• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : جب تک کھجور پختہ نہ ہو اس کا بیچنا منع ہے

حدیث نمبر : 2197
حدثني علي بن الهيثم، حدثنا معلى، حدثنا هشيم، أخبرنا حميد، حدثنا أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه نهى عن بيع الثمرة حتى يبدو صلاحها، وعن النخل حتى يزهو‏.‏ قيل وما يزهو قال يحمار أو يصفار‏.
مجھ سے علی بن ہشیم نے بیان کیا کہ ہم سے معلی بن منصور نے بیان کیا، ان سے ہشیم نے بیان کیا، انہیں حمید نے خبر دی او ران سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پختہ ہونے سے پہلے پھلوں کو بیچنے سے منع فرمایا ہے اور کھجور کے باغ کو ” زہو “ سے پہلے بیچنے سے منع فرمایا، آپ سے پوچھا گیا کہ زہو کسے کہتے ہیں تو آپ نے جواب دیا مائل بہ سرخی یا مائل بہ زردی ہونے کو کہتے ہیں۔

گویا لفظ زہو خاص کھجور کے مائل بہ سرخی یا مائل بہ زردی ہونے پر بولا جاتاہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : اگر کسی نے پختہ ہونے سے پہلے ہی پھل بیچے پھر ان پر کوئی آفت آئی تو وہ نقصان بیچنے والے کو بھرنا پڑے گا

تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یہ معلوم ہوتا ہے کہ میوہ کی بیع پختگی سے پہلے صحیح تو ہوجاتی ہے، مگر اس کا ضمان بائع پر رہے گا۔ مشتری کی کل رقم اس کو بھرنی ہوگی۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : جنح البخاری فی ہذہ الترجمۃ الی صحۃ البیع و ان لم یبد صلاحہ لکنہ جعلہ قبل الصلاح من ضمان البائع و مقتضاہ انہ اذا لم یفسد فالبیع صحیح وہو فی ذلک متابع للزہری کما اوردہ عنہ فی آخر الباب ( فتح ) یعنی اس باب سے امام بخاری کا رحجان ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پھلوں کی پختگی سے قبل بھی بیع کی صحت کے قائل ہیں مگر انہوں نے اس بارے میں یہ شرط قائم کی ہے کہ اس کے نقصان کا ذمہ دار بیچنے والا ہے اگر کوئی نقصان نہ ہوا، اور فصل صحیح سلامت تیا رہوگئی تو بیع صحیح ہوگی، اور فصل خراب ہونے کی صورت میں نقصان بیچنے والے کو بھگتنا ہوگا۔ اس بارے میں آپ نے امام زہری سے متابعت کی ہے جیسا کہ آخر باب میں ان سے نقل بھی فرمایا ہے۔ اس تفصیل کے باوجود بہتر یہی ہے کہ پھلوں کی پختگی سے پہلے سودا نہ کیا جائے، کیوں کہ اس صورت میں بہت سے مفاسد پیدا ہو سکتے ہیں۔ جن احادیث میں ممانعت آئی ہے ان کو اسی احتیاط پر محمول کرنا ہے اور یہاں امام بخاری کا رجحان جس جواز پر ہے وہ مشروط ہے۔ اس لیے ہر دو قسم کی روایتوں میں تطبیق ظاہر ہے۔ ”زہو“ کی تفسیر خود حدیث میں موجود ہے پہلے اس کا بیان ہو بھی چکا ہے۔

حدیث نمبر : 2198
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن حميد، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الثمار حتى تزهي‏.‏ فقيل له وما تزهي قال حتى تحمر‏.‏ فقال ‏"‏أرأيت إذا منع الله الثمرة، بم يأخذ أحدكم مال أخيه‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں حمید نے او رانہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھلوں کو ” زہو “ سے پہلے بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ کہ زہو کسے کہتے ہیں تو جواب دیا کہ سرخ ہونے کو۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہی بتاؤ، اللہ تعالیٰ کے حکم سے پھلوں پر کوئی آفت آجاے، تو تم اپنے بھائی کا مال آخر کس چیز کے بدلے لوگے؟

حدیث نمبر : 2199
قال الليث حدثني يونس، عن ابن شهاب، قال لو أن رجلا، ابتاع ثمرا قبل أن يبدو صلاحه، ثم أصابته عاهة، كان ما أصابه على ربه، أخبرني سالم بن عبد الله عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏لا تتبايعوا الثمر حتى يبدو صلاحها، ولا تبيعوا الثمر بالتمر‏"‏‏. ‏
لیث نے کہا کہ مجھے سے یونس نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ایک شخص نے اگر پختہ ہونے سے پہلے ہی ( درخت پر ) پھل خریدے، پھر ان پر کوئی آفت آگئی تو جتنا نقصان ہوا، وہ سب اصل مالک کو بھرنا پڑے گا۔ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی، اور انہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پختہ ہونے سے پہلے پھلوں کو نہ بیچو، اور نہ درخت پر لگی ہوئی کھجور کو ٹوٹی ہوئی کھجور کے بدلے میں بیچو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : اناج ادھار ( ایک مدت مقرر کرکے ) خریدنا

حدیث نمبر : 2200
حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، قال ذكرنا عند إبراهيم الرهن في السلف، فقال لا بأس به‏.‏ ثم حدثنا عن الأسود عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم اشترى طعاما من يهودي إلى أجل، فرهنه درعه‏.‏
ہم سے عمرو بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ ہم نے ابراہیم کے سامنے قرض میں گروی رکھنے کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر ہم سے اسود کے واسطہ سے بیان کیا کہ ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقررہ مدت کے قرض پر ایک یہودی سے غلہ خریدا اور اپنی زرہ اس کے یہاں گروی رکھی تھی۔

تشریح : مقصد باب یہ ہے کہ غلہ بوقت ضرورت ادھار بھی خریدا جاسکتا ہے۔ اور ضرورت لاحق ہو تو اس قرض کے سلسلہ میں اپنی کسی بھی چیز کو گروی رکھنا بھی جائز ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اس قسم کے دنیاوی معاملات غیر مسلموں سے بھی کئے جاسکتے ہیں۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے غلہ ادھار حاصل فرمایا۔ اور آپ پر خوب واضح تھا کہ یہودیوں کے ہاں ہر قسم کے معاملات ہوتے ہیں۔ ان حالات میں بھی آپ نے ان سے غلہ ادھار لیا اور ان کے اطمینان مزید کے لیے اپنی زرہ مبارک کو اس یہودی کے ہاں گروی رکھ دیا۔

سند میں مذکورہ راوی حضرت اعمش رحمۃ اللہ علیہ سلیمان بن مہران کاہلی اسدی ہیں۔ بنوکاہل کے آزاد کردہ ہیں۔ بنوکاہل ایک شاخ بنواسد خزیمہ کی ہے۔ یہ 60ھ میں رے میں پیدا ہوئے اور کسی نے ان کو اٹھا کر کوفہ میں لاکر فروخت کردیا تو بنی کاہل کے کسی بزرگ نے خرید کر ان کو آزاد کر دیا۔ علم حدیث و قرات کے مشہور ائمہ میں سے ہیں اہل کوفہ کی روایات کا زیادہ مدار ان پر ہی ہے۔ 148ھ میں وفات پائی۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ نیز حضرت اسود بھی مشہور تابعی ہیں جو ابن ہلال محاربی سے مشہور ہیں۔ عمرو بن معاذ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ اور ان سے زہری نے روایت کی ہے۔ 84ھ میں وفات پائی۔ رحمہ اللہ علیہ رحمۃ واسعۃ۔ آمین۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : اگر کوئی شخص خراب کھجور کے بدلہ میں اچھی کھجور لینا چاہے

حدیث نمبر : 2201-2202
حدثنا قتيبة، عن مالك، عن عبد المجيد بن سهيل بن عبد الرحمن، عن سعيد بن المسيب، عن أبي سعيد الخدري، وعن أبي هريرة ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم استعمل رجلا على خيبر، فجاءه بتمر جنيب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏أكل تمر خيبر هكذا‏"‏‏. ‏ قال لا والله يا رسول الله، إنا لنأخذ الصاع من هذا بالصاعين، والصاعين بالثلاثة‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏لا تفعل، بع الجمع بالدراهم، ثم ابتع بالدراهم جنيبا‏"‏‏.
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبدالمجید بن سہل بن عبدالرحمن نے، ان سے سعید بن مسیب نے، ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر میں ایک شخص کو تحصیل دار بنایا۔ وہ صاحب ایک عمدہ قسم کی کھجور لائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا خیبر کی تمام کھجور اسی طرح کی ہوتی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں خدا کی قسم یا رسول اللہ ! ہم تو اسی طرح ایک صاع کھجور ( اس سے گھٹیا کھجوروں کے ) دو صاع دے کر خریدتے ہیں۔ اور دو صاع تین صاع کے بدلے میں لیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو۔ البتہ گھٹیا کھجور کو پہلے بیچ کر ان پیسوں سے اچھی قسم کی کھجور خرید سکتے ہو۔

تشریح : اس صورت میں بیاج سے محفوظ رہے گا۔ ایسا ہی سونا کے بدلے میں دوسرا سونا کم وبیش لینے کی ضرورت ہے، تو پہلے سونے کو روپوں یا اسباب کے بدل بیچ ڈالے۔ پھر روپوں یا اسباب کے عوض دوسرا سونا لے لے۔ حافظ فرماتے ہیں و فی الحدیث جواز اختیارطیب الطعام و جواز الوکالۃ فی البیع و غیرہ و فیہ ان البیوع الفاسدۃ ترد الخ یعنی اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اچھے غلے کو پسند کرنا جائز ہے اور بیع وغیرہ میں وکالت درست ہے اور یہ بھی کہ بیع فاسد کو رد کیا جاسکتا ہے۔

اس حدیث میں خیبر کا ذکر آیا ہے جو یہودیوں کی ایک بستی مدینہ شریف سے شمال مشرق میں تین چار منزل کے فاصلہ پر واقع تھی۔ اس مقام پر مدینہ کے یہودی قبائل کو ان کی مسلسل غداریوں اور فتنہ انگیزیوں کی وجہ سے جلاوطن کر دیا گیا تھا۔ اور یہاں آنے کے بعد وہ دوسرے یہودیوں کو ساتھ لے کر ہر وقت اسلام کے استیصال کے لیے تدبیریں کرتے تھے۔ اس طرح خیبر عام اشتعال اور فسادات کا مرکز بنا ہوا تھا۔ ان کی ان غلط در غلط کوششوں کو پامال کرنے اور وہاں قیام امن کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم 7ھ میں چودہ سو جاں نثار صحابہ کرام کے ہمراہ سفر فرمایا۔ یہود خیبر نے یہ اطلاع پاکر جملہ اقوام عرب کی طرف امداد کے لیے اپنے قاصد و سفراءدوڑائے مگر صرف بنی فزارہ ان کی امداد کے نام سے آئے۔ وہ بھی موقع پاکر مسلمانوں کے اونٹوں کے گلے لوٹ کر واپس بھاگ گئے اور یہود تنہا رہ گئے۔ بڑی خون ریز جنگ ہوئی، آخر اللہ پاک نے اپنے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مبین عطا فرمائی اور یہودیوں کو شکست فاش ہوئی۔ اطراف میں بھی یہودیوں کے مختلف مواضعات تھے۔ وطیح، سلالم، فدک وغیرہ ان کے باشندوں نے خود بخود اپنے آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ کر دیا اور معافی کے خواستگار ہوئے۔ آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت فیاضی سے سب کو معافی دے دی ان کی جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ میں کوئی دست اندازی نہیں کی گئی۔ ان کو پوری مذہبی آزادی بھی دے دی گئی اور زمین کی نصف پیداوار پر ان کی حفاظت کا ذمہ اٹھایا گیا۔ اور وہاں سے غلہ کی وصولی کے لیے ایک شخص کو تحصیل دار مقرر کیا گیا۔ اسی کا ذکر اس حدیث میں مذکور ہے اور یہ بیع کا معاملہ بھی اس تحصیلدار صاحب سے متعلق ہے۔ مزید تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : جس نے پیوند لگائی ہوتی کھجوریں یا کھیتی کھڑی ہوئی زمین بیچی یا ٹھیکہ پر دی تو میوہ اور اناج بائع کا ہوگا

حدیث نمبر : 2203
قال أبو عبد الله وقال لي إبراهيم أخبرنا هشام، أخبرنا ابن جريج، قال سمعت ابن أبي مليكة، يخبر عن نافع، مولى ابن عمر أن أيما، نخل بيعت قد أبرت لم يذكر الثمر، فالثمر للذي أبرها، وكذلك العبد والحرث‏.‏ سمى له نافع هؤلاء الثلاث‏.‏
ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ علیہ ) نے کہا کہ مجھ سے ابراہیم نے کہا، انہیں ہشام نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن ابی ملیکہ سے سنا، وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے غلام نافع سے خبر دیتے تھے کہ جو بھی کھجور کا درخت پیوند لگانے کے بعد بیجا جائے اور بیچتے وقت پھلوں کا کوئی ذکر نہ ہوا ہو تو پھل اسی کے ہوں گے جس نے پیوند لگایا ہے۔ غلام اور کھیت کا بھی یہی حال ہے۔ نافع نے ان تینوں چیزوں کا نام لیا تھا۔

یعنی اگر ایک غلام بیچا جائے اور اس کے پاس مال ہو تو وہ مال بائع ہی کا ہوگا۔ اسی طرح لونڈی اگر بکے تو اس کا بچہ جو پیدا ہو چکا ہو وہ بائع ہی کا ہوگا۔ پیٹ کا بچہ مشتری کا ہوگا لیکن اگر خریدار پہلے ہی ان پھلوں یا لونڈی غلام سے متعلق چیزوں کے لینے کی شرط پر سواد کرے اور وہ مالک اس پر راضی بھی ہو جائے تو پھر وہ پھل یا لونڈی غلاموں کی وہ جملہ اشیاءاسی خریدار کی ہوں گی۔ شریعت کا منشاءیہ ہے کہ لین دین کے معاملات میں فریقین کا باہمی طور پر جملہ تفصیلات طے کرلینا اور دونوں طرف سے ان کا منظور کر لینا ضروری ہے تاکہ آگے چل کر کوئی جھگڑا فساد پیدا نہ ہو۔

حدیث نمبر : 2204
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏من باع نخلا قد أبرت فثمرها للبائع، إلا أن يشترط المبتاع‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبردی، انہیں نافع نے، انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کسی نے کھجور کے ایسے درخت بیچے ہوں جن کو پیوندی کیا جاچکا تھا تو اس کا پھل بیچنے والے ہی کا رہتا ہے۔ البتہ اگر خریدنے والے نے شرط لگا دی ہو۔ ( کہ پھل سمیت سودا ہو رہا ہے تو پھل بھی خریدار کی ملکیت میں آجائیں گے )۔

تشریح : حدیث میں لفظ غلام بھی آیا ہے۔ جس کا مطلب یہ کہ اگر کوئی شخص اپنا غلام بیچے تو اس وقت جتنا مال غلام کے پاس ہے وہ اصل مالک ہی کا سمجھا جائے گا اورخریدنے والے کو صرف خالی غلام ملے گا۔ ہاں اگر خریدار یہ شرط کر لے کہ میں غلام کو اس کے جملہ املاک سمیت خریدتا ہوں تو پھر جملہ املاک خریدار کے ہوں گے۔ یہی حال پیوندی باغ کا ہے۔ یہ آپس کی معاملہ داری پر موقوف ہے۔ ارض مزروعہ کی بیع کے لیے بھی یہی اصول ہے۔ حافظ فرماتے ہیں و ہذا کلہ عند اطلاق بیع النخل من غیر تعرض للثمرۃ فان شرطھا المشتری بان قال اشتریت النخل بثمرتہا کانت للمشتری و ان شرطہا البائع لنفسہ قبل التابیر کانت لہ یعنی یہ معاملہ خریدار پر موقف ہے اگر اس نے پھلوں سمیت کی شرط پر سودا کیا ہے تو پھل اسے ملیں گے اور اگر بائع نے اپنے لیے ان پھلوں کی شرط لگا دی ہے تو بائع کا حق ہوگا۔

اس حدیث سے پھلوں کا پیوندی بنانا بھی جائز ثابت ہوا جس میں ماہرین فن نر درختوں کی شاخ کاٹ کر مادہ درخت کی شاخ کے ساتھ باندھ دیتے ہیں اور قدرت خداوندی سے وہ ہر دو شاخیں مل جاتی ہیں۔ پھر وہ پیوندی درخت بکثرت پھل دینے لگ جاتا ہے۔ آج کل اس فن نے بہت کافی ترقی کی ہے اور اب تجربات جدیدہ نے نہ صرف درختوں بلکہ غلہ جات تک کے پودوں میں اس عمل سے کامیابی حاصل کی ہے حتی کہ اعضائے حیوانات پر یہ تجربات کئے جارہے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : کھیتی کا اناج جو ابھی درختوں پر ہو ماپ کے رو سے غلہ کے عوض بیچنا

حدیث نمبر : 2205
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن المزابنة أن يبيع ثمر حائطه إن كان نخلا بتمر كيلا، وإن كان كرما أن يبيعه بزبيب كيلا أو كان زرعا أن يبيعه بكيل طعام، ونهى عن ذلك كله‏.‏
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع فرمایا۔ یعنی باغ کے پھلوں کو اگر وہ کھجور ہیں تو ٹوٹی ہوئی کھجور کے بدلے میں ناپ کر بیچا جائے۔ اور اگر انگور ہیں تو اسے خشک انگور کے بدلے ناپ کر بیچا جائے اور اگر وہ کھیتی ہے تو ناپ کر غلہ کے بدلے میں بیچا جائے۔ آپ نے ان تمام قسموں کے لین دین سے منع فرمایا ہے۔

تشریح : حافظ فرماتے ہیں : اجمع العلماءعلی انہ لا یجوزبیع الزرع قبل ان یقطع بالطعام لانہ بیع مجہول بمعلوم و اما بیع رطب ذلک بیابسہ بعد القطع و امکان المماثلۃ فالجمہور لا یجزون بیع لشی من ذلک یعنی اس پر علماءکا اجماع ہے کہ کھیتی کو اس کے کاٹنے سے پہلے غلہ کے ساتھ بیچنا درست نہیں۔ اس لیے کہ وہ ایک معلوم غلہ کے ساتھ مجہول چیز کی بیع ہے۔ اس میں ہر دو کے لیے نقصان کا احتمال ہے۔ ایسے ہی تر کاٹنے کے بعد خشک کے ساتھ بیچنا جمہور اس قسم کی تمام بیوع کو ناجائز کہتے ہیں۔ ان سب میں نفع و نقصان ہر دو احتمالات ہیں۔ اور شریعت محمدیہ ایسے جملہ ممکن نقصانات کی بیوع کو ناجائز قرار دیتی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : کھجور کے درخت کو جڑ سمیت بیچنا

حدیث نمبر : 2206
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏أيما امرئ أبر نخلا ثم باع أصلها، فللذي أبر ثمر النخل، إلا أن يشترطه المبتاع‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے نافع نے، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے بھی کسی کھجور کے درخت کو پیوندی بنایا۔ پھر اس درخت ہی کو بیچ دیا تو ( اس موسم کا پھل ) اسی کا ہو گا جس نے پیوندی کیا ہے، لیکن اگر خریدار نے پھلوں کی بھی شرط لگا دی ہے۔ ( تو یہ امر دیگر ہے )

معلوم ہوا کہ یہاں بھی معاملہ خریدار پر موقوف ہے۔ اگر اس نے کوئی شرط لگا کر وہ بیع کی ہے تو وہ شرط نافذ ہوگی اور اگر بغیر شرط سودا ہوا ہے تو اس موسم کا پھل پہلے مالک ہی کا ہوگا۔ جس نے ان درختوں کو پیوندی کیا ہے۔ حدیث سے درخت کا اصل جڑ سمیت بیجنا ثابت ہوا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : بیع مخاضرہ کا بیان

میوہ یا اناج پکنے سے پہلے بیچنا، کچے پن کی حالت میں جب وہ سبزہ ہو اسی کو بیع مخاضرہ کہتے ہیں۔

حدیث نمبر : 2207
حدثنا إسحاق بن وهب، حدثنا عمر بن يونس، قال حدثني أبي قال، حدثني إسحاق بن أبي طلحة الأنصاري، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ أنه قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن المحاقلة، والمخاضرة، والملامسة، والمنابذة، والمزابنة‏.‏
ہم سے اسحاق بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عمر بن یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے اسحاق بن ابی طلحہ انصاری نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ، مخاضرہ، ملامسہ، منابذہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔

حافظ فرماتے ہیں و المراد بیع الثمار و الحبوب قبل ان یبدو صلاحہا یعنی مخاضرہ کے معنے پکنے سے پہلے ہی فصل کو کھیت میں بیچنا ہے اور یہ ناجائز ہے۔ محاقلہ کا مفہوم بھی یہی ہے۔ دیگر واردہ اصطلاحات کے معانی ان کے مقامات پر مفصل بیان ہو چکے ہیں۔

حدیث نمبر : 2208
حدثنا قتيبة، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن حميد، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع ثمر التمر حتى تزهو‏.‏ فقلنا لأنس ما زهوها قال تحمر وتصفر، أرأيت إن منع الله الثمرة بم تستحل مال أخيك
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے حمید نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت کو زہو سے پہلے ٹوٹی ہوئی کھجور کے بدلے بیچنے سے منع فرمایا۔ ہم نے پوچھا کہ زہو کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ وہ پک کے سرخ ہوجائے یا زرد ہو جائے۔ تم ہی بتاؤ کہ اگر اللہ کے حکم سے پھل نہ آسکا تو تم کس چیز کے بدلے میں اپنے بھائی ( خریدار ) کا مال اپنے لیے حلال کرو گے۔

تشریح : حدیث اپنے معانی میں مزید تشریح کی محتاج نہیں ہے۔ کوئی بھی ایسا پہلو جس میں خریدنے والے یا بیچنے والے کے لیے نقصان ہونے کا احتمال ہو، شریعت کی نگاہوں میں ناپسندیدہ ہے، ہاں جائز طور پر سودا ہونے کے بعد نفع نقصان یہ قسمت کا معاملہ ہے۔ تجارت نفع ہی کے لیے کی جاتی ہے۔ لیکن بعض دفعہ گھاٹا بھی ہو جاتا ہے لہٰذا یہ کوئی چیز نہیں۔ آج کل ریس وغیرہ کی شکلوں میں جو دھندے چل رہے ہیں، شرعاً یہ سب حرام اور ناجائز بلکہ سو دخوری میں داخل ہیں۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب ظاہر ہے کہ تم نے اپنا کچا باغ کسی بھائی کو بیچ دیا اور اس سے طے شدہ روپیہ بھی وصول کر لیا۔ بعد میں باغ پھل نہ لاسکا۔ آفت زدہ ہو گیا یا کم پھل لایا تو اپنے خریدار بھائی سے جو رقم تم نے وصول کی ہے وہ تمہارے لیے کس جنس کے عوض حلال ہوگی۔ پس ایسا سودا ہی نہ کرو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : کھجور کا گابھا بیچنا یا کھانا ( جو سفید سفید اندر سے نکلتا ہے )

حدیث نمبر : 2209
حدثنا أبو الوليد، هشام بن عبد الملك حدثنا أبو عوانة، عن أبي بشر، عن مجاهد، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال كنت عند النبي صلى الله عليه وسلم وهو يأكل جمارا، فقال ‏"‏من الشجر شجرة كالرجل المؤمن‏"‏‏. ‏ فأردت أن أقول هي النخلة‏.‏ فإذا أنا أحدثهم قال ‏"‏هي النخلة‏"‏‏.
ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک سے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے مجاہد نے، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کا گابھا کھا رہے تھے۔ اسی وقت آپ نے فرمایا کہ درختوں میں ایک درخت مرد مومن کی مثال ہے میرے دل میں آیا کہ کہوں کہ یہ کھجور کا درخت ہے، لیکن حاضرین میں، میں ہی سب سے چھوٹی عمر کا تھا ( اس لیے بطور ادب میں چپ رہا ) پھر آپ نے خود ہی فرمایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔

یہ حدیث پہلے پارے میں کتاب العلم میں بھی گزر چکی ہے اور جب کھانا درست ہوا تو اس کا بیچنا بھی درست ہوگا۔ پس ترجمہ باب نکل آیا۔ بعض نے کہا کہ کھجور کے درخت پر گوند نکل آتا تھا جو چربی کی طرح سفید ہوتا تھا وہ کھایا جاتا تھا، مگر اس گوند کے نکلنے کے بعد وہ درخت پھل نہیں دیتا تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : خریدو فروخت اور اجارے میں ہر ملک کے دستور کے موافق حکم دیا جائے گا

والوزن، وسننهم على نياتهم ومذاهبهم المشهورة‏.‏ وقال شريح للغزالين سنتكم بينكم ربحا‏.‏ وقال عبد الوهاب عن أيوب عن محمد لا بأس العشرة بأحد عشر، ويأخذ للنفقة ربحا‏.‏ وقال النبي صلى الله عليه وسلم لهند ‏"‏خذي ما يكفيك وولدك بالمعروف‏"‏‏. ‏ وقال تعالى ‏{‏ومن كان فقيرا فليأكل بالمعروف‏}‏ واكترى الحسن من عبد الله بن مرداس حمارا، فقال بكم قال بدانقين‏.‏ فركبه، ثم جاء مرة أخرى، فقال الحمار الحمار‏.‏ فركبه، ولم يشارطه، فبعث إليه بنصف درهم‏.‏
اسی طرح ماپ اور تول اور دوسرے کاموں میں ان کی نیت اور رسم و رواج کے موافق۔ اور قاضی شریح نے سوت بیچنے والوں سے کہا جیسے تم لوگوں کا رواج ہے اسی کے موافق حکم دیا جائے گا اور عبدالوہاب نے ایوب سے روایت کی، انہوں نے محمد بن سیرین سے کہ دس کا مال گیارہ میں بیچنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اور جو خرچہ پڑا ہے اس پر بھی یہی نفع لے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہندہ ( ابوسفیان کی عورت ) سے فرمایا، تو اپنا اور اپنے بچوں کا خرچ دستور کے موافق نکال لے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو کوئی محتاج ہو وہ ( یتیم کے مال میں سے ) نیک نیتی کے ساتھ کھالے۔ اور امام حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے عبداللہ بن مرداس سے گدھا کرائے پر لیا تو ان سے اس کا کرایہ پوچھا، تو انہوں نے کہا کہ دو وانق ہے۔ ( ایک وانق درہم کا چھٹا حصہ ہوتا ہے ) اس کے بعد وہ گدھے پر سوار ہوئے، پھر دوسری مرتبہ ایک ضرورت پر آپ آئے اور کہا کہ مجھے گدھا چاہئیے۔ اس مرتبہ آپ اس پر کرایہ مقرر کئے بغیر سوار ہوئے اور ان کے پاس آدھا درہم بھیج دیا۔

مثلاً کسی ملک میں سو روپیہ بھر کا سیر مروج ہے تو جس نے سیر بھر غلہ بیچا، اس کو اسی سیرے سے دینا ہوگا۔ اسی طرح ملک میں جس روپے پیسے کا رواج ہے اگر عقد میں دوسرے سکہ کی شرط نہ ہو تو وہی رائج سکہ مراد ہوگا۔ الغرض جہاں جیسا دستور ہے اسی دستور کے موافق بیع و شراءکی جائے گی۔ وانق درہم کا چھٹا حصہ ہوتا ہے۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے دستور مروجہ پر عمل کیا کہ ایک گدھے کا کرایہ دو دانق ہوتا ہے ایک دانق اسے زیادہ دے دیا، تاکہ احسان کا اعتراف ہو ھل جزاءالاحسان الا الاحسان ( الرحمن : 60 )

حدیث نمبر : 2210
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن حميد الطويل، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ قال حجم رسول الله صلى الله عليه وسلم أبو طيبة، فأمر له رسول الله صلى الله عليه وسلم بصاع من تمر، وأمر أهله أن يخففوا عنه من خراجه‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں حمید طویل نے اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوطیبہ نے پچھنا لگایا تو آپ نے انہیں ایک صاع کھجور ( مزدوری میں ) دینے کا حکم فرمایا۔ اور اس کے مالکوں سے فرمایا کہ وہ اس کے خراج میں کچھ کمی کردیں۔

تشریح : اس حدیث سے بہت سے امور پر روشنی پڑتی ہے مثلاً یہ کہ پچھنا لگواناجائز ہے۔ اور وہ حدیث جس میں اس کی ممانعت وارد ہے وہ منسوخ ہے۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ نوکروں، خادموں، غلاموں سے ان کی طاقت کے موافق خدمت لینی چاہئے۔ اور ان کی مزدوری میں بخل نہ ہونا چاہئے۔ اور یہ بھی کہ اجرت میں نقدی کے علاوہ اجناس بھی دینی درست ہیں بشرطیکہ مزدور پسند کرے۔ خراج سے یہاں وہ ٹیکس مراد ہے جو ا س کے آقا اس سے روزانہ وصول کیا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اس میں کمی کردیں۔

حدیث نمبر : 2211
حدثنا أبو نعيم، حدثنا سفيان، عن هشام، عن عروة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت هند أم معاوية لرسول الله صلى الله عليه وسلم إن أبا سفيان رجل شحيح، فهل على جناح أن آخذ من ماله سرا قال ‏"‏خذي أنت وبنوك ما يكفيك بالمعروف‏"‏‏. ‏
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی والدہ حضرت ہندہ رضی اللہ عنہا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ابوسفیان بخیل آدمی ہے۔ تو کیا اگر میں ان کے مال سے چھپا کر کچھ لے لیا کروں تو کوئی حرج ہے؟ آپ نے فرمایا کہ تم اپنے لیے اور اپنے بیٹوں کے لیے نیک نیتی کے ساتھ اتنا لے سکتی ہو جو تم سب کے لیے کافی ہو جایا کرے۔

تشریح : حضرت ہندہ بنت عتبہ زوجہ ابوسفیان والدہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ اس حدیث سے بیویوں کے حقوق پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ اگر خاوند نان نفقہ نہ دیں یا بخل سے کام لیں تو ان سے وصول کرنے کے لیے ہر جائز راستہ اختیار کرسکتی ہیں۔ مگر نیک نیتی کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے اور اگر محض فساد اور خانہ خرابی مد نظر ہے تو پھر یہ رخصت ختم ہو جاتی ہے۔

حدیث نمبر : 2212
حدثني إسحاق، حدثنا ابن نمير، أخبرنا هشام، وحدثني محمد، قال سمعت عثمان بن فرقد، قال سمعت هشام بن عروة، يحدث عن أبيه، أنه سمع عائشة ـ رضى الله عنها ـ تقول ‏{‏ومن كان غنيا فليستعفف ومن كان فقيرا فليأكل بالمعروف‏}‏ أنزلت في والي اليتيم الذي يقيم عليه، ويصلح في ماله، إن كان فقيرا أكل منه بالمعروف‏.‏
مجھ سے اسحاق نے بیان کیا، کا ہم سے ابن نمیر نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ہشام نے خبر دی ( دوسری سند ) اور مجھ سے محمد نے بیان کیا کہا کہ میں نے عثمان بن فرقد سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ہشام بن عروہ سے سنا، وہ اپنے باپ سے بیان کرتے تھے کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، وہ فرماتی تھیں کہ ( قرآن کی آیت ) جو شخص مالدار ہو وہ ( اپنی زیر پرورش یتیم کا مال ہضم کرنے سے ) اپنے کو بچائے۔ اور جو فقیر ہو وہ نیک نیتی کے ساتھ اس میں سے کھالے۔ “ یہ آیت یتیموں کے ان سرپرستوں کے متعلق نازل ہوئی تھی جو ان کی اور ان کے مال کی نگرانی اور دیکھ بھال کرتے ہوں کہ اگر وہ فقیر ہیں تو ( اس خدمت کے عوض ) نیک نیتی کے ساتھ اس میں سے کھاسکتے ہیں۔
 
Top