• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : قرآن مجید میں نسک سے مراد بکری ہے

یعنی آیت کریمہ ففدیۃ من صیام او صدقۃ او نسک میں بکری مراد ہے۔

حدیث نمبر : 1817
حدثنا إسحاق، حدثنا روح، حدثنا شبل، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد، قال حدثني عبد الرحمن بن أبي ليلى، عن كعب بن عجرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رآه وأنه يسقط على وجهه فقال ‏"‏أيؤذيك هوامك‏"‏‏. ‏ قال نعم‏.‏ فأمره أن يحلق وهو بالحديبية، ولم يتبين لهم أنهم يحلون بها، وهم على طمع أن يدخلوا مكة، فأنزل الله الفدية، فأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يطعم فرقا بين ستة، أو يهدي شاة، أو يصوم ثلاثة أيام‏.
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم سے روح نے بیان کیا، ان سے شبل بن عباد نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح نے بیان کیا، ان سے مجاہد نے بیان کیا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے بیان کیا اور ان سے کعب بن عجرۃ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھاتو جوئیں ان کے چہرے پر گر رہی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا ان جوؤں سے تمہیں تکلیف ہے؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ اپنا سر منڈا لیں۔ وہ اس وقت حدیبہ میں تھے۔ (صلح حدیبیہ کے سال ) اور کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ حدیبیہ ہی میں رہ جائیں گے بلکہ سب کی خواہش یہ تھی کہ مکہ میں داخل ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فدیہ کا حکم نازل فرمایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ چھ مسکینوں کو ایک فرق (یعنی تین صاع غلہ ) تقسیم کر دیا جائے یا ایک بکری کی قربانی کرے یا تین دن کے روزے رکھے۔

حدیث نمبر : 1818
وعن محمد بن يوسف، حدثنا ورقاء، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد، أخبرنا عبد الرحمن بن أبي ليلى، عن كعب بن عجرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رآه، وقمله يسقط على وجهه‏.‏ مثله‏.‏
اور محمد بن یوسف سے روایت ہے کہ ہم کو ورقاءنے بیان کیا، ان سے ابن نجیح نے بیان کیا، ان سے مجاہد نے بیان کیا، انہیں عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے خبر دی اور انہیں کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو جوئیں ان کے چہرہ پر گر رہی تھی، پھر یہی حدیث بیان کی۔

یعنی آیت کریمہ ففدیۃ من صیام او صدقۃ او نسک میں بکری مراد ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : سورۃ بقررہ میں اللہ کا یہ فرمانا کہ حج میں شہوت کی باتیں نہیں کرنا چاہئے

حدیث نمبر : 1819
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن منصور، عن أبي حازم، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏من حج هذا البيت، فلم يرفث ولم يفسق، رجع كما ولدته أمه‏"‏‏. ‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے اس گھر (کعبہ ) کا حج کیا اور اس میں نہ رفث یعنی شہوت کی بات منہ سے نکالی اور نہ کوئی گناہ کا کام کیا تو وہ اس دن کی طرح واپس ہو گا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔

یعنی تمام گناہوں سے پاک ہو کر لوٹے گا۔ قرآن مجید میں رفث کا لفظ ہے۔ رفث جماع کو کہتے ہیں یا جماع کے متعلق شہوت انگیز باتیں کرنے کو ( فحش کلام کو ) سفر حج سراسر ریاضت و مجاہدہ ( نفس کشی کا سفر ) ہے۔ لہٰذا اس میں جماع کرنے بلکہ جماع کی باتیں کرنے سے شہوت برانگیختہ ہو ان سے پرہیز لازم ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : اللہ تعالیٰ کا سورۃ بقررہ میں فرمانا کہ حج میں گناہ اور جھگڑا نہ کرنا چاہئے

حدیث نمبر : 1820
حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن منصور، عن أبي حازم، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏من حج هذا البيت، فلم يرفث، ولم يفسق، رجع كيوم ولدته أمه‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اس گھر کا حج کیا اور نہ شہوت کی فحش باتیں کیں، نہ گناہ کیا تو وہ اس دن کی طرح واپس ہوگا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔

باب کی حدیث میں جھگڑے کا ذکر نہیں ہے، اس کے لیے امام بخاری نے آیت پر اکتفا کیا اور فسق کی مذمت کے لیے حدیث کو نقل فرمایا، بس آیت اور حدیث ہر دو کو ملا کر آپ نے مضمون باب کو مدلل فرمایا اس سے حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ کی دقت نظر بھی ثابت ہوتی ہے۔ صد افسوس ان لوگوں پر جو ایسے بابصیرت امام کی فقاہت اور فراست سے انکار کریں اور اس وجہ سے ان کی تنقیص کرکے گنہگار بنیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : اللہ کا یہ فرمانا سورۃ مائدہ میں کہ احرام کی حالت میں

‏{‏لا تقتلوا الصيد وأنتم حرم ومن قتله منكم متعمدا فجزاء مثل ما قتل من النعم يحكم به ذوا عدل منكم هديا بالغ الكعبة أو كفارة طعام مساكين أو عدل ذلك صياما ليذوق وبال أمره عفا الله عما سلف ومن عاد فينتقم الله منه والله عزيز ذو انتقام * أحل لكم صيد البحر وطعامه متاعا لكم وللسيارة وحرم عليكم صيد البر ما دمتم حرما واتقوا الله الذي إليه تحشرون‏}‏
احرام کی حالت میں شکار نہ مارو، اور جو کوئی تم میں سے اس کو جان کر مارے گا تو اس پر اس مارے ہوئے شکار کے برابر بدلہ ہے مویشیوں میں سے، جو تم میں سے دو معتبر آدمی فیصلہ کردیں اس طرح سے کہ وہ جانور بدلہ کا بطور نیاز کعبہ پہنچایا جائے یا اس پر کفارہ ہے چند محتاجوں کو کھلانا یا اس کے برابر روزے تاکہ اپنے کئے کی سزا چکھے، اللہ تعالیٰ نے معاف کیا جو کچھ ہو چکا اور جو کوئی پھر کرے گا اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ اس سے لے گا اور اللہ زبر دست بدلہ لینے والا ہے، حالت احرام میں دریا کا شکار اور دریا کا کھانا تمہارے فائدے کے واسطے حلال ہوا اور سب مسافروں کے لیے۔ اور حرام ہوا تم پر جنگل کا شکار جب تک تم احرام میں، رہو اور ڈرتے رہو اللہ سے جس کے پاس تم جمع ہو گے۔ “

تشریح : اس باب میں امام بخاری نے صرف آیت پر اکتفا کیا اور کوئی حدیث بیان نہیں کی۔ شاید ان کو اپنی شرط کے موافق کوئی حدیث اس باب میں نہیں ملی۔ ابن بطال نے کہا اس پر اکثر علماءکا اتفاق ہے کہ اگر محرم شکار کے جانور کو عمداً یا سہواً قتل کرے ہر حال میں اس پر بدلہ واجب ہے اور اہل ظاہر نے سہواً قتل کرنے میں بدلہ واجب نہیں رکھا اور حسن اور مجاہد سے اس کے برعکس منقول ہے، اس طرح اکثر علماءنے یہ کہا کہ اس کو اختیار ہے چاہے کفارہ دے چاہے بدلہ دے دے ثوری نے کہا اگر بدلہ نہ پائے تو کھانا کھلائے اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو روزے رکھے۔ ( وحیدی )

حافظ فرماتے ہیں : قیل السبب فی نزول ہذہ الایۃ ان ابا الیسرۃ قتل حمار و حش وہو محرم فی عمرۃ الحدیبیۃ فنزلت حکاہ مقاتل فی تفسیرہ و لم یذکر المصنف فی روایۃ ابی ذر فی ہذہ الترجمۃ حدیثاً و لعلہ اشار الی انہ لم یثبت علی شرطہ فی جزاءالصید حدیث مرفوع قال ابن بطال اتفق ائمۃ الفتوی من اہل الحجاز والعراق و غیرہم علی ان المحرم اذا قتل الصید عمداً او خطا فعلیہ الجزاءالخ ( فتح الباری ) یعنی یہ آیت ایک شخص ابوالیسرہ کے بار ے میں نازل ہوئی جس نے عمرہ حدیبیہ کے موقع پر احرام کی حالت میں ایک جنگلی گدھے کو مار دیا تھا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب میں کوئی حدیث ذکر نہیں فرمائی۔ شاید ان کا یہ اشارہ ہے کہ ان کی شرط پر اس بارے میں کوی صحیح مرفوع حدیث نہیں ملی، ابن بطال نے کہا کہ فتویٰ دینے والے اماموں کا اتفاق ہے جو حجاز اور عراق وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں کہ محرم جان کر یا غلطی سے اگر کسی جانور کا شکار کرے تو اس پر جزاءلازم آتی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : اگر بے احرام والا شکار کرے اور احرام والے کو تحفہ بھیجے تو وہ کھا سکتا ہے

ولم ير ابن عباس وأنس بالذبح بأسا وهو غير الصيد نحو الإبل والغنم والبقر والدجاج والخيل، يقال عدل ذلك مثل، فإذا كسرت عدل فهو زنة ذلك‏.‏ قياما قواما‏.‏ يعدلون يجعلون عدلا‏.‏
اور انس اور ابن عباس رضی اللہ عنہم (محرم کے لیے ) شکار کے سوا دوسرے جانور مثلاً اونٹ، بکری، گائے، مرغی اور گھوڑے کے ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ قرآن میں لفظ عدل (بفتح غین ) مثل کے معنی میں بولا گیا ہے اور عدل (عین کو ) جب زیر کے ساتھ پڑھا جائے تو وزن کے معنی میں ہوگا، قیاماً قواماً (کے معنی میں ہے، قیم ) یعدلون کے معنی میں مثل بنانے کے۔

حدیث نمبر : 1821
حدثنا معاذ بن فضالة، حدثنا هشام، عن يحيى، عن عبد الله بن أبي قتادة، قال انطلق أبي عام الحديبية فأحرم أصحابه، ولم يحرم، وحدث النبي صلى الله عليه وسلم أن عدوا يغزوه، فانطلق النبي صلى الله عليه وسلم، فبينما أنا مع أصحابه يضحك بعضهم إلى بعض، فنظرت فإذا أنا بحمار وحش، فحملت عليه، فطعنته، فأثبته، واستعنت بهم، فأبوا أن يعينوني، فأكلنا من لحمه، وخشينا أن نقتطع، فطلبت النبي صلى الله عليه وسلم أرفع فرسي شأوا، وأسير شأوا، فلقيت رجلا من بني غفار في جوف الليل قلت أين تركت النبي صلى الله عليه وسلم قال تركته بتعهن، وهو قائل السقيا‏.‏ فقلت يا رسول الله إن أهلك يقرءون عليك السلام ورحمة الله، إنهم قد خشوا أن يقتطعوا دونك، فانتظرهم قلت يا رسول الله أصبت حمار وحش، وعندي منه فاضلة‏.‏ فقال للقوم ‏"‏كلوا ‏"‏وهم محرمون‏.‏
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ ابن کثیر نے، ان سے عبداللہ بن ابی قتادہ نے بیان کیا کہ میرے والد صلح حدیبیہ کے موقع پر (دشمنوں کا پتہ لگانے ) نکلے۔ پھر ان کے ساتھیوں نے تو احرام باندھا لیا لیکن (خود انہوں نے ابھی ) نہیں باندھا تھا (اصل میں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی نے یہ اطلاع دی تھی کہ مقام غیقہ میں دشمن آپ کی تاک میں ہے، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ابوقتادہ اور چند صحابہ رضی اللہ عنہم کو ان کی تلاش میں ) روانہ کیا میرے والد (ابوقتادہ رضی اللہ عنہ ) اپنے ساتھیوں کے ساتھ تھے کہ یہ لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے (میرے والد نے بیان کیا کہ ) میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ ایک جنگلی گدھا سامنے ہے۔ میں اس پر جھپٹا اور نیزے سے اسے ٹھنڈا کردیا۔ میں نے اپنے ساتھیوں کی مدد چاہی تھی لیکن انہوں نے انکار کر دیا تھا، پھر ہم نے گوشت کھایا۔ اب ہمیں یہ ڈر ہوا کہ کہیں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ) دور نہ ہو جائیں، چنانچہ میں نے آپ کو تلاش کرنا شروع کردیا کبھی اپنے گھوڑے تیز کردیتا اور کبھی آہستہ، آخر رات گئے بنو غفار کے ایک شخص سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ جب میں آپ سے جدا ہوا تو آپ مقام تعھن میں تھے اور آپ کا ارادہ تھا کہ مقام سقیا میں پہنچ کر دوپہر کا آرام کریں گے۔ غرض میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! آپ کے اصحاب آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت بھیجتے ہیں۔ انہیں یہ ڈر ہے کہ کہیں وہ بہت پیچھے نہ رہ جائیں۔ اس لیے آپ ٹھہر کر ان کا انتظار کریں، پھر میں نے کہا یا رسول اللہ ! میں نے ایک جنگلی گدھا شکار کیا تھا اور اس کا کچھ بچا ہوا گوشت اب بھی میرے پاس موجود ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کھانے کے لیے فرمایا حالانکہ وہ سب احرام باندھے ہوئے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : احرام والے لوگ شکار دیکھ کر ہنس دیں اور بے احرام والا سمجھ جائے پھر شکار کرے تو وہ احرام والے بھی کھا سکتے ہیں

حدیث نمبر : 1822
حدثنا سعيد بن الربيع، حدثنا علي بن المبارك، عن يحيى، عن عبد الله بن أبي قتادة، أن أباه، حدثه قال انطلقنا مع النبي صلى الله عليه وسلم عام الحديبية فأحرم أصحابه، ولم أحرم، فأنبئنا بعدو بغيقة فتوجهنا نحوهم، فبصر أصحابي بحمار وحش، فجعل بعضهم يضحك إلى بعض، فنظرت فرأيته فحملت عليه الفرس، فطعنته، فأثبته، فاستعنتهم، فأبوا أن يعينوني، فأكلنا منه، ثم لحقت برسول الله صلى الله عليه وسلم وخشينا أن نقتطع، أرفع فرسي شأوا، وأسير عليه شأوا، فلقيت رجلا من بني غفار في جوف الليل فقلت أين تركت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال تركته بتعهن وهو قائل السقيا‏.‏ فلحقت برسول الله صلى الله عليه وسلم حتى أتيته فقلت يا رسول الله، إن أصحابك أرسلوا يقرءون عليك السلام ورحمة الله وبركاته، وإنهم قد خشوا أن يقتطعهم العدو دونك، فانظرهم، ففعل فقلت يا رسول الله، إنا اصدنا حمار وحش، وإن عندنا فاضلة‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لأصحابه ‏"‏كلوا‏"‏‏. ‏ وهم محرمون‏.‏
ہم سے سعید بن ربیع نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مبارک نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے عبداللہ بن ابی قتادہ نے، کہا ان سے ان کے باپ نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے ان کے ساتھیوں نے تو احرام باندھ لیا تھا لیکن ان کا بیان تھا کہ میں نے احرام نہیں باندھا تھا۔ ہمیں غیقہ میں دشمن کے موجود ہونے کی اطلاع ملی اس لیے ہم ان کی تلاش میں (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق نکلے پھر میرے ساتھیوں نے گو رخر دیکھا اور ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے میں نے جو نظر اٹھائی تو اسے دیکھ لیا گھوڑے پر (سوار ہو کر ) اس پر جھپٹا اور اسے زخمی کرکے ٹھنڈا کر دیا۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کچھ امداد چاہی لیکن انہوں نے انکار کر دیا پھر ہم سب نے اسے کھایا اور اس کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا (پہلے ) ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں ہم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دور نہ رہ جائیں اس لیے میں کبھی اپنا گھوڑا تیز کردیتا اور کبھی آہستہ آخر میری ملاقات ایک بنی غفار کے آدمی سے آدھی رات میں ہوئی میں نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعہن نامی جگہ میں الگ ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ یہ تھا کہ دوپہر کو مقام سقیا میں آرام کریں گے پھر جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! آپ کے اصحاب نے آپ کو سلام کہا ہے اور انہیں ڈر ہے کہ کہیں دشمن آپ کے اور ان کے درمیان حائل نہ ہو جائے اس لیے آپ ان کا انتظار کیجئے چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا، میں نے یہ بھی عرض کی کہ یا رسول اللہ ! میں نے ایک گورخر کا شکار کیا اور کچھ بچا ہوا گوشت اب بھی موجود ہے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کے کھاؤ حالانکہ وہ سب احرام باندھے ہوئے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : شکار کرنے میں احرام والا غیر محرم کی کچھ بھی مدد نہ کرے

حدیث نمبر : 1823
حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا سفيان، حدثنا صالح بن كيسان، عن أبي محمد، نافع مولى أبي قتادة سمع أبا قتادة ـ رضى الله عنه ـ قال كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم بالقاحة من المدينة على ثلاث ح‏.‏ وحدثنا علي بن عبد الله حدثنا سفيان حدثنا صالح بن كيسان عن أبي محمد عن أبي قتادة ـ رضى الله عنه ـ قال كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم بالقاحة، ومنا المحرم، ومنا غير المحرم، فرأيت أصحابي يتراءون شيئا فنظرت، فإذا حمار وحش ـ يعني وقع سوطه ـ فقالوا لا نعينك عليه بشىء، إنا محرمون‏.‏ فتناولته فأخذته، ثم أتيت الحمار من وراء أكمة، فعقرته، فأتيت به أصحابي، فقال بعضهم كلوا‏.‏ وقال بعضهم لا تأكلوا‏.‏ فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم وهو أمامنا، فسألته فقال ‏"‏كلوه حلال‏"‏‏. ‏ قال لنا عمرو اذهبوا إلى صالح فسلوه عن هذا وغيره، وقدم علينا ها هنا‏.
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے صالح بن کیسان نے بیان کیا، ان سے ابومحمد نے، ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے غلام نافع نے، انہوں نے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نے فرمایا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے تین منزل دور مقام قاحہ میں تھے۔ (دوسری سند امام بخاری نے ) کہا کہ ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا کہا ہم سے صالح بن کیسان نے بیان کیا، ان سے ابومحمد نے اور ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقام قاحہ میں تھے، بعض تو ہم میںسے محرم تھے اور بعض غیر محرم۔ میں نے دیکھا کہ میرے ساتھی ایک دوسرے کو کچھ دکھا رہے ہیں، میں نے جو نظر اٹھائی تو ایک گورخر سامنے تھا، ان کی مراد یہ تھی کہ ان کا کوڑا گر گیا، (اور اپنے ساتھیوں سے اسے اٹھانے کے لیے انہوں نے کہا )، لیکن ساتھیوں نے کہا کہ ہم تمہاری کچھ بھی مدد نہیں کرسکتے کیوں کہ ہم محرم ہیں ) اس لیے میں نے وہ خود اٹھایا اس کے بعد میں اس گورخر کے نزدیک ایک ٹیلے کے پیچھے سے آیا اور اسے شکار کیا، پھر میں اسے اپنے ساتھیوں کے پاس لایا، بعض نے تو یہ کہا کہ (ہمیں بھی ) کھا لینا چاہئے لیکن بعض نے کہا کہ نہ کھانا لیے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ آپ ہم سے آگے تھے، میں نے آپ سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے بتایا کہ کھالو یہ حلال ہے۔ ہم سے عمرو بن دینار نے کہا کہ صالح بن کیسان کی خدمت میں حاضر ہو کر اس حدیث اور اس کے علاوہ کے متعلق پوچھ سکتے ہو اور وہ ہمارے پاس یہاں آئے تھے۔

ساتھیوں نے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کا کوڑا اٹھانے میں بھی مدد نہ کی اس سے باب کا مطلب ثابت ہوا کہ حالت احرام میں کسی بھی غیر محرم شکاری کی بہ سلسلہ شکار کوئی مدد نہ کی جائے۔ اسی صورت میں اس شکار کا گوشت احرام والوں کو بھی کاکھانا درست ہے، اس سے حالت احرام کی روحانی اہمیت اور بھی ظاہر ہوتی ہے۔ آدمی محرم بننے کے بعد ایک خالص مخلص فقیر الی اللہ بن جاتا ہے پھر شکار یا اسکے متعلق اور اس سے اس کو کیا واسطہ۔ جو حج ایسے ہی نیک جذبات کے ساتھ ہوگا وہی حج مبرور ہے۔
نافع بن مرجس عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ ہیں۔ یہ دیلمی تھے اور اکابر تابعین میں سے ہیں، حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہم سے حدیث کی سماعت کی ہے۔ ان سے بہت سے اکابر علماءحدیث نے روایت کی ہے جن میں امام زہری، امام مالک بن انس شامل ہیں۔ حدیث کے بارے میں یہ بہت ہی مشہورشخص ہیں۔ نیز ان ثقہ راویوں میں سے ہیں، جن کی روایت شک و شبہ سے بالا ہوتی ہے اور جن کی حدیث پر عمل کیا جاتا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کا بڑا حصہ ان پر موقوف ہے۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ جب نافع کے واسطے سے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سن لیتا ہوں تو کسی اور راوی سے سننے سے بے فکر ہو جاتا ہوں۔ 117ھ میں وفات پائی سرجس میں سین مہملہ اول مفتوح راءساکن اور جیم مکسور ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : غیر محرم کے شکار کرنے کے لیے احرام والا شکار کی طرف اشارہ بھی نہ کرے

حدیث نمبر : 1824
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا أبو عوانة، حدثنا عثمان ـ هو ابن موهب ـ قال أخبرني عبد الله بن أبي قتادة، أن أباه، أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج حاجا، فخرجوا معه فصرف طائفة منهم، فيهم أبو قتادة فقال خذوا ساحل البحر حتى نلتقي‏.‏ فأخذوا ساحل البحر، فلما انصرفوا أحرموا كلهم إلا أبو قتادة لم يحرم، فبينما هم يسيرون إذ رأوا حمر وحش، فحمل أبو قتادة على الحمر، فعقر منها أتانا، فنزلوا فأكلوا من لحمها، وقالوا أنأكل لحم صيد ونحن محرمون فحملنا ما بقي من لحم الأتان، فلما أتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم قالوا يا رسول الله، إنا كنا أحرمنا وقد كان أبو قتادة لم يحرم، فرأينا حمر وحش فحمل عليها أبو قتادة، فعقر منها أتانا، فنزلنا فأكلنا من لحمها ثم قلنا أنأكل لحم صيد ونحن محرمون فحملنا ما بقي من لحمها‏.‏ قال ‏"‏منكم أحد أمره أن يحمل عليها، أو أشار إليها‏"‏‏. ‏ قالوا لا‏.‏ قال ‏"‏فكلوا ما بقي من لحمها‏"‏‏. ‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے عثمان بن موہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبداللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی اور انہیں ان کے والد ابوقتادہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (حج کا ) ارادہ کرکے نکلے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی ایک جماعت کو جس میں ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بھی تھے یہ ہدایت دے کر راستے سے واپس بھیجا کہ تم لوگ دریا کے کنارے کنارے ہو کر جاؤ، (اور دشمن کا پتہ لگاؤ ) پھر ہم سے آملو۔ چنانچہ یہ جماعت دریا کے کنارے کنارے چلی، واپسی میں سب نے احرام باندھ لیا تھا لیکن ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے ابھی احرام نہیں باندھا تھا۔ یہ قافلہ چل رہا تھا کہ کئی گورخر دکھائی دئیے، ابوقتادہ نے ان پر حملہ کیا اور ایک مادہ کا شکار کر لیا، پھر ایک جگہ ٹھہر کر سب نے اس کا گوشت کھایا اور ساتھ ہی یہ خیال بھی آیا کہ کیا ہم محرم ہونے کے باوجود شکار کا گوشت بھی کھاسکتے ہیں؟ چنانچہ جو کچھ گوشت بچا وہ ہم ساتھ لائے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو عرض کی یا رسول اللہ ! ہم سب لوگ تو محرم تھے لیکن ا بوقتادہ رضی اللہ عنہ نے احرام نہیں باندھا تھا پھر ہم نے گورخر دیکھے اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے ان پر حملہ کرکے ایک مادہ کا شکار کر لیا، اس کے بعد ایک جگہ ہم نے قیام کیا اور اس کا گوشت کھایا پھر خیال آیا کہ کیا ہم محرم ہونے کے باجود شکار کا گوشت کھا بھی سکتے ہیں؟ اس لیے جو کچھ گوشت باقی بچا ہے وہ ہم ساتھ لائے ہیں۔ آپ نے پوچھا کیا تم میں سے کسی نے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کو شکار کرنے کے لیے کہا تھا؟ یا کسی نے اس شکار کی طرف اشارہ کیا تھا؟ سب نے کہا نہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر بچا ہوا گوشت بھی کھا لو۔

معلوم ہوا کہ حالت احرام والوں کے واسطے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ شکاری کو اشاروں سے اس شکار کے لیے رہ نمائی کرسکیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : اگر کسی نے محرم کے لیے زندہ گورخر تحفہ بھیجا ہو تو اسے قبول نہ کرے

حدیث نمبر : 1825
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود، عن عبد الله بن عباس، عن الصعب بن جثامة الليثي، أنه أهدى لرسول الله صلى الله عليه وسلم حمارا وحشيا، وهو بالأبواء أو بودان فرده عليه، فلما رأى ما في وجهه قال ‏"‏إنا لم نرده عليك إلا أنا حرم‏"‏‏.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے، انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اور انہیں صعب بن جثامہ لیثی رضی اللہ عنہ نے کہ جب وہ ابواءیا ودان میں تھے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک گورخر کا تحفہ دیا تو آپ نے اسے واپس کردیا تھا، پھر جب آپ نے ان کے چہروں پر ناراضگی کا رنگ دیکھا تو آپ نے فرمایا واپسی کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم احرام باندھے ہوئے ہیں۔

تشریح : ابن خزیمہ اور ابوعوانہ کی روایت میں یوں ہے کہ گورخر کا گوشت بھیجا، مسلم کی روایت میں ران کا ذکر ہے یا پٹھے کا جن میں سے خون ٹپک رہا تھا۔ بیہقی کی روایت میں ہے کہ صعب نے جنگلی گدھے کا پٹھا بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جحفہ میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے فوراً کھایا اور دوسروں کو بھی کھلایا۔ بیہقی نے کہا اگر روایت محفوظ ہو تو شاید پہلے صعب نے زندہ گورخر بھیجا ہوگا آپ نے اس کو واپس کر دیا پھر اس کا گوشت بھیجا تو آپ نے اسے لے لیا۔ ابواءایک پہاڑ کا نام ہے اور ودان ایک موضع ہے جحفہ کے قریب۔ حافظ نے کہا کہ ابواءسے جحفہ تک تئیس میل اور ودان سے حجفہ تک آٹھ میل کا فاصلہ ہے۔ باب کے ذریعہ امام بخاری یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ اس شکار کو واپس کرنے کی وجہ یہ ہوئی کہ وہ زندہ تھا، حضرت امام نے دوسرے قرائن کی روشنی میں یہ تطبیق دی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : احرام والا کون کون سے جانور مار سکتا ہے

حدیث نمبر : 1826
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏خمس من الدواب ليس على المحرم في قتلهن جناح‏"‏‏. ‏ وعن عبد الله بن دينار عن عبد الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے خبر دی، اور انہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ جانور ایسے ہیں جنہیں مارنے میں محرم کے لیے کوئی حرج نہیں ہے۔

عن مالك بن انس وعن عبد الله بن دينار عن عبد الله بن عمر: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال.
(دوسری سند ) اور امام مالک نے عبداللہ بن دینار سے، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (جو اوپر مذکور ہوا )

حدیث نمبر : 1827
حدثنا مسدد، حدثنا أبو عوانة، عن زيد بن جبير، قال سمعت ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يقول حدثتني إحدى، نسوة النبي صلى الله عليه وسلم عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏يقتل المحرم‏"‏‏.
(تیسری سند ) اور ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے زید بن جبیر نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا آپ نے فرمایا کہ مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بیویوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا محرم (پانچ جانوروں کو ) مار سکتا ہے۔ (جن کا ذکر آگے آرہا ہے )

حدیث نمبر : 1828
حدثنا أصبغ، قال أخبرني عبد الله بن وهب، عن يونس، عن ابن شهاب، عن سالم، قال قال عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قالت حفصة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏خمس من الدواب لا حرج على من قتلهن الغراب والحدأة والفأرة والعقرب والكلب العقور‏"‏‏. ‏
چوتھی سند ) اور ہم سے اصبغ نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے سالم نے بیان کیا، کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا اور ان سے حفصہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ جانور ایسے ہیں جنہیں مارنے میں کوئی گناہ نہیں کوا، چیل، چوہا، بچھو اور کاٹ کھانے والا کتا۔

حدیث نمبر : 1829
حدثنا يحيى بن سليمان، قال حدثني ابن وهب، قال أخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏خمس من الدواب كلهن فاسق، يقتلهن في الحرم الغراب والحدأة والعقرب والفأرة والكلب العقور‏"‏‏. ‏
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھے یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے خبر دی، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ جانور ایسے ہیں جو سب کے سب موذی ہیں اور انہیں حرم میں بھی مارا جاسکتا ہے کوا، چیل، بچھو، چوہا اور کاٹنے والا کتا۔

تشریح : یہ پانچوں جانور جس قدر بھی موذی ہیں ظاہر ہے ان کی ہلاکت کے حکم سے شارع علیہ السلام نے بنی نوع انسان کے مالی، جسمانی، اقتصادی، غذائی بہت سے مسائل کی طرف رہ نمائی فرمائی ہے کوا اور چیل ڈاکے زنی میں مشہور ہیں اور بچھو اپنی نیش زنی ( ڈنک مارنے میں ) ، چوہا انسانی صحت کے لیے مضر، پھر غذاؤں کے ذخیروں کا دشمن، اور کاٹنے والا کتا صحت کے لیے انتہائی خطرناک۔ یہی وجہ جو ان کا قتل ہر جگہ جائز ہوا۔

حدیث نمبر : 1830
حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، قال حدثني إبراهيم، عن الأسود، عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ قال بينما نحن مع النبي صلى الله عليه وسلم في غار بمنى، إذ نزل عليه ‏{‏والمرسلات‏}‏ وإنه ليتلوها، وإني لأتلقاها من فيه، وإن فاه لرطب بها، إذ وثبت علينا حية فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏اقتلوها‏"‏‏. ‏ فابتدرناها، فذهبت، فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏وقيت شركم كما وقيتم شرها‏"‏‏. ‏
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابراہیم نے اسود سے بیان کیا اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ کے غار میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ والمرسلات نازل ہونی شروع ہوئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تلاوت کرنے لگے اور میں آپ کی زبان سے اسے سیکھنے لگا، ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت ختم بھی نہیں کی تھی کہ ہم پر ایک سانپ گرا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے مار ڈالو چنانچہ ہم اس کی طرف لپکے لیکن وہ بھاگ گیا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح سے تم اس کے شر سے بچ گئے وہ بھی تمہارے شر سے بچ کر چلا گیا۔ حضرت ابوعبداللہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اس حدیث سے میرا مقصد صرف یہ ہے کہ منیٰ حرم میں داخل ہے اور صحابہ نے حرم میں سانپ مارنے میں کوی حرج نہیں سمجھا تھا۔

یہاں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ حدیث سے باب کا مطلب نہیں نکلتا، کیوں کہ حدیث میں یہ کہاں ہے کہ صحابہ احرام باندھے ہوئے تھے اور اس کا جواب یہ ہے کہ اسماعیل کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ یہ واقعہ عرفہ کی رات کا ہے اور ظاہر ہے کہ اس وقت سب لوگ احرام باندھے ہوئے ہوں گے۔ پس باب کا مطلب نکل آیا قال ابوعبداللہ الخ یہ عبارت اکثر نسخوں میں نہیں ہے ابوالوقت کی روایت میں ہے۔ اس عبارت سے وہ اشکال رفع ہو جاتا ہے جو اوپر بیان ہوا۔

حدیث نمبر : 1831
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال للوزغ ‏"‏فويسق‏"‏‏. ‏ ولم أسمعه أمر بقتله‏.‏
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھپکلی کو موذی کہا تھا لیکن میں نے آپ سے یہ نہیں سنا کہ آپ نے اسے مارنے کا بھی حکم دیا تھا۔

تشریح : ابن عبدالبر نے کہا اس پر علماءکا اتفاق ہے کہ چھپکلی مار ڈالنا حل اور حرم دونوں جگہ درست ہے، واللہ اعلم۔ حافظ نے کہا کہ ابن عبدالحکیم نے امام مالک سے اس کے خلاف نقل کیا کہ اگر محرم چھپکلی کو مارے تو صدقہ دے کیوں کہ وہ ان پانچ جانوروں میں نہیں ہے جن کا قتل جائز ہے اور ابن ابی شیبہ نے عطا سے نکالا کہ بچھو وغیرہ پر قیاس کیا جاسکتا ہے اورحل و حرم میں اسے مارنا بھی درست کہا جاسکتا ہے۔
 
Top