Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : اگر کسی نے رمضان میں قصداً جماع کیا !
ولم يكن له شيء، فتصدق عليه فليكفر.
اور اس کے پاس کوئی چیز خیرات کے لیے بھی نہ ہو پھر اس کو کہیں سے خیرت مل جائے تو وہی کفارہ میں دے دے۔
حدیث نمبر : 1936
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني حميد بن عبد الرحمن، أن أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال بينما نحن جلوس عند النبي صلى الله عليه وسلم إذ جاءه رجل، فقال يا رسول الله هلكت. قال "ما لك". قال وقعت على امرأتي وأنا صائم. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم "هل تجد رقبة تعتقها". قال لا. قال "فهل تستطيع أن تصوم شهرين متتابعين". قال لا. فقال "فهل تجد إطعام ستين مسكينا". قال لا. قال فمكث النبي صلى الله عليه وسلم، فبينا نحن على ذلك أتي النبي صلى الله عليه وسلم بعرق فيها تمر ـ والعرق المكتل ـ قال "أين السائل". فقال أنا. قال "خذها فتصدق به". فقال الرجل أعلى أفقر مني يا رسول الله فوالله ما بين لابتيها ـ يريد الحرتين ـ أهل بيت أفقر من أهل بيتي، فضحك النبي صلى الله عليه وسلم حتى بدت أنيابه ثم قال "أطعمه أهلك".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے حمید بن عبدالرحمن نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تھے کہ ایک شخص نے حاضر ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ ! میں تو تباہ ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا بات ہوئی؟ اس نے کہا کہ میں نے روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کر لیا ہے، اس پر رسول اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا تمہارے پاس کوئی غلام ہے جسے تم آزاد کرسکو؟ اس نے کہا نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا پے درپے دو مہینے کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے عرض کی نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم کو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی طاقت ہے؟ اس نے اس کا جواب انکار میں دیا، راوی نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر گئے، ہم بھی اپنی اسی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بڑا تھیلا ( عرق نامی ) پیش کیا گیا جس میں کھجوریں تھیں۔ عرق تھیلے کو کہتے ہیں ( جسے کھجور کی چھال سے بناتے ہیں ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ سائل کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ میں حاضر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے اسے لے لو اور صدقہ کردو، اس شخص نے کہا یا رسول اللہ ! کیا میں اپنے سے زیادہ محتاج پر صدقہ کردوں، بخدا ان دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان کوئی بھی گھرانہ میرے گھر سے زیادہ محتاج نہیں ہے، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح ہنس پڑے کہ آپ کے آگے کے دانت دیکھے جاسکے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اچھا جا اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دے۔
تشریح : صورت مذکورہ میں بطور کفارہ پہلی صورت غلام آزاد کرنے کی رکھی گئی، دوسری صورت پے در پے دو مہینہ روزہ رکھنے کی، تیسری صورت ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی، اب بھی ایسی حالت میں یہ تینوں صورتیں قائم ہیں چونکہ شخص مذکور نے ہر صورت کی ادائیگی کے لیے اپنی مجبوری ظاہر کی آخر میں ایک صورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے نکالی تو اس پر بھی اس نے خود اپنی مسکینی کا اظہار کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی حالت زار پر رحم آیا اور اس رحم و کرم کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ فرمایا جو یہاں مذکو رہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اب بھی کوئی ایسی صورت سامنے آجائے تو یہ حکم باقی ہے۔ کچھ لوگوں نے اسے اس شخص کے ساتھ خاص قرار دے کر اب اس کو منسوخ قرار دیا ہے مگر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان اس باب سے ظاہر ہے۔
باب : اگر کسی نے رمضان میں قصداً جماع کیا !
ولم يكن له شيء، فتصدق عليه فليكفر.
اور اس کے پاس کوئی چیز خیرات کے لیے بھی نہ ہو پھر اس کو کہیں سے خیرت مل جائے تو وہی کفارہ میں دے دے۔
حدیث نمبر : 1936
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني حميد بن عبد الرحمن، أن أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال بينما نحن جلوس عند النبي صلى الله عليه وسلم إذ جاءه رجل، فقال يا رسول الله هلكت. قال "ما لك". قال وقعت على امرأتي وأنا صائم. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم "هل تجد رقبة تعتقها". قال لا. قال "فهل تستطيع أن تصوم شهرين متتابعين". قال لا. فقال "فهل تجد إطعام ستين مسكينا". قال لا. قال فمكث النبي صلى الله عليه وسلم، فبينا نحن على ذلك أتي النبي صلى الله عليه وسلم بعرق فيها تمر ـ والعرق المكتل ـ قال "أين السائل". فقال أنا. قال "خذها فتصدق به". فقال الرجل أعلى أفقر مني يا رسول الله فوالله ما بين لابتيها ـ يريد الحرتين ـ أهل بيت أفقر من أهل بيتي، فضحك النبي صلى الله عليه وسلم حتى بدت أنيابه ثم قال "أطعمه أهلك".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے حمید بن عبدالرحمن نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تھے کہ ایک شخص نے حاضر ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ ! میں تو تباہ ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا بات ہوئی؟ اس نے کہا کہ میں نے روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کر لیا ہے، اس پر رسول اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا تمہارے پاس کوئی غلام ہے جسے تم آزاد کرسکو؟ اس نے کہا نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا پے درپے دو مہینے کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے عرض کی نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم کو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی طاقت ہے؟ اس نے اس کا جواب انکار میں دیا، راوی نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر گئے، ہم بھی اپنی اسی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بڑا تھیلا ( عرق نامی ) پیش کیا گیا جس میں کھجوریں تھیں۔ عرق تھیلے کو کہتے ہیں ( جسے کھجور کی چھال سے بناتے ہیں ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ سائل کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ میں حاضر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے اسے لے لو اور صدقہ کردو، اس شخص نے کہا یا رسول اللہ ! کیا میں اپنے سے زیادہ محتاج پر صدقہ کردوں، بخدا ان دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان کوئی بھی گھرانہ میرے گھر سے زیادہ محتاج نہیں ہے، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح ہنس پڑے کہ آپ کے آگے کے دانت دیکھے جاسکے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اچھا جا اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دے۔
تشریح : صورت مذکورہ میں بطور کفارہ پہلی صورت غلام آزاد کرنے کی رکھی گئی، دوسری صورت پے در پے دو مہینہ روزہ رکھنے کی، تیسری صورت ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی، اب بھی ایسی حالت میں یہ تینوں صورتیں قائم ہیں چونکہ شخص مذکور نے ہر صورت کی ادائیگی کے لیے اپنی مجبوری ظاہر کی آخر میں ایک صورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے نکالی تو اس پر بھی اس نے خود اپنی مسکینی کا اظہار کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی حالت زار پر رحم آیا اور اس رحم و کرم کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ فرمایا جو یہاں مذکو رہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اب بھی کوئی ایسی صورت سامنے آجائے تو یہ حکم باقی ہے۔ کچھ لوگوں نے اسے اس شخص کے ساتھ خاص قرار دے کر اب اس کو منسوخ قرار دیا ہے مگر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان اس باب سے ظاہر ہے۔