• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : ( ہیم ) بیمار یا خارشی اونٹ خریدنا، ہیم ہائم کی جمعہ ہے ہائم اعتدال ( میانہ روی ) سے گزرنے والا

تشریح : یہاں یہ اعتراض ہوا ہے کہ ہیم ہائم کی جمع نہیں ہے بلکہ اہیم یا ہیما کی جمع ہے۔ مصابیح والے نے یوں جواب دیا ہے کہ ہیم ہائم کی جمع بھی ہو سکتی ہے۔ جیسے بازل کی جمع بزل آتی ہے۔ پھر ہا کا ضمہ بوجہ یا کے کسرہ سے بدل گیا۔ جیسے بیض میں جو ابیض کی جمع ہے۔ ہیام ایک بیماری ہے جو اونٹ کو ہوجاتی ہے۔ وہ پانی پیتا ہی چلا جاتا ہے مگر سیراب نہیں ہوتا اور اسی طرح مر جاتا ہے قرآن مجید میں فشٰربون شرب الہیم ( الواقعہ : 55 ) میں یہی بیان ہے کہ دوزخی، ایسے پیاسے اونٹ کی طرح جو سیراب ہی نہیں ہوگا کھولتا ہوا پانی پیتے جائیں گے مگر سیراب نہ ہوں گے بلکہ شدت پیاس میں اور اضافہ ہوگا۔ یہی لفظ ہیم یہاں حدیث میں مذکور ہوا۔ حدیث لاعدوی میں امراض کے بالذات متعدی ہونے کی نفی ہے۔ فافہم و تدبر صدق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔

حدیث نمبر : 2099
حدثنا علي، حدثنا سفيان، قال عمرو كان ها هنا رجل اسمه نواس، وكانت عنده إبل هيم، فذهب ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ فاشترى تلك الإبل من شريك له، فجاء إليه شريكه فقال بعنا تلك الإبل‏.‏ فقال ممن بعتها قال من شيخ، كذا وكذا‏.‏ فقال ويحك ذاك ـ والله ـ ابن عمر‏.‏ فجاءه فقال إن شريكي باعك إبلا هيما، ولم يعرفك‏.‏ قال فاستقها‏.‏ قال فلما ذهب يستاقها فقال دعها، رضينا بقضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم لا عدوى‏.‏ سمع سفيان عمرا‏.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ عمرو بن دینار نے کہا یہاں ( مکہ میں ) ایک شخص نواس نام کا تھا۔ اس کے پاس ایک بیمار اونٹ تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما گئے اور اس کے شریک سے وہی اونٹ خرید لائے۔ وہ شخص آیا تو اس کے ساجھی نے کہا کہ ہم نے تو وہ اونٹ بیچ دیا۔ اس نے پوچھا کہ کسے بیچا؟ شریک نے کہا کہ ایک شیخ کے ہاتھوں جو اس طرح کے تھے۔ اس نے کہا افسوس ! وہ تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ تھے۔ چنانچہ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے ساتھی نے آپ کو مریض اونٹ بیچ دیا ہے اور آپ سے اس نے اس کے مرض کی وضاحت بھی نہیں کی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ پھر اسے واپس لے جاؤ۔ بیان کیا کہ جب وہ اس کو لے جانے لگا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اچھا رہنے دو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پر راضی ہیں ( آپ نے فرمایا تھا کہ ) ” لاعدوی “ ( یعنی امراض چھوت والے نہیں ہوتے ) علی بن عبداللہ مدینی نے کہا کہ سفیان نے اس روایت کو عمرو سے سنا۔

تشریح : اس حدیث سے بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں مثلاً یہ کہ بیوپاریوں کا فرض ہے کہ خریداروں کو جانوروں کا حسن و قبح پورا پورا بتلا کر مول تول کریں۔ دھوکہ بازی ہرگز نہ کریں۔ اگر ایسا کیا گیا اور خریدار کو بعد میں معلوم ہو گیا تو معلوم ہونے پر وہ مختار ہے کہ اسے واپس کرکے اپنا روپیہ واپس لے لے۔ اور اس سودے کو فسخ کردے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی سوداگر بھول چوک سے ایسا مال بیچ دے تو اس کے لیے لازم ہے کہ بعد میں گاہک کے پاس جاکر معذرت خواہی کرے اور گاہک کی مرضی پر معاملہ کو چھوڑ دے۔ یہ بیوپاری کی شرافت نفس کی دلیل ہوگی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ گاہک در گزر سے کام لے۔ اور جو غلطی اس کے ساتھ کی گئی ہے حتی الامکان اسے معاف کردے اور طے شدہ معاملہ کو بحال رہنے دے کہ یہ فراخدلی اس کے لیے باعث برکت کثیر ہو سکتی ہے لاعدوی کی مزید تفصیل دوسرے مقام پر آئے گی۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : جب مسلمانوں میں آپس میں فساد نہ ہو یا ہو رہا تو ہتھیار بیچنا کیسا ہے؟

وكره عمران بن حصين بيعه في الفتنة‏.‏
اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے فتنہ کے زمانہ میں ہتھیار بیچنا مکروہ رکھا

حدیث نمبر : 2100
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن يحيى بن سعيد، عن ابن أفلح، عن أبي محمد، مولى أبي قتادة عن أبي قتادة ـ رضى الله عنه ـ قال خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام حنين، فأعطاه ـ يعني درعا ـ فبعت الدرع، فابتعت به مخرفا في بني سلمة، فإنه لأول مال تأثلته في الإسلام‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے کہا، ان سے یحییٰ بن سعید نے کہا، ان سے ابن افلح نے، ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے غلام ابومحمد نے اور ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہ ہم غزوہ حنین کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک زرہ بخشی دی اور میں نے اسے بیچ دیا۔ پھر میں نے اس کی قیمت سے قبیلہ بنی سلمہ میں ایک باغ خرید لیا۔ یہ پہلی جائیداد تھی جسے میں نے اسلام لانے کے بعد حاصل کیا۔

تشریح : اس حدیث سے ترجمہ باب کا ایک جز یعنی جب فساد نہ ہو اس وقت جنگی سامان بیچنا درست ہے، نکلتا ہے کیوں کہ زرہ بھی ہتھیار یعنی لڑائی کے سامان میں داخل ہیں۔ اب رہی یہ بات کہ فساد کے زمانہ میں ہتھیار بیچنا، تو یہ بعض نے مکروہ رکھا ہے جب ان لوگوں کے ہاتھ بیچے جو فتنہ میں ناحق پر ہوں۔ اس لیے کہ یہ اعانت ہے گناہ اور معصیت پر اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا و تعاونوا علی البر و التقوی ولا تعاونوا علی الاثم و العدوان ( المائدۃ : 2 ) اس جماعت کے ہاتھ جو حق پر ہو بیچنا مکروہ نہیں ہے۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : عطر بیچنے والے اور مشک بیچنے کا بیان

حدیث نمبر : 2101
حدثني موسى بن إسماعيل، حدثنا عبد الواحد، حدثنا أبو بردة بن عبد الله، قال سمعت أبا بردة بن أبي موسى، عن أبيه ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏مثل الجليس الصالح والجليس السوء كمثل صاحب المسك، وكير الحداد، لا يعدمك من صاحب المسك إما تشتريه، أو تجد ريحه، وكير الحداد يحرق بدنك أو ثوبك أو تجد منه ريحا خبيثة‏"‏‏. ‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوبردہ بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوبردہ بن ابی موسیٰ سے سنا اور ان سے ان کے والد موسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیک ساتھی اوربرے ساتھی کی مثال مشک بیچنے والے عطار اور لوہار کی سی ہے۔ مشک بیچنے والے کے پاس سے تم دو اچھائیوں میں سے ایک نہ ایک ضرور پا لو گے۔ یا تو مشک ہی خرید لو گے ورنہ کم از کم اس کی خوشبو تو ضرور ہی پاسکو گے۔ لیکن لوہار کی بھٹی یا تمہارے بدن اور کپڑے کو جھلسا دے گی ورنہ بدبو تو اس سے تم ضرورپالو گے۔

تشریح : حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے ذیل فرماتے ہیں و فی الحدیث النہی عن مجالسۃ من یتاذی بمجالستہ فی الدین و الدنیا و الترغیب فی مجالستہ من ینتفع بمجالسۃ فیہما و فیہ جواز بیع المسک و الحکم بطہارتہ لانہ صلی اللہ علیہ وسلم مدحہ و رغب فیہ ففیہ الرد علی من کرہہ الخ ( فتح الباری ) یعنی اس حدیث سے ایسی مجلس میں بیٹھنے کی برائی ثابت ہوتی ہے جس میں بیٹھنے سے دین اور دنیا ہر دو کا نقصان ہے اور اس حدیث میں نفع بخش مجالس میں بیٹھنے کی ترغیب بھی ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مشک کی تجارت جائز ہے اور یہ بھی کہ مشک پاک ہے۔ اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعریف کی۔ اور اس کے حصول کے لیے رغبت دلائی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ باب منعقد فرماکر ان لوگوں کی تردید کی ہے جو مشک کی تجارت کو جائز نہیں جانتے اور اس کی عدم طہارت کا خیال رکھتے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : پچھنا لگانے والے کا بیان

حدیث نمبر : 2102
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن حميد، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ قال حجم أبو طيبة رسول الله صلى الله عليه وسلم فأمر له بصاع من تمر، وأمر أهله أن يخففوا من خراجه‏.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے خبر دی، انہیں حمید نے، اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوطیبہ رضی اللہ عنہ نے رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پچھنا لگایا تو آپ نے ایک صاع کھجور ( بطور اجرت ) انہیں دینے کے لیے حکم فرمایا۔ اور ان کے مالک کو فرمایا کہ ان کے خراج میں کمی کردیں۔

یعنی جو روزانہ یا ماہواری اس سے لیا کرتے تھے۔ عرب میں مالک لوگ اپنے غلام کی محنت اور لیاقت کے لحاظ سے اس پر شرح مقرر کر دیا کرتے تھے کہ اتنا روز یا مہینے مہینے ہم کو دیا کرے اس کو خراج کہتے ہیں۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 2103
حدثنا مسدد، حدثنا خالد ـ هو ابن عبد الله ـ حدثنا خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال احتجم النبي صلى الله عليه وسلم وأعطى الذي حجمه، ولو كان حراما لم يعطه‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد نے جو عبداللہ کے بیٹے ہیں بیان کیا، ان سے خالد حذاءنے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا اور جس نے پچھنا لگایا اسے آپ نے اس کی اجرت بھی دی، اگر اس کی اجرت حرام ہوتی تو آپ اس کو ہرگز نہ دیتے۔

ثابت ہوا کہ بوقت ضرورت پچھنا لگوانا جائز ہے اور اس کی اجرت لینے والے اور دینے والے ہر دو کے لیے منع نہیں ہے۔ اصلاح خون کے لیے پچھنے لگوانے کا علاج بہت پرانا نسخہ ہے۔ عرب میں بھی یہی مروج تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع

باب : ان چیزوں کی سوداگری جن کا پہننا مردوں اور عورتوں کے لیے مکروہ ہے

حدیث نمبر : 2104
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا أبو بكر بن حفص، عن سالم بن عبد الله بن عمر، عن أبيه، قال أرسل النبي صلى الله عليه وسلم إلى عمر ـ رضى الله عنه ـ بحلة حرير ـ أو سيراء ـ فرآها عليه، فقال ‏"‏إني لم أرسل بها إليك لتلبسها، إنما يلبسها من لا خلاق له، إنما بعثت إليك لتستمتع بها‏"‏‏. ‏ يعني تبيعها‏.‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوبکر بن حفص نے بیان کیا، ان سے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ان کے باپ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسم نے عمر رضی اللہ عنہ کے یہاں ایک ریشمی جبہ بھیجا۔ پھر آپ نے دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے ( ایک دن ) پہنے ہوئے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اسے تمہارے پاس اس لیے نہیں بھیجا تھا کہ تم اسے پہن لو، اسے تو وہی لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ میں نے تو اس لیے بھیجا تھا کہ تم اس سے ( بیچ کر ) فائدہ اٹھاؤ۔

تشریح : بشرطیکہ دوسرا کوئی گو کافر ہی سہی اس سے فائدہ اٹھا سکے یعنی اس چیز کا بیچنا جس سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے درست نہیں ہے اور راجح قول یہی ہے۔ اب باب میں جو حدیت بیان کی اس میں ریشمی جوڑے کا ذکر ہے۔ وہ مردوں کے لیے مکروہ ہے۔ عورتوں کے لیے مکروہ نہیں ہے۔ اسماعیلی نے اس پر اعتراض کیا اورجواب یہ ہے کہ مردوں کے لیے جو چیز مکروہ ہے اس کے بیچنے کا جواز حدیث سے نکلتا ے تو عورتوں کے لیے جو مکروہ ہے اس کی بیع کا بھی جواز اس پر قیاس کرنے سے نکل آیا۔ یہ کہ ترجمہ باب میں کراہت سے عام مراد ہے تحریمی ہو یا تنزیہی اور ریشمی کپڑے گو عورتوں کے لیے حرام نہیں ہیں مگر تنزیہا ً مکروہ ہیں ( وحیدی ) خصوصاً ایسے کپڑے جو آج کل وجود میں آرہے ہیں جن میں عورت کاسارا جسم بالکل عریاں نظر آتا ہے ایسے ہی کپڑے پہننے والی عورتیں ہیںجو قیامت کے دن ننگی اٹھائی جائیں گی۔

حدیث نمبر : 2105
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن نافع، عن القاسم بن محمد، عن عائشة أم المؤمنين ـ رضى الله عنها ـ أنها أخبرته أنها اشترت نمرقة فيها تصاوير، فلما رآها رسول الله صلى الله عليه وسلم قام على الباب، فلم يدخله، فعرفت في وجهه الكراهية، فقلت يا رسول الله، أتوب إلى الله وإلى رسوله صلى الله عليه وسلم ماذا أذنبت فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ما بال هذه النمرقة‏"‏‏. ‏ قلت اشتريتها لك لتقعد عليها وتوسدها‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏إن أصحاب هذه الصور يوم القيامة يعذبون، فيقال لهم أحيوا ما خلقتم‏"‏‏. ‏ وقال ‏"‏إن البيت الذي فيه الصور لا تدخله الملائكة‏"‏‏.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے، انہیں قاسم بن محمد نے اور انہیں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ انہوں نے ایک گدا خریدا جس پر مورتیں تھیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر جوں ہی اس پر پڑی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دروازے پر ہی کھڑے ہو گئے اور اندر داخل نہیں ہوئے۔ ( عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ) میں نے آپ کے چہرہ¿ مبارک پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے تو عر ض کیا، یا رسول اللہ ! میں اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتی ہوں اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی مانگتی ہوں، فرمائیے مجھ سے کیا غلطی ہوئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ گدا کیسا ہے؟ میں نے کہا کہ میں نے یہ آپ ہی کے لیے خریدا ہے تاکہ آپ اس پر بیٹھیں اور اس سے ٹیک لگائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، لیکن اس طرح کی مورتیں بنانے والے لوگ قیامت کے دن عذاب کئے جائیں گے۔ اور ان سے کہا جائے گاکہ تم لوگوں نے جس چیزکو بنایا اسے زندہ کر دکھاؤ۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جن گھروں میں مورتیں ہوتی ہیں ( رحمت کے ) فرشتے ان میں داخل نہیں ہوتے۔

تشریح : اس حدیث سے صاف نکلتا ہے کہ جاندار کی مورت بنانا مطلقاً حرام ہے، نقشی ہو یا مجسم۔ اس لیے کہ تکئے پر نقشی صورتیں بنی ہوئی تھیں۔ اور باب کا مطلب اس حدیث سے اس طرح نکلتا ہے کہ باوجود یکہ آپ نے مورت دار کپڑا عورت مرد دونوں کے لیے مکروہ رکھا مگر اس کا خریدنا جائز سمجھا۔ اس لیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ حکم نہیں دیا کہ بیع کو فسخ کریں۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : سامان کے مالک کو قیمت کہنے کا زیادہ حق ہے

حدیث نمبر : 2106
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عبد الوارث، عن أبي التياح، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏يا بني النجار ثامنوني بحائطكم‏"‏‏. ‏ وفيه خرب ونخل‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے، ان سے ابوالتیاح نے، اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے بنو نجار ! اپنے باغ کی قیمت مقرر کردو۔ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ کو مسجد کے لیے خریدنا چاہتے تھے ) اس باغ میں کچھ حصہ تو ویرانہ اور کچھ حصے میں کھجور کے درخت تھے۔

یعنی مال کی قیمت پہلے وہی بیان کرے، پھر خریدار جو چاہے کہے، اس کا مطلب نہیں کہ ایسا کرنا واجب ہے، کیوں کہ اوپر جابر کی حدیث میں گزرا ہے۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : کب تک بیع توڑنے کا اختیار رہتا ہے اس کا بیان

تشریح : بیع میں کئی طرح کے خیار ہوتے ہیں ایک خیار المجلس یعنی جب تک بائع اور مشتری اسی جگہ رہیں، جہاں سودا ہوا تو دونوں کو بیع کے فسخ کر ڈالنے کا اختیار رہتا ہے۔ دوسرے خیار الشرط یعنی مشتری تین دن کی شرط کر لے یا اس سے کم کی۔ تیسرے خیار الرویۃ یعنی مشتری نے بن دیکھے ایک چیز خرید لی ہو تو دیکھنے پر اس کو اختیار ہوتا ہے چاہے بیع قائم رکھے چاہے فسخ کرڈالے۔ اس کے سوا اور بھی خیار ہیں جن کو قسطلانی نے بیان کیا ہے۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 2107
حدثنا صدقة، أخبرنا عبد الوهاب، قال سمعت يحيى، قال سمعت نافعا، عن ابن عمر، رضى الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏إن المتبايعين بالخيار في بيعهما، ما لم يتفرقا، أو يكون البيع خيارا‏"‏‏. ‏ قال نافع وكان ابن عمر إذا اشترى شيئا يعجبه فارق صاحبه‏.‏
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبدالوہاب نے خبر دی، کہا کہ میں نے یحییٰ بن سعید سے سنا، کہا کہ میں نے نافع سے سنا اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، خرید و فروخت کرنے والوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں اختیار ہوتا ہے، یا خود بیع میں اختیار کی شرط ہو۔ ( تو شرط کے مطابق اختیار ہوتا ہے ) نافع نے کہا کہ جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کوئی ایسی چیز خریدتے جو انہیں پسند ہوتی تو اپنے معاملہ دار سے جدا ہوجاتے۔

یعنی وہاں سے جلد چل دیتے تاکہ فسخ بیع کا احتیار نہ رہے، اس سے صاف نکلتا ہے کہ جدا ہونے سے حدیث میں دونوں کا جدا ہونا مراد ہے۔

حدیث نمبر : 2108
حدثنا حفص بن عمر، حدثنا همام، عن قتادة، عن أبي الخليل، عن عبد الله بن الحارث، عن حكيم بن حزام ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏البيعان بالخيار ما لم يفترقا‏"‏‏. وزاد أحمد: حدثنا بهز قال: قال همام: فذكرت ذلك لأبي التياح فقال: كنت مع أبي الخليل لما حدثه عبد الله بن الحارث بهذا الحديث.‏
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے ابولخلیل نے، ان سے عبداللہ بن حارث نے اور ان سے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، بیچنے اور خریدنے والوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں ( معاملہ کو باقی رکھنے یا توڑ دینے کا ) اختیار ہوتا ہے۔ احمد نے یہ زیادتی کی کہ ہم سے بہز نے بیان کیا کہ ہمام نے بیان کیا کہ میں نے اس کا ذکر ابوالتیاح کے سامنے کیا تو انہوں نے بتلایا کہ جب عبداللہ بن حارث نے یہ حدیث بیان کی تھی، تو میں بھی اس وقت ابوالخلیل کے ساتھ موجود تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : اگر بائع یا مشتری اختیار کی مدت معین نہ کرے تو بیع جائز ہو گی یا نہیں؟

تشریح : اس مسئلہ میں اختلاف ہے۔ شافعیہ اورحنفیہ کے نزدیک خیار الشرط کی مدت تین دن سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ اگر اس سے زائد مدت ٹھہرے یا کوئی مدت معین نہ ہو تو بیع باطل ہو جاتی ہے اور ہمارے امام احمد اور اسحا ق اور اہل حدیث کا مذہب یہ ہے کہ بیع جائز ہے اور جتنی مدت ٹھہرائے اتنی مدت تک اختیار رہے گا اور جو کوئی مدت معین نہ ہو تو ہمیشہ اختیار رہے گا اور اوزاعی اور ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ خیار الشرط باطل ہوگی اور بیع لازم ہوگی۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 2109
حدثنا أبو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا أيوب، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏البيعان بالخيار ما لم يتفرقا، أو يقول أحدهما لصاحبه اختر‏"‏‏. ‏ وربما قال أو يكون بيع خيار‏.‏
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، خریدنے والے اور بیچنے والے کو ( توڑ دینے کا ) اس وقت تک اختیار ہے جب تک وہ جدا نہ ہو جائیں۔ یا دونوں میں سے کوئی ایک اپنے دوسرے فریق سے یہ نہ کہہ دے کہ پسند کرلو۔ کبھی یہ بھی کہا کہ ” یا اختیار کی شرط کے ساتھ بیع ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : جب تک خریدنے اور بیچنے والے جدا نہ ہوں انہیں اختیار باقی رہتا ہے

وبه قال ابن عمر وشريح والشعبي وطاوس وعطاء وابن أبي مليكة‏.‏
( کہ بیع قائم رکھیں یا توڑ دیں ) اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما، شریح، شعبی، طاؤس، عطاءاور ابن ابی ملیکہ رحمہم اللہ سب نے یہی کہا ہے۔

تشریح : ان سب نے یہی کہا ہے کہ صر ف ایجاب و قبول یعنی عقد سے بیع لازم نہیں ہوجاتی اور جب تک بائع اور مشتری مجلس عقد سے جدا نہ ہوں دونوں کو اختیار رہتا ہے کہ بیع فسخ کرڈالیں۔ سعید بن مسیب، زہری، ابن ابی ذئب، حسن بصری، اوزاعی، ابن جریج، شافعی، مالک، احمد، اور اکثر علماءیہی کہتے ہیں۔ ابن حزم نے کہا کہ تابعین میں سے سوائے ابراہیم نخعی کے اور کوئی اس کا مخالف نہیں اور حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے صرف امام نخعی کا قول اختیار کرکے جمہور علماءکی مخالفت کی ہے۔

اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے نکالا جو اوپر نافع سے گزرا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما جب کوئی چیز ایسی خریدتے جو ان کو پسند ہوتی، تو بائع سے جدا ہوجاتے۔ ترمذی نے روایت کیا بیٹھے ہوتے تو کھڑے ہو جاتے یعنی ابن ابی شیبہ نے روایت کیا وہاں سے چل دیتے تاکہ بیع لازم ہو جائے۔ اور شریح کے قول کو سعید بن منصور نے اور شعبی کے قول کو ابن ابی شیبہ نے اور طاؤس کے قوال امام شافعی نے ام میں اور عطاءاور ابن ابی ملیکہ کے اقوال کو ابن ابی شیبہ نے وصل کیا ہے۔
علامہ شوکانی فرماتے ہیں : و من الادلۃ الدالۃ علی ارادۃ التفرق بالابدان قولہ فی حدیث ابن عمر المذکور ما لم یتفرقا و کانا جمیعا و کذلک قولہ و ان تفرقا بعدان تبایعا و لم یترک واحد منہما البیع فقد وجب فان فیہ البیان الواضح ان التفرق بالبدن قال الخطابی و علی ہذا وجدنا امر الناس فی عرف اللغۃ و ظاہر الکلام فاذا قیل تفرق الناس کان المفہوم منہ التمیز بالابدان قال و لو کان المراد تفرق الاقوال کما یقول اہل الرائی لخلا الحدیث من الفائدۃ و سقط معناہ الخ ( نیل الاوطار )

علامہ شوکانی مرحوم کی تقریر کا مطلب یہ ہے کہ ہر دو خریدنے و بیچنے والے کی جسمانی جدائی پر دلیل حدیث عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما میں یہ قول نبوی ہے : ”مالم یتفرقا و کان جمیعا“ یعنی ہر دو کو اس وقت تک اختیار باقی رہتا ہے کہ وہ دونوں جدا نہ ہوں بلکہ ہر دو اکٹھے رہیں۔ اس وقت تک ان کو سودے کے بارے میں پورا اختیار حاصل ہے اور اسی طرح دوسرا ارشاد نبوی اس مقصد پر دلیل ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ہر دو فریق بیع کے بعد جدا ہو جائیں۔ اور معاملہ بیع کو کسی نے فسخ نہ کیا ہو اور وہ جدا ہو گئے۔ پس بیع واجب ہو گئی، یہ دلائل واضح ہیں کہ جدائی سے جسمانی جدائی مرا دہے۔ خطابی نے کہا کہ لغوی طور پر بھی لوگوں کا معاملہ ہم نے اسی طرح پایا ہے اور ظاہر کلام میں جدائی سے لوگوں کی جسمانی جدائی ہی مراد ہوتی ہے۔ اگر اہل رائے کی طرح محض باتوں کی جدائی مراد ہو تو حدیث مذکور اپنے حقیقی فائدے سے خالی ہو جاتی ہے بلکہ حدیث کا کوئی معنی باقی ہی نہیں رہ سکتا۔ لہذا خلاصہ یہ کہ صحیح مسلک میں ہر دو طرف سے جسمانی جدائی ہی مراد ہے یہی مسلک جمہور کا ہے۔
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ جن سے حدیث باب مروی ہے جلیل القدر صحابی ہیں، کنیت ابوخالد قریشی اسدی ہے، یہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے ہیں۔ واقعہ فیل سے تیرہ سال قبل کعبہ میں پیدا ہوئے۔ یہ قریش کے سرداروں میں سے تھے۔ اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعدہر دو زمانوں میں بڑی عزت پائی۔ فتح مکہ میں اسلام لائے۔ ساٹھ سال جاہلیت میں گزارے۔ پھر ساٹھ ہی سال اسلام میں عمر پائی۔ 54ھ میں مدینہ المنورہ میں اپنے مکان ہی میں وفات پائی۔ بہت متقی، پرہیز گار اور سخی تھے۔ زمانہ جاہلیت میں سو غلام آزاد کئے اور سو اونٹ سواری کے لیے بخشے۔ فن حدیث میں ایک جماعت ان کی شاگر دہے۔

حدیث نمبر : 2110
حدثني إسحاق، أخبرنا حبان، حدثنا شعبة، قال قتادة أخبرني عن صالح أبي الخليل، عن عبد الله بن الحارث، قال سمعت حكيم بن حزام ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏البيعان بالخيار ما لم يتفرقا، فإن صدقا وبينا بورك لهما في بيعهما، وإن كذبا وكتما محقت بركة بيعهما‏"‏‏. ‏
مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو حبان بن ہلال نے خبر دی، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہ ان کو قتادہ نے خبر دی کہ مجھے صالح ابوالخلیل نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن حارث نے، کہا کہ میں نے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خریدنے اور بیچنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ الگ نہ ہو جائیں انھیںاختیار باقی رہتا ہے۔ اب اگر دونوں نے سچائی اختیار کی اور ہر بات صاف صاف بیان اور واضح کردی، تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ہوتی ہے۔ لیکن اگر انہوں نے کوئی بات چھپائی یا جھوٹ بولا تو ان کی خرید و فروخت میں سے برکت مٹا دی جاتی ہے۔

حدیث نمبر : 2111
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏المتبايعان كل واحد منهما بالخيار على صاحبه ما لم يتفرقا، إلا بيع الخيار‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، خریدنے اور بیچنے والے دونوں کو اس وقت تک اختیار ہوتا ہے، جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں۔ مگر بیع خیار میں۔

تشریح : یعنی جب بائع بیع کے بعد مشتری کو اختیار دے اور وہ کہے میں بیع کو نافذ کرتا ہوں اور وہ بیع اس سے الگ ہے جس میں اختیار کی شرط پہلے ہی لگا دی گئی ہو یعنی جہاں معاملہ ہوا ہے وہاں سے سرک نہ جائیں۔ اگر وہیں رہیں یا دونوں مل کر میلوں چلتے رہیں تو اختیار باقی رہے گا، گو تین دن سے زیادہ مدت گزر جائے، بیع الخیار کی تفسیر جو ہم نے یہاں کی ہے۔ امام نووی نے اسی مطلب کی ترجیح پر اتفاق ظاہر کیا ہے۔ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی پر یقین کیا ہے۔ بعضوں نے یہ معنی کئے ہیں مگر اس بیع میں جس میں اختیار کی شرط ہو، یعنی وہاں سے جدا ہونے سے اختیار باطل نہ ہوگا بلکہ مدت مقررہ تک اختیار رہے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : اگر بیع کے بعد دونوں نے ایک دوسرے کو پسند کرلینے کے لیے مختار بنایا تو بیع لازم ہوگئی

حدیث نمبر : 2112
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال ‏"‏إذا تبايع الرجلان فكل واحد منهما بالخيار، ما لم يتفرقا، وكانا جميعا، أو يخير أحدهما الآخر فتبايعا على ذلك، فقد وجب البيع، وإن تفرقا بعد أن يتبايعا، ولم يترك واحد منهما البيع، فقد وجب البيع‏"‏‏.
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب دو شخصوں نے خرید و فروخت کی تو جب تک وہ دونوں جدا نہ ہو جائیں، انہیں ( بیع کو توڑ دینے کا ) اختیار باقی رہتا ہے۔ یہ اس صورت میں کہ دونوں ایک ہی جگہ رہیں، لیکن اگر ایک نے دوسرے کو پسند کرنے کے لیے کہا اور اس شرط پر بیع ہوئی، اور دونوں نے بیع کا قطعی فیصلہ کر لیا، تو بیع اسی وقت منعقد ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر دونوں فریق بیع کے بعد ایک دوسرے سے جدا ہو گئے، اور بیع سے کسی فریق نے بھی انکار نہیں کیا، تو بھی بیع لازم ہو جاتی ہے۔
 
Top