• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : اگر بائع اپنے لیے اختیار کی شرط کر لے تو بھی بیع جائز ہے

یہ باب لا کر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان لوگوں کا رد کیا جو کہتے ہیں کہ خیار الشرط فقط مشتری ہی کو کرنا جائز ہے، بائع کو درست نہیں۔

حدیث نمبر : 2113
حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏كل بيعين لا بيع بينهما حتى يتفرقا، إلا بيع الخيار‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کسی بھی خریدنے اور بیچنے والے میں اس وقت تک بیع پختہ نہیں ہوتی جب تک وہ دونوں جدا نہ ہو جائیں۔ البتہ وہ بیع جس میں مشترکہ اختیار کی شرط لگا دی گئی ہو اس سے الگ ہے۔

حدیث نمبر : 2114
حدثني إسحاق، حدثنا حبان، حدثنا همام، حدثنا قتادة، عن أبي الخليل، عن عبد الله بن الحارث، عن حكيم بن حزام ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏البيعان بالخيار ما لم يتفرقا ‏"‏ـ قال همام وجدت في كتابي يختار ثلاث مرار ـ ‏"‏فإن صدقا وبينا بورك لهما في بيعهما، وإن كذبا وكتما فعسى أن يربحا ربحا، ويمحقا بركة بيعهما‏"‏‏. ‏قال: وحدثنا همام: حدثنا أبو التياح: أنه سمع عبد الله بن الحارث يحدث بهذا الحديث، عن حكيم بن حزام، عن النبي صلى الله عليه وسلم.
مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حبان نے بیان کیا، کہ ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے ابوخلیل نے، ان سے عبداللہ بن حارث نے اور ان سے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، بیچنے اور خریدنے والے کو جب تک وہ جدا نہ ہوں ( بیع توڑ دینے کا ) اختیار ہے۔ ہمام راوی نے کہا کہ میں نے اپنی کتاب میں لفظ یختار تین مرتبہ لکھا ہوا پایا۔ پس اگر دونوں نے سچائی اختیار کی اور بات صاف صاف واضح کردی تو انہیں ان کی بیع میں برکت ملتی ہے اور اگر انہوں نے جھوٹی باتیں بنائیں اور ( کسی عیب کو ) چھپایا تو تھوڑا سا نفع شاید وہ کما لیں، لیکن ان کی بیع میں برکت نہیں ہوگی۔ ( حبان نے ) کہا کہ ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے ابوالتیاح نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن حارث سے سنا کہ یہی حدیث وہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے بحوالہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روایت کرتے تھے۔

یعنی خریدنے والا تین دفعہ اپنی پسند کا اعلان کردے تو بیع لازم ہو جاتی ہے اوپر کی روایت میں جو ہمام نے اپنی یاد سے کی ہے یوں ہے ’البیعان بالخیار“ لیکن ہمام کہتے ہیں میں نے اپنی کتاب میں جو اس حدیث کو دیکھا تو یختار کا لفظ تین بار لکھا ہوا پایا۔ بعض نسخوں میں یختار کے بدل یخیار ہے۔ )
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب :۔۔۔

إذا اشترى شيئا فوهب من ساعته قبل أن يتفرقا ولم ينكر البائع على المشتري، أو اشترى عبدا فأعتقه‏.‏ وقال طاوس فيمن يشتري السلعة على الرضا ثم باعها وجبت له، والربح له‏.
اگر ایک شخص نے کوئی چیز خریدی اور جدا ہونے سے پہلے ہی کسی اور کو للہ دے دی پھر بیچنے والے نے خریدنے والے کو اس پر نہیں ٹوکا، یا کوئی غلام خرید کر ( بیچنے والے سے جدائی سے پہلے ہی اسے ) آزاد کر دیا۔ طاؤس نے اس شخص کے متعلق کہا، جو ( فریق ثانی کی ) رضا مندی کے بعد کوئی سامان اس سے خریدے اور پھر اسے بیچ دے اور بائع انکار نہ کرے تو یہ بیع لازم ہو جائے گی۔ اور اس کا نفع بھی خریدار ہی کا ہوگا۔

حدیث نمبر : 2115
وقال الحميدي حدثنا سفيان، حدثنا عمرو، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر فكنت على بكر صعب لعمر، فكان يغلبني فيتقدم أمام القوم، فيزجره عمر ويرده، ثم يتقدم فيزجره عمر ويرده فقال النبي صلى الله عليه وسلم لعمر ‏"‏بعنيه‏"‏‏. ‏ قال هو لك يا رسول الله‏.‏ قال ‏"‏بعنيه‏"‏‏. ‏ فباعه من رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏هو لك يا عبد الله بن عمر تصنع به ما شئت‏"‏‏. ‏
حمیدی نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو نے بیان کیا اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک نئے اور سرکش اونٹ پر سوار تھا۔ اکثر وہ مجھے مغلوب کرکے سب سے آگے نکل جاتا، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے ڈانٹ کر پیچھے واپس کردیتے۔ وہ پھر آگے بڑھ جاتا۔ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ یہ اونٹ مجھے بیچ ڈال۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ ! یہ تو آپ ہی کا ہے۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ نہیں مجھے یہ اونٹ دے دے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ اونٹ بیچ ڈالا۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عبداللہ بن عمر ! اب یہ اونٹ تیرا ہوگیا جس طرح تو چاہے اسے استعمال کر۔

حدیث نمبر : 2116
قال أبو عبد الله وقال الليث حدثني عبد الرحمن بن خالد، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال بعت من أمير المؤمنين عثمان مالا بالوادي بمال له بخيبر، فلما تبايعنا رجعت على عقبي حتى خرجت من بيته، خشية أن يرادني البيع، وكانت السنة أن المتبايعين بالخيار حتى يتفرقا، قال عبد الله فلما وجب بيعي وبيعه رأيت أني قد غبنته بأني سقته إلى أرض ثمود بثلاث ليال وساقني إلى المدينة بثلاث ليال‏.‏
ابوعبداللہ امام بخاری نے کہا کہ لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن خالد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سالم بن عبداللہ نے، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہ میں نے امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنی وادی قریٰ کی زمین، ان کی خیبر کی زمین کے بدلے میں بیچی تھی۔ پھر جب ہم نے بیع کر لی تو میں الٹے پاؤں ان کے گھر سے اس خیال سے باہر نکل گیا کہ کہیں وہ بیع فسخ نہ کردیں۔ کیوں کہ شریعت کا قاعدہ یہ تھا کہ بیچنے اور خریدنے والے کو ( بیع توڑنے کا ) اختیار اس وقت تک رہتا ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جائیں۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب ہماری خرید و فروخت پوری ہو گئی اور میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو نقصان پہنچایا ہے کیوں کہ ( اس تبادلہ کے نتیجے میں، میں نے ان کی پہلی زمین سے ) انہیں تین دن کے سفر کی دوری پر ثمود کی زمین کی طرف دھکیل دیا تھا اور انہوں نے مجھے ( میر ی مسافت کم کرکے ) مدینہ سے صرف تین دن کے سفر کی دوری پر لا چھوڑا تھا۔

تشریح : شروع باب میں جو دو صورتیں مذکور ہوئی ہیں ان دونوں صورتوں میں اب بائع کو فسخ بیع کا اختیار نہ رہے گا کیوں کہ اس نے مشتری کے تصرف پر اعتراض نہیں کیا، بلکہ سکوت کیا، باب کی حدیث میں صرف ہبہ کا ذکر ہے، مگر اعتاق کو ہبہ پر قیاس کیا، دونوں تبرع کی قسم میں سے ہیں۔ اور ا س باب کے لانے سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ باب کی حدیث سے خیار مجلس کی نفی نہیں ہوتی۔ جس کا ثبوت اوپر ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے ہو چکا ہے کیوں کہ یہ خیار اس واسطے جاتا رہا کہ مشتری نے تصرف کیا اور بائع نے سکوت کیا تو اس کا سکوت مبطل خیار ہوگیا۔ ابن بطال نے کہا جو لوگ کہتے ہیں کہ بغیر تفرق ابدان کے بیع پوری نہیں ہوتی وہ مشتری کا تصرف قبل از تفرق جائز نہیں رکھتے۔ اور یہ حدیث ان پر حجت ہے۔ اب رہا قبضہ سے پہلے بیع کرنا، تو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مطلقاً درست نہیں، اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک منقول کی بیع درست نہیں غیر منقول کی درست ہے۔ اور ہمارے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور اوزاعی اور اہل حدیث کا یہ قول ہے کہ ناپ تول کی جو چیزیں بکتی ہیں، ان کا قبضہ سے پہلے بیچنا درست نہیں باقی چیزوں کا درست ہے۔ قسطلانی نے کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث تو ان صحیح حدیثوں کے معارض نہیں ہیں جن سے خیار مجلس ثابت ہے کیوں کہ احتمال ہے کہ عقد بیع کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے تھوڑی دیر کے لیے آگے یا پیچھے بڑھ گئے ہوں، اس کے بعد ہبہ کیا ہو۔ واللہ اعلم ( وحیدی )

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے وہ اونٹ لے کر اسی وقت ان کے صاحب زادے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو ہبہ کر دیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا تو بیع درست ہو گئی اور خیار مجلس باقی نہ رہا۔ آخر باب میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ایک معاملہ کا ذکر ہے جس میں مذکوروادی قریٰ ایک بستی ہے تبوک کے قریب، یہ جگہ مدینہ سے چھ سات منزلہ پر ہے اور ثمود کی قوم کے زمانہ میں اس جگہ آبادی تھی، قسطلانی نے کہا کہ واقعہ مذکور کی باب سے مناسبت یہ ہے کہ بائع اور مشتری کو اپنے ارادے سے جدا ہونا درست ہے یا بیع کا فسخ کرنا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : خرید و فروخت میں دھوکہ دینا مکروہ ہے

حدیث نمبر : 2117
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن عبد الله بن دينار، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رجلا، ذكر للنبي صلى الله عليه وسلم أنه يخدع في البيوع، فقال ‏"‏إذا بايعت فقل لا خلابة‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن دینار نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ ایک شخص ( حبان بن منقذ رضی اللہ عنہ ) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ وہ اکثر خرید و فروخت میں دھوکہ کھاجاتے ہیں۔ اس پر آپ نے ان سے فرمایا کہ جب تم کسی چیز کی خرید و فروخت کرو تو یوں کہہ دیا کرو کہ ” بھائی دھوکہ اور فریب کا کام نہیں۔ “

تشریح : بیہقی کی روایت میں اتنا زیادہ ہے اور جو چیز خریدے اس میں تجھے تین دن تک اختیار ہوگا۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہ حکم دیا ہے کہ اگر کسی شخص کو اسباب کی قیمت معلوم نہ ہو، اور وہ تہائی قیمت زیادہ دے یا ایک سدس تو وہ اسباب بائع کو پھیر سکتا ہے اورحنفیہ اور شافعیہ نے اس کا انکار کیا ہے۔ یہ حبان بن منقذ رضی اللہ عنہ صحابی تھے، جنگ احد میں ان کے سر میں زخم آیا تھا، جس کی وجہ سے ان کی عقل میں فتور آگیا۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : بازار میں شور و غل مچانا مکروہ ہے

حدیث نمبر : 2125
حدثنا محمد بن سنان، حدثنا فليح، حدثنا هلال، عن عطاء بن يسار، قال لقيت عبد الله بن عمرو بن العاص ـ رضى الله عنهما ـ قلت أخبرني عن صفة، رسول الله صلى الله عليه وسلم في التوراة‏.‏ قال أجل، والله إنه لموصوف في التوراة ببعض صفته في القرآن يا أيها النبي إنا أرسلناك شاهدا ومبشرا ونذيرا، وحرزا للأميين، أنت عبدي ورسولي سميتك المتوكل، ليس بفظ ولا غليظ ولا سخاب في الأسواق، ولا يدفع بالسيئة السيئة ولكن يعفو ويغفر، ولن يقبضه الله حتى يقيم به الملة العوجاء بأن يقولوا لا إله إلا الله‏.‏ ويفتح بها أعينا عميا، وآذانا صما، وقلوبا غلفا‏.‏ تابعه عبد العزيز بن أبي سلمة عن هلال‏.‏ وقال سعيد عن هلال عن عطاء عن ابن سلام‏.‏ غلف كل شىء في غلاف، سيف أغلف، وقوس غلفاء، ورجل أغلف إذا لم يكن مختونا‏.
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے فلیح نے بیان کیا، ان سے ہلال بن علی نے بیان کیا، ان سے عطاءبن یسار نے کہ میں عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے ملا اور عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صفات توریت میں آئی ہیں ان کے متعلق مجھے کچھ بتائیے۔ انہوں نے کہا کہ ہاں ! قسم خدا کی ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تورات میں بالکل بعض وہی صفات آئی ہیں جو قرآن شریف میں مذکو رہیں۔ جیسے کہ ” اے نبی ! ہم نے تمہیں گواہ، خوشخبری دینے والا، ڈرانے والا، اور ان پڑھ قوم کی حفاظت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تم میرے بندے اور میرے رسول ہو۔ میں نے تمہارا نام متوکل رکھا ہے۔ تم نہ بدخوہو، نہ سخت دل اور نہ بازاروں میں شور غل مچانے والے، ( اور تورات میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ ) وہ ( میرا بندہ اور رسول ) برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لے گا۔ بلکہ معاف اور درگزر کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس وقت تک اس کی روح قبض نہیں کرے گا جب تک ٹیڑھی شریعت کو اس سے سیدھی نہ کرالے، یعنی لوگ لا الہ الا اللہ نہ کہنے لگیں اور اس کے ذریعہ وہ اندھی آنکھوں کو بینا، بہرے کانوں کو شنوا اور پردہ پڑے ہوئے دلوں کو پردے کھول دے گا۔ اس حدیث کی متابعت عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے ہلال سے کی ہے۔ اور سعید نے بیان کیا کہ ان سے ہلال نے، ان سے عطاءنے کہ ” غلف “ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو پردے میں ہو۔ سیف اغلف قوس غلفاءاسی سے ہے اور ” رجل اغلف “ اس شخص کو کہتے ہیں جس کا ختنہ نہ ہوا ہو۔

تشریح : حدیث ہذا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف جمیلہ میں سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ بازاروں میں غل مچانے والا نہ ہوگا ۔ مقصد باب اسی سے ثابت ہوا کہ بازاروں میں جاکر شور و غل مچانا اخلاق فاضلہ کی رو سے مناسب نہیں ہے ۔ دوسری حدیث میں بازار کو بدترین جگہ کہا گیا ہے اس کے باوجود بازاروں میں آنا جانا شان پیغمبری یا امامت کے خلاف نہیں ہے ۔ کافر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کیا کرتے تھے ما لہٰذا الرسول یاکل الطعام و یمشی فی الاسواق البتہ وہاں شور و غل مچانا خلاف شان ہے ۔ حدیث میں مذکور ملت عوجاءسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریعت مرا دہے ۔ پہلے وہ سیدھی تھی پھر عرب کے مشروں نے اس کو ٹیڑھا کر دیا ۔ ہزاروں کفر اور گمراہی کی باتیں اس میں داخل کر دی تھیں ۔ اللہ پاک نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں اس شریعت کو سیدھا کرایا ۔ اس میں جس قدر بھی توہمات اور محدثات شامل کرلئے گئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ملت ابراہیمی کو پاک صاف کرکے اس کی اصلی صورت میں پیش فرما دیا ۔ غلاف میں بند تلوا رکو سیف اغلف اور پوشیدہ چھپائے ہوئے تیرقوس غلفاءکو کہتے ہیں ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : بازاروں کا بیان

وقال عبد الرحمن بن عوف: لما قدمنا إلى المدينة، قلت: هل من سوق فيه تجارة؟. قال: سوق قينقاع. وقال أنس: قال عبد الرحمن: دلوني على السوق. وقال عمر: ألهاني الصفق بالأسواق. ‏
اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب ہم مدینہ آئے، تو میں نے (اپنے اسلامی بھائی سے) پوچھا کہ کیا یہاں کوئی بازار ہے۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا، مجھے بازار بتا دو اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ کہا تھا کہ مجھے بازار کی خریدوفروخت نے غافل رکھا۔

مقصد باب یہ کہ تجارت کے لئے بازاروں کا وجود مذموم نہیں بلکہ ضروری ہے کہ بازار قائم کئے جائیں۔

حدیث نمبر : 2118
حدثنا محمد بن الصباح، حدثنا إسماعيل بن زكرياء، عن محمد بن سوقة، عن نافع بن جبير بن مطعم، قال حدثتني عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏يغزو جيش الكعبة، فإذا كانوا ببيداء من الأرض يخسف بأولهم وآخرهم‏"‏‏. ‏ قالت قلت يا رسول الله كيف يخسف بأولهم وآخرهم، وفيهم أسواقهم ومن ليس منهم‏.‏ قال ‏"‏يخسف بأولهم وآخرهم، ثم يبعثون على نياتهم‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن زکریا نے بیان کیا، ان سے محمد بن سوقہ نے، ان سے نافع بن جبیر بن مطعم نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، قیامت کے قریب ایک لشکر کعبہ پر چڑھائی کرے گا۔ جب وہ مقام بیداءمیں پہنچے گا تو انہیں اول سے آخر تک سب کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، کہ میں نے کہا، یا رسول اللہ ! اسے شروع سے آخر تک کیوں کر دھنسایا جائے گا جب کہ وہیں ان کے بازار بھی ہوں گے اور وہ لوگ بھی ہوں گے جو ان لشکریوں میں سے نہیں ہوں گے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں ! شروع سے آخر تک ان سب کو دھنسا دیا جائے گا۔ پھر ان کی نیتوں کے مطابق وہ اٹھائے جائیں گے۔

سو اس سے کعبہ میں بازاروں کا وجود ثابت ہوا۔ یہی مقصد باب ہے۔

حدیث نمبر : 2119
حدثنا قتيبة، حدثنا جرير، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏صلاة أحدكم في جماعة تزيد على صلاته في سوقه وبيته بضعا وعشرين درجة، وذلك بأنه إذا توضأ فأحسن الوضوء، ثم أتى المسجد، لا يريد إلا الصلاة، لا ينهزه إلا الصلاة، لم يخط خطوة إلا رفع بها درجة، أو حطت عنه بها خطيئة، والملائكة تصلي على أحدكم ما دام في مصلاه الذي يصلي فيه اللهم صل عليه، اللهم ارحمه، ما لم يحدث فيه، ما لم يؤذ فيه‏"‏‏. ‏ وقال ‏"‏أحدكم في صلاة ما كانت الصلاة تحبسه‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جماعت کے ساتھ کسی کی نماز بازار میں یا اپنے گھر میں نماز پڑھنے سے درجوں میں کچھ اوپر بیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ کیوں کہ جب ایک شخص اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر مسجد میں صرف نماز کے ارادہ سے آتا ہے۔ نماز کے سوا اور کوئی چیز اسے لے جانے کا باعث نہیں بنتی تو جو بھی قدم وہ اٹھاتا ہے اس سے ایک درجہ اس کا بلند ہوتا ہے یا اس کی وجہ سے ایک گناہ اس کا معاف ہوتا ہے اور جب تک ایک شخص اپنے مصلے پر بیٹھا رہتا ہے جس پر اس نے نماز پڑھی ہے تو فرشتے برابر اس کے لیے رحمت کی دعائیں یوں کرتے رہتے ہیں ” اے اللہ ! اس پر اپنی رحمتیں نازل فرما، اے اللہ اس پر رحم فرما۔ “ یہ اس وقت تک ہوتا رہتا ہے جب تک وہ وضوتوڑ کر فرشتوں کو تکلیف نہ پہنچا ئے جتنی دیر تک بھی آدمی نماز کی وجہ سے رکا رہتا ہے وہ سب نماز ہی میں شمار ہوتا ہے۔

تشریح : حدیث ہذا میں بازاروں کا ذکر آیا۔ اور بوقت ضرورت وہاں نماز پڑھنے کا بھی ذکر آیا۔ جس سے ثابت ہوا کہ اسلام میں بازاروں کا وجود قائم رکھا گیا اور وہاں آنا جانا، خرید و فروخت کرنا بھی، تاکہ امور تمدنی کو ترقی حاصل ہو، مگر بازاروں میں جھوٹ، مکر و فریب بھی لوگ بکثر ت کرتے ہیں اس لحاظ سے بازار کو بدترین زمین قرار دیا گیا، باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔

حدیث نمبر : 2120
حدثنا آدم بن أبي إياس، حدثنا شعبة، عن حميد الطويل، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ قال كان النبي صلى الله عليه وسلم في السوق، فقال رجل يا أبا القاسم‏.‏ فالتفت إليه النبي صلى الله عليه وسلم فقال إنما دعوت هذا‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏سموا باسمي، ولا تكنوا بكنيتي‏"‏‏.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے بیان کیا، اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ بازار میں تھے۔ کہ ایک شخص نے پکارا یا ابا القاسم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا۔ ( کیوں کہ آپ کی کنیت ابوالقاسم ہی تھی ) اس پر اس شخص نے کہا کہ میں نے تو اس کو بلایا تھا۔ ( یعنی ایک دوسرے شخص کو جو ابوالقاسم ہی کنیت رکھتا تھا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ میرے نام پر نام رکھا کرو لیکن میری کنیت تم اپنے لیے نہ رکھو۔

اس حدیث میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بازار میں تشریف لے جانا مذکور ہے۔ ثابت ہوا کہ بوقت ضرورت بازار جانا برا نہیں ہے، مگر وہاں امانت و دیانت کو قدم قدم پر ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

حدیث نمبر : 2121
حدثنا مالك بن إسماعيل، حدثنا زهير، عن حميد، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ دعا رجل بالبقيع يا أبا القاسم‏.‏ فالتفت إليه النبي صلى الله عليه وسلم فقال لم أعنك‏.‏ قال ‏"‏سموا باسمي، ولا تكتنوا بكنيتي‏"‏‏. ‏
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زبیر نے بیان کیا، ان سے حمید نے، اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص نے بقیع میں ( کسی کو ) پکارا ” اے ابوالقاسم “ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا، تو اس شخص نے کہا کہ میں نے آپ کو نہیں پکارا۔ اس دوسرے آدمی کو پکارا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے نام پر نام رکھا کرو لیکن میری کنیت نہ رکھا کرو۔

اس حدیث کی مناسبت باب سے یہ ہے کہ اس میں آپ کے بازار جانے کا ذکر ہے یعنی بقیع میں۔ بعض نے کہا کہ اس زمانہ میں بقیع میں بھی بازار لگا کرتا تھا۔ کنیت کے بارے میں یہ حکم آپ کی حیات مبارکہ تک تھا۔ جیسا کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔

حدیث نمبر : 2122
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن عبيد الله بن أبي يزيد، عن نافع بن جبير بن مطعم، عن أبي هريرة الدوسي ـ رضى الله عنه ـ قال خرج النبي صلى الله عليه وسلم في طائفة النهار لا يكلمني ولا أكلمه حتى أتى سوق بني قينقاع، فجلس بفناء بيت فاطمة فقال ‏"‏أثم لكع أثم لكع‏"‏‏. ‏ فحبسته شيئا فظننت أنها تلبسه سخابا أو تغسله، فجاء يشتد حتى عانقه وقبله، وقال ‏"‏اللهم أحببه وأحب من يحبه‏"‏‏. ‏ قال سفيان قال عبيد الله أخبرني أنه رأى نافع بن جبير أوتر بركعة‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کی، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن مطعم نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دن کے ایک حصہ میں تشریف لے چلے۔ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کوئی بات کی اور نہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ اسی طرح آپ بنی قینقاع کے بازار میں آئے پھر ( واپس ہوئے اور ) فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کے آنگن میں بیٹھ گئے، اور فرمایا، وہ بچہ کہاں ہے وہ بچہ کہاں ہے؟ فاطمہ رضی اللہ عنہا ( کسی مشغولیت کی وجہ سے فوراً ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکیں۔ میں نے خیال کیا، ممکن ہے حسن رضی اللہ عنہ کو کرتا وغیرہ پہنا رہی ہوں یا نہلا رہی ہوں۔ تھوڑی ہی دیر بعد حسن رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے آئے، آپ نے ان کو سینے سے لگا لیا اور بوسہ لیا، پھر فرمایا اے اللہ؟ ! اسے محبوب رکھ اور اس شخص کو بھی محبوب رکھ جو اس سے محبت رکھے۔ سفیان نے کہا کہ عبید اللہ نے مجھے خبردی، انہوں نے نافع بن جبیر کو دیکھا کہ انہوں نے وتر کی نماز صرف ایک ہی رکعت پڑھی تھی۔

حدیث نمبر : 2123
حدثنا إبراهيم بن المنذر، حدثنا أبو ضمرة، حدثنا موسى، عن نافع، حدثنا ابن عمر، أنهم كانوا يشترون الطعام من الركبان على عهد النبي صلى الله عليه وسلم فيبعث عليهم من يمنعهم أن يبيعوه حيث اشتروه، حتى ينقلوه حيث يباع الطعام‏.‏
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوضمرہ انس بن عیاض نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں غلہ قافلوں سے خریدتے تھے تو آپ ان کے پاس کوئی آدمی بھیج کر وہیں پر جہاں انہوں نے غلہ خریدا ہوتا۔ اس غلہ کو بیچنے سے منع فرما دیتے اور اسے وہاں سے لاکر بیچنے کا حکم ہوتا جہاں عام طو رپر غلہ بکتا تھا۔

حدیث نمبر : 2124
قال وحدثنا ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال نهى النبي صلى الله عليه وسلم أن يباع الطعام إذا اشتراه حتى يستوفيه‏.‏
کہا کہ ہم سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ بھی بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری طرح اپنے قبضہ میں کرنے سے پہلے اسے بیچنے سے منع فرمایا۔

تشریح : ان جملہ احادیث مرویہ میں کسی نہ کسی پہلو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا بازاروں میں آنا جانا مذکور ہوا ہے۔ نمبر2119 میں بازاروں میں اور مسجد میں نماز باجماعت کے ثواب کے فرق کا ذکر ہے۔ حدیث نمبر2122میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بازار قینقاع میں آنا اور وہاں سے واپسی پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر پر جانا مذکو رہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیارے نواسے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو پیار کیا، اور ان کے لیے دعائے خیر فرمائی۔ الغرض بازاروں میں آنا جانا، معاملات کرنا یہ کوئی مذموم امر نہیں ہے۔ ضروریات زندگی کے لیے بہرحال ہر کسی کو بازار جائے بغیر گزارہ نہیں، حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اسی امر کا بیان کرنا ہے۔ کیوں کہ بیع کا تعلق زیادہ تر بازاروں ہی سے ہے۔ اسی سلسلے کے مزید بیانات آگے آرہے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : ناپ تول کرنے والے کی مزدوری بیچنے والے پر اور دینے والے پر ہے ( خریدار پر نہیں )

لقول الله تعالى ‏{‏وإذا كالوهم أو وزنوهم يخسرون‏}‏ يعني كالوا لهم ووزنوا لهم كقوله ‏{‏يسمعونكم‏}‏ يسمعون لكم‏.‏ وقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏اكتالوا حتى تستوفوا‏"‏‏. ‏ ويذكر عن عثمان ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له ‏"‏إذا بعت فكل، وإذا ابتعت فاكتل‏"‏‏. ‏
کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” جب وہ انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم کر دیتے ہیں ” مطلب یہ ہے کہ وہ بیچنے والے خریدنے والوں کو ناپتے اور وزن کرتے ہیں۔ جیسے دوسری آیت میں کلمہ ” یسمعونکم “ سے مراد ہے ” یسمعون لکم “ ہے۔ ویسے ہی اس آیت میں کالوا ہم سے مراد کالوا لہم ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کھجور ناپ لو اور اپنے اونٹ کی قیمت پوری بھر لو۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا، جب تو کوئی چیز بیچا کرے تو ناپ کے دیا کر اور جب کوئی چیز خریدے تو اسے بھی نپوا لیا کر۔

تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے طارق عبداللہ محاربی اور ان کے ساتھیوں سے کھجور کے بدل میں ایک اونٹ خریدا تھا۔ ایک شخص کے ہاتھ اس کے پاس کھجور بھیجی اور یہ کہلا بھیجا کہ اپنا حق اچھی طرح ناپ لو۔ اس روایت سے یہ نکلا کہ ناپنا اسی کا کام ہے جو جنس دے۔ اس حدیث کو نسائی اور ابن حبان نے وصل کیا ہے۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 2126
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏من ابتاع طعاما فلا يبيعه حتى يستوفيه‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے، انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب کوئی شخص کسی قسم کا غلہ خریدے تو جب تک اس پر پوری طرح قبضہ نہ کرلے، اسے نہ بیچے۔

حدیث نمبر : 2127
حدثنا عبدان، أخبرنا جرير، عن مغيرة، عن الشعبي، عن جابر ـ رضى الله عنه ـ قال توفي عبد الله بن عمرو بن حرام، وعليه دين فاستعنت النبي صلى الله عليه وسلم على غرمائه أن يضعوا من دينه، فطلب النبي صلى الله عليه وسلم إليهم، فلم يفعلوا، فقال لي النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏اذهب فصنف تمرك أصنافا، العجوة على حدة، وعذق زيد على حدة، ثم أرسل إلى‏"‏‏. ‏ ففعلت، ثم أرسلت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فجلس على أعلاه، أو في وسطه ثم قال ‏"‏كل للقوم‏"‏‏. ‏ فكلتهم حتى أوفيتهم الذي لهم، وبقي تمري، كأنه لم ينقص منه شىء‏.‏ وقال فراس عن الشعبي حدثني جابر عن النبي صلى الله عليه وسلم، فما زال يكيل لهم حتى أداه، وقال هشام عن وهب عن جابر قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏جذ له فأوف له‏"‏‏. ‏
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہمیں جریر نے خبر دی، انہیں مغیرہ نے، انہیں عامر شعبی نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہ ( میرے باپ ) شہید ہوگئے تو ان کے ذمے ( لوگوں کا ) کچھ قرض باقی تھا۔ اس لیے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ کوشش کی کہ قرض خواہ کچھ اپنے قرضوں کو معاف کردیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی چاہا، لیکن وہ نہیں مانے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ جاؤ پنی تمام کھجور کی قسموں کو الگ الگ کرلو۔ عجوہ ( ایک خاص قسم کی کھجور ) کو الگ رکھ اور عذق زید ( کھجور کی ایک قسم ) کو الگ کر۔ پھر مجھے بلا بھیج۔ میں نے ایسا ہی کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہلا بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور کھجور وں کے ڈھیر پر یا بیچ میں بیٹھ گئے اور فرمایا کہ اب ان قرض خواہوں کو ناپ کر دو۔ میں نے ناپنا شروع کیا۔ جتنا قرض لوگوں کاتھا۔ میں نے سب کو ادا کر دیا، پھر بھی تمام کھجور جوں کی توں تھی۔ اس میں سے ایک دانہ برابر کی کمی نہیں ہوئی تھی۔ فراس نے بیان کیا کہ ان سے شعبی نے، اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ ” برابر ان کے لیے تولتے رہے، یہاں تک کہ ان کا پورا قرض ادا ہو گیا۔ “ اور ہشام نے کہا، ان سے وہب نے، اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کھجور توڑ اور اپنا قرض پورا ادا کردے۔

تشریح : اس حدیث سے جہاں ایک عظیم معجزہ نبوی ثابت ہوا، وہاں یہ مسئلہ بھی نکلا کہ اپنے قرض خواہوں کو حضرت جابر رضی اللہ عنہ ان کے قرض کے عوض میںکھجوریں دے رہے تھے۔ اور ناپ تول کا کام بھی خود ہی انجام دے رہے تھے۔ اسی سے یہ نکلا کہ ادا کرنے والا ہی خود اپنے ہاتھ سے وزن کرے۔ یہی باب کا مقصد ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : اناج کا ناپ تول کرنا مستحب ہے

حدیث نمبر : 2128
حدثنا إبراهيم بن موسى، حدثنا الوليد، عن ثور، عن خالد بن معدان، عن المقدام بن معديكرب، رضى الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏كيلوا طعامكم يبارك لكم‏"‏‏. ‏
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ولید نے بیان کیا، ان سے ثور نے، ان سے خالد بن معدان نے اور ان سے مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اپنے غلے کو ناپ لیا کرو۔ اس میں تمہیں برکت ہو گی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاع اور مد کی برکت کا بیان

فيه عائشة ـ رضى الله عنها ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
اس باب میں ایک حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے

حدیث نمبر : 2129
حدثنا موسى، حدثنا وهيب، حدثنا عمرو بن يحيى، عن عباد بن تميم الأنصاري، عن عبد الله بن زيد ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏أن إبراهيم حرم مكة، ودعا لها، وحرمت المدينة كما حرم إبراهيم مكة، ودعوت لها في مدها وصاعها، مثل ما دعا إبراهيم ـ عليه السلام ـ لمكة‏"‏‏.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عباد بن تمیم انصاری نے اور ان سے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرام قرار دیا۔ اور اس کے لیے دعا فرمائی۔ میں بھی مدینہ کو اسی طرح حرام قرار دیتا ہوں جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرام قرار دیا تھا۔ اور اس کے لیے اس کے مد اور صاع ( غلہ ناپنے کے دو پیمانے ) کی برکت کے لیے اس طرح دعا کرتا ہوں جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کے لیے دعا کی تھی۔

معلوم ہوا کہ ناپ تول کے لیے صاع اور مد کا دستور عہد رسالت میں بھی تھا ۔ جن میں برکت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اور مدینہ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی جو اسی طرح قبول ہوئی ، جس طرح مکہ شریف کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اللہ نے قبول فرمائی ، بلکہ بعض خصوصیات برکت میں مدینہ ممتاز ہے ، وہاں پانی شہر میں بکثرت موجود ہے ۔ آس پاس جنگل سبزہ سے لہلہا رہے ہیں ۔ پھر آج کل حکومت سعودیہ خلد اللہ بقاہا کی مساعی سے مدینہ ہر لحاظ سے ایک ترقی یافتہ شہر بنتا جارہا ہے ، جو سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ دعاؤں کا ثمرہ ہے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اللہم حبب الینا المدینۃ کحبنا مکۃ او اشد یا اللہ ! مکۃ المکرمہ ہی کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت ڈال دے ۔

حدیث نمبر : 2130
حدثني عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏اللهم بارك لهم في مكيالهم، وبارك لهم في صاعهم ومدهم‏"‏‏. ‏ يعني أهل المدينة‏.‏
مجھ سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے اسحق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے اللہ ! انھیں ان کے پیمانوں میں برکت دے، اے اللہ ! انہیں ان کے صاع اور مد میں برکت دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد اہل مدینہ تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع

باب : اناج کا بیچنا اور احتکار کرنا کیسا ہے؟

تشریح : احتکار کہتے ہیں گرانی کے وقت غلہ خرید کرکے اس کو رکھ چھوڑنا، کہ جب بہت گراں ہوگا تو بیچیں گے۔ اگر ارزانی کے وقت خرید کر کے رکھ چھوڑے تو یہ احتکار منع نہیں ہے۔ اسی طرح اگر گرانی کے وقت اپنے خانگی ضروریات کے لیے غلہ خرید کر چھوڑے تو یہ منع نہیں ہے۔ باب کی حدیثوں میں احتکاف کا ذکر نہیں ہے۔ حافظ نے کہا، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے احتکار کا جواز ثابت کیا، اس حدیث سے کہ غلہ قبضے سے پہلے نہ بیچے یعنی اپنے گھر یا دکان میں لانے سے پہلے۔ تو اگر احتکار حرام ہوتا تو آپ یہ حکم نہ فرماتے بلکہ خریدتے ہی بیچنے کا حکم دے دیتے اور شاید ان کے نزدیک یہ حدیث ثابت نہیں ہے جسے امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے نکالا کہ احتکار وہی کرتا ہے جو گنہگار ہے اور ابن ماجہ اور حاکم نے نکالا کہ جو کوئی مسلمان پر ان کا کھانا احتکار کرے گا، اللہ اس پر جذام کی بیماری ڈالے گا۔ ( وحیدی )

احتکار کی بحث میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : و کل ذلک مشعر بان الاحتکار یمنع فی حالۃ مخصوصۃ بشرط مخصوصۃ و قد ورد فی ذم الاحتکار احادیث منہا حدیث معمر المذکور اولاً و حدیث عمر مرفوعاً من احتکر علی المسلمین طعامہم ضربہ اللہ بالجذام و الافلاس رواہ ابن ماجہ و اسنادہ حسن، وعنہ مرفوعاً قال الجالب مرزوق و المحتکر ملعون اخرجہ ابن ماجہ و الحاکم و اسنادہ ضعیف و عن ابن عمر مرفوعاً من احتکر اربعین لیلۃ فقد بری من اللہ و بری منہ اخرجہ احمد و الحاکم و فی اسنادہ مقال و عن ابی ہریرۃ مرفوعاً من احتکر حکرۃ یرید ان یغالی بہا علی المسلمین فہو خاطی اخرجہ الحاکم۔ “

یعنی یہاں مذکورہ مباحث سے ظاہر ہے کہ احتکار حالات مخصوص میں شرائط مخصوصہ کے ساتھ منع ہے اور احتکار کی مذمت میں کئی احادیث بھی وارد ہوئی ہیں۔ جیسا کہ معمر کی حدیث مذکو رہے۔ نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ جس نے مسلمانوں پر غلہ کو روک لیا۔ اس کو اللہ تعالیٰ جذام کے مرض اور افلاس میں مبتلا کرے گا۔ اور یہ بھی ہے کہ غلہ کا بازار میں لا کر فروخت کرنے والا روزی دیا گیا ہے اور غلہ کو روکنے والا ملعون ہے اور یہ بھی ہے کہ جس نے چالیس رات تک غلہ کو روک کر رکھا وہ اللہ سے بری ہو گیا اور اللہ اس سے بری ہے، اور یہ بھی ہے کہ جو گرانی کے انتظار میں غلہ کو روکے وہ گنہگار ہے۔ ایسے حالات میں موجودہ احتکار تقریباً بیشتر ممالک میں ایک سنگین قانونی جرم قرار دیا گیا ہے جب کہ بہت جگہ قحط سالی میں لوگ مبتلا ہیں۔ اسلام آج سے چودہ سو سال پیشتر رفاہ عام کے اس قانون کا اجراءکر چکا ہے۔
سند میں مذکور سالم نامی بزرگ تابعین میں سے ہیں اور حضرت عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کے فرزند ارجمند ہیں۔ ابوعمران ان کی کنیت ہے، قریشی عدوی مدنی ہیں، فقہائے مدینہ کے سرخیل ہیں، 106ھ میں مدینہ میں وفات پائی رحمہ اللہ۔

حدیث نمبر : 2131
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا الوليد بن مسلم، عن الأوزاعي، عن الزهري، عن سالم، عن أبيه ـ رضى الله عنه ـ قال رأيت الذين يشترون الطعام مجازفة يضربون على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يبيعوه حتى يئووه إلى رحالهم‏.‏
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ولید بن مسلم نے خبر دی، انہیں اوزاعی نے، انہیں زہری نے، انہیں سالم نے، اور ان سے ان کے باپ نے بیان کیا، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ان لوگوں کو دیکھا جو اناج کے ڈھیر ( بغیر تولے ہوئے محض اندازہ کرکے ) خرید لیتے ان کو مار پڑتی تھی۔ اس لیے کہ جب تک اپنے گھر نہ لے جائیں نہ بچیں۔

حدیث نمبر : 2132
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا وهيب، عن ابن طاوس، عن أبيه، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى أن يبيع الرجل طعاما حتى يستوفيه‏.‏ قلت لابن عباس كيف ذاك قال ذاك دراهم بدراهم والطعام مرجأ‏.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے ابن طاؤس نے، ان سے ان کے باپ نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلہ پر پوری طرح قبضہ سے پہلے اسے بیچنے سے منع فرمایا۔ طاؤس نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ یہ تو روپے کا روپوں کے بدلے بیچنا ہوا جب کہ ابھی غلہ تو میعاد ہی پر دیا جائے گا۔

اس کی صورت یہ ہے کہ مثلاً زید نے دو من گیہوں عمرو سے دو روپے کے بدلے خریدے اور عمرو سے یہ ٹھہرا کہ دو مہینے بعد گیہیوں دے۔ اب زید نے ہی گیہوں بکر کے ہاتھ سے چار روپیہ کو بیچ ڈالا تو درحقیقت زید نے گویا دو روپے کو چار روپیہ کے بدل میں بیچا جو صریحاً سود ہے کیوں کہ گیہوں کا ابھی تک وجود ہی نہیں وہ تو دو ماہ بعد ملیں گے اور روپیہ کے بدل روپیہ بک رہا ہے۔

حدیث نمبر : 2133
حدثني أبو الوليد، حدثنا شعبة، حدثنا عبد الله بن دينار، قال سمعت ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يقول قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يقبضه‏"‏‏. ‏
مجھ سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ کہتے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص بھی کوئی غلہ خریدے تو اس پر قبضہ کرنے سے پہلے اسے نہ بیچے۔

حدیث نمبر : 2134
حدثنا علي، حدثنا سفيان، كان عمرو بن دينار يحدثه عن الزهري، عن مالك بن أوس، أنه قال من عنده صرف فقال طلحة أنا حتى يجيء خازننا من الغابة‏.‏ قال سفيان هو الذي حفظناه من الزهري ليس فيه زيادة‏.‏ فقال أخبرني مالك بن أوس سمع عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنه ـ يخبر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏الذهب بالذهب ربا إلا هاء وهاء، والبر بالبر ربا إلا هاء وهاء، والتمر بالتمر ربا إلا هاء وهاء، والشعير بالشعير ربا إلا هاء وهاء‏"‏‏. ‏
ہم سے علی بن مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا کہ عمرو بن دینار ان سے بیان کرتے تھے، اور ان سے زہری نے، ان سے مالک بن اوس نے، کہ انہوں نے پوچھا کہ آپ لوگوں میں سے کوئی بیع صرف ( یعنی دینار، درہم، اشرفی وغیرہ بدلنے کا کام ) کرتا ہے۔ طلحہ نے کہا کہ میں کرتا ہوں، لیکن اس وقت کرسکوں گا جب کہ ہمارا خزانچی غابہ سے آجائے گا۔ سفیان نے بیان کیا کہ زہری سے ہم نے اسی طرح حدیث یاد کی تھی۔ اس میں کوئی زیادتی نہیں تھی۔ پھر انہوں نے کہا کہ مجھے مالک بن اوس نے خبر دی کہ انہوں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سونا سونے کے بدلے میں ( خریدنا ) سود میں داخل ہے مگر یہ کہ نقدا نقد ہو۔ گیہوں، گیہوں کے بدلے میں ( خریدنا بیچنا ) سود میں داخل ہے مگر یہ کہ نقدا نقد ہو، کھجور، کھجور کے بدلے میں سود ہے مگر یہ کہ نقدا نقد ہو اور جو، جو کے بدلے میں سود ہے مگر یہ کہ نقدا نقد ہو۔

اس حدیث سے یہ نکلا کہ جو اور گیہوں علیحدہ علیحدہ قسمیں ہیں۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابوحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور جملہ اہل حدیث کا یہی قول ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : غلے کو اپنے قبضے میں لینے سے پہلے بیچنا اور ایسی چیز کو بیچنا جو تیرے پاس موجود نہیں

تشریح : باب کی حدیثوں میں اس چیز کی ممانعت نہیں ہے جو بائع کے پاس نہ ہو اور شاید امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو اس طرح نکال لیا کہ جب قبضے سے پہلے بیچنا درست نہ ہوا تو جو چیز اپنے پاس نہ ہو اس کا بھی بیچنا درست نہ ہوگا اور اس باب میں ایک صریح حدیث مروی ہے جس کو اصحاب سنن نے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے نکالا، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس چیز کو مت بیچو جو تیرے پاس نہ ہو۔ اور شاید یہ حدیث حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وسلم کی شرط پر نہ ہوگی، اس وجہ سے اس کو نہ لاسکے۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 2135
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال الذي حفظناه من عمرو بن دينار سمع طاوسا، يقول سمعت ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ يقول أما الذي نهى عنه النبي صلى الله عليه وسلم فهو الطعام أن يباع حتى يقبض‏.‏ قال ابن عباس ولا أحسب كل شىء إلا مثله‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا جو کچھ ہم نے عمرو بن دینار سے ( سن کر ) یاد کر رکھا ہے ( وہ یہ ہے کہ ) انہوں نے طاؤس سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے ابن عباس رضی ا للہ عنہما کو یہ فرماتے سنا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز سے منع فرمایا تھا، وہ اس غلہ کی بیع تھی جس پر ابھی قبضہ نہ کیا گیا ہو، ابن عباس رضی ا للہ عنہما نے فرمایا، میں تو تمام چیزوں کو اسی کے حکم میں سمجھتا ہوں۔

یعنی کہ کوئی بھی چیز جب خریدی جائے تو قبضہ کرنے سے پہلے اسے نہ بیچا جائے۔

حدیث نمبر : 2136
حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه‏"‏‏. ‏ زاد إسماعيل ‏"‏من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يقبضه‏"‏‏.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے ابن عمر رضی ا للہ عنہمانے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو شخص بھی جب غلہ خریدے تو جب تک اسے پوری طرح قبضہ میں نہ لے لے، نہ بیچے۔ اسماعیل نے یہ زیادتی کی ہے کہ جو کوئی غلہ خریدے تو اس پر قبضہ کرنے سے پہلے نہ بیچے۔
 
Top