• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : حرم اور مکہ شریف میں بغیر احرام کے داخل ہونا

ودخل ابن عمر‏.‏ وإنما أمر النبي صلى الله عليه وسلم بالإهلال لمن أراد الحج والعمرة، ولم يذكر للحطابين وغيرهم‏.‏
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما احرام کے بغیر داخل ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کا حکم ان ہی لوگوں کو دیا جو حج اور عمرہ کے ارادے سے آئیں۔ لکڑی بیچنے کے لیے آنے والوں اور دیگر لوگوں کو ایسا حکم نہیں دیا۔

تشریح : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اس واقعہ کو امام مالک نے موطا میں نافع سے نقل کیا ہے کہ جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قدید میں پہنچے تو انہوں نے فساد کی خبر سنی۔ وہ لوٹ گئے اور مکہ میں بغیر احرام کے دخل ہو گئے۔ باب کا مطلب حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے یوں نکالا کہ حدیث میں ذکر ہے جو لوگ حج اور عمرے کا ارادہ رکھتے ہوں ان پر لازم ہے کہ مکہ میں بااحرام داخل ہوں یہاں جو لوگ اپنی ذاتی ضروریات کے لیے مکہ شریف آتے جاتے رہتے ہیں ان کے لیے احرام واجب نہیں۔ امام شافعی کا یہی مسلک ہے مگر حنفیہ مکہ شریف میں داخل ہونے والے کے لیے احرام ضروری قرار دیتے ہیں۔ ابن عبدالبر نے کہا اکثر صحابہ اور تابعین وجوب کے قائل ہیں مگر درایت اور روایت کی بنا پر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہی کے مسلک کو ترجیح معلوم ہوتی ہے۔

حدیث نمبر : 1845
حدثنا مسلم، حدثنا وهيب، حدثنا ابن طاوس، عن أبيه، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم وقت لأهل المدينة ذا الحليفة، ولأهل نجد قرن المنازل، ولأهل اليمن يلملم، هن لهن ولكل آت أتى عليهن من غيرهم ممن أراد الحج والعمرة، فمن كان دون ذلك فمن حيث أنشأ، حتى أهل مكة من مكة‏.‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ والوں کے لیے ذو الحلیفہ کو میقات بنایا، نجد والوں کے لیے قرن منازل کو اور یمن والوں کے لیے یلملم کو۔ یہ میقات ان ملکوں کے باشندوں کے لیے ہے اور دوسرے ان تمام لوگوں کے لیے بھی جو ان ملکوں سے ہو کر مکہ آئیں اور حج اور عمرہ کا بھی ارادہ رکھتے ہوں، لیکن جو لوگ ان حدود کے اندر ہوں تو ان کی میقات وہی جگہ ہے جہاں سے وہ اپنا سفر شروع کریں یہاں تک کہ مکہ والوں کی میقات مکہ ہی ہے۔

حدیث نمبر : 1846
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل عام الفتح، وعلى رأسه المغفر، فلما نزعه جاء رجل، فقال إن ابن خطل متعلق بأستار الكعبة‏.‏ فقال ‏"‏اقتلوه‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب زہری نے اور انہیں انس بن مالک رحمۃ اللہ علیہ نے آکر خبر دی کہ فتح مکہ کے دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پر خود تھا۔ جس وقت آپ نے اتارا تو ایک شخص نے خبر دی کہ ابن خطل کعبہ کے پردوں سے لٹک رہا ہے آپ نے فرمایا کہ اسے قتل کردو۔

تشریح : ابن خطل کا نام عبداللہ تھا یہ پہلے مسلمان ہو گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو زکوۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا، جس کے ساتھ ایک مسلمان غلام بھی تھا۔ ابن خطل نے اس مسلمان غلام کو کھانا تیار کرنے کا حکم دیا اور خود سو رہا، پھر جاگا تو اس مسلمان غلام نے کھانا تیار نہیں کیا تھا، غصہ میں آکر اس نے اس غلام کو قتل کر ڈالا اور خود اسلام سے پھر گیا۔ دوگانے والی لونڈیاں اس نے رکھی تھیں اور ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کے گیت گوایا کرتا تھا۔ یہ بدبخت ایسا ازلی دشمن ثابت ہوا کہ اسے کعبہ شریف کے اند رہی قتل کر دیا گیا۔ ابن خطل کو قتل کرنے والے حضرت ابوبرزہ اسلمی تھے بعض نے حضرت زبیر کو بتلایا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : اگر ناواقفیت کی وجہ سے کوئی کرتہ پہنے ہوئے احرام باندھے؟

وقال عطاء إذا تطيب أو لبس جاهلا أو ناسيا فلا كفارة عليه‏.‏
اور عطاءبن ابی رباح نے کہا ناواقفیت میں یا بھول کر اگر کوئی محرم شخص خوشبو لگائے، سلا ہو ا کپڑا پہن لے تو اس پر کفارہ نہیں ہے۔

امام شافعی کا یہی قول ہے اورامام مالک نے کہا اگر اسی وقت اتار ڈالے یا خوشبو دھو ڈالے تو کفارہ نہ ہوگا، ورنہ کفارہ لازم ہوگا۔ دلائل کی رو سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کو ترجیح معلوم ہوتی ہے جیسا کہ امام شافعی کا یہی مسلک ہے۔

حدیث نمبر : 1847
حدثنا أبو الوليد، حدثنا همام، حدثنا عطاء، قال حدثني صفوان بن يعلى، عن أبيه، قال كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتاه رجل عليه جبة فيه أثر صفرة أو نحوه، وكان عمر يقول لي تحب إذا نزل عليه الوحى أن تراه فنزل عليه ثم سري عنه فقال ‏"‏اصنع في عمرتك ما تصنع في حجك‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا ہم سے عطاءنے بیان کیا، کہا مجھ سے صفوان بن یعلیٰ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص جو جبہ پہنے ہوئے تھا حاضر ہوا اور اس پر زردی یا اسی طرح کی کسی خوشبو کا نشان تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ مجھ سے کہا کرتے تھے کیا تم چاہتے ہو کہ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے لگے تو تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ سکو؟ اس وقت آپ پر وحی نازل ہوئی پھر وہ حالت جاتی رہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح اپنے حج میں کرتے ہو اسی طرح عمرہ میں بھی کرو۔

حدیث نمبر : 1848
وعض رجل يد رجل ـ يعني فانتزع ثنيته ـ فأبطله النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ایک شخص نے دوسرے شخص کے ہاتھ میں دانت سے کاٹا تھا، دوسرے نے جو اپنا ہاتھ کھینچا تو اس کا دانت اکھڑ گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کوئی بدلہ نہیں دلوایا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : اگر محرم عرفات میں مر جائے

ولم يأمر النبي صلى الله عليه وسلم أن يؤدى عنه بقية الحج‏.‏
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم نہیں کیا کہ حج کے باقی ارکان اس کے طرف سے ادا کئے جائیں۔

حدیث نمبر : 1849
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن عمرو بن دينار، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال بينا رجل واقف مع النبي صلى الله عليه وسلم بعرفة إذ وقع عن راحلته، فوقصته ـ أو قال فأقعصته ـ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏اغسلوه بماء وسدر، وكفنوه في ثوبين ـ أو قال ثوبيه ـ ولا تحنطوه، ولا تخمروا رأسه، فإن الله يبعثه يوم القيامة يلبي‏"‏‏.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میدان عرفات میں ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھہرا ہوا تھا کہ اپنی اونٹنی سے گرپڑا اور اس اونٹنی نے اس کی گردن توڑ ڈالی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانی اور بیری کے پتوں سے اسے غسل دو اوراحرام ہی کے دو کپڑوں کا کفن دو لیکن خوشبو نہ لگانا نہ اس کا سر چھپانا کیوں کہ اللہ تعالیٰ قیامت میں اسے لبیک کہتے ہوئے اٹھائے گا۔

حدیث نمبر : 1850
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد، عن أيوب، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال بينا رجل واقف مع النبي صلى الله عليه وسلم بعرفة إذ وقع عن راحلته فوقصته ـ أو قال فأوقصته ـ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏اغسلوه بماء وسدر، وكفنوه في ثوبين، ولا تمسوه طيبا، ولا تخمروا رأسه، ولا تحنطوه، فإن الله يبعثه يوم القيامة ملبيا‏"‏‏. ‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا اوران سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ ایک شحص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرفات میں ٹھہرا ہوا تھا کہ اپنی اونٹنی سے گر پڑا اور اس نے اس کی گردن توڑ دی، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے پانی اور بیری سے غسل دے کر دو کپڑوں (احرام والوں ہی میں ) کفنا دو لیکن خوشبو نہ لگانا، نہ سر چھپانا اور نہ حنوط لگانا کیوں کہ اللہ تعالیٰ قیامت میں اسے لبیک پکارتے ہوئے اٹھائے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : جب محرم وفات پا جائے تو اس کا کفن دفن کس طرح مسنون ہے

حدیث نمبر : 1851
حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا هشيم، أخبرنا أبو بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن رجلا، كان مع النبي صلى الله عليه وسلم فوقصته ناقته، وهو محرم، فمات، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏اغسلوه بماء وسدر، وكفنوه في ثوبيه، ولا تمسوه بطيب، ولا تخمروا رأسه، فإنه يبعث يوم القيامة ملبيا‏"‏‏. ‏
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں ابوبشر نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں سعید بن جبیر نے خبر دی اورانہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدان عرفات میں تھا کہ اس کے اونٹ نے گرا کر اس کی گردن توڑ دی۔ وہ شخص محرم تھا اور مر گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت دی کہ اسے پانی اور بیری کا غسل اور (احرام کے ) دو کپڑوں کا کفن دیا جائے البتہ اس کو خوشبو نہ لگاؤ نہ اس کا سر چھپاؤ کیوں کہ قیامت کے دن وہ لبیک کہتا ہوا اٹھے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : میت کی طرف سے حج اور نذر ادا کرنا اور مرد کسی عورت کے بدلہ میں حج کرسکتا ہے

تفسیر سے دوسرا حکم باب کی حدیث سے نہیں نکلتا کیوں کہ باب کی حدیث میں یہ بیان ہے کہ عورت نے اپنی ماں کی طرف سے حج کرنے کو پوچھا تھا تو ترجمہ باب یوں ہونا تھا کہ عورت کا عورت کی طرف سے حج کرنا اور حافظ صاحب سے اس مقام پر سہو ہوا انہوں نے کہا کہ باب کی حدیث میں ہے کہ عورت نے اپنے باپ کی طرف سے حج کرنے کو پوچھا جانے پر یہ مطلب اس باب کی حدیث میں نہیں ہے، بلکہ آئندہ باب کی حدیث میں ہے۔ ابن بطال نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں امر کے صیغے سے یعنی اقضوا اللہ سے خطاب کیا اس میں مرد عورت سب آگئے اور مر د کا عورت کی طرف سے اور عورت کا مرد کی طرف سے حج کرنا سب کے نزدیک جائز ہے، اس عورت کے نام میں اختلا ف ہے۔ نسائی کی روایت میں سنان بن سلمہ کی بیوی مذکور ہے اور امام احمد کی روایت میں سنان بن عبداللہ کی بیوی بتلایا گیا ہے۔ طبرانی کی روایت سے یہ نکلتا ہے کہ ان کی پھوپھی تھی مگر ابن ہندہ نے صحابیات میں نکالا کہ یہ عورت عانیہ یا غاثیہ نامی تھی ابن طاہر نے مبہمات میں اسی پر جزم کیا ہے۔

حدیث نمبر : 1852
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا أبو عوانة، عن أبي بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن امرأة، من جهينة جاءت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالت إن أمي نذرت أن تحج، فلم تحج حتى ماتت أفأحج عنها قال ‏"‏نعم‏.‏ حجي عنها، أرأيت لو كان على أمك دين أكنت قاضية اقضوا الله، فالله أحق بالوفاء‏"‏‏. ‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ وضاح شکری نے بیان کیا، ان سے ابوبشر جعفر بن ایاس نے، ان سے سعید بن جبیر نے اوران سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کرسکیں اور ان کا انتقال ہو گیا تو کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ان کی طرف سے تو حج کر۔ کیا تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو تم اسے ادا نہ کرتیں؟ اللہ تعالیٰ کا قرضہ تو اس کا سب سے زیادہ مستحق ہے کہ اسے پورا کیا جائے۔ پس اللہ تعالیٰ کا قرض ادا کرنا بہت ضروری ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : اس کی طرف سے حج بدل جس میں سواری پر بیٹھے رہنے کی طاقت نہ ہو

حدیث نمبر : 1853
حدثنا أبو عاصم، عن ابن جريج، عن ابن شهاب، عن سليمان بن يسار، عن ابن عباس، عن الفضل بن عباس ـ رضى الله عنهم ـ أن امرأة، ح‏.
ہم سے ابوعاصم نے ابن جریج سے بیان کیا، انہوں نے کہا ان سے ابن شہاب نے، ان سے سلیمان بن یسار نے، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اوران سے فضل بن عیاض رضی اللہ عنہم نے کہ ایک خاتون۔۔۔ (حدیث نمبر 1854 دیکھیں)

حدیث نمبر : 1854
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عبد العزيز بن أبي سلمة، حدثنا ابن شهاب، عن سليمان بن يسار، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال جاءت امرأة من خثعم، عام حجة الوداع، قالت يا رسول الله إن فريضة الله على عباده في الحج أدركت أبي شيخا كبيرا، لا يستطيع أن يستوي على الراحلة فهل يقضي عنه أن أحج عنه قال ‏"‏نعم‏"‏‏. ‏
(دوسری سند سے امام بخاری نے ) کہا ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن شہاب زہری نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن یسار نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر قبیلہ خشعم کی ایک عورت آئی اور عرض کی یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ کی طرف سے فریضہ حج جو اس کے بندوں پر ہے اس نے میرے بوڑھے باپ کو پالیا ہے لیکن ان میں اتنی سکت نہیں کہ وہ سواری پر بھی بیٹھ سکیں تو کیامیں ان کی طرف سے حج کرلوں توان کا حج ادا ہوجائے گا؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : عورت کا مرد کی طرف سے حج کرنا

حدیث نمبر : 1855
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن سليمان بن يسار، عن عبد الله بن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال كان الفضل رديف النبي صلى الله عليه وسلم فجاءت امرأة من خثعم، فجعل الفضل ينظر إليها، وتنظر إليه فجعل النبي صلى الله عليه وسلم يصرف وجه الفضل إلى الشق الآخر، فقالت إن فريضة الله أدركت أبي شيخا كبيرا، لا يثبت على الراحلة، أفأحج عنه قال ‏"‏نعم‏"‏‏. ‏ وذلك في حجة الوداع‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے ابن شہاب زہری نے، ان سے سلیمان بن یسار نے، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں قبیلہ خشعم کی ایک عورت آئی۔ فضل رضی اللہ عنہ اس کو دیکھنے لگے اور وہ فضل رضی اللہ عنہ کو دیکھنے لگی۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فضل کا چہرہ دوسری طرف پھیرنے لگے، اس عورت نے کہا کہ اللہ کا فریضہ (حج ) نے میرے بوڑھے والد کو اس حالت میں پالیا ہے کہ وہ سواری پر بیٹھ بھی نہیں سکتے تو کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں، آپ نے فرمایا کہ ہاں۔ یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔

تشریح : اس عورت کا نام معلوم نہیں ہوا اس حدیث سے یہ نکلا کہ زندہ آدمی کی طرف سے بھی اگر وہ معذور ہو جائے دوسرا آدمی حج کرسکتا ہے اور یہ بھی ظاہر ہوا کہ ایسا حج بدل مر د کی طرف سے عورت بھی کرسکتی ہے۔

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں و فی ہذا الحدیث من الفوائد جواز الحج من الغیر و استدل الکوفیون بعمومہ علی جواز صحۃ حج من لم یحج نیابۃ عن غیرہ و خالفہم الجمہورفخصوہ بمن حج عن نفسہ واستدلوا بما فی السنن و صحیح ابن خزیمۃ و غیرہ من حدیث ابن عباس ایضا ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم رای رجلا یلبی عن شبرمۃ فقال احججت عن نفسک فقال لا، قال : ہذہ من نفسک ثم احجج عن شبرمۃ الخ ( فتح الباری ) یعنی اس حدیث کے فوائد میں سے ہے کہ غیر کی طرف سے حج کرنا جائز ہے اور کوفیوں نے اس کے عموم سے دلیل لی ہے کہ نیابت میں اس کا حج بھی درست ہے جس نے پہلے اپنا حج نہ کیا ہو اورجمہور نے ان کے خلاف کہا ہے انہوں نے اس کے لیے اسی کو خاص کیا ہے جو پہلے اپنا ذاتی حج کر چکا ہو اور انہوں نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے جسے اصحاب سنن اور ابن خزیمہ وغیرہم نے حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ شبرمہ کی طرف سے لبیک پکار رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شبرمہ کون ہے اس نے اس کو بتلایا، پھر آپ نے پوچھا کہ کیا تو پہلے اپنا ذاتی حج کر چکا ہے، اس نے نفی میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پہلے اپنا حج کر پھر شبرمہ کا حج کرنا۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ حج بدل جس سے کرایا جائے ضروری ہے کہ وہ شخص پہلے اپنا حج کرچکا ہو حافظ ابن حجر فرماتے ہیں و فیہ ان من مات و علیہ حج وجب علی ولیہ ان یجہز من یحج عنہ من راس مالہ کما ان علیہ قضاءدیونہ فقد اجمعوا علی ان دین الادمی من راس المال فکذلک ما شبہ بہ فی القضاءو یلتحق بالحج کل حق ثبت فی ذمتہ من کفارۃو نذر و زکوۃ او غیر ذلک الخ ( فتح الباری ) یعنی اس میں یہ بھی ہے کہ جو شخص وفات پائے اور اس پر حج واجب ہو تو وارثوں کا فرض ہے کہ اس کے اصل مال سے کسی دوسرے کو حج بدل کے لیے تیار کرکے بھیجیں۔ یہ ایسا ہی ضروری ہے جیسا کہ اس کے قرض کی ادائیگی ضروری ہے اور کفارہ اور نذر اور زکوۃ وغیرہ کی جواس کے ذمہ واجب ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : بچوں کا حج کرنا

حدیث نمبر : 1856
أبو النعمان: حدثنا حماد بن زيد، عن عبيد الله بن أبي يزيد قال: سمعت ابن عباس رضي الله عنهما يقول: بعثني، أو قدمني النبي صلى الله عليه وسلم في الثقل من جمع بليل.
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ بن ابی یزید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مزدلفہ کی رات منیٰ میں سامان کے ساتھ آگے بھیج دیا تھا۔

حدیث نمبر : 1857
حدثنا إسحق: أخبرنا يعقوب بن إبراهيم: حدثنا ابن أخي ابن شهاب، عن عمه: أخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود: أن عبد الله بن عباس رضي الله عنهما قال: أقبلت وقد ناهزت الحلم، أسير على أتان لي، ورسول الله صلى الله عليه وسلم قائم يصلي بمنى، حتى سرت بين يدي بعض الصف الأول، ثم نزلت عنها فرتعت، فصففت مع الناس وراء رسول الله صلى الله عليه وسلم.
ہم سے اسحق بن منصور نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی، ان سے ان کے بھتیجے ابن شہاب زہری نے بیان کیا، ان سے ان کے چچا نے، انہیں عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے، خبردی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا میں اپنی ایک گدھی پر سوار ہو کر (منیٰ میں آیا ) اس وقت میں جوانی کے قریب تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں کھڑے نماز پڑھا رہے تھے۔ میں پہلی صف کے ایک حصہ کے آگے سے ہو کر گزرا پھر سواری سے نیچے اترآیا اور اسے چرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لوگوں کے ساتھ صف میں شریک ہو گیا، یونس نے ابن شہاب کے واسطہ سے بیان کیا کہ یہ حجۃ الوداع کے موقع پر منیٰ کا واقعہ ہے۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ان دنوں نابالغ تھے ۔ باوجود اس کے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا ، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب کا مطلب اسی سے ثابت فرمایا ہے ۔

حدیث نمبر : 1858
حدثنا عبد الرحمن بن يونس، حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن محمد بن يوسف، عن السائب بن يزيد، قال حج بي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا ابن سبع سنين‏.‏
ہم سے عبدالرحمن بن یونس نے بیان کیا، ان سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے محمد بن یوسف نے اور ان سے سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کرایا گیا تھا۔ میں اس وقت سات سال کا تھا۔

حدیث نمبر : 1859
حدثنا عمرو بن زرارة، أخبرنا القاسم بن مالك، عن الجعيد بن عبد الرحمن، قال سمعت عمر بن عبد العزيز، يقول للسائب بن يزيد، وكان قد حج به في ثقل النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے عمرو بن ذرارہ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں قاسم بن مالک نے خبر دی، انہیں جعید بن عبدالرحمن نے، انہوں نے کہا کہ میں نے عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ سے سنا، وہ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے کہہ رہے تھے سائب رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامان کے ساتھ (یعنی بال بچوں میں ) حج کرایا گیا تھا۔

تشریح : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس باب میں وہ صریح حدیث نہیں لائے جسے امام مسلم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ ایک عورت نے اپنا بچہ اٹھایا اورکہنے لگی یا رسول اللہ ! کیا اس کا بھی حج ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اور تجھ کو بھی ثواب ملے گا۔ حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ بچہ کا حج مشروع ہے اوراس کا احرام صحیح ہے لیکن یہ حج اس کے فرض حج کو ساقط نہ کرے گا۔ بلوغ کے بعد فرض حج ادا کرنا ہوگا اور یہ حج نفل رہے گا۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ان دنوں نابالغ تھے۔ باوجود اس کے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب کا مطلب اسی سے ثابت فرمایا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : عورتوں کا حج کرنا

حدیث نمبر : 1860
وقال لي أحمد بن محمد حدثنا إبراهيم، عن أبيه، عن جده، أذن عمر ـ رضى الله عنه ـ لأزواج النبي صلى الله عليه وسلم في آخر حجة حجها، فبعث معهن عثمان بن عفان وعبد الرحمن بن عوف‏.‏
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ مجھ سے احمد بن محمد نے کہا کہ ان سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے ان کے داد (ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ) نے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے آخری حج کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو حج کی اجازت دی تھی اور ان کے ساتھ عثمان بن عفان اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کو بھیجا تھا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سب بیویاں حج کو گئیں مگر حضرت سودہ اور حضرت زینب رضی اللہ عنہما وفات تک مکان سے نہ نکلیں۔ پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تردد ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو حج کے لیے نکالیں یا نہیں۔ پھر انہوں نے اجازت دی اورنگہبانی کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ساتھ کر دیا، پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت میں بھی امہات المومنین نے حج کیا، ہودجوں پر سوار تھیں، ان پر چادریں پڑی ہوئی تھیں۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1861
حدثنا مسدد، حدثنا عبد الواحد، حدثنا حبيب بن أبي عمرة، قال حدثتنا عائشة بنت طلحة، عن عائشة أم المؤمنين ـ رضى الله عنها ـ قالت قلت يا رسول الله ألا نغزوا ونجاهد معكم فقال ‏"‏لكن أحسن الجهاد وأجمله الحج، حج مبرور‏"‏‏. ‏ فقالت عائشة فلا أدع الحج بعد إذ سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے حبیب بن عمرہ نے بیان کیا، انھوں نے کہامجھ سے عائشہ بنت طلحہ نے بیان کیا اوران سے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم بھی کیوں نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد اور غزووں میں جایا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگوں کے لیے سب سے عمدہ اور سب سے مناسب جہاد حج ہے، وہ حج جو مقبول ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں کہ جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سن لیا ہے حج کو میں کبھی چھوڑنے والی نہیں ہوں۔

تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد تھا کہ جہاد کے لیے نکلنا تم پر واجب نہیں جیسے مردوں پر واجب ہے۔ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورتیں مجاہدین کے ساتھ نہ جائیں۔ بلکہ جاسکتی ہیں کیوں کہ ام عطیہ کی حدیث میں ہے کہ ہم جہاد میں نکلتے تھے اور زخمیوں کی دوا وغیرہ کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو بشارت دی تھی کہ وہ مجاہدین کے ساتھ شہید ہوگی۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1862
حدثنا أبو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن عمرو، عن أبي معبد، مولى ابن عباس عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏لا تسافر المرأة إلا مع ذي محرم، ولا يدخل عليها رجل إلا ومعها محرم‏"‏‏. ‏ فقال رجل يا رسول الله إني أريد أن أخرج في جيش كذا وكذا، وامرأتي تريد الحج‏.‏ فقال ‏"‏اخرج معها‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام ابومعبد نے اوران سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی عورت اپنے محرم رشتہ دار کے بغیر سفر نہ کرے اور کوئی شخص کسی عورت کے پاس اس وقت تک نہ جائے جب تک وہاں ذی محرم موجود نہ ہو۔ ایک شخص نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! میں فلاں لشکر میں جہاد کے لیے نکلنا چاہتا ہوں، لیکن میری بیوی کا ارادہ حج کاہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو اپنی بیوی کے ساتھ حج کو جا۔

تشریح : اس روایت میں مطلق سفر مذکور ہے دوسری روایتوں میں تین دن اور دو دن اور ایک دن کے سفر کی تصریح ہے۔ بہرحال ایک دن رات کی راہ کے سفر پر عورت بغیر محرم کے جاسکتی ہے۔ ہمارے امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ اگر عورت کو خاوند یا دوسرا کوئی محرم رشتہ دار نہ ملے تو اس پر حج واجب نہیں ہے حنفیہ کا بھی یہی قول ہے لیکن شافعیہ اور مالکیہ معتبر اور رفیقوں کے ساتھ حج کے لیے جانا جائز رکھتے ہیں۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1863
حدثنا عبدان، أخبرنا يزيد بن زريع، أخبرنا حبيب المعلم، عن عطاء، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال لما رجع النبي صلى الله عليه وسلم من حجته قال لأم سنان الأنصارية ‏"‏ما منعك من الحج‏"‏‏. ‏ قالت أبو فلان ـ تعني زوجها ـ كان له ناضحان، حج على أحدهما، والآخر يسقي أرضا لنا‏.‏ قال ‏"‏فإن عمرة في رمضان تقضي حجة معي‏"‏‏. ‏ رواه ابن جريج عن عطاء سمعت ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو یزید بن زریع نے خبر دی، کہا ہم کو حبیب معلم نے خبر دی، انہیں عطاءبن ابی رباح نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سنان انصاریہ عورت رضی اللہ عنہا سے دریافت فرمایا کہ تو حج کرنے نہیں گئی؟ انہوں نے عرض کی کہ فلاں کے باپ یعنی میرے خاوند کے پاس دو اونٹ پانی پلانے کے تھے ایک پر تو خود حج کو چلے گئے اور دوسرا ہماری زمین سیراب کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے، اس روایت کو ابن جریج نے عطاءسے سنا، کہا انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، اور عبید اللہ نے عبدالکریم سے روایت کیا، ان سے عطاءنے ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے۔

تشریح : عبید اللہ عن عبدالکریم کی روایت کو ابن ماجہ نے وصل کیا ہے امام بخاری کا مطلب ان سندوں کے بیان کرنے سے یہ ہے کہ راویوں نے اس میں عطاءپر اختلاف کیا ہے، ابن ابی معلی اور یعقوب ابن عطاءنے بھی حبیب معلم اور ابن جریج کی طرح روایت کی ہے معلوم ہوا کہ عبدالکریم کی روایت شاذ ہے جو اعتبار کے قابل نہیں۔ حدیث میں جس عورت کا ذکر ہے وہ ام سنان رضی اللہ عنہا ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کرنے سے محروم رہ گئی تھیں۔ حج ان پر فرض بھی نہ تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دلجوئی کے لیے فرمایا کہ رمضان میں اگر وہ عمرہ کرلیں تو اس محرومی کا کفارہ ہو جائے گا اس سے رمضان میں عمرہ کی فضیلت بھی ثابت ہوئی۔

حدیث نمبر : 1864
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن عبد الملك بن عمير، عن قزعة، مولى زياد قال سمعت أبا سعيد ـ وقد غزا مع النبي صلى الله عليه وسلم ثنتى عشرة ـ غزوة ـ قال أربع سمعتهن من رسول الله صلى الله عليه وسلم أو قال يحدثهن عن النبي صلى الله عليه وسلم ـ فأعجبنني وآنقنني ‏"‏أن لا تسافر امرأة مسيرة يومين ليس معها زوجها أو ذو محرم، ولا صوم يومين الفطر والأضحى، ولا صلاة بعد صلاتين بعد العصر حتى تغرب الشمس، وبعد الصبح حتى تطلع الشمس، ولا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد مسجد الحرام، ومسجدي، ومسجد الأقصى‏"‏‏. ‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے، ان سے عبدالملک بن عمر نے، ان سے زیاد کے غلام قزعہ نے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ جہاد کئے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ میں نے چار باتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھیں یا یہ کہ وہ یہ چار باتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے اورکہتے تھے کہ یہ باتیں مجھے انتہائی پسند ہیں یہ کہ کوئی عورت دو دن کا سفر اس وقت تک نہ کرے جب تک اس کے ساتھ اس کا شوہر یا کوئی ذو رحم محرم نہ ہو، نہ عید الفطر اور عید الاضحی کے روزے رکھے جائیں نہ عصر کی نماز کے بعد غروب ہونے کے پہلے اور نہ صبح کی نماز کے بعد سورج نکلنے سے پہلے کوئی نماز پڑھی جائے اورنہ تین مساجد کے سوا کسی کے لیے کجاوے باندھے جائیں مسجد حرام، میری مسجد اورمسجد اقصیٰ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : اگر کسی نے کعبہ تک پیدل سفر کرنے کی منت مانی؟

حدیث نمبر : 1865
حدثنا ابن سلام، أخبرنا الفزاري، عن حميد الطويل، قال حدثني ثابت، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى شيخا يهادى بين ابنيه قال ‏"‏ما بال هذا‏"‏‏. ‏ قالوا نذر أن يمشي‏.‏ قال ‏"‏إن الله عن تعذيب هذا نفسه لغني‏"‏‏. ‏ وأمره أن يركب‏.‏
ہم سے محمدبن سلام نے بیان کیا، کہا ہمیں مروان فزاری نے خبر دی، انہیں حمیدطویل نے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے ثابت نے بیان کیا اوران سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا جو اپنے دوبیٹوں کا سہارا لئے چل رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ان صاحب کا کیا حال ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ انہوں نے کعبہ کو پیدل چلنے کی منت مانی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے کہ یہ اپنے کو تکلیف میں ڈالیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سوار ہونے کا حکم دیا۔

تو اس پر اس منت کا پورا کرنا وجب ہے یا نہیں حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ ایسی نذر کا پورا کرنا واجب نہیں کیوں کہ حج سوار ہو کر کرنا پیدل کرنے سے افضل ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے سوار ہونے کا حکم دیا کہ اس کو پیدل چلنے کی طاقت نہ تھی۔

حدیث نمبر : 1866
حدثنا إبراهيم بن موسى، أخبرنا هشام بن يوسف، أن ابن جريج، أخبرهم قال أخبرني سعيد بن أبي أيوب، أن يزيد بن أبي حبيب، أخبره أن أبا الخير حدثه عن عقبة بن عامر، قال نذرت أختي أن تمشي، إلى بيت الله، وأمرتني أن أستفتي لها النبي صلى الله عليه وسلم فاستفتيته، فقال عليه السلام ‏"‏لتمش ولتركب‏"‏‏. ‏ قال وكان أبو الخير لا يفارق عقبة‏.‏ حدثنا أبو عاصم، عن ابن جريج، عن يحيى بن أيوب، عن يزيد، عن أبي الخير، عن عقبة... فذكر الحديث.
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی کہ ابن جریج نے انہیں خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے سعید بن ابی ایوب نے خبر دی، انہیں یزید بن حبیب نے خبر دی، انہیں ابوالخیر نے خبر دی، کہ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا میری بہن نے منت مانی تھی کہ بیت اللہ تک وہ پیدل جائیں گی، پھر انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پوچھ لو چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ پیدل چلیں اور سوار بھی ہوجائیں۔ یزید نے کہا کہ ابوالخیر ہمیشہ عقبہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہتے تھے۔ ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے یحییٰ بن ایوب نے، ان سے یزید نے ان سے ابوالخیر نے اوران سے عقبہ رضی اللہ عنہ نے، پھر یہی حدیث بیان کی۔
 
Top