• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : سفر بھی گویا ایک قسم کا عذاب ہے

ابن تیمیہ نے کہا اس باب کو لاکر امام بخاری نے اشارہ کیا کہ گھر میں رہنا مجاہدہ سے افضل ہے، حافظ نے کہا اس پر اعتراض ہے اور شاید امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہو کہ حج اور عمرہ سے فارغ ہو کر آدمی اپنے گھر واپس ہونے کے لیے جلدی کرے۔ گھر والوں سے زیادہ دن تک غیر حاضر ہو کر رہنا اچھا نہیں۔

حدیث نمبر : 1804
حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا مالك، عن سمى، عن أبي صالح، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏السفر قطعة من العذاب، يمنع أحدكم طعامه وشرابه ونومه، فإذا قضى نهمته فليعجل إلى أهله‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے سمی نے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے، آدمی کو کھانے پینے اور سونے (ہر ایک چیز ) سے روک دیتا ہے، اس لیے جب کوئی اپنی ضرورت پوری کرچکے تو فوراً گھر واپس آجائے۔

ابن تیمیہ نے کہا اس باب کو لاکر امام بخاری نے اشارہ کیا کہ گھر میں رہنا مجاہدہ سے افضل ہے، حافظ نے کہا اس پر اعتراض ہے اور شاید امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہو کہ حج اور عمرہ سے فارغ ہو کر آدمی اپنے گھر واپس ہونے کے لیے جلدی کرے۔ گھر والوں سے زیادہ دن تک غیر حاضر ہو کر رہنا اچھا نہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : مسافر جب جلد چلنے کی کوشش کر رہا ہو اور اپنے اہل میں جلد پہنچنا چاہئے

حدیث نمبر : 1805
حدثنا سعيد بن أبي مريم، أخبرنا محمد بن جعفر، قال أخبرني زيد بن أسلم، عن أبيه، قال كنت مع عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ بطريق مكة، فبلغه عن صفية بنت أبي عبيد شدة وجع فأسرع السير، حتى كان بعد غروب الشفق نزل، فصلى المغرب والعتمة، جمع بينهما، ثم قال إني رأيت النبي صلى الله عليه وسلم إذا جد به السير أخر المغرب، وجمع بينهما‏.
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے زید بن اسلم نے خبر دی، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا کہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مکہ کے راستے میں تھا کہ انہیں (اپنی بیوی ) صفیہ بنت ابی عبید کی سخت بیماری کی خبر ملی اور وہ نہایت تیزی سے چلنے لگے، پھر جب سرخی غروب ہوگئی تو سواری سے نیچے اترے اور مغرب اور عشاءایک ساتھ ملا کر پڑھیں، اس کے بعد فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب جلدی چلنا ہوتا تو مغرب میں دیر کرکے دونوں (عشاءاور مغرب ) کو ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔

یہ اس لیے کہ اسلام سراسر دین فطرت ہے، زندگی میں بسااوقات ایسے مواقع آجاتے ہیں کہ انسان وقت پر نماز ادا کرنے سے سراسر مجبور ہوجاتا ہے، ایسی حالت میں یہ سہولت رکھی گئی کہ دو نمازیں ملا کر پڑھ لی جائیں، اگلی نماز مثلاً عشاءکو پہلی یعنی مغرب میں ملا لیا جائے یا پھر پہلی نماز کو دیر کرکے اگلی یعنی عشاءمیں ملا لیا جائے ہر دو امر جائز ہیں مگر یہ سخت مجبوری کی حالت میں ہے ورنہ نماز کا ادا کرنا اس کے مقررہ وقت ہی پر فر ض ہے۔ ارشاد باری ہے ان الصلوۃ کانت علی المومنین کتابا موقوتا اہل ایمان پر نماز کا بروقت ادا کرنا فرض قرار دیا گیا ہے۔

مسائل و احکام حج کے سلسلے میں آداب سفر پر روشنی ڈالنا ضروری تھا۔ جب کہ حج میں از اول تا آخر ہی سفر سے سابقہ پڑتا ہے، اگرچہ سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے مگر سفر وسیلہ ظفر بھی ہے جیسا کہ حج ہے۔ اگر عنداللہ یہ قبول ہو جائے تو حاجی اس سفر سے اس حالت میں گھر واپس ہوتا ہے کہ گویا وہ آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ یہ اس سفر ہی کی برکت ہے کہ مغفرت الٰہی کا عظیم خزانہ نصیب ہوابہرحال آداب سفر میں سب سے اولین ادب فرض نماز کی محافظت ہے۔ پس ہرمسلمان کی یہ عین سعادت مندی ہے کہ وہ سفر وحضر میں ہر جگہ نماز کو اس کے آداب و شرائط کے ساتھ بجا لائے، ساتھ ہی اسلام نے اس سلسلہ میں بہت سی آسانیاں بھی دیں تاکہ سفر وحضر میں ہر جگہ یہ فر ض آسانی سے ادا کیا جاسکے، مثلاً ہر نماز کے لیے وضو کرنا فرض ہے مگر پانی نہ ہو تو مٹی سے تیمم کیا جاسکتا ہے، مسلمانوں کے لیے ساری زمین کو قابل عبادت قرار دیا گیا کہ جہاں بھی نماز کا وقت آجائے وہ اسی جگہ نماز ادا کرسکیں حتی کہ دریاؤں میں، پہاڑوں کی چوٹیں پر، لق و دق بیابانوں میں، زمین کے چپہ چپہ پر نماز ادا کی جاسکتی ہے اور یہ بھی آسانی دی گئی جس پر مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب میں اشارہ فرمایا ہے کہ مسافر خواہ وہ حج ہی کے لیے کیوں نہ سفر کر رہا ہو دو دو نمازوں کو بیک وقت ملا کر ادا کرسکتا ہے جیسا کہ حدیث باب میں مذکور ہوا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی اہلیہ محترمہ کی بیماری کی خبر سنی تو سواری کو تیز کر دیا تاکہ جلد سے جلد گھر پہنچ کر مریضہ کی تیمارداری کرسکیں، نیز نماز مغرب اور عشاءکو جمع کرکے ادا کر لیا، ساتھ ہی یہ بھی بتلایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی سفر میں نمازوں کو اس طرح ملا کر ادا فرما لیا کرتے تھے۔ ایک ایسے دین میں جو تاقیامت عالمگیری شان کے ساتھ باقی رہنے کا دعوایدار ہو ایسی جملہ آسانیوں کا ہونا ضروری تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما محتاج تعارف نہیں ہیں۔ ان کی جلالت شان کے لیے یہی کافی ہے کہ فاروق اعظم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے صاحب زادے ہیں، آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت صفیہ بنت ابوعبید بنوثقیف سے تعلق رکھتی ہیں، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا اور آپ کے ارشاد طیبات سننے کا موقعہ ان کو بارہا ملا۔ آپ کی مرویات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے توسط سے ہیں، اور حضرت نافع جو حضرت عبداللہ بن عمر کے آزاد کردہ غلام ہیں، وہ ان سے روایت کرتے ہیں رضی اللہ عنہم۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : محرم کے روکے جانے اور شکار کا بدلہ دینے کے بیان میں

وقوله تعالى ‏{‏فإن أحصرتم فما استيسر من الهدى ولا تحلقوا رءوسكم حتى يبلغ الهدى محله‏}‏ وقال عطاء الإحصار من كل شىء يحبسه‏.‏ قال أبو عبد الله: {حصورا} /آل عمران: 39/: لا يأتي النساء.
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” پس تم اگر روک دیئے جاؤ تو جو قربانی میسر ہو وہ مکہ بھیجو اور اپنے سر اس وقت تک نہ منڈاؤ (یعنی احرام نہ کھولو، جب تک قربانی کا جانور اپنے ٹھکانے (یعنی مکہ پہنچ کر ذبح نہ ہوجائے ) اور عطاءبن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ جو چیز بھی روکے اس کا یہی حکم ہے۔

تشریح : لفظ محصر اسم مفعول کا صیغہ ہے جس کا مصدر احصار ہے جو لغت میں رکاوٹ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، وہ رکاوٹ مرض کی وجہ سے ہو یا دشمن کی وجہ سے۔ سفر حج میں اگر کسی کو کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے جیسا کہ حدیبیہ کے موقع پر مسلمانوں کو کعبہ میں جانے سے روک دیا گیا تھا۔ اس موقع پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی، ایسی حالت کے لیے یہ حکم بیان فرمایا گیا، بعض دفعہ دوران سفر میں موت بھی واقع ہوجاتی ہے ایسے حاجی صاحبان قیامت کے دن لبیک پکارتے ہوئے کھڑے ہوں گے اور عنداللہ ان کو حاجیوں کے زمرہ میں شامل کیا جائے گا۔ حضرت عطاءکا قول لانے سے امام بخاری کا مقصد ظاہر ہے کہ احصار عام ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علہ کا خیال صحیح نہیں، انہوں نے احصار کو دشمن کے ساتھ خاص کیا ہے، احصار یعنی دفعہ بیماری موت جیسے اہم حوادث کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : اگر عمرہ کرنے والے کو راستے میں روک دیا گیا تو وہ کیا کرے

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ان لوگوں پر رد کرنا ہے جو محصر کے لیے حلال ہونا حج کے ساتھ خاص کرتے ہیں، حدیث باب میں صاف موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کا احرام باندھا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں احصار کی وجہ سے ایسے کھول دیا۔

حدیث نمبر : 1806
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن نافع، أن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ حين خرج إلى مكة معتمرا في الفتنة قال إن صددت عن البيت صنعت كما صنعنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ فأهل بعمرة، من أجل أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان أهل بعمرة عام الحديبية‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فساد کے زمانہ یں عمرہ کرنے کے لیے جب مکہ جانے لگے تو آپ نے فرمایا کہ اگر مجھے کعبہ شریف پہنچنے سے روک دیا گیا تو میں بھی وہی کام کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم لوگوں نے کیا تھا، چنانچہ آپ نے بھی صرف عمرہ کا احرام باندھا کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حدیبیہ کے سال صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا۔

حدیث نمبر : 1807
حدثنا عبد الله بن محمد بن أسماء، حدثنا جويرية، عن نافع، أن عبيد الله بن عبد الله، وسالم بن عبد الله، أخبراه أنهما، كلما عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ ليالي نزل الجيش بابن الزبير فقالا لا يضرك أن لا تحج العام، وإنا نخاف أن يحال بينك وبين البيت‏.‏ فقال خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فحال كفار قريش دون البيت، فنحر النبي صلى الله عليه وسلم هديه، وحلق رأسه، وأشهدكم أني قد أوجبت العمرة، إن شاء الله أنطلق، فإن خلي بيني وبين البيت طفت، وإن حيل بيني وبينه فعلت كما فعل النبي صلى الله عليه وسلم وأنا معه‏.‏ فأهل بالعمرة من ذي الحليفة، ثم سار ساعة، ثم قال ‏"‏إنما شأنهما واحد، أشهدكم أني قد أوجبت حجة مع عمرتي‏"‏‏. ‏ فلم يحل منهما حتى حل يوم النحر، وأهدى، وكان يقول لا يحل حتى يطوف طوافا واحدا يوم يدخل مكة‏.‏
ہم سے عبداللہ بن محمد بن اسماءنے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ نے نافع سے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ اور سالم بن عبداللہ نے خبر دی کہ جن دنوں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما پر حجاج کی لشکر کشی ہو رہی تھی تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے لوگوں نے کہا (کیوں کہ آپ مکہ جانا چاہتے تھے ) کہ اگر آپ اس سال حج نہ کریں تو کوئی نقصان نہیں کیوں کہ ڈر اس کا ہے کہ کہیں آپ کو بیت اللہ پہنچنے سے روک نہ دیا جائے۔ آپ بولے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے تھے اور کفار قریش ہمارے بیت اللہ تک پہنچنے میں حائل ہو گئے تھے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قربانی نحر کی اور سر منڈالیا، عبداللہ نے کہا کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے بھی ان شاءاللہ عمرہ اپنے پر واجب قرار دے لیا ہے۔ میں ضرور جاؤں گا اور اگر مجھے بیت اللہ تک پہنچنے کا راستہ مل گیا تو طواف کروں گا، لیکن اگر مجھے روک دیا گیا تو میں بھی وہی کام کروں گا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، میں اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا چنانچہ آپ نے ذو الحلیفہ سے عمرہ کا احرام باندھا پھر تھوڑی دور چل کر فرمایا کہ حج اور عمرہ تو ایک ہیں، اب میں بھی تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرہ کے ساتھ حج بھی اپنے اوپر واجب قرار دے لیا ہے، آپ نے حج اور عمرہ دونوں سے ایک ساتھ فارغ ہو کر ہی دسویں ذی الحجہ کو احرام کھولا اور قربانی کی۔ آپ فرماتے تھے کہ جب تک حاجی مکہ پہنچ کر ایک طواف زیارت نہ کرلے پورا احرام نہ کھولنا چاہئے۔

حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما پر حجاج کی لشکر کشی اور اس سلسلہ میں بہت سے مسلمانوں کا خون ناحق حتی کہ کعبہ شریف کی بے حرمتی یہ اسلامی تاریخ کے وہ دردناک واقعات ہیں جن کے تصور سے آج بھی جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کا خمیازہ پوری امت آج تک بھگت رہی ہے، اللہ اہل اسلام کو سمجھ دے کہ وہ اس دور تاریک میں اتحاد باہمی سے کام لے کر دشمنان اسلام کا مقابلہ کریں، جن کی ریشہ دوانیوں نے آج بیت المقدس کو مسلمانوں کے ہاتھ سے نکال لیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہم انصر الاسلام و المسلمین آمین۔

حدیث نمبر : 1808
حدثني موسى بن إسماعيل، حدثنا جويرية، عن نافع، أن بعض بني عبد الله، قال له لو أقمت‏.‏ بهذا‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان، کہا ہم سے جویریہ نے بیان کیا ان سے نافع نے کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ کے کسی بیٹے نے ان سے کہا تھا کاش آپ اس سال رک جاتے (تو اچھا ہوتا ) اسی اوپر والے واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔

حدیث نمبر : 1809
حدثنا محمد، قال حدثنا يحيى بن صالح، حدثنا معاوية بن سلام، حدثنا يحيى بن أبي كثير، عن عكرمة، قال قال ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قد أحصر رسول الله صلى الله عليه وسلم فحلق رأسه وجامع نساءه، ونحر هديه، حتى اعتمر عاما قابلا‏.‏
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن صالح نے بیان کیا، ان سے معاویہ بن سلام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حدیبیہ کے سال مکہ جانے سے روک دیئے گئے تو آپ نے حدیبیہ ہی میں اپنا سر منڈایا اور ازواج مطہرات کے پاس گئے اور قربانی کو نحر کیا، پھر آئندہ سال ایک دوسرا عمرہ کیا۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلے عمرے کی قضاءکی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سال آئندہ دوسرا عمرہ کیا اور بعض نے کہا کہ احصار کی حالت میں اس حج یا عمرے کی قضا واجب ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمرہ اگلے عمرے کی قضا کا تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : حج سے روکے جانے کا بیان

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا احصار صرف عمرہ سے تھا، لیکن علماءنے حج کو بھی عمرہ پر قیاس کرلیا اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا یہی مطلب ہے کہ آپ نے جیسا عمرے سے احصار کی صورت میں عمل کیا تم حج سے احصار ہونے میں بھی اسی پر چلو۔

حدیث نمبر : 1810
حدثنا أحمد بن محمد، أخبرنا عبد الله، أخبرنا يونس، عن الزهري، قال أخبرني سالم، قال كان ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يقول أليس حسبكم سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، إن حبس أحدكم عن الحج طاف بالبيت وبالصفا والمروة، ثم حل من كل شىء، حتى يحج عاما قابلا، فيهدي أو يصوم، إن لم يجد هديا‏.‏ وعن عبد الله: أخبرنا معمر، عن الزهري قال: حدثني سالم، عن ابن عمر: نحوه.
ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا کہ ہم کو یونس نے خبر دی، ان سے زہری نے کہا کہ مجھے سالم نے خبر دی، کہا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کیا تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کافی نہیں ہے کہ اگر کسی کو حج سے روک دیا جائے تو ہوسکے تو وہ بیت اللہ کا طواف کر لے اور صفا اور مروہ کی سعی، پھر وہ ہر چیز سے حلال ہو جائے، یہاں تک کہ وہ دوسرے سال حج کرلے پھر قربانی کرے، اگر قربانی نہ ملے تو روزہ رکھے، عبداللہ سے روایت ہے کہ ہمیں معمر نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھ سے سالم نے بیان کیا، ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اسی پہلی روایت کی طرح بیان کیا۔

تشریح : بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے نزدیک حج یا عمرہ کے احرام میں شرط لگانا درست نہ تھا، شرط لگانا یہ ہے کہ احرام باندھتے وقت یوں کہہ لے کہ یا اللہ ! میں جہاں رک جاؤں تو میرا احرام وہیں کھولا جائے گا، جمہو رصحابہ اور تابعین نے اسے جائز رکھا ہے اور امام احمد اور اہل حدیث کا یہی قول ہے۔ ( وحیدی ) اور ایسی حالت میں مثال سامنے ہے آج بھی ایسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں پس شارع علیہ السلام کی سنت مستقبل میں آنے والی امت مسلمہ کے لیے اسوہ حسنہ ہے۔ احصار کی تفصیل ( پیچھے بھی گزر چکی ہے ) حضرت محمد بن شہاب زہری زہرہ بن کلاب کی طرف منسوب ہیں، کنیت ابوبکرہے، ان کا نام محمد ہے، عبداللہ بن شہاب کے بیٹے ہیں۔ یہ بڑے فقیہ اور محدث ہوئے ہیں اور تابعین سے بڑے جلیل القدر تابعی ہیں، مدینہ کے زبردست فقیہ اور عالم ہیں، علوم شریعت کے مختلف فنون میں ان کی طرف رجو ع کیا جاتا تھا۔ ان سے ایک بڑی جماعت روایت کرتی ہے جن میں سے قتادہ اور امام مالک بن انس ہیں، حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ان سے زیادہ عالم جو اس زمانہ میں گزرا ہے ان کے سوا اور کسی کو نہیں پاتا۔ مکحول سے دریافت کیا گیا کہ ان علماءمیں سے جن کو آپ نے دیکھا ہے کون زیادہ عالم ہے فرمایا کہ ابن شہاب ہیں، پھر دریافت کیا گیا کہ ان کے بعد کون ہے، فرمایا کہ ابن شہاب ہیں، پھر کہا گیا کہ ابن شہاب کے بعد، فرمایا کہ ابن شہاب ہی ہیں۔ 124ھ میں ماہ رمضان المبارک میں وفات پائی ، رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ ( امین
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : رک جانے کے وقت سر منڈانے سے پہلے قربانی کرنا

حدیث نمبر : 1811
حدثنا محمود، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن عروة، عن المسور ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نحر قبل أن يحلق، وأمر أصحابه بذلك‏.‏
ہم سے محمود نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی، کہا کہ ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ نے اور انہیں مسور رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صلح حدیبیہ کے موقع پر ) قربانی سر منڈانے سے پہلے کی تھی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب کو بھی اسی کا حکم دیا تھا۔

معلوم ہوا کہ پہلے قربانی کرنا پھر سر منڈانا ہی مسنون ترتیب ہے۔

حدیث نمبر : 1812
حدثنا محمد بن عبد الرحيم، أخبرنا أبو بدر، شجاع بن الوليد عن عمر بن محمد العمري، قال وحدث نافع، أن عبد الله، وسالما، كلما عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ فقال خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم معتمرين، فحال كفار قريش دون البيت، فنحر رسول الله صلى الله عليه وسلم بدنه، وحلق رأسه‏.‏
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو ابوبدر شجاع بن ولید نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم سے معمر بن محمد عمری نے بیان کیا اور ان سے نافع نے بیان کیا کہ عبداللہ اور سالم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے گفتگو کی، (کہ وہ اس سال مکہ نہ جائیں ) تو انہوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عمرہ کا احرام باندھ کر گئے تھے اور کفارقریش نے ہمیں بیت اللہ سے روک دیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قربانی کو نحر کیا اور سر منڈایا۔

اس حدیث سے جمہور علماءکے قول کی تائید ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ احصار کی صورت میں جہاں احرام کھولے وہیں قربانی کرلے خواہ حل میں ہو یا حرم میں، اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ قربانی حرم میں بھیج دی جائے اور جب وہاں ذبح ہولے تب احرام کھولے فقال الجمہور یذبح المحصر الہدی حیث یحل سواءکان فی الحل او فی الحرم الخ ( فتح ) یعنی جسے حج سے روک دیا جائے وہ جہاں احرام کھولے حل میں ہو یا حرم میں اسی جگہ قربانی کر ڈالے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ

باب : جس نے کہا کہ روکے گئے شخص پر قضا ضروری نہیں

ای قضاءلما احصر فیہ من حج او عمرۃ و ہذا ہو قول الجمہور ( فتح ) یعنی جب وہ حج یا عمرہ سے روک دیاگیا ہو اور جمہور کا قول یہی ہے جو حضرت امام بخاری کا فتوی ہے کہ محصر کے لیے قضاءضروری نہیں۔
وقال روح عن شبل، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ إنما البدل على من نقض حجه بالتلذذ، فأما من حبسه عذر، أو غير ذلك فإنه يحل ولا يرجع، وإن كان معه هدى وهو محصر نحره، إن كان لا يستطيع أن يبعث به، وإن استطاع أن يبعث به لم يحل، حتى يبلغ الهدى محله‏.‏ وقال مالك وغيره ينحر هديه، ويحلق في أى موضع كان، ولا قضاء عليه، لأن النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه بالحديبية نحروا وحلقوا وحلوا من كل شىء، قبل الطواف، وقبل أن يصل الهدى إلى البيت، ثم لم يذكر أن النبي صلى الله عليه وسلم أمر أحدا أن يقضوا شيئا، ولا يعودوا له، والحديبية خارج من الحرم‏.

اور روح نے کہا، ان سے شبل بن عیاد نے، ان سے ابن ابی نجیح نے، ان سے مجاہد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ قضاءاس صورت میں واجب ہوتی ہے جب کوئی حج میں اپنی بیوی سے جماع کرکے نیت حج کو توڑ ڈالے لیکن کوئی اور عذر پیش آگیا یا اس کے علاوہ کوئی بات ہوئی تو وہ حلال ہوتا ہے، قضا اس پر ضروری نہیں اور اگر ساتھ قربانی کا جانور تھا اور وہ محصر ہوا اور حرم میں اسے نہ بھیج سکا تو اسے نحر کردے، (جہاں پر بھی قیام ہو ) یہ اس صورت میں جب قربانی کا جانور (قربانی کی جگہ ) حرم شریف میں بھیجنے کی اسے طاقت نہ ہو لیکن اگر اس کی طاقت ہے تو جب تک قربانی وہاں ذبح نہ ہو جائے احرام نہیں کھول سکتا۔ امام مالک وغیرہ نے کہا کہ (محصر ) خواہ کہیں بھی ہو اپنی قربانی وہیں نحر کردے اورسر منڈالے۔ اس پر قضا بھی لازم نہیں کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضوان اللہ علیہم نے حدیبیہ میں بغیر طواف اور بغیر قربانی کے بیت اللہ تک پہنچے ہوئے نحر کیا اور سر منڈایا اور وہ ہر چیز سے حلال ہو گئے، پھر کوئی نہیں کہتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھی قضا کا یا کسی بھی چیز کے دہرانے کا حکم دیا ہو اور حدیبیہ حد حرم سے باہر ہے۔

تشریح : موطا میں امام مالک کی روایت یوں ہے : انہ بلغہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حل ہو اصحابہ بالحدیبیۃ فنحروا الہدی و حلقوا روسہم و حلوا من کل شی قبل ان یطوف بالبیت و قبل ان یصل الیہ الہدی ثم لم نعلم ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امر احدا من اصحابہ و لا ممن کان معہ ان یقضوا شیئا و لا ان یعودوا لشیی و سئل مالک عمن احصر بعدو فقال یحل من کل شیی و ینحر ہدیہ و یحلق راسہ حیث حبس و لیس علیہ قضاء ( فتح الباری ) یعنی ان کو یہ خبر ملی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کرام حدیبیہ میں حلال ہوگئے تھے پس انہوں نے اپنی قربانیوں کو نحر کر دیا اور سر منڈالیا اور وہ بیت اللہ کا طواف کرنے سے پہلے ہی ہر چیز سے حلال ہوگئے، اس سے بھی پہلے کہ کعبہ تک ان کی ہدی پہنچ سکے، پھر ہم نہیں جانتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کسی بھی صحابی کو کسی بھی چیز کے قضا کرنے کا حکم دیا ہو اور نہ کسی کام کے دوبارہ کرنے کا حکم دیا اور امام مالک رحمہ اللہ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا جو کسی دشمن کی طرف سے روک دیا جائے آپ نے فرمایا کہ وہ ہر چیز سے حلال ہوجائے اور اپنی قربانی کو نحر کردے اور سر منڈالے جہاں بھی اس کو روکا گیا ہے اس پر کوئی قضاءلازم نہیں۔ علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : قیل غرض المصنف بہذہ الترجمۃ الرد علی من قال التحلل بالاحصار خاص بالحاج بخلاف المعتمر فلا یتحلل بذلک بل یستمر علی احرامہ حتی یطوف بالبیت لان السنۃ کلہا وقت للعمرۃ فلا یخشی فواتہا بخلاف الحج الخ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض اس باب سے اس شخص کی تردید کرنی ہے جس نے کہا کہ روکنے کی صورت میں حلال ہونا حاجیوں کے ساتھ خاص ہے اور معتمر کے لیے یہ رحضت نہیں ہے پس وہ حلال نہ ہو بلکہ جب تک وہ بیت اللہ کا طواف نہ کرلے اپنی حالت پر قائم رہے اس لیے کہ سارے سال عمرہ کا وقت ہے اور حج کے خلاف عمرہ کے وقت کے فوت ہونے کا کوئی ڈر نہیں ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ قول صحیح نہیں ہے بلکہ صحیح یہی ہے کہ احصار کی صورت میں حاجی اور عمرہ کرنے والا سب کے لیے حلال ہونے کی اجازت ہے۔

حدیث نمبر : 1813
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن نافع، أن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال حين خرج إلى مكة معتمرا في الفتنة إن صددت عن البيت صنعنا كما صنعنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فأهل بعمرة، من أجل أن النبي صلى الله عليه وسلم كان أهل بعمرة عام الحديبية، ثم إن عبد الله بن عمر نظر في أمره فقال ما أمرهما إلا واحد‏.‏ فالتفت إلى أصحابه فقال ما أمرهما إلا واحد، أشهدكم أني قد أوجبت الحج مع العمرة، ثم طاف لهما طوافا واحدا، ورأى أن ذلك مجزيا عنه، وأهدى‏.‏
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا کہ فتنہ کے زمانہ میں جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مکہ کے ارادے سے چلے تو فرمایا کہ اگر مجھے بیت اللہ تک پہنچے سے روک دیا گیا تو میں بھی وہی کام کروں گا جو (حدیبیہ کے سال ) میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا۔ آپ نے عمرہ کا احرام باندھا کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حدیبیہ کے سال عمرہ ہی کا احرام باندھا تھا۔ پھر آپ نے کچھ غور کرکے فرمایا کہ عمرہ اور حج تو ایک ہی ہے، اس کے بعد اپنے ساتھیوں سے بھی یہی فرمایا کہ یہ دونوں تو ایک ہی ہیں۔ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ عمرہ کے ساتھ اب حج بھی اپنے لیے میں نے واجب قرار دیے لیا ہے پھر (مکہ پہنچ کر ) آپ نے دونوں کے لیے ایک ہی طواف کیا۔ آپ کا خیال تھا کہ یہ کافی ہے اور آپ قربانی کا جانور بھی ساتھ لے گئے تھے۔

جمہور علماءاور اہل حدیث کا یہی قول ہے کہ قارن کو ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی کافی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ اگر تم میں کوئی بیمار ہو یا اس کے سر میں (جوؤں کی ) کوئی تکلیف ہو تو اسے روزے یا صدقے یا قربانی کا فدیہ دینا چاہئے یعنی اسے اختیار ہے اور اگر روزہ رکھنا چاہے تو تین دن روزہ رکھے

حدیث نمبر : 1814
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن حميد بن قيس، عن مجاهد، عن عبد الرحمن بن أبي ليلى، عن كعب بن عجرة ـ رضى الله عنه ـ عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال ‏"‏لعلك آذاك هوامك‏"‏‏. ‏ قال نعم يا رسول الله‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏احلق رأسك وصم ثلاثة أيام، أو أطعم ستة مساكين، أو انسك بشاة‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں حمید بن قیس نے، انہیں مجاہد نے، انہیں عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے اور انہیں کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا، غالباً جوؤں سے تم کو تکلیف ہے، انہوں نے کہا کہ جی ہاں یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اپنا سر منڈالے اور تین دن کے روزے رکھ لے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے یا ایک بکری ذبح کر۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : اللہ تعالیٰ کا قول ” یا صدقہ “ (دیا جائے ) یہ صدقہ چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے

حدیث نمبر : 1815
حدثنا أبو نعيم، حدثنا سيف، قال حدثني مجاهد، قال سمعت عبد الرحمن بن أبي ليلى، أن كعب بن عجرة، حدثه قال وقف على رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحديبية، ورأسي يتهافت قملا فقال ‏"‏يؤذيك هوامك‏"‏‏. ‏ قلت نعم‏.‏ قال ‏"‏فاحلق رأسك ـ أو قال ـ احلق‏"‏‏. ‏ قال في نزلت هذه الآية ‏{‏فمن كان منكم مريضا أو به أذى من رأسه‏}‏ إلى آخرها‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏صم ثلاثة أيام، أو تصدق بفرق بين ستة، أو انسك بما تيسر‏"‏‏. ‏
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے مجاہد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے سنا، ان سے کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ میں میرے پاس آکر کھڑے ہوئے تو جوئیں میرے سر سے برابر گر رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جوئیں تو تمہارے لیے تکلیف دینے والی ہیں۔ میں نے کہا جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر سر منڈالے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف یہ لفظ فرمایا کہ منڈالے۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ آیت میرے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی کہ ” اگر تم میں کوئی مریض ہو یا اس کے سر میں میں کوئی تکلیف ہو “ آخر آیت تک، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین دن کے روزے رکھ لے یا ایک فرق غلہ سے چھ مسکینوں کو کھانا دے یا جو میسر ہو اس کی قربانی کردے۔

ایک فرق غلہ کا وزن تین صاع یا سولہ رطل ہوتا ہے، اس سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جو ایک صاع کا وزن آٹھ رطل بتلاتے ہیں۔ قربانی جو آسان ہو یعنی بکرا ہو اور کوئی جانور جو بھی آسانی سے مل سکے قربان کردو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : فدیہ میں ہر فقیر کو آدھا صاع غلہ دینا۔

حدیث نمبر : 1816
حدثنا أبو الوليد، حدثنا شعبة، عن عبد الرحمن بن الأصبهاني، عن عبد الله بن معقل، قال جلست إلى كعب بن عجرة ـ رضى الله عنه ـ فسألته عن الفدية، فقال نزلت في خاصة، وهى لكم عامة، حملت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم والقمل يتناثر على وجهي فقال ‏"‏ما كنت أرى الوجع بلغ بك ما أرى أو ما كنت أرى الجهد بلغ بك ما أرى، تجد شاة‏"‏‏. ‏ فقلت لا‏.‏ فقال ‏"‏فصم ثلاثة أيام، أو أطعم ستة مساكين، لكل مسكين نصف صاع‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن اصبہانی نے، ان سے عبداللہ بن معقل نے بیان کیا کہ میں کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، میں نے ان سے فدیہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ (قرآن شریف کی آیت ) اگرچہ خاص میرے بارے میں نازل ہوئی تھی لیکن اس کا حکم تم سب کے لیے ہے۔ ہوا یہ کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا تو جوئیں سر سے میرے چہرے پر گر رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ دیکھ کر فرمایا ) میں نہیں سمجھتا تھا کہ تمہیں اتنی زیادہ تکلیف ہوگی یا (آپ نے یوں فرمایا کہ ) میں نہیں سمجھتا تھا کہ جہد (مشقت ) تمہیں اس حد تک ہوگی، کیا تجھ کو ایک بکری کا مقدور ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تین دن کے روزے رکھ یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا، ہر مسکین کو آدھا صاع کھلائیو۔

تشریح : یہ بھی اسی صورت میں کہ میسر ہو ورنہ آیت کریمہ لا یکلف اللہ نفسا الا وسعہا ( البقرۃ : 286 ) کے تحت پھر تو توبہ استغفار بھی کفارہ ہو جائے گا، ہاں مقدور کی حالت میں ضرور ضرور حکم شرعی بجالانا ضروری ہوگا، ورنہ حج میں نقص رہنا یقینی ہے۔ حافظ فرماتے ہیں ای لکل مسکین من کل شیی یشیر بذلک الی الرد علی من فرق فی ذلک بین القمح و غیرہ قال ابن عبدالبر قال ابوحنیفۃ و الکوفیون نصف صاع من قمح و صاع من تمر و عن احمد روایۃ تضا ہی قولہم قال عیاض و ہذا الحدیث یرد علیہم ( فتح الباری ) و فی حدیث کعب بن عجرۃ من الفوائد ما تقدم ان السنۃ مبینۃ لمجل الکتاب لاطلاق الفدیۃ فی القرآن و تقییدہا فی السنۃ و تحریم حلق الراس علی المحرم و الرخصۃ فی حلقہا اذا اذاہ القمل او غیرہ من الاوجاع و فیہ تلطف الکبیر باصحابہ و عنایتہ باحوالہم و تفقدہ لہم و اذا رای ببعض اتباعہ ضررا سال عنہ و ارشدہ الی المخرج منہ یعنی ہر مسکین کے لیے ہر ایک چیز سے، اس میں اس شخص کے اوپر رد کرنا مقصو دہے جس نے اس بارے میں گندم وغیرہ کا فرق کیا ہے۔ ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور اہل کوفہ کہتے ہیں کہ گندم کا نصف صاع اور کھجور وں کا ایک صاع ہونا چاہئے۔ امام احمد کا قول بھی تقریباً اسی کے مشابہ ہے۔ قاضی عیاض نے فرمایا کہ حدیث کعب بن عجرہ ان کی تردید کر رہی ہے، اور اس حدیث کے فوائد میں سے یہ بھی ہے کہ قرآن کے کسی اجمالی حکم کی تفصیل سنت رسول بیان کرتی ہے۔ قرآن مجید میں مطلق فدیہ کا ذکر تھا تو سنت نے اسے مقید کر دیا اور اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ محرم کے لیے سر منڈانا حرام ہے اور جب اسے جوؤں وغیرہ کی تکلیف ہو تو وہ منڈا سکتا ہے اور اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ بڑے لوگوں کو ہمیشہ اپنے ساتھیوں پر نظر عنایت رکھتے ہوئے ان کے دکھ تکلیف کا خیال رکھنا چاہئے کسی کو کچھ بیماری وغیرہ ہو جائے تو اس کے علاج کے لیے ان کو نیک مشورہ دینا چاہئے۔
 
Top