کی طرح مضبوط گاڑلیا۔ اسی دستور کے موافق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مقتدی قوموں کے لیے یہ پتھر نصب کیا تاکہ جو شخص بیت اللہ شریف میں داخل ہو اس پتھر پر ہاتھ رکھے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے توحید الٰہی کے بیان کو قبول کرلیا۔ اگر جان بھی دینی پڑے گی تو اس سے منحرف نہ ہوگا۔ گویا حجر اسود کا استلام اللہ تعالیٰ سے بیعت کرنا ہے۔ اس تمثیل کی تصریح ایک حدیث میں یوں آئی ہے۔ عن ابن عباس مرفوعا الحجر الاسود یمین اللہ فی ارضہ یصافح بہ خلقہ ( طبرانی ) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ حجر اسود زمین میں گویا اللہ کا دایاں ہاتھ ہے۔ جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے مصافحہ فرماتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی دوسری روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں نزل الحجر الاسود من الجنۃ وہو اشد بیاضا من اللبن فسودتہ خطایا بنی ادم ( رواہ احمد والترمذی ) یعنی حجر اسود جنت سے نازل ہوا تو دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا مگر انسانوں کی خطا کاریوں نے اس کو سیاہ کردیا۔ اس سے حجر اسود کی شرافت وبزرگی مراد ہے۔
ایک روایت میں یوں آیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس تاریخی پتھر کو نطق اور بصارت سے سرفراز کرے گا۔ جن لوگوں نے حقانیت کے ساتھ توحید الٰہی کا عہد کرتے ہوئے اس کو چوما ہے، ان پر یہ گواہی دے گا۔ ان فضائل کے باوجود کسی مسلمان کا یہ عقیدہ نہیں کہ یہ پتھر معبود ہے اس کے اختیار میں نفع وضرر ہے۔
ایک دفعہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے صاف اعلان فرمایا کہ انی اعلم انک حجر لا تضرو لا تنفع ولولا انی رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقبلک ماقبلتک ( رواہ الستۃ واحمد ) یعنی میں خوب جانتا ہوں کہ تو صرف ایک پتھر ہے، تیرے قبضے میں نہ کسی کا نفع ہے نہ نقصان اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بھی بوسہ نہ دیتا۔
علامہ طبری مرحوم لکھتے ہیں انما قال ذلک عمر لان الناس کانوا حدیثی عہد بعبادۃ الاصنام فخشی عمزان یظن الجہال ان استلام الحجر من باب تعظیم بعض الاحجار کما کانت العرب تفعل فی الجاہلیۃ فاراد عمران یعلم الناس ان استلامہ اتباع لفعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا کان الحجر ینفع ویضر بذاتہ کما کانت الجاہلیۃ تعتقدہ فی الاوثان یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اعلان اس لیے کیا کہ اکثر لوگ بت پرستی سے نکل کر قریبی زمانہ میں اسلام کے اندر داخل ہوئے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خطرے کو محسوس کرلیا کہ جاہل لوگ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ زمانہ جاہلیت کے دستور کے مطابق پتھروں کی تعظیم ہے۔ اس لیے آپ نے لوگوں کو آگاہ کیا کہ حجر اسود کا استلام صرف اللہ کے رسول کی اتباع میں کیا جاتا ہے ورنہ حجر اسود اپنی ذات میں نفع یا نقصان پہنچانے کی کوئی طاقت نہیں رکھتا، جیساگ عہد جاہلیت کے لوگ بتوں کے بارے میں اعتقاد رکھتے تھے۔
ابن ابی شیبہ اور دار قطنی نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بھی یہی الفاظ نقل کئے ہیں کہ آپ نے بھی حجر اسود کے استلام کے وقت یوں فرمایا ”میں جانتا ہوں کہ تیری حقیقت ایک پتھر سے زیادہ کچھ نہیں۔ نفع یا نقصان کی کوئی طاقت تیرے اندر نہیں ہے۔ اگر میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں بھی تجھ کو بوسہ نہ دیتا۔“
بعض محدثین نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی یہ الفاظ نقل فرمائے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے فرمایا ”میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے جس میں نفع ونقصان کی تاثیر نہیں ہے۔ اگر مجھے میرے رب کا حکم نہ ہوتاتو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔“
اسلامی روایات کی روشنی میں حجر اسود کی حیثیت ایک تاریخی پتھر کی ہے جس کو اللہ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام نے خانہ خدا کی تعمیر کے وقت ایک ”بنیادی پتھر“ کی حیثیت سے نصب کیا۔ اس لحاظ سے دین حنیف کی ہزارہا سالہ تاریخ اس پتھر کے ساتھ وابستہ ہوجاتی ہے۔ اہل اسلام اس کی جو بھی تعظیم استلام وغیرہ کی شکل میں کرتے ہیں وہ سب کچھ صرف اسی بناپر ہے۔ ملت ابراہیمی کا اللہ کے ہاں مقبول ہونا اور مذہب اسلام کی حقانیت پر بھی یہ پتھر ایک تاریخی شاہد عادل کی حیثیت سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ جس کو ہزارہا سال کے بے شمار انقلابات فنا نہ کرسکے۔ وہ جس طرح ہزاروں برس پہلے نصب کیا گیا تھا آج بھی اسی شکل میں اسی جگہ تمام دنیا کے حوادثات وانقلابات کا مقابلہ کرتے ہوئے موجود ہے۔ اس کو دیکھنے سے اس کو چومنے سے ایک سچے مسلمان موحد کی نظروں کے سامنے دین حنیف کے چار ہزار سالہ تاریخی اوراق یکے بعد دیگرے الٹنے لگ جاتے ہیں۔ حضرت خلیل اللہ اور حضرت ذبیح اللہ علیہ السلام کی پاک زندگیاں سامنے آکر معرفت حق کی نئی نئی راہیں دماغوں کے سامنے کھول دیتی ہیں۔ روحانیت وجد میں آجاتی ہے۔ توحید پرستی کا جذبہ جوش مارنے لگتا ہے۔ حجر اسود بنائے توحید کا ایک بنیادی پتھر ہے ”دعائے خلیل ونوید مسیحا“ حضرت سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے اظہار کے لیے ایک غیر فانی یادگار ہے۔ اس مختصر سے تبصرہ کے بعد کتاب اللہ وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اس حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ مصنوعات الٰہیہ میں جو چیز بھی محترم ہے وہ بالذات محترم نہیں ہے بلکہ پیغمبر اسلام کی تعلیم وارشاد کی وجہ سے محترم ہے۔ اسی کلیہ کے تحت خانہ کعبہ، حجر اسود، صفا مروہ وغیرہ وغیرہ محترم قرار پائے۔ اسی لیے اسلام کا کوئی فعل بھی جس کو وہ عبادت یا لائق عظمت قرار دیتا ہو، ایسا نہیں ہے جس کی سند سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے حق تعالیٰ تک نہ پہنچتی ہو۔ اگر کوئی مسلمان ایسا فعل ایجاد کرے جس کی سند پیغمبر علیہ السلام تک نہ پہنچتی ہوتو وہ فعل نظروں میں کیسا بھی پیارا اور عقل کے نزدیک کتنا ہی مستحسن کیوں نہ ہو، اسلام فوراً اس پر بدعت ہونے کا حکم لگا دیتا ہے اور صرف اس لیے اس کو نظروں سے گرادیتا ہے کہ اس کی سند حضرت رسول خدا تک نہیں پہنچتی بلکہ وہ ایک غیر ملہم انسان کا ایجاد کیا ہوا فعل ہے۔
اسی پاک تعلیم کا اثر ہے کہ سارا کعبہ باوجود یکہ ایک گھر ہے حجر اسود اور رکن یمانی وملتزم پر پیغمبراسلام علیہ السلام نے جو طریق استلام یا چمٹنے کا بتلایا ہے مسلمان اس سے انچ بھر آگے نہیں بڑھتے۔ نہ دوسری دیواروں کے پتھروں کو چومتے ہیں۔ کیونکہ مسلمان مخلوقات الٰہیہ کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد وعمل کے تابع ہیں۔