• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : ایک ساجھی اپنا حصہ دوسرے ساجھی کے ہاتھ بیچ سکتا ہے۔

حدیث نمبر : 2213
حدثني محمود، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن أبي سلمة، عن جابر ـ رضى الله عنه ـ جعل رسول الله صلى الله عليه وسلم الشفعة في كل مال لم يقسم، فإذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة‏.‏
ہم سے محمود نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ابوسلمہ نے اور انہیں جابر رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ کا حق ہر اس مال میں قرار دیا تھا جو تقسیم نہ ہوا ہو، لیکن اس کی حد بندی ہو جائے اور راستے بھی پھیر دیئے جائیں تو اب شفعہ کا حق باقی نہیں رہا۔

تشریح : مال سے مراد غیر منقولہ ہے۔ جیسے مکان، زمین، باغ وغیرہ کیوں کہ جائیداد منقولہ میں بالاجماع شفعہ نہیں ہے اور عطاءکا قول شاذ ہے جو کہتے ہیں کہ ہر چیز میں شفعہ ہے۔ یہاں تک کہ کپڑے میں بھی۔ یہ حدیث شافعیہ کے مذہب کی تائید کرتی ہے کہ ہمسایہ کو شفعہ کا حق نہیں ہے صرف شریک کو ہے۔ یہاں امام بخاری نے یہ حدیث لاکر باب کا مطلب اس طرح سے نکالا ہے کہ جب شریک کو شفعہ کا حق ہوا تو وہ دوسرے شریک کا حصہ خرید لے گا۔ پس ایک شریک کا اپنا حصہ دوسرے شریک کے ہاتھ بیع کرنا بھی جائز اور یہی ترجمہ باب ہے۔

شفعہ اس حق کو کہا جاتا ہے جو کسی پڑوسی یا کسی ساجھی کو اپنے دوسرے پڑوسی یا ساجھی کی جائیداد میں اس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک وہ ساجھی یا پڑوسی اپنی اس جائیداد کو فروخت نہ کردے۔ شریعت کا حکم یہ ہے کہ ایسی جائیداد کی خرید و فروخت میں حق شفعہ رکھنے والا اس کا مجاز ہے کہ جائیداد اگر کسی غیر نے خرید لی تو وہ اس پر دعویٰ کرے اور وہ بیع اول کو فسخ کرا کر خود اسے خرید لے ایسے معاملات میں اولیت حق شفعہ رکھنے والے ہی کو حاصل ہے۔ باقی اس سلسلہ کی بہت سی تفصیلات ہیں۔ جن میں سے کچھ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں احادیث کی روشنی میں بیان بھی کر دی ہیں۔ مروجہ محمڈن لاء ( بھارت ) میں اس کی بہت سی صورتیں مذکور ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : زمین، مکان، اسباب کا حصہ اگر تقسیم نہ ہوا ہو تو اس کا بچینا درست ہے

حدیث نمبر : 2214
حدثنا محمد بن محبوب، حدثنا عبد الواحد، حدثنا معمر، عن الزهري، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ قال قضى النبي صلى الله عليه وسلم بالشفعة في كل مال لم يقسم، فإذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة‏.‏
ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے معمر نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے اور ان سے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایسے مال میں شفعہ کا حق قائم رکھا جو تقسیم نہ ہوا ہو، لیکن جب اس کی حدود قائم ہو گئی ہوں اور راستہ بھی پھیر دیا گیا ہو تو اب شفعہ کا حق باقی نہیں رہا۔

حدثنا مسدد، حدثنا عبد الواحد، بهذا وقال في كل ما لم يقسم‏.‏ تابعه هشام عن معمر‏.‏ قال عبد الرزاق في كل مال‏.‏ رواه عبد الرحمن بن إسحاق عن الزهري‏.
ہم سے مسدد نے اور ان سے عبدالواحد نے اسی طرح بیان کیا، اور کہا کہ ہر اس چیز میں ( شفعہ ہے ) جو تقسیم نہ ہوئی ہو۔ اس کی متابعت ہشام نے معمر کے واسطہ سے کی ہے اور عبدالرزاق نے یہ لفظ کہے کہ ” ہر مال میں “ اس کی روایت عبدالرحمن بن اسحاق نے زہری سے کی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : کسی نے کوئی چیز دوسرے کے لیے اس کی اجازت کے بغیر خرید لی پھر وہ راضی ہو گیا تو یہ معاملہ جائز ہے

حدیث نمبر : 2215
حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا أبو عاصم، أخبرنا ابن جريج، قال أخبرني موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏خرج ثلاثة يمشون فأصابهم المطر، فدخلوا في غار في جبل، فانحطت عليهم صخرة‏.‏ قال فقال بعضهم لبعض ادعوا الله بأفضل عمل عملتموه‏.‏ فقال أحدهم اللهم، إني كان لي أبوان شيخان كبيران، فكنت أخرج فأرعى، ثم أجيء فأحلب، فأجيء بالحلاب فآتي به أبوى فيشربان، ثم أسقي الصبية وأهلي وامرأتي، فاحتبست ليلة‏.‏ فجئت فإذا هما نائمان ـ قال ـ فكرهت أن أوقظهما، والصبية يتضاغون عند رجلى، فلم يزل ذلك دأبي ودأبهما، حتى طلع الفجر اللهم إن كنت تعلم أني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج عنا فرجة نرى منها السماء‏.‏ قال ففرج عنهم‏.‏ وقال الآخر اللهم إن كنت تعلم أني كنت أحب امرأة من بنات عمي كأشد ما يحب الرجل النساء، فقالت لا تنال ذلك منها حتى تعطيها مائة دينار‏.‏ فسعيت فيها حتى جمعتها، فلما قعدت بين رجليها قالت اتق الله، ولا تفض الخاتم إلا بحقه‏.‏ فقمت وتركتها، فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج عنا فرجة، قال ففرج عنهم الثلثين‏.‏ وقال الآخر اللهم إن كنت تعلم أني استأجرت أجيرا بفرق من ذرة فأعطيته، وأبى ذاك أن يأخذ، فعمدت إلى ذلك الفرق، فزرعته حتى اشتريت منه بقرا وراعيها، ثم جاء فقال يا عبد الله أعطني حقي‏.‏ فقلت انطلق إلى تلك البقر وراعيها، فإنها لك‏.‏ فقال أتستهزئ بي‏.‏ قال فقلت ما أستهزئ بك ولكنها لك‏.‏ اللهم إن كنت تعلم أني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج عنا‏.‏ فكشف عنهم‏"‏‏. ‏
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا کہا کہ ہم کو ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے موسیٰ بن عقبہ نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تین شخص کہیں باہر جا رہے تھے کہ اچانک بارش ہونے لگی۔ انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں جاکر پنا ہ لی۔ اتفاق سے پہاڑ کی ایک چٹان اوپر سے لڑھکی ( اور اس غار کے منہ کو بند کر دیا جس میں یہ تینوں پناہ لئے ہوئے تھے ) اب ایک نے دوسرے سے کہا کہ اپنے سب سے اچھے عمل کا جو تم نے کبھی کیا ہو، نام لے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ اس پر ان میں سے ایک نے یہ دعا کی ” اے اللہ ! میرے ماں باپ بہت ہی بوڑھے تھے۔ میں باہر لے جا کر اپنے مویشی چراتا تھا۔ پھر جب شام کو واپس آتا تو ان کا دودھ نکالتا اور برتن میں پہلے اپنے والدین کو پیش کرتا۔ جب میرے والدین پی چکتے تو پھر بچوں کو اور اپنی بیوی کو پلاتا۔ اتفاق سے ایک رات واپسی میں دیر ہو گئی اور جب میں گھر لوٹا تو والدین سو چکے تھے۔ اس نے کہا کہ پھر میں نے پسند نہیں کیا کہ انہیں جگاؤں بچے میرے قدموں میں بھوکے پڑے رو رہے تھے۔ میں برابر دودھ کا پیالہ لئے والدین کے سامنے اسی طرح کھڑا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ اے اللہ ! اگر تیرے نزدیک بھی میں نے یہ کام صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا، تو ہمارے لیے اس چٹان کو ہٹا کر اتنا راستہ تو بنادے کہ ہم آسمان کو تو دیکھ سکیں “ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ چنانچہ وہ پتھر کچھ ہٹ گیا۔ دوسرے شخص نے دعا کی ” اے اللہ ! تو خوب جانتا ہے کہ مجھے اپنے چچا کی ایک لڑکی سے اتنی زیادہ محبت تھی جتنی ایک مرد کو کسی عورت سے ہو سکتی ہے۔ اس لڑکی نے کہا تم مجھ سے اپنی خواہش اس وقت تک پوری نہیں کرسکتے جب تک مجھے سو اشرفی نہ دے دو۔ میں نے ان کے حاصل کرنے کی کوشش کی، اور آخر اتنی اشرفی جمع کرلی۔ پھر جب میں اس کی دونوں رانوں کے درمیان بیٹھا۔ تو وہ بولی، اللہ سے ڈر، اور مہر کو ناجائز طریقے پر نہ توڑ۔ اس پر میں کھڑا ہو گیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ اب اگر تیرے نزدیک بھی میں نے یہ عمل تیری ہی رضا کے لیے کیا تھا تو ہمارے لیے ( نکلنے کا ) راستہ بنادے “ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ چنانچہ وہ پتھر دو تہائی ہٹ گیا۔ تیسرے شخص نے دعا کی ” اے اللہ ! تو جانتا ہے کہ میں نے ایک مزدور سے ایک فرق جوار پر کام کرایا تھا۔ جب میں نے اس کی مزدوری اسے دے دی تو اس نے لینے سے انکار کر دیا۔ میں نے اس جوار کو لے کر بو دیا ( کھیتی جب کٹی تو اس میں اتنی جورا پیدا ہوئی کہ ) اس سے میں نے ایک بیل اور ایک چرواہا خرید لیا۔ کچھ عرصہ بعد پھر اس نے آکر مزدوری مانگی کہ خدا کے بندے مجھے میرا حق دے دے۔ میں نے کہا کہ اس بیل اور اس کے چرواہے کے پاس جاؤ کہ یہ تمہارے ہی ملک ہیں۔ اس نے کہا کہ مجھ سے مذاق کرتے ہو۔ میں نے کہا ” میں مذاق نہیں کرتا “ واقعی یہ تمہارے ہی ہیں۔ تو اے اللہ ! اگر تیرے نزدیک یہ کام میں نے صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو یہاں ہمارے لیے ( اس چٹان کو ہٹا کر ) راستہ بنا دے۔ چنانچہ وہ غار پورا کھل گیا اور وہ تینوں شخص باہر آگئے۔

تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ا س باب میں جو یہ حدیث لائے۔ اس سے مقصود اخیر شخص کا بیان ہے کیوں کہ بغیر مالک سے پوچھے اس جوار کو دوسرے کام میں صرف کیا اور اس سے نفع کمایا، اور بیع کو بھی اس پر قیاس کیا۔ تو بیع فضولی نکاح فضولی کی طرح صحیح ہے اور مالک کی اجازت پر نافذ ہوجاتی ہے۔

اس حدیث طویل سے اعمال صالحہ کو بطور وسیلہ اللہ کے سامنے پیش کرنا بھی ثابت ہوا کہ اصل وسیلہ ایسے ہی اعمال صالحہ کا ہے اور آیت کریمہ و ابتغوا الیہ الوسیلۃ کا یہی مفہوم ہے۔ جو لوگ قبروں، مزاروں اور مردہ بزرگوں کا وسیلہ ڈھونڈھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ اور ایسے وسائل بعض دفعہ شرکیات کی حد میں داخل ہوجاتے ہیں۔

حدیث میں چرواہے کا واقعہ ہے جس سے بچوں پر ظلم کا شبہ ہوتا ہے کہ وہ رات بھر بھوکے بلبلاتے رہے۔ مگر یہ ظلم نہیں ہے۔ یہ ان کی نیک نیتی تھی کہ وہ پہلے والدین کو پلانا چاہتے تھے اور آیت کریمہ و یوثرون علی انفسہم و لوکان بہم خصاصۃ ( الحشر : 9 ) کا ایک مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے جو یہاں مذکور ہے۔ وہنا طریق اخر فی الجواز و وہو انہ صلی اللہ علیہ وسلم ذکر ہذہ القصۃ فی معرض المدح و الثناءعلی فاعلہا و اقرہ علی ذلک و لو کان لا یجوز لبینہ یعنی باب کے مضمون مذکورہ کا جواز یوں بھی ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قصہ کو اور اس میں اس مزدور کے متعلق امر واقعہ کو بطور مدح و ثنا ذکر فرمایا۔ اسی سے مضمون باب ثابت ہوا کہ اگر یہ فعل ناجائز ہوتا تو آپ اسے بیان فرما دیتے۔

حدیث نمبر : 2216
حدثنا أبو النعمان، حدثنا معتمر بن سليمان، عن أبيه، عن أبي عثمان، عن عبد الرحمن بن أبي بكر ـ رضى الله عنهما ـ قال كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم ثم جاء رجل مشرك مشعان طويل بغنم يسوقها فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏بيعا أم عطية أو قال أم هبة‏"‏‏. ‏ قال لا بل بيع‏.‏ فاشترى منه شاة‏.‏
سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے کہ ایک مسٹنڈا لمبے قد والا مشرک بکریاں ہانکتا ہوا آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ یہ بیچنے کے لیے ہیں یا عطیہ ہیں؟ یا آپ نے یہ فرمایا کہ ( یہ بیچنے کے لیے ہیں ) یا ہبہ کرنے کے لیے؟ اس نے کہا کہ نہیں بلکہ بیچنے کے لیے ہیں۔ چنانچہ آپ نے اس سے ایک بکری خرید لی۔

تشریح : حافظ فرماتے ہیں : معاملۃ الکفار جائزۃ الا بیع ما یستعین بہ اہل الحرب علی المسلمین و اختلف العلماءفی مبایعۃ من غالب مالہ الحرام و حجۃ من رخص فیہ قولہ صلی اللہ علیہ وسلم للمشرک ”ابیعا ام ہبۃ“ و فیہ جواز بیع الکافر و اثبات ملکہ علی ما فی یدہ و جواز قبول الہدیۃ منہ ( فتح ) یعنی کفار سے معاملہ داری کرنا جائز ہے مگر ایسا معاملہ درست نہیں جس سے وہ اہل اسلام کے ساتھ جنگ کرنے میں مدد پاسکیں۔ اور اس حدیث کی رو سے کافر کی بیع کو نافذ ماننا بھی ثابت ہوا۔ اور یہ بھی کہ اپنے مال کا وہ اسلامی قانون میں مالک ہی مانا جائے گا اور اس حدیث سے کافر کا ہدیہ قبول کرنا بھی جائز ثابت ہوا۔ یہ جملہ قانونی امور ہیں جن کے لیے اسلام میں ہر ممکن گنجائش رکھی گئی ہے۔ مسلمان جب کہ ساری دنیا میں آباد ہیں، ان کے بہت سے لین دین کے معاملات غیر مسلموں کے ساتھ ہوتے رہتے ہیں۔ لہٰذا ان سب کو قانونی صورتوں میں بتلایا گیا اور اس سلسلہ میں بہت فراخدلی سے کام لیا گیا ہے جو اسلام کے دین فطرت اور عالمگیر مذہب ہونے کی واضح دلیل ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع

باب: مشرکوں اور حربی کافروں کے ساتھ خریدوفروخت کرنا

حدیث نمبر: 2216
حدثنا أبو النعمان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا معتمر بن سليمان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي عثمان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عبد الرحمن بن أبي بكر ـ رضى الله عنهما ـ قال كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم ثم جاء رجل مشرك مشعان طويل بغنم يسوقها فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ بيعا أم عطية أو قال أم هبة ‏"‏‏.‏ قال لا بل بيع‏.‏ فاشترى منه شاة‏.‏
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے کہ ایک مسٹنڈا لمبے قد والا مشرک بکریاں ہانکتا ہوا آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ یہ بیچنے کے لیے ہیں یا عطیہ ہیں؟ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ (یہ بیچنے کے لیے ہیں) یا ہبہ کرنے کے لیے؟ اس نے کہا کہ نہیں بلکہ بیچنے کے لیے ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک بکری خرید لی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : حربی کافر سے غلام لونڈی خریدنا اور اس کا آزاد کرنا اور ہبہ کرنا

وقال النبي صلى الله عليه وسلم لسلمان كاتب‏.‏ وكان حرا فظلموه وباعوه‏.‏ وسبي عمار وصهيب وبلال، وقال الله تعالى ‏{‏والله فضل بعضكم على بعض في الرزق فما الذين فضلوا برادي رزقهم على ما ملكت أيمانهم فهم فيه سواء أفبنعمة الله يجحدون‏}‏‏.‏
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ اپنے ( یہودی ) مالک سے ” مکاتبت “ کرلے۔ حالانکہ سلمان رضی اللہ عنہ اصل میں پہلے ہی سے آزاد تھے۔ لیکن کافروں نے ان پر ظلم کیا کہ بیچ دیا اور اس طرح وہ غلام بنادئے گئے۔ اسی طرح عمار، صہیب اور بلال رضی اللہ عنہم بھی قید کرکے ( غلام بنا لیے گئے تھے اور ان کے مالک مشرک تھے ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” اللہ تعالیٰ ہی نے تم میں ایک کو ایک پر فضیلت دی ہے رزق میں۔ پھر جن کی روزی زیادہ ہے وہ اپنی لونڈی غلاموں کو دے کر اپنے برابر نہیں کردیتے۔ کیا یہ لوگ اللہ کا احسان نہیں مانتے۔ “

تشریح : کہ اس نے مختلف حالات کے لوگ پیدا کئے۔ کوئی غلام ہے کوئی بادشاہ، کوئی مالدار ہے کوئی محتاج، اگر سب برابر اور یکساں ہوتے تو کوئی کسی کا کام کا ہے کو کرتا۔ زندگی دوبھر ہوجاتی۔ پس یہ اختلاف حالات اور تفاوت درجات حق تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے۔ اس آیت سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا کہ کافر اپنی لونڈی غلاموں کے مالک ہیں اور ان کی ملک صحیح ہے کیوں کہ ان کی لونڈی غلاموں کو ماملکت ایمانہم فرمایا۔ جب ان کی ملک صحیح ہوئی تو ان سے مول لینا درست ہوگا۔ ( وحیدی )

کتابت اس کو کہتے ہیں کہ غلام مالک کو کچھ روپیہ کئی قسطوں میں دینا قبول کرے۔ کل روپیہ ادا کرنے کے بعد غلام آزاد ہو جاتا ہے۔
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو کافروں نے غلام بنا رکھا تھا۔ مسلمانوں نے ان کو خرید کر آزاد کردیا۔ حدیث سلمان رضی اللہ عنہ میں مزید تفصیل یوں آئی ہے : ثم مر بی نفر من کلب تجار فحملونی معہم حتی اذا قدموا بی و ادی القری ظلمونی فباعونی من رجل یہودی الحدیث یعنی میں فارسی نسل سے متعلق ہوں۔ ہوا یہ کہ ایک دفعہ بنوکلب کے کچھ سوداگر میرے پاس سے گزرے اور انہوں نے مجھے اٹھا کر اپنے ساتھ لگالیا۔ اور آگے چل کر مزید ظلم مجھ پر انہوں نے یہ کیا کہ مجھ کو ایک یہودی کے ہاتھ بیچ کر اس کا غلام بنا دیا۔

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ عربی عنسی ہیں مگر ان کو اس لیے غلاموں میں شمار کیا گیا ہے کہ ان کی والدہ سمیہ رضی اللہ عنہا نامی قریش کی لونڈدیوں میں سے تھیں۔ ان کے شکم سے یہ پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام یاسر رضی اللہ عنہ ہے۔ قریش نے ان سب کے ساتھ غلاموں جیسا معاملہ کیا۔ یاسر رضی اللہ عنہ بنی مخزوم کے حلیف تھے۔ مزید تفصیلی حالات یہ ہیں کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ عنسی ہیں۔ بنی مخزوم کے آزاد کردہ اور حلیف ہیں۔ اس کی صورت یہ ہوئی کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے والد یاسر رضی اللہ عنہ مکہ میں اپنے دو بھائیوں کے ساتھ جن کا نام حارث اور مالک تھا، اپنے چوتھے گم شدہ بھائی کی تلاش میں آئے۔ پھر حارث اور مالک تو اپنے ملک یمن کو واپس چلے گئے۔ مگر یاسر مکہ میں مقیم ہو گئے۔ اور ابوحذیفہ بن مغیرہ کے حلیف بن گئے۔ ابوحذیفہ نے ان کا نکاح اپنی باندی سمیہ رضی اللہ عنہا نامی سے کردیا۔ جن کے بطن سے حضرت عمار رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ ابوحذیفہ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو آزاد کردیا۔ یہ ابتداءہی میں اسلام لے آئے تھے۔ اور ان کمزور مسلمانوں میں سے ہیں جن کو اسلام سے ہٹانے کے لیے بہت ستایا گیا یہاں تک کہ ان کو آگ میں بھی ڈال دیا جس سے انہیں اللہ نے مرنے سے بچا لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب ان کی طرف سے گزرتے ہوئے ان کی تکالیف کو دیکھتے تو آپ کا دل بھر آتا۔ آپ ان کے جسم پر اپنا دست شفقت پھیرتے اور دعا کرتے کہ اے آگ تو عمار پر اسی طرح ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا جس طرح تو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ہو گئی تھی۔ یہ مہاجرین اولین میں سے ہیں۔ غزوہ بدر اور جملہ غزوات میں شریک ہوئے۔ جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ 93 سال کی عمر میں37ھ میں جنگ صفین ہی میں شہید ہوئے۔
حضرت صہیب بن سنان عبداللہ بن جدعان تیمی کے آزاد کردہ ہیں۔ کنیت ابویحییٰ، شہر موصل کے باشندے تھے۔ رومیوں نے ان کو بچپن ہی میں قید کر لیا تھا۔ لہٰذا نشو و نما روم میں ہوئی۔ رومیوں سے ان کو ایک شخص کلب نامی خرید کر مکہ لے آیا۔ جہاں ان کو عبداللہ بن جدعان نے خرید کر آزاد کر دیا۔ پھر یہ عبداللہ بن جدعان ہی کے حلیف بن گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب دار ارقم میں تھے تو عماررضی اللہ عنہ نے اور انہوں نے ایک ہی دن اسلام قبول کیا۔ مکہ شریف میں ان کو بھی بہت تکلیف دی گئی، لہٰذا یہ مدینہ کو ہجرت کرگئے۔۔ 80ھ میں بعمر90 سال مدینہ ہی میں انتقال فرمایا۔ اور جنت البقیع میں دفن کئے گئے۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے والد کا نام رباح ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ مشہور معزز صحابی بلکہ موذن رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ یہ بھی مومنین اولین میں سے ہیں۔ مکہ میں سخت تکالیف برداشت کیں مگر اسلام کا نشہ نہ اترا، بلکہ اور زیادہ اسلام کا اظہار کیا۔ تمام غزوات نبوی میں شریک رہے۔ ان کو ایذا پہنچانے والا امیہ بن خلف تھا جو بے حد سنگ دلی سے ان کو قسم قسم کے عذابوں میں مبتلا کیا کرتا تھا۔ اللہ کی مشیت دیکھئے کہ جنگ بدر میں امیہ بن خلف ملعون حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہی کے ہاتھوں سے قتل ہوا۔ عمر کا آخری حصہ شام میں گزرا۔ 63 سال کی عمر میں 20ھ میں دمشق میں انتقال ہوا اور باب الصغیر میں دفن ہوئے۔ بعض حلب میں انتقال بتلاتے ہیں اور باب الاربعین میں مدفون ہونا لکھتے ہیں۔ ان کے مناقب بہت زیادہ ہیں۔ ان کے کوئی اولاد نہیں، تابعین کی ایک کثیر جماعت ان سے روایت کرتی ہے۔

حدیث نمبر : 2217
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، حدثنا أبو الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏هاجر إبراهيم ـ عليه السلام ـ بسارة، فدخل بها قرية فيها ملك من الملوك، أو جبار من الجبابرة، فقيل دخل إبراهيم بامرأة، هي من أحسن النساء‏.‏ فأرسل إليه أن يا إبراهيم، من هذه التي معك قال أختي‏.‏ ثم رجع إليها، فقال لا تكذبي حديثي فإني أخبرتهم أنك أختي، والله إن على الأرض مؤمن غيري وغيرك‏.‏ فأرسل بها إليه، فقام إليها، فقامت توضأ وتصلي فقالت اللهم إن كنت آمنت بك وبرسولك وأحصنت فرجي، إلا على زوجي فلا تسلط على الكافر‏.‏ فغط حتى ركض برجله‏"‏‏. ‏ قال الأعرج قال أبو سلمة بن عبد الرحمن إن أبا هريرة قال قالت اللهم إن يمت يقال هي قتلته‏.‏ فأرسل ثم قام إليها، فقامت توضأ تصلي، وتقول اللهم إن كنت آمنت بك وبرسولك، وأحصنت فرجي، إلا على زوجي، فلا تسلط على هذا الكافر، فغط حتى ركض برجله‏.‏ قال عبد الرحمن قال أبو سلمة قال أبو هريرة فقالت اللهم إن يمت فيقال هي قتلته، فأرسل في الثانية، أو في الثالثة، فقال والله ما أرسلتم إلى إلا شيطانا، ارجعوها إلى إبراهيم، وأعطوها آجر‏.‏ فرجعت إلى إبراهيم ـ عليه السلام ـ فقالت أشعرت أن الله كبت الكافر وأخدم وليدة‏.‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ابراہیم علیہ السلام نے سارہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ( نمرود کے ملک سے ) ہجرت کی تو ایک ایسے شہر میں پہنچے جہاں ایک بادشاہ رہتا تھا یا ( یہ فرمایا کہ ) ایک ظالم بادشاہ رہتا تھا۔ اس سے ابراہیم علیہ السلام کے متعلق کسی نے کہہ دیا کہ وہ ایک نہایت ہی خوبصورت عورت لے کر یہاں آئے ہیں۔ بادشاہ نے آپ علیہ السلام سے پچھوا بھیجا کہ ابراہیم ! یہ عورت جو تمہارے ساتھ ہے تمہاری کیا ہوتی ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ میری بہن ہے۔ پھر جب ابراہیم علیہ السلام سارہ رضی اللہ عنہا کے یہاں آئے تو ان سے کہا کہ میری بات نہ جھٹلانا، میں تمہیں اپنی بہن کہہ آیا ہوں۔ خدا کی قسم ! آج روئے زمین پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مومن نہیں ہے۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے سارہ رضی اللہ عنہا کو بادشاہ کے یہاں بھیجا، یا بادشاہ حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا۔ اس وقت حضرت سارہ رضی اللہ عنہا وضو کرکے نماز پڑھنے کھڑی ہوگئی تھیں۔ انہوں نے اللہ کے حضور میں یہ دعا کی کہ ” اے اللہ ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول ( ابراہیم علیہ السلام ) پر ایمان رکھتی ہوں اور اگر میں نے اپنے شوہر کے سوا اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ہے، تو تو مجھ پر ایک کافر کو مسلط نہ کر۔ “ اتنے میں بادشاہ تھرایا اور اس کا پاؤں زمین میں دھنس گیا۔ اعرج نے کہا کہ ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہ حضرت سارہ رضی اللہ عنہا نے اللہ کے حضور میں دعا کی کہ اے اللہ ! اگر یہ مرگیا تو لوگ کہیں گے کہ اسی نے مارا ہے۔ چنانچہ وہ پھر چھوٹ گیا اور حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کی طرف بڑھا۔ حضرت سارہ رضی اللہ عنہا وضو کرکے پھر نماز پڑھنے لگی تھیں اور یہ دعا کرتی جاتی تھیں ” اے اللہ ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان رکھتی ہوں اور اپنے شوہر ( حضرت ابراہیم علیہ السلام ) کے سوا اور ہر موقع پر میں نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ہے تو تو مجھ پر اس کافر کو مسلط نہ کر۔ “ چنانچہ وہ پھر تھرایا، کانپا اور اس کے پاؤس زمین میں دھنس گئے۔ عبدالرحمن نے بیان کیا کہ ابوسلمہ نے بیان کیا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ حضرت سارہ رضی اللہ عنہا نے پھر وہی دعا کی کہ اے اللہ ! اگر یہ مر گیا تو لوگ کہیں گے کہ اسی نے مارا ہے۔ “ اب دوسری مرتبہ یا تیسری مرتبہ بھی وہ بادشاہ چھوڑ دیا گیا۔ آخر وہ کہنے لگا کہ تم لوگوں نے میرے یہاں ایک شیطان بھیج دیا۔ اسے ابراہیم ( علیہ السلام ) کے پاس لے جاؤ اور انہیں آجر ( حضرت ہاجرہ ) کو بھی دے دو۔ پھر حضرت سارہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں اور ان سے کہا کہ دیکھتے نہیں اللہ نے کافر کو کس طرح ذلیل کیا اور ساتھ میں ایک لڑکی بھی دلوا دی۔

تشریح : زمین کنعان سے مصر کا یہ سفر اس لیے ہوا کہ کنعان ان دنوں سخت قحط سالی کی زد میں آگیاتھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام مجبور ہو کر اپنی بیوی حضرت سارہ رضی اللہ عنہا اور بھتیجے لوط علیہ السلام اور بھیڑ بکریوں سمیت مصر میں پہنچ گئے۔ ان دنوں مصر میں فرعون رقیون نامی حکمرانی کر رہا تھا۔ ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سارہ رضی اللہ عنہا بے حد حسین تھیں۔ اور وہ بادشاہ ایسی حسین عورتوں کی جستجومیں رہا کرتا تھا۔ ا س لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کو ہدایت فرمائی کہ وہ اپنے آپ کو ابراہیم علیہ السلام کی بہن ظاہر کریں۔ جب فرعون مصر نے حضرت سارہ رضی اللہ عنہ کے حسن کا چرچا سنا تب اس نے ان کو بلوابھیجا اور فعل بد کا ارادہ کیا مگر حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کی بد دعا سے وہ برائی پر قادر نہ ہوسکا۔ بلکہ زمین میں غرق ہونے لگا۔ آخر اس کے دل پر ان کی عظمت نقش ہو گئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے معافی مانگی اور حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کو واپس کر دیا اور اپنے خلوص اور عقیدت کے اظہار میں اپنی بیٹی ہاجرہ رضی اللہ عنہا کو ان کی نذر کر دیا تاکہ وہ سارہ رضی اللہ عنہا جیسا خدا رسیدہ خاتون کی خدمت میں رہ کر تعلیم اور تربیت حاصل کرے اور کسی وقت اس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے نبی کی بیوی بننے کا شرف حاصل ہو۔ یہودیوں کی کتاب برشیث لیامیں ذکر ہے کہ ہاجرہ شاہ مصر کی بیٹی تھیں۔ ایسا ہی طبری، خمیس اور قسطلانی نے ذکر کیا ہے مگر یہ نہایت ہی قابل افسوس ہے کہ بعض بد باطن یہود کی حاسدانہ تحریرات میں ان کو لونڈی کہا گیا ہے اور کچھ لوگوں نے ان تحریروں سے متاثر ہو کر اس حدیث میں وارد لفظ ”ولیدۃ“ کا ترجمہ لونڈی کر دیا ہے حالانکہ قرآن و حدیث کی اصطلاح عام میں غلام اور لونڈی کے لیے ملک یمین کا لفظ ہے جیسا کہ آیت قرآن وما ملکت ایمانکم سے ظاہر ہے۔ لغت عرب میں جاریہ اور ولیدہ کے الفاظ عام لڑکی کے معنوں میں آتے ہیں۔ عربی کی بائیبل میں سب جگہ حضرت ہاجرہ کے واسطے جاریہ کا لفظ استعمال ہوا ہے انگریزی بائیبل میں سب مقامات میں میڈ کا لفظ ہے جس کے معنی وہی ہیں جو ”جاریہ“ اور ”ولیدۃ“ کے ہیں یعنی لڑکی۔

ابی سلومر اسحاق جو ایک یہودی عالم ہیں وہ پیدائش1-16 میں لکھتے ہیں کہ جب فرعون مصری نے نبی کی کرامتوں کو جو سارہ کی وجہ سے ظاہر ہوئیں، دیکھا تو اس نے کہا کہ بہتر ہے میری بیٹی اس کے گھر میں خادمہ ہو کر رہے وہ اس سے بہتر ہوگی کہ کسی دوسرے گھر میں وہ ملکہ بن کر رہے۔ چنانچہ حضرت ہاجرہ نے ابراہیمی گھرانہ میں پوری تربیت حاصل کی اور پچاسی سال کی عمر میں جب کہ آپ اولاد سے مایوس ہو رہے تھے حضرت سارہ نے ان سے خود کہا کہ ہاجرہ سے شای کر لو شاید اللہ پاک ان ہی کے ذریعہ تم کو اولاد عطا کرے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ شادی کے بعد حضرت ہاجرہ حاملہ ہو گئیں اور ان کو خواب میں فرشتہ نے بشارت دی کہ تو ایک بیٹا جنے گی اس کا نام اسماعیل رکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے تیرا دکھ سن لیا۔ وہ عربی ہوگا ا س کا ہاتھ سب کے خلاف ہوگا اور سب کے ہاتھ اس کے برخلاف ہوں گے اور وہ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بود و باش کرے گا۔ ( تورات پیدائش 12-11-16 )
خداوند نے یہ بھی فرمایا کہ دیکھ ہاجرہ کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے اسماعیل کے حق میں میں نے تیری دعا سن لی دیکھو میں اس کو برکت دوں گا اور اسے آبرو مند کروں گا اور اسے بہت بڑھاؤں گا اور اس سے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اسے بڑی قوم بناؤں گا۔ ( تورات پیدائش 20-15-17 )
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی چھیاسی سال کی عمر تھی کہ ان کے بیٹے حضرت اسماعیل پیدا ہوئے۔ حضرت اسماعیل کے حق میں یہ بشارت توراۃ سفر تکوین باب 17درس 20 میں موجود ہے۔
یہودیوں نے حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کے لونڈی ہونے پر حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کے اس قول سے دلیل لی ہے جو توراۃ میں مذکور ہے کہ جب حضرت سارہ رضی اللہ عنہا حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا سے ناراض ہو گئیں تو انہوں نے اس ڈر سے کہ کہیں حضرت ہاجرہ کا فرزند اسماعیل علیہ السلام ان کے فرزند اسحاق علیہ السلام کے ساتھ ابراہیمی ترکہ کا وارث بن جائے یہ کہا کہ اس لونڈی کو اور اس کے بچے کو یہاں سے نکال دے۔ یہ لفظ حضرت سارہ رضی اللہ عنہا نے خفگی کے طور پر استعمال کیا تھا ورنہ ان کو معلوم تھا کہ شریعت ابراہیمی میں لونڈی غلام مالک کے ترکہ میں وارث نہیں ہوا کرتے ہیں۔ اگر حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا واقعی لونڈی ہوتی تو حضرت سارہ رضی اللہ عنہا ایسا غلط بیانی کیوں کرتی جب کہ وہ ابراہیمی شریعت کے احکامات سے پورے طور پر واقف تھیں۔
پس خود توراۃ کے اس بیان سے واضح ہے کہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا لونڈی نہ تھی بلکہ آزاد تھی۔ اسی لیے حضرت سارہ کو ان کے لڑکے کے وارث ہونے کا خطرہ ہوا اور ان کو دور کرنے کا مطالبہ کیا۔ خلاصہ یہی ہے کہ حضرت ہاجرہ علیہا السلام شاہ مصر کی بیٹی تھی جسے بطور خادمہ تعلیم و تربیت حاصل کرکے حرم نبوت میں بیوی بنانے کے لیے حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کے حوالہ کیا گیا تھا۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے منعقدہ باب میں جس کے تحت یہ حدیث آئی ہے کئی باتیں ملحوظ کی گئی ہیں جس کی تشریح علامہ قسطلانی یوں فرماتے ہیں آجر بہمزۃ ممدودۃ بدل الہاءو جیم مفتوحۃ فراءو کان ابو آجر من ملوک القبط یعنی آجر ہمزہ ممدوہ کے ساتھ ہا کے بدلہ میں ہے اور جیم مفتوحہ کے بعد را ہے۔ اور آجر کا باپ فرعون مصر قبطی بادشاہوں میں سے تھا۔ یہاں علامہ قسطلانی نے صاف لفظوں میں بتلایا ہے کہ حضرت ہاجرہ فرعون مصر کی بیٹی تھی۔ ولیدہ کی تحقیق میں آپ فرماتے ہیں و الولیدۃ الجاریۃ للخدمۃ سواءکانت کبیرۃ او صغیرۃ و فی الاصل الولید لطفل و الانثی ولیدۃ و الجمع و لائد و المراد بہا آجر المذکورہ یعنی لفظ ولیدہ لڑکی پر بولا جاتا ہے جو بطور خادمہ ہو عمر میں وہ صغیر ہو یا کبیر اور دراصل ولید لڑکے کو اور ولیدہ لڑکی کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع ولائد آتی ہے اور یہاں اس لڑکی سے مراد آجر مذکور ہیں جو ہاجرہ علیہا السلام سے مشہور ہیں۔
آگے علامہ فرماتے ہیں و موضع الترجمۃ اعطوہا آجر و قبول سارۃ منہ و امضاءابراہیم ذلک ففیہ صحۃ ہبۃ الکافر و قبول ہدیۃ السلطان الظالم و ابتلاءالصالحین لرفع درجاتہم و فیہ اباحۃ المعاربض و انہا مندوحۃ عن الکذب و ہذا الحدیث اخرجہ ایضا فی الہبۃ و الاکراہ و احادیث الانبیاء ( قسطلانی ) یعنی یہاں ترجمۃ الباب الفاظ اعطوھاآجر سے نکلتا ہے کہ ا س کافر بادشاہ نے اپنی شہزادی ہاجرہ علیہا السلام کو بطور عطیہ پیش کرنے کا حکم دیا اور سارہ علیہا السلام نے اسے قبول کرلیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اس معاملہ کو منظور فرمایا۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ کافر کسی چیز کو بطور ہبہ کسی کو دے تو اس کا یہ ہبہ کرنا صحیح مانا جائے گا اور ظالم بادشاہ کا ہدیہ قبول کرنا بھی ثابت ہوا۔ اور نیک لوگوں کا ظالم بادشاہوں کی طرف سے ابتلا میں ڈالا جانا بھی ثابت ہوا۔ اس سے ان کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ ایسے آزمائشی مواقع پر بعض غیر مباح کنایات و تعریضات کا استعمال مباح ہوجاتا ہے اور ان کو جھوٹ میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ سید المحدثین حضرت امام بخاری نے اس حدیث کو اپنی جامع الصحیح میں اور بھی کئی مقامات پر نقل فرمایا ہے اور اس سے بہت سے مسائل کا استنباط کیا ہے۔

خلاصۃ المرام یہ کہ حدیث ہذا میں وارد لفظ ولیدہ لونڈی کے معنی میں نہیں، بلکہ لڑکی کے معنی میں ہے۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام شاہ مصر کی بیٹی تھیں جسے اس نے حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کو برکت کے لیے دے دیا تھا، لہٰذا یہود کا حضرت اسماعیل کو لونڈی کا بچہ کہنا محض جھوٹ اور الزام ہے۔
یہاں سر سید نے خطبات احمدیہ میں کلکتہ کے ایک مناظرہ کا ذکر کیا ہے جو اسی موضوع پر ہوا جس میں علماءیہود نے بالاتفاق تسلیم کیا تھا کہ حضرت ہاجرہ لونڈی نہ تھیں بلکہ شاہ مصر کی بیٹی تھیں۔ حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم نے یہاں لفظ ولیدہ کا ترجمہ لونڈی کیا ہے جو لڑکی ہی کے معنوں میں ہے، ہندوستان کے بعض مقامات پر لڑکی کو لونڈیاں اور لڑکے کو لونڈا بولتے ہیں۔
ترجمۃ الباب میں چوں کہ لفظ ہبہ آیا ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ ہبہ لغوی طور پر مطلق بخشش کو کہتے ہیں۔ اللہ پاک کا ایک صفاتی نام وہاب بھی ہے۔ یعنی بے حساب بخشش کرنے والا۔ شرع محمدی میں ہبہ کی تعریف یہ ہے کہ کسی جائیداد منقولہ یا غیر منقولہ کو برضا و رغبت اور بلا معاوضہ منتقل کردینا، منتقل کرنے والے کو واہب اور جس کے نام منتقل کیا جائے اسے موہوب لہ کہتے ہیں۔ ضروری ہے کہ اس انتقال کو خود موہوب لہ یا اس کی طرف سے کوئی اس کا ذمہ دار آدمی واہب کی زندگی ہی میں قبول کرلے۔ نیز ضروری ہے کہ ہبہ کرنے والا عاقل بالغ ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ شئے موہوب اس شخص کے قبضہ میں دی جائے جس کے نام پر ہبہ کیا جارہا ہے۔ ہبہ کے بارے میں بہت سی شرعی تفصیلات ہیں جو کتب فقہ میں تفصیل سے موجود ہیں۔ اردو زبان میں آنریبل مولوی سید امیر علی صاحب ایم، اے بیرسٹرایٹ لاءنے جامع الاحکام فی فقہ الاسلام کے نام سے ایک مفصل کتاب مسلمانوں کے قوانین مذہبی پر لکھی ہے اس میں ہبہ کے متعلق پوری تفصیلات حوالہ قلم کی گئی ہیں اور عدالت ہندیہ میں جو پرسنل لاءآف دی محمڈنس مسلمانوں کے لیے منظور شدہ ہے ہر ہر جزئی میں پوری وضاحت سے احکام ہبہ کو بتلایا گیا ہے۔

حدیث نمبر : 2218
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أنها قالت اختصم سعد بن أبي وقاص وعبد بن زمعة في غلام، فقال سعد هذا يا رسول الله ابن أخي عتبة بن أبي وقاص، عهد إلى أنه ابنه، انظر إلى شبهه‏.‏ وقال عبد بن زمعة هذا أخي يا رسول الله ولد على فراش أبي من وليدته‏.‏ فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى شبهه، فرأى شبها بينا بعتبة، فقال ‏"‏هو لك يا عبد، الولد للفراش وللعاهر الحجر واحتجبي منه يا سودة بنت زمعة‏"‏‏. ‏ فلم تره سودة قط‏.‏
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ کا ایک بچے کے بارے میں جھگڑا ہوا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! یہ میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا بیٹا ہے۔ اس نے وصیت کی تھی کہ یہ اب اس کا بیٹا ہے۔ آپ خود میرے بھائی سے اس کی مشابہت دیکھ لیں۔ لیکن عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ ! یہ تو میرا بھائی ہے۔ میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ اور اس کی باندی کے پیٹ کا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کی صورت دیکھی تو صاف عتبہ سے ملتی تھی۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کے اے عبد ! یہ بچہ تیرے ہی ساتھ رہے گا، کیوں کہ بچہ فراش کے تابع ہوتا ہے اور زانی کے حصہ میں صرف پتھر ہے اور اے سودہ بنت زمعہ ( رضی اللہ عنہا ) اس لڑکے سے تو پردہ کیا کر، چنانچہ سودہ رضی اللہ عنہا نے پھر اسے کبھی نہیں دیکھا۔

تشریح : حالانکہ از روئے قاعدہ شرعی آپ نے اس بچہ کو زمعہ کا بیٹا قرار دیا، تو ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا اس کی بہن ہو گئیں۔ مگر احتیاطاً ان کو اس بچہ سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔ اس لیے کہ ا س کی صورت عتبہ سے ملتی تھی۔ اور گمان غالب ہوتا تھا کہ وہ عتبہ کا بیٹا ہے۔ حدیث سے نکلا کہ شرعی اور باقاعدہ ثبوت کے مقابل مخالف گمان پر کچھ نہیں ہوسکتا۔ باب کی مطابقت اس طرح پر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمعہ کی ملک مسلم رکھی، حالانکہ زمعہ کافر تھا، اور اس کواپنی لونڈی پر وہی حق ملا جو مسلمانوں کو ملتا ہے تو کافر کا تصرف بھی اپنی لونڈی غلاموں میں جیسے بیع ہبہ وغیرہ نافذ ہوگا۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 2219
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن سعد، عن أبيه، قال عبد الرحمن بن عوف ـ رضى الله عنه ـ لصهيب اتق الله ولا تدع إلى غير أبيك‏.‏ فقال صهيب ما يسرني أن لي كذا وكذا، وأني قلت ذلك، ولكني سرقت وأنا صبي‏.‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سعد نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا، کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے صہیب رضی اللہ عنہ سے کہا، اللہ سے ڈر اور اپنے باپ کے سوا کسی اور کا بیٹا نہ بن۔ صہیب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر مجھے اتنی اتنی دولت بھی مل جائے تو بھی میں یہ کہنا پسند نہیں کرتا۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ میں تو بچپن ہی میں چرا لیا گیا تھا۔

تشریح : ہوا یہ تھا کہ صہیب رضی اللہ عنہ کی زبان رومی تھی مگر وہ اپنا باپ ایک عرب سنان بن مالک کو بتاتے تھے۔ اس پر عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا، خدا سے ڈر اور دوسروں کو اپنا باپ نہ بنا۔ صہیب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میری زبان رومی اس وجہ سے ہوئی کہ بچپنے میں رومی لوگ حملہ کرکے مجھ کو قید کرکے لے گئے تھے۔ میں نے ان ہی میں پرورش پائی، اس لیے میری زبان رومی ہو گئی۔ ورنہ میں در اصل عربی ہوں۔ میں جھوٹ بول کر کسی اور کا بیٹا نہیں بنتا۔ اگر مجھ کو ایسی ایسی دولت ملے۔ تب بھی میں یہ کام نہ کروں۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا کہ کافروں کی ملک صحیح اور مسلم ہے کیوں کہ ابن جدعان نے صہیب رضی اللہ عنہ کو خرید لیا اور آزاد کیا۔ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کے مناقب بہت کچھ ہیں۔ جن پر مستقل بیان کسی جگہ ملے گا۔ یہ بہت ہی کھانا کھلانے والے تھے اور کہا کرتے تھے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سنی ہے کہ تم میں بہتر وہ ہے جو حق داروں کو بکثرت کھانا کھلائے۔

حدیث نمبر : 2220
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني عروة بن الزبير، أن حكيم بن حزام، أخبره أنه، قال يا رسول الله، أرأيت أمورا كنت أتحنث ـ أو أتحنت بها ـ في الجاهلية من صلة وعتاقة وصدقة، هل لي فيها أجر قال حكيم ـ رضى الله عنه ـ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏أسلمت على ما سلف لك من خير‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالولیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی انہیں حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! ان نیک کاموں کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے، جنہیں میں جاہلیت کے زمانہ میں صلہ رحمی، غلام آزاد کرنے اور صدقہ دینے کے سلسلہ میں کیا کرتا تھا کیا ان اعمال کا بھی مجھے ثواب ملے گا؟ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جتنی نیکیاں تم پہلے کرچکے ہو ان سب کے ساتھ اسلام لائے ہو۔

یعنی وہ تمام نیکیاں قائم رہیں گی اور ضرور ا ن کا ثواب ملے گا۔ آخر میں یہ حدیث لا کر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے غالباً یہ اشارہ کیا ہے کہ جائز حدود میں اسلام لانے سے پہلے کے معاملات لین دین اسلام قبول کرنے کے بعد بھی قاگئم رہیں گے اور ان میں کوئی رر دو بدل نہ ہو گا۔ یا فریقین میں سے کوئی ایک فریق مسلمان ہوگیا ہے اور جائز حدود میں اس کا لین دین کا کوئی سلسلہ ہے جس کا تعلق جاہلیت سے ہے تو ہ اپنے دستور پر اسے چالو رکھ سکے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : دباغت سے پہلے مردار کی کھال ( کا بیچنا جائز ہے یا نہیں؟ )

حدیث نمبر : 2221
حدثنا زهير بن حرب، حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا أبي، عن صالح، قال حدثني ابن شهاب، أن عبيد الله بن عبد الله، أخبره أن عبد الله بن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بشاة ميتة فقال ‏"‏هلا استمتعتم بإهابها‏"‏‏. ‏ قالوا إنها ميتة‏.‏ قال ‏"‏إنما حرم أكلها‏"‏‏. ‏
ہم سے زہیر بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا، ان سے صالح نے بیان کیا، کہ مجھ سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عبید اللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک مردہ بکری پر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے چمڑے سے تم لوگوں نے کیوں نہیں فائدہ اٹھایا؟ صحابہ نے عرض کیا، کہ وہ تو مردار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مردار کا صرف کھانا منع ہے۔

تشریح : حالانکہ قرآن شریف میں حرمت علیکم المیتۃ ( المائدۃ : 3 ) مطلق ہے۔ ا س کے سب اجزاءکو شام مل ہے، مگر حدیث سے اس کی تخصیص ہوگئی کہ مردار کا صرف کھانا حرام ہے۔ زہری نے اس حدیث سے دلیل لی، اور کہا کہ مردار کی کھال سے مطلقاً نفع اٹھانا درست ہے۔ دباغت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو، لیکن دباغت کی قید دوسری حدیث سے نکالی گئی ہے۔ اور جمہور علماءکی وہی دلیل ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے مرداروں میں کتے اور سور کا استثناءکیا ہے۔ اس کی کھال دباغت سے بھی پاک نہ ہوگی اور حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے صرف سور اور آدمی کی کھال کو مستثنی کیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : سور کا مار ڈالنا، اور جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سور کی خرید و فروخت حرام قرار دی ہے

حدیث نمبر : 2222
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن ابن المسيب، أنه سمع أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏والذي نفسي بيده ليوشكن أن ينزل فيكم ابن مريم حكما مقسطا فيكسر الصليب، ويقتل الخنزير، ويضع الجزية، ويفيض المال حتى لا يقبله أحد‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابن مسیب نے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ آنے والا ہے جب ابن مریم ( عیسیٰ علیہ السلام ) تم میں ایک عادل اور منصف حاکم کی حیثیت سے اتریں گے۔ وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، سوروں کو مار ڈالیں گے اور جزیہ کو ختم کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی زیادتی ہو گی کہ کوئی لینے والا نہ رہے گا۔

تشریح : اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا کہ سور نجس العین ہے اس کی بیع جائز نہیں ورنہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسے قتل کیوں کرتے۔ اور نیست و نابود کیوں کرتے۔ جزیہ موقوف کرنے سے یہ غرض ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے یا مسلمان ہو یا قتل ہو۔ جزیہ قبول نہ کریں گے۔

ا س حدیث سے صاف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قیامت کے قریب اترنا اور حکومت کرنا اور صلیب توڑنا، جزیہ موقوف کرنا یہ سب باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ اور تعجب ہوتا ہے اس شخص کی عقل پر جو قادیانی مرزا کو مسیح موعود سمجھتا ہے۔ اللہم ثبتنا علی الحق و جنّبنا من الفتن ما ظہر منہا و ما بطن ( وحیدی )

قتل خنزیر سے مراد یہ کہ یامر باعدامہ مبالغۃ فی تحریم اکلہ و فیہ توبیخ عظیم للنصاری الذین یدعون انہم علی طریقۃ عیسی ثم یستحلون اکل الخنزیر و یبالغون فی محبتہ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے دور حکومت میں خنزیر کی نسل کو ختم کرنے کا حکم جاری کر دیں گے۔ اس میں اس کے کھانے کی حرمت میں مبالغہ کا بیان ہے اوراس میں ان عیسائیوں کے لیے بڑی ڈانٹ ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکار ہونے کے مدعی ہیں، پھر خنزیر کھانا حلال جانتے ہیں اوراس کی محبت میں مبالغہ کرتے ہیں۔

آیات قرآنیہ اور احادیث صحیحہ کی بنا پر جملہ اہل اسلام کا از سلف تا خلف یہ اعتقاد رہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن مریم علیہما السلام آسمان پر زندہ ہیں اور وہ قیامت کے قریب دنیا میں نازل ہو کر شریعت محمدیہ کے پیروکار ہوں گے اور اس کے تحت حکومت کریں گے۔ حدیث مذکورہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حلفیہ بیان فرمایا ہے کہ وہ بالضرور نازل ہوں گے چوں کہ آج کل فرقہ قادیانیہ نے اس بارے میں بہت کچھ دجل پھیلا کر بعض نوجوانوں کے دماغوں کو مسموم کر رکھا ہے۔ لہٰذا چند دلائل کتاب و سنت سے یہاں پیش کئے جاتے ہیں جو اہل ایمان کی تسلی کے لیے کافی ہوں گے۔
قرآن مجید کی آیت شریفہ نص قطعی ہے جس سے حیات مسیح علیہ السللام روز روشن کی طرح ثابت ہے۔ و ان من اہل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہ و یوم القیمۃ یکون علیہم شہیدا ( النساء: 159 ) یعنی جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے تو کوئی اہل کتاب یہودی اور عیسائی ایسا باقی نہ رہے گا جو آپ پر ایمان نہ لے آئے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوںگے۔ حیات مسیح کے لیے یہ آیت قطعی الدلالۃ ہے کہ وہ قرب قیامت نازل ہوں گے اور جملہ اہل کتاب ان پر ایمان لائیں گے۔

دوسری آیت یہ ہے و ما قتلوہ و ما صلبوہ و لکن شبہ لہم ( النساء: 157 ) و ما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ الیہ و کان اللہ عزیزا حکیماً ( النساء: 158-57 ) یعنی یہودیوں نے نہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کیا نہ ان کو پھانسی دی، یقینا ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ رفع سے مراد رفع مع الجسد ہے یعنی جسم مع روح، اللہ نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا اور اب وہ وہاں زندہ موجود ہیں۔ یہ آیت بھی حیات مسیح پر قطعی الدلالۃ ہے۔

تیسری آیت یہ ہے اذ قال اللہ یعیسی انی متوفیک و رافعک الی و مطہرک من الذین کفروا و جاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامۃ ( آل عمران : 55 ) یعنی جس وقت کہا اللہ نے، اے عیسیٰ تحقیق لینے والا ہوں میں تجھ کو اور اٹھانے والا ہوں تجھ کو اپنی طرف اور پاک کرنے والا ہوں تجھ کو ان لوگوں سے کہ کافر ہوئے اور کرنے والا ہوں ان لوگوں کو کہ پیروی کریں گے تیری اوپر ان لوگوں کے کہ کافر ہوئے قیامت کے دن تک۔

یہ ترجمہ شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ آگے فائدہ میں لکھتے ہیں کہ یہود کے عالموں نے ا س وقت کے بادشاہ کو بہکایا کہ یہ شخص ملحد ہے تورات کے حکم سے خلاف بتلاتا ہے اس نے لوگ بھیجے کہ ان کو پکڑ لادیں، جب وہ پہنچے حضرت عیسی علیہ السلام کے یار سرک گئے۔ اس شنابی میں حق تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا۔ اور ایک صورت ان کی رہ گئی۔ اس کو پکڑ کر لائے پھر سولی پر چڑھایا۔ توفی کے اصل و حقیقی معنی اخذ الشی وافیا کے ہیں جیسا کہ بیضاوی و قسطلانی اور رازی وغیرہم نے لکھا ہے۔ اور موت توفی کے معنی مجازی ہیں نہ حقیقی، اسی واسطے بغیر قیام قرینہ کے موت کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا اور یہاں کوئی قرینہ موت کا قائم نہیں ہے اس لیے اصل و حقیقی معنی یعنی اخذ الشی و افیا مراد لئے جائیں گے۔ اور انسان کا وافیا لینا یہی ہے کہ مع روح و جسم کے لیا جائے۔ وہو المطلوب۔ لہٰذا یہ آیت بھی حیات مسیح پر قطعی الدلالۃ ہے۔
چوتھی آیت و انہ لعلم للساعۃ فلا تمترن بہا و اتبعون ہذا صراط مستقیم ( الزخرف : 61 ) اور تحقیق وہ عیسیٰ قیامت کی نشانی ہے۔ پس مت شک کرو ساتھ اس کے اور پیروی کرو میری، یہ ہے راہ سیدھی۔ اس آیت کے ذیل میں تفسیر ابن کثیر میں ہے۔ المراد بذلک نزولہ قبل یوم القیامۃ قال مجاہد و انہ لعلم للساعۃ ای آیۃ للساعۃ خروج عیسیٰ بن مریم قبل یوم القیامۃ و ہکذا روی عن ابی ہریرۃ و ابن عباس و ابی العالیۃ و ابی ملک و عکرمۃ و الحسن و قتادۃ و ضحاک و غیرہم و قد تواترت الاحادیث عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ اخبر بنزول عیسی بن مریم علیہ السلام قبل یوم القیامۃ اماما عدلا و حکما مقسطاً ( ابن کثیر ) یعنی یہاں مراد عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ وہ قیامت کے قریب نازل ہوں گے۔ مجاہد نے کہا کہ وہ قیامت کی نشانی ہوں گے۔ یعنی قیامت کی علامت قیامت سے قبل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا ہے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ابوالعالیہ اور ابومالک اور عکرمہ اور حسن اور قتادہ اور ضحاک وغیرہ نے بیان فرمایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں متواتر احادیث صحیحہ موجود ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے قریب امام عادل اور حاکم منصف بن کر نازل ہوں گے۔ آیات قرآنی کے علاوہ ان جملہ احادیث صحیحہ کے لیے دفتر کی ضرورت ہے۔ ان ہی میں سے ایک یہ حدیث بخاری بھی ہے جو یہاں مذکور ہوئی ہے۔ پس حیات مسیح کا عقیدہ جملہ اہل اسلام کا عقیدہ ہے اور یہ کتاب اللہ و احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے جو اس کا انکار کرے وہ قرآن و احادیث کا انکاری ہے۔ ایسے منکروں کے ہفوات پر ہرگز توجہ نہ کرنی چاہئے۔ تفصیل کے لیے بہت سی کتابیں اس موضوع پر موجود ہیں۔ مزید طوالت کی گنجائش نہیں۔ اہل ایمان کے لیے اس قدر بھی کافی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : مردار کی چربی گلانا اور اس کا بیچنا جائز نہیں

جمہور علماءکا یہ قول ہے کہ جس چیز کا کھانا حرام ہے اس کا بیچنا بھی حرام ہے اس کو جابر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے۔

حدیث نمبر : 2223
حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، حدثنا عمرو بن دينار، قال أخبرني طاوس، أنه سمع ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ يقول بلغ عمر أن فلانا باع خمرا فقال قاتل الله فلانا، ألم يعلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏قاتل الله اليهود، حرمت عليهم الشحوم فجملوها فباعوها‏"‏‏. ‏
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ مجھے طاؤس نے خبر دی، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، آپ فرماتے تھے کہ عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ فلاں شخص نے شراب فروخت کی ہے، تو آپ نے فرمایا کہ اسے اللہ تعالیٰ تباہ و برباد کردے۔ کیا اسے معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، اللہ تعالیٰ یہود کو برباد کرے کہ چربی ان پر حرام کی گئی تھی لیکن ان لوگوں نے اسے پگھلا کر فروخت کیا۔

تشریح : واقعہ یہ ہے کہ عہد فاروقی میں ایک عامل نے ایک ذمی سے جو شراب فروش تھا اور وہ شراب لے کر جارہا تھا، اس شراب پر ٹیکس وصول کر لیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس واقعہ کی اطلاع پاکر خفا ہو گئے۔ اور زجر و توبیخ کے لیے آپ نے اسے یہ حدیث سنائی۔ معلوم ہوا کہ شراب سے متعلق ہر قسم کا کاروبار ایک مسلمان کے لیے قطعاً حرام ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ محرمات منصوصہ کو حلال بنانے کے لیے کوئی حیلہ بہانہ تراشنا، یہ فعل یہود ہے، اللہ ہر مسلمان کو اس سے محفوظ رکھے۔ خدا کرے کہ کتاب الحیل کا مطالعہ فرمانے والے معزز حضرات بھی اس پر غور فرما سکیں۔

حدیث نمبر : 2224
حدثنا عبدان، أخبرنا عبد الله، أخبرنا يونس، عن ابن شهاب، سمعت سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏قاتل الله يهودا حرمت عليهم الشحوم فباعوها، وأكلوا أثمانها‏"‏‏.
ہم سے عبدان نے بیان کیا، انہیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے کہ میں نے سعید بن مسیب سے سنا، انہو ںنے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ یہودیوں کو تباہ کرے، ظالموں پر چربی حرام کر دی گئی تھی، لیکن انہوں نے اسے بیچ کر اس کی قیمت کھائی۔

انہوں نے حیلہ کرکے اسے اپنے لیے حلال بنا لیا، اس حرکت کی وجہ سے ان پر بددعا کی گئی۔ معلوم ہوا کہ حیلہ بہانہ کرکے کسی شرعی حکم میں رد وبدل کرنا انتہائی جرم ہے اور کسی حلال کو حرام کرالینا اور حرام کو کسی حیلہ سے حلال کرانا یہ لعنت کا موجب ہے۔ مگر صد افسوس کہ فقہائے کرام نے مستقل کتاب الحیل لکھ ڈالی ہیں۔ جن میں کتنے ہی ناواجب حیلے بہانے تراشنے کی تدابیر بتلائی گئی ہیں، اللہ رحم کرے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : غیر جاندار چیزوں کی تصویر بیچنا اور اس میں کون سی تصویر حرام ہے

حدیث نمبر : 2225
حدثنا عبد الله بن عبد الوهاب، حدثنا يزيد بن زريع، أخبرنا عوف، عن سعيد بن أبي الحسن، قال كنت عند ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ إذ أتاه رجل فقال يا أبا عباس إني إنسان، إنما معيشتي من صنعة يدي، وإني أصنع هذه التصاوير‏.‏ فقال ابن عباس لا أحدثك إلا ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول سمعته يقول ‏"‏من صور صورة فإن الله معذبه، حتى ينفخ فيها الروح، وليس بنافخ فيها أبدا‏"‏‏. ‏ فربا الرجل ربوة شديدة واصفر وجهه‏.‏ فقال ويحك إن أبيت إلا أن تصنع، فعليك بهذا الشجر، كل شىء ليس فيه روح‏.‏ قال أبو عبد الله سمع سعيد بن أبي عروبة من النضر بن أنس هذا الواحد‏.‏
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، انہو ںنے کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، انہیں عوف بن ابی حمید نے خبر دی، انہیں سعید بن ابی حسن نے، کہا کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا، او رکہا کہ اے ابوعباس ! میں ان لوگوں میں سے ہوں، جن کی روزی اپنے ہاتھ کی صنعت پر موقوف ہے او رمیں یہ مورتیں بناتا ہوں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس پر فرمایا کہ میں تمہیں صرف وہی بات بتلاؤں گا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ انہو ں نے کہا کہ میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ جس نے بھی کوئی مورت بنائی تو اللہ تعالیٰ اسے اس وقت تک عذاب کرتا رہے گا جب تک وہ شخص اپنی مورت میں جان نہ ڈال دے اور وہ کبھی اس میں جان نہیں ڈال سکتا ( یہ سن کر ) اس شخص کا سانس چڑھ گیا اور چہرہ زرد پڑ گیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ افسوس ! اگر تم مورتیں بنانی ہی چاہتے ہو تو ان درختوں کی اور ہر اس چیز کی جس میں جان نہیں ہے مورتیں بناسکتے ہو۔ ابوعبداللہ امام بخاری نے کہا کہ سعید بن ابی عروبہ نے نضر بن انس سے صرف یہی ایک حدیث سنی ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو کتاب اللباس میں عبدالاعلیٰ سے، انہوں نے سعید بن ابی عروبہ سے، انہوں نے نضر سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نکالا۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مورتوں کی کراہت اور حرمت نکالی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : شراب کی تجارت کرنا حرام ہے

وقال جابر ـ رضى الله عنه ـ حرم النبي صلى الله عليه وسلم بيع الخمر‏.‏
اور جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کا بیچنا حرام فرما دیا ہے۔

حدیث نمبر : 2226
حدثنا مسلم، حدثنا شعبة، عن الأعمش، عن أبي الضحى، عن مسروق، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ لما نزلت آيات سورة البقرة عن آخرها خرج النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏حرمت التجارة في الخمر‏"‏‏. ‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، انہو ں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوضحی نے، ان سے مسروق نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب سورۃ بقرہ کی تمام آیتیں نازل ہو چکیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ شراب کی سوداگری حرام قرار دی گئی ہے۔
 
Top