Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
فضائل المدینہ
صحیح بخاری -> کتاب فضائل المدینہ
باب : مدینہ کے حرم کا بیان
حدیث نمبر : 1867
حدثنا أبو النعمان، حدثنا ثابت بن يزيد، حدثنا عاصم أبو عبد الرحمن الأحول، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال "المدينة حرم، من كذا إلى كذا، لا يقطع شجرها، ولا يحدث فيها حدث، من أحدث حدثا فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين".
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، ان سے ثابت بن یزید نے بیان کیا، ان سے ابوعبدالرحمن احول عاصم نے بیان کیا، اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ حرم ہے فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک (یعنی جبل عیر سے ثور تک ) اس حد میں کوئی درخت نہ کاٹا جائے نہ کوئی بدعت کی جائے اور جس نے بھی یہاں کوئی بدعت نکالی اس پر اللہ تعالیٰ اور تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے۔
تشریح : حرم مدینہ کا بھی وہی حکم ہے جو مکہ کے حرم کا ہے صرف جزا لازم نہیں آتی۔ امام مالک اور امام شافعی اور احمد اور اہل حدیث کا یہی مذہب ہے۔ شعبہ اور حماد کی روایت میں اتنا اور زیادہ ہے یا کسی بدعتی کو جگہ دے دے۔ معاذ اللہ بدعت ایسی بری بلا ہے کہ آدمی بدعتی کو جگہ دےنے سے ملعون ہوجاتا ہے۔
حدیث نمبر : 1868
حدثنا أبو معمر، حدثنا عبد الوارث، عن أبي التياح، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة فأمر ببناء المسجد فقال "يا بني النجار ثامنوني". فقالوا لا نطلب ثمنه إلا إلى الله. فأمر بقبور المشركين، فنبشت، ثم بالخرب فسويت، وبالنخل فقطع، فصفوا النخل قبلة المسجد.
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے ابوالتیاح نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ(ہجرت کرکے ) تشریف لائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی تعمیر کا حکم دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے بنو نجار تم (اپنی اس زمین کی ) مجھ سے قیمت لے لو لیکن انہوں نے عرض کی کہ ہم اس کی قیمت صرف اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی قبروں کے متعلق فرمایا اور وہ اکھاڑی دی گئیں، ویرانہ کے متعلق حکم دیا اور وہ برابر کر دیا گیا، کھجور کے درختوں کے متعلق حکم دیا اور وہ کاٹ دیئے گئے اور وہ درخت قبلہ کی طرف بچھا دیئے گئے۔
تشریح : اس سے بعض حنفیہ نے دلیل لی ہے کہ اگر مدینہ حرم ہوتا تو وہاں کے درخت آپ کیوں کٹواتے؟ ان کا جواب یہ ہے کہ یہ فعل ضرورت سے واقع ہوا یعنی مسجد نبوی بنانے کے لیے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کیا بحکم الٰہی کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو مکہ میں بھی قتال کیا، کیا حنفیہ بھی اس کو کسی اور کے لیے جائز کہیں گے۔ مسلم کی روایت میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے ارد گرد بارہ میل تک حرم کی حد قرار دی۔
حدیث نمبر : 1869
حدثنا إسماعيل بن عبد الله، قال حدثني أخي، عن سليمان، عن عبيد الله، عن سعيد المقبري، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال "حرم ما بين لابتى المدينة على لساني". قال وأتى النبي صلى الله عليه وسلم بني حارثة فقال "أراكم يا بني حارثة قد خرجتم من الحرم". ثم التفت، فقال "بل أنتم فيه".
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن بلال نے، ان سے عبید اللہ نے، ان سے سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ کے دونوں پتھریلے کناروں میں جو زمین ہے وہ میری زبان پر حرم ٹھہرای گئی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنو حارثہ کے پاس آئے اور فرمایا بنوحارثہ ! میرا خیال ہے کہ تم لوگ حرم سے باہر ہو گئے ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مڑ کر دیکھا اور فرمایا کہ نہیں بلکہ تم لوگ حرم کے اندر ہی ہو۔
حدیث نمبر : 1870
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن، حدثنا سفيان، عن الأعمش، عن إبراهيم التيمي، عن أبيه، عن علي ـ رضى الله عنه ـ قال ما عندنا شىء إلا كتاب الله، وهذه الصحيفة عن النبي صلى الله عليه وسلم "المدينة حرم، ما بين عائر إلى كذا، من أحدث فيها حدثا، أو آوى محدثا، فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لا يقبل منه صرف ولا عدل". وقال "ذمة المسلمين واحدة، فمن أخفر مسلما فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لا يقبل منه صرف ولا عدل، ومن تولى قوما بغير إذن مواليه، فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لا يقبل منه صرف ولا عدل".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرحمن بن مہدی نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے اعمش نے، ان سے ان کے والد یزید بن شریک نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے پاس کتاب اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صحیفہ کے سوا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے ہے اور کوئی چیز (شرعی احکام سے متعلق ) لکھی ہوئی صورت میں نہیں ہے۔ اس صحیفہ میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ عائر پہاڑی سے لے کر فلاں مقام تک حرم ہے، جس نے اس حد میں کوئی بدعت نکالی یا کسی بدعتی کو پناہ دی تو اس پر اللہ اور تمام ملائکہ اورانسانوں کی لعنت ہے، نہ اس کی کوئی فرض عبادت مقبول ہے نہ نفل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام مسلمانوں میں سے کسی کا بھی عہد کافی ہے اس لیے اگر کسی مسلمان کی (دی ہوئی امان میں دوسرے مسلمان نے ) بدعہدی کی تو اس پر اللہ تعالیٰ اور تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے۔ نہ اس کی کوئی فرض عبادت مقبول ہے نہ نفل، اور جو کوئی اپنے مالک کو چھوڑ کر اس کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کو مالک بنائے، اس پر اللہ اور تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے، نہ اس کی کوئی فرض عبادت مقبول ہے نہ نفل۔
مدینہ الرسول کے کچھ تاریخی حالات :
مدینہ منورہ یا مدینۃ الرسول جسے طیبہ بھی کہتے ہیں، سطح سمندر سے تقریباً 619 میٹر بلندہے اور وہ مشرق کی جانب39 درجہ 55 دقیقہ کے طول پر اور شمال کو خط استوا سے24 درجہ اور15 دقیقہ کے عرض پر واقع ہے، موسم گرما میں اس کی حرارت 28 درجہ تک پہنچ جاتی ہے اور سرما میں دن کو صفر کے اوپر دس درجہ تک اور رات کو صفر کے نیچے5 درجہ تک آتی ہے، سردی کے ایام میں صبح کے وقت اکثر پانی برتنوں میں جم جاتا ہے۔
یہ شہر مکۃ المکرمہ سے جانب شمال دو سو ساٹھ میل کے فاصلے پر واقع ہے اورملک عرب کے صوبہ حجاز میں بلحاظ آبادی دوسرے نمبر پر ہے۔ مکہ المکرمہ کے بعد دنیائے اسلام کا سب سے پیارا بابرکت مقدس شہر ہے، جہاں اللہ کے آخری رسول حضرت سید الانبیاءسند الاتقیا احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما ہیں۔
وجہ تسمیہ :
ہجرت سے پہلے یہ شہر یثرب کے نام سے موسوم تھا، قرآن مجید میں یہ نام بھی آیا ہے و اذ قالت طائفۃ منہم یٰآہل یثرب لا مقام لکم ( الاحزاب : 13 ) بقول زجاج یہ شہر یثرب بن قانیہ بن مہلائیل بن ارم بن عیل بن عوص بن ارم بن سام بن نوح کا آباد کیا ہوا ہے اس لیے یثرب کے نام سے موسوم ہوا۔ بعض مورخین کے بیان کے مطابق اس کو یثرب اس لیے کہتے ہیں کہ ایک شخص یثرب نامی عملقی نے اس شہر کو بسایا تھا، آخر میں یہودیوں بنو نضیر و بنو قریظہ و بنو قینقاع کے ہاتھ آگیا۔
300ءمیں بنو ازد کے دو قبائل اوس و خزرج نے اس کی سرحد میں سکونت اختیار کی اور492ءمیں اس پر قابض ہو گئے۔ مدینہ سے شمال و مشرق میں اب بھی ایک بستی ہے جس کا نام یثرب ہے عجب نہیں کہ پہلی آبادی اسی جگہ ہو اور اوس و خزرج نے یہود سے جدا رہنا پسند کرکے یہاں رہائش اختیار کی ہو اوراس لیے اس حصہ کوبھی یثرب ہی سے پکارا گیا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لفظ یثرب مصری کلمہ اتربیس سے بگڑ کر بنا ہے اگر یہ صحیح ہے تو ثابت ہوتا کہ عمالقہ نے مصر سے نکلنے کے بعد مدینہ کو بسایا۔ اس کی یہودیت کے اس قول سے بھی تائید ہوتی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فلسطین کو جاتے ہوئے ایک جماعت کو بھیجا تاکہ وہ اس جانب کے حالات معلوم کرے جب وہ لوگ اس طرف پہنچے اور ان کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کی خبر ملی تو انہوں نے شہر اتربیس بنا کر اس میں اقامت اختیار کی، اس قول کی بنا پر مدینہ کی آبادی سولہ سوسال قبل مسیح سے شروع ہوتی ہے۔
یثرب میں اسلام کیوں کر پہنچا؟ :
مدینہ منور میں بسنے والے قبائل بیشتر یہودی المذہب تھے مگر کبر و حمیت کی بنا پر ان میں باہم اتنے نزاع تھے کہ گویا ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ اوس و خزرج کی خانہ جنگی کو ایک صدی کا زمانہ گزر چکا تھا کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و تبلیغ کا چرچہ مکہ ونواح میں پھیلا، اسی دوران میں خاندان عبدالاشہل کے چند آدمی قریش کو اپنا حلیف بنانے کی غرض سے مکہ آئے اور اسلام کا چرچا سنا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تنہائی میں ان کو اسلام کی پاک تعلیم سے آگاہ کیا اور قرآن پاک کی چند آیات سنائیں۔ ان میں ایاس بن معاذ پر اس تلقین کا بہت اثر ہوا اور مسلمان ہونے کا ارادہ کیا مگر امیر وفد انس بن رافع نے کہا کہ جلدی نہ کرو ابھی حالات کا مطالعہ کرو، چنانچہ یہ لوگ یونہی واپس ہو گئے۔
10 نبوی میں قبیلہ خزرج کے چھ آدمی موسم حج میں آئے تو عقبہ یعنی اس پہاڑی کی گھاٹی میں جو منیٰ جانے والے بائیں ہاتھ پر چڑھائی کی سیڑھیوں سے ذرا ورے پڑتی ہے، شب کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملے اوران کو اسلام کی دعوت دی، چنانچہ یہ حضرات مشرف بہ اسلام ہو گئے اوراس کا نام عقبہ اولی ہوا۔ ان کے ذریعہ سے مدینہ میں اسلام کا چرچا پھیلا۔
دوسرے سال بارہ سربرآوردہ اصحاب آئے اور اس عقبیٰ میں آنحضرت صلی اللہ علی وسلم سے تنہائی میں گفتگو کرنے کا وقت معین کر لیا۔ چنانچہ خوب کھل کر باتیں ہوئیں اورانہوں نے یہ اطمینان کرکے کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم رسول ہیں، اسلام قبول کرلیا۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو مبلغ اسلام بنا کر ان کے ہمراہ کر دیا اور حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے ان کو اپنے مکان میں ٹھہرایا۔ اب دار بنی ظفر میں اسلامی مشن کا دفتر قائم کر دیا گیا۔ جو حضرات اسلام لاچکے تھے وہ مذہبی تعلیم پاتے اور جو نئے آتے ان کو وعظ سنایا جاتا تھا۔ اس مخلصانہ پرچار کے بہترین نتائج نکلے اور رفتہ رفتہ یثرب کے نامور قبیلہ عبدالاشہل کا ہر مرد وزن حلقہ بگوش اسلام ہو گیا۔ اب یثرب میں ایک کثیر جماعت اسلام کی نصرت اور پیغمبر اسلام کے پسینہ کی جگہ خون بہانے کے لیے تیار ہو گئی۔ کچھ دنوں بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہجرت فرما کریثرب تشریف لے آئے۔ اس وقت سے یثرب کو مدینۃ الرسول بننے کا شرف حاصل ہوا۔ مدینۃ الرسول کا چپہ چپہ مسلمانان عالم کے لیے باعث صد احترام ہے اس مقدس شہر میں وہ مبارک مسجد ہے جس میں بیٹھ کر سیدالانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی روشنی کو چار دانگ عالم میں پھیلا یا اور اس مبارک شہر میں وہ مقدس جگہ ہے جہاں سرتاج الانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما رہے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لاکھوں غلام جہاں کی مٹی کے اندر سوئے ہوئے ہیں علاوہ ازیں چند تاریخی یاد داشتیں مسافرین مدینہ کے لیے بطور ہدیہ پیش کی جاتی ہیں۔
ہجرت میں تشریف آوری کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینے سے جنوبی سمت قبا میں قبیلہ بنی عمرو بن عوف کے مہمان ہوئے تھے۔ کلثوم بن ہدم کا گھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام گاہ بنا اور سعد بن خیثمہ کا گھر آپ کی مردانہ نشست گاہ، یہ دونوں گھر نزول قدوم نبوی کے سبب بڑی شان رکھتے ہیں۔ مسجد قبا کے جنوب میں بہ سمت قبلہ40 فٹ فاصلے پر دو قبے بیضوی شکل کے ہیں، ان میں ایک قبہ جو مقام العمرہ کے نام سے مشہور ہے، یہی کلثوم بن ہدم کا مکان تھا اور اس سے ملا ہوا قبہ جو بیت فاطمہ کہلاتا ہے یہ سعد بن خیثمہ کا گھر تھا۔ مسجد قبا کے صحن میں جو قبہ مبرک ناقہ کہلاتا ہے یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی بیٹھی تھی جہاں اس وقت مسجد قبا ہے وہ حضرت کلثوم کا مربد تھا کہ کھجوریں خشک کرنے کے لیے وہاں پھیلاتے تھے، مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ کے مکان پر اترے تھے، یہ مکان محلہ زقاق الجسہ میں مسجد کی صورت میں اب موجو دہے۔ جس میں محراب بھی ہے اور قبہ بھی اس کی بیرونی دیوار پر ایک پتھر نصب ہے جس میں آب زر سے یہ لکھا ہوا ہے ہذا بیت ابی ایوب الانصاری الخ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے مکان کی جنوبی سمت حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کا مکان تھا جو اس وقت دا رنائب الحرم کہلاتا ہے۔ مسجد کے مشرق میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دو چھوٹے بڑے مکان تھے، بوقت شہادت آپ کی سکونت بڑے مکان میں تھی، اس مکان کی جالی کے اوپر اب بھی مقتل عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ لکھا ہوا ہے۔ بقیع کے راستہ سے شمالی جانب حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کا مکان تھا جس میں آپ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی، زوایۃ السمان سے ملحق شمالی جانب ایک چھوٹا سے قبہ ہے وہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ شیر اسلام کا مکان تھا، رباط خالد کے پیچھے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فاتح مصر کا مکان تھا، مسجد کے غربی جانب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دوسرا مکان تھا یہ اب باب السلام کے شمال میں ایک کھڑکی کی شکل میں ہے اس پر یہ حدیث لکھی ہوئی ہے : لا یبقین فی المسجد خوخۃ احد الا خوخہ ابی بکر۔
حرم مدینہ شریف کا بیان :
اندازاً بارہ میل تک مدینہ منورہ کی حد حرم ہے، جس کے اندر شکار کرنا، درخت اکھاڑنا، گھاس اکھاڑنی حرام ہے۔ ہاں جانوروں کے لیے گھاس یا پتے وغیرہ توڑنے جائز ہیں۔ حدیث شریف میں آیا ہے عن ابی ہریرۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال اللہم ان ابراہیم خلیلک و نبیک و انک حرمت مکۃ علی لسان ابراہیم اللہم و انا عبدک و نبیک و انی احرم ما بین لا بیتہا الخ ( ابن ماجہ ) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے اے اللہ ! حضرت ابراہیم علیہ السلام تیرے خلیل اور پیغمبر تھے جن کی زبان پر تو نے مکہ کو بلد الحرم قرار دیا۔ اے اللہ ! میں تیرا بندہ اور پیغمبر ہوں اور مدینہ کو اس کے دونوں پتھریلے کناروں کے درمیان تک حرام قرار دیتا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ شریف کے بارے میں یہ دعا فرمائی اللہم حبب الینا المدینۃ کحبنا مکہ او اشد یعنی اے اللہ ! مدینے کو ہمیں مکہ کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ محبوب بنادے۔ ( بخاری ) ایک روایت میں مدینہ کی حدود حرم عیر سے ثور تک بیان کی گئی ہے، یہ اطراف مدینہ کے پہاڑوں کے نام ہیں۔ مدینے شریف کے فضائل میں بہت سی احادیث آئی ہیں چند حدیثیں یہاں درج کی جاتی ہے عن ابن ....قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من استطاع ان یموت بالمدینۃ فلیمت بہا فانی اشفع لمن یموت بہا۔ ( رواہ احمد و الترمذی ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص مدینہ شریف میں رہے اور مدینے ہی میں اس کو موت آئے میں اس کی شفارش کروں گا۔ بیہقی نے شعب الایمان میں ایک شخص آل خطاب سے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص خالص پاک نیت کے ساتھ میری زیارت کے لیے آیا، قیامت کے دن وہ میرے پڑوس میں ہوگا اور جو مدینہ شریف میں رہ کر صبر و شکر کے ساتھ زندگی گزراتا رہا میں اس کے لیے قیامت کے دن گواہ اور سفارشی ہوں گا اور جو حرمین شریفین میں موت پائے گا وہ قیامت کے دن امن پانے والوں میں ہوگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے واپس مدینہ شریف لوٹتے تو مکانات مدینہ کی دیواروں کو دیکھ کر مگن ہو جاتے اور سواری کو تیز کردیتے ( بخاری ) یہ بھی آیا ہے کہ مدینہ شریف کے دروازوں پر فرشتے پہرہ دیتے ہیں۔ اس پاک شہر میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہوسکتے۔
حرم نبوی کا بیان :
حرم نبوی سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک و مبارک مسجد اور اس کا ماحول ہے، یہ سرتاپا نور عمارت شہر مدینہ منورہ کے درمیان میں کسی قدر مشرق کو جھکی ہوئی ہے یہاں کی فضا لطیف منظر جمیل اور ہیئت مستطیل ہے، قدیم مسجد کی کل عمارت سرخ پتھر کی ہے اس کا طول شمال سے جنوب تک اوسطاً 1161/4میٹر ہے ( فرانسیسی پیمانہ ہے جو40 انچ کے برابر ہوتا ہے ) اس لحاظ سے قدیم حرم شریف کا طول ایک سو انتیس گز سے کچھ زیادہ ہے۔ اس کا عرض مشرق سے مغرب تک قبلہ کی طرف 82 میٹر اور35 سینٹی میٹر یعنی 96 گز ہے، باب شامی کی طرف سے عرض 66 میٹر سوا 73 گز رہ جاتا ہے۔ بناوٹ کے لحاظ سے حرم نبوی دو حصوں میں منقسم ہوسکتا ہے مسجد اور صحن۔ حدود مسجد کی ابتداءاس جگہ سے ہوتی ہے جہاں کھڑے ہو کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نماز پڑھایا کرتے تھے یعنی قبلہ رخ دیوار سے صحن ایک طرف اور باب رحمت اور باب النساءکے درمیان مسجد ہی مسجد ہے۔ یہ سارا حصہ گنبدوں سے ڈھکا ہوا ہے جو محرابوں پر قائم ہیں ان محرابوں کو ایک قسم کے سخت پتھر کے ستونوں پر کھڑا کیا گیا ہے، ان پر سنگ مرمر کی تہ چڑھی ہوئی اور اوپر سونے کے پانی سے پچی کاری کر دی گئی ہے، دوسرا صحن ہے جس کا نام حصوہ ہے اس کی شکل شامی دروازہ سے مستطیل ہے اس کے گرد تین طرف سے تین دالان احاطہ کئے ہوئے ہیں برآمدوں میں ستون ہیں جن کے اوپر محراب اور محرابوں کے اوپر گنبد سر بلند اور بادلوں سے سرگوشیاں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، حرم شریف کے کل ستونوں کی تعداد جو دیواروں کے ساتھ ملتصق ہیں تین سو ستائیس تک پہنچ جاتی ہیں، ان میں22 حجرہ شریف کے اند رہیں شامی دروازے کی ڈیوڑھی میں مدرسہ مجیدیہ واقع ہے اسی وجہ سے حرم شریف میں داخل ہونے کے راستہ کے اندرونی حصے یعنی ڈیوڑھی کا نام باب التوسل رکھا گیا ہے، جہت مغرب کی طرف خواجہ سراؤں کے بیٹھنے کی جگہ ہے جو بردہ فروشی کے زمانہ میں خصی شدہ غلاموں کی شکل میں حرم نبوی کی خدمت کے لیے نذر کر دیے جاتے تھے۔ اب یہ ظالمانہ طریقہ موقوف ہوچکا ہے پچھلی طرف شرقی برآمدے کی لمبائی کے ساتھ ساتھ شیشم کی لکڑی کا ایک جالی دار شیڈ ہے جو عورتوں کے لیے مخصوص ہے، حرم شریف کے اندر عورتیں یہیں بیٹھتی ہیں اور یہیں نماز ادا کرتی ہیں۔ اسے قفس النساءکہا جاتا ہے اس برآمدے کے جنوب میں ایک چبوترہ ہے جو پلیٹ فارم کی شکل میں ساڑھے تیرہ گز لمبا اور نو گز چوڑا ہے اور زمین سے قریباً سولہ انچ بلند ہے، یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں اصحاب صفہ رضی اللہ عنہم بیٹھا کرتے تھے، یہ نادار طلباءاسلامیہ کی جماعت تھی جنہیں کھانا کپڑا اور دیگر ضروریات دار العلوم محمدیہ سے پہنچ جایا کرتی تھیں، اس چبوترے کے جنوب میں ایک اور چبوترہ ہے جو اس سے چھوٹا ہے یہ چبوترہ مقصورہ شریف سے متصل شمال کی جانب ہے اس جگہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد ادا فرمایا کرتے تھے، روضہ شریف مقصورہ شریف کے مغرب میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر شریف اور روضہ شریف کے درمیان یہی جگہ ہے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی کیاروں میں سے ایک کیاری بتلایا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ ٹکڑا سارا جنت میں رکھا جائے گا۔
اس مبارک زمین کا طول اندازاً پونے ستائیس گز اور عرض اندازاً پونے سترہ گز ہے، روضہ شریف کے ساتھ پیتل کا جنگلہ ہے جس سے متصل وہ اضافے ہیں جو اس حرم شریف میںحضرت عمر، حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے ایام میں کئے گئے تھے۔ یہ دونوں اضافے جنوب کی طرف ہیں، پیتل کے جنگلے کی اونچائی ایک گز دو گرہ ہے۔ روضہ شریف اپنے شرف مرتبت کے لحاظ سے ہر وقت فدائیان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھرا رہتا ہے۔ روضہ شریف کے مغربی جانب وہ جگہ ہے جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھایا کرتے تھے جو اپنی کمال بہجت اور جمال صنعت کے لحاظ سے اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اور یہ قبلہ کی طرف مقصورہ شریف کی سیدھ میں ہے، حضور علیہ السلام نے اس کی بنیاد ہجرت مبارک کے دوسرے سال شعبان کی پندرہویں تاریخ روز سہ شنبہ کو رکھی تھی، یہ اس دن کا واقعہ ہے جب اللہ عزو جل نے حضور علیہ السلام کوکعبہ شریف کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا تھا قبلہ کے مغرب کی طرف منبر شریف ہے جو سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے اور اس پر سونے کے پانی سے نہایت اعلیٰ درجے کے نقش و نگار کئے گئے ہیں۔ یہ بے حد خوبصورت اور صنعت کا بہترین نمونہ ہے، اسے ترکی سلطان مرا دثالث مرحوم نے 998ھ میں حرم شریف کے لیے بطور ہدیہ پیش کیا تھا یہی وہ جگہ ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر رکھا تھا حرم شریف کے فرش مبارک پر انواع و اقسام کے بیش قیمت سجادے بچھے ہوئے ہیں، قالین بھی بتعداد کثیر موجود ہیں بالخصوص روضہ شریف میں تو بیش قیمت اشیاءکی کثرت ہے۔ حرم شریف کے پانچ دروازے ہیں صدر دروازے باب الاسلام اور باب الرحمۃ دونوں مغرب کی طرف ہیں۔ باب مجیدی شمال کی جانب، باب النساءاور باب جبرئیل دونوں مشرق کی طرف ہیں۔ عشاءکے بعد ان دروازوں کو بند کرکے قفل لگا دیا جاتا ہے۔ پھر تہجد کی اذان کے وقت کھول دیا جاتا ہے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے یہ چلا آرہا ہے۔
موجودہ حکومت سعودیہ عربیہ نے حرم مسجد نبوی کی توسیع اس قدر کی ہے کہ بیک وقت ہزاروں نمازی نماز ادا کرتے ہیں اور تعمیر جدید پر کروڑہا روپیہ بڑی فراخدلی کے ساتھ خرچ کرکے نہ صرف مسجد نبوی بلکہ اطراف کے جملہ علاقے کو وسیع تر بنا کر صفائی ستھرائی کا ایسا نادر نمونہ پیش کیا ہے کہ دیکھ کر دل سے دعائیں نکلتی ہیں اللہ پاک اس حکومت کو دشمنووں کی نظر بد سے بچائے اور خدمت حرمین شریفین کے لیے ہمیشہ قائم رکھے۔ آمین
گنبد خضراءکے حالات :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے12ربیع الاول11ھ یوم دو شنبہ کو حجرہ عائشہ میں انتقال فرمایا، اسی جگہ لحد شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر کو لٹایا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک بجانب غرب اور روئے مبارک بجانب جنوب ہے، زمین کا یہ ٹکڑا بھی اپنی سعادت ابدی پر جتنا ناز کرے بجا ہے۔ 22جماد ی الاول13ھ کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت کی جانب دفن کئے گئے ان کا سر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شانہ مبارک کے مقابل یعنی قریب ایک فٹ نیچے سرکا ہوا رہا، پھر 27ذی الحجہ 23ھ کو بدھ کے روز سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ آپ باجازت صدیقہ رضی اللہ عنہا یہاں دفن ہوئے۔ آپ کا سر حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے شانہ کے مقابل یعنی ذرا نیچے سرکا ہوا رہا۔
عہد فاروقی میں حجرہ شریفہ کی دیواریں سابق بنیادوں پر دوبارہ کچی اینٹوں سے بنوا دی گئی تھیں۔ علامہ سمہودی نے پیمائش بھی کی ہے، جنوبی دیوار اندر سے 10-2/3 ہاتھ، شمالی 11-5/13 ہاتھ، شرقی و غربی ہر دو دیواریں 17-5/8 اونچائی 15 ہاتھ تھی۔ پھر امیر مدینہ عمر بن عبدالعزیز نے حجرہ شریف کو بحالہا قائم رکھا اور اس کے گرد بہت عمیق بنیادیں کھود کر پتھر کی ایک مخمس دیوار قائم کردی، حجرہ شریفہ کی چھت لکڑی کی بنا دی اور اوپر تلے تختوں کو کیلوں سے جڑ دیا، اس کے اوپر موم جامہ بچھا دیا تاکہ بارش کا پانی اندر نہ جائے نہ چھت پر اثر کرے، بعد میں سلاطین اسلام نے اس کی حفاظت و مرمت کے لیے بہت کچھ تجدید و اصلاح کی۔ 557ھ میں سلطان نور الدین زنگی شہید نے جب کہ وہ عیسائیوں کے ساتھ صلیبی جنگ عظیم میں مشغول تھا خواب دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسم دو گربہ چشم آدمیوں کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں : ”انجدنی و انقذنی من ہذین“ چونک کر سلطا ن کی آنکھ کھل گئی اور فوراً تیز رو سانڈنیاں منگا کر چند ہمراہی ساتھ لئے۔ نہ دن دیکھا نہ رات۔ رواں دواں سولہ دن میں مصر سے مدینہ پہنچا اور جتنے بھی بیرونی باشندے مدینہ میں مقیم تھے سب کی دعوت کی یہ میدان اب بھی دار الضیافۃ کے نام سے مشہور ہے۔ سلطان نے ان پر ایک گہری نگاہ ڈالی مگر وہ دو شخص نظر نہ آئے جو خواب میں دکھائے گئے تھے، پوچھا کیا اور کوئی بھی باقی ہیں؟ معلوم ہوا کہ دو مغربی درویش گوشہ نشین باقی رہ گئے ہیں۔ چنانچہ وہ بلوائے گئے ان کو دیکھتے ہیں سلطان نے پہچان لیا کہ انہیں کی طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا تھا۔ ان کو لیے ہوئے سلطان ان کے قیام گاہ پر آیا دیکھا کہ ادھر ادھر چند کتابیں پڑی ہوئی ہیں زمین پر ایک معمولی ٹاٹ پڑا اور اس پر مصلی بچھا ہوا ہے اور چند برتن رکھے ہوئے ہیں جن میں کچھ اناج ہے۔ بادشاہ خاموش سوچ رہا تھا کہ خواب کا کیا مقصد ہے، حیران تھا کہ کچھ سمجھ نہ سکا دفعتاً اس کے قلب میں القا ہوا اوراس نے بچھا ہوا ٹاٹ اور مصلیٰ اٹھالیا۔ دیکھا تو اس کے نیچے گڑھا ہے جس پر پتھر رکھا ہوا ہے پتھر اٹھایا تو دیکھا کہ گھونس کی طرف سرنگ کھو دی گئی ہے اور وہ سرنگ اند ہی اندر جسم انور کے قریب پہنچ گئی ہے۔
یہ دیکھ کر سلطان رحمۃ اللہ علیہ غصہ سے لرزنے لگا اور سختی سے تفتیش حال کرنے لگا، آخر دونوں نے اقرار کیا کہ وہ نصرانی ہیں جو اسلامی وضع میں یہاں آئے ہیں اور ان کے عیسائی بادشاہ نے جسد محمدی صلی اللہ علیہ وسلم نکال لانے کے لیے ان کو بھیجا ہے۔ ان حالات کو سن کر بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کی عجیب کیفیت ہوئی وہ تھر تھر کانپنے اور رونے لگا۔ آخر ان دونوں کو اپنے سامنے قتل کرا دیا اور مخمس دیوار کے گرد اگرد اتنی گہری خندق کھدوائی کہ پانی نکل آیا پھر لاکھو من سیسہ پگھلوا کر اس میں ڈالویا اور سطح زمین تک سیسہ کی ایک زمین دوز ٹھوس دیوار قائم کردی کہ کسی رخ سے جسد مطہر تک کوئی دشمن رسائی نہ پاسکے۔
سلطان محمود بن عبدالحمید عثمانی کے زمانے میں قبہ شریف میں کچھ شگاف آگیا تھا چنانچہ1233ھ میں سلطان نے اس کی تجدید کرائی اوپر کا حصہ اتار کر از سر نو تعمیر کیا گیا اور اس پر گہرا سبز روغن پھیرا گیا جس کی وجہ سے اس کا نام قبہ خضراءہوا اس کے بعد دھوپ اور بارش سے جب اس کا رنگ ہلکا ہوا تو یہی سبز رنگ کا روغن چڑھا کر اس کو پختہ اور روشن کیا جاتا رہا۔ دیوار مخمس کے گرد اگرد محرابوں میں جالیاں لگی ہوی ہیں، یہ جالیاں 888ھ میں سلطان قاطبانی کی طرف سے محمل مصری کے ساتھ ستر اونٹوں پر لد کر آئیں، جالی کے ساتھ دنیا کا وہ بے مثل مصحف بھی مستقل ایک اونٹ پر محمول ہو کر آیا تھا جو شاہین نوری خوشنویس نے لکھا تھا۔ جالیدار مقصورہ اور دائرہ مخمس کے درمیان ہر چار طرف سات اور دس فٹ کے درمیان برآمدہ چھوٹا ہوا ہے جس پر سنگ مرمر کا فرش ہے۔
مواجہ شریف میں پیتل کی جالی لگی ہوئی ہے، باقی تین طرف تانبہ اور اس پر گہرا پختہ سبز روغن چڑھا ہوا ہے اس کا نام شباک ہے، یہ بشکل مستطیل ہے اور اس کا جنوبی و شمالی ہر ضلع ساڑھے سترہ گز اور شرقی و غربی ضلع ساڑھے سولہ گز ہے، یہ شباک مع اپنے اندرون کے مقصورہ کہلاتا ہے۔ اللہم صلی علی محمد و علی آل محمد موجودہ حکومت سعودیہ عربیہ نے ان تمام حصوں کے استحکام میں جس قدر کوششیں کی ہیں بلکہ سارے شہر مدینہ کی ترقی اور آبادی کے لیے جو مساعی کام میں لائی جارہی ہیں ان کی تفصیلات کے لیے یہاں موقع نہیں ہے۔ حق یہ ہے کہ اس حکومت نے خدمت حرمین شریفین کا حق ادا کر دیا ہے مدینہ منورہ سے متصل ہی ایک بڑا زبردست دار العلوم جامعہ اسلامہ مدینۃ المنورہ کے نام سے قائم کیا ہے۔ جس میں تمام دنیائے اسلام کے سینکڑوں نوجوان حکومت سعودیہ کے خرچ پر تحصیل علوم کے اندر مشغول ہیں۔ اللہ پاک اس حکومت کی ہمیشہ مدد فرمائے اور اسے زیادہ سے زیادہ مستحکم کرے۔ موجودہ شاہ فیصل کی عمر دراز کرے جو حرمین شریفین کی خدمت کے لیے جملہ وسائل ممکنہ وقف کئے ہوئے ہیں۔ اللہ ایدہ بنصرہ العزیز آمین۔