• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : سحری کھانا مستحب ہے واجب نہیں ہے

حدیث نمبر : 1922
لأن النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه واصلوا ولم يذكروا السحور.
کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم نے پے درپے روزے رکھے اور ان میں سحری کا ذکر نہیں ہے۔

حدیث نمبر : 1922
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا جويرية، عن نافع، عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم واصل فواصل الناس فشق عليهم، فنهاهم‏.‏ قالوا إنك تواصل‏.‏ قال ‏"‏لست كهيئتكم، إني أظل أطعم وأسقى‏"‏‏.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ نے، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ” صوم وصال “ رکھا تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی رکھا لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے دشواری ہوگئی۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا، صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس پر عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صوم وصال رکھتے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ میں تو برابر کھلایا اور پلایا جاتا ہوں۔

تشریح : صوم وصال متواتر کئی دن سحری و افطار کئے بغیر روزہ رکھنا اور رکھے چلے جانا، بعض دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسا روزہ رکھا کرتے تھے مگر صحابہ رضی اللہ عنہم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشقت کے پیش نظر ایسے روزے سے منع فرمایا بلکہ سحری کھانے کا حکم دیا تاکہ دن میں اس سے قوت حاصل ہو۔ امام بخاری کا منشاءیہ ہے کہ سحری کھانا سنت ہے، مستحب ہے مگر واجب نہیں ہے کیوں کہ صوم وصال میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی بہرحال سحری کو ترک کر دیا تھا، لہٰذاباب کا مقصد ثابت ہوا۔

حدیث نمبر : 1923
حدثنا آدم بن أبي إياس، حدثنا شعبة، حدثنا عبد العزيز بن صهيب، قال سمعت أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏تسحروا فإن في السحور بركة‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سحری کھاؤ کہ سحری میں برکت ہوتی ہے۔

سحری کھانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہودیوں کے ہاں سحری کھانے کا چلن نہیں ہے، پس ان کی مخالفت میں سحری کھانی چاہئے، اور اس سے روزہ پورا کرنے میں مدد بھی ملتی ہے، سحری میں چند کھجور اور پانی کے گھونٹ بھی کافی ہیں اور جو اللہ میسر کرے۔ بہرحال سحری چھوڑنا سنت کے خلاف ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : اگر کوئی شخص روزے کی نیت دن میں کرے تو درست ہے

وقالت أم الدرداء كان أبو الدرداء يقول عندكم طعام فإن قلنا لا‏.‏ قال فإني صائم يومي هذا‏.‏ وفعله أبو طلحة وأبو هريرة وابن عباس وحذيفة ـ رضى الله عنهم‏.‏
اور ام درداء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ابودرداء رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے کیا کچھ کھانا تمہارے پاس ہے؟ اگر ہم جواب دیتے کہ کچھ نہیں تو کہتے پھر آج میرا روزہ رہے گا۔ اسی طرح ابوطلحہ، ابوہریرہ، ابن عباس اور حذیفہ رضی اللہ عنہم نے بھی کیا۔

حدیث نمبر : 1924
حدثنا أبو عاصم، عن يزيد بن أبي عبيد، عن سلمة بن الأكوع ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم بعث رجلا ينادي في الناس، يوم عاشوراء ‏"‏أن من أكل فليتم أو فليصم، ومن لم يأكل فلا يأكل‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن اکوع نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے دن ایک شخص کو یہ اعلان کرنے کے لیے بھیجا کہ جس نے کھانا کھالیا وہ اب ( دن ڈوبنے تک روزہ کی حالت میں ) پورا کرے یا ( یہ فرمایا کہ ) روزہ رکھے اور جس نے نہ کھایا ہو ( تو وہ روزہ رکھے ) کھانا نہ کھائے۔

مقصد باب یہ ہے کہ کسی شخص نے فجر کے بعد کچھ نہ کھایا پیا ہو اور اسی حالت میں روزہ کی نیت دن میں بھی کرلے تو روزہ ہو جائے گا مگر یہ اجازت نفل روزہ کے لیے ہے، فرض روزہ کی نیت رات ہی میں سحری کے وقت ہونی چاہئے۔ حدیث میں عاشورہ کے روزہ کا ذکر ہے جو رمضان کی فرضیت سے قبل فرض تھا۔ بعد میں محض نفل کی حیثیت میں رہ گیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : روزہ دار صبح کو جنابت کی حالت میں اٹھے تو کیا حکم ہے

حدیث نمبر : 1925-1926
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن سمى، مولى أبي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام بن المغيرة أنه سمع أبا بكر بن عبد الرحمن، قال كنت أنا وأبي، حين دخلنا على عائشة وأم سلمة ح‏. حدثنا أبو اليمان: أخبرنا شعيب، عن الزهري قال: أخبرني أبو بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام: أن أباه عبد الرحمن أخبر مروان: أن عائشة وأم سلمة أخبرتاه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يدركه الفجر، وهو جنب من أهله، ثم يغتسل ويصوم. وقال مروان لعبد الرحمن بن الحارث: أقسم بالله لتقرعن بها أبا هريرة، ومروان يومئذ على المدينة، فقال أبو بكر: فكره ذلك عبد الرحمن، ثم قدر لنا أن نجتمع بذي الحليفة، وكانت لأبي هريرة هنالك أرض، فقال عبد الرحمن لأبي هريرة: إني ذاكر لك أمرا، ولولا مروان أقسم علي فيه لم أذكره لك، فذكر قول عائشة وأم سلمة، فقال: كذلك حدثني الفضل بن عباس، وهو أعلم. وقال همام وابن عبد الله بن عمر، عن أبي هريرة: كان النبي صلى الله عليه وسلم يأمر بالفطر، والأول أسند.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام بن مغیرہ کے غلام سمی نے بیان کیا، انہوں نے ابوبکر بن عبدالرحمن سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں اپنے باپ کے ساتھ عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا ( دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ ) اور ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام نے خبر دی، انہیں ان کے والد عبدالرحمن نے خبر دی، انہیں مروان نے خبر دی اور انہیں عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ ( بعض مرتبہ ) فجر ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل کے ساتھ جنبی ہوتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے ہوتے تھے، اور مروان بن حکم نے عبدالرحمن بن حارث سے کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو تم یہ حدیث صاف صاف سنا دو۔ ( کیوں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا فتوی اس کے خلا ف تھا ) ان دنوں مروان، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا، ابوبکر نے کہا کہ عبدالرحمن نے اس بات کو پسند نہیں کیا۔ اتفاق سے ہم سب ایک مرتبہ ذو الحلیفہ میں جمع ہو گئے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی وہاں کوئی زمین تھی، عبدالرحمن نے ان سے کہا کہ آپ سے ایک بات کہوں گا اور اگر مروان نے اس کی مجھے قسم نہ دی ہوتی تو میں کبھی آپ کے سامنے اسے نہ چھیڑتا۔ پھر انہوں نے عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی حدیث ذکر کی۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ( میں کیا کروں ) کہا کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ حدیث بیان کی تھی ( اور وہ زیادہ جاننے والے ہیں ) کہ ہمیں ہمام اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے شخص کو جو صبح کے وقت جنبی ہونے کی حالت میں اٹھا ہو افطار کا حکم دیتے تھے لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت زیادہ معتبر ہے۔

تشریح : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فضل کی حدیث سن کر اس کے خلاف فتوی دیا تھا۔ مروان کا یہ مطلب تھا کہ عبدالرحمن ان کو پریشان کریں لیکن عبدالرحمن نے یہ منظور نہ کیا اور خاموش رہے پھر موقع پاکر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس مسئلہ کو ذکر کیا۔ ایک روایت میں ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی حدیث سن کر کہا کہ وہ خوب جانتی ہیں گویا اپنے فتوی سے رجوع کیا۔ ( وحیدی )

علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں مثلاً علماءکا امراءکے ہاں جاکر علمی مذاکرات کرنا، منقولات میں اگر ذرا بھی شک ہو جائے تو اپنے سے زیادہ علم رکھنے والے عالم کی طرف رجوع کرکے اس سے امر حق معلوم کرنا، ایسے امور جن پر عورتوں کو بہ نسبت مردوں کے زیادہ اطلاع ہوسکتی ہے، کی بابت عورتوں کی روایات کو مردوں کی مرویات پر ترجیح دینا، اسی طرح بالعکس جن امور پر مردوں کو زیادہ اطلاع ہوسکتی ہے ان کے لیے مردوں کی روایات کو عورتوں کی مرویات پر ترجیح دینا، بہرحال ہر امر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداءکرنا، جب تک اس امر کے متعلق خصوصیت نبوی نہ ثابت ہو اور یہ کہ اختلاف کے وقت کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنا اور خبر واحد مر دسے مروی ہو یا عورت سے اس کا حجت ہونا، یہ جملہ فوائد اس حدیث سے نکلتے ہیں اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے، جنہوں نے حق کا اعتراف فرما کر اس کی طرف رجوع کیا۔ ( فتح الباری
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : روزہ دار کا اپنی بیوی سے مباشرت یعنی بوسہ مساس وغیرہ درست ہے

وقالت عائشة رضي الله عنها: يحرم عليه فرجها.
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ روزہ دار پر بیوی کی شرمگاہ حرام ہے۔

حدیث نمبر : 1927
حدثنا سليمان بن حرب، قال عن شعبة، عن الحكم، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت كان النبي صلى الله عليه وسلم يقبل ويباشر، وهو صائم، وكان أملككم لإربه‏.‏ وقال قال ابن عباس ‏{‏مآرب‏}‏ حاجة‏.‏ قال طاوس ‏{‏أولي الإربة‏}‏ الأحمق لا حاجة له في النساء‏.‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے حکم نے، ان سے ابراہیم نے ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے ہوتے لیکن ( اپنی ازواج کی ساتھ تقبیل ( بوسہ لینا ) و مباشرت ( اپنے جسم سے لگالینا ) بھی کرلیتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تم سب سے زیادہ اپنی خواہشات پر قابو رکھنے والے تھے، بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ( سورۃ طہ میں جو مآرب کا لفظ ہے وہ ) حاجت و ضرورت کے معنی میں ہے، طاؤس نے کہا کہ لفظ اولی الاربۃ ( جو سورہ نور میں ہے ) اس احمق کو کہیں گے جسے عورتوں کی کوئی ضرورت نہ ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : روزہ دار کا روزہ کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لینا

وقال جابر بن زيد إن نظر فأمنى يتم صومه‏.‏
اور جابر بن زید نے کہا اگر روزہ دار نے شہوت سے دیکھا اور منی نکل آئی تو وہ اپنا روزہ پورا کرلے

حدیث نمبر : 1928
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا يحيى، عن هشام، قال أخبرني أبي، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم ح وحدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليقبل بعض أزواجه وهو صائم‏.‏ ثم ضحكت‏.‏
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا کہ مجھے میرے والد عروہ نے خبر دی اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ( دوسری سند امام بخاری نے کہا کہ ) اور ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعض ازواج کا روزہ دار ہونے کے باوجود بوسہ لے لیا کرتے تھے۔ پھر آپ ہنسیں۔

حدیث نمبر : 1929
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن هشام بن أبي عبد الله، حدثنا يحيى بن أبي كثير، عن أبي سلمة، عن زينب ابنة أم سلمة، عن أمها ـ رضى الله عنهما ـ قالت بينما أنا مع، رسول الله صلى الله عليه وسلم في الخميلة إذ حضت فانسللت، فأخذت ثياب حيضتي فقال ‏"‏ما لك أنفست‏"‏‏. ‏ قلت نعم‏.‏ فدخلت معه في الخميلة، وكانت هي ورسول الله صلى الله عليه وسلم يغتسلان من إناء واحد، وكان يقبلها وهو صائم‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعیدقطان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن ابی عبداللہ نے، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے، ان سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی زینب نے اور ان سے ان کی والدہ ( حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ) نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک چادر میں ( لیٹی ہوئی ) تھی کہ مجھے حیض آگیا۔ اس لیے میں چپکے سے نکل آئی اور اپنا حیض کا کپڑا پہن لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا بات ہوئی؟ کیا حیض آگیا ہے؟ میں نے کہا ہاں، پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسی چادر میں چلی گئی اور ام سلمہ رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل ( جنابت ) کیا کرتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہونے کے باوجود ان کا بوسہ لیتے تھے۔

تشریح : شریعت ایک آسان جامع قانون کا نام ہے جس کا زندگی کے ہر ہر گوشے سے تعلق ضروری ہے، میاں بیوی کا تعلق جو بھی ہے ظاہرے ہے اس لیے حالت روزہ میں اپنی بیوی کے ساتھ بوس و کنار کو جائز رکھا گیا بشرطیکہ بوسہ لینے والوں کو اپنی طبیعت پر پورا قابو حاصل ہو، اسی لیے جوانوں کے واسطے بوس و کنار کی اجازت نہیں۔ ان کا نفس غالب رہتا ہے ہاں یہ خوف نہ ہو تو جائز ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : روزہ دار کا غسل کرنا جائز ہے۔

حدیث نمبر : 1929
وبل ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ ثوبا، فألقاه عليه، وهو صائم‏.‏ ودخل الشعبي الحمام وهو صائم‏.‏ وقال ابن عباس لا بأس أن يتطعم القدر، أو الشىء‏.‏ وقال الحسن لا بأس بالمضمضة والتبرد للصائم‏.‏ وقال ابن مسعود إذا كان صوم أحدكم فليصبح دهينا مترجلا‏.‏ وقال أنس إن لي أبزن أتقحم فيه وأنا صائم‏.‏ ويذكر عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه استاك وهو صائم‏.‏ وقال ابن عمر يستاك أول النهار وآخره، ولا يبلع ريقه‏.‏ وقال عطاء إن ازدرد ريقه لا أقول يفطر‏.‏ وقال ابن سيرين لا بأس بالسواك الرطب‏.‏ قيل له طعم‏.‏ قال والماء له طعم، وأنت تمضمض به‏.‏ ولم ير أنس والحسن وإبراهيم بالكحل للصائم بأسا‏.‏
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک کپڑا ترکر کے اپنے جسم میں ڈالا حالانکہ وہ روزے سے تھے اور شعبی روزے سے تھے لیکن حمام میں ( غسل کے لیے ) گئے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہانڈی یا کسی چیز کا مزہ معلوم کرنے میں ( زبان پر رکھ کر ) کوئی حرج نہیں۔ حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ روزہ دار کے لیے کلی کرنے اور ٹھنڈا حاصل کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب کسی کو روزہ رکھنا ہو تو وہ صبح کو اس طرح اٹھے کہ تیل لگا ہوا ہو اور کنگھا کیا ہوا اور انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرا ایک آبزن ( حوض کا پتھر کا بنا ہوا ) ہے جس میں میں روزے سے ہونے کے باجود غوطے مارتا ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ میں مسواک کی اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ دن میں صبح اور شام ( ہر وقت ) مسواک کرے اور روزہ دار تھوک نہ نگلے اور عطاء رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ اگر تھوک نکل گیا تو میں یہ نہیں کہتا کہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا اور ابن سیرین رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ تر مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کسی نے کہا کہ اس میں جو ایک مزا ہوتا ہے اس پر آپ نے کہا کیا پانی میں مزا نہیں ہوتا؟ حالانکہ اس سے کلی کرتے ہو۔ انس، حسن اور ابراہیم نے کہا کہ روزہ دار کے لیے سرمہ لگانا درست ہے۔

تشریح : حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اثر مذکورہ فی الباب کی مناسبت ترجمہ باب سے مشکل ہے، ابن منیر نے کہا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا رد کیا جس نے روزہ دار کے لیے غسل مکروہ رکھا ہے کیوں کہ اگر منہ میں پانی جانے کے ڈر سے مکروہ رکھا ہے تو کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے سے بھی اس کا ڈر رہتا ہے۔ اوراس لیے اگر مکروہ رکھا ہے کہ روزہ میں زیب و زینت اور آرائش اچھی نہیں تو سلف نے کنگھی کرنا، تیل ڈالنا روزہ دا رکے لیے جائز رکھا ہے۔ حافظ نے یہ بیان نہیں کیا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اثرکو کس نے وصل کیا نہ قسطلانی نے بیان کیا۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1930
حدثنا أحمد بن صالح، حدثنا ابن وهب، حدثنا يونس، عن ابن شهاب، عن عروة، وأبي، بكر قالت عائشة ـ رضى الله عنها ـ كان النبي صلى الله عليه وسلم يدركه الفجر ‏{‏جنبا‏}‏ في رمضان، من غير حلم فيغتسل ويصوم‏.‏
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ اور ابوبکر نے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا رمضان میں فجر کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم احتلام سے نہیں ( بلکہ اپنی ازواج کے ساتھ صحبت کرنے کی وجہ سے ) غسل کرتے اور روزہ رکھتے تھے۔ ( معلوم ہوا کہ غسل جنابت روزہ دار فجر کے بعد کرسکتا ہے )

حدیث نمبر : 1931
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن سمى، مولى أبي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام بن المغيرة أنه سمع أبا بكر بن عبد الرحمن، كنت أنا وأبي،، فذهبت معه، حتى دخلنا على عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت أشهد على رسول الله صلى الله عليه وسلم إن كان ليصبح جنبا من جماع غير احتلام، ثم يصومه‏.‏
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام بن مغیرہ کے غلام سمی نے، انہوں نے ابوبکر بن عبدالرحمن سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میرے باپ عبدالرحمن مجھے ساتھ لے کر عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح جنبی ہونے کی حالت میں کرتے احتلام کی وجہ سے نہیں بلکہ جماع کی وجہ سے ! پھر آپ روزے سے رہتے ( یعنی غسل فجر کی نماز سے پہلے سحری کا وقت نکل جانے کے بعد کرتے )

حدیث نمبر : 1932
ثم دخلنا على أم سلمة فقالت مثل ذلك.
اس کے بعد ہم ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے اسی طرح حدیث بیان کی۔

اس حدیث سے بھی ہر دو مسئلے ثابت ہوئے روزہ دار کے لیے غسل کا جائز ہونا اور بحالت روزہ غسل جنابت فجر ہونے کے بعد کرنا چوں کہ شریعت میں ہر ممکن آسانی پیش نظر رکھی گئی ہے اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسوہ حسنہ سے عملاً یہ آسانیاں پیش کی ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : اگر روزہ دار بھول کر کھا پی لے تو روزہ نہیں جاتا

وقال عطاء إن استنثر، فدخل الماء في حلقه، لا بأس، إن لم يملك‏.‏ وقال الحسن إن دخل حلقه الذباب فلا شىء عليه‏.‏ وقال الحسن ومجاهد إن جامع ناسيا فلا شىء عليه‏.‏
اور عطاءنے کہا کہ اگر کسی روزہ دار نے ناک میں پانی ڈالا اور وہ پانی حلق کے اندر چلا گیا تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اگر اس کو نکال نہ سکے اور امام حسن بصری نے کہا کہ اگر روزہ دار کے حلق میں مکھی چلی گئی تو اس کا روزہ نہیں جاتا اور امام حسن بصری اور مجاہد نے کہا کہ اگر بھول کر جماع کر لے تو اس پر قضاءواجب نہ ہوگی۔

حدیث نمبر : 1933
حدثنا عبدان، أخبرنا يزيد بن زريع، حدثنا هشام، حدثنا ابن سيرين، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏إذا نسي فأكل وشرب فليتم صومه، فإنما أطعمه الله وسقاه‏"‏‏. ‏
ہم سے عبدان نے بیان کیا کہ ہمیں یزید بن زریع نے خبر دی، ان سے ہشام نے بیان کیا، ان سے ابن سیرین نے بیان کیا، کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی بھول گیا اور کچھ کھا پی لیا تو اسے چاہئے کہ اپنا روزہ پورا کرے۔ کیوں کہ اس کو اللہ نے کھلایا اور پلایا۔

تشریح : امام حسن بصری اور مجاہد کے اس اثر کو عبدالرزاق نے وصل کیا، انہوں نے کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، انہوں نے ابن ابی نجیح سے، انہوں نے مجاہد سے، انہوں نے کہا اگر کو ئی آدمی رمضان میں بھول کر اپنی عورت سے صحبت کرے تو کوئی نقصان نہ ہوگا اور ثوری سے روایت کی، انہوں نے ایک شخص سے، انہوں نے حسن بصری سے، انہوں نے کہا کہ بھول کر جماع کرنا بھی بھول کر کھانے پینے کے برابر ہے ( وحیدی ) یہ فتوی ایک مسئلہ کی وضاحت کے لیے ہے ورنہ یہ شاذ ونادر ہی ہے کہ کوئی روزہ دار بھول کر ایسا کرے، کم از کم اسے یاد نہ رہا ہو تو عورت کو ضرور یاد رہے گا اور وہ یاد دلائے گی ا سی لیے بحالت روزہ قصداً جماع کرنا سخت ترین گناہ قرار دیا گیا جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اس کا کفارہ پے در پے دو ماہ کے روزے رکھنا وغیرہ وغیرہ قرار دیا گیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : روزہ دار کے لیے تر یا خشک مسواک استعمال کرنی درست ہے

ويذكر عن عامر بن ربيعة قال رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يستاك، وهو صائم ما لا أحصي أو أعد‏.‏ وقال أبو هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏لولا أن أشق على أمتي لأمرتهم بالسواك عند كل وضوء‏"‏‏. ‏ ويروى نحوه عن جابر وزيد بن خالد عن النبي صلى الله عليه وسلم، ولم يخص الصائم من غيره‏.‏ وقالت عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏مطهرة للفم، مرضاة للرب‏"‏‏. ‏ وقال عطاء وقتادة يبتلع ريقه‏.‏
اور عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روزہ کی حالت میں بے شمار دفعہ وضو میں مسواک کرتے دیکھا اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کی کہ اگر میری امت پر مشکل نہ ہوتی تو میں ہر وضو کے ساتھ مسواک کا حکم وجوباً دے دیتا۔ اسی طرح کی حدیث جابر اور زید بن خالد رضی اللہ عنہما کی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ دار وغیرہ کی کوئی تخصیص نہیں کی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا کہ ( مسواک ) منہ کو پاک رکھنے والی اور رب کی رضا کا سبب ہے اور عطاءاور قتادہ نے کہا روزہ دار اپنا تھوک نگل سکتا ہے۔

حدیث نمبر : 1934
حدثنا عبدان، أخبرنا عبد الله، أخبرنا معمر، قال حدثني الزهري، عن عطاء بن يزيد، عن حمران، رأيت عثمان ـ رضى الله عنه ـ توضأ، فأفرغ على يديه ثلاثا، ثم تمضمض واستنثر، ثم غسل وجهه ثلاثا، ثم غسل يده اليمنى إلى المرفق ثلاثا، ثم غسل يده اليسرى إلى المرفق ثلاثا، ثم مسح برأسه، ثم غسل رجله اليمنى ثلاثا، ثم اليسرى ثلاثا، ثم قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم توضأ نحو وضوئي هذا، ثم قال ‏"‏من توضأ وضوئي هذا، ثم يصلي ركعتين، لا يحدث نفسه فيهما بشىء، إلا غفر له ما تقدم من ذنبه‏"‏‏. ‏
ہم سے عبدان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے عطاءبن زید نے، ان سے حمران نے انہوں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے دیکھا، آپ نے ( پہلے ) اپنے دونوں ہاتھوں پر تین مرتبہ پانی ڈالا پھر کلی کی اور ناک صاف کی، پھر تین مرتبہ چہرہ دھویا، پھر دایاں ہاتھ کہنی تک دھویا، پھر بایاں ہاتھ کہنی تک دھویا تین تین مرتبہ، اس کے بعد اپنے سر کا مسح کیا اور تین مرتبہ داہنا پاؤں دھویا، پھر تین مرتبہ بایاں پاؤں دھویا، آخر میں کہا کہ جس طرح میں نے وضو کیا ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے، پھر آپ نے فرمایا کہ جس نے میری طرح وضو کیا پھر دو رکعت نماز ( تحیۃ الوضو ) اس طرح پڑھی کہ اس نے دل میں کسی قسم کے خیالات و وساوس گزرنے نہیں دیئے تو اس کے اگلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ جب کوئی وضو کرے تو ناک میں پانی ڈالے

وقال الحسن: لا بأس بالسعوط للصائم إن لم يصل إلى حلقه، ويكتحل. وقال عطاء: إن تمضمض ثم أفرغ ما في فيه من الماء لا يضيره إن لم يزدرد ريقه وماذا بقي في فيه، ولا يمضغ العلك، فإن ازدرد ريق العلك لا أقول إنه يفطر، ولكن ينهى عنه، فإن استنثر فدخل الماء حلقه لا بأس، لم يملك.
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ دار اور غیر روزہ دار میں کوئی فرق نہیں کیا اور امام حسن بصری نے کہا کہ ناک میں ( دوا وغیرہ ) چڑھانے میں اگر وہ حلق تک نہ پہنچے تو کوئی حرج نہیں ہے اور روزہ دار سرمہ بھی لگا سکتا ہے۔ عطاءنے کہا کہ اگر کلی کی اور منہ سے سب پانی نکال دیا تو کوئی نقصان نہیں ہوگا اور اگر وہ اپنا تھوک نہ نگل جائے اور جو اس کے منہ میں ( پانی کی تری ) رہ گئی اور مصطگی نہ چبانی چاہئے۔ اگر کوئی مصطگی کا تھوک نگل گیا تو میں نہیں کہتا کہ اس کار وزہ ٹوٹ گیا لیکن منع ہے اور اگر کسی نے ناک میں پانی ڈالا اور پانی ( غیر اختیاری طور پر ) حلق کے اندر چلا گیا تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا کیوں کہ یہ چیز اختیار سے باہر تھی۔

تشریح : ابن منذر نے کہا کہ اس پر اجماع ہے کہ اگر روزہ دار اپنے تھوک کے ساتھ دانتوں کے درمیان جو رہ جاتاہے جس کو نکال نہیں سکتا نگل جائے تو روزہ نہ ٹوٹے گا اورحضرت امام ابوحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر روزہ دار کے دانتوں میں گوشت رہ گیا ہو، اس کو چبا کر قصداً کھا جائے تو اس پر قضا نہیں اور جمہور کہتے ہیں قضا لازم ہوگی اور انہوں نے روزے میں مصطگی چبانے کی اجازت دی اگر اس کے اجزاءنہ نکلیں اگر نکلیں اور نگل جائے تو جمہور علماءکے نزدیک روزہ ٹوٹ جائے گا۔ ( فتح الباری ) بہرحال روزہ کی حالت میں ان تمام شک و شبہ کی چیزوں سے بچنا چاہئے جس سے روزہ خراب ہونے کا احتمال ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : جان بوجھ کر اگر رمضان میں کسی نے جما ع کیا؟

ويذكر عن أبي هريرة رفعه ‏"‏من أفطر يوما من رمضان، من غير عذر ولا مرض لم يقضه صيام الدهر، وإن صامه‏"‏‏. ‏ وبه قال ابن مسعود‏.‏ وقال سعيد بن المسيب والشعبي وابن جبير وإبراهيم وقتادة وحماد يقضي يوما مكانه
اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً یوں مروی ہے کہ اگر کسی نے رمضان میں کسی عذر اور مرض کے بغیر ایک دن کا بھی روزہ نہیں رکھا تو ساری عمر کے روزے بھی اس کا بدلہ نہ ہوں گے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا بھی یہی قول ہے اور سعید بن مسیب، شعبی اور ابن جبیر اور ابراہیم اور قتادہ اور حمام رحمہم اللہ نے بھی فرمایا کہ اس کے بدلہ میں ایک دن روزہ رکھنا چاہئے۔

حدیث نمبر : 1935
حدثنا عبد الله بن منير، سمع يزيد بن هارون، حدثنا يحيى ـ هو ابن سعيد ـ أن عبد الرحمن بن القاسم، أخبره عن محمد بن جعفر بن الزبير بن العوام بن خويلد، عن عباد بن عبد الله بن الزبير، أخبره أنه، سمع عائشة ـ رضى الله عنها ـ تقول إن رجلا أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال إنه احترق‏.‏ قال ‏"‏مالك‏"‏‏. ‏ قال أصبت أهلي في رمضان‏.‏ فأتي النبي صلى الله عليه وسلم بمكتل، يدعى العرق فقال ‏"‏أين المحترق‏"‏‏. ‏ قال أنا‏.‏ قال ‏"‏تصدق بهذا‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم نے یزید بن ہارون سے سنا، ان سے یحییٰ نے ( جو سعید کے صاحبزادے ہیں ) کہا، انہیں عبدالرحمن بن قاسم نے خبر دی، انہیں محمد بن جعفر بن زبیر بن عوام بن خویلد نے اور انہیں عباد بن عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، آپ نے کہا کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں دوزخ میں جل چکا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہوئی؟ اس نے کہا کہ رمضان میں میں نے ( روزے کی حالت میں ) اپنی بیوی سے ہم بستری کر لی، تھوڑی دیر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ( کھجور کا ) ایک تھیلہ جس کا نام عرق تھا، پیش کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوزخ میں جلنے والا شخص کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ حاضر ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لے تو اسے خیرات کردے۔

آگے یہی واقعہ تفصیل سے آرہا ہے جس میں آپ نے اس شخص کو بطور کفارہ پے در پے دو ماہ کے روزوں کا حکم فرمایا تھا یا پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جرم ایک سنگین جرم ہے، جس کا کفارہ یہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلا دیا اور سعید بن مسیب وغیرہ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ سزا مذکورہ کے علاوہ یہ روزہ بھی اسے مزید لازماً رکھنا ہوگا۔ امام اوزاعی نے کہا کہ اگر دو ماہ کے روزے رکھے تو قضا لازم نہیں۔
 
Top