• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : جوکے بدلے جو کی بیع کرنا

حدیث نمبر : 2174
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن مالك بن أوس، أخبره أنه التمس، صرفا بمائة دينار، فدعاني طلحة بن عبيد الله فتراوضنا، حتى اصطرف مني، فأخذ الذهب يقلبها في يده، ثم قال حتى يأتي خازني من الغابة، وعمر يسمع ذلك، فقال والله لا تفارقه حتى تأخذ منه، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏الذهب بالذهب ربا إلا هاء وهاء، والبر بالبر ربا إلا هاء وهاء، والشعير بالشعير ربا إلا هاء وهاء، والتمر بالتمر ربا إلا هاء وهاء‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، اور انہیں مالک بن اوس رضی ا للہ عنہ نے خبر دی کہ انہیں سو اشرفیاں بدلنی تھیں۔ ( انہوں نے بیان کا کہ ) پھر مجھے طلحہ بن عبید اللہ رضی ا للہ عنہما نے بلایا۔ اور ہم نے ( اپنے معاملہ کی ) بات چیت کی۔ اور ان سے میرا معاملہ طے ہو گیا۔ وہ سونے ( اشرفیوں ) کو اپنے ہاتھ میں لے کر الٹنے پلٹنے لگے اور کہنے لگے کہ ذرا میرے خزانچی کو غابہ سے آ لینے دو۔ عمر رضی ا للہ عنہ بھی ہماری باتیں سن رہے تھے، آپ رضی ا للہ عنہ نے فرمایا خدا کی قسم ! جب تک تم طلحہ سے روپیہ لے نہ لو، ان سے جدا نہ ہونا کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سونا سونے کے بدلہ میں اگر نقد نہ ہو تو سود ہوجاتا ہے۔ گیہوں گیہوں کے بدلے میں اگر نقد نہ ہو تو سود ہوجاتا ہے۔ جو جو کے بدلہ میں اگر نقد نہ ہو تو سود ہوجاتا ہے اور کھجور، کھجور کے بدلہ میں اگر نقد نہ ہو تو سود ہو جاتی ہے۔

تشریح : لفظ ہاءو ہاءکی لغوی تحقیق علامہ شوکانی یوں فرماتے ہیں : ( و ہاءو ہاء ) بالمد فیہما و فتح الہمزۃ و قیل بالکسر و قیل بالسکون و المعنی خذوہات و یقال ہاءبکسر الہمزۃ بمعنی ہات و بفتحہا بمعنی خذو قال ابن الاثیر ہاءو ہاءہو ان یقول کل واحد من البیعین ہاءفیعطیہ ما فی یدہ و قال الخلیل ھاءکلمۃ تستمل عند المناولۃ و القمصود من قولہ ہاءو ہاءان یقول کل واحد من المتعاقدین لصاحبہ ہاءفیتقابضان فی المجلس ( نیل ) خلاصہ مطلب یہ ہے کہ لفظ ہاءمد کے ساتھ اور ہمزہ کے فتح اور کسرہ ہر دو کے ساتھ مستعمل ہیں بعض لوگوں نے اسے ساکن بھی کہا ہے۔ اس کے معنی خذ ( لے لے ) اور ہات ( یعنی لا ) کے ہیں۔ اور ایسا بھی کہا گیا ہے کہ ہاءہمزہ کے کسرہ کے ساتھ ( لا ) کے معنی میں ہے اور فتح کے ساتھ خذ ( پکڑ ) کے معنی میں ہے۔ ابن اثیر نے کہا کہ ہاءو ہاءکہ خرید و فروخت کرنے والے ہر دو ایک دوسرے کو دیتے ہیں۔ خریدار روپے دیتا ہے اور تاجر مال ادا کرتا ہے اس لیے اس کا ترجمہ ہاتھوں ہاتھ کیا گیا، گویا ایک مجلس میں ان ہر دو کا قبضہ ہو جاتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : سونے کو سونے کے بدلہ میں بیچنا

حدیث نمبر : 2175
حدثنا صدقة بن الفضل، أخبرنا إسماعيل ابن علية، قال حدثني يحيى بن أبي إسحاق، حدثنا عبد الرحمن بن أبي بكرة، قال قال أبو بكرة ـ رضى الله عنه ـ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏لا تبيعوا الذهب بالذهب إلا سواء بسواء، والفضة بالفضة إلا سواء بسواء، وبيعوا الذهب بالفضة والفضة بالذهب كيف شئتم‏"‏‏. ‏
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو اسماعیل بن علیہ نے خبر دی، کہا کہ مجھے یحییٰ بن ابی اسحاق نے خبر دی، ان سے عبدالرحمن بن ابی بکرہ نے بیان کیا، ان سے ابوبکرہ رضی ا للہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سونا، سونے کے بدلے میں اس وقت تک نہ بیچو جب تک ( دونوں طرف سے ) برابر برابر ( کی لین دین ) نہ ہو۔ اسی طرح چاندی، چاندی کے بدلہ میں اس وقت تک نہ بیچو جب تک ( دونوں طرف سے ) برابر برابر نہ ہو۔ البتہ سونا، چاندی کے بدل اور چاندی سونے کے بدل میں جس طرح چاہو بیچو۔

یعنی اس میں کمی بیشی درست ہے مگر ہاتھوں ہاتھ کی شرط اس میں بھی ہے ایک طرف نقد دوسری طرف ادھار درست نہیں اور سونے چاندی سے عام مراد ہے مسکوک ہو یا غیر مسکوک۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : چاندی کو چاندی کے بدلے میں بیچنا

حدیث نمبر : 2176
حدثنا عبيد الله بن سعد، حدثنا عمي، حدثنا ابن أخي الزهري، عن عمه، قال حدثني سالم بن عبد الله، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن أبا سعيد، حدثه مثل، ذلك حديثا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فلقيه عبد الله بن عمر فقال يا أبا سعيد، ما هذا الذي تحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال أبو سعيد في الصرف سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏الذهب بالذهب مثلا بمثل والورق بالورق مثلا بمثل‏"‏‏. ‏
ہم سے عبید اللہ بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے چچا نے بیان کیا، کہا ہم سے زہری کے بھتیجے نے بیان کیا، ان سے ان کے چچا نے بیان کیا کہ مجھ سے سالم بن عبداللہ رضی ا للہ عنہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عمر رضی ا للہ عنہما نے کہ ابوسعید خدری رضی ا للہ عنہ نے اسی طرح ایک حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے بیان کی ( جیسے ابوبکرہ رضی ا للہ عنہ یا حضرت عمر رضی ا للہ عنہ سے گزری ) پھر ایک مرتبہ عبداللہ بن عمر رضی ا للہ عنہ کی ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پوچھا، اے ابوسعید ! آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے یہ کون سی حدیث بیان کرتے ہیں؟ ابوسعید خدری رضی ا للہ عنہ نے فرمایا کہ حدیث بیع صرف ( یعنی روپیہ اشرفیاں بدلنے یا توڑوانے ) سے متعلق ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنا تھا کہ سونا سونے کے بدلے میں برابر برابر ہی بیچا جاسکتاہے اور چاندی چاندی کے بدلہ میں برابر برابر ہی بیچی جاسکتی ہے۔

حدیث نمبر : 2177
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن نافع، عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏لا تبيعوا الذهب بالذهب إلا مثلا بمثل، ولا تشفوا بعضها على بعض، ولا تبيعوا الورق بالورق إلا مثلا بمثل، ولا تشفوا بعضها على بعض، ولا تبيعوا منها غائبا بناجز ‏"‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سونا سونے کے بدلے اس وقت تک نہ بیچو جب تک دونوں طرف سے برابر برابر نہ ہو، دونوں طرف سے کسی کمی یا زیادتی کو روا نہ رکھو، اور چاندی کو چاندی کے بدلے میں اس وقت تک نہ بیچو جب تک دونوں طرف سے برابر برابر نہ ہو۔ دونوں طرف سے کسی کمی یا زیادتی کو روا نہ رکھو اور نہ ادھار کو نقد کے بدلے میں بیچو۔

تشریح : اس حدیث میں حضرت امام شافعی کی حجت ہے کہ اگرایک شخص کے دوسرے پر درہم قرض ہوں اور اس کے اس پر دینار قرض ہوں، تو ان کی بیع جائز نہیں کیوں کہ یہ بیع الکالئی بالکائی ہے۔ یعنی ادھار کو ادھار کے بدل بیچنا۔ اور ایک حدیث میں صراحتاً اس کی ممانعت وارد ہے اور اصحاب سننن نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نکالا کہ میں بقیع میں اونٹ بیچا کرتا تھا تو دیناروں کے بدل بیچتا اور درہم لیتا، اور درہم کے بدل بیچتا تو دینار لے لیتا۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس مسئلہ کو پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ بشرطیکہ اسی دن کے نرخ سے لے۔ اور ایک دوسرے سے بغیر لیے جدا نہ ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : اشرفی اشرفی کے بدلے ادھار بیچنا

حدیث نمبر : 2178-2179
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا الضحاك بن مخلد، حدثنا ابن جريج، قال أخبرني عمرو بن دينار، أن أبا صالح الزيات، أخبره أنه، سمع أبا سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ يقول الدينار بالدينار، والدرهم بالدرهم‏. فقلت له: فإن ابن عباس لا يقوله، فقال أبو سعيد: سألته، فقلت: سمعته من النبي صلى الله عليه وسلم، أو وجدته في كتاب الله؟. قال: كل ذلك لا أقول، وأنتم أعلم برسول الله صلى الله عليه وسلم مني، ولكنني أخبرني أسامة: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (لا ربا إلا في النسيئة).‏
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ضحاک بن مخلد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی، انہیں ابوصالح زیات نے خبر دی، اور انہوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ دینار، دینار کے بدلے میں اور درہم درہم کے بدلے میں ( بیچا جاسکتا ہے ) اس پر میں نے ان سے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما تو اس کی اجازت نہیں دیتے۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کے متعلق پوچھا کہ آپ نے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا یا کتاب اللہ میں آپ نے اسے پایا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ان میں سے کسی بات کامیں دعویدار نہیں ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( کی احادیث ) کو آپ لوگ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ البتہ مجھے اسامہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( مذکورہ صورتوں میں ) سود صرف ادھار کی صورت میں ہوتا ہے۔

تشریح : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا مذہب یہ ہے کہ بیاج اس صورت میں ہوتا ہے جب ایک طرف ادھار ہو۔ اگر نقد ایک درہم دو درہم کے بدلے میں بیچے تو یہ درست ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی دلیل یہ حدیث ہے لا ربوا الا فی النسیئۃ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اس فتوی پر جب اعتراضات ہوئے تو انہوں نے کہا میں یہ نہیں کہتا کہ اللہ کی کتاب میں میں نے یہ مسئلہ پایا ہے، نہ یہ کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ کیو نکہ میں اس زمانہ میں بچہ تھا اور تم جوان تھے۔ رات دن آپ کی صحبت بابرکت میں رہا کرتے تھے۔

قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے فتوے کے خلاف اب اجماع ہو گیا ہے۔ بعض نے کہا کہ یہ محمول ہے اس پر جب جنس مختلف ہوں۔ جیسے ایک طرف چاندی دوسری طرف سونا، یا ایک طرف گیہوں اور دوسری طرف جوار ہو ایسی حالت میں کمی بیشی درست ہے۔ بعض نے کہ حدیث لا ربوا الا فی النسیئۃ منسوخ ہے مگر صرف احتمال سے نسخ ثابت نہیں ہوسکتا۔ صحیح مسلم میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نہیں ہے بیاج اس بیع میں جو ہاتھوں ہاتھ ہو۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس قول سے رجوع کر لیا تھا۔
امام شوکانی فرماتے ہیں : و قد روی الحازمی رجوع ابن عباس و استغفارہ عندما سمع عمر بن الخطاب و ابنہ عبداللہ یحدثان عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بما یدل علی تحریم ربواالفضل و قال حفظتما من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما لم احفظ و روی عنہ الحازمی ایضاً انہ قال کان ذلک برای و ہذا ابوسعید الخدری یحدثنی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فترکت رائی الی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الخ

یعنی حازمی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا اس سے رجوع اور استغفار نقل کیا ہے جب انہوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے سے اس بیع کی حرمت میں فرمان رسالت سنا تو افسوس کے طور پر کہا کہ آپ لوگوں نے فرمان رسالت یاد رکھا، لیکن افسوس کہ میں یاد نہ رکھ سکا۔ اور بروایت حازمی انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں نے جو کہا تھا وہ صرف میری رائے تھے، اور میں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے حدیث نبوی سن کر اپنی رائے کو چھوڑ دیا۔
دیانتداری کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جب قرآن وحدیث کے نصوص صریحہ سامنے آجائیں تو کسی بھی رائے اور قیاس کو حجت نہ گردانا جائے اور کتاب و سنت کو مقدم رکھا جائے حتی کہ جلیل القدر ائمہ دین کی آراءبھی نصوص صریحہ کے خلاف نظر آئیں تو نہایت ہی ادب و احترام کے ساتھ آراءکے مقابلہ میں کتاب و سنت کو جگہ دی جائے۔
ائمہ اسلام حضرت امام ابوحنیفہ و اما م شافعی و امام مالک وامام احمد بن حنبل رحمہم اللہ اجمعین سب کا یہی ارشاد ہے کہ ہمارے فتاوے کو کتاب و سنت پر پیش کرو، موافق ہوں توقبول کرو۔ اگر خلاف نظر آئیں تو کتاب و سنت کو مقدم رکھو۔
امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جلیل القدر کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں ایسے ارشادات ائمہ کو کئی جگہ نقل فرمایا مگر صد افسوس کہ امت کا کثیر طبقہ وہ ہے جو اپنے اپنے حلقہ ارادت میں جمود کا سختی سے شکار ہے اور وہ اپنے اپنے مزعومہ مسلک کے خلاف قرآن مجید کی کسی آیت یا کسی بھی صاف صریح حدیث نبوی کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔
حضرت حالی مرحوم نے ایسے ہی لوگوں کے حق میں فرمایا ہے :

سدا اہل تحقیق سے دل میں بل ہے
حدیثوں پہ چلنے میں دیں کا خلل ہے
فتاووں پہ بالکل مدار عمل ہے
ہر اک رائے قرآں کا نعم البدل ہے
نہ ایمان باقی نہ اسلام باقی
فقط رہ گیا نام اسلام باقی

 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : چاندی کو سونے کے بدلے ادھار بیچنا

حدیث نمبر : 2180-2181
حدثنا حفص بن عمر، حدثنا شعبة، قال أخبرني حبيب بن أبي ثابت، قال سمعت أبا المنهال، قال سألت البراء بن عازب وزيد بن أرقم ـ رضى الله عنهم ـ عن الصرف،، فكل واحد منهما يقول هذا خير مني‏.‏ فكلاهما يقول نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الذهب بالورق دينا‏.
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے حبیب بن ابی ثابت نے خبر دی، کہا کہ میں نے ابوالمنہال سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے براءبن عازب اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہما سے بیع صرف کے متعلق پوچھا تو ان دونوں حضرات نے ایک دوسرے کے متعلق فرمایا کہ یہ مجھ سے بہتر ہیں۔ آخر دونوں حضرات نے بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کو چاندی کے بدلے میں ادھار کی صورت میں بیچنے سے منع فرمایا ہے۔

تشریح : اگر اسباب کی بیع اسباب کے ساتھ ہو تو اس کو مقایضہ کہتے ہیں۔ اگر اسباب کی نقد کے ساتھ ہو تو نقد کو ثمن اور اسباب کو عرض کہیں گے۔ اگر نقد کی نقد کے ساتھ ہو مگر ہم جنس ہو یعنی سونے کو سونے کے ساتھ بدلے یا چاندی کو چاندی کے ساتھ تو اس کو مراطلہ کہتے ہیں۔ اگر جنس کا اختلاف ہو جیسے چاندی سونے کے بدل یا بالعکس تو اس کو صرف کہتے ہیں۔ صرف میں کمی بیشی درست ہے مگر حلول یعنی ہاتھوں ہاتھ لین دین ضروری اورلازم ہے اور قبض میں دیر کرنی درست نہیں۔ اور مراطلہ میں تو برابر برابر اور ہاتھوں ہاتھ دونوں باتیں ضروری ہیں۔ اگر ثمن اور عرض کی بیع ہو تو ثمن یا عرض کے لیے میعاد مقررکرنا درست ہے۔ اگر ثمن میں میعاد ہو تو وہ قرض ہے ا گر عرض میں میعاد ہو تو وہ سلم ہے یہ دونوں درست ہیں۔ اگر دونوں میں میعاد ہو تو وہ بیع الکلالئی بالکالئی ہے جو درست نہیں۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : سونا، چاندی کے بدلے نقد، ہاتھوں ہاتھ بیچنا درست ہے

حدیث نمبر : 2182
حدثنا عمران بن ميسرة، حدثنا عباد بن العوام، أخبرنا يحيى بن أبي إسحاق، حدثنا عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن أبيه ـ رضى الله عنه ـ قال نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن الفضة بالفضة والذهب بالذهب، إلا سواء بسواء، وأمرنا أن نبتاع الذهب بالفضة كيف شئنا، والفضة بالذهب كيف شئنا‏.‏
ہم سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عباد بن عوام نے، کہا کہ ہم کو یحییٰ بن ابی اسحق نے خبر دی، ان سے عبدالرحمن بن ابی بکرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، اور ان سے ان کے باپ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی، چاندی کے بدلے میں اور سونا سونے کے بدلے میں بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ مگر یہ کہ برابر برابر ہو۔ البتہ سونا چاندی کے بدلے میں جس طرح چاہیں خریدیں۔ اسی طرح چاندی سونے کے بدلے جس طرح چاہیں خریدیں۔

اس حدیث میں ہاتھوں ہاتھ کی قید نہیں ہے مگر مسلم کی دوسری روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ ہاتھوں ہاتھ یعنی نقدا نقد ہونا اس میں بھی شرط ہے اور بیع صرف میں قبضہ شرط ہونے پر علماءکا اتفاق ہے۔ اختلاف اس میں ہے کہ جب جنس ایک ہو تو کمی بیشی درست ہے یا نہیں، جمہور کا قول یہی ہے کہ درست نہیں ہے۔ واللہ اعلم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : بیع مزابنہ کے بیان میں

وهى بيع الثمر بالتمر وبيع الزبيب بالكرم وبيع العرايا‏.‏ قال أنس نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن المزابنة والمحاقلة‏.‏
اور یہ خشک کھجور کی بیع درخت پر لگی ہوئی کھجور کے بدلے اور خشک انگور کی بیع تازہ انگور کے بدلے میں ہوتی ہے اور بیع عرایا کا بیان۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ اور محاقلہ سے منع فرمایا ہے۔

تشریح : اس کو خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آگے چل کر وصل کیا ہے، مزابنہ کے معنی تو معلوم ہو چکے۔ محاقلہ یہ ہے کہ ابھی گیہوں کھیت میں ہو، بالیوں میں اس کا اندازہ کرکے اس کو اترے ہوئے گیہوں کے بدلے میں بیچے۔ یہ بھی منع ہے۔ محاقلہ کی تفسیر میں امام شوکانی فرماتے ہیں۔ قد اختلف فی تفسیرہا فمنم من فسرہا فی الحدیث فقال ہی بیع الحقل بکیل من الطعام و قال ابوعبید ہی بیع الطعام فی سنبلہ و الحقل الحرث و موضع الزرع۔ یعنی محاقلہ کی تفسیرمیں اختلاف کیا گیا ہے۔ بعض لوگوں نے اس کی تفسیر اس کھیت سے کی ہے جس کی کھڑی کھیتی کو اندازاً مقررہ مقدار کے غلہ سے بیچ دیا جائے۔ ابوعبید نے کہا وہ غلہ کو اس کی بالیوں میں بیچنا ہے اور حقل کا معنی کھیتی اور مقام زراعت کے ہیں۔ یہ بیع محاقلہ ہے جسے شرع محمدی میں منع قرار دیا گیا۔ کیوں کہ اس میں جانبین کو نفع و نقصان کا احتمال قوی ہے۔

مزابنہ کی تفسیر میں حضرت امام مذکور فرماتے ہیں : والمزابنۃ بالزای و الموحدۃ و النون قال فی الفتح ہی مفاعلۃ من الزبن بفتح الزای و سکون الموحدۃ وہو الدفع الشدید و منہ سمیت الحرب الزبون لشدۃ الدفع فیہا و قیل للبیع المخصوص مزابنۃ کان کل واحد من المتبایعین یدفع صاحبہ عن حقہ او لان احدہما اذا وقف مافیہ من الغبن اراد دفع البیع یفسخہ و اراد الاخر دفعہ عن ہذہ الارادۃ بامضاءالبیع و قد فسرت بما فی الحدیث اعنی بیع النخل باوساق من التمر و فسرت بہذا و بیع العنب بالزبیب کما فی الصحیحین الخ ( نیل ) مزابنہ زبن سے مفاعلہ کا مصدر ہے۔ جس کا معنی رفع شدید کے ہیں، اسی لیے لڑائی کا نام بھی زبون رکھا گیا کیوں کہ اس میں شدت سے مدافعت کی جاتی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیع مخصوص کا نام مزابنہ ہے۔ گویا دینے والا اور لینے والا دونوں میں سے ہر شخص ایک دوسرے کو اس کے حق سے محروم رکھنے کی شدت سے کوشش کرتا ہے یا یہ معنی کہ ان دونوں میں سے جب ایک اس سودے میں غبن سے واقف ہوتا ہے تو وہ اس بیع کو فسخ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور دوسرا بیع کا نفاذ کرکے اسے اس ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور حدیث کی بھی تفسیر کر چکا ہوں۔ یعنی تر کھجور کو خشک کھجور سے بیچنا اور انگوروں کو منقیٰ سے بیچنا جیسا کہ صحیحین میں ہے۔

عہد جاہلیت میں بیوع کے یہ جملہ مذموم طریقے جاری تھے۔ اور ان میں نفع و نقصان ہر دو کا قوی احتمال ہوتا تھا۔ بعض دفعہ لینے والے کے وارے نیارے ہو جاتے اور بعض دفعہ وہ اصل پونچی کو بھی گنوا بیٹھتا۔ اسلام نے ان جملہ طریقہ ہائے بیوع کو سختی سے منع فرمایا۔ آج کل ایسے دھوکہ کے طریقوں کی جگہ لاٹری، سٹہ، ریس وغیرہ نے لے لی ہے۔ جو اسلامی احکام کی روشنی میں نہ صرف ناجائز بلکہ سود بیاج کے دائرہ میں داخل ہیں۔ خرید و فروخت میں دھوکہ کرنے والے کے حق میں سخت ترین وعیدیں آئی ہیں۔ مثلاً ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا من غشنا فلیس منا جو دھوکہ بازی کرنے ولا ہے وہ ہماری امت سے خارج ہے وغیرہ وغیرہ۔
سچے مسلمان تاجر کا فرض ہے کہ امانت، دیانت، صداقت کے ساتھ کاروبار کرے، اس سے اس کو ہر قسم کی برکتیں حاصل ہوں گی اور آخرت میں انبیاءو صدیقین و شہداءو صالحین کا ساتھ نصیب ہوگا۔ جعلنا اللہ منہم آمین یا رب العالمین۔

حدیث نمبر : 2183
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، أخبرني سالم بن عبد الله، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏لا تبيعوا الثمر حتى يبدو صلاحه، ولا تبيعوا الثمر بالتمر ‏"‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا اور ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں سالم بن عبداللہ نے خبر دی، اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پھل ( درخت پر کا ) اس وقت تک نہ بیچو جب تک اس کا پکا ہونا نہ کھل جائے۔ اور درخت پر لگی ہوئی کھجور کو خشک کھجور کے بدلے میں نہ بیچو۔

حدیث نمبر : 2184
قال سالم وأخبرني عبد الله، عن زيد بن ثابت، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رخص بعد ذلك في بيع العرية بالرطب أو بالتمر، ولم يرخص في غيره‏.
سالم نے بیان کیا کہ مجھے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی، اور انہیں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہ بعد میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع عریہ کی تر یا خشک کھجور کے بدلہ میں اجازت دے دی تھی لیکن اس کے سوا کسی صورت کی اجازت نہیں دی تھی۔

تشریح : اسی طرح تر کھجور خشک کھجور کے بدل برابر برابر بیچنا ناجائز ہے کیوں کہ تر کھجور سوکھے سے وزن میں کم ہو جاتی ہے، جمہور علماءکا یہی قول ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے جائز رکھا ہے۔ عرایا عریہ کی جمع ہے۔ حنفیہ نے برخلاف جمہور علماءکے عرایا کو بھی جائز نہیں رکھا کیوں کہ وہ بھی مزابنہ میں داخل ہے اور ہم کہتے ہیں کہ جہاں مزابنہ کی ممانعت آئی ہے وہیں یہ مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عرایا کی اجازت دے دی۔

حدیث نمبر : 2185
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن المزابنة‏.‏ والمزابنة اشتراء الثمر بالتمر كيلا، وبيع الكرم بالزبيب كيلا‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے، انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع فرمایا، مزابنہ درخت پر لگی ہوئی کھجور کو ٹوٹی ہوئی کھجور کے بدلے ناپ کر اور درخت کے انگور کو خشک انگور کے بدلے میں ناپ کر بیچنے کو کہتے ہیں۔

حدیث نمبر : 2186
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن داود بن الحصين، عن أبي سفيان، مولى ابن أبي أحمد عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن المزابنة والمحاقلة‏.‏ والمزابنة اشتراء الثمر بالتمر في رءوس النخل‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں داؤد بن حصین نے، انہیں ابن ابی احمد کے غلام ابوسفیان نے اور انہیں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ اور محاقلہ سے منع فرمایا، مزابنہ درخت پر کی کھجور توڑی ہوئی کھجور کے بدلے میں خریدنے کو کہتے ہیں۔

حدیث نمبر : 2187
حدثنا مسدد، حدثنا أبو معاوية، عن الشيباني، عن عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن المحاقلة والمزابنة‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معاویہ نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا۔

حدیث نمبر : 2188
حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر، عن زيد بن ثابت ـ رضى الله عنهم ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أرخص لصاحب العرية أن يبيعها بخرصها‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحب عریہ کو اس کی اجازت دی کہ اپنا عریہ اس کے اندازے برابر میوے کے بدل بیچ ڈالے۔

یعنی باغ والے کے ہاتھ۔ یہ صحیح ہے کہ عریہ بھی مزابنہ ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی۔ اس وجہ سے کہ عریہ خیر خیرات کا کام ہے۔ اگر عریہ میں یہ اجازت نہ دی جاتی تو لوگ کھجور یا میوے کے درخت مسکینوں کو للہ دینا چھوڑ دیتے۔ اس لیے کہ اکثر لوگ یہ خیال کرتے کہ ہمارے باغ میں رات بے رات مسکین گھستے رہیں گے۔ اور ان کے گھسنے اور بے موقع آنے سے ہم کو تکلیف ہوگی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : درخت پر پھل، سونے اور چاندی کے بدلے بیچنا

حدیث نمبر : 2189
حدثنا يحيى بن سليمان، حدثنا ابن وهب، أخبرنا ابن جريج، عن عطاء، وأبي الزبير، عن جابر ـ رضى الله عنه ـ قال نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع الثمر حتى يطيب، ولا يباع شىء منه إلا بالدينار والدرهم إلا العرايا‏.‏
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انہیں ابن جریج نے خبر دی، انہیں عطاءاور ابوزبیر نے اور انہیں جابر رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کے پکنے سے پہلے بیچنے سے منع کیا ہے اور یہ کہ اس میں سے ذرہ برابر بھی درہم و دینا کے سوا کسی اور چیز ( سوکھے پھل ) کے بدلے نہ بیچی جائے البتہ عریہ کی اجازت دی۔

حدیث نمبر : 2190
حدثنا عبد الله بن عبد الوهاب، قال سمعت مالكا، وسأله، عبيد الله بن الربيع أحدثك داود عن أبي سفيان، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم رخص في بيع العرايا في خمسة أوسق أو دون خمسة أوسق قال نعم‏.
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے امام مالک سے سنا، ان سے عبید اللہ بن ربیع نے پوچھا کہ کیا آپ سے داؤد نے سفیان سے او رانہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ و سق یا اس سے کم میں بیع عریہ کی اجازت دے دی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں !

تشریح : ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔ ایک صاع پونے چھ رطل کا۔ جیسا کہ اوپر گزراہے اکثر خیرات اس کے اندر کی جاتی ہے تو آپ نے یہ حد مقرر فرما دی۔ ابوحنفیہ کا یہ کہنا کہ عرایا کی حدیث منسوخ ہے یا معارض ہے مزابنہ کی حدیث کے، صحیح نہیں۔ کیوں کہ نسخ کے لیے تقدیم تاخیر ثابت کرنا ضروری ہے اور معارضہ جب ہوتا کہ مزابنہ کی نہی کے ساتھ عرایا کا استثناءنہ کیا جاتا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع فرماتے وقت عرایا کو مستثنی کردیا تو اب تعارض کہاں رہا۔

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :
قال ابن المنذر ادعی الکوفیون ان بیع العرایا منسوخ بنہیہ صلی اللہ علیہ وسلم عن بیع الثمر بالثمر و ہذا مردود لان الذی روی النہی عن بیع التمر بالتمر ہو الذی روی الرخصۃ فی العرایا فاثبت النہی و الرخصۃ معا قلت و روایۃ سالم الماضیۃ فی الباب الذی قبلہ تدل علی ان الرخصۃ فی بیع العرایا وقع بعد النہی عن بیع التمر بالتمر و لفظہ عن ابن عمر مرفوعاً و لا تبیعوا التمر بالتمر قال و عن زید بن ثابت انہ صلی اللہ علیہ وسلم رخص بعد ذلک فی بیع العریۃ و ہذا ہو الذی بقتضیہ لفظ الرخصۃ فانہا تکون بعد منع و کذلک بقیۃ الاحادیث التی وقع فیہا استثناءالعرایا بعد ذکر بیع الثمر بالتمر و قد قدمت ایضاح ذلک ( الفتح الباری )

یعنی بقول ابن منذر اہل کوفہ کا یہ دعویٰ کہ بیع عرایا کی اجازت منسوخ ہے اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت پر کی کھجوروں کو سوکھی کھجوروں کے بدلے میں بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ اور اہل کوفہ کا یہ دعویٰ مردو د ہے اس لیے کہ نہی کی روایت کرنے والے روای ہی نے بیع عرایا کی رخصت بھی روایت کی ہے۔ پس انہوں نے نہی اور رخصت ہر دو کو اپنی اپنی جگہ ثابت رکھا ہے اور میں کہتا ہوں کہ سالم کی روایت جو بیع عرایا کی رخصت میں مذکور ہو چکی ہے، وہ بیع الثمر بالتمر کی نہی کے بعد کی ہے اور ان کے لفظ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً یہ ہے کہ نہ بیچو ( درخت پر کی ) کھجور کو خشک کھجور سے۔ کہا کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد بیع عرایا کی رخصت دے دی، اور یہ رخصت ممانعت کے بعد کی ہے اور اسی طرح بقایا احادیث ہیں جن میں بیع الثمر بالتمر کے بعد بیع عرایا کی رخصت کا مستثنی ہونا مذکور ہے اور میں ( ابن حجر ) واضح طور پر پہلے بھی اسے بیان کر چکا ہوں۔

حدیث نمبر : 2191
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال قال يحيى بن سعيد سمعت بشيرا، قال سمعت سهل بن أبي حثمة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الثمر بالتمر، ورخص في العرية أن تباع بخرصها يأكلها أهلها رطبا‏.‏ وقال سفيان مرة أخرى إلا أنه رخص في العرية يبيعها أهلها بخرصها، يأكلونها رطبا‏.‏ قال هو سواء‏.‏ قال سفيان فقلت ليحيى وأنا غلام إن أهل مكة يقولون إن النبي صلى الله عليه وسلم رخص في بيع العرايا‏.‏ فقال وما يدري أهل مكة قلت إنهم يروونه عن جابر‏.‏ فسكت‏.‏ قال سفيان إنما أردت أن جابرا من أهل المدينة‏.‏ قيل لسفيان وليس فيه نهى عن بيع الثمر حتى يبدو صلاحه قال لا‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ یحییٰ بن سعید نے بیان کیا کہ میں نے بشیر سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت پر لگی ہوئی کھجور کو توڑی ہوئی کھجور کے بدلے بیچنے سے منع فرمایا، البتہ عریہ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی کہ اندازہ کرکے یہ بیع کی جاسکتی ہے کہ عریہ والے اس کے بدل تازہ کھجور کھائیں۔ سفیان نے دوسری مرتبہ یہ روایت بیان کی، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عریہ کی اجازت دے دی تھی۔ کہ اندازہ کرکے یہ بیع کی جاسکتی ہے، کھجور ہی کے بدلے میں۔ دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے۔ سفیان نے بیان کیا کہ میں نے یحییٰ سے پوچھا، اس وقت میں ابھی کم عمر تھا کہ مکہ کے لوگ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عریہ کی اجازت دی ہے تو انہوں نے پوچھا کہ اہل مکہ کو یہ کس طرح معلوم ہوا؟ میں نے کہا کہ وہ لوگ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ اس پر وہ خاموش ہو گئے۔ سفیان نے کہا کہ میری مراد اس سے یہ تھی کہ جابر رضی اللہ عنہ مدینہ والے ہیں۔ سفیان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی حدیث میں یہ ممانعت نہیں ہے کہ پھلوں کو بیچنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا جب تک ان کی پختگی نہ کھل جائے انہوں نے کہا کہ نہیں۔

تو حدیث آخر مدینہ والوں ہی پر آکر ٹھہری، حاصل یہ ہے کہ یحییٰ بن سعید اور مکہ والوں کی روایت میں کسی قدر اختلاف ہے۔ یحییٰ بن سعید نے عرایا کی رخصت میں انداز کرنے کی اور عرایا ووالوں کی تازہ کھجور کھانے کی قید لگائی ہے۔ اور مکہ والوں نے اپنی روایات میں یہ قید بیان نہیں کی۔ بلکہ مطلق عریہ کو جائز رکھا۔ خیر اندازہ کرنے کی قید تو ایک حافظ نے بیان کی ہے اس کا قبول کرنا واجب ہے لیکن کھانے کی قید محض واقعی ہے نہ کہ احترازی ( قسطلانی ) سفیان بن عیینہ سے ملنے والا کون تھا حافظ کہتے ہیں کہ مجھے اس کا نام معلوم نہیں ہوا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : عریہ کی تفسیر کا بیان

وقال مالك العرية أن يعري الرجل الرجل النخلة، ثم يتأذى بدخوله عليه، فرخص له أن يشتريها منه بتمر‏.‏ وقال ابن إدريس العرية لا تكون إلا بالكيل من التمر يدا بيد، لا يكون بالجزاف‏.‏ ومما يقويه قول سهل بن أبي حثمة بالأوسق الموسقة‏.‏ وقال ابن إسحاق في حديثه عن نافع عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ كانت العرايا أن يعري الرجل في ماله النخلة والنخلتين‏.‏ وقال يزيد عن سفيان بن حسين العرايا نخل كانت توهب للمساكين، فلا يستطيعون أن ينتظروا بها، رخص لهم أن يبيعوها بما شاءوا من التمر‏.‏
امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ عریہ یہ ہے کہ کوئی شخص ( کسی باغ کا مالک اپنے باغ میں ) دوسرے شخص کو کھجور کا درخت ( ہبہ کے طور پر ) دے دے، پھر اس شخص کا باغ میں آنا اچھا نہ معلوم ہو، تو اس صورت میں وہ شخص ٹوٹی ہوئی کھجور کے بدلے میں اپنا درخت ( جسے وہ ہبہ کرچکا ہے ) خرید لے اس کی اس کے لیے رخصت دی گئی ہے اور ابن ادریس ( اما م شافعی رحمہ اللہ علیہ ) نے کہا کہ عریہ جائز نہیں ہوتا مگر ( پانچ وسق سے کم میں ) سوکھی کھجور ناپ کر ہاتھوں ہاتھ دے دے یہ نہیں کہ دونوں طرف اندازہ ہو۔ اور اس کی تائید سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کے قول سے بھی ہوتی ہے کہ وسق سے ناپ کر کھجور دی جائے۔ ابن اسحاق رحمہ اللہ علیہ نے اپنی حدیث میں نافع سے بیان کیا او رانہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا کہ عریہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے باغ میں کھجور کے ایک دو درخت کسی کو عاریتاً دے دے اور یزید نے سفیان بن حسین سے بیان کی کہ عریہ کھجور کے اس درخت کو کہتے ہیں جو مسکینوں کو للہ دے دیا جائے، لیکن وہ کھجور کے پکنے کا انتظار نہیں کرسکتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت دی کہ جس قدر سوکھی کھجور کے بدل چاہیں اور جس کے ہاتھ چاہیں بیچ سکتے ہیں۔

حدیث نمبر : 2192
حدثنا محمد، أخبرنا عبد الله، أخبرنا موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر، عن زيد بن ثابت ـ رضى الله عنهم ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رخص في العرايا أن تباع بخرصها كيلا‏.‏ قال موسى بن عقبة والعرايا نخلات معلومات تأتيها فتشتريها‏.‏
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام عبداللہ بن مبارک نے خبردی، انہوں نے کہا کہ ہمیں موسیٰ بن عقبہ نے، انہیں نافع نے، انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے، انہیں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عریہ کی اجازت دی کہ وہ اندازے سے بیچی جاسکتی ہے۔ موسیٰ بن عقبہ نے کہا کہ عرایا کچھ معین درخت جن کا میوہ تو اترے ہوئے میوے کے بدل خریدے۔

تشریح : علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ عرایا کی تفصیل ان لفظوں میں پیش فرماتے ہیں جمع عریۃ قال فی الفتح و ہی فی الاصل عطیۃ ثمر النخل دون الرقبۃ کانت العرب فی الجدب تتطوع بذلک علی من لا ثمر لہ کما یتطوع صاحب الشاۃ او الابل بالمنیحۃ وہی عطیۃ اللبن دون الرقبۃ ( نیل ) یعنی عرایا عریہ کی جمع ہے اور دراصل یہ کھجور کا صرف پھل کسی محتاج مسکین کو عاریتاً بخشش کے طور پر دے دینا ہے۔ عربوں کا طریقہ تھا کہ وہ فقراءمساکین کو فصل میں کسی درخت کا پھل بطور بخشش دے دیا کرتے تھے جیسا کہ بکری اوراونٹ والوں کابھی طریقہ رہا ہے کہ کسی غریب مسکین کے حوالہ صرف دودھ پینے کے لیے بکری یا اونٹ کردیا کرتے تھے۔

آگے حضرت علامہ فرماتے ہیں و اخرج الامام احمد عن سفیان بن حسین ان العرایا نخل توہب للمساکین فلا یستطیعون ان ینتظروا بہا فرخص لہم ان یبیعوہا بما شاءو امن التمر یعنی عرایا ان کھجوروں کو کہا جاتا ہے جو مساکین کو عاریتاً بخشش کے طور پر دے دی جاتی ہیں۔ پھر ان مساکین کو تنگ دستی کی وجہ سے ان کھجوروں کا پھل پختہ ہونے کا انتظار کرنے کی تاب نہیں ہوتی۔ پس ان کو رخصت دی گئی کہ وہ جیسے مناسب جانیں سوکھی کھجوروں سے ان کا تبادلہ کرسکتے ہیں۔ و قال الجوہری ہی النخلۃ التی یعریہا صحابہا رجلا محتاجا بان یعجل لہ ثمرہا عاماً یعنی جوہری نے کہا کہ یہ وہ کھجور ہیں جس کے پھلوں کو ان کے مالک کسی محتاج کو عاریتاً محض بطور بخشش سال بھر کے لیے دے دیا کرتے ہیں۔ عرایا کی اور بھی بہت سی صورتیں بیان کی گئی ہیں تفصیل کے لیے فتح الباری کا مطالعہ ضروری ہے۔

علامہ شوکانی آخر میں فرماتے ہیں
و الحاصل ان کل صورۃ من صور العرایا ورد بہا حدیث صحیح او ثبت عن اہل الشرع او اہل اللغۃ فہی جائزۃ لدخولہا تحت مطلق الاذن و التخصیص فی بعض الاحادیث علی بعض الصور لا ینافی ما ثبت فی غیرہ یعنی بیع عرایا کی جتنی بھی صورتیں صحیح حدیث میں وارد ہیں یا اہل شرع یا اہل لغت سے وہ ثابت ہیں وہ سب جائز ہیں۔ اس لیے کہ وہ مطلق اذن کے تحت داخل ہیں۔ اور بعض احادیث بعض صورتوں میں جو بطور نص وارد ہیں وہ ان کے منافی نہیں ہیں جو بعض ان کے غیر سے ثابت ہیں۔

بیع عرایا کے جواز میں اہم پہلو غرباءمساکین کا مفاد ہے جو اپنی تنگ دستی کی وجہ سے پھلوں کے پختہ ہونے کا انتظار کرنے سے معذور ہیں۔ ان کو فی الحال شکم پری کی ضرورت ہے اس لیے ان کو اس بیع کے لیے اجازت دی گئی۔ ثابت ہوا کہ عقل صحیح بھی اس کے جواز کی تائید کرتی ہے۔
سند میں مذکور بزرگ حضرت نافع سرجس کے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ ہیں۔ یہ دیلمی تھے اور اکابرتابعین میں سے ہیں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما اور ابوسعید رضی اللہ عنہ سے حدیث کی سماعت کی ہے۔ ان سے بہت لوگوں نے جن میں زہری اور امام مالک بھی ہیں، روایت کی ہے۔ حدیث کے بارے میں شہرت یافتہ لوگوں میں سے ہیں۔ نیز ان ثقہ راویوں میں سے ہیں جن کی روایت پر مکمل اعتماد ہوتا ہے اور جن کی روایت کردہ احادیث پر عمل کیا جاتاہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیثوں کا بڑا حصہ ان ہی پر موقوف ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ جب میں نافع کے واسطہ سے حدیث سن لیتا ہوں تو پھر کسی اور راوی سے سننے کی لیے بے فکر ہو جاتا ہوں۔ 117ھ میں وفات پائی۔ رحمہ اللہ
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : پھلوں کی پختگی معلوم ہونے سے پہلے ان کو بیچنا منع ہے

میوے کی بیع پختگی سے پہلے ابن ابی لیلیٰ اور ثوری کے نزدیک مطلقاً باطل ہے۔ بعض نے کہا جب کاٹ لینے کی شرط کی جائے توباطل نہیں ہے ورنہ باطل ہے۔ امام شافعی اور احمد اور جمہور علماءکا یہی قول ہے۔

حدیث نمبر : 2193
وقال الليث عن أبي الزناد، كان عروة بن الزبير يحدث عن سهل بن أبي حثمة الأنصاري، من بني حارثة أنه حدثه عن زيد بن ثابت ـ رضى الله عنه ـ قال كان الناس في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يتبايعون الثمار، فإذا جد الناس وحضر تقاضيهم قال المبتاع إنه أصاب الثمر الدمان أصابه مراض أصابه قشام ـ عاهات يحتجون بها ـ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لما كثرت عنده الخصومة في ذلك ‏"‏فإما لا فلا يتبايعوا حتى يبدو صلاح الثمر‏"‏‏. ‏ كالمشورة يشير بها لكثرة خصومتهم‏.‏ وأخبرني خارجة بن زيد بن ثابت أن زيد بن ثابت لم يكن يبيع ثمار أرضه حتى تطلع الثريا فيتبين الأصفر من الأحمر‏. قال أبو عبد الله: رواه علي بن بحر: حدثنا حكام: حدثنا عنبسة، عن زكرياء، عن أبي الزناد، عن عروة، عن سهل، عن زيد.‏
لیث بن سعد نے ابوزناد عبداللہ بن ذکوان سے نقل کیا کہ عروہ بن زبیر، بنوحارثہ کے سہل بن ابی حثمہ انصاری رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے تھے اور وہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگ پھلوں کی خرید و فروخت ( درختوں پر پکنے سے پہلے ) کرتے تھے۔ پھر جب پھل توڑنے کا وقت آتا، اور مالک ( قیمت کا ) تقاضا کرنے آتے تو خریدار یہ عذر کرنے لگتے کہ پہلے ہی ا سکا گابھا خراب او رکالا ہو گیا، اس کو بیماری ہوگئی، یہ تو ٹھٹھر گیا پھل بہت ہی کم آئے۔ اسی طرح مختلف آفتوں کو بیان کرکے مالکوں سے جھگڑتے ( تا کہ قیمت میں کمی کرالیں ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس طرح کے مقدمات بکثرت آنے لگے تو آپ نے فرمایا کہ جب اس طرح جھگڑے ختم نہیں ہوسکتے تو تم لوگ بھی میوہ کے پکنے سے پہلے ان کو نہ بیچا کرو۔ گویا مقدمات کی کثرت کی وجہ سے آپ نے یہ بطور مشورہ فرمایا تھا۔ خارجہ بن زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے مجھے خبر دی کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اپنے باغ کے پھل اس وقت تک نہیں بیچتے جب تک ثریا نہ طلوع ہوجاتا اور زردی اور سرخی ظاہر نہ ہو جاتی۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ علیہ ) نے کہا کہ اس کی روایت علی بن بحر نے بھی کی ہے کہ ہم سے حکام بن سلم نے بیان کیا، ان سے عنبسہ نے بیان کیا، ان سے زکریا نے، ان سے ابوالزناد نے، ان سے عروہ نے او ران سے سہل بن سعد نے اور ان سے زید بن ثابت نے۔

قسطلانی نے کہا کہ شاید آپ نے پہلے یہ حکم بطریق صلاح اور مشورہ دیا ہو جیسا کہ کالمشورۃ یشیر بہا کے لفظ بتلا رہے ہیں۔ پھر اس کے بعد قطعاً منع فرما دیا۔ جیسے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے اور اس کا قرینہ یہ ہے کہ خود زید بن ثابت رضی اللہ عنہ جو اس حدیث کے راوی ہیں اپنا میوہ پختگی سے پہلے نہیں بیچتے تھے۔ ثریا ایک تارہ ہے جو شروع گرمی میں صبح صادق کے وقت نکلتا ہے۔ حجاز کے ملک میں اس وقت سخت گرمی ہوتی ہے اور پھل میوے پک جاتے ہیں۔

حدیث نمبر : 2194
حدثنا عبد الله بن يوسف: أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله ابن عمر رضي الله عنهما: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الثمار حتى يبدو صلاحها، نهى البائع والمبتاع. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے، انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پختہ ہونے سے پہلے پھلوں کو بیچنے سے منع کیا تھا۔ آپ کی ممانعت بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کو تھی۔

حدیث نمبر : 2195
حدثنا ابن مقاتل، أخبرنا عبد الله، أخبرنا حميد الطويل، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى أن تباع ثمرة النخل حتى تزهو‏.‏ قال أبو عبد الله يعني حتى تحمر‏.‏
ہم سے ابن مقاتل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں حمید طویل نے او رانہیں انس رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکنے سے پہلے درخت پر کھجور کو بیچنے سے منع فرمایا ہے، ابوعبداللہ ( امام بخاری ) نے کہا کہ ( حتی تزہو سے ) مراد یہ ہے کہ جب تک وہ پک کر سرخ نہ ہو جائیں۔

تشریح : زہو کی تفسیر میں علامہ شوکانی فرماتے ہیں : یقال ذہا النخل یزہو اذا ظہرت ثمرتہ و ازہی یزہی اذا احمر او اصفر یعنی جب کھجور کا پھل ظاہر ہو کر پختگی پر آنے کے لیے سرخ یا زرد ہو جائے تو اس پر زہا النخل کا لفظ بولا جاتا ہے۔ اور اس کا موسم اساڑھ کا مہینہ ہے۔ اس میں عرب میں ثریا ستارہ صبح کے وقت نکلنے لگتا ہے۔ ابوداؤد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے اذا طلع النجم صباحا رفعت العاہۃ عن کل بلد نجم سے مراد ثریا ہے یعنی جس موسم میں یہ ستارہ صبح کے وقت نکلنا شروع ہو جاتا ہے تو وہ موسم اب پھلوں کے پکنے کا آگیا، اور اب پھلوں کے لیے خطرات کا زمانہ ختم ہو گیا۔ و النجم ہو الثریا و طلوعہا یقع فی اول الصیف و ذلک عند اشتداد الحر فی بلاد الحجاز و ابتداءنضج الثمار و اخرج احمد من طریق عثمان بن عبداللہ بن سراقہ سالت ابن عمر رضی اللہ عنہما عن بیع الثمار فقال نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن بیع الثمار حتی تذہب العاہۃ قلت و متی ذلک قال حتی تطلع الثریا ( نیل ) اس عبار ت کا اردو مفہوم وہی ہے جو پہلے لکھا گیا ہے۔

حدیث نمبر : 2196
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى بن سعيد، عن سليم بن حيان، حدثنا سعيد بن مينا، قال سمعت جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ قال نهى النبي صلى الله عليه وسلم أن تباع الثمرة حتى تشقح‏.‏ فقيل ما تشقح قال تحمار وتصفار ويؤكل منها‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے سلیم بن حیان نے، ان سے سعید بن مینا نے بیان کیا، کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھلوں کا ” تشقح “ سے پہلے بیچنے سے منع کیا تھا۔ پوچھا گیا کہ تشقح کسے کہتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ مائل بہ زردی یا مائل بہ سرخی ہونے کو کہتے ہیں کہ اسے کھایا جاسکے۔ ( پھل کا پختہ ہونا مراد ہے
 
Top