• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : جو شخص غلہ کا ڈھیر بن ناپے تولے خریدے وہ جب تک اس کو اپنے ٹھکانے نہ لائے، کسی کے ہاتھ نہ بیچے اور اس کے خلاف کرنے والے کی سزا کا بیان

حدیث نمبر : 2137
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن يونس، عن ابن شهاب، قال أخبرني سالم بن عبد الله، أن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال لقد رأيت الناس في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يبتاعون
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہ مجھے سالم بن عبداللہ رضی ا للہ عنہ نے خبر دی، ان سے عبداللہ بن عمر رضی ا للہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کے عہد مبارک میں دیکھا کہ لوگوں کو اس پر تنبیہ کی جاتی جب وہ غلہ کا ڈھیر خرید کرکے اپنے ٹھکانے پر لانے سے پہلے ہی اس کو بیچ ڈالتے۔

تشریح : حدیث سے نکلا کہ حاکم اسلام بیع فاسد پر سزا دے سکتا ہے۔ امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ جو چیز اندازے سے بن ناپ تول خریدی جائے اس کو قبضے سے پہلے بیچ سکتا ہے۔ اس حدیث سے ان کا رد ہوتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : اگر کسی شخص نے کچھ اسباب یا ایک جانور خریدا اور اس کو بائع ہی کے پاس رکھوا دیا اور وہ اسباب تلف ہو گیا یا جانور مر گیا اور ابھی مشتری نے اس پر قبضہ نہیں کیا تھا

أو مات قبل أن يقبض‏.‏ وقال ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ ما أدركت الصفقة حيا مجموعا فهو من المبتاع‏.
اور ابن عمر رضی ا للہ عنہما نے کہا، بیع کے وقت جو مال زندہ تھا اور بیع میں شریک تھا۔ وہ اگر تلف ہ وگیا تو خریدار پر پڑے گا۔ ( بائع اس کا تاوان نہ دے گا )

حدیث نمبر : 2138
حدثنا فروة بن أبي المغراء، أخبرنا علي بن مسهر، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت لقل يوم كان يأتي على النبي صلى الله عليه وسلم إلا يأتي فيه بيت أبي بكر أحد طرفى النهار، فلما أذن له في الخروج إلى المدينة لم يرعنا إلا وقد أتانا ظهرا، فخبر به أبو بكر فقال ما جاءنا النبي صلى الله عليه وسلم في هذه الساعة، إلا لأمر حدث، فلما دخل عليه قال لأبي بكر ‏"‏أخرج من عندك‏"‏‏. ‏ قال يا رسول الله إنما هما ابنتاى‏.‏ يعني عائشة وأسماء‏.‏ قال ‏"‏أشعرت أنه قد أذن لي في الخروج‏"‏‏. ‏ قال الصحبة يا رسول الله‏.‏ قال ‏"‏الصحبة‏"‏‏. ‏ قال يا رسول الله إن عندي ناقتين أعددتهما للخروج، فخذ إحداهما‏.‏ قال ‏"‏قد أخذتها بالثمن‏"‏‏. ‏
ہم سے فروہ بن ابی مغراءنے بیان کیا، کہا کہ ہم کو علی بن مسہر نے خبردی، انہیں ہشام نے، انہیں ان کے باپ نے، اور ان سے عائشہ رضی ا للہ عنہا نے بیان کیا کہ ایسے دن ( مکی زندگی میں ) بہت ہی کم آئے، جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح و شام میں کسی نہ کسی وقت ابوبکر رضی ا للہ عنہ کے گھر تشریف نہ لائے ہوں۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت دی گئی، تو ہماری گھبراہٹ کا سبب یہ ہوا کہ آپ ( معمول کے خلاف اچانک ) ظہر کے وقت ہمارے گھر تشریف لائے۔ جب حضرت ابوبکر رضی ا للہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ہمارے یہاں کوئی نئی بات پیش آنے ہی کی وجہ سے تشریف لائے ہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی ا للہ عنہ کے پاس پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت جو لوگ تمہارے پاس ہوں انہیں ہٹا دو۔ ابوبکر رضی ا للہ عنہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! یہاں تو صرف میری یہی دو بیٹیاں ہیں یعنی عائشہ اور اسماءرضی ا للہ عنہما۔ اب آپ نے فرمایا کہ تمہیں معلوم بھی ہے مجھے تو یہاں سے نکلنے کی اجازت مل گئی ہے۔ ابوبکر رضی ا للہ عنہ نے عرض کیا میرے پاس دو اونٹنیاں ہی جنہیں میں نے نکلنے ہی کے لیے تیار کر رکھا تھا۔ آپ ان میں سے ایک لے لیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا، قیمت کے بدلے میں، میں نے ایک اونٹنی لے لی۔

حدیث سے نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اونٹنی مول لے کر ان ہی کے پاس رکھوا دی، تو باب کا یہ مطلب کہ کوئی چیز خرید کرے بائع کے پاس رکھوا دینا اس سے ثابت ہوا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : کوئی مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کی بیع میں دخل اندازی نہ کرے اور اپنے بھائی کے بھاؤ لگاتے وقت اس کے بھاؤ کو نہ بگاڑے جب تک وہ اجازت نہ دے یا چھوڑ نہ دے

تشریح : یعنی پہلا بائع اگر اجازت دے کہ تم بھی اپنا مال اس خریدار کو بتلاؤ، بیچوتو بیچنا درست ہے۔ اسی طرح اگر پہلا خریدار اس چیز کو چھوڑ کر چلا جائے نہ خریدے تو دوسرے کو اس کا خریدنا درست ہے ورنہ حرام ہے۔ امام اوزاعی نے کہا یہ امر مسلمان بھائی کے لیے خاص ہے اور جمہور نے اس کو عام رکھا ہے۔ کیوں کہ یہ امر اخلاق سے بعید ہے کہ ایک شخص اپنا سامان بیچ رہا ہے یا کوئی شخص کچھ خرید رہا ہے ہم بیچ میں جا کودیں اور اس کا فائدہ نہ ہونے دیں۔

حدیث نمبر : 2139
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏لا يبيع بعضكم على بيع أخيه‏"‏‏. ‏
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی ا للہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کوئی شخص اپنے بھائی کی خرید و فروخت میں دخل اندازی نہ کرے۔

حدیث نمبر : 2140
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، حدثنا الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يبيع حاضر لباد، ولا تناجشوا، ولا يبيع الرجل على بيع أخيه ولا يخطب على خطبة أخيه، ولا تسأل المرأة طلاق أختها لتكفأ ما في إنائها‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسیب نے بیان کیا، اور ان سے ابوہریرہ رضی ا للہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال و اسباب بیچے اور یہ کہ کوئی ( سامان خریدنے کی نیت کے بغیر دوسرے اصل خریداروں سے ) بڑھ کر بولی نہ دے۔ اسی طرح کوئی شخص اپنے بھائی کے سودے میں مداخلت نہ کرے۔ کوئی شخص ( کسی عورت کو ) دوسرے کے پیغام نکاح ہوتے ہوئے اپنا پیغام نہ بھیجے۔ اور کوئی عورت اپنی کسی دینی بہن کو اس نیت سے طلاق نہ دلوائے کہ اس کے حصہ کو خود حاصل کرلے۔

تشریح : یعنی باہر والے جو غلہ یا اشیاءباہر سے لاتے ہیں، وہ اکثر بستی والوں کے ہاتھ سستا بیچ کر گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ اب کوئی شہر والا ان کو بہکائے، اور کہے ابھی نہ بیچو، یہ مال میرے سپرد کردو، میں اس کو مہنگا بیچ دوں گا۔ تو اس سے منع فرمایا، کیوں کہ یہ بستی والوں کو نقصان پہنچانا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ محض بھاؤ بگاڑنے کے لیے بولی چڑھا دیتے ہیں۔ اور ان کی نیت خریدنے کی نہیں ہوتی۔ یہ سخت گناہ ہے اپنے دوسرے بھائی کو نقصان پہنچانا ہے۔ اسی طرح ایک عورت کے لیے کسی مرد نے پیغام نکاح دیا ہے تو کوئی دوسرا اس کو پیغام نہ دے کہ ہ بھی اپنے بھائی کی حق تلفی ہے۔ اسی طرح کوئی عورت کسی شادی شدہ مرد سے نکاح کرنا چاہتی ہے تو اس کو یہ جائز نہیں کہ اس کی پہلی موجودہ بیوی کو طلاق دلوانے کی شرط لگائے کہ یہ اس بہن کی سخت حق تلفی ہے۔ اس صورت میں وہ عورت اور مرد ہر دو گنہگار ہوں گے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : نیلام کرنے کے بیان میں

وقال عطاء أدركت الناس لا يرون بأسا ببيع المغانم فيمن يزيد‏.‏
اور عطاءنے کہا کہ میں نے دیکھا لوگ مال غنیمت کے نیلام کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔

حدیث نمبر : 2141
حدثنا بشر بن محمد، أخبرنا عبد الله، أخبرنا الحسين المكتب، عن عطاء بن أبي رباح، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ أن رجلا أعتق غلاما له عن دبر، فاحتاج فأخذه النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏من يشتريه مني ‏"‏فاشتراه نعيم بن عبد الله بكذا وكذا، فدفعه إليه‏.‏
ہم سے بشیر بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں حسین مکتب نے خبر دی، انہیں عطاءبن ابی رباح نے اور انہیں جابر بن عبداللہ رضی ا للہ عنہ نے کہ ایک شخص نے اپنا ایک غلام اپنے مرنے کے بعد کی شرط کے ساتھ آزاد کیا۔ لیکن اتفاق سے وہ شخص مفلس ہو گیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے غلام کو لے کر فرمایا کہ اسے مجھ سے کون خریدے گا۔ اس پر نعیم بن عبداللہ رضی ا للہ عنہ نے اسے اتنی اتنی قیمت پر خرید لیا اور آپ نے غلام ان کے حوالہ کر دیا۔

تشریح : نعیم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے آٹھ سو درہم کا لیا، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس کو کون خریدتا ہے، تو یہ نیلام ہی ہوا۔ اور اسماعیلی کا اعتراض دفع ہو گیا کہ حدیث سے نیلام ثابت نہیں ہوتا کیوں کہ اس میں یہ نہیں ہے کہ لوگوں نے مول بڑھانا شروع کیا، اور مدبر کی بیع کا جواز نکلا، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ہمارے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی قول ہے، لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مدبر کی بیع درست نہیں ہے۔ تفصیل آرہی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : لما ان تقدم فی الباب قبلہ النہی عن السوم اراد ان یبین موضع التحریمۃ منہ و قد اوضحتہ فی الباب الذی قبلہ و ورد فی البیع فیمن یزید حدیث انس انہ صلی اللہ علیہ وسلم باع حلسا و قدحا و قال من یشتری ہذا الحلس و القدح فقال رجل اخذتہما بدرہم فقال من یزید علی درہم فاعطاہ رجل درہمین فباعہما منہ اخرجہ احمد و اصحاب السنن مطولا و مختصراً و اللفظ للترمذی و قال حسن و کان المصنف اشار بالترجمۃ الی تضعیف ما اخرجہ البزار من حدیث سلیمان بن وہب سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ینہی عن بیع المزایدۃ فان فی اسنادہ ابن لہیعۃ وہو ضعیف ( فتح )

چونکہ پچھلے باب میں بھاؤ پر بھاؤ بڑھانے سے نہی گزر چکی ہے لہٰذا مصنف نے چاہا کہ حرمت کی وضاحت کی جائے اور میں اس سے پہلے باب میں اس کی وضاحت کر چکا ہوں۔ یہاں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نیلام کا بیان شروع فرمایا اوراس کا جواز ثابت کیا۔ اور اس بیع کے بارے میں انس رضی اللہ عنہ سے ایک اور حدیث بھی مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پرانا ٹاٹ اور ایک پیالہ نیلام فرمایا۔ اور ایک آدمی نے ان کی بولی ایک درہم لگائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوبارہ اعلان پر دوسرے آدمی نے دو درہموں کو بولی لگادی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دو چیزیں اس کو دے دیں۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں اشارہ فرمایا ہے کہ مسند بزار میں سفیان بن وہب کی روایت سے جو حدیث موجود ہے جس میں نیلام سے ممانعت وارد ہے وہ حدیث ضعیف ہے۔ اس کی سند میں ابن لہیعہ ہے جو ضعیف ہے۔
حضرت عطاءبن ابی رباح مشہور ترین تابعی ہیں۔ کنیت ابومحمد ہے جلیل القدر فقیہ ہیں۔ آخر عمر میں نابینا ہو گئے تھے۔ امام اوزاعی کا قول ہے کہ ان کی وفات کے وقت ہر شخص کی زبان پر ان کا ذکر خیر تھا۔ اور سب لوگ ان سے خوش تھے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اللہ نے علم کے خزانوں کا مالک حضرت عطاءبن ابی رباح کو بنایا جو حبشی تھے۔ علم اللہ کی دین ہے جسے چاہے وہ دے دے۔ سلمہ بن کہیل نے کہا، عطاء، طاؤس، مجاہد رحمہم اللہ وہ بزرگ ہیں جن کے علم کی غرض و غایت صرف خدا کی ذات تھی۔ 88 سال کی عمر میں 115ھ میں وفات پائی۔ رحمہ اللہ
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : نجش یعنی دھوکا دینے کے لیے قیمت بڑھانا کیسا ہے؟ اور بعض نے کہا یہ بیع ہی جائز نہیں

ومن قال لا يجوز ذلك البيع‏.‏ وقال ابن أبي أوفى الناجش آكل ربا خائن‏.‏ وهو خداع باطل، لا يحل‏.‏ قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏الخديعة في النار، ومن عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد‏"‏‏. ‏
اور ابن ابی اوفی نے کہا کہ ” ناجش “ سود خوار اور خائن ہے۔ اور نجش فریب ہے، خلاف شرع بالکل درست نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فریب دوزخ میں لے جائے گا اور جو شخص ایسا کام کرے جس کا حکم ہم نے نہیں دیا تو وہ مردود ہے۔

تشریح : دھوکے کی بیع یہ ہے کہ مثلاً پرندہ ہوا میں اڑ رہا ہے یا مچھلی دریا میں جارہی ہے یا ہرن جنگل میں بھاگ رہا ہے۔ اس کو پکڑنے سے پہلے بیچ ڈالے، اسی طرح اس غلام یا لونڈی کو جو بھاگ گیا ہو اور اسی میں داخل ہے بیع معدوم اور مجہول کی اور جس کی تسلیم پر قدرت نہیں۔ اور حبل الحبلہ کی بیع جاہلیت میں مروج تھی۔ اس کی تفسیر آگے خود حدیث میں آرہی ہے۔ باب کی حدیث میں دھوکے کی بیع کا ذکر نہیں ہے۔ مگر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو حبل الحبلہ کی ممانعت سے نکال لیا۔ اس لیے کہ وہ بھی دھوکے کی ایک قسم ہے۔ ممکن ہے کہ اونٹنی نہ جنے یا اس کا جو بچہ پیدا ہو وہ نہ جنے۔ اور شاید امام بخاری نے اس حدیث کی طرف اشارہ کیا جس کو امام احمد نے ابن مسعود اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے اور مسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور ابن ماجہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اور طبرانی نے سہل رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ اس میں صاف یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوکے کی بیع سے منع فرمایا۔ بعض نے حبل الحبلہ کی تفسیر یہ کی ہے کہ اونٹنی کے حمل کے حمل کو فی الحال بیچ ڈالے مثلاً یوں کہے کہ اس اونٹنی کے پیٹ میں جو بچہ ہے اس کے پیٹ بچہ کومیں نے تیرے ہاتھ بیچا۔ یہ بھی منع ہے اس لیے کہ یہ معدوم اور مجہول کی بیع ہے۔ اور بیع غرر یعنی دھوکے کی بیع میں داخل ہے۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 2142
حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن النجش‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی ا للہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ” نجش “ سے منع فرمایا تھا۔

تشریح : نجش خاص طور پر شکار کو بھڑکانے کے معنی میں آتا ہے۔ یہاں ایک خاص مفہوم شرعی کے تحت یہ مستعمل ہے۔ وہ مفہوم یہ کہ کچھ تاجر اپنے غلط گو ایجنٹ مقرر کردیتے ہیں جن کا کام یہی ہوتا ہے کہ ہر ممکن صورت میں خریدنے والوں کو دھوکہ دے کر زیادہ قیمت وصول کرائیں۔ ایسے ایجنٹ بعض دفعہ گاہک کی موجودگی میں اس چیز کا دام بڑھا کر خریدار بنتے ہیں۔ حالانکہ وہ خریدار نہیں ہیں۔ گاہک دھوکہ میں آکر بڑھے ہوئے داموں پر وہ چیز خرید لیتا ہے۔ الغرض بیع میں دھوکہ فریب کی جملہ صورتیں سخت ترین گناہ کبیرہ کا درجہ رکھتی ہیں۔ شریعت نے سختی سے ان کو روکا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : دھوکے کی بیع اور حمل کی بیع کا بیان

حدیث نمبر : 2143
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع حبل الحبلة، وكان بيعا يتبايعه أهل الجاهلية، كان الرجل يبتاع الجزور إلى أن تنتج الناقة، ثم تنتج التي في بطنها‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہیں امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے، اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی ا للہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمل کے حمل کی بیع سے منع فرمایا۔ اس بیع کا طریقہ جاہلیت میں رائج تھا۔ ایک شخص ایک اونٹ یا اونٹنی خریدتا اور قیمت دینے کی میعاد یہ مقرر کرتا کہ ایک اونٹنی جنے پھر اس کے پیٹ کی اونٹنی بڑی ہوکر جنے۔

تشریح : اسلام سے پہلے عرب میں یہ دستور بھی تھا کہ حاملہ اونٹنی کے حمل کو بیچ دیا جاتا۔ اس بیع کو دھوکے کی بیع قرار دے کر منع کیا گیا۔ حدیث بالا کا یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ کسی قرض وغیرہ کی مدت حاملہ اونٹنی کے حمل کے پیدا ہونے پھر اس پر پیدا ہونے والی اونٹنی کے بچہ جننے کی مدت مقرر کی جاتی تھی، یہ بھی ایک دھوکہ کی بیع تھی، اس لیے اس سے بھی منع کیا گیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع

باب : بیع ملامسۃ کا بیان اور انس رضی ا للہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے

حدیث نمبر : 2144
حدثنا سعيد بن عفير، قال حدثني الليث، قال حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال أخبرني عامر بن سعد، أن أبا سعيد ـ رضى الله عنه ـ أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن المنابذة، وهى طرح الرجل ثوبه بالبيع إلى الرجل، قبل أن يقلبه، أو ينظر إليه، ونهى عن الملامسة، والملامسة لمس الثوب لا ينظر إليه‏.‏
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہ مجھے عامر بن سعید نے خبر دی، اور انہیں ابوسعید خدری رضی ا للہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منابذہ کی بیع سے منع فرمایا تھا۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ ایک آدمی بیچنے کے لیے اپنا کپڑا دوسرے شخص کی طرف ( جو خریدار ہوتا ) پھینکتا اور اس سے پہلے کہ وہ اسے الٹے پلٹے یا اس کی طر ف دیکھے ( صرف پھینک دینے کی وجہ سے وہ بیع لازم سمجھی جاتی تھی ) اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع ملامسۃ سے بھی منع فرمایا۔ اس کا یہ طریقہ تھا کہ ( خریدنے والا ) کپڑے کو بغیر دیکھے صرف اسے چھو دیتا ( اور اسی سے بیع لازم ہوجاتی تھی اسے بھی دھوکہ کی بیع قرار دیا گیا۔

حدیث نمبر : 2145
حدثنا قتيبة، حدثنا عبد الوهاب، حدثنا أيوب، عن محمد، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال نهي عن لبستين، أن يحتبي الرجل، في الثوب الواحد، ثم يرفعه على منكبه، وعن بيعتين اللماس والنباذ‏.‏
ہم سے قتبیہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے، ان سے ابوہریرہ رضی ا للہ عنہ نے بیان کیا کہ دو طرح کے لباس پہننے منع ہیں۔ کہ کوئی آدمی ایک ہی کپڑے میں گوٹ مار کر بیٹھے، پھر اسے مونڈے پر اٹھا کر ڈال لے ( اور شرم گاہ کھلی رہے ) اور دو طرح کی بیع سے منع کیا ایک بیع ملامسۃ سے اور دوسری بیع منابذہ سے۔

تشریح : اس روایت میں دوسرے لباس کا ذکر نہیں کیا۔ وہ اشتمال صما ہے جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے یعنی ایک ہی کپڑا سارے بدن پر اس طرح لپیٹنا کہ ہاتھ وغیرہ کچھ باہر نہ نکل سکیں۔ نسائی کی روایت میں ملامسۃ کی تفسیر یوں مذکور ہے کہ ایک آدمی دوسرے سے کہے کہ میں اپنا کپڑا تیرے کپڑے کے عوض بیچتا ہوں اور کوئی دوسرے کا کپڑا نہ دیکھے صرف چھوئے، اور بیع منابذہ یہ ہے کہ مشتری اور بائع میں یہ ٹھہرے کہ جو میرے پاس ہے وہ میں تیری طرف پھینک دوں گا اور جو تیرے پاس ہے وہ تومیری طرف پھینک دے۔ بس اسی شرط پر بیع ہو جائے اور کسی کو معلوم نہ ہو کہ دوسرے کے پاس کتنا اور کیا مال ہے۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : بیع منابذہ کا بیان اور انس رضی ا للہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے

حدیث نمبر : 2146
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن محمد بن يحيى بن حبان، وعن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن الملامسة والمنابذة‏.
ہم سے اسماعیل بن اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے محمد بن یحییٰ بن حبان نے اور ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی ا للہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع ملامسۃ اور بیع منابذہ سے منع فرمایا۔

حدیث نمبر : 2147
حدثنا عياش بن الوليد، حدثنا عبد الأعلى، حدثنا معمر، عن الزهري، عن عطاء بن يزيد، عن أبي سعيد ـ رضى الله عنه ـ قال نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن لبستين وعن بيعتين الملامسة والمنابذة‏.‏
ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا، ان سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، ان سے معمر نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عطاءبن یزید نے اور ان سے ابوسعید خدری رضی ا للہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح کے لباس سے منع فرمایا، اور دو طرح کی بیع، ملامسۃ اور منابذہ سے منع فرمایا۔

تشریح : گذشتہ سے پیوستہ حدیث کے ذیل میں گزر چکی ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو یہاں اس لیے لائے کہ اس میں بیع ملامسہ اور بیع منابذہ کی ممانعت مذکور ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : اونٹ یا بکری یا گائے کے تھن میں دودھ جمع کر رکھنا بائع کو منع ہے

حدیث نمبر : 2148
وكل محفلة. والمصراة: التي صري لبنها وحقن فيه وجمع، فلم يحلب أياما، وأصل التصرية حبس الماء، يقال منه: صريت الماء إذا حبسته.
اسی طرح ہر جاندار کے تھن میں (تاکہ دیکھنے والا زیادہ دودھ دینے والا جانور سمجھ کر اسے زیادہ قیمت پر خریدے) اور مصراۃ وہ جانور ہے کہ جس کا دودھ تھن میں روک لیا گیا ہو، اس میں جمع کرنے کے لءے اور کءی دن تک اسے نکالا نہ گیا ہو، لفظ تصریہ اصل میں پانی روکنے کے معنے میں بولا جاتا ہے۔ اسی سے یہ استعمال ہے صریت الماء (یعنی میں نے پانی کو روک رکھا)۔

حدیث نمبر : 2148
حدثنا ابن بكير، حدثنا الليث، عن جعفر بن ربيعة، عن الأعرج، قال أبو هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏لا تصروا الإبل والغنم، فمن ابتاعها بعد فإنه بخير النظرين بعد أن يحتلبها إن شاء أمسك، وإن شاء ردها وصاع تمر‏"‏‏. ‏ ويذكر عن أبي صالح ومجاهد والوليد بن رباح وموسى بن يسار عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏صاع تمر‏"‏‏. ‏ وقال بعضهم عن ابن سيرين صاعا من طعام وهو بالخيار ثلاثا‏.‏ وقال بعضهم عن ابن سيرين صاعا من تمر‏.‏ ولم يذكر ثلاثا، والتمر أكثر‏.‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے جعفر بن ربیعہ نے، ان سے عبدالرحمن بن ہرمز اعرج نے، ان سے ابوہریرہ رضی ا للہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( بیچنے کے لیے ) اونٹنی اور بکری کے تھنوں میں دودھ کو روک کر نہ رکھو۔ اگر کسی نے ( دھوکہ میں آکر ) کوئی ایسا جانور خریدلیا تو اسے دودھ دوہنے کے بعد دونوں اختیارات ہیں چاہے تو جانور کو رکھ لے، اور چاہے تو واپس کردے۔ اور ایک صاع کھجور اس کے ساتھ دودھ کے بدل دے دے۔ ابوصالح، مجاہد، ولید بن رباح اور موسیٰ بن یسار سے بواسطہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ایک صاع کھجور ہی کی ہے۔ بعض راویوں نے ابن سیرین سے ایک صاع کھجور کی روایت کی ہے اور یہ کہ خریدار کو ( صورت مذکورہ میں ) تین دن کا اختیار ہوگا۔ اگرچہ بعض دوسرے راویوں نے ابن سیرین ہی سے ایک صاع کھجور کی بھی روایت کی ہے، لیکن تین دن کے اختیار کا ذکر نہیں کیا اور ( تاوان میں ) کھجور دینے کی روایات ہی زیادہ ہیں۔

تشریح : لونڈی ہو یا گدھی ان کے دودھ کے بدل ایک صاع نہ دیا جائے گا۔ اور حنابلہ نے گدھی کے دودھ کے بدلے صاع دینا لازم نہیں رکھا۔ لیکن لونڈی میں انہوں نے اختلاف کیا ہے اور جمہور اہل علم، صحابہ اور تابعین اور مجتہدین نے باب کی حدیث پر عمل کیا ہے کہ ایسی صورت میں مشتری چاہے تو وہ جانور پھیر دے اور ایک صاع کھجور دودھ کا بدل دے دے۔ خواہ دودھ بہت ہو یا کم اور حنیفہ نے قیاس پر عمل کرکے اس صحیح حدیث کا خلاف کیا ہے اور کہتے کیا ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ نہ تھے۔ اس لیے ان کی روایت قیاس کے خلاف قبول نہیں ہو سکتی۔ اور یہ کھلی دھینگا مشتی ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حکم نقل فرمایا ہے اور لطف یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے جن کو حنفی فقہ اور اجتہاد میں امام جانتے ہیں، ان سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔ اور شاید حنفیہ کو الزام دینے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بعد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کیا ہے اور خود حنفیہ نے بہت سے مقاموں میں حدیث سے قیاس جلی کو ترک کیا ہے، جیسے وضو بالنبیذ اور قہقہ میں پھر یہاں کیوں ترک نہیں کرتے۔ اور امام ابن قیم نے اس مسئلہ کے مالہ و ما علیہ پر پوری پوری روشنی ڈالتے ہوئے حنفیہ پر کافی رد کیا ہے۔

حدیث نمبر : 2149
حدثنا مسدد، حدثنا معتمر، قال سمعت أبي يقول، حدثنا أبو عثمان، عن عبد الله بن مسعود ـ رضى الله عنه ـ قال من اشترى شاة محفلة، فردها فليرد معها صاعا‏.‏ ونهى النبي صلى الله عليه وسلم أن تلقى البيوع‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے معمتر نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ ہم سے ابوعثمان نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی ا للہ عنہ نے کہا کہ جو شخص ” مصراۃ “ بکری خریدے اور اسے واپس کرنا چاہے تو ( اصل مالک کو ) اس کے ساتھ ایک صاع بھی دے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلہ والوں سے ( جو مال بیچنے لائیں ) آگے بڑھ کر خریدنے سے منع فرمایا ہے۔

حدیث نمبر : 2150
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏لا تلقوا الركبان، ولا يبيع بعضكم على بيع بعض ولا تناجشوا ولا يبيع حاضر لباد، ولا تصروا الغنم، ومن ابتاعها فهو بخير النظرين بعد أن يحتلبها إن رضيها أمسكها، وإن سخطها ردها وصاعا من تمر‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں اعرج نے، اور انہیں ابوہریرہ رضی ا للہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( تجارتی ) قافلوں کی پیشوائی ( ان کا سامان شہر پہنچے سے پلے ہی خرید لینے کی غرض سے ) نہ کرو۔ ایک شخص کسی دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے اور کوئی نجش نہ کرے اور کوئی شہری بدوی کا مال نہ بیچے اور بکری کے تھن میں دودھ نہ روکے۔ لیکن اگر کوئی اس ( آخری ) صورت میں جانور خرید لے تو اسے دوہنے کے بعد دونوں طرح کے اختیارات ہیں۔ اگر وہ اس بیع پر راضی ہے تو جانور کو روک سکتا ہے اور اگر وہ راضی نہیں تو ایک صاع کھجور اس کے ساتھ دے کر اسے واپس کردے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : خریدار اگر چاہے تو مصراۃ کو واپس کرسکتا ہے لیکن اس کے دودھ کے بدلہ میں ( جو خریدار نے استعمال کیا ہے ) ایک صاع کھجور دے دے

حدیث نمبر : 2151
حدثنا محمد بن عمرو، حدثنا المكي، أخبرنا ابن جريج، قال أخبرني زياد، أن ثابتا، مولى عبد الرحمن بن زيد أخبره أنه، سمع أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏من اشترى غنما مصراة فاحتلبها، فإن رضيها أمسكها، وإن سخطها ففي حلبتها صاع من تمر‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن عمرو نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، انہیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے زیادنے خبر دی کہ عبدالرحمن بن زید کے غلام ثابت نے انہیں خبر دی، کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی ا للہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص نے ” مصراۃ “ بکری خریدی اور اسے دوہا۔ تو اگر وہ اس معاملہ پر راضی ہے تو اسے اپنے لیے روک لے اور اگر راضی نہیں ہے تو ( واپس کردے اور ) اس کے دودھ کے بدلے میں ایک صاع کھجور دے دے۔
 
Top