Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : حرم اور مکہ شریف میں بغیر احرام کے داخل ہونا
ودخل ابن عمر. وإنما أمر النبي صلى الله عليه وسلم بالإهلال لمن أراد الحج والعمرة، ولم يذكر للحطابين وغيرهم.
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما احرام کے بغیر داخل ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کا حکم ان ہی لوگوں کو دیا جو حج اور عمرہ کے ارادے سے آئیں۔ لکڑی بیچنے کے لیے آنے والوں اور دیگر لوگوں کو ایسا حکم نہیں دیا۔
تشریح : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اس واقعہ کو امام مالک نے موطا میں نافع سے نقل کیا ہے کہ جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قدید میں پہنچے تو انہوں نے فساد کی خبر سنی۔ وہ لوٹ گئے اور مکہ میں بغیر احرام کے دخل ہو گئے۔ باب کا مطلب حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے یوں نکالا کہ حدیث میں ذکر ہے جو لوگ حج اور عمرے کا ارادہ رکھتے ہوں ان پر لازم ہے کہ مکہ میں بااحرام داخل ہوں یہاں جو لوگ اپنی ذاتی ضروریات کے لیے مکہ شریف آتے جاتے رہتے ہیں ان کے لیے احرام واجب نہیں۔ امام شافعی کا یہی مسلک ہے مگر حنفیہ مکہ شریف میں داخل ہونے والے کے لیے احرام ضروری قرار دیتے ہیں۔ ابن عبدالبر نے کہا اکثر صحابہ اور تابعین وجوب کے قائل ہیں مگر درایت اور روایت کی بنا پر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہی کے مسلک کو ترجیح معلوم ہوتی ہے۔
حدیث نمبر : 1845
حدثنا مسلم، حدثنا وهيب، حدثنا ابن طاوس، عن أبيه، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم وقت لأهل المدينة ذا الحليفة، ولأهل نجد قرن المنازل، ولأهل اليمن يلملم، هن لهن ولكل آت أتى عليهن من غيرهم ممن أراد الحج والعمرة، فمن كان دون ذلك فمن حيث أنشأ، حتى أهل مكة من مكة.
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ والوں کے لیے ذو الحلیفہ کو میقات بنایا، نجد والوں کے لیے قرن منازل کو اور یمن والوں کے لیے یلملم کو۔ یہ میقات ان ملکوں کے باشندوں کے لیے ہے اور دوسرے ان تمام لوگوں کے لیے بھی جو ان ملکوں سے ہو کر مکہ آئیں اور حج اور عمرہ کا بھی ارادہ رکھتے ہوں، لیکن جو لوگ ان حدود کے اندر ہوں تو ان کی میقات وہی جگہ ہے جہاں سے وہ اپنا سفر شروع کریں یہاں تک کہ مکہ والوں کی میقات مکہ ہی ہے۔
حدیث نمبر : 1846
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل عام الفتح، وعلى رأسه المغفر، فلما نزعه جاء رجل، فقال إن ابن خطل متعلق بأستار الكعبة. فقال "اقتلوه".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب زہری نے اور انہیں انس بن مالک رحمۃ اللہ علیہ نے آکر خبر دی کہ فتح مکہ کے دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پر خود تھا۔ جس وقت آپ نے اتارا تو ایک شخص نے خبر دی کہ ابن خطل کعبہ کے پردوں سے لٹک رہا ہے آپ نے فرمایا کہ اسے قتل کردو۔
تشریح : ابن خطل کا نام عبداللہ تھا یہ پہلے مسلمان ہو گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو زکوۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا، جس کے ساتھ ایک مسلمان غلام بھی تھا۔ ابن خطل نے اس مسلمان غلام کو کھانا تیار کرنے کا حکم دیا اور خود سو رہا، پھر جاگا تو اس مسلمان غلام نے کھانا تیار نہیں کیا تھا، غصہ میں آکر اس نے اس غلام کو قتل کر ڈالا اور خود اسلام سے پھر گیا۔ دوگانے والی لونڈیاں اس نے رکھی تھیں اور ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کے گیت گوایا کرتا تھا۔ یہ بدبخت ایسا ازلی دشمن ثابت ہوا کہ اسے کعبہ شریف کے اند رہی قتل کر دیا گیا۔ ابن خطل کو قتل کرنے والے حضرت ابوبرزہ اسلمی تھے بعض نے حضرت زبیر کو بتلایا ہے۔
باب : حرم اور مکہ شریف میں بغیر احرام کے داخل ہونا
ودخل ابن عمر. وإنما أمر النبي صلى الله عليه وسلم بالإهلال لمن أراد الحج والعمرة، ولم يذكر للحطابين وغيرهم.
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما احرام کے بغیر داخل ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کا حکم ان ہی لوگوں کو دیا جو حج اور عمرہ کے ارادے سے آئیں۔ لکڑی بیچنے کے لیے آنے والوں اور دیگر لوگوں کو ایسا حکم نہیں دیا۔
تشریح : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اس واقعہ کو امام مالک نے موطا میں نافع سے نقل کیا ہے کہ جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قدید میں پہنچے تو انہوں نے فساد کی خبر سنی۔ وہ لوٹ گئے اور مکہ میں بغیر احرام کے دخل ہو گئے۔ باب کا مطلب حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے یوں نکالا کہ حدیث میں ذکر ہے جو لوگ حج اور عمرے کا ارادہ رکھتے ہوں ان پر لازم ہے کہ مکہ میں بااحرام داخل ہوں یہاں جو لوگ اپنی ذاتی ضروریات کے لیے مکہ شریف آتے جاتے رہتے ہیں ان کے لیے احرام واجب نہیں۔ امام شافعی کا یہی مسلک ہے مگر حنفیہ مکہ شریف میں داخل ہونے والے کے لیے احرام ضروری قرار دیتے ہیں۔ ابن عبدالبر نے کہا اکثر صحابہ اور تابعین وجوب کے قائل ہیں مگر درایت اور روایت کی بنا پر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہی کے مسلک کو ترجیح معلوم ہوتی ہے۔
حدیث نمبر : 1845
حدثنا مسلم، حدثنا وهيب، حدثنا ابن طاوس، عن أبيه، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم وقت لأهل المدينة ذا الحليفة، ولأهل نجد قرن المنازل، ولأهل اليمن يلملم، هن لهن ولكل آت أتى عليهن من غيرهم ممن أراد الحج والعمرة، فمن كان دون ذلك فمن حيث أنشأ، حتى أهل مكة من مكة.
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ والوں کے لیے ذو الحلیفہ کو میقات بنایا، نجد والوں کے لیے قرن منازل کو اور یمن والوں کے لیے یلملم کو۔ یہ میقات ان ملکوں کے باشندوں کے لیے ہے اور دوسرے ان تمام لوگوں کے لیے بھی جو ان ملکوں سے ہو کر مکہ آئیں اور حج اور عمرہ کا بھی ارادہ رکھتے ہوں، لیکن جو لوگ ان حدود کے اندر ہوں تو ان کی میقات وہی جگہ ہے جہاں سے وہ اپنا سفر شروع کریں یہاں تک کہ مکہ والوں کی میقات مکہ ہی ہے۔
حدیث نمبر : 1846
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل عام الفتح، وعلى رأسه المغفر، فلما نزعه جاء رجل، فقال إن ابن خطل متعلق بأستار الكعبة. فقال "اقتلوه".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب زہری نے اور انہیں انس بن مالک رحمۃ اللہ علیہ نے آکر خبر دی کہ فتح مکہ کے دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پر خود تھا۔ جس وقت آپ نے اتارا تو ایک شخص نے خبر دی کہ ابن خطل کعبہ کے پردوں سے لٹک رہا ہے آپ نے فرمایا کہ اسے قتل کردو۔
تشریح : ابن خطل کا نام عبداللہ تھا یہ پہلے مسلمان ہو گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو زکوۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا، جس کے ساتھ ایک مسلمان غلام بھی تھا۔ ابن خطل نے اس مسلمان غلام کو کھانا تیار کرنے کا حکم دیا اور خود سو رہا، پھر جاگا تو اس مسلمان غلام نے کھانا تیار نہیں کیا تھا، غصہ میں آکر اس نے اس غلام کو قتل کر ڈالا اور خود اسلام سے پھر گیا۔ دوگانے والی لونڈیاں اس نے رکھی تھیں اور ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کے گیت گوایا کرتا تھا۔ یہ بدبخت ایسا ازلی دشمن ثابت ہوا کہ اسے کعبہ شریف کے اند رہی قتل کر دیا گیا۔ ابن خطل کو قتل کرنے والے حضرت ابوبرزہ اسلمی تھے بعض نے حضرت زبیر کو بتلایا ہے۔