• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : جو مجرد ہو اور زنا سے ڈرے تو وہ روزہ رکھے

حدیث نمبر : 1905
حدثنا عبدان، عن أبي حمزة، عن الأعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، قال بينا أنا أمشي، مع عبد الله ـ رضى الله عنه ـ فقال كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏من استطاع الباءة فليتزوج، فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج، ومن لم يستطع فعليه بالصوم، فإنه له وجاء‏"‏‏. ‏
ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ نے، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے ان سے علقمہ نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے ساتھ جارہا تھا۔ آپ نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی صاحب طاقت والا ہو تو اسے نکاح کرلینا چاہئے کیوں کہ نظر کو نیچی رکھنے اور شرمگاہ کو بدفعلی سے محفوظ رکھنے کا یہ ذریعہ ہے اور کسی میں نکاح کرنے کی طاقت نہ ہو تو اسے روزے رکھنے چاہئیں کیوں کہ وہ اس کی شہوت کو ختم کردیتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد جب تم ( رمضان کا ) چاند دیکھو تو روزے رکھو اور جب شوال کا چاند دیکھو تو روزے رکھنا چھوڑ دو


وقال صلة عن عمار من صام يوم الشك فقد عصى أبا القاسم صلى الله عليه وسلم.
اور صلہ نے عمار رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ جس نے شک کے دن روزہ رکھا تو اس نے حضرت ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی۔

حدیث نمبر : 1906
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر رمضان فقال ‏"‏لا تصوموا حتى تروا الهلال، ولا تفطروا حتى تروه، فإن غم عليكم فاقدروا له‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا ذکر کیا تو فرمایا کہ جب تک چاند نہ دیکھو روزہ شروع نہ کرو، اسی طرح جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ موقوف نہ کرو اور اگر ابر چھا جائے تو تیس دن پورے کرلو۔

تشریح : معلوم ہوا کہ ماہ شعبان کی 29 تاریخ کو چاند میں شک ہو جائے کہ ہوا یا نہ ہوا تو اس دن روزہ رکھنا منع ہے بلکہ ایک حدیث میں ایسا روزہ رکھنے والوں کو حضرت ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کا نافرمان بتلایا گیا ہے۔ اسی طرح عید کا چاند بھی اگر29 تاریخ کو نظر نہ آئے یا بادل وغیرہ کی وجہ سے شک ہو جائے تو پورے تیس دن روزے رکھ کر عید منانی چاہئے۔ حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ مرحوم فرماتے ہیں چونکہ روزے کا زمانہ قمری مہینہ کے ساتھ رویت ہلال کے اعتبار سے منضبط تھا اور وہ کبھی تیس دن اور کبھی انتیس دن کا ہوتا ہے لہٰذا اشتباہ کی صور ت میں اس اصل کی طرف رجوع کرنا ہوا۔

حدیث نمبر : 1907
حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا مالك، عن عبد الله بن دينار، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏الشهر تسع وعشرون ليلة، فلا تصوموا حتى تروه، فإن غم عليكم فأكملوا العدة ثلاثين‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے مالک نے ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مہینہ کبھی انتیس راتوں کا بھی ہوتا ہے اس لیے ( انتیس پورے ہو جانے پر ) جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ شروع کرو اور اگر ابر ہو جائے تو تیس دن کا شمار پورا کرلو۔

تشریح : ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں قال فی المواہب و ہذا مذہبنا و مذہب مالک و ابی حنفیۃ و جمہور السلف و الخلف و قال بعضہم ان المراد تقدیر منازل القمر و ضبط حساب النجوم حتی یعلم ان الشہر ثلاثون او تسع و عشرون و ہذا القول غیر سدید فان قول المنجمین لا یعتمد علیہ ( لمعات ) یعنی جمہور علمائے سلف اور خلف کا اسی حدیث پر عمل ہے بعض لوگوں نے حدیث بالا میں لفظ فاقدروا سے حساب نجوم کا ضبط کرنا مرا د لیا ہے یہ قول درست نہیں ہے اور اہل نجوم کا قول اعتماد کے قابل نہیں ہے۔ آج کل تقویم میں جو تاریخ بتلائی جاتی ہے اگرچہ ان کے مرتب کرنے والے پوری کوشش کرتے ہیں مگر شرعی امور کے لیے محض ان کی تحریرات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا خاص طور پر رمضان اور عیدین کے لیے رویت ہلال یا دو معتبر گواہوں کی شہادت ضروری ہے۔

حدیث نمبر : 1908
حدثنا أبو الوليد، حدثنا شعبة، عن جبلة بن سحيم، قال سمعت ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يقول قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏الشهر هكذا وهكذا‏"‏‏. ‏ وخنس الإبهام في الثالثة‏.‏
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے جبلہ بن سحیم نے بیان کیا، کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مہینہ اتنے دنوں اور اتنے دنوں کا ہوتا ہے۔ تیسری مرتبہ کہتے ہوئے آپ نے انگھوٹے کو دبا لیا۔

مراد یہ کہ کبھی تیس دن اور کبھی انتیس دن کا مہینہ ہوتا ہے۔

حدیث نمبر : 1909
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا محمد بن زياد، قال سمعت أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ يقول قال النبي صلى الله عليه وسلم أو قال قال أبو القاسم صلى الله عليه وسلم ‏"‏صوموا لرؤيته، وأفطروا لرؤيته، فإن غبي عليكم فأكملوا عدة شعبان ثلاثين‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن زیاد نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یا یوں کہا کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چاند ہی دیکھ کر روزے شروع کرو اور چاند ہی دیکھ کر روزہ موقوف کرو اور اگر ابر ہو جائے تو تیس دن پورے کرلو۔

حدیث نمبر : 1910
حدثنا أبو عاصم، عن ابن جريج، عن يحيى بن عبد الله بن صيفي، عن عكرمة بن عبد الرحمن، عن أم سلمة ـ رضى الله عنها ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم آلى من نسائه شهرا، فلما مضى تسعة وعشرون يوما غدا أو راح فقيل له إنك حلفت أن لا تدخل شهرا‏.‏ فقال ‏"‏إن الشهر يكون تسعة وعشرين يوما‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن عبداللہ بن صیفی نے، ان سے عکرمہ بن عبدالرحمن نے اور ان سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج سے ایک مہینہ تک جدا رہے پھر انتیس دن پورے ہو گئے تو صبح کے وقت یا شام کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے اس پر کسی نے کہا آپ نے تو عہد کیا تھا کہ آپ ایک مہینہ تک ان کے یہاں تشریف نہیں لے جائیں گے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔

حدیث نمبر : 1911
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا سليمان بن بلال، عن حميد، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال آلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من نسائه، وكانت انفكت رجله، فأقام في مشربة تسعا وعشرين ليلة، ثم نزل فقالوا يا رسول الله آليت شهرا‏.‏ فقال ‏"‏إن الشهر يكون تسعا وعشرين‏"‏‏. ‏
ہم سے عبدالعزیزبن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے، ان سے حمید نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے جدا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں موچ آگئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالاخانہ میں انتیس دن قیام کیا تھا، پھر وہاں سے اترے۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ کا ایلا کیا تھا۔ جواب میں آپ نے فرمایا کہ مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : عید کے دونوں مہینے کم نہیں ہوتے

قال أبو عبد الله قال إسحاق وإن كان ناقصا فهو تمام‏.‏ وقال محمد لا يجتمعان كلاهما ناقص‏.‏
امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ اسحاق بن راہویہ نے ( اس کی تشریح میں ) کہا کہ اگر یہ کم بھی ہوں پھر بھی ( اجر کے اعتبار سے ) تیس دن کا ثواب ملتا ہے محمد بن سیرین رحمہ اللہ علیہ نے کہا ( مطلب یہ ہے ) کہ دونوں ایک سال میں ناقص ( انتیس انتیس دن کے ) نہیں ہوسکتے۔

تشریح : حضرت امام بخاری نے اسحاق اور ابن سیرین کے قول نقل کرکے اس حدیث کی تفسیر کردی، امام احمد نے فرمایا ہے قاعدہ یہ ہے کہ اگر رمضان 29 دن کا ہو تو ذی الحجہ30 دن کا ہوتا ہے، اگر ذی الحجہ30دن کا ہو تو رمضان29دن کا ہوتا ہے، مگر اس تفسیر میں بہ قاعدہ نجوم شبہ رہتا ہے۔ بعض سال ایسے بھی ہوتے ہیں کہ رمضان اور ذی الحجہ29دن کے ہوتے ہیں اس لیے صحیح اسحق بن راہویہ کی تفسیر ہے۔ امام بخاری نے اسی لیے اس کو پہلے بیان فرمایا کہ راجح یہی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ شھرا عید لا ینقصان بعض کے نزدیک یہ معنی ہیں کہ انتیس انتیس دنوں کے نہیں ہوتے بعض کے نزدیک اس کے یہ معنی ہیں کہ تیس و انتیس کا اجر برابر ہی ملتا ہے اور یہ اخیر ی معنی قواعد شرعیہ کے لحاظ سے زیادہ چسپاں ہوتے ہیں۔ گویا آپ نے اس با ت کا دفع کرنا چاہا کہ کسی کے دل میں کسی با ت کا وہم نہ گزرے۔

حدیث نمبر : 1912
حدثنا مسدد، حدثنا معتمر، قال سمعت إسحاق، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن أبيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ وحدثني مسدد، حدثنا معتمر، عن خالد الحذاء، قال أخبرني عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن أبيه ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏شهران لا ينقصان شهرا عيد رمضان وذو الحجة‏"‏‏. ‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اسحاق سے سنا، انہوں نے عبدالرحمن بن ابی بکرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا اور مجھے مسدد نے خبر دی، ان سے معتمر نے بیان کیا، ان سے خالد حذاءنے بیان کیا کہ مجھے عبدالرحمن بن ابی بکرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی اور انہیں ان کے والد نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دونوں مہینے ناقص نہیں رہتے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ہم لوگ حساب کتاب نہیں جانتے

حدیث نمبر : 1913
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا الأسود بن قيس، حدثنا سعيد بن عمرو، أنه سمع ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال ‏"‏إنا أمة أمية، لا نكتب ولا نحسب الشهر هكذا وهكذا‏"‏‏. ‏ يعني مرة تسعة وعشرين، ومرة ثلاثين‏.‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اسود بن قیس نے بیان کیا، ان سے سعید بن عمرو نے بیان کیا اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہم ایک بے پڑھی لکھی قوم ہیں نہ لکھنا جانتے ہیں نہ حساب کرنا۔ مہینہ یوں ہے اور یوں ہے۔ آپ کی مرد ایک مرتبہ انتیس ( دنوں سے ) تھی اور ایک مرتبہ تیس سے۔ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دسوں انگلیوں سے تین با ربتلایا
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزے نہ رکھے جائیں

حدیث نمبر : 1914
حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا هشام، حدثنا يحيى بن أبي كثير، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏لا يتقدمن أحدكم رمضان بصوم يوم أو يومين، إلا أن يكون رجل كان يصوم صومه فليصم ذلك اليوم‏"‏‏. ‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص رمضان سے پہلے ( شعبان کی آخری تاریخوں میں ) ایک یا دو دن کے روزے نہ رکھے البتہ اگر کسی کو ان میں روزے رکھنے کی عادت ہو تو وہ اس دن بھی روزہ رکھ لے۔

مثلاً کوئی ہر ماہ میں پیر یا جمعرات کا یا کسی اور دن کا روزہ ہر ہفتہ رکھتا ہے اور اتفاق سے وہ دن شعبان کی آخری تاریخوں میں آگیا تووہ یہ روزہ رکھ لے، نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کی ممانعت اس لیے بھی وارد ہوئی ہے تاکہ رمضان کے لیے طاقت قائم رہے اور کمزوری لاحق نہ ہو۔ الغرض ہر ہر قدم پر شریعت کے امر و نہی کو سامنے رکھنا یہی دین اور یہی عبادت اور یہی اسلام ہے اور یہی ایمان، ہر ہر جگہ اپنی عقل کا دخل ہرگز ہرگز نہ ہونا چاہئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : اللہ عزو جل کا فرمانا کہ

‏{‏أحل لكم ليلة الصيام الرفث إلى نسائكم هن لباس لكم وأنتم لباس لهن علم الله أنكم كنتم تختانون أنفسكم فتاب عليكم وعفا عنكم فالآن باشروهن وابتغوا ما كتب الله لكم‏}‏
حلال کر دیا گیا ہے تمہارے لیے رمضان کا راتوں میں اپنی بیویوں سے صحبت کرنا، وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو، اللہ نے معلوم کیا کہ تم چوری سے ایسا کرتے تھے۔ سو معاف کردیا تم کو اور درگزر کی تم سے پس اب صحبت کرو ان سے اور ڈھونڈو جو لکھ دیا اللہ تعالیٰ نے تمہاری قسمت میں ( اولاد سے )۔

حدیث نمبر : 1915
حدثنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن أبي إسحاق، عن البراء ـ رضى الله عنه ـ قال كان أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم إذا كان الرجل صائما، فحضر الإفطار، فنام قبل أن يفطر لم يأكل ليلته ولا يومه، حتى يمسي، وإن قيس بن صرمة الأنصاري كان صائما، فلما حضر الإفطار أتى امرأته، فقال لها أعندك طعام قالت لا ولكن أنطلق، فأطلب لك‏.‏ وكان يومه يعمل، فغلبته عيناه، فجاءته امرأته، فلما رأته قالت خيبة لك‏.‏ فلما انتصف النهار غشي عليه، فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فنزلت هذه الآية ‏{‏أحل لكم ليلة الصيام الرفث إلى نسائكم‏}‏ ففرحوا بها فرحا شديدا، ونزلت ‏{‏وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الأبيض من الخيط الأسود‏}‏‏.‏
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براءرضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ( شروع اسلام میں ) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم جب روزہ سے ہوتے اور افطار کا وقت آتا تو کوئی روزہ دار اگر افطار سے پہلے بھی سو جاتا تو پھر اس رات میں بھی اور آنے والے دن میں بھی انہیں کھانے پینے کی اجازت نہیں تھی تاآنکہ پھر شام ہو جاتی، پھر ایسا ہوا کہ قیس بن صرمہ انصاری رضی اللہ عنہ بھی روزے سے تھے جب افطار کا وقت ہوا تو وہ اپنی بیوی کے پاس آئے اور ان سے پوچھا کیا تمہارے پاس کچھ کھانا ہے؟ انہوں نے کہا ( اس وقت کچھ ) نہیں ہے لیکن میں جاتی ہوں کہیں سے لاؤں گی، دن بھر انہوں نے کام کیا تھا اس لیے آنکھ لگ گئی جب بیوی واپس ہوئیں اور انہیں ( سوتے ہوئے ) دیکھا تو فرمایا افسوس تم محروم ہی رہے، لیکن دوسرے دن وہ دوپہر کو بے ہوش ہو گئے جب اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو یہ آیت نازل ہوئی ” حلال کر دیا گیا تمہارے لیے رمضان کی راتوں میں اپنی بیویوں سے صحبت کرنا “ اس پر صحابہ رضی اللہ عنہم بہت خوش ہوئے اور یہ آیت نازل ہوئی ” کھاؤ پیو یہاں تک کہ ممتاز ہوجائے تمہارے لیے صبح کی سفید دھاری ( صبح صادق ) سیاہ دھاری ( صبح کاذب ) سے۔

تشریح : نسائی کی روایت میں یہ مضمون یوں ہے کہ روزہ دار جب شام کا کھانا کھانے سے پہلے سو جائے، رات بھر کچھ نہ کھاپی سکتا تھا یہاں تک کہ دوسری شام ہو جاتی اور ابوالشیخ کی روایت میں یوں ہے کہ مسلمان افطار کے وقت کھاتے پیتے، عورتوں سے صبحت کرتے، جب تک سوتے نہیں۔ سونے کے بعد پھر دوسرا دن ختم ہونے تک کچھ نہیں کرسکتے۔ یہ ابتداءمیں تھا بعد میں اللہ پاک نے روزہ کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور جملہ مشکلات کو آسان فرمادیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : ( سورۃ بقرہ میں ) اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ

‏{‏وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الأبيض من الخيط الأسود من الفجر ثم أتموا الصيام إلى الليل‏}‏
سحری کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ کھل جائے تمہارے لیے صبح کی سفید دھاری ( صبح صادق ) سیاہ دھاری یعنی صبح کاذب سے پھر پورے کرو اپنے روزے سورج چھپنے تک ( اس سلسلے میں ) براءرضی اللہ عنہ کی ایک روایت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے

حدیث نمبر : 1916
حدثنا حجاج بن منهال، حدثنا هشيم، قال أخبرني حصين بن عبد الرحمن، عن الشعبي، عن عدي بن حاتم ـ رضى الله عنه ـ قال لما نزلت ‏{‏حتى يتبين لكم الخيط الأبيض من الخيط الأسود‏}‏ عمدت إلى عقال أسود وإلى عقال أبيض، فجعلتهما تحت وسادتي، فجعلت أنظر في الليل، فلا يستبين لي، فغدوت على رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت له ذلك فقال ‏"‏إنما ذلك سواد الليل وبياض النهار‏"‏‏.
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا کہ مجھے حصین بن عبدالرحمن نے خبر دی، اور ان سے شعبی نے، ان سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ” تاآنکہ کھل جائے تمہارے لیے سفید دھاری سیاہ دھاری سے۔ تو میں نے ایک سیاہ دھاگہ لیا اور ایک سفید اور دنوں کو تکیہ کے نیچے رکھ لیا اور رات میں دیکھتا رہا مجھ پر ان کے رنگ نہ کھلے، جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے تو رات کی تاریکی ( صبح کاذب ) اور دن کی سفیدی ( صبح صادق ) مراد ہے۔

عدی بن حاتم کو آپ کے بتلانے پر حقیت سمجھ میں آئی کہ یہاں صبح کاذب اورصبح صادق مراد ہیں۔

حدیث نمبر : 1917
حدثنا سعيد بن أبي مريم، حدثنا ابن أبي حازم، عن أبيه، عن سهل بن سعد، ح‏.‏ حدثني سعيد بن أبي مريم، حدثنا أبو غسان، محمد بن مطرف قال حدثني أبو حازم، عن سهل بن سعد، قال أنزلت ‏{‏وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الأبيض من الخيط الأسود‏}‏ ولم ينزل من الفجر، فكان رجال إذا أرادوا الصوم ربط أحدهم في رجله الخيط الأبيض والخيط الأسود، ولم يزل يأكل حتى يتبين له رؤيتهما، فأنزل الله بعد ‏{‏من الفجر‏}‏ فعلموا أنه إنما يعني الليل والنهار‏.‏
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے سہل بن سعد نے ( دوسری سند امام بخاری نے کہا ) اور مجھ سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، ان سے ابوغسان محمد بن مطرف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوحازم نے بیان کیا اور ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آیت نازل ہوئی ” کھاؤ پیو یہاں تک کہ تمہارے لیے سفید دھاری، سیاہ دھاری سے کھل جائے “ لیکن من الفجر ( صبح کی ) کے الفاظ نازل نہیں ہوئے تھے۔ اس پر کچھ لوگوں نے یہ کہا کہ جب روزے کا ارادہ ہوتا تو سیاہ اور سفید دھاگہ لے کر پاؤں میں باندھ لیتے اور جب تک دونوں دھاگے پوری طرح دکھائی نہ دینے لگتے، کھانا پینا بند نہ کرتے تھے، اس پر اللہ تعالیٰ نے من الفجر کے الفاظ نازل فرمائے پھر لوگوں کو معلوم ہوا کہ اس سے مراد رات اور دن ہیں۔

تشریح : ابتداءمیں صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے بعض لوگوں نے طلوع فجر کا مطلب نہیں سمجھا اس لیے وہ سفید اور سیاہ دھاگے سے فجر معلوم کرنے لگے مگر جب من الفجر کا لفظ نازل ہوا تو ان کو حقیقت کا علم ہوا۔ سیاہ دھاری سے رات کی اندھیری اور سفید دھاری سے صبح کا اجالا مراد ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ بلال کی اذان تمہیں سحری کھانے سے نہ روکے

حدیث نمبر : 1918-1919
حدثنا عبيد بن إسماعيل، عن أبي أسامة، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر‏. والقاسم بن محمد، عن عائشة رضي الله عنها: أن بلالا كان يؤذن بليل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (كلوا واشربوا حتى يؤذن ابن أم مكتوم، فإنه لا يؤذن حتى يطلع الفجر). قال القاسم: ولم يكن بين أذانهما إلا أن يرقى ذا وينزل ذا.‏
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اور ( عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہی روایت ) قاسم بن محمدسے اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ بلال رضی اللہ عنہ کچھ رات رہے سے اذان دے دیا کرتے تھے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان نہ دیں تم کھتے پیتے رہو کیوں کہ وہ صبح صادق کے طلوع سے پہلے اذان نہیں دیتے۔ قاسم نے بیان کیا کہ دونوں ( بلال اور ام مکتوم رضی اللہ عنہما ) کی اذان کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہوتا تھا کہ ایک چڑھتے تو دوسرے اترتے۔

تشریح : علامہ قسطلانی نے نقل کیا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی سحری بہت قلیل ہوتی تھی، ایک آدھ کھجور یا ایک آدھ لقمہ، اس لیے یہ قلیل فاصلہ بتلایا گیا۔ حدیث ہذا میں صاف مذکور ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ صبح صادق سے پہلے اذان دیا کرتے تھے یہ ان کی سحری کی اذان ہوتی تھی اور حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ فجر کی اذان اس وقت دیتے جب لوگ ان سے کہتے کہ فجر ہو گئی ہے کیوں کہ وہ خود نابینا تھے۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں و المعنی فی الجمیع ان بلالا کان یوذن قبل الفجر ثم یتربص بعد للدعاءو نحوہ ثم یرقب الفجر فاذا قارب طلوعہ نزل فاخبر ابن ام مکتوم الخ یعنی حضرت بلال رضی اللہ عنہ فجر سے قبل اذان دے کر اس جگہ دعاءکے لیے ٹھہرے رہتے اور فجر کا انتظار کرتے جب طلوع فجر قریب ہوتی تو وہاں سے نیچے اتر کر ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اطلا ع کرتے اور وہ پھر فجر کی اذان دیا کرتے تھے۔ ہر دو کی اذان کے درمیان قلیل فاصلہ کا مطلب یہی سمجھ میں آتا ہے آیت قرآنیہ حتی یتبین لکم الخیط الابیض ( البقرۃ : 187 ) سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ صبح صادق نمایاں ہوجانے تک سحری کھانے کی اجازت ہے، جو لوگ رات رہتے ہوئے سحری کھالیتے ہیں یہ سنت کے خلاف ہے۔ سنت کے مطابق سحری وہی ہے کہ اس سے فارغ ہونے اور فجر کی نماز شروع کرنے کے درمیان اتنا فاصلہ ہو جتنا کہ پچاس آیات کے پڑھنے میں وقت صرف ہوتا ہے۔ طلوع فجر کے بعد سحری کھانا جائز نہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : سحری کھانے میں دیر کرنا

حدیث نمبر : 1920
حدثنا محمد بن عبيد الله، حدثنا عبد العزيز بن أبي حازم، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد ـ رضى الله عنه ـ قال كنت أتسحر في أهلي، ثم تكون سرعتي أن أدرك السجود مع رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے محمد بن عبید اللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے بیان کیا اور ان سے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں سحری اپنے گھر کھاتا پھر جلدی کرتا تاکہ نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل جائے۔

یعنی سحری وہ بالکل آخر وقت کھایا کرتے تھے پھر جلدی سے جماعت میں شامل ہوجاتے کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز ہمیشہ طلوع فجر کے بعد اندھیرے ہی میں پڑھا کرتے تھے ایسا نہیں جیسا کہ آج کل حنفی بھائیوں نے معمول بنا لیا ہے کہ نماز فجر بالکل سورج نکلنے کے وقت پڑھتے ہیں، ہمیشہ ایسا کرنا سنت نبوی کے خلاف ہے۔ نماز فجر کو اول وقت ادا کرنا ہی زیادہ بہتر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : سحری اور فجر کی نماز میں کتنا فاصلہ ہوتا تھا

حدیث نمبر : 1921
حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا هشام، حدثنا قتادة، عن أنس، عن زيد بن ثابت ـ رضى الله عنه ـ قال تسحرنا مع النبي صلى الله عليه وسلم ثم قام إلى الصلاة‏.‏ قلت كم كان بين الأذان والسحور قال قدر خمسين آية‏.‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے اور ان سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے سحری کھائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ میں نے پوچھا کہ سحری اور اذان میں کتنا فاصلہ ہوتا تھا تو انہوں نے کہا کہ پچاس آیتیں ( پڑھنے ) کے موافق فاصلہ ہوتا تھا۔

تشریح : سند میں حضرت قتادہ بن دعامہ کا نام آیا ہے، ان کی کنیت ابوالخطاب السدوی ہے، نابینا اور قوی الحافظہ تھے، بکر بن عبداللہ مزنی ایک بزرگ کہتے ہیں کہ جس کا جی چاہے اپنے زمانہ کے سب سے زیادہ قوی الحافظہ بزرگ کی زیارت کرے وہ قتادہ کو دیکھ لے۔ خود قتادہ کہتے ہیں کہ جو بات بھی میرے کان میں پڑتی ہے اسے قلب فوراً محفوظ کر لیتا ہے۔ عبداللہ بن سرجس اور انس رضی اللہ عنہ اور بہت سے دیگر حضرات سے روایت کرتے ہیں۔ 70 ھ میں انتقال فرمایا رحمۃ اللہ علیہ ( آمین
 
Top