• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب فضائل المدینہ
باب : مدینہ کا ویران کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار تھا

حدیث نمبر : 1887
حدثنا ابن سلام، أخبرنا الفزاري، عن حميد الطويل، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال أراد بنو سلمة أن يتحولوا، إلى قرب المسجد، فكره رسول الله صلى الله عليه وسلم أن تعرى المدينة، وقال ‏"‏يا بني سلمة‏.‏ ألا تحتسبون آثاركم‏"‏‏. ‏ فأقاموا‏.‏
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں مروان بن معاویہ فزاری نے خبر دی، انہیں حمید طویل نے خبر دی اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بنو سلمہ نے چاہا کہ اپنے دور والے مکانات چھوڑ کر مسجد نبوی سے قریب اقامت اختیار کرلےں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پسند نہ کیا کہ مدینہ کے کسی حصہ سے بھی رہائش ترک کی جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے بنو سلمہ ! تم اپنے قدموں کا ثواب نہیں چاہتے، چنانچہ بنوسلمہ نے (اپنی اصلی اقامت گاہ میں ) رہائش باقی رکھی۔

تشریح : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ مدینہ کی آبادی سب طرف سے قائم رہے اور اس میں ترقی ہوتی جائے تاکہ کافروں اور منافقوں پر رعب پڑے، حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ مدینہ کی اقامت ترک کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ نہیں ہے بلکہ یہ اس مسلمان کی عین سعادت ہے جس کو وہاں اطمینان کے ساتھ سکونت مل جائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب الصیام


صحیح بخاری -> کتاب الصیام
(کتاب مسائل روزہ کے بیان میں)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تشریح : صوم لغت میں روکنے کو کہتے ہیں، شرعاً ایک عبادت کا نام ہے جس میں ایک مسلمان مرد عورت صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جماع سے رک جاتا ہے، سال میں ایک مہینہ ایسا روزہ رکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے، عورتوں کے لیے اور مریض مسافر کے لیے کچھ رعایتیں ہیں جو مذکور ہوں گی۔ اس مہینہ کو رمضان کہا جاتا ہے جو رمض سے مشتق ہے جس کے معنیٰ جلنے کے ہیں جس سال رمضان کے روزے فرض ہوئے وہ سخت گرمی کا مہینہ تھا اس لیے لفظ رمضان سے موسوم ہوا۔ بعض نے کہا اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ رمضان کے روزوں کی فرضیت قرآن مجید سے ثابت ہے، جیسا کہ مجتہد اعظم امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہاں آیت قرآنی لائے ہیں۔ جو شخص رمضان کے روزوں کی فرضیت کا انکار کرے وہ بالاتفاق کافرہے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں : الصیام فی اللغۃ الامساک و فی الشرع امساک مخصوص فی زمن مخصوص بشرائط مخصوصۃ و کان فرض صوم شہر رمضان فی السنۃ الثانیۃ من الہجرۃ ( نیل ) یعنی روزہ لغت میں رک جانا اور شریعت میں مخصوص شرائط کے ساتھ ایک مخصوص وقت میں مخصوص طور پر رک جانا اور ماہ رمضان کے روزے 2 ھ میں فرض ہوئے۔

باب : رمضان کے روزوں کی فرضیت کا بیان

وقول الله تعالى ‏{‏يا أيها الذين آمنوا كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم لعلكم تتقون‏}‏‏.‏
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” اے ایمان والو ! تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جس طرح ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں تاکہ تم گناہوں سے بچو۔ “

حدیث نمبر : 1891
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن أبي سهيل، عن أبيه، عن طلحة بن عبيد الله، أن أعرابيا، جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ثائر الرأس فقال يا رسول الله أخبرني ماذا فرض الله على من الصلاة فقال ‏"‏الصلوات الخمس، إلا أن تطوع شيئا‏"‏‏. ‏ فقال أخبرني ما فرض الله على من الصيام فقال ‏"‏شهر رمضان، إلا أن تطوع شيئا‏"‏‏. ‏ فقال أخبرني بما فرض الله على من الزكاة فقال فأخبره رسول الله صلى الله عليه وسلم شرائع الإسلام‏.‏ قال والذي أكرمك لا أتطوع شيئا، ولا أنقص مما فرض الله على شيئا‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏أفلح إن صدق، أو دخل الجنة إن صدق‏"‏‏. ‏
ہم سے قتبیہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے ابوسہیل نے، ان سے ان کے والد مالک نے اور ان سے طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک اعرابی پریشان حال بال بکھرے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ ! بتائیے مجھ پر اللہ تعالیٰ نے کتنی نمازیں فرض کی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ نمازیں، یہ اور بات ہے کہ تم اپنی طرف سے نفل پڑھ لو، پھر اس نے کہا بتائیے اللہ تعالیٰ نے مجھ پرر وزے کتنے فرض کئے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان کے مہینے کے، یہ اور بات ہے کہ تم خود اپنے طور پر کچھ نفلی روزے اور بھی رکھ لو، پھر اس نے پوچھا اور بتائیے زکوٰۃ کس طرح مجھ پر اللہ تعالیٰ نے فرض کی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شرع اسلام کی باتیں بتادیں۔ جب اس اعرابی نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عزت دی نہ میں اس میں اس سے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فرض کر دیا ہے کچھ بڑھاؤں گا اور نہ گھٹاؤں گا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ مراد کو پہنچایا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ ) اگر سچ کہا ہے تو جنت میں جائے گا۔

اس دیہاتی کا نام حماد بن ثعلبہ تھا، اس حدیث سے رمضان کے روزوں کی فرضیت ثابت ہوئی، حضرت امام بخاری نے اس مقصد کے تحت یہاں اس حدیث کو نقل فرمایا ہے۔ اس دیہاتی نے نفلوں کا انکار نہیں کیا، کمی یا بیشی نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا جس کی وجہ سے وہ مستحق بشارت نبوی ہوا۔

حدیث نمبر : 1892
حدثنا مسدد، حدثنا إسماعيل، عن أيوب، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال صام النبي صلى الله عليه وسلم عاشوراء، وأمر بصيامه‏.‏ فلما فرض رمضان ترك‏.‏ وكان عبد الله لا يصومه، إلا أن يوافق صومه‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا ان سے ایوب نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے یوم عاشورہ کا روزہ رکھا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے رکھنے کا صحابہ رضی اللہ عنہم کو ابتداء اسلام میں حکم دیا تھا، جب ماہ رمضان کے روزے فرض ہو گئے تو عاشورہ کا روزہ بطور فرض چھوڑ دیا گیا، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عاشورہ کے دن روزہ نہ رکھتے مگر جب ان کے روزے کا دن ہی یوم عاشورہ آن پڑتا۔

یعنی جس دن ان کو روزہ رکھنے کی عادت ہوتی مثلاً پیر یا جمعرات اور اس دن عاشورہ کا دن بھی آپڑتا تو روزہ رکھ لیتے تھے، یوم عاشور محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو کہا جاتا ہے، یہ قدیم زمانے سے ایک تاریخی دن چلا آرہا ہے۔

حدیث نمبر : 1893
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن يزيد بن أبي حبيب، أن عراك بن مالك، حدثه أن عروة أخبره عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن قريشا، كانت تصوم يوم عاشوراء في الجاهلية، ثم أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بصيامه حتى فرض رمضان وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏من شاء فليصمه، ومن شاء أفطر‏"‏‏.
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی حبیب نے اور ان سے عراک بن مالک نے بیان کیا، انہیں عروہ نے خبر دی کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا، قریش زمانہ جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس دن روزہ کا حکم دیا یہاں تک کہ رمضان کے روزے فرض ہوگئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے یوم عاشورہ کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام

باب : روزہ کی فضیلت کا بیان

حدیث نمبر : 1894
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏الصيام جنة، فلا يرفث ولا يجهل، وإن امرؤ قاتله أو شاتمه فليقل إني صائم‏.‏ مرتين، والذي نفسي بيده لخلوف فم الصائم أطيب عند الله تعالى من ريح المسك، يترك طعامه وشرابه وشهوته من أجلي، الصيام لي، وأنا أجزي به، والحسنة بعشر أمثالها‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزہ دوزخ سے بچنے کے لیے ایک ڈھال ہے اس لیے (روزہ دار ) نہ فحش باتیں کرے اور نہ جہالت کی باتیں اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گلی دے تو اس کا جواب صرف یہ ہوناچاہئے کہ میں روزہ دار ہوں، (یہ الفاظ ) دو مرتبہ (کہہ دے ) اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ اور پاکیزہ ہے، (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ) بندہ اپنا کھانا پینا اور اپنی شہوت میرے لی چھوڑ دیتا ہے، روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور (دوسری ) نیکیوں کا ثواب بھی اصل نیکی کے دس گنا ہوتا ہے۔

تشریح : جہالت کی باتیں مثلاً ٹھٹھا مذاق، بیہودہ جھوٹ اور لغو باتیں اور چیخنا چلانا، غل مچانا۔ سعید بن منصور کی روایت میں یوں ہے کہ فحش نہ بکے نہ کسی سے جھگڑے۔ ابو الشیخ نے ایک ضعیف حدیث میں نکالا کہ روزے دار جب قبروں میں سے اٹھیں گے تو اپنے منہ کی بو سے پہچان لئے جائیں گے اور ان کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے بھی زیادہ خوشبودار ہوگی۔ ابن علام نے کہا کہ دنیا ہی میں روزہ دار کے منہ کے بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بہتر ہے اور روزہ ایک ایسا عمل ہے جس میں ریا نمود کو دخل نہیں ہوتا۔ آدمی خالص خدا ہی کے ڈر سے اپنی تمام خواہشیں چھوڑ دیتا ہے۔ اس وجہ سے روزہ خاص اس کی عبادت ہے اور اس کا ثواب بہت ہی بڑا ہے بشرطیکہ روزہ حقیقی روزہ ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : روزہ گناہوں کا کفارہ ہوتاہے

حدیث نمبر : 1895
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، حدثنا جامع، عن أبي وائل، عن حذيفة، قال قال عمر ـ رضى الله عنه ـ من يحفظ حديثا عن النبي صلى الله عليه وسلم في الفتنة قال حذيفة أنا سمعته يقول ‏"‏فتنة الرجل في أهله وماله وجاره تكفرها الصلاة والصيام والصدقة‏"‏‏. ‏ قال ليس أسأل عن ذه، إنما أسأل عن التي تموج كما يموج البحر‏.‏ قال وإن دون ذلك بابا مغلقا‏.‏ قال فيفتح أو يكسر قال يكسر‏.‏ قال ذاك أجدر أن لا يغلق إلى يوم القيامة‏.‏ فقلنا لمسروق سله أكان عمر يعلم من الباب فسأله فقال نعم، كما يعلم أن دون غد الليلة‏.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے جامع بن راشد نے بیان کیا، ان سے ابووائل نے اور ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا فتنہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کسی کو یاد ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ انسان کے لیے اس کے بال بچے، اس کا مال اور اس کے پڑوسی فتنہ (آزمائش و امتحان) ہیں جس کا کفارہ نماز روزہ اور صدقہ بن جاتا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس کے متعلق نہیں پوچھتا میری مراد تو اس فتنہ سے ہے جو سمندر کی موجوں کی طرح امنڈ آئے گا۔ اس پر حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ (یعنی آپ کے دور میں وہ فتنہ شروع نہیں ہوگا ) عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا وہ دروازہ کھل جائے گا یا توڑ دیا جائے گا؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ توڑ دیا جائے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر تو قیامت تک کبھی بند نہ ہو پائے گا۔ ہم نے مسروق سے کہا آپ حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھئے کہ کیا عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ وہ دروازہ کون ہے، چنانچہ مسروق نے پوچھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں! بالکل اس طرح (انہیں علم تھا ) جیسے رات کے بعد دن کے آنے کا علم ہوتاہے۔

تشریح : اس حدیث میں نماز کے ساتھ روزہ کو بھی گناہوں کا کفارہ کہا گیا ہے یہی باب کا مقصد ہے، یہاں جن فتنوں کی طرف اشارہ ہے ان سے وہ فتنے مراد ہیں جو خلافت راشدہ ہی میں شروع ہو گئے تھے اور آج تک ان فتنوں کے خطرناک اثرات امت میں افتراق کی شکل میں باقی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی فراست کی بنا پر جو کچھ فرمایا تھا وہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہو رہا ہے۔ اللہم صل وسلم علی حبیبک و علی صاحبہ و اغفرلنا و ارحمنا یا ارحم الراحمین۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : روزہ داروں کے لیے ریان (نامی ایک دروازہ جنت میں بنایا گیا ہے اس کی تفصیل کا بیان )

حدیث نمبر : 1896
حدثنا خالد بن مخلد، حدثنا سليمان بن بلال، قال حدثني أبو حازم، عن سهل ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏إن في الجنة بابا يقال له الريان، يدخل منه الصائمون يوم القيامة، لا يدخل منه أحد غيرهم يقال أين الصائمون فيقومون، لا يدخل منه أحد غيرهم، فإذا دخلوا أغلق، فلم يدخل منه أحد‏"‏‏. ‏
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم سلمہ ابن دینار نے بیان کیا اور ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریان کہتے ہیں قیامت کے دن اس دروازہ سے صرف روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے، ان کے سوا اور کوئی اس میں سے نہیں داخل ہوگا، پکارا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہے؟ وہ کھڑے ہو جائیں گے ان کے سوا اس سے اور کوئی نہیں اندر جانے پائے گا اور جب یہ لوگ اندر چلے جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا پھر اس سے کوئی اندر نہ جاسکے گا۔

لفظ ریان ری سے مشتق ہے جس کے معنی سیرابی کے ہیں چوں کہ روزہ میں پیاس کی تکلیف ایک خاص تکلیف ہے جس کا بدل ریان ہی ہو سکتا ہے جس سے سیرابی حاصل ہو، اس لیے یہ دروازہ خاص روزہ داروں کے لیے ہوگا جس میں داخل ہو کر وہ سیراب اور قطعی سیراب ہوجائیں گے پھر وہ تاابد پیاس محسوس نہیں کریں گے۔ و جعلنا اللّٰہ منہم آمین

حدیث نمبر : 1897
حدثنا إبراهيم بن المنذر، قال حدثني معن، قال حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن حميد بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏من أنفق زوجين في سبيل الله نودي من أبواب الجنة يا عبد الله، هذا خير‏.‏ فمن كان من أهل الصلاة دعي من باب الصلاة، ومن كان من أهل الجهاد دعي من باب الجهاد، ومن كان من أهل الصيام دعي من باب الريان، ومن كان من أهل الصدقة دعي من باب الصدقة‏"‏‏. ‏ فقال أبو بكر ـ رضى الله عنه ـ بأبي أنت وأمي يا رسول الله، ما على من دعي من تلك الأبواب من ضرورة، فهل يدعى أحد من تلك الأبواب كلها قال ‏"‏نعم‏.‏ وأرجو أن تكون منهم‏"‏‏. ‏

ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے معین بن عیسیٰ نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے حمید بن عبدالرحمن نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اللہ کے راستے میں دو چیزیں خرچ کرے گا اسے فرشتے جنت کے دروازوں سے بلائیں گے کہ اے اللہ کے بندے ! یہ دروازہ اچھا ہے پھر جو شخص نمازی ہوگا اسے نماز کے دروازہ سے بلایا جائے گا جو مجاہد ہوگا اسے جہاد کے دروازے سے بلایا جائے جو روزہ دار ہوگا اسے ” باب ریان “ سے بلایا جائے گا اور جو زکوۃ ادا کرنے والا ہوگا اسے زکوۃ کے دروازہ سے بلایا جائے گا۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جو لوگ ان دروازوں (میں سے کسی ایک دروازہ ) سے بلائے جائیں گے مجھے ان سے بحث نہیں، آپ یہ فرمائیں کہ کیا کوئی ایسا بھی ہوگا جسے ان سب دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اور مجھے امید ہے کہ آپ بھی انہیں میں سے ہوں گے۔

اس حدیث سے جہاں اور بہت سی باتیں معلوم ہوئیں وہاں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت ثابت ہوئی اور زبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اعلیٰ درجہ کا جنتی قرار دیا ہے۔ تف ہے ان لوگوں پر جو اسلام کے اس مایہ ناز فرزند کی شان میں گستاخی کریں۔ ہداہم اللہ آمین۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : رمضان کہا جائے یا ماہ رمضان؟


اور جن کے نزدیک دونوں لفظوں کی گنجائش ہے
وقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏من صام رمضان‏"‏‏. ‏ وقال ‏"‏لا تقدموا رمضان‏"‏‏. ‏
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے رمضان کے روزے رکھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان سے آگے روزہ نہ رکھو۔

یہ باب لا کر امام بخاری نے اس حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ کیا جسے ابوعدی نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً نکالا ہے کہ رمضان مت کہو۔ رمضان اللہ کا نام ہے، اس کی سند میں ابومعشر ہے، وہ ضعیف الحدیث ہے، لفظ رمضان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا ہوا اور شہر رمضان خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا۔ ثابت ہوا کہ دونوں طرح سے اس مہینہ کا نام لیا جاسکتا ہے ان ہر دو احادیث کو خود امام بخاری نے وصل کیا ہے۔

حدیث نمبر : 1898
حدثنا قتيبة، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن أبي سهيل، عن أبيه، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏إذا جاء رمضان فتحت أبواب الجنة‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے ابوسہل نافع بن مالک نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔

یہاں بھی خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ رمضان استعمال فرمایا۔ حدیث اور باب میں یہی مطابقت ہے۔

حدیث نمبر : 1899
حدثني يحيى بن بكير، قال حدثني الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، قال أخبرني ابن أبي أنس، مولى التيميين أن أباه، حدثه أنه، سمع أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏إذا دخل شهر رمضان فتحت أبواب السماء، وغلقت أبواب جهنم، وسلسلت الشياطين‏"‏‏. ‏
مجھ سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے ان سے ابن شہاب زہری نے بیان کیا کہ مجھے بنوتمیم کے مولیٰ ابوسہیل بن ابی انس نے خبر دی، ان سے ان کے والد نے بیان کیا، اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر رمضان کا لفظ استعمال فرمایا اس سے باب کا مقصد ثابت ہوگیا۔

حدیث نمبر : 1900
حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثني الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، قال أخبرني سالم، أن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏إذا رأيتموه فصوموا، وإذا رأيتموه فأفطروا، فإن غم عليكم فاقدروا له‏"‏‏. ‏ وقال غيره عن الليث حدثني عقيل ويونس لهلال رمضان‏.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے سالم نے خبر دی کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب رمضان کا چاند دیکھو تو روزہ شروع کردو اور جب شوال کا چاند دیکھو تو روزہ افطار کر دو اور اگر ابر ہو تو اندازہ سے کام کرو۔ ( یعنی تیس روزے پورے کر لو ) اور بعض نے لیث سے بیان کیا کہ مجھ سے عقیل اور یونس نے بیان کیا کہ ” رمضان کا چاند “ مراد ہے۔

مقصد یہ ہے کہ رمضان شریف کے روزے شروع کرنے اور عید الفطر منانے ہر دو کے لیے رویت ہلال ضروری ہے، اگر ہر دو مرتبہ 29 تاریخ میں رویت ہلال نہ ہو تو تیس دن پورے کرنے ضروری ہیں، عید کے چاند میں لوگ بہت سی بے اعتدالیاں کر جاتے ہیں جو نہ ہونی چاہئیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : جو شخص رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت کرکے رکھے اس کا ثواب


وقالت عائشة ـ رضى الله عنها ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏يبعثون على نياتهم‏"‏‏.
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ لوگوں کو قیامت میں ان کی نیتوں کے مطابق اٹھایا جائے گا۔

حدیث نمبر : 1901
حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا هشام، حدثنا يحيى، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏من قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه، ومن صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه‏"‏‏. ‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے عبادت میں کھڑا ہو اس کے تمام اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

تشریح : ہر عمل کے لیے نیت کا درست ہونا ضروری ہے، روزہ بھی بہترین عمل ہے بشرطیکہ خلوص دل کے ساتھ محض رضائے الٰہی کی نیت سے رکھا جائے اور حکم الٰہی پر یقین ہونا بھی شرط ہے کہ محض ادائیگی رسم نہ ہو، پھر نہ ثواب ملے گا جو یہاں مذکور ہے۔ اس حدیث میں من صام الخ کے ذیل میں استاذ الکل حضرت شاہ ولی اللہ محدث مرحوم فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ رمضان کے روزے رکھنے میں قوت ملکی کے غالب ہونے اور قوت بہیمی کے مغلوب ہونے کے لیے یہ مقدار کافی ہے کہ اس کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جائیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں سب سے زیادہ سخاوت کیا کرتے تھے

حدیث نمبر : 1902
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا إبراهيم بن سعد، أخبرنا ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، أن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال كان النبي صلى الله عليه وسلم أجود الناس بالخير، وكان أجود ما يكون في رمضان، حين يلقاه جبريل، وكان جبريل ـ عليه السلام ـ يلقاه كل ليلة في رمضان حتى ينسلخ، يعرض عليه النبي صلى الله عليه وسلم القرآن، فإذا لقيه جبريل ـ عليه السلام ـ كان أجود بالخير من الريح المرسلة‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہیں ابن شہاب نے خبر دی، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سخاوت اور خیر کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی تھی جب جبریل علیہ السلام آپ سے رمضان میں ملتے، جبریل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جبریل علیہ السلام سے قرآن کا دور کرتے تھے، جب حضرت جبریل آپ سے ملنے لگتے تو آپ چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہو جایا کرتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : جو شخص رمضان میں جھوٹ بولنا اور دغابازی کرنا نہ چھوڑے

حدیث نمبر : 1903
حدثنا آدم بن أبي إياس، حدثنا ابن أبي ذئب، حدثنا سعيد المقبري، عن أبيه، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏من لم يدع قول الزور والعمل به فليس لله حاجة في أن يدع طعامه وشرابه‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے، ان سے ان کے والد کیسان نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا ( روزے رکھ کر بھی ) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔

معلوم ہوا کہ روزہ کی حالت میں جھوٹ اور دغا بازی نہ چھوڑنے والا انسان روزہ کی توہین کرتا ہے اس لیے اللہ کے یہاں اس کے روزے کا کوئی وزن نہیں قال البیضاوی لیس المقصود من شرعیۃ الصوم نفس الجوع و العطش بل ما یتبعہ من کسر الشہوات و تطریح النفس الامارۃ للنفس المطمئنۃ فاذا لم یحصل ذلک لا ینظر اللہ الیہ نظر القبول ( فتح ) یعنی روزہ سے محض بھوک و پیاس مراد نہیں ہے بلکہ مراد یہ بھی ہے کہ شہوات نفسانی کو ترک کیا جائے، نفس امارہ کو اطاعت پر آمادہ کیا جائے تاکہ وہ نفس مطمئنہ کے پیچھے لگ سکے۔ اگر یہ مقاصد حاصل نہیں ہوتے تو اللہ پاک اس روزہ پر نظر قبول نہیں فرمائے گا۔ روزہ دار کے منہ کی بدبو خدا کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ اس پر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ عبادت کے پسندیدہ ہونے سے اس کا اثر بھی پسندیدہ ہوجاتا ہے اور عالم مثال میں بجائے عبادت کے وہ اثر متمثل ہوجاتا ہے، ا سی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سبب سے ملائکہ کو خوشی پیدا ہونے اور اللہ پاک کی رضا مندی کو ایک پلہ میں اور بنی آدم کو مشک کے سونگھنے پر جو سرور ہوحاصل ہوتا ہے اس کو ایک پلہ میں رکھا تاکہ یہ رمز غیبی ان کے لیے ظاہر ہو جائے۔ ( حجۃ اللہ البالغہ
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : کوئی روزہ دار کو اگر گالی دے تو اسے یہ کہنا چاہئے کہ میں روزہ سے ہوں؟

حدیث نمبر : 1904
حدثنا إبراهيم بن موسى، أخبرنا هشام بن يوسف، عن ابن جريج، قال أخبرني عطاء، عن أبي صالح الزيات، أنه سمع أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏قال الله كل عمل ابن آدم له إلا الصيام، فإنه لي، وأنا أجزي به‏.‏ والصيام جنة، وإذا كان يوم صوم أحدكم، فلا يرفث ولا يصخب، فإن سابه أحد، أو قاتله فليقل إني امرؤ صائم‏.‏ والذي نفس محمد بيده لخلوف فم الصائم أطيب عند الله من ريح المسك، للصائم فرحتان يفرحهما إذا أفطر فرح، وإذا لقي ربه فرح بصومه‏"‏‏. ‏
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے کہا کہ مجھے عطاءنے خبر دی، انہیں ابوصالح ( جو روغن زیتون اور گھی بیچتے تھے ) نے انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ پاک فرماتا ہے کہ انسان کا ہر نیک عمل خود اسی کے لیے ہے مگر روزہ کہ وہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ گناہوں کی ایک ڈھال ہے، اگر کوئی روزے سے ہو تو اسے فحش گوئی نہ کرنی چاہئے اور نہ شور مچائے، اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا لڑنا چاہئے تو اس کا جواب صرف یہ ہو کہ میں ایک روزہ دار آدمی ہوں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے ! روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے، روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوں گی ( ایک تو جب ) وہ افطا رکرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور ( دوسرے ) جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے کا ثواب پاکر خوش ہوگا۔

تشریح : یعنی دنیا میں بھی آدمی نیک عمل سے کچھ نہ کچھ فائدہ اٹھاتا ہے گو اس کی ریا کی نیت نہ ہو مثلاً لوگ اس کو اچھا سمجھتے ہیں مگر روزہ ایسی مخفی عباد ت ہے جس کا صلہ اللہ دے گا بندوں کو اس میں کوئی دخل نہیں۔
 
Top