• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : زانی غلام کی بیع کا بیان

وقال شريح إن شاء رد من الزنا
اور شریح رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ اگر خریدار چاہے تو زنا کے عیب کی وجہ سے ایسے لونڈی غلام کو واپس پھیر سکتا ہے۔

کیونکہ یہ بھی ایک عیب ہے۔ شریح کی روایت کو سعید بن منصو رنے وصل کیا۔ باب کی حدیث میں گو غلام کا ذکر نہیں مگر امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے غلام کو لونڈی پر قیاس کیا اور حنفیہ کے نزدیک لونڈی زنا سے پھیری جاسکتی ہے لیکن غلام نہیں پھیرا جاسکتا۔

حدیث نمبر : 2152
حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، قال حدثني سعيد المقبري، عن أبيه، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أنه سمعه يقول قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏إذا زنت الأمة فتبين زناها فليجلدها، ولا يثرب، ثم إن زنت فليجلدها، ولا يثرب، ثم إن زنت الثالثة فليبعها، ولو بحبل من شعر‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھے سعید مقبری نے خبر دی، ان سے ان کے باپ نے، اور انہوں نے ابوہریرہ رضی ا للہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی باندی زنا کرے اور اس کے زنا کا ثبوت ( شرعی ) مل جائے تو اسے کوڑے لگوائے، پھر اس کی لعنت ملامت نہ کرے۔ اس کے بعد اگر پھر وہ زنا کرے تو پھر کوڑے لگوائے مگر پھر لعنت ملامت نہ کرے۔ پھر اگر تیسری مرتبہ بھی زنا کرے تو اسے بیچ دے چاہے بال کی ایک رسی کے بدلہ ہی میں کیوں نہ ہو۔

حدیث نمبر : 2153-2154
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله، عن أبي هريرة، وزيد بن خالد ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل عن الأمة إذا زنت ولم تحصن قال ‏"‏إن زنت فاجلدوها، ثم إن زنت فاجلدوها، ثم إن زنت فبيعوها ولو بضفير‏"‏‏. ‏ قال ابن شهاب لا أدري بعد الثالثة، أو الرابعة‏.‏
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبید اللہ بن عبداللہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی ا للہ عنہ اور زید بن خالد رضی ا للہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی غیر شادی شدہ باندی زنا کرے ( تو اس کا کیا حکم ہے ) آپ نے فرمایا کہ اسے کوڑے لگاؤ۔ اگر پھر زنا کرے تو پھر کوڑے لگاؤ۔ پھر بھی اگر زنا کرے تو اسے بیچ دو، اگرچہ ایک رسی ہی کے بدلے میں وہ فروخت ہو۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ ( بیچنے کے لیے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا تھا یا چوتھی مرتبہ۔

تشریح : ظاہر حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ اگر لونڈی محصنہ ( شادی شدہ ) ہو تو اس کو سنگسار کریں۔ حالانکہ لونڈی اورغلام پر بالاجماع رجم نہیں ہے۔ کیوں کہ خود قرآن شریف میں صاف حکم موجو دہے۔ فاذا احصن فان آتین بفاحشۃ فعلیہن نصف ما علی المحصنت من الغداب ( النساء: 25 ) اور رجم کا نصف نہیں ہوسکتا تو کوڑوں کا نصف مراد ہوگا۔ یعنی پچاس کوڑے مارو۔ بعض نے کہا حدیث کا ترجمہ یوں ہے اگر لونڈی اپنے تئیں زنا سے نہ بچائے اور زنا کرائے۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : عورتوں سے خرید و فروخت کرنا

حدیث نمبر : 2155
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال عروة بن الزبير قالت عائشة ـ رضى الله عنها دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت له، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏اشتري وأعتقي، فإن الولاء لمن أعتق‏"‏‏. ‏ ثم قام النبي صلى الله عليه وسلم من العشي، فأثنى على الله بما هو أهله، ثم قال ‏"‏ما بال أناس يشترطون شروطا ليس في كتاب الله، من اشترط شرطا ليس في كتاب الله فهو باطل، وإن اشترط مائة شرط، شرط الله أحق وأوثق‏"‏‏.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہمیں شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، ان سے عروہ بن زبیر رضی ا للہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی ا للہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ سے ( بریرہ رضی ا للہ عنہ کے خریدنے کا ) ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا تم خرید کر آزاد کردو۔ ولاءتو اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کرے۔ پھر آپ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا ” لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ( خرید و فروخت میں ) ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کی کوئی اصل کتاب اللہ میں نہیں ہے جو شخص بھی کوئی ایسی شرط لگائے گا جس کی اصل کتاب اللہ میں نہ ہو وہ شرط باطل ہوگی۔ خواہ سو شرطیں ہی کیوں نہ لگالے کیوں کہ اللہ ہی کی شرط حق اور مضبوط ہے۔ “ ( اور اسی کا اعتبار ہے )

تشریح : اور حدیث میں جو شرطیں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں وہ بھی اللہ ہی کی لگائی ہوئی ہیں۔ کیوں کہ جو کچھ حدیث میں ہے وہ بھی اللہ ہی کا حکم ہے۔ یہ خطبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت سنایا جب بریرہ رضی اللہ عنہ کے مالک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ شرط لگاتے تھے کہ ہم بریرہ رضی اللہ عنہا کو اس شرط پر بیچتے ہیں کہ اس کا ترکہ ہم لیں گے۔

حدیث نمبر : 2156
حدثنا حسان بن أبي عباد، حدثنا همام، قال سمعت نافعا، يحدث عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما أن عائشة ـ رضى الله عنها ـ ساومت بريرة فخرج إلى الصلاة، فلما جاء قالت إنهم أبوا أن يبيعوها، إلا أن يشترطوا الولاء‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏إنما الولاء لمن أعتق‏"‏‏. ‏ قلت لنافع حرا كان زوجها أو عبدا فقال ما يدريني
ہم سے حسان بن ابی عباد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمام نے بیان کیا، کہا کہ میں نے نافع سے سنا، وہ عبداللہ بن عمر رضی ا للہ عنہما سے روایت کرتے تھے کہ حضرت عائشہ رضی ا للہ عنہا، بریرہ رضی اللہ عنہا کی ( جو باندھی تھیں ) قیمیت لگا رہی تھیں ( تاکہ انہیں خرید کر آزاد کردیں ) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے ( مسجد میں ) تشریف لے گئے۔ پھر جب آپ تشریف لائے تو عائشہ رضی ا للہ عنہا نے کہا کہ ( بریرہ رضی ا للہ عنہا کے مالکوں نے تو ) اپنے لیے ولاءکی شرط کے بغیر انہیں بیچنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولاءتو اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کرے۔ میں نے نافع سے پوچھا کہ بریرہ رضی ا للہ عنہا کے شوہر آزاد تھے یا غلام، تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں۔

( یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے جس سے عورتوں سے خرید و فروخت کرنے کا جواز نکلا )
تشریح : ان ہر دو احادیث میں حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کی اپنے مالکوں سے مکاتبت کا ذکر ہے یعنی غلام یا لونڈی اپنی مالک سے طے کرلے کہ اتنی مدت میں وہ اس قدر روپیہ یا کوئی جنس وغیرہ ادا کرے گا۔ اور اس شرط کے پورا کرنے کے بعد وہ آزاد ہوجائے گا۔ تو اگر وہ شرط پوری کردی گئی اب وہ آزاد ہو گیا۔ بریرہ رضی اللہ عنہا نے بھی اپنے مالکوں سے ایسی ہی صورت طے کی تھی۔ جس کا ذکر انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا۔ جس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یکمشت سارا روپیہ ادا کرنے کی پیش کش کی۔ اس شرط پر کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کی ولاءحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے قائم ہو اور مالکوں کو اس بارے میں کوئی مطالبہ نہ رہے۔ ولاءکے معنی یہ کہ غلام آزاد ہونے کے بعد بھائی چارہ کا رشتہ اپنے سابقہ مالک سے قائم رکھے۔ خاندانی طور پر اسی کی طرف منسوب رہے۔ حتی کہ اس کے مرنے پر اس کے ترکہ کا حقدار بھی اس کا مالک ہی ہو۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پیش کش کو انہوں نے سلسلہ ولاءکے ختم ہوجانے کے خطرہ سے منظور نہیں کیا۔ جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خطبہ ارشاد فرما کر اس مسئلہ کی وضاحت فرمائی کہ یہ بھائی چارگی تو اس کے ساتھ قائم رہے گی۔ جو اسے خرید کر آزاد کرے نہ کہ سابق مالک کے ساتھ۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدا اور آزاد کردیا، اور سلسلہ ولاءسابقہ مالک سے توڑ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ قائم کر دیا گیا۔

اس حدیث سے بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں۔ جن کا استخراج امام الفقہاءو المحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع الصحیح میں جگہ جگہ کیا ہے۔
امام شوکانی اس سلسلہ میں مزید وضاحت یوں فرماتے ہیں : ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قد کان اعلم الناس ان اشتراط الولاءباطل و اشتہر ذلک بحیث لا یخفی علی اہل بریرۃ فلما ارادوا ان یشرطوا ما تقدم لہم العلم ببطلانہ اطلق الامر مریدا بہ التہدید کقولہ تعالیٰ ( اعملوا ماشتئم ) فکانہ قال اشترطی لہم الولاءفسیعلمون ان ذلک لا ینفعہم و یوید ہذا ما قالہ صلی اللہ علیہ وسلم ذلک ما بال رجال یشترطون شروطا الخ ( نیل )

یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے تھے کہ ولاءکی شرط باطل ہے اور یہ اصول اس قدر مشتہرہو چکا تھا کہ اہل بریرہ سے بھی یہ مخفی نہ تھا۔ پھر جب انہوں نے اس شرط کے بطلان کو جاننے کے باوجود اس کی اشتراط پر اصرار کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تہدید کے طور پر مطلق امر فرما دیا کہ بریرہ کو خرید لیا جائے، جیسا کہ قرآن آیت اعملوا ما شئتم ( فصلت : 40 ) میں ہے کہ تم عمل کرو جو چاہو۔ یہ بطور تہدید فرمایا گیا ہے۔ گویا آپ نے فرمایا کہ ان کے ولاءکی شرط لگا لو وہ عنقریب جان لیں گے کہ اس شرط سے ان کو کچھ فائدہ حاصل نہ ہوگا اور اس مفہوم کی تائید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے ہوتی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کہ لوگوں کا کیا حال ہے وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ سے ثابت نہیں ہیں۔ پس ایسی جملہ شروط باطل ہیں، خواہ ان کو لگا بھی لیا جائے مگراسلامی قانون کی رو سے ان کا کوئی مقام نہیں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : کیا کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان کسی اجرت کے بغیر بیچ سکتا ہے؟

وهل يعينه أو ينصحه وقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏إذا استنصح أحدكم أخاه فلينصح له ‏" ورخص فيه عطاء‏.
اور کیا اس کی مدد یا اس کی خیر خواہی کر سکتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی شخص اپنے کسی بھائی سے خیر خواہی چاہے تو اس سے خیر خواہانہ معاملہ کرنا چاہئے۔ عطاء رحمہ اللہ علیہ نے اس کی اجازت دی ہے۔

تشریح : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مطلب یہ ہے کہ حدیث میں جو ممانعت آئی ہے کہ بستی والا باہر والے کا مال نہ بیچے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے اجرت لے کر نہ بیچے۔ اگر بطور امداد اور خیر خواہی کے اس کا مالک بیچ دے تو منع نہیں ہے کیوں کہ دوسری حدیثوں میں مسلمان کی امداد اور خیر خواہی کرنے کا حکم ہے۔

حدیث نمبر : 2157
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن إسماعيل، عن قيس، سمعت جريرا ـ رضى الله عنه ـ بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والسمع والطاعة، والنصح لكل مسلم‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے اسماعیل نے، ان سے قیس نے، انہوں نے جریر رضی ا للہ عنہ سے یہ سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی شہادت پر کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ اور نماز قائم کرنے اور زکوۃ دینے اور ( اپنے مقررہ امیر کی بات ) سننے اور اس کی اطاعت کرنے پر اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے کی بیعت کی تھی۔

یہ حدیث کتاب الایمان میں بھی گزر چکی ہے۔ یہاں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے یہ نکالا کہ جب ہر مسلمان کی خیر خواہی کا اس میں حکم ہے تو اگر بستی والا باہر والے کا مال بلا اجرت بیچ دے اور اس کی خیرخواہی کرے تو ثواب ہوگا نہ کہ گناہ۔ اب اس حدیث کی تاویل یہ ہوگی جس میں اس کی ممانعت آئی ہے کہ ممانعت اس صورت میں ہے جب اجرت لے کر ایسا کرے۔ اور بستی والوں کو نقصان پہنچانے اور اپنا فائدہ کرنے کی نیت ہو، یہ ظاہر ہے کہ ناجائز ہے، انما الاعمال بالنیات، اور اگر محض خیر خواہی کے لیے ایسا کر رہا ہے تو جائز ہے۔

حدیث نمبر : 2158
حدثنا الصلت بن محمد، حدثنا عبد الواحد، حدثنا معمر، عن عبد الله بن طاوس، عن أبيه، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏لا تلقوا الركبان ولا يبيع حاضر لباد‏"‏‏. ‏ قال فقلت لابن عباس ما قوله لا يبيع حاضر لباد قال لا يكون له سمسارا‏.
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معمر نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن طاؤس نے، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابن عباس رضی ا للہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( تجارتی ) قافلوں سے آگے جاکر نہ ملاکرو ( ان کو منڈی میں آنے دو ) اور کوئی شہری، کسی دیہاتی کا سامان نہ بیچے، انہوں نے بیان کیا کہ اس پر میں نے ابن عباس رضی ا للہ عنہما سے پوچھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا کہ ” کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال نہ بیچے “ کا مطلب کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ مطلب یہ ہے کہ اس کا دلال نہ بنے۔

اور اس سے دلالی کا حق ٹھہرا کر بستی والوں کو نقصان نہ پہنچائے۔ اگر یہ دلال نہ بنتا تو شاید غریبوں کو غلہ سستا ملتا۔ حنفیہ نے کہا کہ یہ حدیث اس وقت ہے جب غلہ کا قحط ہو۔ مالکیہ نے کہا عام ہے۔ ہمارے احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ ممانعت اس صورت میں ہے جب پانچ باتیں ہوں۔ جنگل سے کوئی اسباب بیچنے کو آئے، اس دن کے نرخ پر بیچنا چاہے، نرخ اس کو معلوم نہ ہو۔ بستی والا قصد کرکے اس کے پاس جائے، مسلمانوں کو اس اسباب کی حاجت ہو، جب یہ پانچ باتیں پائی جائیں گی تو بیع حرام اور باطل ہوگی ورنہ صحیح ہوگی۔ ( وحیدی )

سمسارا کی تشریح میں امام شوکانی فرماتے ہیں
بسینین مہملتین قال فی الفتح و ہو فی الاصل القیم بالامر و الحافظ ثم استعمل فی متولی البیع و الشراءلغیرہ۔ یعنی سمسار اصل میں کسی کام کے محافظ اور انجام دینے والے شخص کو کہا جاتا ہے اور اب یہ اس کے لیے مستعمل ہے جو خرید و فروخت کی تولیت اپنے ذمے لیتا ہے جسے آج کل دلال کہتے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : جنہوں نے اسے مکروہ رکھا کہ کوئی شہری آدمی کسی بھی دیہاتی کا مال اجرت لے کر بیچے

حدیث نمبر : 2159
حدثني عبد الله بن صباح، حدثنا أبو علي الحنفي، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن دينار، قال حدثني أبي، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يبيع حاضر لباد‏.‏ وبه قال ابن عباس‏.‏
مجھ سے عبداللہ بن صباح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعلی حنفی نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی ا للہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی شہری، کسی دیہاتی کا مال بیچے۔ یہی ابن عباس رضی ا للہ عنہما نے بھی کہا ہے۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول اوپر گزرا کہ بستی والے باہر والا کا دلال نہ بنے۔ یعنی اجرت لے کر اس کا مال نہ بکوائے اور باب کا بھی یہی مطلب ہے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں و اعلم انہ کما لا یجوزان لا یبیع الحاضر للبادی کذلک لا یجوز ان یشتری لہ الخ یعنی جیسے کہ شہری کے لیے دیہاتی کا مال بیچنا منع ہے اسی طرح یہ بھی منع ہے کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کے لیے کوئی مال اس کی اطلاع اور پسند کے بغیر خریدے۔ یہ جملہ احکامات درحقیقت اس لیے ہیں کہ کوئی شہری کسی بھی صورت میں کسی دیہاتی سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : اس بیان میں کہ کوئی بستی والا باہر والے کے لیے دلالی کرکے مول نہ لے

وكرهه ابن سيرين وإبراهيم للبائع والمشتري، وقال إبراهيم إن العرب تقول بع لي ثوبا‏.‏ وهى تعني الشراء‏.‏
اور ابن سیرین اور ابراہیم نخعی رحمہما اللہ نے بیچنے اور خریدنے والے دونوں کے لیے اسے مکروہ قرار دیا ہے۔ اور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ عرب کہتے ہیں بع لی ثوبا یعنی کپڑا خرید لے۔

مطلب یہ ہے کہ حدیث میں جو لایبیع حاضر لباد ہے، یہ بیع اور شراءدونوں کو شامل ہے۔ جیسے شراءباع کے معنی میں آتا ہے۔ قرآن میں ہے و شروہ بثمن بخس دراہم یعنی باعوا ایسا ہی باع بھی شری کے معنوں میں آتا ہے اور دونوں صورتیں منع ہیں۔

حدیث نمبر : 2160
حدثنا المكي بن إبراهيم، قال أخبرني ابن جريج، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، أنه سمع أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏لا يبتاع المرء على بيع أخيه، ولا تناجشوا، ولا يبع حاضر لباد ‏"‏
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابن جریج نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں سعید بن مسیب نے، انہوں نے ابوہریرہ رضی ا للہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کوئی شخص اپنے کسی بھائی کے مول پر مول نہ کرے اور کوئی ” نجش “ نہ کرے، اور نہ کوئی شہری، کسی دیہاتی کے لیے بیچے یا مول لے۔

تشریح : امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں و قد اخرج ابوعوانۃ فی صحیحہ عن ابن سیرین قال لقیت انس بن مالک فقلت لا یبیع حاضر لباد انہیتہم ان تبیعوا او تبتاعوا لہم قال نعم الخ یعنی ابن سیرین نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا واقعی کوئی شہری کسی بھی دیہاتی کے لیے نہ کچھ مال بیچے نہ خریدے، انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ اور اس کی تائید اس حدیث نبوی سے بھی ہوتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، دعوا الناس یرزق اللہ بعضہم من بعض یعنی لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو، اللہ ان کے بعض کو بعض کے ذریعہ سے روزی دیتا ہے۔

حدیث نمبر : 2161
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا معاذ، حدثنا ابن عون، عن محمد، قال أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ نهينا أن يبيع حاضر لباد‏.‏
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معاذ بن معاذ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عون نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے کہ انس بن مالک رضی ا للہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمیں اس سے روکا گیا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال تجارت بیچے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : پہلے سے آگے جاکر قافلے والوں سے ملنے کی ممانعت اور یہ بیع رد کر دی جاتی ہے

کیوں کہ ایسا کرنے والا جان بوجھ کر گنہگار و خطاکار ہے اور یہ ایک قسم کا فریب ہے جو جائز نہیں۔
تشریح : جب کہیں باہر سے غلہ کی رسد آتی ہے تو بعض بستی والے یہ کرتے ہیں کہ ایک دو کوس بستی سے آگے نکل کر راہ میں ان بیوپاریوں سے ملتے ہیں اور ان کو دغا اوردھوکا دے کر بستی کا نرخ اترا ہوا بیان کرکے ان کا مال خرید لیتے ہیں۔ جب وہ بستی میں آتے ہیں تو وہاں کا نرخ زیادہ پاتے ہیں اور ان کو چکمہ دیا گیا ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایسی صورت میں بیع باطل اور لغو ہے۔ بعض نے کہا ایسا کرنا حرام ہے۔ لیکن بیع صحیح ہو جائے گی۔ اور ان کو اختیار ہوگا کہ بستی میں آکر وہاں کا نرخ دیکھ کر اس بیع کو قائم رکھیں یا فسخ کر ڈالیں۔ حنفیہ نے کہا کہ اگر قافلہ والوں سے آگے جاکر ملنا بستی والوں کو نقصان کا باعث ہو تب مکروہ ہے ورنہ نہیں۔

حدیث نمبر : 2162
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الوهاب، حدثنا عبيد الله، عن سعيد بن أبي سعيد، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن التلقي، وأن يبيع حاضر لباد‏.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ عمری نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید نے اور ان سے ابوہریرہ رضی ا للہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( تجارتی قافلوں سے ) آگے بڑھ کر ملنے سے منع فرمایا ہے اور بستی والوں کو باہر والوں کا مال بیچنے سے بھی منع فرمایا۔

حدیث نمبر : 2163
حدثني عياش بن الوليد، حدثنا عبد الأعلى، حدثنا معمر، عن ابن طاوس، عن أبيه، قال سألت ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ ما معنى قوله ‏"‏لا يبيعن حاضر لباد‏"‏‏. ‏ فقال لا يكن له سمسارا‏.
مجھ سے عیاش بن عبدالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معمر نے بیان کیا، ان سے ابن طاؤس نے، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس رضی ا للہ عنہما سے پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مطلب کیا ہے کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال نہ بیچے؟ تو انہوں نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ اس کا دلال نہ بنے۔

حدیث نمبر : 2164
حدثنا مسدد، حدثنا يزيد بن زريع، قال حدثني التيمي، عن أبي عثمان، عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ قال من اشترى محفلة فليرد معها صاعا‏.‏ قال ونهى النبي صلى الله عليه وسلم عن تلقي البيوع‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہ ہم سے تیمی نے بیان کیا، ان سے ابوعثمان نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی ا للہ عنہ نے بیان کیا کہ جو کوئی دودھ جمع کی ہوئی بکری خریدے ( وہ بکری پھیردے ) اور اس کے ساتھ ایک صاع دے دے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلہ والوں سے آگے بڑھ کر ملنے سے منع فرمایا۔

حدیث نمبر : 2165
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏لا يبيع بعضكم على بيع بعض، ولا تلقوا السلع حتى يهبط بها إلى السوق‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی ا للہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص کسی دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے اور جو مال باہر سے آ رہا ہو اس سے آگے جا کر نہ ملے جب تک وہ بازار میں نہ آئے۔

تشریح : بیع پر بیع کا مطلب ظاہرہے کہ ایک شخص کسی مسلمان بھائی کی دکان سے کوئی مال خرید رہا ہے ہم نے اسے جاکر بہکانا شروع کر دیا کہ آپ یہاں سے یہ مال نہ لیجئے ہم آپ کو اور بھی سستا دلا دیں گے۔ اس قسم کی باتیں کرنا بھی حرام ہیں۔ ایسے ہی کہیں جاکر بھاؤ چڑھا دینا محض خریدار کو نقصان پہنچانے کے لیے حالانکہ خود خریدنے کی نیت بھی نہیں ہے۔ یہ سب مکروہ فریب اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کی صورتیں ہیں جو سب حرام اور ناجائز ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : قافلے سے کتنی دور آگے جا کر ملنا منع ہے

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اس باب سے یہ ہے کہ اس کی کوئی حد مقرر نہیں۔ اگر بازار میں آنے سے ایک قدم بھی آگے جاکر ملا تو اس نے حرام کام کیا۔

حدیث نمبر : 2166
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا جويرية، عن نافع، عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ قال كنا نتلقى الركبان فنشتري منهم الطعام، فنهانا النبي صلى الله عليه وسلم أن نبيعه حتى يبلغ به سوق الطعام‏.‏ قال أبو عبد الله هذا في أعلى السوق، يبينه حديث عبيد الله‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ رضی ا للہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم آگے قافلوں کے پاس خود ہی پہنچ جایا کرتے تھے اور ( شہر میں پہنچنے سے پہلے ہی ) ان سے غلہ خرید لیا کرتے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس بات سے منع فرمایا کہ ہم اس مال کو اسی جگہ بیچیں جب تک اناج کے بازار میں نہ لائیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی ا للہ عنہما کا یہ ملنا بازار کے بلند کنارے پر تھا۔ ( جدھر سے سوداگر آیا کرتے تھے ) اور یہ بات عبید اللہ کی حدیث سے نکلتی ہے۔ ( جو آگے آتی ہے )

تشریح : اس روایت میں جو مذکور ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قافلہ والوں سے آگے جاکر ملتے اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ بستی سے نکل کر، یہ تو حرام اور منع تھا۔ بلکہ عبداللہ رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ ہے کہ بازار میں آجانے کے بعد اس کے کنارے پر ہم ان سے ملتے۔ کیوں کہ اس روایت میں اس امر کی ممانعت ہے کہ غلہ کو جہاں خریدیں وہاں نہ بیچیں اور اس کی ممانعت اس روایت میں نہیں ہے کہ قافلہ والوں سے آگے بڑھ کر ملنا منع ہے۔ ایسی حالت میں یہ روایت ان لوگوں کی دلیل نہیں ہوسکتی جنہوں نے قافلہ والوں سے آگے بڑھ کر ملنا درست رکھا ہے۔

حدیث نمبر : 2167
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن عبيد الله، قال حدثني نافع، عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ قال كانوا يبتاعون الطعام في أعلى السوق فيبيعونه في مكانهم، فنهاهم رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يبيعوه في مكانه حتى ينقلوه‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن قطان نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ نے، کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی ا للہ عنہما نے بیان کیا کہ لوگ بازار کی بلند جانب جاکر غلہ خریدتے اور وہیں بیچنے لگتے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ غلہ وہاں نہ بیچیں جب تک اس کو اٹھوا کر دوسری جگہ نہ لے جائیں۔

تشریح : معلوم ہوا کہ جب قافلہ بازار میں آجائے تو اس سے آگے بڑھ کر ملنا درست نہیں۔ بعض نے کہا بستی کی حد تک آگے بڑھ کر ملنا درست ہے۔ بستی سے باہرجاکر ملنا درست نہیں۔ مالکیہ نے کہا کہ اس میں اختلاف ہے، کوئی کہتا ہے کہ ایک میل سے کم آگے بڑھ کر ملنا درست ہے کوئی کہتا ہے کہ چھ میل سے کم پر، کوئی کہتا ہے کہ دو دن کی راہ سے کم پر۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : اگر کسی نے بیع میں ناجائز شرطیں لگائیں ( تو اس کا کیا حکم ہے )

حدیث نمبر : 2168
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت جاءتني بريرة فقالت كاتبت أهلي على تسع أواق في كل عام وقية، فأعينيني‏.‏ فقلت إن أحب أهلك أن أعدها لهم ويكون ولاؤك لي فعلت‏.‏ فذهبت بريرة إلى أهلها، فقالت لهم فأبوا عليها، فجاءت من عندهم ورسول الله صلى الله عليه وسلم جالس، فقالت إني قد عرضت ذلك عليهم فأبوا، إلا أن يكون الولاء لهم‏.‏ فسمع النبي صلى الله عليه وسلم فأخبرت عائشة النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏خذيها واشترطي لهم الولاء، فإنما الولاء لمن أعتق‏"‏‏. ‏ ففعلت عائشة ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم في الناس، فحمد الله وأثنى عليه، ثم قال ‏"‏أما بعد ما بال رجال يشترطون شروطا ليست في كتاب الله، ما كان من شرط ليس في كتاب الله فهو باطل وإن كان مائة شرط، قضاء الله أحق، وشرط الله أوثق، وإنما الولاء لمن أعتق‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے باپ عروہ نے، اور ان سے عائشہ رضی ا للہ عنہا نے بیان کیا کہ میرے پاس بریرہ رضی ا للہ عنہا ( جو اس وقت تک باندی تھیں ) آئیں اور کہنے لگیں کہ میں نے اپنے مالکوں سے نو اوقیہ چاندی پر کتابت کر لی ہے۔ شرط یہ ہوئی ہے کہ ہر سال ایک اوقیہ چاندی انہیں دیا کروں۔ اب آپ بھی میری کچھ مدد کیجئے۔ اس پر میں نے اس سے کہا کہ اگر تمہارے مالک یہ پسند کریں کہ یک مشت ان کا سب روپیہ میں ان کے لیے ( ابھی ) مہیا کردوں اور تمہارا ترکہ میرے لیے ہو تو میں ایسا بھی کرسکتی ہوں۔ بریرہ رضی ا للہ عنہا اپنے مالکوں کے پاس گئیں۔ اور عائشہ رضی ا للہ عنہا کی تجویز ان کے سامنے رکھی۔ لیکن انہوں نے اس سے انکار کیا، پھر بریرہ رضی ا للہ عنہا ان کے یہاں واپس آئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( عائشہ رضی ا للہ عنہا کے یہاں ) بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے تو آپ کی صورت ان کے سامنے رکھی تھی مگر وہ نہیں مانتے بلکہ کہتے ہیں کہ ترکہ تو ہمارا ہی رہے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سنی اور عائشہ رضی ا للہ عنہا نے بھی آپ کو حقیقت حال سے خبر کی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بریرہ رضی ا للہ عنہا کو تم لے لو اور انہیں ترکہ کی شرط لگانے دو۔ ترکہ تو اسی کا ہوتا ہے جو آزاد کرئے۔ عائشہ رضی ا للہ عنہا نے ایسا ہی کیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر لوگوں کے مجمع میں تشریف لے گئے اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا، کہ اما بعد ! کچھ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ( خریدو فروخت میں ) ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کی کتاب اللہ میں کوئی اصل نہیں ہے۔ جو کوئی شرط ایسی لگائی جائے جس کی اصل کتاب اللہ میں نہ ہو وہ باطل ہوگی۔ خواہ ایسی سو شرطیں کوئی کیوں نہ لگائے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم سب پر مقدم ہے اور اللہ کی شرط ہی بہت مضبوط ہے اور ولاءتو اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کرے۔

حدیث نمبر : 2169
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن عائشة، أم المؤمنين أرادت أن تشتري جارية فتعتقها، فقال أهلها نبيعكها على أن ولاءها لنا‏.‏ فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏لا يمنعك ذلك، فإنما الولاء لمن أعتق‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی ا للہ عنہما نے کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی ا للہ عنہا نے چاہا کہ ایک باندی کو خرید کر آزاد کردیں، لیکن ان کے مالکوں نے کہا کہ ہم انہیں اس شرط پر آپ کو بیچ سکتے ہیں کہ ان کی ولاءہمارے ساتھ رہے۔ اس کا ذکر جب عائشہ رضی ا للہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا تو آپ نے فرمایا کہ اس شرط کی وجہ سے تم قطعاً نہ رکو۔ ولاءتو اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کرے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : کھجور کو کھجور کے بدلہ میں بیچنا

حدیث نمبر : 2170
حدثنا أبو الوليد، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن مالك بن أوس، سمع عمر ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏البر بالبر ربا إلا هاء وهاء، والشعير بالشعير ربا إلا هاء وهاء، والتمر بالتمر ربا إلا هاء وهاء‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے مالک بن اوس نے، انہوں نے حضرت عمر رضی ا للہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، گیہوں کو گیہوں کے بدلہ میں بیچنا سود ہے، لیکن یہ کہ سودا ہاتھوں ہاتھ ہو۔ جو کو جو کے بدلہ میں بیچنا سود ہے، لیکن یہ کہ ہاتھوں ہاتھ ہو۔ اور کھجور کو کھجور کے بدلہ میں بیچنا سود ہے لیکن یہ کہ سودا ہاتھوں ہاتھ، نقدا نقد ہو۔

تشریح : مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے اور نمک بیچنا نمک کے بدلے بیا ج ہے مگر ہاتھوں ہاتھ۔ بہرحال جب ان میں سے کوئی چیز اپنی جنس کے بدل بیچی جائے تو یہ ضروری ہے کہ دونوں ناپ تول میں برابر ہوں، نقدا نقد ہوں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : منقی کو منقی کے بدل اور اناج کو اناج کے بدل بیچنا

حدیث نمبر : 2171
حدثنا إسماعيل، حدثنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن المزابنة، والمزابنة بيع الثمر بالتمر كيلا، وبيع الزبيب بالكرم كيلا‏.
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی ا للہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع فرمایا، مزابنہ یہ کہ درخت پر لگی ہوئی کھجور خشک کھجور کے بدلہ ماپ کرکے بیچی جائے۔ اسی طرح بیل پر لگے ہوئے انگور کو منقیٰ کے بدل بیچنا۔

تشریح : یعنی وہ کھجور جو ابھی درخت سے نہ اتری ہو، اسی طرح وہ انگور جو ابھی بیل سے نہ توڑا گیا ہو اس کا اندازہ کرکے خشک کھجور یا منقیٰ کے بدل بیچنا درست نہیں کیوں کہ اس میں کمی بیشی کا احتمال ہے۔

حدیث نمبر : 2172
حدثنا أبو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن أيوب، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن المزابنة قال والمزابنة أن يبيع الثمر بكيل، إن زاد فلي وإن نقص فعلى‏.‏
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے، ان سے ایوب نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی ا للہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع فرمایا۔ انہوں نے بیان کیا کہ مزابنہ یہ ہے کہ کوئی شخص درخت پر کی کھجور سوکھی کھجور کے بدل ماپ تول کر بیچے۔ اور خریدار کہے اگر درخت کا پھل اس سوکھے پھل سے زیادہ نکلے تو وہ اس کا ہے اور کم نکلے تو وہ نقصان بھر دے گا۔

حدیث نمبر : 2173
قال وحدثني زيد بن ثابت، أن النبي صلى الله عليه وسلم رخص في العرايا بخرصها‏.
عبداللہ بن عمر رضی ا للہ عنہما نے بیان کیا، کہ مجھے سے زید بن ثابت رضی ا للہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عرایا کی اجازت دے دی تھی جو اندازے ہی سے بیع کی ایک صورت ہے۔

تشریح : عرایا بھی مزابنہ ہی ایک قسم ہے۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خاص طور سے اجازت دی بوجہ ضرورت کے۔ وہ ضرورت یہ تھی کہ لوگ خیرات کے طور پر ایک دو درخت کا میوہ کسی محتاج کو دیا کرتے تھے پھر اس کا باغ میں گھڑی گھڑی آنا مالک کوناگوار ہوتا۔ تو اس میوہ کا اندازہ کرکے اتنی خشک میوے کے بدل وہ درخت اس فقیر سے خرید لیتے۔
 
Top