• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : اگر کسی نے رمضان میں قصداً جماع کیا !


ولم يكن له شيء، فتصدق عليه فليكفر.
اور اس کے پاس کوئی چیز خیرات کے لیے بھی نہ ہو پھر اس کو کہیں سے خیرت مل جائے تو وہی کفارہ میں دے دے۔

حدیث نمبر : 1936
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني حميد بن عبد الرحمن، أن أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال بينما نحن جلوس عند النبي صلى الله عليه وسلم إذ جاءه رجل، فقال يا رسول الله هلكت‏.‏ قال ‏"‏ما لك‏"‏‏. ‏ قال وقعت على امرأتي وأنا صائم‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏هل تجد رقبة تعتقها‏"‏‏. ‏ قال لا‏.‏ قال ‏"‏فهل تستطيع أن تصوم شهرين متتابعين‏"‏‏. ‏ قال لا‏.‏ فقال ‏"‏فهل تجد إطعام ستين مسكينا‏"‏‏. ‏ قال لا‏.‏ قال فمكث النبي صلى الله عليه وسلم، فبينا نحن على ذلك أتي النبي صلى الله عليه وسلم بعرق فيها تمر ـ والعرق المكتل ـ قال ‏"‏أين السائل‏"‏‏. ‏ فقال أنا‏.‏ قال ‏"‏خذها فتصدق به‏"‏‏. ‏ فقال الرجل أعلى أفقر مني يا رسول الله فوالله ما بين لابتيها ـ يريد الحرتين ـ أهل بيت أفقر من أهل بيتي، فضحك النبي صلى الله عليه وسلم حتى بدت أنيابه ثم قال ‏"‏أطعمه أهلك‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے حمید بن عبدالرحمن نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تھے کہ ایک شخص نے حاضر ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ ! میں تو تباہ ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا بات ہوئی؟ اس نے کہا کہ میں نے روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کر لیا ہے، اس پر رسول اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا تمہارے پاس کوئی غلام ہے جسے تم آزاد کرسکو؟ اس نے کہا نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا پے درپے دو مہینے کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے عرض کی نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم کو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی طاقت ہے؟ اس نے اس کا جواب انکار میں دیا، راوی نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر گئے، ہم بھی اپنی اسی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بڑا تھیلا ( عرق نامی ) پیش کیا گیا جس میں کھجوریں تھیں۔ عرق تھیلے کو کہتے ہیں ( جسے کھجور کی چھال سے بناتے ہیں ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ سائل کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ میں حاضر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے اسے لے لو اور صدقہ کردو، اس شخص نے کہا یا رسول اللہ ! کیا میں اپنے سے زیادہ محتاج پر صدقہ کردوں، بخدا ان دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان کوئی بھی گھرانہ میرے گھر سے زیادہ محتاج نہیں ہے، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح ہنس پڑے کہ آپ کے آگے کے دانت دیکھے جاسکے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اچھا جا اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دے۔

تشریح : صورت مذکورہ میں بطور کفارہ پہلی صورت غلام آزاد کرنے کی رکھی گئی، دوسری صورت پے در پے دو مہینہ روزہ رکھنے کی، تیسری صورت ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی، اب بھی ایسی حالت میں یہ تینوں صورتیں قائم ہیں چونکہ شخص مذکور نے ہر صورت کی ادائیگی کے لیے اپنی مجبوری ظاہر کی آخر میں ایک صورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے نکالی تو اس پر بھی اس نے خود اپنی مسکینی کا اظہار کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی حالت زار پر رحم آیا اور اس رحم و کرم کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ فرمایا جو یہاں مذکو رہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اب بھی کوئی ایسی صورت سامنے آجائے تو یہ حکم باقی ہے۔ کچھ لوگوں نے اسے اس شخص کے ساتھ خاص قرار دے کر اب اس کو منسوخ قرار دیا ہے مگر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان اس باب سے ظاہر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : رمضان میں اپنی بیوی کے ساتھ قصداً ہم بستر ہونے والا شخص کیا کرے؟

هل يطعم أهله من الكفارة إذا كانوا محاويج.
اور کیا اس کے گھر والے محتاج ہوں تو وہ ان ہی کو کفارہ کا کھانا کھلا سکتا ہے؟

حدیث نمبر : 1937
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا جرير، عن منصور، عن الزهري، عن حميد بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال إن الأخر وقع على امرأته في رمضان‏.‏ فقال ‏"‏أتجد ما تحرر رقبة‏"‏‏. ‏ قال لا‏.‏ قال ‏"‏فتستطيع أن تصوم شهرين متتابعين‏"‏‏. ‏ قال لا‏.‏ قال ‏"‏أفتجد ما تطعم به ستين مسكينا‏"‏‏. ‏ قال لا‏.‏ قال فأتي النبي صلى الله عليه وسلم بعرق فيه تمر ـ وهو الزبيل ـ قال ‏"‏أطعم هذا عنك‏"‏‏. ‏ قال على أحوج منا ما بين لابتيها أهل بيت أحوج منا‏.‏ قال ‏"‏فأطعمه أهلك‏"‏‏. ‏
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے زہری نے، ان سے حمید بن عبدالرحمن نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یہ بدنصیب رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ ایک غلام آزاد کرسکو؟ اس نے کہا کہ نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دریافت فرمایا کیا تم پے در پے دو مہینے کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے اندر اتنی طاقت ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکو؟ اب بھی اس کا جواب نفی میں تھا۔ راوی نے بیان کیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک تھیلا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں ” عرق زنبیل کو کہتے ہیں “ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے لے جا اور اپنی طرف سے ( محتاجوں کو ) کھلادے، اس شخص نے کہا میں اپنے سے بھی زیادہ محتاج کو حالانکہ دو میدانوں کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ محتاج نہیں آپ نے فرمایا کہ پھر جا اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دے۔

تشریح : اس سے بعض نے یہ نکالا کہ مفلس پر سے کفارہ ساقط ہو جاتا ہے اور جمہور کے نزدیک مفلسی کی وجہ سے کفارہ ساقط نہیں ہوتا، اب رہا اپنے گھر والوں کو کھلانا تو زہری نے کہا یہ اس مرد کے ساتھ خاص تھا بعض نے کہا یہ حدیث منسوخ ہے اب اس میں اختلاف ہے کہ جس روزے کا کفارہ دے اس کی قضا بھی لازم ہے یا نہیں۔ شافعی اور اکثر علماءکے نزدیک قضاءلازم نہیں اور اوزاعی نے کہا اگر کفارہ میں دو مہینے کے روزے رکھے تب قضا لازم نہیں۔ دوسرا کوئی کفارہ دے تو قضا لازم ہے اور حنفیہ کے نزدیک ہر حال میں قضا اور کفارہ دونوں لازم ہیں۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : روزہ دار کا پچھنا لگوانا اور قے کرنا کیسا ہے

وقال لي يحيى بن صالح حدثنا معاوية بن سلام، حدثنا يحيى، عن عمر بن الحكم بن ثوبان، سمع أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ إذا قاء فلا يفطر، إنما يخرج ولا يولج‏.‏ ويذكر عن أبي هريرة أنه يفطر‏.‏ والأول أصح‏.‏ وقال ابن عباس وعكرمة الصوم مما دخل، وليس مما خرج‏.‏ وكان ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يحتجم، وهو صائم، ثم تركه، فكان يحتجم بالليل‏.‏ واحتجم أبو موسى ليلا‏.‏ ويذكر عن سعد وزيد بن أرقم وأم سلمة احتجموا صياما‏.‏ وقال بكير عن أم علقمة كنا نحتجم عند عائشة فلا تنهى‏.‏ ويروى عن الحسن عن غير واحد مرفوعا فقال أفطر الحاجم والمحجوم‏.‏ وقال لي عياش حدثنا عبد الأعلى حدثنا يونس عن الحسن مثله‏.‏ قيل له عن النبي صلى الله عليه وسلم قال نعم‏.‏ ثم قال الله أعلم‏.‏
اور مجھ سے یحییٰ بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے معاویہ بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے عمر بن حکم بن ثوبان نے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سنا کہ جب کوئی قے کرے تو روزہ نہیں ٹوٹتا کیوں کہ اس سے تو چیز باہر آتی ہے اند رنہیں جاتی اور ابوہریر رضی اللہ عنہ سے یہ بھی منقول ہے کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے لیکن پہلی روایت زیادہ صحیح ہے اور ابن عباس اور عکرمہ رضی اللہ عنہما نے کہاکہ روزہ ٹوٹتا ہے ان چیزوں سے جو اندر جاتی ہیں ان سے نہیں جو باہر آتی ہیں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہمابھی روزہ کی حالت میں پچھنا لگواتے لیکن بعد میں دن کو اسے ترک کردیا تھا اور رات میں پچھنا لگوانے لگے تھے اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بھی پچھنا لگوایا تھا اور سعد بن ابی وقاص اور زید بن ارقم اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ انہوں نے روزہ کی حالت میں پچھنا لگوایا، بکیر نے ام علقمہ سے کہا کہ ہم عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ( روزہ کی حالت میں ) پچھنا لگوایا کرتے تھے اور آپ ہمیں روکتی نہیں تھیں، او رحسن بصری رحمہ اللہ علیہ کئی صحابہ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پچھنا لگانے والے اور لگوانے والے ( دونوں کا ) روزہ ٹوٹ گیا اور مجھ سے عیاش بن ولید نے بیان کیا او ران سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، ان سے یونس نے بیان کیا اور ان سے حسن بصری نے ایسی ہی روایت کی، جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے تو انہوں نے کہا کہ ہاں پھر کہنے لگے اللہ بہتر جانتا ہے۔

تشریح : اس کلام سے اس حدیث کا ضعف نکلتا ہے گو متعدد صحابہ سے مروی ہے مگر ہر توثیق میں کلام ہے امام احمد نے کہا کہ ثوبان اور شداد سے یہ حدیث صحیح ہوئی اور ابن خزیمہ نے بھی ایسا ہی کہا اور ابن معین کا یہ کہنا کہ اس باب میں کچھ ثابت نہیں یہ ہٹ دھرمی ہے اور امام بخاری اس کے بعد عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث لائے اور یہ اشارہ کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث از روئے سند قوی ہے۔ ( وحیدی ) قے اور پچھنا لگانا ان ہر دو مسئلوں میں سلف کا اختلا ف ہے جمہور کا قول یہ ہے کہ اگر قے خود بخود ہو جائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا اور جو عمداً قے کرے ٹوٹ جاتا ہے اور پچھنا لگانے میں بھی جمہور کا قول یہ ہے کہ اس سے روزہ نہیں جاتا اب اسی پر فتوی ہے جس حدیث میں روزہ ٹوٹنے کا ذکر ہے وہ منسوخ ہے جیسا کہ دوسری جگہ یہ بحث آرہی ہے۔

حدیث نمبر : 1938
حدثنا معلى بن أسد، حدثنا وهيب، عن أيوب، عن عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم احتجم، وهو محرم واحتجم وهو صائم‏.‏
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، ان سے وہیب نے، وہ ایوب سے، وہ عکرمہ سے، وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام میں اوروزے کی حالت میں پچھنا لگوایا۔

حدیث نمبر : 1939
حدثنا أبو معمر، حدثنا عبد الوارث، حدثنا أيوب، عن عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال احتجم النبي صلى الله عليه وسلم وهو صائم‏.‏
ہم سے ابومعمر عبداللہ بن عمری نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کی حالت میں پچھنا لگوایا۔

تشریح : قسطلانی فرماتے ہیں و ہو ناسخ الحدیث افطر الحاجم و المجحوم انہ جاءفی بعض طرقہ ان ذلک کان فی حجۃ الوداع الخ یعنی یہ حدیث جس میں پچھنا لگانے کا ذکر یہاں آیا ہے یہ دوسری حدیث جس میں ہے پچھنا لگوانے اور لگانے والے ہر دو کا روزہ ٹوٹ گیا کی ناسخ ہے۔ اس کا تعلق فتح مکہ سے ہے اور دوسری ناسخ حدیث کا تعلق حجۃ الوداع سے ہے جو فتح مکہ کے بعد ہوا لہٰذا امر ثابت اب یہی ہے جو یہاں مذکور ہوا کہ روزہ کی حالت میں پچھنا لگانا جائز ہے۔

حدیث نمبر : 1940
حدثنا آدم بن أبي إياس، حدثنا شعبة، قال سمعت ثابتا البناني، يسأل أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ أكنتم تكرهون الحجامة للصائم قال لا‏.‏ إلا من أجل الضعف‏.‏ وزاد شبابة حدثنا شعبة على عهد النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ثابت بنانی سے سنا، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا کہ کیا آپ لوگ روزہ کی حالت میں پچھنا لگوانے کو مکروہ سمجھا کرتے تھے؟ آپ نے جواب دیا کہ نہیں البتہ کمزوی کے خیال سے ( روزہ میں نہیں لگواتے تھے ) شبابہ نے یہ زیادتی کی ہے کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہ ( ایسا ہم ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ( کرتے تھے
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : سفر میں روزہ رکھنا اور افطار کرنا

حدیث نمبر : 1941
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن أبي إسحاق الشيباني، سمع ابن أبي أوفى ـ رضى الله عنه ـ قال كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر فقال لرجل ‏"‏انزل فاجدح لي‏"‏‏. ‏ قال يا رسول الله الشمس‏.‏ قال ‏"‏انزل فاجدح لي‏"‏‏. ‏ قال يا رسول الله الشمس‏.‏ قال ‏"‏انزل فاجدح لي‏"‏‏. ‏ فنزل، فجدح له، فشرب، ثم رمى بيده ها هنا، ثم قال ‏"‏إذا رأيتم الليل أقبل من ها هنا فقد أفطر الصائم‏"‏‏. ‏ تابعه جرير وأبو بكر بن عياش عن الشيباني عن ابن أبي أوفى قال كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق شیبانی نے، انہوں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے سنا کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے ( روزہ کی حالت میں ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاحب ( بلال رضی اللہ عنہ ) سے فرمایا کہ اتر کر میرے لیے ستو گھول لے، انہوں ے عرض کی یا رسول اللہ ! ابھی تو سورج باقی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ اتر کر ستو گھول لے، اب کی مرتبہ بھی انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ ! ابھی سورج باقی ہے لیکن آپ کا حکم اب بھی یہی تھا کہ اتر کر میرے لیے ستو گھول لے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف اشارہ کرکے فرمایا جب تم دیکھو کہ رات یہاں سے شروع ہو چکی ہے تو روزہ دار کو افطار کرلینا چاہئے۔ اس کی متابعت جریر اور ابوبکر بن عیاش نے شیبانی کے واسطہ سے کی ہے اور ان سے ابواوفی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھا۔

تشریح : حدیث اور باب میں مطابقت ظا ہر ہے، روزہ کھولتے وقت اس دعا کا پڑھنا سنت ہے اللہم لک صمت و علی رزقک افطرت یعنی یا اللہ ! میں نے یہ روزہ تیری رضا کے لیے رکھا تھا اور اب تیرے ہی رزق پر اسے کھولا ہے۔ اس کے بعد یہ کلما ت پڑھے ذہب الظما و ابتلت العروق و ثبت الاجر ان شاءاللہ یعنی اللہ کا شکر ہے کہ روزہ کھولنے سے پیاس دور ہو گئی اور رگیں سیراب ہو گئیں اور اللہ نے چاہا تو اس کے پاس اس کا ثواب عظیم لکھا گیا۔ حدیث للصائم فرحتان الخ یعنی روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں پر حضرت شاہ ولی اللہ مرحوم فرماتے ہیں کہ پہلی خوشی طبعی ہے اور رمضان کے روزہ افطار کرنے سے نفس کو جس چیز کی خواہش تھی وہ مل جاتی ہے اور دوسری روحانی فرحت ہے اس واسطے کہ روزہ کی وجہ سے روزہ دار حجاب جسمانی سے علیحدہ ہونے اور عالم بالا سے علم الیقین کا فیضان ہونے کے بعد تقدس کے آثار ظاہر ہونے کے قابل ہوجاتاہے، جس طرح نماز کے سبب سے تجلی کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں۔ ( حجۃ اللہ البالغہ )

حدیث نمبر : 1942
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن هشام، قال حدثني أبي، عن عائشة، أن حمزة بن عمرو الأسلمي، قال يا رسول الله إني أسرد الصوم‏.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا کہ مجھ سے میرے باپ عروہ نے بیان کیا، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ ! میں سفر میں لگاتار روزہ رکھتا ہوں۔

حدیث نمبر : 1943
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن حمزة بن عمرو الأسلمي قال للنبي صلى الله عليه وسلم أأصوم في السفر وكان كثير الصيام‏.‏ فقال ‏"‏إن شئت فصم، وإن شئت فأفطر‏"‏‏. ‏
( دوسری سند امام بخاری نے کہا کہ ) اور ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہیں امام مالک نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد نے اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عر ض کی میں سفر میں روزہ رکھوں؟ وہ روزے بکثرت رکھا کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر جی چاہے تو روزہ رکھ اور جی چاہے افطار کر۔

تشریح : اس مسئلہ میں سلف کا اختلاف ہے بعضوں نے کہا کہ سفر میں اگر روزہ رکھے گا تو اس سے فرض روزہ ادا نہ ہوگا پھر قضا کرنا چاہئے اور جمہور علماءجیسے امام مالک اور شافعی اور ابوحنیفہ رحمہم اللہ یہ کہتے ہیں کہ روزہ رکھنا سفر میں افضل ہے اگر طاقت ہو اور کوئی تکلیف نہ ہو اور ہمارے امام احمد بن حنبل اور اوزاعی اور اسحق اور اہل حدیث یہ کہتے ہیں کہ سفر میں روزہ نہ رکھنا افضل ہے بعض نے کہا دونوں برابر ہیں روزہ رکھے یا افطار کرے، بعض نے کہا جو زیادہ آسان ہو وہی افضل ہے۔ ( وحیدی ) حافظ ابن حجر نے اس امر کی تصریح فرمائی ہے کہ حمزہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے نفل روزہ کے بارے میں نہیں بلکہ رمضان شریف کے فرض روزوں ہی کے بارے میں دریافت کیا تھا فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی رخصۃ من اللہ فمن اخذ بہا فحسن و من احب ان یصوم فلا جناح علیہ ( فتح الباری ) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جواب دیا کہ یہ اللہ کی طرف سے رخصت ہے جو اسے قبول کرے پس وہ بہتر ہے اور جو روزہ رکھنا ہی پسند کرے اس پر کوئی گناہ نہیں۔ حضرت علامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ لفظ رخصت واجب ہی کے مقابلہ پر بولا جاتا ہے اس سے بھی زیادہ صراحت کے ساتھ ابوداؤد اور حاکم کی روایت میں موجود ہے کہ اس نے کہا تھا کہ میں سفر میں رہتا ہوں اور ماہ رمضان حالت سفر ہی میںمیرے سامنے آجاتا ہے اس سوال کے جواب میں ایسا فرمایا جو مذکور ہوا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : جب رمضان میں کچھ روزے رکھ کر کوئی سفر کرے

حدیث نمبر : 1944
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى مكة في رمضان فصام حتى بلغ الكديد أفطر، فأفطر الناس‏.‏ قال أبو عبد الله والكديد ماء بين عسفان وقديد‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے او رانہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( فتح مکہ کے موقع پر ) مکہ کی طرف رمضان میں چلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے تھے لیکن جب کدید پہنچے تو روزہ رکھنا چھوڑ دیا۔ ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ عسفان اور قدید کے درمیان کدید ایک تالاب ہے۔

تشریح : امام بخاری نے یہ باب لاکر اس روایت کا ضعف بیان کیا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب کسی شخص پر رمضان کا چاند حالت اقامت میں آجائے تو پھر وہ سفر میں افطار نہیں کرسکتا، جمہور علماءاس کے خلا ف ہیں وہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کا قول مطلق ہے فمن کان منکم مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر ( البقرۃ : 184 ) اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کدید میں پہنچ کر پھر روزہ نہیں رکھا حالانکہ آپ دسویں رمضان کو مدینہ سے روانہ ہوئے تھے اب اگرکوئی شخص اقامت میں روزہ کی نیت کرلے پھر دن کو کسی وقت سفر میں نکلے تو اس کو روزہ کھول ڈالنا درست ہے یا پورا کرنا چاہئے اس میں اختلاف ہے مگر ہمارے احمد بن حنبل اور اسحق بن راہویہ یہ روزہ افطار کرنے کو درست جانتے ہیں، اور مزنی نے اس کے لیے اس حدیث سے حجت لی حالانکہ اس حدیث میں اس کی کوئی حجت نہیں کیوں کہ کدید مدینہ سے کئی منزل پر ہے۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1945
حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا يحيى بن حمزة، عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر، أن إسماعيل بن عبيد الله، حدثه عن أم الدرداء، عن أبي الدرداء ـ رضى الله عنه ـ قال خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في بعض أسفاره في يوم حار حتى يضع الرجل يده على رأسه من شدة الحر، وما فينا صائم إلا ما كان من النبي صلى الله عليه وسلم وابن رواحة‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن حمزہ نے بیان کیا، ان سے ابوعبدالرحمن بن یزید بن جابر نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن عبید اللہ نے بیان کیا، اور ان سے ام درداءرضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ابودرداءرضی اللہ عنہ نے کہا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر کر رہے تھے۔ دن انتہائی گرم تھا۔ گرمی کا یہ عالم تھا کہ گرمی کی سختی سے لو گ اپنے سروں کو پکڑ لیتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی شخص روزہ سے نہیں تھا۔

معلوم ہوا کہ اگر شروع سفر رمضان میں کوئی مسافر روزہ بھی رکھ لے اور آگے چل کر اس کو تکلیف معلوم ہو تو وہ بلاتردد روزہ ترک کر سکتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا اس شخص کے لیے جس پر شدت گرمی کی وجہ سے سایہ کر دیا گیا تھا کہ

ليس من البر الصوم في السفر
سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں ہے۔

حدیث نمبر : 1946
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا محمد بن عبد الرحمن الأنصاري، قال سمعت محمد بن عمرو بن الحسن بن علي، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهم ـ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فرأى زحاما، ورجلا قد ظلل عليه، فقال ‏"‏ما هذا‏"‏‏. ‏ فقالوا صائم‏.‏ فقال ‏"‏ليس من البر الصوم في السفر‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم بن ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبدالرحمن انصاری نے بیان کیا، کہا کہ میں نے محمد بن عمرو بن حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر ( غزوہ فتح ) میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک شخص پر لوگوں نے سایہ کر رکھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ایک روزہ دار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سفر میں رو زہ رکھنا اچھا کام نہیں ہے۔

تشریح : اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل لی جو سفر میں افطار ضروری سمجھتے ہیں۔ مخالفین یہ کہتے ہیں کہ مراد اس سے وہی ہے جب سفر میں روزے سے تکلیف ہوتی ہو اس صورت میں تو بالاتفاق افطار افضل ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم ( سفر میں ) روزہ رکھتے یا نہ رکھتے وہ ایک دوسرے پر نکتہ چینی نہیں کیا کرتے تھے۔

حدیث نمبر : 1947
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن حميد الطويل، عن أنس بن مالك، قال كنا نسافر مع النبي صلى الله عليه وسلم فلم يعب الصائم على المفطر، ولا المفطر على الصائم‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے حمید طویل نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( رمضان میں ) سفر کیا کرتے تھے۔ ( سفر میں بہت سے روزے سے ہوتے اور بہت سے بے روزہ ہوتے ) لیکن روزے دار بے روزہ دار پر اور بے روزہ دار روزے دار پر کسی قسم کی عیب جوئی نہیں کیا کرتے تھے۔

باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے اور یہ بھی کہ سفر میں کوئی روزہ نہ رکھے تو رکھنے والوں کو اجازت نہیں ہے کہ وہ اس پر زبان طعن دراز کریں۔ وہ شرعی رخصت پر عمل کر رہا ہے کسی کو یہ حق نہیں وہ اسے شرعی رخصت سے روک سکے اور ہر شرعی رخصت کے لیے یہ بطور اصول کے ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : سفر میں لوگوں کو دکھا کر روزہ افطا کر ڈالنا

حدیث نمبر : 1948
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا أبو عوانة، عن منصور، عن مجاهد، عن طاوس، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم من المدينة إلى مكة، فصام حتى بلغ عسفان، ثم دعا بماء فرفعه إلى يديه ليريه الناس فأفطر، حتى قدم مكة، وذلك في رمضان فكان ابن عباس يقول قد صام رسول الله صلى الله عليه وسلم وأفطر، فمن شاء صام، ومن شاء أفطر‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہو ںنے کہا ہم سے ابوعوانہ نے، ان سے منصور نے، ان سے مجاہد نے، ان سے طاؤس نے او ران سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( غزوہ فتح میں ) مدینہ سے مکہ کے لیے سفر شروع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے تھے، جب آپ عسفان پہنچے تو پانی منگوایا اور اسے اپنے ہاتھ سے ( منہ تک ) اٹھایا تاکہ لوگ دیکھ لیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ چھوڑ دیا یہاں تک کہ مکہ پہنچے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( سفر میں ) روزہ رکھا بھی او رنہیں بھی رکھا اس لیے جس کا جی چاہے روزہ رکھے او رجس کا جی چاہے نہ رکھے۔

یہ اصحاب فتویٰ و قیاد ت کے لیے ہے ان کا عمل دیکھ کر لوگوں کو مسئلہ معلوم ہو جائے اور پھر وہ بھی اس کے مطابق عمل کریں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے دکھلایا۔ سفر میں روزہ رکھنا نہ رکھنا یہ خود مسافر کے اپنے حالات پر موقوف ہے۔ شارع علیہ السلام نے ہر دو عمل کے لیے اسے مختار بنایا ہے، طاؤس بن کیسان فارسی الاصل خولانی ہمدانی یمانی ہیں۔ ایک جماعت سے روایت کرتے ہیں۔ ان سے زہری جیسے اجلہ روایت کرتے ہیں۔ علم و عمل میں بہت اونچے تھے، مکہ شریف میں 105ھ میں وفات پائی۔ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : سورۃ بقرہ کی اس آیت کا بیان وعلی الذین یطیقونہ الایۃ

قال ابن عمر وسلمة بن الأكوع نسختها ‏{‏شهر رمضان الذي أنزل فيه القرآن هدى للناس وبينات من الهدى والفرقان فمن شهد منكم الشهر فليصمه ومن كان مريضا أو على سفر فعدة من أيام أخر، يريد الله بكم اليسر ولا يريد بكم العسر ولتكملوا العدة ولتكبروا الله على ما هداكم ولعلكم تشكرون‏} وقال ابن نمير حدثنا الأعمش، حدثنا عمرو بن مرة، حدثنا ابن أبي ليلى، حدثنا أصحاب، محمد صلى الله عليه وسلم نزل رمضان فشق عليهم، فكان من أطعم كل يوم مسكينا ترك الصوم ممن يطيقه، ورخص لهم في ذلك فنسختها ‏{‏وأن تصوموا خير لكم ‏}‏ فأمروا بالصوم‏
ابن عمر اور سلمہ بن اکوع نے کہا کہ اس آیت کو اس کے بعد والی آیت نے منسوخ کر دیا جو یہ ہے ” رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا لوگوں کے لیے ہدایت بن کر اور راہ یابی اور حق کو باطل سے جدا کرنے کے روشن دلائل کے ساتھ، پس جو شخص بھی تم میں سے اس مہینہ کو پائے وہ اس کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا مسافر تو اس کو چھوٹے ہوئے روزوں کی گنتی بعد میں پوری کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے دشواری نہیں چاہتا اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ تعالیٰ کی اس بات پر بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور تاکہ تم احسان مانو، ابن نمیر نے کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، ان سے ابن ابی لیلیٰ نے بیان کیا او ران سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ رمضان میں ( جب روزے کا حکم ) نازل ہوا تو بہت سے لوگوں پر بڑا دشوار گزرا، چنانچہ بہت سے لوگ جو روزانہ ایک مسکین کو کھانا کھلاسکتے تھے انہوں نے روزے چھوڑ دیئے حالانکہ ان میں روزے رکھنے کی طاقت تھی، بات یہ تھی کہ انہیں اس کی اجازت بھی دے دی گئی تھی کہ اگر وہ چاہیں تو ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں۔ پھر اس اجازت کو دوسری آیت و ان تصوموا الخ یعنی ” تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ تم روزے رکھو “ نے منسوخ کر دیا اور اس طرح لوگوں کو روزے رکھنے کا حکم ہو گیا۔

حدیث نمبر : 1949
حدثنا عياش: حدثنا عبد الأعلى: حدثنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما: قرأ: {فدية طعام مسكين}. قال: هي منسوخة.
ہم سے عیاش نے بیان کیا، ان سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ( آیت مذکور بالا ) ﴿ فدیۃ طعام مسکین﴾ پڑھی اور فرمایا یہ منسوخ ہے۔

تشریح : پورا ترجمہ آیت کا یوں ہے ”اور جو لوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہیں، لیکن روزہ رکھنا نہیں چاہتے وہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں، پھر جو شخص خوشی سے زیادہ آدمیوں کو کھلائے تو اس کے لیے بہتر ہے اور اگر تم روزہ رکھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم سمجھو۔ مضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اترا جو لوگوں کو دین کی سچی راہ سمجھاتا ہے اور اس میں کھلی کھلی ہدایت کی باتیں اور صحیح کو غلط سے جدا کرنے کی دلیلیں موجود ہیں، پھر اے مسلمانو ! تم میں سے جو کوئی رمضان کا مہینہ پائے وہ روزہ رکھے اور جو بیمار یا مسافر ہو وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرے، اللہ تمہارے ساتھ آسانی کرنا چاہتا ہے اور تم پر سختی کرنا نہیں چاہتا اور اس حکم کی غرض یہ ہے کہ تم گنتی پوری کر لو اور اللہ نے جو تم کو دین سچی راہ بتلائی اس کے شکریہ میں اس کی بڑائی کرو اور اس لیے کہ تم اس کا احسان مانو“ شروع اسلام میں و علی الذین یطیقونہ ( البقرہ : 184 ) اترا تھا اور مقدور والے لوگوں کو اختیار تھا وہ روزہ رکھیں خواہ فدیہ دیں پھر یہ حکم منسوخ ہو گیا اور صحیح جسم والے مقیم پر روزہ رکھنا فمن شہد منکم الشہر ( البقرۃ : 185 ) سے واجب ہو گیا۔ ( وحیدی ) بعض نے کہا وعلی الذین یطیقونہ کے معنی یہ ہیں جو لوگ روزہ کی طاقت نہیں رکھتے گو مقیم اور تندرست ہیں مثلاً ضعیف بوڑھے لوگ تو وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں اس صورت میں یہ آیت منسوخ نہ ہوگی اور تفصیل اس مسئلہ کی تفسیروں میں ہے۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : رمضان کے قضا روزے کب رکھے جائیں۔

وقال ابن عباس لا بأس أن يفرق لقول الله تعالى ‏{‏فعدة من أيام أخر‏}‏ وقال سعيد بن المسيب في صوم العشر لا يصلح حتى يبدأ برمضان‏.‏ وقال إبراهيم إذا فرط حتى جاء رمضان آخر يصومهما، ولم ير عليه طعاما‏.‏ ويذكر عن أبي هريرة مرسلا، وابن عباس أنه يطعم‏.‏ ولم يذكر الله الإطعام إنما قال ‏{‏فعدة من أيام أخر‏}‏
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ان کو متفرق دنوں میں رکھنے میں کوئی حرج نہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم صرف یہ ہے کہ ” گنتی پوری کر لو دوسرے دنوں میں۔ “ اور سعید بن مسیب نے کہا کہ ( ذی الحجہ کے ) دس روزے اس شخص کے لیے جس پر رمضان کے روزے واجب ہوں ( او ران کی قضا ابھی تک نہ کی ہو ) رکھنے بہتر نہیں ہیں بلکہ رمضان کی قضا پہلے کرنی چاہئے او رابراہیم نخعی نے کہا کہ اگر کسی نے کوتاہی کی ( رمضان کی قضا میں ) اور دوسرا رمضان بھی آگیا تو دونوں کے روزے رکھے اور اس پر فدیہ واجب نہیں۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت مرسلاً ہے او رابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ وہ ( مسکینوں ) کو کھانا بھی کھلائے۔ اللہ تعالیٰ نے کھانا کھلانے کا ( قرآن میں ) ذکر نہیں کیا بلکہ اتنا ہی فرمایا کہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کی جائے۔

حدیث نمبر : 1950
حدثنا أحمد بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا يحيى، عن أبي سلمة، قال سمعت عائشة ـ رضى الله عنها ـ تقول كان يكون على الصوم من رمضان، فما أستطيع أن أقضي إلا في شعبان‏.‏ قال يحيى الشغل من النبي أو بالنبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا وہ فرماتیں کہ رمضان کا روزہ مجھ سے چھوٹ جاتا۔ شعبان سے پہلے اس کی قضا کی توفیق نہ ہوتی۔ یحییٰ نے کہا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشغول رہنے کی وجہ سے تھا۔

تشریح : یہاں جو قول ابراہیم نخعی کا اوپر مذکور ہوا ہے اس کو سعید بن منصور نے وصل کیا مگر جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین سے یہ مروی ہے کہ اگر کسی نے رمضان کی قضا نہ رکھی یہاں تک کہ دوسرا رمضان آگیا تو وہ قضا بھی رکھے اور ہر روزے کے بدلے فدیہ بھی دے۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے جمہور کے خلاف ابراہیم نخعی کے قول پر عمل کیا اور فدیہ دینا ضروری نہیں رکھا، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک شاذ روایت یہ بھی ہے کہ اگر رمضان کی قضا نہ رکھے اور دوسرا رمضان آن پہنچا تو دوسرے رمضان کے روزے رکھے اور پہلے رمضان کے ہر روزے کے بدل فدیہ دے اور روزہ رکھنا ضروری نہیں، اس کو عبدالرزاق اور ابن منذر نے نکالا۔ یحییٰ بن سعید نے کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس کے خلاف مروی ہے اور قتادہ سے یہ منقول ہے کہ جس نے رمضان کی قضا میں افطار کر ڈالا تو وہ ایک روزہ کے بدل دو روزے رکھے۔ اب جمہور علماءکے نزدیک رمضان کی قضا پے در پے رکھنا ضروری نہیں الگ الگ بھی رکھ سکتا ہے، یعنی متفرق طور سے اور ابن منذر نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا کہ پے در پے رکھنا واجب ہے، بعض اہل ظاہر کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ آیت اتری تھی فعدۃ من ایام اخر متتابعات ابن ابی کعب کی بھی قرات یوں ہی ہے۔ ( وحیدی ) مگر اب قرات مشہورہ میں یہ لفظ نہیں ہیں اور اب اسی قرات کو ترجیح حاصل ہے۔
 
Top