Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : ( ہیم ) بیمار یا خارشی اونٹ خریدنا، ہیم ہائم کی جمعہ ہے ہائم اعتدال ( میانہ روی ) سے گزرنے والا
تشریح : یہاں یہ اعتراض ہوا ہے کہ ہیم ہائم کی جمع نہیں ہے بلکہ اہیم یا ہیما کی جمع ہے۔ مصابیح والے نے یوں جواب دیا ہے کہ ہیم ہائم کی جمع بھی ہو سکتی ہے۔ جیسے بازل کی جمع بزل آتی ہے۔ پھر ہا کا ضمہ بوجہ یا کے کسرہ سے بدل گیا۔ جیسے بیض میں جو ابیض کی جمع ہے۔ ہیام ایک بیماری ہے جو اونٹ کو ہوجاتی ہے۔ وہ پانی پیتا ہی چلا جاتا ہے مگر سیراب نہیں ہوتا اور اسی طرح مر جاتا ہے قرآن مجید میں فشٰربون شرب الہیم ( الواقعہ : 55 ) میں یہی بیان ہے کہ دوزخی، ایسے پیاسے اونٹ کی طرح جو سیراب ہی نہیں ہوگا کھولتا ہوا پانی پیتے جائیں گے مگر سیراب نہ ہوں گے بلکہ شدت پیاس میں اور اضافہ ہوگا۔ یہی لفظ ہیم یہاں حدیث میں مذکور ہوا۔ حدیث لاعدوی میں امراض کے بالذات متعدی ہونے کی نفی ہے۔ فافہم و تدبر صدق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
حدیث نمبر : 2099
حدثنا علي، حدثنا سفيان، قال عمرو كان ها هنا رجل اسمه نواس، وكانت عنده إبل هيم، فذهب ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ فاشترى تلك الإبل من شريك له، فجاء إليه شريكه فقال بعنا تلك الإبل. فقال ممن بعتها قال من شيخ، كذا وكذا. فقال ويحك ذاك ـ والله ـ ابن عمر. فجاءه فقال إن شريكي باعك إبلا هيما، ولم يعرفك. قال فاستقها. قال فلما ذهب يستاقها فقال دعها، رضينا بقضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم لا عدوى. سمع سفيان عمرا.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ عمرو بن دینار نے کہا یہاں ( مکہ میں ) ایک شخص نواس نام کا تھا۔ اس کے پاس ایک بیمار اونٹ تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما گئے اور اس کے شریک سے وہی اونٹ خرید لائے۔ وہ شخص آیا تو اس کے ساجھی نے کہا کہ ہم نے تو وہ اونٹ بیچ دیا۔ اس نے پوچھا کہ کسے بیچا؟ شریک نے کہا کہ ایک شیخ کے ہاتھوں جو اس طرح کے تھے۔ اس نے کہا افسوس ! وہ تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ تھے۔ چنانچہ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے ساتھی نے آپ کو مریض اونٹ بیچ دیا ہے اور آپ سے اس نے اس کے مرض کی وضاحت بھی نہیں کی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ پھر اسے واپس لے جاؤ۔ بیان کیا کہ جب وہ اس کو لے جانے لگا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اچھا رہنے دو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پر راضی ہیں ( آپ نے فرمایا تھا کہ ) ” لاعدوی “ ( یعنی امراض چھوت والے نہیں ہوتے ) علی بن عبداللہ مدینی نے کہا کہ سفیان نے اس روایت کو عمرو سے سنا۔
تشریح : اس حدیث سے بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں مثلاً یہ کہ بیوپاریوں کا فرض ہے کہ خریداروں کو جانوروں کا حسن و قبح پورا پورا بتلا کر مول تول کریں۔ دھوکہ بازی ہرگز نہ کریں۔ اگر ایسا کیا گیا اور خریدار کو بعد میں معلوم ہو گیا تو معلوم ہونے پر وہ مختار ہے کہ اسے واپس کرکے اپنا روپیہ واپس لے لے۔ اور اس سودے کو فسخ کردے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی سوداگر بھول چوک سے ایسا مال بیچ دے تو اس کے لیے لازم ہے کہ بعد میں گاہک کے پاس جاکر معذرت خواہی کرے اور گاہک کی مرضی پر معاملہ کو چھوڑ دے۔ یہ بیوپاری کی شرافت نفس کی دلیل ہوگی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ گاہک در گزر سے کام لے۔ اور جو غلطی اس کے ساتھ کی گئی ہے حتی الامکان اسے معاف کردے اور طے شدہ معاملہ کو بحال رہنے دے کہ یہ فراخدلی اس کے لیے باعث برکت کثیر ہو سکتی ہے لاعدوی کی مزید تفصیل دوسرے مقام پر آئے گی۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔
باب : ( ہیم ) بیمار یا خارشی اونٹ خریدنا، ہیم ہائم کی جمعہ ہے ہائم اعتدال ( میانہ روی ) سے گزرنے والا
تشریح : یہاں یہ اعتراض ہوا ہے کہ ہیم ہائم کی جمع نہیں ہے بلکہ اہیم یا ہیما کی جمع ہے۔ مصابیح والے نے یوں جواب دیا ہے کہ ہیم ہائم کی جمع بھی ہو سکتی ہے۔ جیسے بازل کی جمع بزل آتی ہے۔ پھر ہا کا ضمہ بوجہ یا کے کسرہ سے بدل گیا۔ جیسے بیض میں جو ابیض کی جمع ہے۔ ہیام ایک بیماری ہے جو اونٹ کو ہوجاتی ہے۔ وہ پانی پیتا ہی چلا جاتا ہے مگر سیراب نہیں ہوتا اور اسی طرح مر جاتا ہے قرآن مجید میں فشٰربون شرب الہیم ( الواقعہ : 55 ) میں یہی بیان ہے کہ دوزخی، ایسے پیاسے اونٹ کی طرح جو سیراب ہی نہیں ہوگا کھولتا ہوا پانی پیتے جائیں گے مگر سیراب نہ ہوں گے بلکہ شدت پیاس میں اور اضافہ ہوگا۔ یہی لفظ ہیم یہاں حدیث میں مذکور ہوا۔ حدیث لاعدوی میں امراض کے بالذات متعدی ہونے کی نفی ہے۔ فافہم و تدبر صدق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
حدیث نمبر : 2099
حدثنا علي، حدثنا سفيان، قال عمرو كان ها هنا رجل اسمه نواس، وكانت عنده إبل هيم، فذهب ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ فاشترى تلك الإبل من شريك له، فجاء إليه شريكه فقال بعنا تلك الإبل. فقال ممن بعتها قال من شيخ، كذا وكذا. فقال ويحك ذاك ـ والله ـ ابن عمر. فجاءه فقال إن شريكي باعك إبلا هيما، ولم يعرفك. قال فاستقها. قال فلما ذهب يستاقها فقال دعها، رضينا بقضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم لا عدوى. سمع سفيان عمرا.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ عمرو بن دینار نے کہا یہاں ( مکہ میں ) ایک شخص نواس نام کا تھا۔ اس کے پاس ایک بیمار اونٹ تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما گئے اور اس کے شریک سے وہی اونٹ خرید لائے۔ وہ شخص آیا تو اس کے ساجھی نے کہا کہ ہم نے تو وہ اونٹ بیچ دیا۔ اس نے پوچھا کہ کسے بیچا؟ شریک نے کہا کہ ایک شیخ کے ہاتھوں جو اس طرح کے تھے۔ اس نے کہا افسوس ! وہ تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ تھے۔ چنانچہ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے ساتھی نے آپ کو مریض اونٹ بیچ دیا ہے اور آپ سے اس نے اس کے مرض کی وضاحت بھی نہیں کی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ پھر اسے واپس لے جاؤ۔ بیان کیا کہ جب وہ اس کو لے جانے لگا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اچھا رہنے دو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پر راضی ہیں ( آپ نے فرمایا تھا کہ ) ” لاعدوی “ ( یعنی امراض چھوت والے نہیں ہوتے ) علی بن عبداللہ مدینی نے کہا کہ سفیان نے اس روایت کو عمرو سے سنا۔
تشریح : اس حدیث سے بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں مثلاً یہ کہ بیوپاریوں کا فرض ہے کہ خریداروں کو جانوروں کا حسن و قبح پورا پورا بتلا کر مول تول کریں۔ دھوکہ بازی ہرگز نہ کریں۔ اگر ایسا کیا گیا اور خریدار کو بعد میں معلوم ہو گیا تو معلوم ہونے پر وہ مختار ہے کہ اسے واپس کرکے اپنا روپیہ واپس لے لے۔ اور اس سودے کو فسخ کردے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی سوداگر بھول چوک سے ایسا مال بیچ دے تو اس کے لیے لازم ہے کہ بعد میں گاہک کے پاس جاکر معذرت خواہی کرے اور گاہک کی مرضی پر معاملہ کو چھوڑ دے۔ یہ بیوپاری کی شرافت نفس کی دلیل ہوگی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ گاہک در گزر سے کام لے۔ اور جو غلطی اس کے ساتھ کی گئی ہے حتی الامکان اسے معاف کردے اور طے شدہ معاملہ کو بحال رہنے دے کہ یہ فراخدلی اس کے لیے باعث برکت کثیر ہو سکتی ہے لاعدوی کی مزید تفصیل دوسرے مقام پر آئے گی۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔