کتاب الصیام
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
(کتاب مسائل روزہ کے بیان میں)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تشریح : صوم لغت میں روکنے کو کہتے ہیں، شرعاً ایک عبادت کا نام ہے جس میں ایک مسلمان مرد عورت صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جماع سے رک جاتا ہے، سال میں ایک مہینہ ایسا روزہ رکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے، عورتوں کے لیے اور مریض مسافر کے لیے کچھ رعایتیں ہیں جو مذکور ہوں گی۔ اس مہینہ کو رمضان کہا جاتا ہے جو رمض سے مشتق ہے جس کے معنیٰ جلنے کے ہیں جس سال رمضان کے روزے فرض ہوئے وہ سخت گرمی کا مہینہ تھا اس لیے لفظ رمضان سے موسوم ہوا۔ بعض نے کہا اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ رمضان کے روزوں کی فرضیت قرآن مجید سے ثابت ہے، جیسا کہ مجتہد اعظم امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہاں آیت قرآنی لائے ہیں۔ جو شخص رمضان کے روزوں کی فرضیت کا انکار کرے وہ بالاتفاق کافرہے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں :
الصیام فی اللغۃ الامساک و فی الشرع امساک مخصوص فی زمن مخصوص بشرائط مخصوصۃ و کان فرض صوم شہر رمضان فی السنۃ الثانیۃ من الہجرۃ ( نیل ) یعنی روزہ لغت میں رک جانا اور شریعت میں مخصوص شرائط کے ساتھ ایک مخصوص وقت میں مخصوص طور پر رک جانا اور ماہ رمضان کے روزے 2 ھ میں فرض ہوئے۔
باب : رمضان کے روزوں کی فرضیت کا بیان
وقول الله تعالى {يا أيها الذين آمنوا كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم لعلكم تتقون}.
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا
” اے ایمان والو ! تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جس طرح ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں تاکہ تم گناہوں سے بچو۔ “
حدیث نمبر : 1891
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن أبي سهيل، عن أبيه، عن طلحة بن عبيد الله، أن أعرابيا، جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ثائر الرأس فقال يا رسول الله أخبرني ماذا فرض الله على من الصلاة فقال "الصلوات الخمس، إلا أن تطوع شيئا". فقال أخبرني ما فرض الله على من الصيام فقال "شهر رمضان، إلا أن تطوع شيئا". فقال أخبرني بما فرض الله على من الزكاة فقال فأخبره رسول الله صلى الله عليه وسلم شرائع الإسلام. قال والذي أكرمك لا أتطوع شيئا، ولا أنقص مما فرض الله على شيئا. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم "أفلح إن صدق، أو دخل الجنة إن صدق".
ہم سے قتبیہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے ابوسہیل نے، ان سے ان کے والد مالک نے اور ان سے طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک اعرابی پریشان حال بال بکھرے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ ! بتائیے مجھ پر اللہ تعالیٰ نے کتنی نمازیں فرض کی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ نمازیں، یہ اور بات ہے کہ تم اپنی طرف سے نفل پڑھ لو، پھر اس نے کہا بتائیے اللہ تعالیٰ نے مجھ پرر وزے کتنے فرض کئے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان کے مہینے کے، یہ اور بات ہے کہ تم خود اپنے طور پر کچھ نفلی روزے اور بھی رکھ لو، پھر اس نے پوچھا اور بتائیے زکوٰۃ کس طرح مجھ پر اللہ تعالیٰ نے فرض کی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شرع اسلام کی باتیں بتادیں۔ جب اس اعرابی نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عزت دی نہ میں اس میں اس سے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فرض کر دیا ہے کچھ بڑھاؤں گا اور نہ گھٹاؤں گا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ مراد کو پہنچایا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ ) اگر سچ کہا ہے تو جنت میں جائے گا۔
اس دیہاتی کا نام حماد بن ثعلبہ تھا، اس حدیث سے رمضان کے روزوں کی فرضیت ثابت ہوئی، حضرت امام بخاری نے اس مقصد کے تحت یہاں اس حدیث کو نقل فرمایا ہے۔ اس دیہاتی نے نفلوں کا انکار نہیں کیا، کمی یا بیشی نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا جس کی وجہ سے وہ مستحق بشارت نبوی ہوا۔
حدیث نمبر : 1892
حدثنا مسدد، حدثنا إسماعيل، عن أيوب، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال صام النبي صلى الله عليه وسلم عاشوراء، وأمر بصيامه. فلما فرض رمضان ترك. وكان عبد الله لا يصومه، إلا أن يوافق صومه.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا ان سے ایوب نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے یوم عاشورہ کا روزہ رکھا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے رکھنے کا صحابہ رضی اللہ عنہم کو ابتداء اسلام میں حکم دیا تھا، جب ماہ رمضان کے روزے فرض ہو گئے تو عاشورہ کا روزہ بطور فرض چھوڑ دیا گیا، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عاشورہ کے دن روزہ نہ رکھتے مگر جب ان کے روزے کا دن ہی یوم عاشورہ آن پڑتا۔
یعنی جس دن ان کو روزہ رکھنے کی عادت ہوتی مثلاً پیر یا جمعرات اور اس دن عاشورہ کا دن بھی آپڑتا تو روزہ رکھ لیتے تھے، یوم عاشور محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو کہا جاتا ہے، یہ قدیم زمانے سے ایک تاریخی دن چلا آرہا ہے۔
حدیث نمبر : 1893
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن يزيد بن أبي حبيب، أن عراك بن مالك، حدثه أن عروة أخبره عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن قريشا، كانت تصوم يوم عاشوراء في الجاهلية، ثم أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بصيامه حتى فرض رمضان وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم "من شاء فليصمه، ومن شاء أفطر".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی حبیب نے اور ان سے عراک بن مالک نے بیان کیا، انہیں عروہ نے خبر دی کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا، قریش زمانہ جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس دن روزہ کا حکم دیا یہاں تک کہ رمضان کے روزے فرض ہوگئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے یوم عاشورہ کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔