Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : اس بیان میں کہ حرم شریف کے درخت نہ کاٹے جائیں
وقال ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم "لا يعضد شوكه".
(اور ) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ حرم کے کانٹے نہ کاٹے جائیں
حدیث نمبر : 1832
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن سعيد بن أبي سعيد المقبري، عن أبي شريح العدوي، أنه قال لعمرو بن سعيد، وهو يبعث البعوث إلى مكة ائذن لي أيها الأمير أحدثك قولا قام به رسول الله صلى الله عليه وسلم للغد من يوم الفتح، فسمعته أذناى، ووعاه قلبي، وأبصرته عيناى حين تكلم به، إنه حمد الله، وأثنى عليه، ثم قال "إن مكة حرمها الله ولم يحرمها الناس، فلا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما ولا يعضد بها شجرة، فإن أحد ترخص لقتال رسول الله صلى الله عليه وسلم فقولوا له إن الله أذن لرسوله صلى الله عليه وسلم ولم يأذن لكم، وإنما أذن لي ساعة من نهار، وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها بالأمس، وليبلغ الشاهد الغائب". فقيل لأبي شريح ما قال لك عمرو قال أنا أعلم بذلك منك يا أبا شريح، إن الحرم لا يعيذ عاصيا، ولا فارا بدم، ولا فارا بخربة. خربة بلية.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید مقبری نے، ان سے ابوشریح عدوی رضی اللہ عنہ نے کہ جب عمرو بن سعید مکہ پر لشکر کشی کر رہا تھا تو انہوں نے کہا امیر اجازت دے تو میں ایک ایسی حدیث سناؤں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمائی تھی، اس حدیث مبارک کو میرے ان کانوں نے سنا، اور میرے دل نے پوری طرح اسے یاد کر لیا تھا اور جب آپ ارشاد فرما رہے تھے تو میری آنکھیں آپ کو دیکھ رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد اور اس کی ثنا بیان کی، پھر فرمایا کہ مکہ کی حرمت اللہ نے قائم کی ہے لوگوں نے نہیں ! اس لیے کسی ایسے شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو یہ جائز اور حلال نہیں کہ یہاں خون بہائے اور کوئی یہاں کا ایک درخت بھی نہ کاٹے لیکن اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتال (فتح مکہ کے موقع پر ) سے اس کا جواز نکالے تو اس سے یہ کہہ دو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے اجازت دی تھی، لیکن تمہیں اجازت نہیں ہے اور مجھے بھی تھوڑی سی دیر کے لیے اجازت ملی تھی پھر دوبارہ آج اس کی حرمت ایسی ہی قائم ہو گئی جیسے پہلے تھی اور ہاں جو موجود ہیں وہ غائب کو (اللہ کا یہ پیغام ) پہنچا دیں، ابوشریح سے کسی نے پوچھا کہ پھر عمرو بن سعید نے (یہ حدیث سن کر ) آپ کو کیا جواب دیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ عمرو نے کہا ابوشریح ! میں یہ حدیث تم سے بھی زیادہ جانتا ہوں مگر حرم کسی مجرم کو پناہ نہیں دیتا اور نہ خون کرکے اور نہ کسی جرم کرکے بھاگنے والے کو پناہ دیتا ہے۔ خربہ سے مراد خربہ بلیہ ہے۔
تشریح : حدیث ہذا میں عمرو بن سعید کی فوج کشی کا ذکر ہے جو خلافت اموی کا ایک حاکم تھا اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے مقابلہ پر مکہ شریف میں جنگ کرنے کے لیے فوج بھیج رہا تھا اس موقع پر کلمہ حق بلند کرنے کے لیے حضرت ابوشریح رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی کہ اسے سن کر شاید عمرو بن سعید اپنے اس اقدام سے رک جائے مگر وہ رکنے والا کہاں تھا۔ الٹا حدیث کی تاویل کرنے لگا اور الٹی سیدھی باتوں سے اپنے فعل کا جواز ثابت کرنے لگا جو سراسر اس کا فریب نفس تھا۔ آخر اس نے مکہ شریف پر فوج کشی کی اور حرمت کعبہ کو پامال کرکے رکھ دیا۔ ابوشریح نے اس لیے سکوت نہیں کیا کہ عمرو بن سعید کا جواب معقول تھا بلکہ اس کا جواب سراسر نامعقول تھا بحث تو یہ تھی کہ مکہ پر لشکر کشی اور جنگ جائز نہیں لیکن عمرو بن سعید نے دوسرا مسئلہ چھیڑدیا کہ کوئی حدی جرم کا مرتکب ہو کر حرم میں بھاگ جائے تو اس کو حرم میں پناہ نہیں ملتی۔ اس مسئلہ میں علماءکا اختلاف ہے مگر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے تو کوئی حدی جرم بھی نہیں کیا تھا۔
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی کنیت ابوبکر ہے، یہ اسدی قریشی ہیں ان کی یہ کنیت ان کے نانا جان حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کنیت پر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی تھی۔ مدینہ میں مہاجرین میں یہ سب سے پہلے بچے تھے جو1ھ میں پیدا ہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے کان میں اذان کہی، مقام قبا میں پیدا ہوئے اور ان کی والدہ ماجدہ حضرت اسماءبنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دعائے برکت کے واسطے لے کر حاضر ہوئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی گود میں بٹھایا اور دہن مبارک میں ایک کھجور چپا کر اس کا لعاب ان کے منہ میں ڈالا اور ان کے تالو سے لگایا، گویا سب سے پہلے چیز جو ان کے پیٹ میں داخل ہوئی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب مبارک تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعاءبرکت فرمائی، بالغ ہونے پر یہ بہت ہی بھاری بھرکم بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ بکثر روزہ رکھنے والے، نوافل پڑھنے والے اور حق و صداقت کے علم بردار تھے، تعلقات اور رشتہ کے قائم رکھنے والے، لحاظ و مروت کے پیکر، مجسمہ اخلاق حسنہ تھے۔ ان کی خوبیوں میں سے یہ ہے کہ ان کی والدہ ماجدہ حضرت اسماءرضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں۔ ان کے نانا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ ان کی دادی صفیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سگی پھوپھی ہوئی ہیں اور حضرت عائشہ صدیقہ ان کی خالہ ہیں۔ آٹھ سال کی عمر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی۔ اس جنگ میں جس کا یہاں ذکر ہے حجاج بن یوسف نے ان کو مکہ شریف میں قتل کیا اور 17جمادی الثانی بروز منگل 73ھ میں ان کی لاش کو سولی پر لٹکایا، جس کے کچھ دنوں بعد حجاج بھی بڑی ذلت و خواری کی موت مرا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے لیے 64ھ میں بیعت لی گئی، جس پر بیشتر اہل حجاز، یمن، عراق اور خراسان والوں کا اتفاق تھا۔ حضرت عبداللہ نے اپنی عمر میں آٹھ مرتبہ حج کیا ان سے ایک بڑی جماعت روایت حدیث کرتی ہے۔ مختلف مسائل کا استنباط کے لیے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی جامع الصحیح میں بہت سے مقامات پر اس حدیث کو لائے ہیں۔
باب : اس بیان میں کہ حرم شریف کے درخت نہ کاٹے جائیں
وقال ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم "لا يعضد شوكه".
(اور ) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ حرم کے کانٹے نہ کاٹے جائیں
حدیث نمبر : 1832
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن سعيد بن أبي سعيد المقبري، عن أبي شريح العدوي، أنه قال لعمرو بن سعيد، وهو يبعث البعوث إلى مكة ائذن لي أيها الأمير أحدثك قولا قام به رسول الله صلى الله عليه وسلم للغد من يوم الفتح، فسمعته أذناى، ووعاه قلبي، وأبصرته عيناى حين تكلم به، إنه حمد الله، وأثنى عليه، ثم قال "إن مكة حرمها الله ولم يحرمها الناس، فلا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما ولا يعضد بها شجرة، فإن أحد ترخص لقتال رسول الله صلى الله عليه وسلم فقولوا له إن الله أذن لرسوله صلى الله عليه وسلم ولم يأذن لكم، وإنما أذن لي ساعة من نهار، وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها بالأمس، وليبلغ الشاهد الغائب". فقيل لأبي شريح ما قال لك عمرو قال أنا أعلم بذلك منك يا أبا شريح، إن الحرم لا يعيذ عاصيا، ولا فارا بدم، ولا فارا بخربة. خربة بلية.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید مقبری نے، ان سے ابوشریح عدوی رضی اللہ عنہ نے کہ جب عمرو بن سعید مکہ پر لشکر کشی کر رہا تھا تو انہوں نے کہا امیر اجازت دے تو میں ایک ایسی حدیث سناؤں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمائی تھی، اس حدیث مبارک کو میرے ان کانوں نے سنا، اور میرے دل نے پوری طرح اسے یاد کر لیا تھا اور جب آپ ارشاد فرما رہے تھے تو میری آنکھیں آپ کو دیکھ رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد اور اس کی ثنا بیان کی، پھر فرمایا کہ مکہ کی حرمت اللہ نے قائم کی ہے لوگوں نے نہیں ! اس لیے کسی ایسے شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو یہ جائز اور حلال نہیں کہ یہاں خون بہائے اور کوئی یہاں کا ایک درخت بھی نہ کاٹے لیکن اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتال (فتح مکہ کے موقع پر ) سے اس کا جواز نکالے تو اس سے یہ کہہ دو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے اجازت دی تھی، لیکن تمہیں اجازت نہیں ہے اور مجھے بھی تھوڑی سی دیر کے لیے اجازت ملی تھی پھر دوبارہ آج اس کی حرمت ایسی ہی قائم ہو گئی جیسے پہلے تھی اور ہاں جو موجود ہیں وہ غائب کو (اللہ کا یہ پیغام ) پہنچا دیں، ابوشریح سے کسی نے پوچھا کہ پھر عمرو بن سعید نے (یہ حدیث سن کر ) آپ کو کیا جواب دیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ عمرو نے کہا ابوشریح ! میں یہ حدیث تم سے بھی زیادہ جانتا ہوں مگر حرم کسی مجرم کو پناہ نہیں دیتا اور نہ خون کرکے اور نہ کسی جرم کرکے بھاگنے والے کو پناہ دیتا ہے۔ خربہ سے مراد خربہ بلیہ ہے۔
تشریح : حدیث ہذا میں عمرو بن سعید کی فوج کشی کا ذکر ہے جو خلافت اموی کا ایک حاکم تھا اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے مقابلہ پر مکہ شریف میں جنگ کرنے کے لیے فوج بھیج رہا تھا اس موقع پر کلمہ حق بلند کرنے کے لیے حضرت ابوشریح رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی کہ اسے سن کر شاید عمرو بن سعید اپنے اس اقدام سے رک جائے مگر وہ رکنے والا کہاں تھا۔ الٹا حدیث کی تاویل کرنے لگا اور الٹی سیدھی باتوں سے اپنے فعل کا جواز ثابت کرنے لگا جو سراسر اس کا فریب نفس تھا۔ آخر اس نے مکہ شریف پر فوج کشی کی اور حرمت کعبہ کو پامال کرکے رکھ دیا۔ ابوشریح نے اس لیے سکوت نہیں کیا کہ عمرو بن سعید کا جواب معقول تھا بلکہ اس کا جواب سراسر نامعقول تھا بحث تو یہ تھی کہ مکہ پر لشکر کشی اور جنگ جائز نہیں لیکن عمرو بن سعید نے دوسرا مسئلہ چھیڑدیا کہ کوئی حدی جرم کا مرتکب ہو کر حرم میں بھاگ جائے تو اس کو حرم میں پناہ نہیں ملتی۔ اس مسئلہ میں علماءکا اختلاف ہے مگر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے تو کوئی حدی جرم بھی نہیں کیا تھا۔
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی کنیت ابوبکر ہے، یہ اسدی قریشی ہیں ان کی یہ کنیت ان کے نانا جان حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کنیت پر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی تھی۔ مدینہ میں مہاجرین میں یہ سب سے پہلے بچے تھے جو1ھ میں پیدا ہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے کان میں اذان کہی، مقام قبا میں پیدا ہوئے اور ان کی والدہ ماجدہ حضرت اسماءبنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دعائے برکت کے واسطے لے کر حاضر ہوئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی گود میں بٹھایا اور دہن مبارک میں ایک کھجور چپا کر اس کا لعاب ان کے منہ میں ڈالا اور ان کے تالو سے لگایا، گویا سب سے پہلے چیز جو ان کے پیٹ میں داخل ہوئی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب مبارک تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعاءبرکت فرمائی، بالغ ہونے پر یہ بہت ہی بھاری بھرکم بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ بکثر روزہ رکھنے والے، نوافل پڑھنے والے اور حق و صداقت کے علم بردار تھے، تعلقات اور رشتہ کے قائم رکھنے والے، لحاظ و مروت کے پیکر، مجسمہ اخلاق حسنہ تھے۔ ان کی خوبیوں میں سے یہ ہے کہ ان کی والدہ ماجدہ حضرت اسماءرضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں۔ ان کے نانا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ ان کی دادی صفیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سگی پھوپھی ہوئی ہیں اور حضرت عائشہ صدیقہ ان کی خالہ ہیں۔ آٹھ سال کی عمر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی۔ اس جنگ میں جس کا یہاں ذکر ہے حجاج بن یوسف نے ان کو مکہ شریف میں قتل کیا اور 17جمادی الثانی بروز منگل 73ھ میں ان کی لاش کو سولی پر لٹکایا، جس کے کچھ دنوں بعد حجاج بھی بڑی ذلت و خواری کی موت مرا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے لیے 64ھ میں بیعت لی گئی، جس پر بیشتر اہل حجاز، یمن، عراق اور خراسان والوں کا اتفاق تھا۔ حضرت عبداللہ نے اپنی عمر میں آٹھ مرتبہ حج کیا ان سے ایک بڑی جماعت روایت حدیث کرتی ہے۔ مختلف مسائل کا استنباط کے لیے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی جامع الصحیح میں بہت سے مقامات پر اس حدیث کو لائے ہیں۔