• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : آزاد شخص کو بیچنا کیسا گناہ ہے؟

حدیث نمبر : 2227
حدثني بشر بن مرحوم، حدثنا يحيى بن سليم، عن إسماعيل بن أمية، عن سعيد بن أبي سعيد، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏قال الله ثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة، رجل أعطى بي ثم غدر، ورجل باع حرا فأكل ثمنه، ورجل استأجر أجيرا فاستوفى منه، ولم يعط أجره ‏"‏‏
سے بشر بن مرحوم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سلیم نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن امیہ نے، ان سے سعید بن ابی سعید نے، او ران سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تین طرح کے لوگ ایسے ہوں گے جن کا قیامت کے دن میں مدعی بنوں گا، ایک وہ شخص جس نے میرے نام پر عہد کیا اور وہ توڑ دیا، وہ شخص جس نے کسی آزاد انسان کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی اور وہ شخص جس نے کوئی مزدور اجرت پر رکھا، اس سے پوری طرح کام لیا، لیکن اس کی مزدوری نہیں دی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : یہودیوں کو جلا وطن کرتے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انہیں اپنی زمین بیچ دینے کا حکم۔

اس سلسلے میں مقبری کی روایت ابوہریرہ سے ہے
تشریح : باب الجہاد میں یہ حدیث آرہی ہے جس میں مذکور ہے کہ آپ نے بنونضیر کے یہودیوں سے فرمایا تھا کہ میں تم کو ( تمہاری مسلسل غداریوں کی وجہ سے ) مدینہ سے جلاوطن کرنا چاہتا ہوں ۔ اور تم کو اختیار دیتا ہو ں کہ تم جائیداد بیچ سکتے ہو ۔ اپنی زمینیں بیچ کر یہاں سے نکلنے کے لیے تیار ہو جاؤ ۔ گویا حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے زمین کی بیع کو بھی عام اموال کی بیع کے مثل قرار دیا ہے ۔ یہاں بعض نسخوں میں یہ عبارت نہیں ہے ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : غلام کو غلام کے بدلے اورکسی جانور کو جانور کے بدلے ادھار بیچنا

واشترى ابن عمر راحلة بأربعة أبعرة مضمونة عليه، يوفيها صاحبها بالربذة‏.‏ وقال ابن عباس قد يكون البعير خيرا من البعيرين‏.‏ واشترى رافع بن خديج بعيرا ببعيرين فأعطاه أحدهما وقال آتيك بالآخر غدا رهوا، إن شاء الله‏.‏ وقال ابن المسيب لا ربا في الحيوان البعير بالبعيرين، والشاة بالشاتين إلى أجل‏.‏ وقال ابن سيرين لا بأس بعير ببعيرين نسيئة‏.‏
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک اونٹ چار اونٹوں کے بدلے میں خریدا تھا۔ جن کے متعلق یہ طے ہوا تھا کہ مقام ربذہ میں وہ انہیں اسے دے دیں گے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ کبھی ایک اونٹ، دو اونٹوں کے مقابلے میں بہتر ہوتا ہے۔ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے ایک اونٹ دو اونٹوں کے بدلے میں خریدا تھا۔ ایک تو اسے دے دیا تھا، اور دوسرے کے متعلق فرمایا تھا کہ وہ کل ان شاءاللہ کسی تاخیر کے بغیر تمہارے حوالے کر دوں گا۔ سعید بن مسیب نے کہا کہ جانوروں میں سود نہیں چلتا۔ ایک اونٹ دو اونٹوں کے بدلے، اور ایک بکری دو بکریوں کے بدلے ادھار بیچی جاسکتی ہے ابن سیرین نے کہا کہ ایک اونٹ دو اونٹوں کے بدلے ادھار بیچنے میں کوئی حرج نہیں۔

تشریح : ربذہ ایک مقام مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے۔ بیع کے وقت یہ شرط ہوئی کہ وہ اونٹنی بائع کے ذمہ اور اس کی حفاظت میں رہے گی۔ اور بائع ربذہ پہنچ کر اسے مشتری کے حوالے کردے گا۔ حضرت ابن عباس کے اثر کو امام شافعی نے وصل کیا ہے۔ طاؤس کے طریق سے یہ معلوم ہوا کہ جانور سے جانور کے بدلنے میں کمی اور بیشی اسی طرح ادھار بھی جائز ہے۔ اور یہ سود نہیں ہے گو ایک ہی جنس کا دونوں طرف ہو اور شافعیہ بلکہ جمہور علماءکا یہی قول ہے۔ لیکن امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے منع کیا ہے۔ ان کی دلیل سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جسے اصحاب سنن نے نکالا ہے اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اگر جنس مختلف ہو تو جائز ہے۔

حدیث نمبر : 2228
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن ثابت، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال كان في السبى صفية، فصارت إلى دحية الكلبي، ثم صارت إلى النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ثابت نے، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ قیدیوں میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ پہلے تو وہ دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو ملیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں۔

تشریح : اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا کہ جانور سے جانور کا تبادلہ درست ہے۔ اسی طرح غلام کا غلام سے، لونڈی کا لونڈی سے، کیوں کہ یہ سب حیوان ہی تو ہیں۔ اور ہر حیوان کا یہی حکم ہوگا۔ بعض نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اس حدیث میں کمی اور زیادتی کا ذکرنہیں ہے اور نہ ادھا رکا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہہ نے اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے جس کو امام مسلم نے نکالا۔ اس میں یہ ہے کہ آپ نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو سات لونڈیاں دے کر خریدا۔ ابن بطال نے کہا جب آپ نے دحیہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تو صفیہ رضی اللہ عنہا کے بدل میں اور کوئی لونڈی قیدیوں میں سے لے لے تو یہ بیع ہوئی لونڈی کی بعوض لونڈی کے ادھار اور اس کا یہی مطلب ہے۔ ( وحیدی )

حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ خلیفہ کلبی کے بیٹے ہیں۔ مرتبہ والے صحابی ہیں۔ غزوہ احد اور بعد کے جملہ غزوات میں شریک ہوئے۔ 6ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو قیصر شاہ روم کے دربار میں نامہ مبارک دے کر بھیجا تھا۔ قیصر نے مسلمان ہونا چاہا مگر اپنی عیسائی رعایا کے ڈر سے اسلام قبول نہیں کیا۔ یہ دحیہ رضی اللہ عنہ وہی صحابی ہیں کہ حضرت جبریل علیہ السلام اکثر ان کی شکل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لایا کرتے تھے۔ آخر میں حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ ملک شام میں چلے گئے اور عہد معاویہ تک وہیں رہے۔ بہت سے تابعین نے ان سے روایت کی ہے۔ حدیث صفیہ رضی اللہ عنہا میں ان ہی کا ذکر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : لونڈی غلام بیچنا

حدیث نمبر : 2229
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني ابن محيريز، أن أبا سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ أخبره أنه، بينما هو جالس عند النبي صلى الله عليه وسلم قال يا رسول الله إنا نصيب سبيا، فنحب الأثمان، فكيف ترى في العزل فقال ‏"‏أوإنكم تفعلون ذلك لا عليكم أن لا تفعلوا ذلكم، فإنها ليست نسمة كتب الله أن تخرج إلا هي خارجة‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہیر نے بیان کیا کہ مجھے ابن محیریز نے خبر دی او رانہیں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے خبر دی، کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔ ( ایک انصاری صحابی نے ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! لڑائی میں ہم لونڈیوں کے پاس جماع کے لیے جاتے ہیں۔ ہمارا ارادہ انہیں بیچنے کا بھی ہوتا ہے۔ تو آپ عزل کرلینے کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ اس پر آپ نے فرمایا، اچھا تم لوگ ایسا کرتے ہو؟ اگر تم ایسا نہ کرو پھر بھی کوئی حرج نہیں۔ اس لیے کہ جس روح کی بھی پیدائش اللہ تعالیٰ نے قسمت میں لکھ دی ہے وہ پیدا ہو کر ہی رہے گی۔

تشریح : عزل کہتے ہیں جماع کے دوران انزال کے قریب ذکر کو فرج سے باہر نکال لینا، تاکہ عورت کو حمل نہ رہ سکے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا ایک طرح سے اسے ناپسند فرمایا اور ارشاد ہوا کہ تمہارا یہ عمل باطل ہے۔ جو جان پیدا ہونے والی مقدر ہے وہ تو اس صورت میں بھی ضرور پیدا ہوکر رہے گی۔ اس حدیث سے لونڈی غلام کی بیع
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : مدبر کا بیچنا کیسا ہے؟

مدبر وہ غلام ہے جس کو مالک کہہ دے کہ تو میرے مرنے کے بعد آزاد ہے۔ شافعی اور اہل حدیث کے ہاں اس کی بیع جائز ہے۔ جیسا کہ حدیث ذیل میں ذکر ہے۔ ایک شخص مرگیا تھا۔ اس کی کچھ جائیداد نہ تھی۔ صرف یہی غلام مدبر تھا۔ اور وہ قرض دار تھا۔ آپ نے وہی مدبر غلام آٹھ سو درہم کو بیچ کر اس کا قرض ادا کر دیا۔ اکثر روایات میں یہی ہے کہ اس شخص کی زندگی ہی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا قرض ادا کرنے کے لیے ان کے اس مدبر غلام کو نیلام فرمایا تھا۔ اور ان کے قرض خواہوں کو فارغ کیا تھا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ قرض کا معاملہ کتنا خطرناک ہے کہ اس کے لیے مدبر کو نیلام کیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ وہ غلام مدبر اپنے مالک کے مرنے کے بعد آزاد ہو جاتا ہے۔

حدیث نمبر : 2230
حدثنا ابن نمير، حدثنا وكيع، حدثنا إسماعيل، عن سلمة بن كهيل، عن عطاء، عن جابر ـ رضى الله عنه ـ قال باع النبي صلى الله عليه وسلم المدبر‏.
ہم سے ابن نمیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن کہیل نے، ان سے عطاءنے او ران سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدبر غلام بیچا تھا۔

حدیث نمبر : 2231
حدثنا قتيبة، حدثنا سفيان، عن عمرو، سمع جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ يقول باعه رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، ان سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عمرو نے، انہو ںنے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو یہ کہتے سنا تھا کہ مدبر غلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیچا تھا۔ ( تفصیل پیچھے گزر چکی ہے )

حدیث نمبر : 2232-2233
حدثني زهير بن حرب، حدثنا يعقوب، حدثنا أبي، عن صالح، قال حدث ابن شهاب، أن عبيد الله، أخبره أن زيد بن خالد وأبا هريرة رضى الله عنهما أخبراه أنهما، سمعا رسول الله صلى الله عليه وسلم يسأل عن الأمة تزني ولم تحصن قال ‏"‏اجلدوها، ثم إن زنت فاجلدوها، ثم بيعوها بعد الثالثة أو الرابعة‏"‏‏.
مجھ سے زہیر بن حرب نے بیان کیا، انہو ںنے کہا کہ ہم سے یعقوب نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا، انہوںنے کہا کہ ہم سے صالح نے بیان کیا کہ ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عبید اللہ نے خبر دی، انہیں زید بن خالد اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ ان دونوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ سے غیر شادی شدہ باندی کے متعلق جو زنا کرلے سوال کیا گیا، آپ نے فرمایا کہ اسے کوڑے لگاؤ، پھر اگروہ زنا کرلے تو اسے کوڑے لگاؤ۔ اور پھر اسے بیچ دو۔ ( آخری جملہ آپ نے ) تیسری یا چوتھی مرتبہ کے بعد ( فرمایا تھا )۔

تشریح : اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے مشکل ہے۔ حافظ نے کہا ا س حدیث سے یہ نکلا کہ لونڈی جب زنا کرے تو ا س کو بیچ ڈالیں اور یہ عام ہے اس لونڈی کو بھی شامل ہے جو مدبرہ ہے۔ تو مدبرہ کی بیع کا جواز نکلا، عینی نے اس پر یہ اعتراض کیا کہ حدیث میں جواز بیع مکرر سہ کرر زنا کرانے پر موقوف رکھا گیا ہے اور ان لوگوں کے نزدیک تو مدبرہ کی بیع ہر حال میں درست ہے خواہ وہ زنا کرائے یا نہ کرائے، تو اس سے استدلال صحیح نہیں ہوسکتا۔ میں کہتا ہوں کہ عینی کا اعتراض فاسد ہے۔ اس لیے کہ مدبرہ لونڈی اگر مکرر سہ کرر زنا کرائے تو اس کے بیچنے کا جواز اس حدیث سے نکلا اور جو لوگ مدبر کی بیع کو جائز نہیں سمجھتے وہ زنا کرنے کی صورت میں بھی اس کے جواز کے قائل نہیں ہیں۔ پس یہ حدیث ان کے قول کے خلاف ہوئی اور موافق ہوئی ان کے جو مدبر کی بیع کے جواز کے قائل ہیں۔ اور گو بیع کا حکم اس حدیث میں زنا کے مکرر سہ کرر ہونے پر دیا گیا ہے، مگر قرینہ دلالت کرتا ہے کہ بیع اس پر موقوف نہیں ہے۔ اس لیے کہ جو لونڈی مطلق زنا نہ کرائے یا ایک ہی بار کرائے اس کا بھی بیچنا درست ہے۔ اب عینی کا یہ کہنا کہ یہ دلالت بعبارۃ النص ہے یا اشارۃ النص یا دلالۃ النص ؟ اس کے جواب میں یہ کہیں گے کہ یہ دلالۃ النص ہے کیوں کہ حدیث میں مطلق لونڈی کا ذکر ہے اور وہ مدبرہ کو شامل ہے۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 2234
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، قال أخبرني الليث، عن سعيد، عن أبيه، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏إذا زنت أمة أحدكم، فتبين زناها فليجلدها الحد، ولا يثرب عليها، ثم إن زنت فليجلدها الحد ولا يثرب، ثم إن زنت الثالثة فتبين زناها فليبعها ولو بحبل من شعر‏"‏‏. ‏
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کا، کہا کہ مجھے لیث نے خبر دی، انہیں سعید نے، انہیں ان کے والد نے، او ران سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے خود سنا ہے کہ جب کوئی باندی زنا کرائے اور وہ ثابت ہوجائے تو اس پر حد زنا جاری کی جائے، البتہ اسے لعنت ملامت نہ کی جائے۔ پھر اگر وہ زنا کرائے تو اس پر اس مرتبہ بھی حد جاری کی جائے، لیکن کسی قسم کی لعنت ملامت نہ کی جائے۔ تیسری مرتبہ بھی اگر زنا کرے او رزنا ثابت ہ وجائے تو اسے بیچ ڈالے خواہ بال کی ایک رسی کے بدلے ہی کیو ں نہ ہو۔

اس لیے کہ ایسی فاحشہ عورت ایک مسلمان کے گھر میں نہیں رہ سکتی۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا الخبیثات للخبیثین و الخبیثون للخبیثات ( النور : 26 ) یعنی خبیث زانی عورتیں بدکار زانی مردوں کے لیے اور خبیث زانی مرد خبیث زانی عورتوں کے لیے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : اگر لونڈی خریدے تو استبراء رحم سے پہلے اس کو سفر میں لے جا سکتا ہے یا نہیں؟

استبراء کہتے ہیں لونڈی کا رحم پاک کرنے کو، یعنی کوئی نئی لونڈی خریدے، تو جب تک حیض نہ آئے اس سے صحبت نہ کرے۔ اور سفر میں لے جانے کا ذکر اس لیے آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کو جوشروع میں بہ حیثیت لونڈی کے آئی تھیں، سفر میں اپنے ساتھ رکھا۔
آگے روایت میں سد الروحاءکا ذکر آیا ہے جو مدینہ کے قریب ایک مقام تھا۔ حیس کا ذکر آیاہے، جو ولیمہ میں تیار کیا گیا تھا۔ یہ گھی، کھجور، اور پنیر سے ملا کر بنایا جاتا ہے۔ باب کے آخر میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورۃ مومنون کی ایک آیت کا حصہ نقل کیا اور اس کے اطلاق سے یہ نکالا کہ بیویوں اور لونڈیوں سے مطلقاً حظ نفس درست ہے۔ صرف جماع استبراءسے پہلے ایک حدیث کی رو سے منع ہوا تو دوسرے عیش بدستور درست رہیں گے۔

ولم ير الحسن بأسا أن يقبلها أو يباشرها‏.‏ وقال ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ إذا وهبت الوليدة التي توطأ أو بيعت أو عتقت فليستبرأ رحمها بحيضة، ولا تستبرأ العذراء‏.‏ وقال عطاء لا بأس أن يصيب من جاريته الحامل ما دون الفرج‏.‏ وقال الله تعالى ‏{‏إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم‏}‏‏.‏
اور امام حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ ایسی باندی کا ( اس کا مالک ) بوسہ لے لے یا اپنے جسم سے لگائے، اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب ایسی باندی جس سے وطی کی جاچکی ہے، ہبہ کی جائے یا بیچی جائے یا آزاد کی جائے تو ایک حیض تک اس کا استبراءرحم کرنا چاہئے۔ اور کنواری کے لیے استبراءرحم کی ضرورت نہیں ہے۔ عطاءنے کہا کہ اپنی حاملہ باندی سے شرمگاہ کے سوا باقی جسم سے فائدہ حاصل کیا جاسکتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ مومنون میں فرمایا ” مگر اپنی بیویوں سے یا باندیوں سے۔ “

حدیث نمبر : 2235
حدثنا عبد الغفار بن داود، حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن، عن عمرو بن أبي عمرو، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ قال قدم النبي صلى الله عليه وسلم خيبر، فلما فتح الله عليه الحصن ذكر له جمال صفية بنت حيى بن أخطب، وقد قتل زوجها، وكانت عروسا، فاصطفاها رسول الله صلى الله عليه وسلم لنفسه فخرج بها، حتى بلغنا سد الروحاء حلت، فبنى بها، ثم صنع حيسا في نطع صغير، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏آذن من حولك‏"‏‏. ‏ فكانت تلك وليمة رسول الله صلى الله عليه وسلم على صفية، ثم خرجنا إلى المدينة، قال فرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يحوي لها وراءه بعباءة، ثم يجلس عند بعيره فيضع ركبته، فتضع صفية رجلها على ركبته، حتى تركب‏.‏
ہم سے عبدالغفار بن داؤد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یعقوب بن عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے عمرو بن ابی عمرو نے او ران سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیبر تشریف لائے اور اللہ تعالیٰ نے قلعہ فتح کرا دیا تو آپ کے سامنے صفیہ بنت حیی بن اخطب رضی اللہ عنہا کے حسن کی تعریف کی گئی۔ ان کا شوہر قتل ہو گیا تھا۔ وہ خود ابھی دلہن تھیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے لیے پسند کرلیا۔ پھر روانگی ہوئی۔ جب آپ سد الروحاءپہنچے تو پڑاؤ ہوا۔ اور آپ نے وہیں ان کے ساتھ خلوت کی۔ پھر ایک چھوٹے دستر خوان پر حیس تیار کرکے رکھوایا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ اپنے قریب کے لوگوں کو ولیمہ کی خبرکر دو۔ صفیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کا یہی ولیمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ پھر جب ہم مدینہ کی طرف چلے تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباءسے صفیہ رضی اللہ عنہا کے لیے پردہ کرایا۔ اور اپنے اونٹ کو پاس بٹھا کر اپنا ٹخنہ بچھا دیا۔ صفیہ رضی اللہ عنہا اپنا پاؤں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹخنے پر رکھ کر سوار ہو گئیں۔

تشریح : حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا حیی بن اخطب کی بیٹی ہیں۔ یہ کنانہ رئیس خیبر کی بیوی تھیں اور یہ کنانہ وہی یہودی ہے جس نے بہت سے خزانے زیر زمین دفن کر رکھے تھے۔ اور فتح خیبر کے موقعہ پر ان سب کو پوشیدہ رکھنا چاہا تھا۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی الٰہی سے اطلاع مل گئی۔ اور کنانہ کو خود اسی کے قوم کے اصرار پر قتل کر دیا گیا۔ کیوں کہ اکثر غربائے یہود اس سرمایہ دار کی حرکتوں سے نالاں تھے۔ اور آج بمشکل ان کو یہ مو قع ملا تھا۔ صفیہ رضی اللہ عنہا نے پہلے ایک خواب دیکھا تھا کہ چاند میری گود میں ہے۔ جب انہوں نے یہ خواب اپنے شوہر کنانہ سے بیان کیا تو اس کی تعبیر کنانہ نے یہ سمجھ کر یہ نبی موعود علیہ السلام کی بیوی بنے گی ان کے منہ پر ایک زور کا طمانچہ مارا تھا۔ خیبر فتح ہوا تو یہ بھی قیدیوں میں تھی اور حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبی کے حصہ غنیمت میں لگا دی گئی تھی۔

بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی شرافت نسبی معلوم ہوئی کہ یہ حضرت ہارون علیہ السلام کے خاندان سے ہیں تو آپ نے حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو ان کے عوض سات غلام دے کر ان سے واپس لے کر آزاد فرما دیا۔ اور خود انہوں نے اپنے پرانے خواب کی بناءپر آپ سے شرف زوجیت کا سوال کیا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حرم محترم میں ان کو داخل فرما لیا۔ اور ان کا مہر ان کی آزادی کوقرار دے دیا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بہت ہی وفادار اور علم دوست ثابت ہوئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی شرافت کے پیش نظر ان کو عزت خاص عطا فرمائی۔ اس سفر ہی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عباءمبارک سے ان کا پردہ کرایا اور اپنے اونٹ کے پاس بیٹھ کر اپنا ٹخنہ بچھا دیا۔ جس پر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے اپنا پاؤں رکھا اور اونٹ پر سوار ہو گئیں۔ 50ھ میں انہوں نے وفات پائی اور جنت البقیع میں سپرد خاک کی گئیں۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے بہت سے مسائل کا استخراج فرماتے ہوئے کئی جگہ اسے مختصر اور مطول نقل فرمایا ہے۔ یہاں آپ کے پیش نظر وہ جملہ مسائل ہیں جن کا ذکر آپ نے ترجمۃ الباب میں فرمایا ہے اور وہ سب اس حدیث سے بخوبی ثابت ہوتے ہیں کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا لونڈی کی حیثیت میں آئی تھیں۔ آپ نے ان کو آزاد فرمایا اور سفر میں اپنے ہمراہ رکھا۔ اسی سے باب کا مقصد ثابت ہوا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : مردار اور بتوں کا بیچنا

حرمت مراد ہے یعنی مردار اور بتوں کی تجارت حرام ہے۔

حدیث نمبر : 2236
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن يزيد بن أبي حبيب، عن عطاء بن أبي رباح، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول عام الفتح، وهو بمكة ‏"‏إن الله ورسوله حرم بيع الخمر والميتة والخنزير والأصنام‏"‏‏. ‏ فقيل يا رسول الله، أرأيت شحوم الميتة فإنها يطلى بها السفن، ويدهن بها الجلود، ويستصبح بها الناس‏.‏ فقال ‏"‏لا، هو حرام‏"‏‏. ‏ ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك ‏"‏قاتل الله اليهود، إن الله لما حرم شحومها جملوه ثم باعوه فأكلوا ثمنه‏"‏‏. ‏قال أبو عاصم: حدثنا عبد الحميد: حدثنا يزيد: كتب إلي عطاء: سمعت جابرا رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم.
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، انہو ں نے کہا کہ ہم سے یزید بن ابی حبیب نے بیان کیا، ان سے عطاءبن ابی رباح نے بیان کیا، اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فتح مکہ کے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آپ کا قیام ابھی مکہ ہی میں تھا کہ اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، سور اور بتوں کا بیچنا حرام قرار دے دیا ہے۔ اس پر پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ ! مردار کی چربی کے متعلق کیا حکم ہے؟ اسے ہم کشتیوں پر ملتے ہیں۔ کھالوں پر اس سے تیل کا کام لیتے ہیں اور لوگ اس سے اپنے چراغ بھی جلاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں وہ حرام ہے۔ اسی موقع پر آپ نے فرمایا کہ اللہ یہودیوں کو برباد کرے اللہ تعالیٰ نے جب چربی ان پر حرام کی تو ان لوگوں نے پگھلا کر اسے بیچا اور اس کی قیمت کھائی۔ ابوعاصم نے کہا کہ ہم سے عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے یزید نے بیان کیا، انہیں عطاءنے لکھا کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہو ںنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔

تشریح : مکہ8ھ میں فتح ہوا ہے۔ مردار کی چربی، اکثر علماءنے اس کے متعلق یہ بتلایا ہے کہ اس کی بیچنا حرام ہے اور اس سے نفع اٹھانا درست ہے۔ مثلاً کشتیوں پر لگانا اور چراغ جلانا۔ بعض نے کہا کوئی نفع اٹھانا جائز نہیں سوا اس کے جس کی صراحت حدیث میں آگئی ہے۔ یعنی چمڑا جب اس کی دباغت کر لی جائے، اگر کوئی پاک چیز ناپاک ہو جائے جیسے لکڑی یا کپڑا تو اس کی بیع جمہور علماءکے نزدیک جائز ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی مرحوم فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ان اللہ و رسولہ حرم بیع الخمر و المیتۃ و الخنزیر و الاصنام یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب، مردار، سور اور بتوں کی تجارت کو حرام قرار دیا ہے اور نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان اللہ اذا حرم شیئا حرم ثمنہ بے شک خداوند تعالیٰ نے جس چیز کو حرام قرار دے دیا تو اس کی قیمت کو بھی حرام کیا ہے، یعنی جب ایک چیز سے نفع اٹھانے کا طریق مقرر ہے مثلاً شراب پینے کے لیے ہے۔ اور بت صرف پرستش کے لیے۔ پس اللہ نے ان کو حرام کر دیا۔ اس لیے اس کی حکمت کا تقاضا ہوا کہ ان کی بیع بھی حرام کی جائے۔ اور نیز آپ نے فرمایا مہر البغی خبیث یعنی زانیہ کی اجرت خبیث ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کاہن کو اجرت دینے سے منع فرمایا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مغنیہ کے کسب سے نہی فرمائی ہے۔

میں کہتا ہوں کہ جس مال کے حاصل کرنے میں گناہ کی آمیزش ہوتی ہے، اس مال سے نفع حاصل کرنا بدو وجہ حرام ہے ایک تو یہ کہ اس مال کے حرام کرنے اور اس سے انتفاع نہ حاصل کرنے میں معصیت سے باز رکھنا ہے اور اس قسم کے معاملہ کے دستور جاری کرنے میں فساد کا جاری کرنا اور لوگوں کو اس گناہ پر آمادہ کرنا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی دانست میں اور ان کی سمجھ میں ثمن مبیع سے حیلہ پیدا ہوتا ہے اور اس عمل کی خباثت ان کے علوم میں اس ثمن اور اس اجرت کے اندر سرایت کر جاتی ہے اور لوگو ںکے نفوس میں بھی اس کا اثر ہوتاہے۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کے باب میں اس کے نچوڑنے والے اور نچڑوانے والے اور پینے والے اور لے جانے والے اور جس کے پاس لے جارہا ہے ان سب پر لعنت فرمائی کیوں کہ معصیت کی اعانت اور اس کا پھیلانا اور لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرنا بھی معصیت اور زمین میں فساد برپا کرنا ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ جو اس حدیث کے راوی ہیں، ان کی کنیت ابوعبداللہ ہے، انصار میں سے ہیں۔ قبیلہ سلم کے رہنے والے ہیں۔ ان کاشمار ان مشہور صحابہ میں ہوتا ہے جنہو ںنے حدیث کی روایت کثرت سے کی ہے۔ بدر اور جملہ غزوات میں جن کی تعداد اٹھارہ ہے۔ یہ شریک ہوئے۔ شام اور مصر میں تبلیغی و تعلیمی سفر کئے۔ آخر عمر میں بینائی جاتی رہی تھی۔ ان سے جماعت کثیرہ نے احادیث کو نقل کیا ہے۔ 94سال کی عمر میں 74ھ میں مدینۃ المنورہ میں وفات پائی۔ جب کہ عبدالملک بن مروان کی حکومت کا زمانہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سب سے آخر میں وفات پانے والے یہی بزرگ ہیں۔ رضی اللہ عنہ و ارضاہ۔ آمین
ماہ رمضان المبارک 8ھ مطابق 630ءمیں مکہ شریف فتح ہوا۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے۔ اس طرح کتب مقدسہ کی وہ پیش گوئی پوری ہوئی جس کا ترجمہ یہ ہے :
”خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے طلوع ہوا اور فاران کے پہاڑ سے ان پر چمکا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا۔ اور اس کے دائیں ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ان کے لیے تھی۔ وہ قوم کے ساتھ کمال اخلاص سے محبت رکھتا ہے۔ اس کے سارے مقدس تیرے ہاتھ میں ہیں اور وے تیرے قدموں کے نزدیک ہیں اور تیری تعلیم کو مانیں گے۔ “ ( تورات استثناء2 تا 33/4 )
اس تاریخی عظیم فتح کے موقعہ پر آپ نے ایک خطاب عام فرمایا۔ جس میں شراب، مردار، سور اور بتوں کی تجارت کے متعلق بھی یہ احکامات صادر فرمائے جو یہاں بیان ہوئے ہیں۔
( نوٹ ) تورات مطبوعہ کلکتہ 1842 سامنے رکھی ہوئی ہے اسی سے یہ پیش گوئی نقل کر رہا ہوں ( راز )
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : کتے کی قیمت کے بارے میں

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور علماءکا یہ قول ہے کہ مطلقاً کسی کتے کی بیع جائز نہیں، سکھایا ہوا ہو یا بن سکھایا ہوا۔ اور اگر کوئی اس کو مار ڈالے تو اس پر ضمان لازم نہیں آتا۔ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ضمان لازم ہوگا۔ اور حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک شکاری اور فائدہ مند کتے کی بیع درست ہے۔

حدیث نمبر : 2237
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن أبي بكر بن عبد الرحمن، عن أبي مسعود الأنصاري ـ رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن ثمن الكلب ومهر البغي وحلوان الكاهن‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں ابی بکر بن عبدالرحمن نے او رانہیں ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، زانیہ کی اجرت او رکاہن کی اجرت سے منع فرمایا تھا۔

عرب میں کاہن لوگ بہت تھے جو آئندہ کی باتیں لوگوں کو بتلایا کرتے تھے۔ آج کل بھی ایسے دعویدار بہت ہیں۔ ان کو اجرت دینا یا شیرینی پیش کرنا قطعاً جائز نہیں ہے نہ ان کا پیسہ کھانا جائز ہے۔

حدیث نمبر : 2238
حدثنا حجاج بن منهال، حدثنا شعبة، قال أخبرني عون بن أبي جحيفة، قال رأيت أبي اشترى حجاما، فسألته عن ذلك،‏.‏ قال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن ثمن الدم، وثمن الكلب، وكسب الأمة، ولعن الواشمة والمستوشمة، وآكل الربا، وموكله، ولعن المصور‏.
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عون بن ابی حجیفہ نے خبر دی، کہا کہ میں نے اپنے والد کو دیکھا کہ ایک پچھنا لگانے والے ( غلام ) کو خرید رہے ہیں۔ اس پر میں نے اس کے متعلق ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خون کی قیمت، کتے کی قیمت، باندی کی ( ناجائز ) کمائی سے منع فرمایا تھا۔ اور گودنے والیوں اور گدوانے والیوں، سود لینے والوں اور دینے والوں پر لعنت کی تھی اور تصویر بنانے والے پر بھی لعنت کی تھی۔

تشریح : خون کی قیمت سے پچھنا لگانے والے کی اجرت مراد ہے۔ اس حدیث سے عدم جواز ظاہر ہوا مگر دوسری حدیث جو مذکور ہوئی اس سے یہ حدیث منسوخ ہو چکی ہے۔ اس حدیث میں صاف مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود پچھنا لگوایا اور اس پچھنا لگانے والے کو اجرت ادا فرمائی۔ جس سے جواز ثابت ہوا۔ کتے کی قیمت کے متعلق ابوداؤد میں مرفوعاً موجود ہے کہ جو کوئی تم سے کتے کی قیمت طلب کرے اس کے ہاتھ میں مٹی ڈال دو، مگر نسائی میں جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ نے شکاری کتے کو مستثنیٰ فرمایا کہ اس کی خرید و فروخت جائز ہے۔ زانیہ کی اجرت جو وہ زنا کرانے پر حاصل کرتی ہے، اس کا کھانا بھی ایک مسلمان کے لیے قطعاً حرام ہے، مجازاً یہاں اس اجرت کو لفظ مہر سے تعبیر کیا گیا۔ کاہن سے مراد فال کھولنے والے، ہاتھ دیکھنے والے، غیب کی خبریں بتلانے والے اور اس قسم کے سب وہ لوگ شامل ہیں جو ایسے پاکھنڈوں سے پیسہ حاصل کرتے ہیں۔ وہو حرام بالاجماع لما فیہ من اخذ العوض علی امر باطل یہ جھوٹ پر اجرت لینا ہے جو بالاجماع حرام ہے گودنے والیاں اور گدوانے والیاں جو انسانی جسم پر سوئی سے گود کر اس میں رنگ بھر دیتی ہیں یہ پیشہ بھی حرام اور اس کی آمدنی بھی حرام ہے۔ ا س لیے کہ کسی مسلمان مرد، عورت کو زیبا نہیں کہ وہ اس کا مرتکب ہو۔ سود لینے والوں پر، اسی طرح سود دینے والوں پر، ہر دو پرلعنت کی گئی ہے بلکہ گواہ اور کاتب اور ضامن تک پر لعنت وارد ہوئی ہے کہ سود کا دھندا اتنا ہی برا ہے۔ تصویر بنانے والوں سے جانداروں کی تصویر بنانے والے لوگ مراد ہیں۔ ان سب پر لعنت کی گئی اور ان کا پیشہ ناجائز قرار دیا گیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب السلم

صحیح بخاری -> کتاب السلم

(کتاب بیع سلم کے بیان میں)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بیع سلم اس کو کہتے ہیں کہ ایک شخص دوسرے شخص کو نقد روپیہ دے اور کہے کہ اتنی مدت کے بعد مجھ کو تم ان روپوں کے بدل میں اتنا غلہ یا چاول فلاں قسم والے دینا۔ یہ بالاجماع مشروع ہے۔ عام بول چال میں اسے بدھنی کہتے ہیں۔ جو روپیہ دے اس کو رب السلم اور جس کو دے اسے مسلم الیہ اور جو مال دینا ٹھہرائے اسے مسلم فیہ کہتے ہیں۔ بیع سلم پر لفظ سلف کا بھی اطلاق ہوا ہے۔ بعض لوگوں نے کہا کہ لفظ سلف اہل عراق کی لغت ہے اور لفظ سلم اہل حجاز کی لغت ہے ایسی بیع کو عام محاوروں میں لفظ بدھنی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

باب : ماپ مقرر کرکے سلم کرنا

حدیث نمبر : 2239
حدثنا عمرو بن زرارة، أخبرنا إسماعيل ابن علية، أخبرنا ابن أبي نجيح، عن عبد الله بن كثير، عن أبي المنهال، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة، والناس يسلفون في الثمر العام والعامين ـ أو قال عامين أو ثلاثة‏.‏ شك إسماعيل ـ فقال ‏"‏من سلف في تمر فليسلف في كيل معلوم، ووزن معلوم‏"‏‏.
ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو اسماعیل بن علیہ نے خبر دی، انہیں ابن ابی نجیح نے خبردی، انہیں عبداللہ بن کثیر نے، انہیں ابومنہال نے او ران سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ( مدینہ کے ) لوگ پھلوں میں ایک سال یا دو سال کے لیے بیع سلم کرتے تھے۔ یا انہو ںنے یہ کہا کہ دو سال اور تین سال ( کے لیے کرتے تھے ) شک اسماعیل کو ہوا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص بھی کھجور میں بیع سلم کرے، اسے مقررہ پیمانے یا مقررہ وزن کے ساتھ کرنی چاہئیے۔

حدثنا محمد، أخبرنا إسماعيل، عن ابن أبي نجيح، بهذا ‏"‏في كيل معلوم ووزن معلوم‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو اسماعیل نے خبر دی، ان سے ابن ابی نجیح نے بیان کیا کہ بیع سلم مقررہ پیمانے اور مقررہ وزن میں ہونی چاہئیے۔

تشریح : جو چیزیں ماپ تول کر بیچی جاتی ہیں ان میں ماپ تول ٹھہرا کر سلم کرنا چاہئے۔ اگر ماپ تول مقرر نہ کئے جائیں تو یہ بیع سلم جائز نہ ہوگی الغرض اس بیع کے لیے ضروری ہے کہ وزن مقرر ہو اور مدت مقرر ہو ورنہ بہت سے مفاسد کا خطرہ ہے۔ اسی لیے حدیث ہذا میں اس کے لیے یہ تاکید کی گئی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب السلم
باب : بیع سلم مقررہ وزن کے ساتھ جائز ہے

حدیث نمبر : 2240
حدثنا صدقة، أخبرنا ابن عيينة، أخبرنا ابن أبي نجيح، عن عبد الله بن كثير، عن أبي المنهال، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة، وهم يسلفون بالتمر السنتين والثلاث، فقال ‏"‏من أسلف في شىء ففي كيل معلوم ووزن معلوم، إلى أجل معلوم‏"‏‏.
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، انہیں سفیان بن عیینہ نے خبر دی، انہیں ابن ابی نجیح نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن کثیر نے، انہیں ابومنہال نے او ران سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو لوگ کھجور میں دو اور تین سال تک کے لیے بیع سلم کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی کہ جسے کسی چیز کی بیع سلم کرنی ہے، اسے مقررہ وزن اور مقررہ مدت کے لیے ٹھہرا کر کرے۔

مثلاً سو روپے کا اتنے وزن کا غلہ آج سے پورے تین ماہ بعد تم سے وصول کروں گا۔ یہ طے کرکے خریدار نے سو روپیہ اسی وقت ادا کردیا۔ یہ بیع سلم ہے، جو جائز ہے۔ اب مدت پوری ہونے پر وزن مقررہ کا غلہ اسے خریدار کو ادا کرنا ہوگا۔

حدثنا علي، حدثنا سفيان، قال حدثني ابن أبي نجيح، وقال، ‏"‏فليسلف في كيل معلوم إلى أجل معلوم‏"‏‏.‏
ہم سے علی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابن ابی نجیح نے بیان کیا۔ ( اس روایت میں ہے کہ ) آپ نے فرمایا بیع سلف مقررہ وزن میں مقررہ مدت تک کے لی کرنا چاہئے۔

حدیث نمبر : 2241
حدثنا قتيبة، حدثنا سفيان، عن ابن أبي نجيح، عن عبد الله بن كثير، عن أبي المنهال، قال سمعت ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ يقول قدم النبي صلى الله عليه وسلم وقال ‏"‏في كيل معلوم ووزن معلوم إلى أجل معلوم‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، ان سے سفیان نے بیان کیا، ان سے لابن ابی نجیح نے، ان سے عبداللہ بن کثیر نے، اور ان سے ابومنہال نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( مدینہ ) تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مقررہ وزن اور مقررہ مدت تک کے لیے ( بیع سلم ) ہونی چاہئے۔

کیل اور وزن سے ماپ اور تول مراد ہیں۔ اس میں جس چیز سے وزن کرنا ہے کلو یا قدیم سیر من۔ یہ بھی جملہ باتیں طے ہونی ضروری ہیں۔

حدیث نمبر : 2242-43
حدثنا أبو الوليد، حدثنا شعبة، عن ابن أبي المجالد،‏.‏ وحدثنا يحيى، حدثنا وكيع، عن شعبة، عن محمد بن أبي المجالد، حدثنا حفص بن عمر، حدثنا شعبة، قال أخبرني محمد،، أو عبد الله بن أبي المجالد قال اختلف عبد الله بن شداد بن الهاد وأبو بردة في السلف، فبعثوني إلى ابن أبي أوفى ـ رضى الله عنه ـ فسألته فقال إنا كنا نسلف على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر، في الحنطة، والشعير والزبيب، والتمر‏. وسألت ابن أبزى، فقال مثل ذلك.
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابن ابی مجالد نے ( تیسری سند ) اور ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے وکیع نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے محمد بن ابی مجالد نے۔ ( دوسری سند ) ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے محمد اور عبداللہ بن ابی مجالد نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ عبداللہ بن شداد بن الہاد اور ابوبردہ میں بیع سلم کے متعلق باہم اختلاف ہوا۔ تو ان حضرات نے مجھے ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کے خدمت میں بھیجا۔ چنانچہ میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے زمانوں میں گیہوں، جو، منقی اور کھجور کی بیع سلمکرتے تھے۔ پھر میں نے ابن ابزیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوںنے بھی یہی جواب دیا۔

تشریح : حافظ فرماتے ہیں : اجمعوا علی انہ ان کان فی السلم ما یکال او یوزن فلا بد فیہ من ذکر الکیل المعلوم و الوزن المعلوم فان کان فیما لا یکال و لا یوزن فلا بد فیہ من عدد معلوم یعنی اس امر پر اجماع ہے کہ بیع سلم میں جو چیزیں ماپ یا وزن کے قابل ہیں ان کا وزن مقرر ہونا ضروری ہے اور جو چیزیں محض عدد سے تعلق رکھتی ہیں ان کی تعداد کا مقرر ہونا ضروری ہے۔ حدیث مذکورہ سے معلوم ہوا کہ مدینہ میں اس قسم کے لین دین کا عام رواج تھا۔ فی الحقیقت کاشتکاروں اور صناعوں کو پیشگی سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے جو اگر نہ ہو تو وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔

سند میں حضرت وکیع بن جراح کا نام آیا۔ اور ان سے بہت سی احادیث مروی ہیں۔ کوفہ کے باشندے ہیں۔ بقول بعض ان کی اصل نیشاپور کے قریہ سے ہے۔ انہوں نے ہشام بن عروہ اور اوزاعی اور ثوری وغیرہ اساتذہ حدیث سے حدیث کی سماعت کی ہے۔ ان کے تلامذہ میں اکابر حضرات مثلاً عبداللہ بن مبارک، امام احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین اور علی بن مدینی بھی نظر آتے یں۔ بغداد میں رونق افروز ہو کر درس حدیث کا حلقہ قائم فرمایا۔ فن حدیث میں ان کا قول قابل اعتماد تسلیم کیا گیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ صحابی ہیں۔ حدیبہ اور خیبر میں اور اس کے بعد تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ اور ہمیشہ مدینہ میں قیام فرمایا۔ یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا حادثہ سامنے آگیا۔ اس کے بعد آپ کوفہ تشریف لے گئے۔ 87ھ میں کوفہ میں ہی انتقال فرمایا۔ کوفہ میں انتقال کرنے والے یہ سب سے آخری صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ان سے امام شعبی وغیرہ نے روایت کیا ہے۔
امام شعبی عامر بن شرحبیل کوفی مشہور ذی علم اکابر میں سے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں پیدا ہوئے۔ بہت سے صحابہ سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے پانچ سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا۔ حفظ حدیث کا یہ ملکہ خداداد تھا کہ کبھی کوئی حرف کاغذ پر نوٹ نہیں فرمایا۔ جو بھی حدیث سنی اس کو اپنے حافظہ میں محفوظ کر لیا۔ امام زہری کہا کرتے تھے کہ دور حاضر ہ میں حقیقی علماءتو چار ہی دیکھے گئے ہیں۔ یعنی ابن مسیب مدینہ میں، شعبی کوفہ میں، حسن بصرہ میں اور محکول شام میں۔ بعمر82 سال104ھ میں انتقال فرمایا۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ آمین
 
Top