• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : اس بیان میں کہ حرم شریف کے درخت نہ کاٹے جائیں

وقال ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏لا يعضد شوكه‏"‏‏. ‏
(اور ) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ حرم کے کانٹے نہ کاٹے جائیں

حدیث نمبر : 1832
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن سعيد بن أبي سعيد المقبري، عن أبي شريح العدوي، أنه قال لعمرو بن سعيد، وهو يبعث البعوث إلى مكة ائذن لي أيها الأمير أحدثك قولا قام به رسول الله صلى الله عليه وسلم للغد من يوم الفتح، فسمعته أذناى، ووعاه قلبي، وأبصرته عيناى حين تكلم به، إنه حمد الله، وأثنى عليه، ثم قال ‏"‏إن مكة حرمها الله ولم يحرمها الناس، فلا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما ولا يعضد بها شجرة، فإن أحد ترخص لقتال رسول الله صلى الله عليه وسلم فقولوا له إن الله أذن لرسوله صلى الله عليه وسلم ولم يأذن لكم، وإنما أذن لي ساعة من نهار، وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها بالأمس، وليبلغ الشاهد الغائب‏"‏‏. ‏ فقيل لأبي شريح ما قال لك عمرو قال أنا أعلم بذلك منك يا أبا شريح، إن الحرم لا يعيذ عاصيا، ولا فارا بدم، ولا فارا بخربة‏.‏ خربة بلية‏.‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید مقبری نے، ان سے ابوشریح عدوی رضی اللہ عنہ نے کہ جب عمرو بن سعید مکہ پر لشکر کشی کر رہا تھا تو انہوں نے کہا امیر اجازت دے تو میں ایک ایسی حدیث سناؤں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمائی تھی، اس حدیث مبارک کو میرے ان کانوں نے سنا، اور میرے دل نے پوری طرح اسے یاد کر لیا تھا اور جب آپ ارشاد فرما رہے تھے تو میری آنکھیں آپ کو دیکھ رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد اور اس کی ثنا بیان کی، پھر فرمایا کہ مکہ کی حرمت اللہ نے قائم کی ہے لوگوں نے نہیں ! اس لیے کسی ایسے شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو یہ جائز اور حلال نہیں کہ یہاں خون بہائے اور کوئی یہاں کا ایک درخت بھی نہ کاٹے لیکن اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتال (فتح مکہ کے موقع پر ) سے اس کا جواز نکالے تو اس سے یہ کہہ دو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے اجازت دی تھی، لیکن تمہیں اجازت نہیں ہے اور مجھے بھی تھوڑی سی دیر کے لیے اجازت ملی تھی پھر دوبارہ آج اس کی حرمت ایسی ہی قائم ہو گئی جیسے پہلے تھی اور ہاں جو موجود ہیں وہ غائب کو (اللہ کا یہ پیغام ) پہنچا دیں، ابوشریح سے کسی نے پوچھا کہ پھر عمرو بن سعید نے (یہ حدیث سن کر ) آپ کو کیا جواب دیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ عمرو نے کہا ابوشریح ! میں یہ حدیث تم سے بھی زیادہ جانتا ہوں مگر حرم کسی مجرم کو پناہ نہیں دیتا اور نہ خون کرکے اور نہ کسی جرم کرکے بھاگنے والے کو پناہ دیتا ہے۔ خربہ سے مراد خربہ بلیہ ہے۔

تشریح : حدیث ہذا میں عمرو بن سعید کی فوج کشی کا ذکر ہے جو خلافت اموی کا ایک حاکم تھا اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے مقابلہ پر مکہ شریف میں جنگ کرنے کے لیے فوج بھیج رہا تھا اس موقع پر کلمہ حق بلند کرنے کے لیے حضرت ابوشریح رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی کہ اسے سن کر شاید عمرو بن سعید اپنے اس اقدام سے رک جائے مگر وہ رکنے والا کہاں تھا۔ الٹا حدیث کی تاویل کرنے لگا اور الٹی سیدھی باتوں سے اپنے فعل کا جواز ثابت کرنے لگا جو سراسر اس کا فریب نفس تھا۔ آخر اس نے مکہ شریف پر فوج کشی کی اور حرمت کعبہ کو پامال کرکے رکھ دیا۔ ابوشریح نے اس لیے سکوت نہیں کیا کہ عمرو بن سعید کا جواب معقول تھا بلکہ اس کا جواب سراسر نامعقول تھا بحث تو یہ تھی کہ مکہ پر لشکر کشی اور جنگ جائز نہیں لیکن عمرو بن سعید نے دوسرا مسئلہ چھیڑدیا کہ کوئی حدی جرم کا مرتکب ہو کر حرم میں بھاگ جائے تو اس کو حرم میں پناہ نہیں ملتی۔ اس مسئلہ میں علماءکا اختلاف ہے مگر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے تو کوئی حدی جرم بھی نہیں کیا تھا۔

حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی کنیت ابوبکر ہے، یہ اسدی قریشی ہیں ان کی یہ کنیت ان کے نانا جان حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کنیت پر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی تھی۔ مدینہ میں مہاجرین میں یہ سب سے پہلے بچے تھے جو1ھ میں پیدا ہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے کان میں اذان کہی، مقام قبا میں پیدا ہوئے اور ان کی والدہ ماجدہ حضرت اسماءبنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دعائے برکت کے واسطے لے کر حاضر ہوئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی گود میں بٹھایا اور دہن مبارک میں ایک کھجور چپا کر اس کا لعاب ان کے منہ میں ڈالا اور ان کے تالو سے لگایا، گویا سب سے پہلے چیز جو ان کے پیٹ میں داخل ہوئی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب مبارک تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعاءبرکت فرمائی، بالغ ہونے پر یہ بہت ہی بھاری بھرکم بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ بکثر روزہ رکھنے والے، نوافل پڑھنے والے اور حق و صداقت کے علم بردار تھے، تعلقات اور رشتہ کے قائم رکھنے والے، لحاظ و مروت کے پیکر، مجسمہ اخلاق حسنہ تھے۔ ان کی خوبیوں میں سے یہ ہے کہ ان کی والدہ ماجدہ حضرت اسماءرضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں۔ ان کے نانا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ ان کی دادی صفیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سگی پھوپھی ہوئی ہیں اور حضرت عائشہ صدیقہ ان کی خالہ ہیں۔ آٹھ سال کی عمر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی۔ اس جنگ میں جس کا یہاں ذکر ہے حجاج بن یوسف نے ان کو مکہ شریف میں قتل کیا اور 17جمادی الثانی بروز منگل 73ھ میں ان کی لاش کو سولی پر لٹکایا، جس کے کچھ دنوں بعد حجاج بھی بڑی ذلت و خواری کی موت مرا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے لیے 64ھ میں بیعت لی گئی، جس پر بیشتر اہل حجاز، یمن، عراق اور خراسان والوں کا اتفاق تھا۔ حضرت عبداللہ نے اپنی عمر میں آٹھ مرتبہ حج کیا ان سے ایک بڑی جماعت روایت حدیث کرتی ہے۔ مختلف مسائل کا استنباط کے لیے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی جامع الصحیح میں بہت سے مقامات پر اس حدیث کو لائے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : حرم کے شکار ہانکے نہ جائیں

حدیث نمبر : 1833
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد الوهاب، حدثنا خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏إن الله حرم مكة، فلم تحل لأحد قبلي، ولا تحل لأحد بعدي، وإنما أحلت لي ساعة من نهار، لا يختلى خلاها، ولا يعضد شجرها، ولا ينفر صيدها، ولا تلتقط لقطتها إلا لمعرف‏"‏‏. ‏ وقال العباس يا رسول الله‏.‏ إلا الإذخر لصاغتنا وقبورنا‏.‏ فقال ‏"‏إلا الإذخر‏"‏‏. ‏ وعن خالد عن عكرمة قال هل تدري ما لا ينفر صيدها هو أن ينحيه من الظل، ينزل مكانه‏.
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اوران سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرمت والا بنایا ہے مجھ سے پہلے بھی یہ کسی کے لیے حلال نہیں تھا اس لیے میرے بعد بھی وہ کسی کے لیے حلال نہیں ہوگا۔ میرے لیے صرف ایک دن گھڑی بھر حلال ہوا تھا اس لیے اس کی گھاس نہ اکھاڑی جائے اور اس کے درخت نہ کاٹے جائیں، اس کے شکار نہ بھڑکائے جائیں اور نہ وہاں کی گری ہوئی چیز اٹھائی جائے۔ ہاں اعلان کرنے والا اٹھا سکتا ہے۔ (تاکہ اصل مالک تک پہنچا دے ) حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! اذخر کی اجازت دےجئے کیوں کہ یہ ہمارے سناروں اور ہماری قبروں کے لیے کام آتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اذخر کی اجازت ہے۔ خالد نے روایت کیا کہ عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ شکار کو نہ بھڑکانے سے کیا مراد ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ (اگر کہیں کوئی جانور سایہ میں بیٹھا ہوا ہے تو ) اسے سایہ سے بھگا کر خود وہاں قیام نہ کرے۔

معلوم ہوا کہ حرم محترم کا مقام یہ ہے کہ جس میں کسی جانور تک کو بھی ستانا، اس کو اس کے آرام کی جگہ سے اٹھا دینا، خود اس جگہ پر قبضہ کر لینا یہ جملہ امور حرم شریف کے آداب کے خلاف ہیں۔ ایام حج میں ہر حاجی کا فرض ہے کہ وہاں دوسرے بھائیوں کے آرام کا ہر وقت خیال رکھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : مکہ میں لڑنا جائز نہیں ہے

وقال أبو شريح ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏لا يسفك بها دما‏"‏‏. ‏
اور ابوشریح رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ وہاں خون نہ بہایا جائے۔

حدیث نمبر : 1834
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا جرير، عن منصور، عن مجاهد، عن طاوس، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم يوم افتتح مكة ‏"‏لا هجرة ولكن جهاد ونية، وإذا استنفرتم فانفروا، فإن هذا بلد حرم الله يوم خلق السموات والأرض، وهو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة، وإنه لم يحل القتال فيه لأحد قبلي، ولم يحل لي إلا ساعة من نهار، فهو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة، لا يعضد شوكه، ولا ينفر صيده، ولا يلتقط لقطته إلا من عرفها، ولا يختلى خلاها‏"‏‏. ‏ قال العباس يا رسول الله‏.‏ إلا الإذخر، فإنه لقينهم ولبيوتهم‏.‏ قال قال ‏"‏إلا الإذخر‏"‏‏. ‏
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے مجاہد نے، ان سے طاؤس نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا اب ہجرت فرض نہیں رہی لیکن (اچھی ) نیت اور جہاد اب بھی باقی ہے اس لیے جب تمہیں جہاد کے لیے بلایا جائے تو تیار ہو جانا۔ اس شہر (مکہ ) کو اللہ تعالیٰ نے اسی دن حرمت عطاءکی تھی جس دن اس نے آسمان اور زمین پیدا کئے، اس لیے یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حرمت کی وجہ سے محترم ہے یہاں کسی کے لیے بھی مجھ سے پہلے لڑائی جائز نہیں تھی اور مجھے بھی صرف ایک دن گھڑی بھر کے لیے (فتح مکہ کے دن اجازت ملی تھی ) اب ہمیشہ یہ شہر اللہ کی قائم کی ہوئی حرمت کی وجہ سے قیامت تک کے لیے حرمت والا ہے پس اس کا کانٹا کاٹا جائے نہ اس کے شکار ہانکے جائیں اور اس شخص کے سوا جو اعلان کرنے کا ارادہ رکھتا ہو کوئی یہاں کی گری ہوئی چیز نہ اٹھائے اور نہ یہاں کی گھاس اکھاڑی جائے۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ ! اذخر (ایک گھاس ) کی اجازت تو دیجئے کیوں کہ یہاں یہ کاری گروں اور گھروں کے لیے ضروری ہے تو آپ ے فرمایا کہ اذخر کی اجازت ہے۔

تشریح : عہد رسالت میں ہجر ت کا سلسلہ فتح مکہ پر ختم ہو گیا تھا کیوں کہ اب خود مکہ شریف ہی دار الاسلام بن گیا اور مسلمانوں کو آزادی سے رہنا نصیب ہو گیا لیکن یہ حکم قیامت تک کے لیے باقی ہے کہ کسی زمانہ میں کہیں بھی دار الحرب سے بوقت ضرورت مسلمان دار الاسلام کی طرف ہجرت کرسکتے ہیں۔ اس لیے فرمایا کہ اپنے دین ایمان کو بہرحال محفوظ رکھنے کے لیے حسن نیت رکھنا ہر زمانہ میں ہر وقت باقی ہے۔ ساتھ ہی سلسلہ جہاد بھی قیامت تک کے لیے باقی ہے جب بھی کسی جگہ کفر اور اسلام کی معرکہ آرائی ہو اور اسلامی سربراہ جہاد کے لیے اعلان کرے تو ہر مسلمان پر اس کے اعلان پر لبیک کہنا فرض ہو جاتا ہے، جب مکہ شریف فتح ہوا تو تھوڑی دیر کے لیے مدافعانہ جنگ کی اجازت ملی تھی، جو وہاں استحکام امن کے لیے ضروری تھی بعد میں وہ اجازت جلدی ہی ختم ہو گئی اور اب مکہ شریف میں جنگ کرنا ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔ مکہ سب کے لیے دار الامن ہے جو قیامت تک اسی حیثیت میں رہے گا۔

بکۃ مبارکہ :
روایت مذکورہ میں مقدس شہر کا ذکر ہے جسے قرآن مجید میں لفظ بکہ سے بھی یا دکیا گیا ہے اس سلسلہ کی کچھ تفصیلات ہم مولانا ابوالجلال صاحب ندوی کے قلم سے اپنے ناظرین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ مولانا ندوہ کے ان فضلاءمیں سے ہیں جن کو قدیم عبرانی و سریانی زبانوں پر عبور حاصل ہے اور اس موضوع پر ان کے متعدد علمی مقالات علمی رسائل میں شائع شدہ موجودہ ہیں ہم بکہ مبارکہ کے عنوان سے آپ کے ایک علمی مقالہ کا ایک حصہ معارف ص2 جلد نمبر6 سے اپنے قارئین کے سامنے رکھ رہے ہیں۔ امید ہے کہ اہل علم اسے بغور مطالعہ فرمائیں گے۔ صاحب مقالہ مرحوم ہو چکے ہیں اللہ ان کو جنت نصیب فرمائے آمین۔
توراۃ کے اند رمذکور ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کے حکم سے اپنا آبائی وطن چھوڑا تو ارض کنعان میں شکم کے مقام سے مورہ تک سفر کرتے رہے۔ ( تکوین 6112 ) شکم اسی مقام کا نام تھا جسے ان دنوں نابلس کہتے ہیں، مورہ کا مقام بحث طلب ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب سفر کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچے تو یہاں ان کو خدواند عالم کی تجلی نظر آئی۔ مقام تجلی پر انہوں نے خدا کے لیے ایک قربان گاہ بنائی ( تکوین 7:12 ) توراۃ کے بیان کے مطابق اس مقام کے علاوہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹوں پوتوں نے اور مقامات کو بھی عبادت گاہ مقرر کیا لیکن قدامت کے لحاظ سے اولین معبد یہی مور ہ کے پاس والا تھا۔ مورہ نام کے بائبل میں دو مقامات کا ذکر ہے ایک مورہ جلجال کے مقابل کنعانیوں کے سرزمین میں پردن کے پار مغرب جانب واقع تھا جہاں قاضی جدعون کے زمانہ میں بنواسرائیل اور بنو مدین سے جنگ ہوئی تھی۔ ( استشائ30:11 و قاصیون 10:7 )
دوسرے مورہ کا ذکر زبورمیں وارد ہے بائبل کے مترجموں نے اس مورہ کے ذکر کو پردہ خفا میں رکھنے کی انتہائی کوشش کی ہے لیکن حقیقت کا چھپانا نہایت ہی مشکل کام ہے حضرت داؤد علیہ السلام کے اشاروں کا اردو میں حسب ذیل ترجمہ کیا ہے :
”اے لشکروں کے خداوند ! تیرے مسکن کیا ہی دلکش ہیں، میری روح خداوند کے بارگاہوں کے لیے آرزو مند ہے، بلکہ گداز ہوتی ہے، میرا من اور تن زندہ خدا کے لیے للکارتا ہے، گورے نے بھی اپنی گھونسلا بنایا، اور ابابیل نے اپنا آشیانہ پایا جہاں وے اپنے بچے رکھیں، تیری قربان گاہوں کو اے لشکروں کے خدواند ! میرے بادشاہ میرے خدا۔ مبارک ہو وہ جو تیرے گھر میں بستے ہیں، وہ سدا تیری ستائش کرتے رہیں گے، سلاہ۔ مبارک ہیں وہ انسان جن کی قوت تجھ سے ہیں۔ ان کے دل میں تیری راہیں ہیں، وے بکا کی وادی میں گزرتے ہوئے اسے ایک کنواں بناتے ہیں، پہلی برسات اسے برکتوں سے ڈھانپ لیتی ہے۔ وہ قوت سے قوت تک ترقی کرتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ خدا کے آگے صیہون میں حاضر ہوتے ہیں۔ ( زبور نمبر 84 )
چھٹی اور ساتویں آیت کا ترجمہ انگریزی میں بھی تقریباً یہی کیا گیا ہے اور غالباً مترجمین نے ترجمہ میں ارادۃ غلطی سے کام لیا ہے، صحیح ترجمہ حسب دیل ہے :
عبری بعمق ہبکہ، معین بسیتوہو۔ گم برکوف یعطنہ مودہ، بلکو محیل ال حیل براءال الوہم یصیون۔ وہ بکہ کے بطحا میں چلتے ہیں، ایک کنویں کے پاس پھرتے ہیں، جمیع برکتیں، مورہ کی ڈھانپ لیتی ہیں، وہ قوت سے قوت تک چلتے ہیں، خدائے صیہون سے ڈرتے ہیں۔
مورہ درحقیقت وہی لفظ ہے، جسے قرآن کریم میں ہم بصورت مروہ پاتے ہیں۔ خدا نے فرمایا ان الصفا و المروۃ من شعائر اللہ یقینا صفا اور مروہ اللہ کے مشاعر میں سے ہیں۔
زبور نمبر84 سے ایک بیت اللہ، ایک کنویں، اور ایک مروہ کا وادی بکہ میں ہونا صراحت کے ساتھ ثابت ہے، اس سے خانہ کعبہ کی بڑی عظمت اور اہمیت ظاہر ہوتی ہے، ہمارے پادری صاحبان کے نزدیک مناسب نہیں ہے کہ لوگوں کے دلوں میں کعبہ کا احترام پیدا ہو، اس لیے انہوں نے زبور84 کے ترجمہ میں دانستہ غلطی سے کام لیا، بہرحال بائبل کے اندر مورہ نام کے دو مقامات کا ذکر ہے، جن میں سے ایک جلجال کے پاس یعنی ارض فسلطین میں تھا اور ایک وادی بکہ میں ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پہلا معبد کس مورہ کے پاس تھا۔ 9ھ میں نجران کے نصرانیوں کا ایک وفد مدینہ منورہ آیا، ان نصرانیوں نے جیسا کہ سورۃ آل عمران کی بہت سی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے، یہود مسلمانوں اور مشرکین کے ساتھ مذہبی بحثیں کی تھیں، ان بحثوں کے درمیان یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ ملت ابراہیم کا اولین معبد کون تھا، اس کے جواب میں خدا نے ارشاد فرمایا ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبرکا و ہدی للعلمین۔ فیہ ایت بینت مقام ابراہیم و من دخلہ کان امنا و للہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا و من کفر فان اللہ غنی عن العلمین ( آل عمران : 196 ) بلاشبہ پہلا خانہ خدا جو لوگوں کے لیے بنایا گیا وہی ہے، جو بکہ میں واقع ہے، مبارک ہے اور سارے لوگوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے، اس میں کھلی نشانیاں ہیں، یعنی مقام ابراہیم ہے۔ جو اس میں داخل ہوا اس نے امان پائی اور لوگوں پر اللہ کے لیے اس گھر کا حج فرض ہے بشرطیکہ راستہ چلنا ممکن ہو، اور اگر کوئی کافر کہا نہیں مانتا، یاد رہے اللہ سارے جہاں سے بے نیاز ہے۔

جلجال کے قریب جو مورہ تھا اس کے پاس کسی مقدس معبد کا پوری تاریخ یہود کے کسی عہد میں سراغ نہیں ملتا، اس لیے یقینی طور پر ملت ابراہیم کا پہلا معبد وہی ہے جس کا ذکر زبور میں ہے اور یہی خانہ کعبہ ہے۔
خانہ کعبہ جس شہر یا علاقہ میں واقع ہے اس کا معروف ترین نام بکہ نہیں بلکہ مکہ ہے، قرآن پاک میں ایک جگہ مکہ کے نام سے بھی اس کا ذکر آیا ہے، زیر بحث آیت میں شہر کے معروف تر نام کی جگہ غیر مشہور نام کو ترجیح دی گئی ہے، اس کی دو وجہیں ہیں ایک یہ کہ اہل کتاب کو یہ بتانا مقصود تھا کہ وہ مورہ جس کے پاس توراۃ کے اندر مذکور معبد اول کو ہونا چاہئے، جلجال کے پاس نہیں، بلکہ اس وادی بکہ میں واقع ہے، جس کا زبور میں ذکر ہے، دوسری یہ ہے کہ مکہ دراصل بکہ کے نام کی بدلی ہوئی صورت ہے، تحریری نام اس شہر کا بکہ تھا، لیکن عوام کی زبان نے اسے مکہ بنادیا۔
سب سے قدیم نوشتہ جس میں ہم کو ”مکہ“ کا نام ملتا ہے وہ قرآن مجید ہے لیکن بکہ کا نام قرآن سے پیشتر زبور میں ملتا ہے، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف جب 35 برس کی تھی تو قریش نے خانہ کعبہ کی دوبارہ تعمیر کی، اس زمانہ میں خانہ کعبہ کی بنیاد کے اندر سے چند پتھر ملے، جن پر کچھ عبارتیں منقوش تھیں، قریش نے یمن سے ایک یہودی اور ایک نصرانی راہب کو بلا کر وہ تحریریں پڑھوایں ایک پتھر کے پہلو پر لکھا ہوا تھا کہ انا للہ ذوبکۃ میں ہوں اللہ بکہ کا حاکم، حفظتہا بسبعۃ املاک حنفاء میں نے اس کی حفاظت کی سات خدا پرست فرشتوںسے، بارکت لاہلہا فی الماءو اللحم اس کے باشندوں کے لیے پانی اور گوشت میں برکت دی مختلف روایات میں کچھ اور الفاظ بھی ہیں لیکن ہم نے جتنے الفاظ نقل کئے ہیں ان پر سب روایتوں کا اتفاق ہے، روایات کے مطابق یہ نوشتہ کعبہ کی بنائے ابراہیم کے اندر ملا تھا۔ سچ ہے

یہی گھر ہے کہ جس میں شوکت اسلام پنہاں ہے
اسی سے صاحب فاران کی عظمت نمایاں ہے

راز
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : محرم کا پچھنا لگوانا کیسا ہے؟

وكوى ابن عمر ابنه وهو محرم‏.‏ ويتداوى ما لم يكن فيه طيب‏.‏
اور محرم ہونے کے باوجود ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے لڑکے کے داغ لگایا تھا اور ایسی دوا جس میں خوشبو نہ ہو اسے محرم استعمال کرسکتا ہے

اس لڑکے کا نام واقد تھا۔ اس کو سعید بن منصور نے مجاہد کے طریق سے وصل کیا۔ دوا والا جملہ حضرت امام بخاری کا کلام ہے، ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اثر میں داخل نہیں ہے۔

حدیث نمبر : 1835
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال قال عمرو أول شىء سمعت عطاء، يقول سمعت ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ يقول احتجم رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو محرم‏.‏ ثم سمعته يقول حدثني طاوس عن ابن عباس فقلت لعله سمعه منهما‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ عمرو بن دینار نے بیان کیا پہلی بات میں نے جو عطاءبن ابی رباح سے سنی تھی، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب محرم تھے اس وقت آپ نے پچھنا لگوایا تھا۔ پھر میں نے انہیں یہ کہتے سنا کہ مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے طاؤس نے یہ حدیث بیان کی تھی۔ اس سے میں نے یہ سمجھا کہ شاید انہوں نے ان دونوں حضرات سے یہ حدیث سنی ہو گی (متکلم عمرو ہیں اور دونوں حضرات سے مراد عطاءاور طاؤس رحمۃ اللہ علیہما ہیں۔ )

حدیث نمبر : 1836
حدثنا خالد بن مخلد، حدثنا سليمان بن بلال، عن علقمة بن أبي علقمة، عن عبد الرحمن الأعرج، عن ابن بحينة ـ رضى الله عنه ـ قال احتجم النبي صلى الله عليه وسلم وهو محرم بلحى جمل في وسط رأسه‏.
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا کہ ان سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے علقمہ بن ابی علقمہ نے، ان سے عبدالرحمن اعرج نے اور ان سے ابن عیینہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم محرم تھے اپنے سرکے بیچ میں مقام لحی جمل میں میں پچھنا لگوایا تھا۔

یہ مقام مکہ اور مدینہ کے بیچ میں ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بوقت ضرورت محرم پچھنا لگوا سکتا ہے مروجہ اعمال جراحی کو بھی بوقت ضرورت شدید اسی پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : محرم نکاح کرسکتا ہے

حدیث نمبر : 1837
حدثنا أبو المغيرة عبد القدوس بن الحجاج، حدثنا الأوزاعي، حدثني عطاء بن أبي رباح، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم تزوج ميمونة وهو محرم‏.
ہم سے ابوالمغیرہ عبدالقدوس بن حجاج نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اوزاعی نے بیان کیا، ان سے عطاءبن ابی رباح نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو آپ محرم تھے۔

تشریح : شاید امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلہ میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور اہل کوفہ سے متفق ہیں کہ محرم کے لیے عقد نکاح کرنا درست ہے، لیکن مجامعت بالاتفاق درست نہیں ہے۔ اور جمہور علماءکے نزدیک نکاح بھی احرام میں جائز نہیں۔ امام مسلم نے حضرت عثمان سے مرفوعاً نکالا ہے کہ محرم نہ نکاح کرے اپنا نہ دوسرا کوئی اس کا نکاح کرے نہ نکاح کا پیام دے۔ امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ محرم کو جماع کے لیے لونڈی خریدنا درست ہے تو نکاح بھی درست ہوگا۔ حافظ نے کہا یہ قیاس بھی جو خلاف نص کے ہے قابل قبول نہیں۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : احرام والے مرد اور عورت کو خوشبو لگانا منع ہے

وقالت عائشة ـ رضى الله عنها ـ لا تلبس المحرمة ثوبا بورس أو زعفران‏.‏
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ محرم عورت ورس یا زعفران میں رنگا ہوا کپڑا نہ پہنے۔

حدیث نمبر : 1838
حدثنا عبد الله بن يزيد، حدثنا الليث، حدثنا نافع، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال قام رجل فقال يا رسول الله ماذا تأمرنا أن نلبس من الثياب في الإحرام فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏لا تلبسوا القميص ولا السراويلات ولا العمائم، ولا البرانس إلا أن يكون أحد ليست له نعلان، فليلبس الخفين، وليقطع أسفل من الكعبين، ولا تلبسوا شيئا مسه زعفران، ولا الورس، ولا تنتقب المرأة المحرمة ولا تلبس القفازين‏"‏‏. ‏ تابعه موسى بن عقبة وإسماعيل بن إبراهيم بن عقبة وجويرية وابن إسحاق في النقاب والقفازين‏.‏ وقال عبيد الله ولا ورس وكان يقول لا تتنقب المحرمة، ولا تلبس القفازين‏.‏ وقال مالك عن نافع عن ابن عمر لا تتنقب المحرمة‏.‏ وتابعه ليث بن أبي سليم‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یزید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! حالت احرام میں ہمیں کون سے کپڑے پہننے کی اجازت دیتے ہیں؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ قمیص پہنو نہ پاجامے، نہ عمامے اور نہ برنس۔ اگر کسی کے جوتے نہ ہوں تو موزوں کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ کر پہن لے۔ اسی طرح کوئی ایسا لباس نہ پہنو جس میں زعفران یا ورس لگا ہو۔ احرام کی حالت میں عورتیں منہ پر نقاب نہ ڈالیں اور دستانے بھی نہ پہنیں۔ لیث کے ساتھ اس روایت کی متابعت موسیٰ بن عقبہ اور اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ اور جویریہ اور ابن اسحاق نے نقاب اور دستانوں کے ذکر کے سلسلے میں کی ہے۔ عبیداللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ” ولاورس “ کا لفظ بیان کیا وہ کہتے تھے کہ احرام کی حالت میں عورت منہ پر نہ نقاب ڈالے اور نہ دستانے استعمال کرے اور امام مالک نے نافع سے بیان کیا اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا کہ احرام کی حالت میں عورت نقاب نہ ڈالے اور لیث بن ابی سلیم نے مالک کی طرح روایت کی ہے۔

تشریح : باب میں خوشبو لگانے کی ممانعت کا ذکر تھا مگر حدیث میں اور بھی بہت سے مسائل کا ذکر موجود ہے، احرام کی حالت میں سلا ہوا لباس منع ہے اور عورتوں کے لیے منہ پر نقاب ڈالنا بھی منع ہے، ان کو چاہئے کہ اس حالت میں اور بھی زیادہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں حیا و شرم و خوف خدا و آداب حج کا پورا پورا خیال رکھیں۔ مردوں کے لیے بھی یہی سب امور ضروری ہیں۔ حیا شرم ملحوظ نہ رہے تو حج الٹا وبال جان بن سکتا ہے۔ آج کل کچھ لوگ عورتوں کے منہ پر پنکھوں کی شکل میں نقاب ڈالتے ہیں، یہ تکلیف بالکل غیر شرعی ہے، احکام شرع پر بلاچون و چرا عمل ضروری ہے۔

حدیث نمبر : 1839
حدثنا قتيبة، حدثنا جرير، عن منصور، عن الحكم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال وقصت برجل محرم ناقته، فقتلته، فأتي به رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏اغسلوه، وكفنوه، ولا تغطوا رأسه، ولا تقربوه طيبا، فإنه يبعث يهل‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے حکم نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک محرم شخص کے اونٹ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اس کی گردن (گراکر ) توڑ دی اور اسے جان سے مار دیا، اس شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایا گیا تو آپ نے فرمایا کہ انہیں غسل اور کفن دے دو لیکن ان کا سر نہ ڈھکو اور نہ خوشبو لگاؤ کیوں کہ (قیامت میں ) یہ لبیک کہتے ہوئے اٹھے گا۔

مطلب یہ ہے کہ اس کا احرام باقی ہے۔ دوسری راویت میں ہے کہ اس کا منہ نہ ڈھانکو، حافظ نے کہا مجھے اس شخص کا نام نہیں معلوم ہوا، اس بارے میں کوئی مستند روایت نہیں ملی، اس سے بھی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ثابت فرمایا کہ محرم کو خوشبو لگانا منع ہے کیوں کہ آپ نے مرنے والے کو محرم گردان کر اس کے جسم پر خوشبو لگانے سے منع فرمایا۔ حدیث سے عمل حج کی اہمیت بھی ثابت ہوئی کہ ایسا شخص روز قیامت میں حاجی ہی کی شکل میں پیش ہوگا بشرطیکہ اس کا حج عنداللہ مقبول ہوا ہو اور جملہ آداب و شرائط کو سامنے رکھ کر ادا کیا گیا ہو۔ حدیث سے اونٹ کی فطری طینت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ اپنے مالک سے اگر یہ جانور خفا ہو جائے تو موقع پانے پر اسے ہلاک کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے اگرچہ اس جانور میں بہت سی خوبیاں بھی ہیں مگر اس کی کینہ پروری بھی مشہور ہے قرآن مجید میں اللہ نے اونٹ کا بھی ذکر فرمایا ہے الی الابل کیف خلقت ( الغاشیہ : 17 ) یعنی اونٹ کی طرف دیکھو وہ کس طرح پیدا کیا گیا ہے اس کے جسم کا ہر حصہ شان قدرت کا ایک بہترین نمونہ ہے، اللہ نے اسے ریگستان کا جہاز بنایا ہے۔ جہاںاور سب گھبرا جاتے ہیں مگر یہ ریگستانوں میں خوب جھوم جھوم کر سفر طے کرتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : محرم کو غسل کرنا کیسا ہے؟

وقال ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ يدخل المحرم الحمام‏.‏ ولم ير ابن عمر وعائشة بالحك بأسا‏.‏
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ محرم (غسل کے لیے ) حمام میں جاسکتا ہے۔ ابن عمر اور عائشہ رضی اللہ عنہم بدن کو کھجانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔

ابن منذر نے کہا محرم کو غسل جنابت بالاجماع درست ہے لیکن غسل صفائی اور پاکیزگی میں اختلاف ہے امام مالک نے اس کو مکروہ جانا ہے کہ محرم اپنا سر پانی میں ڈبائے اور موطا میں نافع سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما احرام کی حالت میں اپنا سرنہیں دھوتے تھے، لیکن جب احتلام ہوتا تو دھوتے۔

حدیث نمبر : 1840
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن زيد بن أسلم، عن إبراهيم بن عبد الله بن حنين، عن أبيه، أن عبد الله بن العباس، والمسور بن مخرمة، اختلفا بالأبواء، فقال عبد الله بن عباس يغسل المحرم رأسه‏.‏ وقال المسور لا يغسل المحرم رأسه‏.‏ فأرسلني عبد الله بن العباس إلى أبي أيوب الأنصاري، فوجدته يغتسل بين القرنين، وهو يستر بثوب، فسلمت عليه فقال من هذا فقلت أنا عبد الله بن حنين، أرسلني إليك عبد الله بن العباس، أسألك كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يغسل رأسه، وهو محرم، فوضع أبو أيوب يده على الثوب، فطأطأه حتى بدا لي رأسه ثم قال لإنسان يصب عليه اصبب‏.‏ فصب على رأسه، ثم حرك رأسه بيديه فأقبل بهما وأدبر وقال هكذا رأيته صلى الله عليه وسلم يفعل‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں زید بن اسلم نے، انہیں ابراہیم بن عبداللہ بن حنین نے، انہیں ان کے والد نے کہ عبداللہ بن عباس اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہم کا مقام ابواءمیں (ایک مسئلہ پر ) اختلاف ہوا۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھے ابوایوب رضی اللہ عنہ کے یہاں (مسئلہ پوچھنے کے لیے ) بھیجا، میں جب ان کی خدمت میں پہنچا تو وہ کنوئیں کے دو لکڑیوں کے بیچ غسل کر رہے تھے، ایک کپڑے سے انہوں نے پردہ کر رکھا تھا میں نے پہنچ کر سلام کیا تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ کون ہو؟ میں نے عرض کی کہ میں عبداللہ بن حنین ہوں، آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں مجھے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بھیجا ہے یہ دریافت کرنے کے لیے کہ احرام کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سر مبارک کس طرح دھوتے تھے۔ یہ سن کر انہوں نے کپڑے پر (جس سے پردہ تھا ) ہاتھ رکھ کراسے نیچے کیا۔ اب آپ کا سر دکھائی دے رہا تھا، جو شخص ان کے بدن پر پانی ڈال رہا تھا، اس سے انہوں نے پانی ڈالنے کے لیے کہا۔ اس نے ان کے سر پر پانی ڈالا، پھر انہوں نے اپنے سر کو دونوں ہاتھ سے ہلایا اور دونوں ہاتھ آگے لے گئے اور پھر پیچھے لائے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (احرام کی حالت میں ) اسی طرح کرتے دیکھا تھا۔

تشریح : حافظ ابن حجر فرماتے ہیں و فی الحدیث من الفوائد مناظرۃ الصحابۃ فی الاحکام و رجوعہم الی النصوص و قبولہم لخبر الواحد و لو کان تابعیا و ان قول بعضہم لیس بحجۃ علی بعض الخ یعنی اس حدیث کے فوائد میں سے صحابہ کرام کا باہمی طور پر مسائل احکام سے متعلق مناظرہ کرنا، پھر نص کی طرف رجوع کرنا اور ان کا خبر واحد کو قبول کرلینا بھی ہے اگرچہ وہ تابعی ہی کیوں نہ ہو اوریہ اس حدیث کے فوائد میں سے ہے کہ ان کے بعض کا کوئی محض قول بعض کے لیے حجت نہیں گردانا جاتا تھا۔ انہیں سطروں کو لکھتے وقت ایک صاحب جو دیوبند مسلک رکھتے ہیں ان کا مضمون پڑھ رہا ہوں جنہوں نے بزور قلم ثابت فرمایا کہ صحابہ کرام تقلید شخصی کیا کرتے تھے، لہٰذا تقلیدشخصی کا جواز بلکہ وجوب ثابت ہوا۔ اس دعویٰ پر انہوں نے جو دلائل واقعات کی شکل میں پیش فرمائے ہیں وہ متنازعہ تقلید شخصی کی تعریف میں بالکل نہیں آتے مگر تقلید شخصی کے اس حامی بزرگ کو قدم قدم پر یہی نظر آرہا ہے کہ تقلید شخصی صحابہ میں عام طور پر مروج تھی۔ حافظ ابن حجر کا مذکورہ بیان ایسے کمزور دلائل کے جواب کے لیے کافی وافی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : محرم کو جب جوتیاں نہ ملیں تو وہ موزے پہن سکتا ہے

حدیث نمبر : 1841
حدثنا أبو الوليد، حدثنا شعبة، قال أخبرني عمرو بن دينار، سمعت جابر بن زيد، سمعت ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يخطب بعرفات ‏"‏من لم يجد النعلين فليلبس الخفين، ومن لم يجد إزارا فليلبس سراويل‏"‏‏. ‏ للمحرم‏.‏
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی، انہوں نے جابر بن زید سے سنا، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، آپ نے کہا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عرفات میں خطبہ دیتے سنا تھا کہ جس کے پاس احرام میں جوتے نہ ہوں وہ موزے پہن لے اور جس کے پاس تہبند نہ ہو وہ پاجامہ پہن لے۔

امام احمد نے اس حدیث کے ظاہر پر عمل کرکے حکم دیا ہے کہ جس محرم کو تہبند نہ ملے وہ پاجامہ اور جس کو جوتے نہ ملیں وہ موزہ پہن لے اورپاجامہ کا پھاڑنا اورموزوں کا کانٹا ضروری نہیں۔ اور جمہور علماءکے نزدیک ضروری ہے کہ اگر اسی طرح پہن لے گا، تو اس پر فدیہ لازم ہوگا۔ یہاں جمہور کا یہ فتویٰ محض قیاس پر مبنی ہے جو حجت نہیں۔

حدیث نمبر : 1842
حدثنا أحمد بن يونس، حدثنا إبراهيم بن سعد، حدثنا ابن شهاب، عن سالم، عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم ما يلبس المحرم من الثياب فقال ‏"‏لا يلبس القميص، ولا العمائم، ولا السراويلات، ولا البرنس، ولا ثوبا مسه زعفران ولا ورس، وإن لم يجد نعلين فليلبس الخفين، وليقطعهما حتى يكونا أسفل من الكعبين‏"‏‏. ‏
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے سالم نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ محرم کون سے کپڑے پہن سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قمیص، عمامہ، پاجامہ اور برنس (کن ٹوپ یا باران کوٹ ) نہ پہنے اور نہ کوئی ایسا کپڑا پہنے جس میں زعفران یا ورس لگی ہو اور اگر جوتیاں نہ ہوں تو موزے پہن لے، البتہ اس طرح کاٹ لے کہ ٹخنوں سے نیچے ہو جائیں۔

ان جملہ لباس کو چھوڑ کر صرف سیدھی سادھی دو سفید چادریں ہونی ضروری ہیں جن میں سے ایک تہبند ہو اور ایک کرتے کی جگہ ہو کیوں کہ حج میں اللہ پاک کو یہی فقیرانہ ادا پسند ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : جس کے پاس تہبند نہ ہو تووہ پاجامہ پہن سکتا ہے

حدیث نمبر : 1843
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا عمرو بن دينار، عن جابر بن زيد، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال خطبنا النبي صلى الله عليه وسلم بعرفات فقال ‏"‏من لم يجد الإزار فليلبس السراويل، ومن لم يجد النعلين فليلبس الخفين‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، ان سے جابر بن زید نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو میدان عرفات میں وعظ سنایا، اس میں آپ نے فرمایا کہ اگر کسی کو احرام کے لیے تہبند نہ ملے تو وہ پاجامہ پہن لے اور اگر کسی کو جوتے نہ ملیں تو وہ موزے پہن لے۔

مطلب آپ کا یہ تھا کہ احرام میں تہ بند کا ہونا اور پیروں میں جوتیوں کا ہونا ہی مناسب ہے، لیکن اگر کسی کو یہ چیزیں میسر نہ ہوں تو مجبوراً پاجامہ اور موزے پہن سکتا ہے کیوں کہ اسلام میں ہر ہر قدم پر آسانیوں کو ملحوظ رکھا گیاہے، امام احمد نے اسی حدیث کے ظاہر پر فتویٰ دیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : محرم کا ہتھیار بند ہونا درست ہے

وقال عكرمة إذا خشي العدو لبس السلاح وافتدى‏.‏ ولم يتابع عليه في الفدية‏.
عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اگر دشمن کا خوف ہو اور کوئی ہتھیار باندھے تو اسے فدیہ دینا چاہئے لیکن عکرمہ کے سوا اور کسی نے یہ نہیں کہا کہ فدیہ دے۔

حافظ نے کہا عکرمہ کا یہ اثر مجھ کو موصولاً نہیں ملا۔ ابن منذر نے حسن بصری سے نقل کیا انہوں نے محرم کو تلوار باندھنا مکروہ سمجھا۔ ہتھیار بند ہونا اسی وقت درست ہے جب کسی دشمن کا خوف ہو جیسا کہ باب سے ظاہر ہے۔

حدیث نمبر : 1844
حدثنا عبيد الله، عن إسرائيل، عن أبي إسحاق، عن البراء ـ رضى الله عنه ـ اعتمر النبي صلى الله عليه وسلم في ذي القعدة، فأبى أهل مكة أن يدعوه يدخل مكة، حتى قاضاهم لا يدخل مكة سلاحا إلا في القراب‏.‏
ہم سے عبیداللہ بن موصلی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اسرائیل نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابواسحاق نے بیان کیااور ان سے براءرضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قعدہ میں عمرہ کیا تو مکہ والوں نے آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا، پھر ان سے اس شرط پر صلح ہوئی کہ ہتھیار نیام میں ڈال کر مکہ میں داخل ہوں گے۔
 
Top